رضوان
محفلین
سونار بنگلہ
1967ع میں ہمیں کار اور ،،فیری،، سے مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ چھ سات سو میل کے سفر میں کوئی فرلانگ ایسا نہ تھا جس میں اوسطاُ پانچ چھ آدمی سڑک پر پیدل چلتے نظر نہ آئے ہوں۔ اوسطاُ بیس میں سے صرف ایک کے پیر میں چپل ہوں گے۔ نہ ہمیں کسی کے پورے تن پر کپڑا نظر آیا، سوائے میت کے! راستے میں تین جنازے ایسے دیکھے جن کے کفن کی چادر دومختلف رنگ کی لنگیاں جوڑ کر بنائی گئی تھی۔ ایک ضعیف شخص ایک جنازے پر پھٹی چھتری لگائے چل رہا تھا۔ یہ مرنے والے جوان کا باپ تھا۔ اس کی سفید داڑھی اور آنکھوں سے بارش کے ریلے بہہ رہے تھے۔ ہم باریسال سے گزر رہے تھے۔ بلا کی اُمس تھی۔ پیاس سے برا حال۔ پانی یا لیمنیڈ پینے کا سوال ہی نہ تھا، اس لیے کہ ان دنوں ہر جگہ ہیضہ پھیلا ہوا تھا۔ سڑکوں پر جنازے ہی جنازے نظر آرہے تھے۔ ایک بے تکلف دوست نے ٹپ دیا تھا کہ راستے میں خودکشی کرنے کو جی چاہے تو بازار سے کوئی بھی چیز لے کر کھا لینا۔ ناریل کے بارے میں البتہ ایک بنگالی دوست نے کم و بیش وہی بات کہی جو غالب آم کے بارے میں کہہ گئے ہیں:
دوسرا منظر ذرا آگے چل کر بازار میں دیکھا۔ بینک کے دفتر کے سامنے کوئی چار فٹ اونچے تھڑے پر ایک شخص مچھلی یچ رہا تھا۔ اس کے بنیان میں بے شمار آنکھیں بنی تھیں۔ اس پر اور لنگی پر مچھلی کے خون اور آلائش کی تہ چڑھی ہوئی تھی۔ ہاتھ بہت گندے ہو جاتے تو وہ انھیں لنگی پر رگڑ کر تازہ گندگی کو پرانی گندگی سے پونچھ لیتا تھا۔ جب تھوڑے تھوڑے وقفے سے مچھلیوں پر پانی کے چھپکے دینے سے مکھیوں کے چھتے اڑ جاتے تو نظر آتا کہ مچھلی کتنی چھوٹی اور کس ذات کی ہے۔ غلیظ پانی اور مچھلیوں کا کیچڑ ایک ٹین کی نالی سے ہوتا ہوا نیچے رکھے ہوئے کنسٹر میں جمع ہو رہا تھا۔ وہ بغدے سے کسی بڑی مچھلی کے ٹکڑے کر کے بیچتا تو اس کے کھپرے اور آلائش بھی اسی کنسٹر میں جاتی تھی۔ وہ جب بھر جاتا تو اسے ہٹا کر دوسرا کنسٹر رکھ دیا جاتا۔ بلیاں بار بار پچھلی ٹانگوں پر کھڑی ہو ہو کر منہ مارتیں اور چھیچھڑوں کو کنسٹر میں گرنے سے پہلے ہی بڑی تیزی سے اچک لیتیں۔ دیکھنے والے کو ہول آتا تھا کہ تیز چلتے ہوے بغدے سے بلی کا سر کھچ سے اب اُڑا کہ اب اُڑا۔ کوئی جوان عورت مچھلی لینے آتی تو مچھلی والا ڈھال ڈھال کر بلی کو آرزو بھری گالیاں دینے لگتا۔ کوئی ایک گھنٹے میں اس نے دو بھرے ہوئے کنسٹر ایک ایک آنے میں بیچے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ غریب غربا اس پانی میں چاول پکاتے ہیں تاکہ چاولوں میں مچھراند (مچھلی کی باس) بس جائے۔ مچھلی کی بدبو کے اس ایسنس کے ایک کنسٹر سے تین گھروں میں ہنڈیا پکتی ہے۔ غریبوں میں جو لوگ نسبتاً آسودہ حال ہیں، وہی یہ لگژری افورڈ کر پاتے ہیں!
1967ع میں ہمیں کار اور ،،فیری،، سے مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ چھ سات سو میل کے سفر میں کوئی فرلانگ ایسا نہ تھا جس میں اوسطاُ پانچ چھ آدمی سڑک پر پیدل چلتے نظر نہ آئے ہوں۔ اوسطاُ بیس میں سے صرف ایک کے پیر میں چپل ہوں گے۔ نہ ہمیں کسی کے پورے تن پر کپڑا نظر آیا، سوائے میت کے! راستے میں تین جنازے ایسے دیکھے جن کے کفن کی چادر دومختلف رنگ کی لنگیاں جوڑ کر بنائی گئی تھی۔ ایک ضعیف شخص ایک جنازے پر پھٹی چھتری لگائے چل رہا تھا۔ یہ مرنے والے جوان کا باپ تھا۔ اس کی سفید داڑھی اور آنکھوں سے بارش کے ریلے بہہ رہے تھے۔ ہم باریسال سے گزر رہے تھے۔ بلا کی اُمس تھی۔ پیاس سے برا حال۔ پانی یا لیمنیڈ پینے کا سوال ہی نہ تھا، اس لیے کہ ان دنوں ہر جگہ ہیضہ پھیلا ہوا تھا۔ سڑکوں پر جنازے ہی جنازے نظر آرہے تھے۔ ایک بے تکلف دوست نے ٹپ دیا تھا کہ راستے میں خودکشی کرنے کو جی چاہے تو بازار سے کوئی بھی چیز لے کر کھا لینا۔ ناریل کے بارے میں البتہ ایک بنگالی دوست نے کم و بیش وہی بات کہی جو غالب آم کے بارے میں کہہ گئے ہیں:
انگبیں کے بحکم ربّ الناس
بھر کر بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
اس دوست نے کہا تھا کہ ناریل میں جراثیم کا گزر نہیں۔ پانی کے بجائے یہی توڑ توڑ کر پینا۔ السر کو بھی فائدہ کرتا ہے۔ ہم نے چھ چھ پیسے کے دو ناریل خریدے ۔ ڈرائیور نے ناریل والے ہی سے مانگ کر پانی پیا اور اپنے حصے کا ناریل کار کے بوٹ میں سنگوا کر رکھ لیا۔ ہم نے ناریل وہیں توڑا۔ اندر کھوپرے کی بہت پتلی اور نرم تہ نکلی۔ایسے ادھ کچرے ناریل کی ڈابھ بہت مفرّح، ملین اور شیریں ہوتی ہے۔ ڈابھ پی کر ناریل ہم نے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ پان والے سے ،،تھری کاسل،، سگریٹ کی ڈبیا خریدی۔ سگریٹ نکالا تو بے حد پرانا اور سوکھا کھڑنک۔ کیڑے نے اس میں مہین مہین سوراخ کر دیے تھے جن کی وجہ سے کش میں جگہ جگہ سے پنکچر ہو جاتے تھے۔ ایسے سگریٹوں سے ہمارے یہاں ان گھروں میں تواضع کی جاتی ہے جہاں صاحبِ خانہ خود سگریٹ نہیں پیتا۔ اور عیدالفطر پر خریدے ہوئے سگریٹ کے پیکٹ سے دوسرے عیدالفطر تک بالاصرار اپنے ملاقاتیوں کے حلق اور اخلاق کی آزمائش کرتا رہتا ہے۔ ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ وہ کون سا ظالم کیڑا ہوگا جو تمباکو سے اپنا پیٹ بھر کر زندہ رہتا ہے۔ اس کا تو ماءاللحم اور کشتہ بنا کر کینسر کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ اتنے میں ایک بوڑھی عورت کوڑے کے ڈھیر کی طرف بڑھی۔ اس نے گھورے کی گہرائیوں میں سرنگیں لگاتی ہوئی بلیوں اور آنول سے جڑی آلائش کو بھنبھوڑتے ہوئے کتے کو ڈھیلے مار مار کر بھگا دیا۔ اس کے تن پر بغیر چولی کے لیر لیر ساری کے سوا کچھ نہ تھا۔ وہ قدم جما جما کر گھورے پر چڑھی۔ جیسے ہی اس نے پیر سے آنول پرے ہٹایا ایک چیل جھپٹا مار کر اسے لے گئی، مگر ابھی پوری طرح اٹھی بھی نہ تھی کہ پنجے سے چھوٹ گیا۔ بڑھیا رسان سے ناریل اٹھا لائی کہ اس کا کوئی اور دعوے دار نہ تھا۔ اس کے ساتھ ایک منی سی بچی اور دوننگ دھڑنگ لڑکے تھے جن کی یہ غالباً نانی یا دادی ہوگی۔ وہ ناریل کا گودا کھرچ کھرچ کے بڑے ندیدے پن سے کھاتی رہی، یہاں تک کہ چھوٹے لڑکے نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے منہ میں رکھ لیا۔ اس نے دونوں لڑکوں کو تھوڑا سا کھوپرا دیا۔ بچی اتنی چھوٹی تھی کہ بڑھیا نے کھوپرے کو پہلے خود اپنے پوپلے منہ سے چبا چبا کر نرم کیا۔ پھر منہ سے منہ ملا کر اگال بچی کے منھ میں ڈالا۔ جب وہ ناریل اٹھانے کے لیے گھورے پر جھکی تو اسکی ننگی چھاتیاں بھلبھلائے بینگن کی مانند جھریائی ہوئی اور خالی اوجھڑی کی طرح جھول رہی تھیں۔ لگتا تھا کھمبیوں کی طرح یہ بھی اسی زمین سے اُگی ہیں۔ نہ تو دیکھنے والوں کو، نہ خود اس مائی کو اپنے ننگے ہونے کا احساس تھا، لیکن اس دن میں نے اپنے آپ کو با لکل ننگا محسوس کیا۔ بھر کر بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
دوسرا منظر ذرا آگے چل کر بازار میں دیکھا۔ بینک کے دفتر کے سامنے کوئی چار فٹ اونچے تھڑے پر ایک شخص مچھلی یچ رہا تھا۔ اس کے بنیان میں بے شمار آنکھیں بنی تھیں۔ اس پر اور لنگی پر مچھلی کے خون اور آلائش کی تہ چڑھی ہوئی تھی۔ ہاتھ بہت گندے ہو جاتے تو وہ انھیں لنگی پر رگڑ کر تازہ گندگی کو پرانی گندگی سے پونچھ لیتا تھا۔ جب تھوڑے تھوڑے وقفے سے مچھلیوں پر پانی کے چھپکے دینے سے مکھیوں کے چھتے اڑ جاتے تو نظر آتا کہ مچھلی کتنی چھوٹی اور کس ذات کی ہے۔ غلیظ پانی اور مچھلیوں کا کیچڑ ایک ٹین کی نالی سے ہوتا ہوا نیچے رکھے ہوئے کنسٹر میں جمع ہو رہا تھا۔ وہ بغدے سے کسی بڑی مچھلی کے ٹکڑے کر کے بیچتا تو اس کے کھپرے اور آلائش بھی اسی کنسٹر میں جاتی تھی۔ وہ جب بھر جاتا تو اسے ہٹا کر دوسرا کنسٹر رکھ دیا جاتا۔ بلیاں بار بار پچھلی ٹانگوں پر کھڑی ہو ہو کر منہ مارتیں اور چھیچھڑوں کو کنسٹر میں گرنے سے پہلے ہی بڑی تیزی سے اچک لیتیں۔ دیکھنے والے کو ہول آتا تھا کہ تیز چلتے ہوے بغدے سے بلی کا سر کھچ سے اب اُڑا کہ اب اُڑا۔ کوئی جوان عورت مچھلی لینے آتی تو مچھلی والا ڈھال ڈھال کر بلی کو آرزو بھری گالیاں دینے لگتا۔ کوئی ایک گھنٹے میں اس نے دو بھرے ہوئے کنسٹر ایک ایک آنے میں بیچے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ غریب غربا اس پانی میں چاول پکاتے ہیں تاکہ چاولوں میں مچھراند (مچھلی کی باس) بس جائے۔ مچھلی کی بدبو کے اس ایسنس کے ایک کنسٹر سے تین گھروں میں ہنڈیا پکتی ہے۔ غریبوں میں جو لوگ نسبتاً آسودہ حال ہیں، وہی یہ لگژری افورڈ کر پاتے ہیں!