آباد نگر کا اجڑا شاعر - اسلم کولسری

آرزوئے دوام کرتا ہوں
زندگی وقف عام کرتا ہوں

آپ سے ا ختلاف ہے، لیکن
آپ کا احترا م کرتا ہوں

مجھ کو تقریب سے تعلق کیا
میں فقط اہتمام کرتا ہوں

درس و تدریس ،عشق، مزدوری
جو بھی مل جائے کام کرتا ہوں

جستجو ہی مرا اثاثہ ہے
جا ۔ اسے تیرے نام کرتا ہوں

ہاں مگر، برگ زرد کی صورت
صبح کو میں بھی شام کرتا ہوں

وقت گزرے پہ آئے ہو اسلم
خیر کچھ انتظام کرتا ہوں
 
بھیگے شعر اگلتے ، جیون بیت گیا
ٹھنڈی آگ میں جلتے، جیون بیت گیا

یوں تو چار قدم پر میری منزل تھی
لیکن چلتے چلتے جیون بیت گیا

ایک انوکھا سپنا دیکھا نیند اڑی
آنکھیں ملتے ملتے جیون بیت گیا

شام ڈھلے اس کو ندی ا پر آنا تھا
سورج ڈھلتے ڈھلتے جیون بیت گیا

آ خر کس بہروپ کو اپنا روپ کہوں
اسلم روپ بدلتے ، جیون بیت گیا
 
زلزلے کا خوف طاری ہے درو دیوار پر
جبکہ میں بیٹھا ہوا ہوں کانپتے مینار پر

ہاں اسی رستے میں شہر نگار آرزو
آپ چلتے جائیے میرے لہو کی دھار پر

پھر اڑا لائی ہوا، مجھ کو جلانے کے لیئے
زرد پتے ،چند سوکھی ٹہنیاں، دو چار پر

طائر تخیل کا سارا بدن آزاد ہے
صرف اک پتھر پڑا ہے شیشہ منقار پر

وقت کا دریا تو ان آنکھوں سے ٹکراتا رہا
اپنے حصے میں نہ آیا لمحہ -------دیدار پر

سارا پانی چھاگلوں سے آبلوں میں آگیا
چلچلاتی دھوپ کے جلتے ہوئے اصرار پر

میری کٹیا کا چراغ اسلم آخر بجھ گیا
اس کے ہاں روشن ہوئے جب قمقمے اشجار پر
 
Top