حسان خان
لائبریرین
آئے ہیں دربارِ قربانی میں سقراط و مسیح
ہاں بٹھا دو تخت کے نزدیک پائینِ حسین
میرِ بزمِ آب و گل ہیں عاشقانِ بوتراب
خسروانِ علم و دانش ہیں مجانینِ حسین
اکبر و عون و محمد، قاسم و عباس و حر
اللہ اللہ آب و تابِ عقدِ پروینِ حسین
بحر کا ہر قطرہ وقفِ ظنِّ میزانِ فرات
دہر کا ہر ذرہ زیرِ دامِ تخمینِ حسین
پھوٹ نکلا موت کے گرداب سے آبِ حیات
بن گئی بے رونقی دارائے تزئینِ حسین
پیکرِ اقدس پہ تلواروں نے جب ڈالے شگاف
مسکرائی سوچ کر کچھ فکرِ حق بینِ حسین
آبِ خنجر سے اگر تبلیغ کی بجھتی نہ پیاس
آبِ کوثر سے کبھی ہوتی نہ تسکینِ حسین
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا ثبوتِ دلبری
جوش سا کافر منش ہے پیروئے دینِ حسین
(جوش ملیح آبادی)