ان کی اہلیہ اور مولانا حالی کی مشترک غلطیاں
شعر سن کر فرمایا " جزاک اللہ! آپ کے ہاتھ میں اللہ نے شعر گھڑنے کا ہنر دیا ہے۔ اسے کام میں لائیے۔ سالانہ جلسے کے لیے یتیموں پر ایک زوردار نظم لکھیے۔ مسلم قوم کی بےحسی، سائنس پر مسلمانوں کے احسانات، سر سید کی قربانیاں، سلطنتِ انگلشیہ میں امن چین کا دور دورہ، چندے کی اہمیت، فتح اندلس اور تحصیل دار صاحب کی کارکردگی کا ذکر ہونا چاہیے۔
پہلے مجھے سنادیجیے گا۔ وقت کم ہے۔“
بشارت نے کہا “ معاف کیجیے۔ میں غزل کا شاعر ہوں۔ غزل میں یہ مضامین نہیں باندھے جاسکتے۔“
غضب ناک ہوکر بولے “ معاف کیجیے۔ کیا غزل میں صرف پرائی بہو بیٹیاں باندھی جاسکتی ہیں؟ تو پھر سُنیے۔ پچھلے سال جو اردو ٹیچر تھا وہ ڈسمس اسی بات پر ہوا۔ وہ بھی آپ کی طرح شاعری کرتا تھا۔ میں نے کہا تقسیمِ انعامات کے جلسے میں بڑے بڑے لوگ آویں گے۔ ہر معطّی اور بڑے آدمی کی آمد پر پانچ منٹ تک یتیم خانے کا بینڈ بجے گا۔ اب ذرا یتیموں کی حالتِ زار اور یتیم خانے کے فوائد اور خدمات پر ایک پھڑکتی ہوئی چیز ہوجائے۔ تمہاری آواز اچھی ہے۔ گا کے پڑھنا۔ عین جلسے والے دن منمناتا ہوا آیا۔ کہنے لگا، بہت سر مارا پر بات نہیں بنی۔ ان دنوں استحضار نہیں ہے۔ میں نے پوچھا یہ کیا بَلا ہوتی ہے؟ بولا طبیعت حاضر نہیں ہے۔ میں نے کہا اماں، حد ہوگئی۔ گویا اب ہر چپڑ قنات ملازم کی طبیعت کے لیے علاحدہ سے رجسٹرِ حاضری رکھنا پڑے گا۔ کہنے لگا، بہت شرمندہ ہوں۔ ایک دوسرے شاعر کی نظم، حسبِ حال، ترنم سے پڑھ دوں گا۔ میں نے کہا چلو، کوئی بات نہیں، وہ بھی چلے گی۔ باپ رے باپ! اس نے تو حد کردی۔ بھرے جلسے میں اپنے مولانا حالی پانی پتی کی " مناجاتِ بیوہ“ کے بند کے بند پڑھ ڈالے۔ ڈائس پر میرے پاس ہی کھڑا تھا۔ میں نے آنکھ سے، کہنی کے ٹہوکے سے،کھنکھار کے، بہتیرے اشارے کیے کہ بندہ خدا! اب تو بس کر۔ حد یہ کہ میں نے دائیں کولھے پر چٹکی لی تو بایاں بھی میری طرف کر کے کھڑا ہوگیا۔ اسکول کی بڑی بھد ہوئی۔ سب منھ پر رومال رکھے ہنستے رہے، مگر وہ آسمان کی طرف منھ کر کے رانڈ بیواؤں کی جان کو روتا رہا۔ ایک میراثی نے جس کے ذریعے میں نے رقعے تقسیم کروائے تھے، مجھے بتایا کہ “ مناجاتِ بیوہ “ میں اس بے حیا نے دو تین سُر راگ مالکونس کے بھی لگادیے۔ ان لوگوں نے دل میں کہا ہوگا کہ شاید میں مولانا حالی کی آڑ میں وِدھوا آشرم یا بیوہ خانہ کھولنے کے لیے زمین ہموار کر رہا ہوں۔ بعد کو میں نے آڑے ہاتھوں لیا تو کہنے لگا، سب دیوان کھنگال ڈالے، یتیموں پر کوئی نظم نہیں ملی۔ ستم یہ کہ میر تقی میر جو خود بچپنے میں یتیم ہوگئے تھے، مثنوی در تعریف مادہ سگ اور موہنی بلّی پر تو نظم لکھ گئے، مگر معصوم یتیموں پر پھوٹے منھ سے ایک مصرع کہہ کے نہ دیا۔ اسی طرح مرزا غالب نے قصیدے لکھے، سہرے لکھے، بیسنی روٹی، ڈومنی اور چھالیا کی مدح میں پے در پے شعر کہے۔ حد یہ کہ دو کوڑی کی سپاری کو “ سرِ پستان پریزاد “ سے بھڑادیا، مگر یتیمی کے بارے میں کم از کم نسخہ حمیدیہ میں تو مجھے ایک شعر نہیں ملا۔ جب ہر دیوان سے مایوس ہوگیا تو اچانک خیال آیا کہ یتیموں اور بیواؤں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مضمون واحد، مظلومیت مشترک۔ اندریں حالت، فدوی نے “ مناجاتِ بیوہ “ پڑھ دی۔ شاہکار نظم ہے۔ تین سال سے انٹرنس کے امتحان میں اس پر برابر سوال آرہے ہیں۔“ چنانچہ اندریں حالات میں نے بھی فدوی کو اس کے شاہکار اور چولی دامن سمیت کھڑے کھڑے ڈسمس کردیا۔ کچھ دن بعد اس حرام خور نے میرے خلاف انسپکٹر آف اسکولز کو عرضداشت جڑ دی کہ میں مولانا حالی کے کلام کو فحش سمجھتا ہوں! نیز، میں نے اس سے اپنے غسل کے لیے پانچ مرتبہ بالٹی میں پانی منگوایا۔ سراسر جھوٹ بولا۔ میں نے پندرہ بیس دفعہ منگوایا تھا۔ یہ بھی جھوٹ کہ بالٹی میں منگوایا تھا۔ گھڑے میں بھر کر چھلکاتا لایا تھا۔ وجہ غسل کے بارے میں بھی رکیک اور حاسدانہ حملے کیے۔ خیر، ایسی سناری چوٹوں سے تو یاروں کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ پر محکمہ تعلیمات نے اب مجھ سے تحریری جواب طلب کیا ہے کہ “ آپ کو مولانا حالی کی مسّدس اور مناجاتِ بیوہ پر کیا اعتراض ہے، جب کہ سرکار نے اسے کورس میں بھی داخل کر رکھا ہے۔ ان حصوں کی نشاندہی کیجیے جن کو آپ قابلِ اعتراض گر دانتے ہیں۔ اب آپ میری کمک پر آگئے ہیں تو اس کا جواب بھی لکھ دیجیے۔ مگر اعتراض ایسے ہونے چاہییں کہ منھ پھر جائے۔اٹھائے نہ اٹھیں۔ دو چار غلطیاں زبان کی بھی نکال دیجیے گا۔ آخر کو پانی پت کے تھے۔ پانی پت پن نہیں جاتا۔ میرے گھر میں سے بھی وہیں کی ہیں۔ ان سے گفتگو کر کے آپ پر مولانا کی زباں دانی کا سارا بھرم کھل جائے گا۔
ٹیڑھی انگلی والے لوگ
مولوی مظفّر کی خامیاں بالکل آشکارا، مگر خوبیاں نگاہوں سے پوشیدہ تھیں۔ وہ بشارت کے اندازے اور اندیشے سے کہیں زیادہ ذہین کائیاں نکلے۔ ایسے ٹھوٹ جاہل بھی نہیں تھے جیسا کہ ان کے دشمنوں نے مشہور کر رکھا تھا۔ جہاں دیدہ، مزاج شناس، حکّام رس،سخت گیر۔ رہن سہن میں ایک سادگی اور سادگی میں ایک ٹیڑھ۔ عقدِثانی کے علاوہ اور کوئی کبیرہ بدپرہیزی ان سے منسوب نہ تھی۔ کانوں اور قول کے کچے، مگر دُھن کے پکے تھے۔ انھی کا حوصلہ تھا کہ دس بارہ سال سے وسائل کے بغیر لشتم پشتم اسکول کو چلا رہے تھے۔ اسے چلانے کے لیے ان کے ضابطہ اخلاق میں ہر قسم کی دھاندلی روا تھی۔ ان کے طریقِ کار میں عیب نکالنے کے لیے زیادہ عالم الغیب بلکہ عالم العیب ہونے کی شرط نہ تھی کہ وہ بالکل عیاں تھے، مگر جو کام وہ کرگئے وہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔ اکثر فرماتے کہ “ صاحب زادے، سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکلتا۔“ مگر ایسے لوگوں کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ گھی نکال چکنے کے بعد بھی ان کی انگلیاں ٹیڑھی ہی رہتی ہیں۔ اور انگلیاں ٹیڑھی رکھنے میں جو مزا انہیں آتا ہے وہ سچ پوچھیے تو گھی نکال کر کھانے میں بھی نہیں آتا۔ یہ حضرات التحیات کے دوران اشہد ان لا الہ الا اللہ پڑھتے وقت اللہ کے وجود اور وحدانیت کی شہادت بھی ٹیڑھی انگلی ہی سے دیتے ہیں!
رانڈ کڑھی
اسکول کی مالی حالت خراب بتائی جاتی تھی۔ ماسٹروں سے آئے دن دردمندانہ اپیل کی جاتی کہ آپ دل کھول کر چندہ اور عطیات دیں تاکہ آپ کو تنخواہیں دی جاسکیں۔ پانچ چھ مہینے کی ملازمت کے دوران میں انھیں علی الحساب کل ساٹھ روپے ملے تھے جو اسکول کی اکاؤنٹ کی کتابوں میں انکے نام بطور قرضِ حسنہ دکھائے گئے تھے۔ اب انھیں تنخواہ کا تقاضا کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا، اسلیے کہ قرضِ حسنہ بڑھتا چلا جارہا تھا۔ ادھر تنخواہ جتنی چڑھتی جاتی ادھر مولی مجّن کا لہجہ ریشم اور باتیں لچھے دار ہوتی جاتیں۔ ایک دن بشارت نے دبے الفاظ میں تقاضا کیا تو کہنے لگے “ برخوردار “ میں مثل تمہارے باپ کے ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا، تم اس کوردہ میں اتنے روپے کا کیا کروگے؟ چھڑے چھٹانک آدمی ہو۔ اکیلے گھر میں بے تحاشا نقدی رکھنا جوکھم کا کام ہے۔ رات کو تمہاری طرف سے مجھے ڈر ہی لگا رہتا ہے۔ سلطانہ ڈاکو نے تباہی مچا رکھی ہے۔“
بہرحال، اس تقاضے کا اتنا اثر ضرور ہوا کہ دوسرے دن سے انھوں نے ان کے گھر ایک مٹکی چھاچھ روزانہ بھیجنی شروع کردی۔
تحصیل دار نے روپے پیسے سے تو کبھی سلوک نہیں کیا، البتہ ایک دو چنگیر پالک یا چنے کا ساگ، کبھی ہرن کی ران کبھی ایک گھڑا رساول یا دوچار بھیلیاں تازہ گُڑ کی ساتھ کردیتا تھا۔ عید پر ایک ہانڈی سندیلے کے لڈوؤں کی اور بقرعید پر ایک بوک بکرے کی سری بھی دی۔ اُترتی گرمیوں میں چار تربوز پھٹی بوری میں ڈلوا کر ساتھ کردیے۔ ہر قدم پر نکل نکل پڑتے تھے۔ ایک کو پکڑتے تو دوسرا لڑھک کر کسی اور سمت بدراہ ہو جاتا۔ جب باری باری سب تڑخ گئے تو آدھے رستے میں ہی بوری ایک پیاؤ کے پاس پٹک کے چلے آئے۔ ان کے بہتے شیرے کو ایک پیاسا سانڈ جو پنڈت جگل کشور نے اپنے والد کی یاد میں چھوڑ رکھا تھا اس وقت تک انہماک سے چاٹتا رہا جب تک کہ ایک الھڑ بچھیا نے اس کی توجہ کو خوب سے خوب تر کی طرف منعطف نہ کردیا۔
جنوری کی مہاوٹ میں ان کے خس پوش مکان کا چھپر ٹپکنے لگا تو تحصیل دار نے دو گاڑی پنی کے پولے اور اَستر کے لیے سِرکیاں مفت ڈلوادیں۔ اور چار چھپر بند بیگار میں پکڑ کر لگادیے۔ قصبے کے تمام چھپر بارش، دھوپ اور دھویں سے سیاہ پڑگئے تھے۔ اب صرف ان کا چھپر سنہرا تھا۔ بارش کے بعد چمکیلی دھوپ نکلتی تو اس پر کرن کرن اشرفیوں کی بوچھار ہونے لگتی۔ اس کے علاوہ تحصیل دار نے لحاف کے لیے باریک دُھنکی ہوئی روئی کی ایک بوری اور مرغابی کے پروں کا ایک تکیہ بھی بھیجا جس کے غلاف پر نازو نے ایک گلاب کا پھول کاڑھا تھا۔ ( بشارت اس تکیے پر الٹے یعنی پیٹ کے بل سوتے تھے ------------ پھول پر ناک اور ہونٹ رکھ کر ) تحصیل کے دواب خانے (کانجی ہاؤس) میں ایکشورہ پشت چودھری کی دودھیل بکری کو آوارہ اور لاوارث قرار دے کر دو ہفتے سے بند کر رکھا تھا۔ جب اس کے دانے اور چارے کا سرکاری خرچ اس کی قیمت سے تجاوز کر گیا تو اس کی زنجیر بشارت کے ہاتھ میں پکڑا دی کہ آج سے تمہاری ہوئی۔ مگر انھوں نے دو وجہوں سے قبول نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی چھاچھ پی پی کے اور رانڈ کڑھی* کھا کھا کے میری تو آنکھیں پیلی اور شاعری پتلی پڑگئی ہے۔ اب مزید کسی رقیق شے کی گنجائش نہیں۔ دوم، میں خود تو روپے اور روٹی کے بغیر بھی شاعری اور ڈیوٹی انجام دے سکتا ہوں، لیکن بکری ان حالات میں دودھ تو درکنار مینگنی بھی نہیں دے سکتی۔
---------------------------------------------------------------------------
* رانڈکڑھی: وہ کڑھی جو اپنے خصم کو کھا جائے یعنی جس میں پھلکیاں نہ ہوں۔
لارڈ لجلجی
بشارت نے ایک دفعہ یہ شکایت کی کہ مجھے روزانہ دھوپ میں تین میل پیدل چل کر آنا پڑتا ہے تو تحصیل دار نے اسی وقت ایک خچر ان کی سواری میں لگانے کا حکم صادر کیا۔ یہ اَڑیل خچر اس نے نیلام میں آرمی ٹرانسپورٹ سے خریدا تھا۔ اب بڑھاپے میں صرف اس لائق رہ گیا تھا کہ شورہ پشت جاٹوں، بیگار سے بچنے والے چماروں اور لگان اور مفت دودھ نہ دینے والے کاشتکاروں کا منھ کالا کرکے اس پر قصبے میں گشت لگوائی جاتی تھی۔ پیچھے ڈھول تاشے اور مجیرے بجوائے جاتے تاکہ خچر بدکتا رہے۔ اس پر سے گر کر ایک معتوب گھسیارے کی، جس نے مفت گھاس دینے میں پس وپیش کیا تھا، ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی، جس سے وہ بالکل مفلوج ہوگیا۔ سواری کی بہ نسبت بشارت کو پیدل چلنا کہیں زیادہ پروقار و پر عافیت نظر آیا۔ یہ ضرور ہے کہ اگر لارڈولزلی ہمرکاب نہ ہوتا تو تین میل کی مسافت بہت کَھلتی۔ وہ راستے بھر اس سے باتیں کرتے جاتے۔اس کی طرف سے جواب اور ہنکارہ بھی خود ہی بھرتے۔ پھر جیسے ہی نازو کا خیال آتا ان کی ساری تھکن اور کوفت دور ہو جاتی۔ ڈگ کی لمبائی آپ ہی آپ بڑھ جاتی۔ وہ تحصیل دار کے نٹ کھٹ لڑکوں کو اس وقت تک پڑھاتے رہے جب تک کہ وہ واقعہ پیش نہ آیا جس کا ذکر آگے آئے گا۔ قصبے میں وہ اتالیق صاحب کہلاتے تھے۔ اور اس حیثیت سے ہر جگہ ان کی آؤبھگت ہوتی تھی۔ اہلِ معاملہ کو تحصیل دار سے سفارش کروانی ہوتی تو لارڈ ولزلی تک سے لاڈ کرتے۔ وہ رشوت کی دودھ جلیبی کھا کھ کے اتنا موٹا اور کاہل ہو گیا کہ صرف دُم ہلاتا تھا۔ بھونکنے میں اب اسے آلکس اور خوف آنے لگا تھا۔ اس کا “ کوٹ“ ایسے چمکنے لگا جیسا ریس کے گھوڑوں کا ہوتا ہے۔ قصبے میں وہ لاٹ لجلجی کہلاتا تھا۔ جلنے والے البتہ بشارت کو تحصیل دار کا ٹیپو کہتے تھے۔ نازو نے جاڑے میں ولزلی کو اپنی پرانی صدری قطع و برید کرکے پہنادی تو لوگ اُترن پر ہاتھ پھیر پھیر کر کتّے سے شفقت فرمانے لگے۔ مولی مجّن کو ایک بری عادت یہ تھی کہ استاد پڑھارہے ہوتے تو درّانا کلاس روم میں داخل ہوجاتے۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ ٹھیک پڑھارہے ہیں یا نہیں لیکن بشارت کی کلاس میں کبھی نہیں آتے تھے اس لیے کہ ان کے دروازے پر ولزلی پہرہ دیتا رہتا تھا۔
واقفیت بڑھی اور بشارت شکار میں تحصیل دار کی اردلی میں رہنے لگا تو ولزلی جھیل میں تیر کر زخمی مرغابی پکڑنا سیکھ گیا۔ تحصیل دار نے کئی مرتبہ فرمائش کی، یہ کتّا مجھے دےدو۔ بشارت ہر دفعہ اپنی طرف اشارہ کرکے ٹال جاتے کہ یہ سگ حضوری، مع اپنے کتے کے، آپ کا غلام ہے۔ آپ کہاں کی ٹہل سیوا، ہگنے موتنے کی کھکھیڑ میں پڑیں گے۔ جس دن سے تحصیل دار نے ایک قیمتی کالر لکھنؤ سے منگوا کر اسے پہنایا تو اس کا شمار شہ کے مصاحبوں میں ہونے لگا اور بشارت شہر میں اتراتے پھرنے لگے۔ لیکن اس کے شریف النسل ہونے میں کوئی کلام نہ تھا کہ اس کا pointer جَدٹیپو (کلاں) الہ آباد ہائی کورٹ کے انگریز جج کا پروردہ تھا۔ وہ جب انگلستان جانے لگا تو اسے اپنے ریڈر کو بخش دیا۔ ولزلی اسی کی اولاد تھا جو دھیرج گنج آ کر یوں گلی گلی خراب وخوار ہورہا تھا۔
مولی مجّن کو ولزلی زہر لگتا تھا۔ فرماتے تھے کہ “ اوّل تو کتّے کی ذات ہے۔ کتّا اصحابِ کہف کا ہو تب ہی کتّا رہتا ہے۔ پھر اسے تو ایسا ٹرین کیا کہ واللہ صرف اشرافوں کو کاٹتا ہے!“ اس میں شک نہیں کہ جب وہ مولی مجّن پر بھونکتا تو بہت ہی پیارا لگتا تھا۔ اب وہ واقعی اتنا ٹرینڈ ہوگیا تھا کہ بشارت حکم دیتے تو اسٹاف روم سے ان کا رولر منھ میں دبا کر لے آتا۔ مولی مجّن کا بیان تھا کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے اس پلید کو رجسٹرحاضری لے جاتے دیکھا ( لیکن تحصیل دار اور rabies کے ڈر سے کچھ نہ بولے۔ ایک چینی دانا کا قول ہے کہ کتّے پر ڈھیلا کھینچ کر مارنے سے پہلےیہ ضرور تحقیق کرلو کہ اس کا مالک کون ہے)
اطوار وطریقہ واردات کے لحاظ سے ولزلی دوسرے کتّوں سے بالکل مختلف تھا۔ گھر میں کوئی اجنبی داخل ہو تو کچھ نہیں کہتا تھا۔ لیکن جب وہ واپس جانا چاہتا تو کسی طرح نہیں جانے دیتا تھا۔ اس کی ٹانگ اپنی زنبور میں پھنسا کر کھڑا ہو جاتا۔
ٹیچر حضرات یتیم خانے کو کھاگئے!
رفتہ رفتہ مولی مجّن نے قرضِ حسنہ سے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ اور خود بھی کھنچے کھنچے رہنے لگے۔ ایک دن بشارت چاک میں لت پت، ڈسٹر ہاتھ میں اور رجسٹر بغل میں دبائےکلاس روم سے نکل رہے تھے کہ مولی مجّن انھیں آستین پکڑ کے اپنے دفتر میں لے گئے اور الٹے سر ہو گئے۔ گالباً “ حملہ کرنے میں پہل بہترین دفاع ہے“ والی پالیسی پر عمل کر رہے تھے۔ کہنے لگے “ بشارت میاں، ایک مدّت سے آپ کی تنخواہ چڑھی ہوئی ہے۔ اور آپ کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ اسکول ان حالوں کو پہنچ گیا۔ کچھ اُپائے کیجیے۔ یتیم خانے کے چندے کی مد سے ٹیچروں کو تنخواہ دی جاتی ہے۔ ٹیچر حضرات یتیم خانے کو کھاگئے! ڈرتا ہوں آپ صاحبان کو یتیموں کی آہ نہ لگ جائے۔“ بشارت یہ سنتے ہی آپے سے باہر ہوگئے۔ کہنے لگے “ سات آٹھ مہینے ہونے کو آئے۔ کُل ساٹھ ستّر روپے ملے ہیں۔ دو دفعہ گھر سے منی آرڈر منگوا چکا ہوں۔ اگر اس پر بھی یتیموں کی آہ لگنے کا اندیشہ ہے تو اپنی نوکری تہ کر کے رکھیے۔“ یہ کہہ کر انھوں نے وہیں چارج دے دیا۔ مطلب یہ کہ ڈسٹر اور رجسٹر حاضری مولی مجّن کو پکڑا دیا۔
مولی مجّن نے یکلخت پینترا بدلا اور ڈسٹر ان کی تحویل میں واپس دے کر ہاتھ جھاڑتے ہوئے بولے “ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں، برخوردار؟ قسم ہے وحدہ لا شریک کی! وہ رقم جسے آپ اپنے حسابوں ساٹھ ستّر بتارہے ہیں، وہ بھی یتیموں کا پیٹ کا ٹ کر، زکات اور صدقات کی مد سے نکال کر آپ کی نزر کی تھی۔ اس کا آپ یہ صلہ دے رہے ہیں! سر سیّد کو بھی آخری عمر ایسے ہی صدمے اٹھانے پڑے تھے جن سے وہ جاں بر نہ ہوسکے۔ میں سخت جان ہوں۔ خیر۔ ذرا صبر سے کام لیجیے۔ اللہ نے چاہا تو بقر عید کی کھالوں سے سارا حساب یک مشت بےباق کردوں گا۔ یتیموں کا حال آپ پر روشن ہے۔ غریب کندھوں پر چڑھ چڑھ کے میونسپلٹی کی لالٹینوں سے پلی دو پلی تیل نکالتے ہیں تب کہیں رات کو پڑھ پاتے ہیں۔ میونسپلٹی والوں نے تاڑ کے برابر اونچی بلیوں پہ لالٹینیں لٹکا دی ہیں تاکہ ان کے نیچے کوئی پڑھ نہ سکے۔ اب کوئی ان الہ دین چراغ کی اولادوں سے پوچھے کہ تم نے لالٹین لٹکائی ہے یا اپنے بھانویں سوا نیزے پر آفتاب ٹانگا ہے۔ معصوم بچّے اس کی اندھی روشنی میں کیا تمھارے باپ کا کفن سییں گے۔ آپ کے آنے سے تین چار سال پہلے ایک یتیم لونڈا بلّی پر سے ایسا گرا کہ ہاتھ اور ٹانگ کی ہڈی کچی ککڑی کی طرح ٹوٹ گئی۔ عبدالسلام کمنگر نے جوڑنے کی بہتیری کوشش کی، مگر پیپ پڑ گئی۔ کانپور لے جاکر، دست بخیر، یہاں سے (گھٹنے کے اوپر سے) ٹانگ کٹوانی پڑی۔ سیدھا ہاتھ جُڑنے کو تو جُڑ گیا، مگر اس طرح جیسے قرابت داروں میں ناچاقی کے بعد ٹوٹا ہوا تعلق جوڑا جاتا ہے۔ ہاتھ کی کمان سی بن گئی۔ دونوں سِروں پر تار باندھ دیں تو اس گز سے سارنگی بجاسکتا تھا۔ لولا لنگڑا لونڈا رفتہ رفتہ بری صحبت میں پڑ گیا۔ میں نے لنگڑ دین کو کان پکڑ کے نکال باہر کیا تو کانپور میں فقیروں کی ٹولی میں جا شامل ہوا۔ اور دوسرے لونڈوں کو بھی بہکانے لگا کہ “ یار تم بھی بلّی پر سے چھلانگ لگا کے ادھر آجاؤ۔ بڑے مزے ہیں۔ یہاں برتن نہیں مانجھنے پڑتے۔ گلا پھاڑ پھاڑ کے آموختہ نہیں سنانا پڑتا۔ رات کو کسی کے پیر نہیں دابنے پڑتے۔روز روز سویم کے چنے پڑھ پڑھ کے خود ہی کھانے نہیں پڑتے۔ صبح کوئلے سے دانت نہیں مانجھنے پڑتے۔ بیڑی پینے کے لیے بار بار لوٹا لے کے پاخانے نہیں جانا پڑتا۔ جے دفعہ ( جتنی دفعہ ) چاہو دھڑلے سے پیو اور دھویں کی گاڑی (ریل) کی طرح بھک بھک کرتے پھرو۔ غرض کہ یہاں عیش ہی عیش ہیں۔ کچھ بھی حرمزدگی کرو کوئی کچھ نہیں کہتا۔“ بزرگوں نے کہا ہے کہ یہ اطوار ولد الزنا کی پہنچان ہیں۔ تو میں کہہ یہ رہا تھا، برخوردار، کہ یہ آپ کا اسکول ہے۔ آپ کا اپنا یتیم خانہ۔ میں اندھا نہیں ہوں۔ آپ جس لگن اور تندہی سے کام کر رہے ہیں وہ اندھے کو بھی نظر آتی ہے۔ آپ زندگی میں بہت آگے جائیں گے۔ اگر اسی طرح کام کرتے رہے تو انشاءاللہ العزیز بیس پچیس برس میں اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہو جائیں گے۔ میں ٹھہرا جاہل آدمی۔ میں تو ہیڈ ماسٹر بننے سے رہا۔ اسکول کا احوال آپ کے سامنے ہے۔ چندہ دینے والوں کی تعداد گھٹ کر اتنی رہ گئی ہے کہ سر سیّد بھی ہوتے تو نواب محسن الملک کا اور اپنا سر پیٹ لیتے۔ مگر آپ سب مجھی پر غصّۃ اتارتے ہیں۔ میں تن تنہا کیا کرسکتا ہوں۔ اکیلا چنا بھاڑ تو کیا خود کو بھی نہیں پھوڑ سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسکول اور یتیم خانے کو امرا، رؤسا، تعلقہ داروں اور آس پاس کے شہروں میں روشناس کرایا جائے۔ لوگوں کو کسی بہانے بلایا جائے۔ ایک یتیم کا چہرہ دکھانا ہزار وعظوں اور لاکھ اشتہاروں سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔
یہ تو کارِخیر ہے۔ کوئی سرکس یا آغا حشر کا کھیل تو ہے نہیں کہ اشتہار دیکھتے ہی آدمی ٹوٹ پڑیں۔ یقین جانیے جب سے ٹیچر صاحبان کی تنخواہیں رکی ہیں، میری نیند اُڑ گئی ہے۔ برابر صلاح مشورے کر رہا ہوں۔ آپ کو بھی کئی بار تاکید کرچکا ہوں کہ للہ اپنی تنخواہوں کی ادائیگی کی کوئی ترکیب جلد از جلد نکالیے۔ بہت غور و خوض کے بعد اب آپ ہی کی تجویز پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسکول کی مشہوری کے لیے ایک شاندار مشاعرہ ہونا ازحد ضروری ہے۔ لوگ آج بھی دھیرج گنج کو گاؤں سمجھتے ہیں۔ ابھی کل ہی ایک پوسٹ کارڈ ملا۔ پتے میں بمقام موضع دھیرج گنج لکھا تھا۔ موضع دھیرج گنج! وللہ خون کھولنے لگا۔ لوگ عرصے تک علی گڑھ کو بھی گاؤں سمجھتے رہے، تاوقتیکہ وہاں بائیسکوپ شروع نہیں ہوا اور موٹر کار کے ایکسی ڈنٹ میں پہلا آدمی نہ مرا۔
تقسیم کار کے باب میں انھوں نے وضاحت فرمادی کہ بشارت کے ذمّے صرف شاعروں کو لانا، لے جانا، قیام وطعام کا بندوبست، مشاعرے کی پبلسٹی اور مشاعرہ گاہ کا انتظام ہوگا۔ بقیہ تمام کام وہ تن تنہا انجام دے لیں گے۔ اس سے ان کی مراد صدارت تھی!
دھیرج گنج کا پہلا اور آخری مشاعرہ
مشاعرے کی تاریخ مقرر ہوگئی۔ عمائدینِ دھیرج گنج کو مدعو کرنا، مصرع طرح اور شعرا کا انتخاب، شاعروں کو کانپور سے آخری ٹرین سے بصد احترام لانا اور مشاعرے کے بعد پہلی ٹرین سے دفان کرنا، مشاعرے سے پہلے اور مفت غزل پڑھنے تک ان کی خاطر مدارات کسی اور سے کروانا------- اور اسی قسم کے فرائض جو سزا کا درجہ رکھتے تھے بشارت کے ذمے کیے گئے۔ شاعروں اور ان کے اپنے آنے جانے کا ریل اور اکّے کا کرایہ اور دھیرج گنج میں قیام و طعام، پان سگریٹ اور متفرق اخراجات کے لیے مولی مجّن نے بشارت کو دس روپے دیے اور تاکید کی کہ آخر میں خرچ سے جو رقم بچ رہے اس کو مشاعرے کے دوسرے روز مع رسیدات و گوشوارہ اخراجات واپس کردی جائے۔انہوں نے سختی سے یہ ہدایت بھی کی کہ شاعروں کو آٹھ آنے کا ٹکٹ خرید کر خود دینا۔ نقد کرایہ ہرگز نہ دینا۔ بشارت یہ پوچھنے ہی والے تھے کہ شاعروں کے ہاتھ خرچ، نزرنزرانے کا کیا ہوگا کہ مولی مجّن نےاز خود یہ مسئلہ بھی حل کردیا۔ فرمایا شعرائے کرام سے یتیم خانے اور اسکول کے چندے کے لیے اپیل ضرور کیجیے گا۔ انہیں شعر سنانے میں ذرا حجاب نہیں آتا تو آپ کو کارِخیر میں کاہے کی شرم۔ اگر آپ نے پھوہڑ پن سے کام نہ لیا تو ہر شاعر سے کچھ نہ کچھ وصول ہو سکتا ہے۔ مگر جو کچھ بھی وصول کرنا ہے مشاعرے سے پہلے ہی دھر وا لینا۔ غزل پڑھنے کے بعد ہر گز قابو میں نہیں آئیں گے۔ رات گئی بات گئی والا مضمون ہے۔ اور جو شاعر یہ کہے کہ وہ اٹھنی بھی نہیں دے سکتا تو واللہ اسے تو ہمارے یتیم خانے میں ہونا چاہیے۔ کانپور میں بیکار پڑا کیا کر رہا ہے؟
قارئیں سوچ رہے ہوں گے کہ ان تمام انتظامی امور کے سلسلے میں اسکول کے ہیڈ ماسٹر کا کہیں ذکر نہیں آیا۔ سو اس کی ایک نہایت معقول وجہ تھی۔ ہیڈ ماسٹر کو ملازم رکھتے وقت مولی مجّن نے صرف ایک شرط لگائی تھی۔ وہ یہ کہ ہیڈ ماسٹر اسکول کے معاملات میں قطعی دخل نہیں دے گا۔
اسے خود نمائی کہیے یا نا تجربہ کاری، بشارت نے مشاعرے کے لیے جو مصرع طرح انتخاب کیا وہ اپنی ہی تازہ غزل سے لیا گیا تھا۔ اس میں سب سے بڑا فائدہ تو یہ نظر آیا کہ مفت میں شہرت ہو جائیگی۔ دوسرے، انھیں مشاعرے کے لیے علاحدہ غزل پر مغز ماری نہیں کرنی پڑے گی۔ یہ سوچ سوچ کر ان کے دل میں گُدگُدی ہوتی رہی کہ اچھے اچھے شاعر ان کے مصرعے پر گرہ لگائیں گے۔ بہت زور ماریں گے۔ گھنٹوں فکرِسخن میں کبھی پیر پٹخیں گے۔ کبھی دل کو، کبھی سر کو پکڑیں گے اور شعر ہوتے ہی ایک دوسرے کو پکڑ کے بیٹھ جائیں گے۔ انھوں نے اٹھارہ شاعروں کو شرکت کے لیے آمادہ کرلیا، جن میں جوہر چغتائی الہ آبادی، کاشف کانپوری اور نشور واحدی بھی شامل تھے جو ازراہِ شفقت اور خوردنوازی رضامند ہوگئے تھے کہ بشارت کی نوکری کا سوال تھا، نشور واحدی اور جوہر الہ آبادی تو ان کے استاد بھی رہ چکے تھے۔ ان دونوں کو انھوں نے اپنا مصرع طرح نہیں دیا، بلکہ غیر طرحی غزلیں پڑھنے کی درخواست کی۔ ایسا لگتا تھا کہ باقیماندہ شعرا کے انتخاب میں انھوں نے صرف یہ التزام رکھا ہے کہ کوئی شاعر ایسا نہ آنے پائے جس کے بارے میں انہیں ذرا سا بھی اندیشہ ہو کہ ان سے بہتر شعر کہہ سکتا ہے۔
اکّا کس نے ایجاد کیا؟
ان سب شاعروں کو دو اکّوں میں بٹھا کر وہ کانپور کے ریلوے اسٹیشن پر لائے۔ جن قارئین کو دو اکوں میں اٹھارہ شاعروں کی “ سارڈینز“ بنانے میں زیادتی یا مبالغہ نظر آئے، انہوں نے غالباً نہ اکّے دیکھے ہیں نہ شاعر۔ یہ تو کانپور تھا، ورنہ علیگڑھ ہوتا تو ایک ہی اکّا کافی تھا۔ قارئین کی آسانی کے لیے ہم اس نادرالوجود اور محیّر العقول سواری کا سرسری خاکہ کھینچے دیتے ہیں۔ پہلے غسلِ میت کے تختے کو کاٹ کے چوکور اور چورس کرلیں۔ پھر اس میں دو مختلف سائز کے بالکل چوکور پہیے اس یقین کے ساتھ لگادیں کہ ان کے چلنے کے ساتھ علیگڑھ کی سڑکیں ہموار ہو جائیں گی اور اس عمل سے یہ خود بھی گول ہو جائیں گے۔ تختہ سڑک کے گڑھوں کی بالائی سطح سے چھ ساڑھے چھ فٹ اونچا ہونا چاہیے تاکہ سواریوں کے لٹکے ہوئے پیروں اور پیدل چلنے والوںکے سروں کی سطح ایک ہوجائے۔ چھوٹے پہیے کا قطر کم از کم پانچ فٹ ہو۔ پہیے میں سورج کی شعاعوں کی مانند جو لکڑیاں لگی ہوتی ہیں وہ اتنی مضبوط ہونی چاہییں کہ نئی سواری ان پر پاؤں رکھ کر تختے تک ہائی جمپ کرسکے۔ ہاؤن کے دھکے سے پہیے کو بھی اسٹارٹ ملے گا۔ اس کے بعد تختے میں دو بانسوں کے بم× لگا کر اس میں ایک لاغر گھوڑا کو لٹکا دیں، جس کی پسلیاں دور سے گن کر سواریاں یہ اطمینان کر لیں کہ پوری ہیں۔ لیجیے اکّا تیار ہے۔ اس کے مذکورہ بالا چار اجزائے تخریبی کا ذکر آگے آئے گا۔
نہاری، رساول، جلی اور دھواں لگی فیرنی، محاورے، ساون کے پکوان، امریوں میں جھولے، ارہر کی دال، ریشمی دُلائی، غرارے، دوپلی ٹوپی، آلھا اودل اور زبان کے شعر کی طرح اکّا بھی یوپی کے خاصے کی چیزوں میں شمار ہوتا ہے۔ 1943 سے 1935 تک اپنے قیامِ علی گڑھ کے دوران ہم بھی اکّے میں ذلیل و خوار ہوچکے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اکّا کسی گھوڑے نے ایجاد کیا تھا۔ اسی لیے اس کے ڈیزائن میں یہ حکمت پوشیدہ رکھی کہ گھوڑے سے زیادہ مشقت سواری کو اٹھانی پڑے۔ اکّے کی خوبی یہ تھی کہ زائد سواریوں کا بوجھ گھوڑے پر نہیں پڑتا تھا، بلکہ ان سواریوں پر پڑتا تھا جن کی گود میں وہ آ آ کر بیٹھتی جاتی تھیں۔××
آپ نے دیکھا ہوگا مغربی “بیلے“ میں بعض ایسے نازک مقام آتے ہیں کہ ڈانسر صرف پاؤں کے انگوٹھے کے بل کھڑی ہو کر ناچتی چلی جاتی ہے۔ سارے جسم کا بوجھ انگوٹھے پر ہوتا ہے اور چہرے پر کرب کے آثار کے بجائے مسکراہٹ کھیلتی ہے۔ ایسی ہی مسرت بھری مہارت اور مہارت بھری مسرت کا مظاہرہ علی گڑھ میں دیکھا جہاں یونیورسٹی کے لڑکے اکّ کے تختے سے باہر نکلی ہوئی بے پردہ کیل پر صرف ہاتھ کے انگوٹھے کے بل ادھَر بیٹھے گرلز کالج اور نمائش کا طواف کرتے تھے۔ زندگی میں کامیابی کا گُر بھی یہی بتایا جاتا ہے کہ جہاں انگوٹھا دھرنے کو جگہ مل جائے، وہاں خود کو سموچا دھانس دو۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
× بم: اکّے اور تانگے میں لگانے والی لکڑی جس میں گھوڑا جوتتے ہیں۔
×× حضرت جوش ملیح آبادی ایسے اکّوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ “ وہ تمام اس قدر ذلیل ہیں کہ ان پر اگر سکندرِ اعظم تک کو بٹھادیا جائے تو وہ بھی کسی دیہاتی رنڈی کا بھڑوا نظر آنے لگے۔“
غیر متوازن طرزِبیان سے قطع نظر قابلِ غور نکتہ یہ کہ تحقیر کے آخری درجے پر نہ رنڈی فائز ہے نہ بھڑوا، دیہاتی ہے!
سڑک کوٹنے کے انجن سے تصادم
سواریاں ایک دوسرے کے جسم کے curves میں کنڈلی مار کےبیٹھ جاتی تھیں۔ اکّا جب گھوڑے اور سواریوں سمیت کسی کھلے مین ہول کے اندر داخل ہونے میں ناکام رہتا تو ، بقول دلّی والوں کے، جامنیں سی گھل جاتیں۔ سواریوں کے ہاتھ پاؤں اس طرح گتھے اور ایک دوسرے میں پروئے ہوئے ہوتے تھے جیسے دُھلائی کے بعد واشنگ مشین میں کپڑوں کی آستینیں اور ازار بند۔ اگر کسی ایک کو اترنا ہوتا تھا تو سب سواریوں کو اپنی اپنی گرہ اور قینچی کھولنی پڑتی تھی، جب کہیں جا کے وہ اس استخوانی شکنجے سے آزاد ہوکر چھ فٹ کی بلندی سے اکڑوں حالت میں چھلانگ لگاتا۔ اعضا باہم دگر خلط ملط ہو نے کے علاوہ ایسے سُن ہوجاتے تھے کہ اگر کسی کے پنڈلی میں خارش ہو تو کھجا کھجا کے خونم خون کر دیتا مگر خارش مٹنے کا نام نہ لیتی۔ اس لیے کہ کھجائی ہوئی پنڈلی کسی اور کی ہوتی تھی۔ اکّے کا اگر ایکسی ڈنٹ ہو جاتا تو اسے یا بالانشین سواریوں کو کبھی گزند نہیں پہنچتا تھا۔ اس لیے کہ اول تو اکّے میں ایسی کوئی چیز یا کل پرزہ نہیں ہوتا کہ اس کے ٹوٹ جانے یا نہ ہونے سے اکّے کی کارکردگی میں مزید فرق آئے۔ دوم ٹکرانے والی کار یا سائیکل اس کے تختے کے نیچے سے ایسی رسان سے نکل جاتی کہ گھوڑے تک کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ گرہ گیر سواریوں کا گپھے کا گپھا جوں کا توں زمین پر گد سے رگبی کے scrum کی طرح آن پڑتا کہ مجال ہے ایک بھی سواری علیحدہ ہوجائے۔ ایسا ہی ایک منظر ہم نے اپنی آنکھوں سے 1944 میں علی گڑھ میں دیکھا۔ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا۔ ہم ایک عدد بلیڈ خریدنے نکلے تھے جو ان دنوں نایاب تھا۔ ایک ایک دکان پر پوچھتے پھر رہے تھے۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ بیچ سڑک پر سات آٹھ سیاہ پیراشوٹ پرا باندھ کر اتر رہے ہیں۔ ہمیںبتایا گیا کہ ایک اکّے کا، جس میں گرلز کالج کی لڑکیاں سوار تھیں، سڑک کوٹنے کے انجن سے ہیڈ آن کولیژن ہو گیا ہے اور لڑکیاں ہوا بھرے برقعوں کی مدد سے اِکّے کی بلندیوں سے با جماعت لینڈ کر رہی ہیں۔ اور لڑکے ترکی ٹوپیاں پہنے، سیاہ شیروانیوں کے بٹن نرخرے تک بند کیے، زخمیوں کو اٹھانے اور ابتدائی غیر طبی امداد، انسانی ہمدردی، دکھی انسانیت کی خدمت اور معاشقے کے لیے تیارواُمیدوار کھڑے ہیں۔
سو ہارس پاور کی گالی سے اسٹارٹ
اِکّے کے پچھلے حصّے میں اتنی سواریاں لدی، ٹنگی، اٹکی ہوئی ہوتی تھیں کہ اگر گھوڑے کو ٹھوکر لگ جائے یا نقاہت سے بیہوش ہوجائے، تب بھی زمین پر نہیں گر سکتا تھا، اس لیے کہ پچھلی سواریاں اپنی اُلار سے اسے بے ہوش ہونے کے بعد بھی کھڑی حالت میں رکھتی تھیں۔ تختے پر گدی کا دستور نہیں تھا۔ جیسی چمک اس تختے پر نظر آئی ویسی آج تک قیمتی سے قیمتی لکڑی پر بھی نہیں دیکھی۔ وجہ یہ کہ پالش کا طریقہ قدرے مختلف تھا۔ اس پر روزانہ، کم از کم دس گیارہ گھنٹے مسلسل، پوسٹ گریجویٹ کولھوں سے پالش کی جاتی تھی۔ (جونیئر انڈر گریجویٹ کو تو سینئر پوسٹ گریجویٹ کی گود میں جگہ ملتی تھی) اتنے چکنے اور پھسلنے تختے پر اگر گدی بچھادی جاتی تو پہلے ہی جھٹکے میں سواریاں اڑن گدیلے پر slide کر کے glide کرتی ہوئی راہ گیروں کے سروں پر لینڈ کرتیں۔ سواری کو اِکّے کا ڈنڈا پکڑ کر سڑک پر گھسٹتے ہوئے جانے کی اجازت نہیں تھی ۔ اس لیے کہ اس سے اکّے کی رفتار سست پڑنے کا احتمال تھا۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ اِکّا گھوڑے کی طاقت سے چلتا تھا، کیوں کہ ہوتا یہ تھا کہ اِکّے والا نیچے اتر کر اسے ایک دھکے اور سو ہارس پاور کی گالی سے اسٹارٹ کرتا اور اسی کے زور سے یہ لڑھکتا رہتا تھا۔ گھوڑے میں اتنی طاقت نہیں ہوتی تھی کہ اِکّے کو آگے لڑھکنے سے روک سکے۔
“خوشامدید!“۔۔۔صحیح املا
دھیرج گنج کے پلیٹ فارم کو اسکول کے بچّوں نے رنگ برنگی جھنڈیوں سے اسطرح سجایا تھا جیسے پھوہڑ ماں، بچّی کا منھ دُھلائے بغیر بالوں میں شوخ ربن باندھ دیتی ہے۔ ٹرین سے اترتے ہی ہر شاعر کو گیندے کا ہار پہنا کر گلاب کا ایک ایک پھول اور اونٹتے دودھ کا گلاس پیش کیا گیا جسے ہاتھ میں لیتے ہی وہ بِلبلا کر پوچھتا، کہاں رکھوں؟ استقبال کرنے والوں نے پچیس میل اور ایک گھنٹے دور کانپور سے آنے والوں سے پوچھا، “ سفر کیسا رہا؟ کانپور کا موسم کیسا ہے؟ ہاتھ منھ دھو کے تین چار گھنٹے سو لیں تو سفر کی تکان اتر جائے گی۔“ جواباً مہمانوں نے دریافت کیا “ یہاں مغرب کس وقت ہوتی ہے؟ دھیرج گنج والے تو مہمان نوازی کے لیے مشہور ہیں؟ یہاں کی کونسی سوغات مشہور ہے؟ روپے میں کَے مرغیئیں آتی ہیں؟ کیا یہاں کے مسلمان اتنے ہی پسماندہ ہیں جتنے باقیماندہ ہندوستان کے؟“
اٹھارہ شاعر اور پانچ مصرعہ اٹھانے والے جو ایک شاعر اپنے ہمراہ لایا تھا، دو بجے کی ٹرین سے دھیرج گنج پہنچے۔ ٹرین کی آمد سے تین گھنٹے پہلے ہی پلیٹ فارم پر یتیم خانہ شعاع الاسلام کا بینڈ بجنا شروع ہوگیا۔ لیکن جیسے ہی وہ آن کر رکی تو کبھی ڈھول، کبھی بانسری اور کبھی ہاتھی کی سونڈ جیسا باجا (ٹرمپٹ) بند ہو ہو جاتا۔ اور کبھی تینوں ہی خاموش ہو جاتے۔ صرف بینڈ ماسٹر چھڑی ہلاتا رہ جاتا۔ وجہ یہ کہ ان سازوں کو بجانے والے لڑکوں نے اس سے پہلے انجن کو اتنے قریب سے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اسے دیکھنے میں بار بار اتنے محو ہو جاتے کہ بجانے کی سُدھ نہ رہتی۔ انجن ان کے اتنے قریب آ کر رکا تھا کہ ایک ایک پُراسرار پُرزہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ سیٹی بجانے والا آلہ، کوئلے جھونکنے کا بیلچہ، بائلر کے دہکتے چٹختے کوئلوں کا تیز اور انگریزی دواؤں کی بو جیسا بھبھکتا جھونکا۔ شعلوں کی آنچ سے اینگلو انڈین ڈرائیور کا تمتماتا لال چقندر چہرہ اور کلائی پر گُدی ہوئی نیلی میم۔ مسلمان خلاصی کے سر پر بندھا ہوا سیاہ رومال اور چہرے پر کوئلے کی زیبرا دھاریاں۔ پہیے سے جڑی ہوئی لمبی سلاخ جو بالکل ان کے ہاتھ کی طرح چلتی جسے وہ آگے پیچھے ہلاتے ہوئے چھک چھک کرتے ریل چلاتے تھے۔ انجن کی ٹونٹی سے اُبلتی، شور مچاتی اسٹیم کا چہرے پر اسپرے۔ ان بچّوں نے دھویں کے مرغولوں کو مٹیالے سے ہلکا سُرمئی اور سُرمئی سے گاڑھا گاڑھا سیاہ ہوتے دیکھا۔ گلے میں اس کی کڑواہٹ انہیں اچھی لگ رہی تھی۔ گھنگھرالے دھویں کا سیاہ اژدھا پھنکاریں مارتا آخری ڈبّے سے بھی آگے نکل کر اب پیچ و تاب کھاتا آسمان کی طرف اٹھ رہا تھا۔ بینڈ بجانے والے بچّے خاموش، بالکل خاموش ہو کر، قریب، بالکل قریب سے انجن کی سیٹی کو بجتا ہوا دیکھنا چاھتے تھے۔ ان کا بس چلتا تو جاتے وقت اپنی آنکھیں وہیں چھوڑ جاتے، اگر ان بچوں سے بینڈ ہی بجوانا تھا تو بغیر انجن کی ٹرین لانی چاہیے تھی۔
شعرائے کرام اسٹیشن سے بیل تانگوں اور بہلیوں میں قصبے لائے گئے۔ وہ ہر دس منٹ بعد گاڑی بان سے پوچھتے کہ قصبہ اتنی دور کیوں بنایا گیا ہے؟ بیلوں کے سینگوں پر نئی سنگوٹیاں اور گلے میں گھنگھرو پڑے تھے۔ ایک بیل کے پٹھے پر مہندی سے “ خوشامدید“ لکھا تھا۔ غلط املا کی سزا بیل کو مل رہی تھی۔ مطلب یہ کہ گاڑی بان بار بار ، خ ، کے نقطے میں آر× چبھورہا تھا۔ ویسے ہمارے خیال میں وزیروں اور بڑے آدمیوں کے استقبال کے لیے جو بینر، خیر مقدمی دروازے اور محرابیں بنائی جاتی ہیں، ان پر خوش آمدید کا یہی املا (خوشامدید) ہونا چاہیے کہ سارے کھٹ راگ کا اصل مقصد و مدعا یہی تو ہے۔ بیل تانگوں کے پیچھے ڈرل ماسٹر کی قیادت مین اسکول کے تمام اساتذہ اور انکے پیچھے قدم ملائے لڑکوں کے والد صاحبان۔ آگے آگے بینڈ بجتا جا رہا تھا۔ بینڈ کے آگے ایک لڑکا چل رہا تھا جس کے ہاتھ میں یتیم خانہ شمع الاسلام کا سیاہ پرچم تھا، جس پر آسمان کو دھمکی آمیز لہجے میں مخاطب کر کے باطل سے نہ دبنے کے الٹی میٹم کے بعد اہلِ زمین کو اپنے انجام سے ڈرنے اور یتیم خانے کو دل کھول کر چندہ دینے کی اپیل کی گئی تھی۔ پرچموں کی تاریخ میں یہ پہلا پرچم تھا جس پر لعن طعن اور کچھ کرنے کی بھی تلقین کی گئی تھی۔ ورنہ نادان چند رنگ برنگی پٹیوں اور دھاریوں پر قناعت کر لیتے ہیں۔ جلوس کے پیچھے پیچھے لارڈ ولزلی کی سر براہی میں سارے قصبے کی ننگ دھڑنگ بچے اور کتّے دوڑ رہے تھے۔ کچھ ثقہ شاعروں نے بینڈ پر اعتراض کیا تو ڈرل ماسٹر نے انہیں یہ کہہ کر چپکا کردیا کہ اگر اب بینڈ بجنا بند ہوا تو کتّے آ لیں گے۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------
× آر: وہ نوکیلی کیل جو بیلوں کو ہانکنے کی لکڑی کے آگے لگی ہوتی ہے۔
انہی پتھروں پہ چل کر ۔۔۔۔
اٹھارہ شاعروں کا جلوس اسکول کے سامنے سے گزرا تو ایک رہکلے سے 18 توپوں کی سلامی اُتاری گئی۔ یہ ایک چھوٹی سی پنچایتی توپ تھی جو نارمل حالات میں پیدائش اور خَتنوں کے موقعے پر چلائی جاتی تھی۔ اس کے چلتے ہی سارے قصبے کے کتے، بچے کوے، مرغیاں اور مور کورس میں چنگھاڑنے لگے۔ بڑی بوڑھیوں نے گھبرا کر “ دین جاگے، کفر بھاگے“ کہا۔ خود وہ منی توپ بھی اپنے چلنے پر اتنی متعجب اور وحشت زدہ تھی کہ دیر تک ناچی ناچی پھری۔ شاعروں کو حیثیت دار کاشتکاروں کے ہاں ٹھہرایا گیا، جو اپنے اپنے مہمان اسکول سے گھر لے گئے۔ ایک کاشتکار تو اپنے حصے کے مہمان کی سواری کے لیے ٹٹو اور راستے کے شغل کے لیے ناریل کی گڑگڑی بھی لایا تھا۔ قصبے میں جو گِنے چُنے آسودہ حال مسلمان گھرانے تھے ان سے مولی مجّن کی نہیں بنتی تھی۔ لٰہذا شاعروں کے قیام و طعام کا بندوبست کاشتکاروں اور چودھریوں کے ہاں کیا گیا، جس کا تصّورہی شاعروں کی نیند اُڑانے کے لیے کافی تھا۔ شعر وشاعری اور ناولوں میں دیہاتی زندگی کو romanticise کر کے اس کے خلوص، سادگی، قناعت اور مناظرِقدرت پر سر دُھننا اور دُھننوانا اور بات ہے، لیکن سچ مچ کسی کسان کے نیم پختہ یا مٹی گارے کے گھر میں ٹھہرنا کسی شہری انٹلکچوئل کے بس کا روگ نہیں۔ کسان سے بغل گیر ہونے سے پہلے اس کے ڈھور ڈنگر، گھی کے فنگر پرنٹ والے دھات کے گلاس، جن ہاتھوں نے اُپلے تھاہے انھی ہاتھوں سے پکائی ہوئی روٹی، ہل، درانتی اور مٹی سے کھُردرائے ہوئے ہاتھ، باتوں میں پیار اور پیاز کی مہک، اور مکھن پلائی ہوئی مونچھ----------- ان سب سے بیک وقت گلے ملنا پڑتا ہے۔ انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ۔
کلام اور اولاد کی شانِ نزول
اس قصباتی مشاعرے میں جو دھیرج گنج کا آخری یادگار مشاعرہ ثابت ہوا، 18 بیرونی شاعروں کے علاوہ 33 مقامی اور مضافاتی شعرا شرکت کے لیے بلائے گئے یا بن بلائے آئے۔ باہر سے آنے والوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو اس لالچ میں آئے تھے کہ نقد معاوضہ نہ سہی، گاؤں ہے، کچھ نہیں تو سبزیاں، فصل کے میوے، پھل پھلاری کے ٹوکرے، پانچ چھ مرغیوں کا جھابہ تو منتظمینِ مشاعرہ ضرور ساتھ کردیں گے۔ دھیرج گنج میں کچھ متفنی نوجوان ایسے بھی تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ گردونواح میں تین چار مشاعرے درہم برہم کر چکے ہیں۔ ان کی مشکیں بشارت نے عجیب انداز سے کسیں۔ ان کے ایک پرانے لنگوٹیے تھے، جنہوں نے میٹرک میں چار پانچ دفعہ فیل ہونے کے بعد ممتحنوں کی ہٹ دھرمی اور جوہر ناشناسی سے عاجز آکر محکمہ چنگی میں ملازمت اختیار کر لی تھی۔ موصوف کو اس سے اپنے تزکیہ نفس کے علاوہ اس بدنام محکمے کو بھی سزا دینی مقصود تھی۔ چنگی کی فضا کو انہوں نے شاعری کے لیے نہایت موزوں و سازگار پایا۔ موجودہ صورتحال سے اس درجہ مطمئن و مسرور تھے کہ اسی پوسٹ سے ریٹائر ہونے کے آرزو مند تھے۔ کثیر العیال تھے۔ نہایت بسیار و بدیہہ گو۔ جو اشعار کی شانِ نزول تھی وہی اولاد کی۔ مطلب یہ کہ دونوں کے ورود و بہتات کا بہتان مبدہ فیاض پر لگاتے تھے۔ عام سا جملہ بھی ان پر ردیف قافیے کے ساتھ اترتا تھا۔ نثر بولنے اور لکھنے میں ان کو اتنی ہی تکلیف ہوتی تھی جتنی ہما شما کو شعر کہنے میں۔
وہ شاعری کرتے تھے مگر شاعروں سے بیزار و متنفر۔ فرماتے تھے “ آج کل جسطرح شعر کہا جاتا ہے بالکل اسی طرح داد دی جاتی ہے۔ یعنی مطلب سمجھے بغیر۔ صحیح داد دینا تو درکنار، اب تو لوگوں کو ڈھنگ سے ہوٹ کرنا بھی نہیں آتا۔ شعر مشاعرے میں سننے سنانے کی چیز نہیں۔ تنہائی میں پڑھنے، سمجھنے، سننے اور سہنے کی چیز ہے۔ کلام کتابی شکل میں ہو تو لوگ شاعر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ میں میر کے کلیات میں سے ایک دو نہیں، سو دو سو اشعار ایسے نکال کر دکھاسکتا ہوں جو وہ کسی مشاعرے میں پڑھ دیتے تو عزّتِ سادات اور دستار ہی نہیں، سر بھی سلامت لے کے نہ لوٹتے۔“ انہیں میر کے صرف یہی اشعار یاد تھے۔ دیگر اساتذہ کے بھی صرف وہ اشعار یاد کر رکھے تھے جن میں ان کے نزدیک کوئی سقم تھا۔ ان صاحب سے بشارت پانچ چھ غیر طرحی غزلیں کہلوا کے لے آئے اور ان مشاعرہ بگاڑ نوجوانوں میں تقسیم کردیں کہ تم بھی پڑھنا۔ اور یہ ترکیب کارگر رہی۔ دیکھا گیا ہے کہ جس شاعر کو دوسرے نالائق شاعروں سے داد لینے کی توقع ہو وہ انہیں ہوٹ نہیں کیا کرتا۔ چوریاں بند کرنے کا ایک آزمودہ طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ چور کو تھانیدار مقرر کردو۔ ہمیں اس میں اس فائدے کے علاوہ کہ وہ دوسروں کو چوری نہیں کرنے دیگا، ایک اور فرق نظر آتا ہے۔ وہ یہ کہ پہلے جو مال وہ اندھیری راتوں میں نقب لگا کے بڑی مصیبتوں سے حاصل کرتا تھا وہ اب مالکان خود تھانے میں رشوت کی شکل میں لا کر برضا و رغبت پیش کر دیں گے۔
بین السّطور سے بین الستّور تک
اسی پروگرام کے تحت پانچ تازہ غیر طرحی غزلیں حکیم احسان اللہ تسلیم سے اس وعدے پر لکھوا لائے کہ جاڑے میں ان کے (حکیم صاحب کے) ماء اللحم کے لیے پچاس تلیر، بیس تیتر، پانچ ہریل اور دو قازیں نزر کریں گے۔ اور بقر عید پر پانچ خصی بکرے آدھے داموں دھیرج گنج سے خرید کر حلوہ کنجشک کے لیے ایک سو ایک نہایت بد چلن چڑوں کے مغز اور ایک درجن سیاہ ریگستانی بچھو (زندہ) خود پکڑ کر رؤسا و والیانِ ریاست کی مبہی ادویات کے لیے بھجوائیں گے ۔× حکیم احسان اللہ تسلیم مول گنج کی طوائفوں کے طبیب خاص تو تھے ہی، گانے کے لیے انہیں فرمائشی غزلیںبھی لکھ کر دیتے تھے۔ کسی طوائف کے پیر بھاری ہوتے تو اس کے لیے بطور خاص بہت چھوٹی بحر میں رَواں غزل کہتے، تاکہ ٹھیکا اور ٹھُمکا نہ لگانا پڑے۔ ویسے اس زمانے میں طوائفیں عموماً داغ اور فقیر، بہادر شاہ ظفر کا کلام گاتے تھے۔ حکیم صاحب کسی طوائف پر مائل بہ کرم ہوتے تو مقطے میں اس کا نام ڈال کر غزل اسی کو بخش دیتے۔ بعض طائفیں مثلاً مشتری، دُلاری، زہرہ معتبر شاعروں سے غزلیں کہلواتیں اور نہ صرف گانے کی بلکہ غزل کہنے کی بھی داد پاتیں۔ حکیم تسلیم طوائفوں کے تلفّظ کی اصلاح بھی کرتے تھے۔ بقیہ چیزیں ماورائے اصلاح تھیں۔ مطلب یہ کہ گو اصلاح طلب تھیں ، لیکن ناقابلِ اصلاح۔ تاہم اس زمانے میں طوائفوں اور ان کے پرستاروں کی اصلاح کرنا ادبی فیشن میں داخل تھا۔ حقیقت میں یہ سماجی سے زیادہ خود مصنف کا نفسیاتی مسئلہ ہوتا تھا، جس کا catharsis (تطہیر) ممکن ہو یا نہ ہو، اس کا بیان خالی از علّت و لذت نہ تھا۔ ذکرِ گناہ، عملِ گناہ سے کہیں زیادہ لذیذ ہوسکتا ہے، بشرطیکہ طویل ہو اور راوی جسمانی اور معنوی دونوں لحاظ سے ضعیف ہو۔ ایمی زولا کی Nana، رسوا کی امراؤ جان ادا، ٹولوز لا ٹریک ( Toulouse Lautrec ) اور دیگا ( Degas ) کی کسبیوں اور قحبہ خانوں کی تصویریں جنسی حقیقت نگاری کے سلسلے کی پہلی کڑی ہیں، جب کہ قاری سرفراز حسین کی “ شاہدِ رعنا “ سے ناصحانہ رنگینی کے ایک دوسرے مرصع و ملذذ سلسلے کا آغاز ہوتا ہے، جس کی کڑیاں قاضی عبدالغفار کے لیلیٰ کے خطوط کی خطیبانہ رومانیت اور زیرِ بحث زندگی سے عالمانہ لاعلمی، غلام عباس کی “ آنندی “ کی پُرکار سادگی اور منٹو* کی بظاہر کھردری حقیقت نگاری لیکن اصلاً inverted romanticism (معکوس رومانیت) سے جا ملتی ہیں۔ ہمارے یہاں طوائف سے متعلق رومانی کہانیوں کی نوعیت بالعموم تحفتہ الطّوائف کی سی ہوتی ہے۔ اس میں طوائف سے متعلق تمام طِفلانہ حیرتوں، خوش گمانیوں، سنی سنائی باتوں اور رومانی تصورات --------- جس سے ملے، جہاں سے ملے، جس قدر ملے ------------- سب کا انبارِ گراں اس طور لگایا جاتا ہے کہ ہر طرف الفاظ کے طوطا مینا پُھدکتے چہکتے دکھائی دیتے ہیں۔ زندہ طوائف کہیں نظر نہیں آتی۔ رومانی ملبے تلے اس کے گھنگھرو کی آواز تک سنائی نہیں دیتی۔ اس طوائف کا خمیر عنفوانِ شباب کی مہاسوں بھری ادھ کچری جزباتیت سے اٹھا ہے، جس کی مہک ریسرچ اسکالروں کی رگوں میں دوڑتی پِھرتی روشنائی کو مدتوں گرماتی رہے گی۔ اس شہرِ آرزو نژاد طوائف نے اپنی chastity belt کی چابی دریا میں پھینک دی ہے اور اب اسے کسی سے --------- حد یہ کہ خود مصنف اور اپنے آپ سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔
وہ سر سے ہے تا ناخنِ پا، نامِ خدا، برف
بات ساٹھ ستّر سال پرانی لگتی ہے، مگر آج بھی اتنی ہی سچ ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ طوائف کو ذلیل اور قابلِ نفرین گر دانتے تھے، مگر ساتھ ہی ساتھ اس کے ذکر و تصّور میں ایک نیابتّی لذّت ( vacarius pleasure ) بھی محسوس کیے بغیر نہ رہتے۔ معاشرے اور طوائف کی اصلاح کے بہانے اس کی زندگی کی تصویر کشی میں ان دونوں متناقض بورژوا جزبوں کی تسکین ہوجاتی تھی۔ اس صدی کے پہلے نصف حصے کا شعرو ادب، بالخصوص فکشن، طوائف کے ساتھ اسی love - hate دُلار دُھتکار کے ادلتے بدلتے تعلق کا عکس ہے۔ اس نے ایک ذو بیانی کو جنم دیا جس میں مذّمت بھی مزے لینے کا حیلہ بن جاتی ہے۔ حقیقت نگاری کے پردے میں جتنی داد طوائف کو اردو فکشن لکھنے والوں سے ملی اتنی اپنے شبینہ گاہکوں سے بھی نہ ملی ہوگی۔ البتہ انگریزی فکشن پچھلے تیس برسوں میں بین السّطور کا گھونگٹ اٹھا کر کھلم کھُلا بین الستّور پر اتر آئی۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------
× ہم نے بشارت سے پوچھا، بھائی، تم نے اتنے سارے چرندے پرندے اور گزندے زندہ پکڑ کر مہیا کرنے کی حامی کیسے بھرلی؟ بولے، جب مجھے سرے سے کچھ سپلائی نہیں کرنا تھا تو پھر !the more the merrier پھر انھوں نے ہمیں تسلی دی کہ یہ جھوٹ انہوں نے غلطی سے نہیں بولا، عادتاً بولا تھا!
* منٹو تو خیر “ الکحلک “ بھی تھا۔ کوئے ملامت کے طواف کی اس غریب کو نہ فرصت اور طاقت تھی، نہ استطاعت اور ہوش۔ اسے اس کوچے کا اتنا ہی ذاتی تجربہ تھا جتنا ریاض خیر آبادی کو شراب خانے کا۔ ہمارے یہاں شاید یہ اتنا ضروری بھی نہیں۔
قبلہ چوں پیر شود۔۔۔۔
مُول گنج میں وحیدن بائی کے کوٹھے پر ایک بزرگ جو ہل ہل کر سِل پر مسالا پیستے ہوئے دیکھے گئے، ان کے بارے میں یار لوگوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ تیس برس پہلے جمعے کی نماز کے بعد وحیدن بائی کے چال چلن کی اصلاح کی نیت سےکوٹھے کے زینے پر چڑھے تھے۔ مگر اس وقت اس قتالہ عالم کی بھری جوانی تھی۔ لٰہذا ان کا مشن بہت طول کھینچ گیا:
کارِ جواں دراز ہے، اب مِرا انتظار کر
وحیدن بائی جب فرسٹ کلاس کرکٹ سے رٹائر ہوئی اور اس مذمّن گناہ سے توبہ کرنے کا تَکلف کیا جس کے لائق اب وہ ویسے بھی نہیں رہی تھی تو قبلہ عالم کی ڈاڑھی سفید ہوکر ناف تک آگئی تھی۔ اب وہ اس کی بیٹیوں کے باورچی خانے کے انتظام اور غزلوں اور گاہکوں کے انتخاب میں مدد دیتے تھے۔ قبلہ چوں پیر شود۔۔۔۔ الخ۔ 1931 میں وہ حجِ بیت اللہ کو گئی تو یہ نو سو چوہوں کے واحد نمائندے کے حیثیت سے اس کے ہم رکاب تھے۔
جو پیدا کسی گھر میں ہوتی تھی دختر
حکیم احسان اللہ تسلیم کا دعویٰ تھا کہ امارت، طبابت اور شاعری انہیں ورثے میں ملی ہے۔ البتہ اوّل الذکر میں نمایاں کمی کا کھلے دل سے اعتراف کرتے تھے۔ ان کے دادا حکیم احتشام حسین رعنا کی قنوج میں اتنی بڑی زمینداری تھی کہ ایک نقشے میں نہیں آتی تھی! اس کا ذکر بڑے فخر و غلو سے کرتے تھے۔ اب نقشے ان کے، اور متعلقہ زمینیں مہاجن کے قبضے میں تھیں۔ حکیم احسان اللہ تسلیم رنگین مزاج رؤسا کا بھی علاج کرتے تھے۔ فقط قارورہ دیکھ کر رئیس کا نام بتا دیتے۔ اور رئیس کی نبض پہ انگلی رکھتے ہی یہ نشان دہی کر دیتے کہ مرض کے جراثیم کس کوٹھے کے آوردہ و پر وردہ ہیں۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ کسی طوائف کے ہاں لڑکا پیدا ہو جائے تو رونا پیٹننا مچ جاتا ہے۔ حکیم تسلیم کے پاس خاندانی بیاض کا ایک ایسا مجرّب نسخہ تھا کہ شرطیہ لڑکی پیدا ہوتی تھی۔ یہ سفوف اس رات کے راجہ یا تماش بینِ خصوصی کو چُپکے سے پان میں ڈال کر کھلا دیا جاتا تھا۔ نسخے کے تیر بہدف ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کانپور میں کسی کی ذاتی بیوی کے ہاں بھی لڑکی پیدا ہوتی تو وہ میاں کے سر ہوجاتی کہ ہو نہ ہو، تم وہیں سے پان کھا کر آئے تھے!
طوائف کتنی بھی حسین و جمیل اور دشمنِ ایمان و ہوش ہو، حکیم صاحب کی نیت صرف اس کے پیسے پر بگڑتی تھی۔ طوائفیں ان سے بڑی عقیدت رکھتی تھیں۔ اور کہنے والے یہاں تک کہتے تھے کہ ان کے مرنے کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہی ہیں تا کہ سنگِ مر مر کا مزار بنوائیں اور برس کے برس دھوم دھام سے عرس منائیں۔
بھکشوؤں کی فینٹسی
مول گنج کا ذکر اوپر کی سطور اور کانپور سے متعلق خاکوں میں جا بجا، بلکہ جا و بے جا آیا ہے۔ اس محلے میں طوائفیں رہتی تھیں۔ لٰہزا تھوڑی سی معذرتی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ یہ بشارت کا دلپسند موضوع ہے، جس سے ہمارے قارئین واقف و منغص ہو چکے ہوں گے۔ وہ ہِر پھر کے اس کے ذکر اذکار سے اپنی سنجیدہ گفتگو میں کھنڈت ڈالتے رہتے ہیں، حالاں کہ بے شک و شبہ وہ دوسرے زمرے کے آدمی ہیں:
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
جیسے بعض الرجک لوگوں کو پِتّی اچھل آتی ہے، اسی طرح ان کی گفتگو میں طوائف----------- موقع دیکھے نہ محل------------- چھم سے آن کھڑی ہوتی ہے۔ تہجد گزار ہیں۔ کبھی کے نانا دادا بن گئے، مگر طوائف ہے کہ کسی طور ان کے سسٹم سے نکلنے کے لیے راضی نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ ہم نے آڑے ہاتھوں لیا۔ ہم نے کہا، حضرت، پرانی داستانوں میں ہیرو اور دیو کی جان کسی طوطے میں ہوتی ہے۔ مگر آپ کی ہر طوطا کہانی میں طوطے کی جان طوائف میں اٹکی ہوتی ہے! کہنے لگے، ارے صاحب! میری داستان پر خاک ڈالیے۔ یہ دیکھیے کہ آج کل کی فکشن اور فلموں میں ہیرو اور ہیروئن سے کون سے نفل پڑھائے جارہے ہیں۔ جس نسخے کے مطابق پہلے طوائف کہانی میں ڈالی جاتی تھی، اب اس ضمن میں شریف گھرانوں کی بہو بیٹیوں کو زحمت دی جاتی ہے۔ پڑھنے والے اور فلم دیکھنے والے آج بھی طوائف کو اسطرح اچک لیتے ہیں جیسے مریض حکیموں کے نسخے میں سے منقٰی!
عرض کیا یہ طبّی تشریح تو طوائف سے بھی زیادہ ancient (پراچین/ قدیم) ہے۔ کون سمجھے گا؟ فرمایا، طوائف کو سمجھنے کے لیے طبِ یونانی سے واقفیت ضروری ہے۔ اور اس کی الٹ بھی درست ہے۔ طب اور طوائف ہمارے ہاں بد قسمتی سے لازم و --- ملزمہ ہیں۔
اور بشارت کچھ غلط نہیں کہتے۔ شاید آج اس کیفیت کا اندازہ کرنا مشکل ہو۔ طوائف اس ڈگمگاتے ہوئے معاشرے کے آسودہ حال طبقے کے اعصاب پر ممنوعہ لذّت کی طرح چھائی ہوئی تھی۔ اور یہ کچھ اس دور ہی سے مختص نہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے دنیا کے سب سے قدیم پیشے کا قلع قمع کرنے کے لیے ایک فرمان جاری کیا تھا کہ ایک مقررہ تاریخ تک تمام طوائفیں نکاح کرلیں، ورنہ ان سب کو کشتی میں بھر کر جمنا میں ڈبو دیا جائے گا۔ بیشتر طوائفیں غرقابی کو ہانڈی چولھے پر اور مگر مچھ کے جبڑے کو ایسے شوہر پر ترجیح دیتی تھیں جو پیار بھی کرتے ہیں تو فرض عبادت کی طرح۔ یعنی بڑی پابندی کے ساتھ اور بڑی بے دلی اور بے رغبتی کے ساتھ! معدودے چند طوائفوں نے اس دھندے کو خیر باد کہہ کر بہ کراہت نکاح کر لیے:
ہوچکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک عقدِ ناگہانی اور ہے
اب ذرا اس کے دوسو برس بعد کی ایک جھلک “ تذکرہ غوثیہ “ میں ملاحظہ فرمائیے۔ اس کے مؤلف مولوی محمد اسماعیل میرٹھی اپنے لائقِ صداحترام پیرو مرشد کے بارے میں ایک معتبر روایت نقل کرتے ہیں: “ ایک روز ارشاد ہوا کہ جب ہم دہلی کی زینت مسجد میں ٹھرے ہوئے تھے، ہمارے دوست کمبل پوش (یوسف خاں کمبل پوش، مصنّف تاریخِ یوسفی/ عجائباتِ فرنگ جو اردو کا اولین سفر نامہ انگلستان ہے) نے ہماری دعوت کی۔ مغرب کے بعد ہم کو لے کر چلے۔ چاندنی چوک میں پہنچ کر ایک طوائف کے کوٹھے پر ہم کو بٹھا دیا اور آپ چنپت ہوگئے۔ پہلے تو ہم نے خیال کیا کہ شاید کھانا اسی جگہ پکوایا ہوگا۔ مگر پھر معلوم ہوا کہ یوں ہی بٹھا کر چل دیا ہے۔ ہم بہت گبھرائے کہ بھلا ایسی جگہ کمبخت کیوں لایا÷ دو گھڑی بعد ہنستا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ میاں صاحب! کہ میں آپ کی بھڑک مٹھانے ہیاں بٹھا گیا تھا۔ بعدہ اپنی قیام گاہ پر لے گیا اور کھانا کھلایا۔“
یاد رہے کہ کمبل پوش ایک آزاد منش، من موجی آدمی تھا۔ یہ قصّہ اس وقت کا ہے جب پیرومرشد کی صحبت میں اسکی قلبِ ماہیت ہوچکی تھی۔ قیاس کیجیے، جس کی خزاں کا یہ رنگ ہو اس کی بہار کیسی رہی ہوگی!
اخیر میں، اس لطیفے کے تخمیناً ڈیڑھ سو سال بعد کے ایک ناخنی نقش* پر بھی اچٹتی سی نگاہ ڈالتے چلیں۔ جوش جیسا قادرالکلام، عالی نسب، خوش ذوق اور نفاست پسند شاعر جب نشاطِ ہستی اور مسرتِ بے نہایت کی تصویر کھینچتا ہے تو دیکھیے اس کا قلم غمزہ رقم کیا گل کھلاتا ہے:
کولھے پہ ہاتھ رکھ کے تھرکنے لگی حیات
کولھے پر ہاتھ رکھ کر تھرکنے میں چنداں مضائقہ نہیں، بشرطیکہ کولھا اپنا ہی ہو۔ دوم، تھرکنا شیشہ ورانہ فرائض میں داخل ہو۔ شوقیہ یا اضطراری نہ ہو۔ مطلب یہ کہ کوئی کولھے پر ہاتھ رکھ کر تھرکنے لگے تو کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ مگر اس سے ذات پہچانی جاتی ہے۔
تو خدا آپ کا بھلا کرے----- اور مجھے معاف کرے------ مول گنج بیسواؤں کا چکلہ تھا۔ اس زمانے میں بھی لوگوں کا چال چلن اتنا ہی خراب تھا جتنا اب ہے، مگر بینائی ابھی اتنی خراب نہیں ہوئی تھی کہ کسبیوں کی بستی کو آج کل کی طرح “ بازارِ حسن“ کہنے لگیں۔ چکلے کو چکلہ ہی کہتے تھے۔ دنیا میں کہیں اور بد صورت رنڈیوں کے کوٹھوں اور بے ڈول بے ہنگم جسم کے ساتھ جنسی امراض بیچنے والیوں کی چکٹ کوٹھریوں کو اس طرح گلیمرائز نہیں کیا گیا۔ “ بازارِ حسن “ کی رومانی اصطلاح آگے چل کر ان ادیبوں نے عام کی جو کبھی زنانِ زودیاب کی بکر منڈی کے پاس سے بھی نہیں گزرے تھے۔ لیکن ذاتی تجربہ غالباً اتنا ضروری بھی نہیں۔ ریاض خیر آبادی ساری عمر شراب کی تعریف میں شعر کہتے رہے، جب کہ ان کی مشروباتی بد پرہیزی بھی شربت اور سکنج بین سے آگے نہیں بڑھی۔ دور کیوں جائیں خود ہمارے ہم عصر شعراء مقتل، پھانسی گھاٹ، جلّاد اور رسّی کے بارے میں للچانے والی باتیں کرتے رہے ہیں۔ اس کے لیے پھانسی یافتہ ہونا ضروری نہیں۔ دادِ عیش دینے اور کوچہ شب فروشاں کے طواف کی ہمت یا استطاعت نہ ہو تو “ ہوس سینوں میں چھُپ چھُپ کر بنالیتی ہے تصویریں۔“
اور سچ یہ ہے کہ ایسی ہی تصویرون کے رنگ زیادہ چوکھے اور خطوط کہیں زیادہ دلکش ہوتے ہیں۔ کیوں؟ محض اس لیے کہ خیالی ہوتے ہیں اجنتا اور ایلورا کے frescoes (دیواری تصویریں) اور مجسّمےاس کی کلاسیکی مثال ہیں۔ کیسے بھرے پُرے بدن بنائے ہیں بنانے والوں نے۔ اور بنانے پر آئے تو بناتے ہی چلے گئے۔گداز پیکر تراشنے چلے تو ہر sensous لکیر بل کھاتی، گدراتی چلی گئی۔ سیدھی سُبک لکیریں آپ کو مشکل ہی سے نظر آئیں گی۔ حد یہ کہ ناک تک سیدھی نہیں۔ بھاری بدن کی ان عورتوں اور اپسراؤں کے نقوش اپنے نقاش کے آشوبِ تخیل کی چغلی کھاتے ہیں: نارنگی کی قاش ایسے ہونٹ - سہار سے زیادہ بھری بھری چھاتیاں جو خود سنگتراش سے بھی سنبھالے نہیں سنبھلتیں۔ باہر کو نکلے ہوئے بھاری کولھے جن پر گاگر رکھ دیں تو ہر قدم پر پانی، دیکھنے والوں کے دل کی طرح بانسوں اچھلتا جائے۔ ان گولائیوں کے خم وپیچ کے بیچ بل کھاتی کمر۔ اور پیٹ جیسے جوار بھاٹے میں پیچھے ہٹتی لہر۔ پھر وہ ٹانگیں جن کی تشبیہ کے لیے سنسکرت شاعر کو کیلے کے تنے کا سہارا لینا پڑا ----- اس وصل آشنا اور نامحجوب بدن کو اس کے حدِآرزو تک exaggerated خطوط اور کھُل کھیلتے اُبھاروں کو ان ترسے ہوئے برہمچاریوں اور بھکشوؤں نے بنایا اور بنوایا ہے جن پر بھوگ بلاس حرام تھا اور جنھوں نے عورت کو صرف فینٹسی اور سپنے میں دیکھا تھا۔ اور جب کبھی وہ سپنے میں اتنے قریب آجاتی کہ اس کے بدن کی آنچ سے اپنے لہو میں الاؤ بھڑک اٹھتا تو فوراً آنکھ کھل جاتی اور وہ ہتھیلی سے آنکھیں ملتے ہوئے سنگلاخ چٹانوں پر اپنے اپنے خواب لکھنے شروع کر دیتے۔
-------------------------------------------------------------------------------------
* ناخنی نقش: Thumb- nailsketch
وہ صورت گر کچھ خوابوں کے
مغرب کا سارا porn اور Erotic Art بھکشو اور راہب کی فینٹسی کے آگے بالکل بچکانہ اور پتلی چھاچھ لگتا ہے۔ ایسے چھتنار بدن اور شاخِ نہالِ آرزو کے یہ دھیان دھوپ میں پکے نار پھل* صرف اور صرف وہ تیاگی اور بھکشو بناسکتے تھے جو اپنی اپنی یشودھرا کو سوتا چھوڑ کر حقیقت اور نروان کی تلاش میں نکلے تھے، پر ساری زندگی بھیگی سیلی تاریک گپھاؤں میں جہاں خواب کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا، پہاڑ کا سینہ کاٹ کاٹ کے اپنا خواب یعنی عورت برآمد کرتے رہے! برس دو برس، جُگ دو جُگ کی بات نہیں، ان گیانیوں نے پورے ایک ہزار برس اسی مِتھُن کلا** میں بِتا دیے۔ پھر جب ساری چٹانیں ختم ہوگئیں اور ایک ایک پتھر نے ان کے جیون سوپن کا روپ دھار لیا اور وہ نشچنت ہو کے اندھیری گپھاؤں سے باہر نکلے تو دیکھا کہ دھرم اور ستیہ کا سورج تو کب کا ڈوب چکا اور باہر اب ان کے لیے جنم جنم کا اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ سو وہ باہر کے اندھیرے اور ہا ہا کار سے دھشت کھا کے آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھے پھر سے بھیتر کے جانے پہچانے اندھیرے میں چلے گئے۔
صدیوں رُوپ سُروپ اور شر نگار رَس کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والے تپسّوی تو مٹّی تھے، سو مٹّی میں جا ملے۔ ان کے خواب باقی رہ گئے۔ ایسے خواب دیکھنے والے، ایسے بھٹکنے اور بھٹکانے والے اب کہاں آئیں گے:
کوئی نہیں ہے اب ایسا جہان میں غالب
جو جاگنے کو مِلا دیوے آ کے خواب کے ساتھ
دیکھیے بات میں بات بلکہ خرافات نکل آئی۔ مطلب یہ کہ بات حکیم احسان اللہ تسلیم سے شروع ہوئی اور کوٹھے کوٹھے چڑھتی اُترتی، اجنتا اور ایلورا تک پہنچ گئی۔ کیا کیجیے، ہمارے یارِ طرح دار کا یہی اندازِ گفتگو ہے۔ چاند اور سورج کی کرنوں سے چادر بن کر رکھ دیتے ہیں۔
ہم نے اس بات میں ان کے خیالات کو حتیٰ الوسع انھی کے الفاظ اور توجہ بھٹکانے والے انداز میں یکجا کر دیا ہے۔ اپنی طرف سے کوئی حک و اضافہ نہیں کیا۔ وہ اکثر کہتے ہیں “ آپ میرے زمانے کے گھٹے گھٹے ماحول، پاکیزہ محرومیوں اور آرزومند پاکیزگی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔“
“ آپ کی اور میری عمر میں ایک نسل کا ----- بیس سال کا ---- تفاوت ہے۔“
بجا کہتے ہیں ان کی اور ہماری نسل کے درمیان طوائف حائل ہے۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------
* نارپھل: گات، چھب تختی اور چھاتیوں کے لیے قدیم اردو میں یہ لفظ بہت عام تھا۔ افسوس کہ بہت سے اور خوب صورت لفظوں کی طرح یہ بھی لسانی وہابیت (puritanism ) اور نک چڑھی ناسخیت کی نذر ہو گیا۔
**مِتھُن کلا: قارئین مِتھُن کے معنی لغت میں تلاش کرنے کی بجائے راجندر سنگھ بیدی کی، اسی عنوان کی شاہکار کہانی “مِتھُن “ ملاحظہ فرمائیں۔ بیدی نے سنگِ خارا کا پورا پہاڑ کاٹ کر ایک بت تراشا ہے۔ اور اس قوت اور ضربت کاری سے تراشا ہے کہ مجال ہے تیشہ ایک ہی جگہ دوبارہ لگ تو جائے۔
Erotic Art کا اردو مترادف مجھے معلوم نہیں۔ اس لیے سرِ دست یہ اصطلاح وضع کرنی پڑی۔
مشاعرہ کس نے لُوٹا؟
جوہرالہ آبادی، کاشف کانپوری اور نشور واحدی کو چھوڑ کر، باقی ماندہ مقامی اور مہمان شاعروں کو تقدیم و تاخیر سے پڑھوانے کا مسئلہ بڑا ٹیڑھا نکلا، کیوں کہ سبھی ایک دوسرے کے ہم پلّہ تھے اور ایسی برابر کی ٹکر تھی کہ یہ کہنا مشکل تھا کہ ان میں کم لغو شعر کون کہتا ہے، تاکہ اس کو بعد میں پڑھوایا جائے۔ بہرحال اس مسئلہ کو اس طرح حل کیا گیا کہ شعرا کو حروفِ تہجی کی الٹی ترتیب سے پڑھوایا گیا، یعنی پہلے یاور نگینوی کو اپنی ہوٹنگ کروانے کی دعوت دی گئی۔ سیدھی ترتیب میں یہ قباحت تھی کہ ان کے استاد محترم جوہر الہ آبادی کو اِن سے بھی پہلے پڑھنا پڑتا۔
مشاعرہ گاہ میں ایک ہڑبونگ مچی تھی۔ خلافِ توقع وتخمینہ گردونواح کے دیہات سے لوگ جوق درجوق آئے۔ دریاں اور پانی کم پڑ گیا۔ سننے میں آیا کہ مولی مجّن کے مخالفوں نے یہ اشغلا چھوڑا ہے کہ محفل کے اختتام پر لڈوؤں اور کھجوروں کا تبرک اور ملیریا اور رانی کھیت (مرغیوں کی مہلک بیماری) کی دوا کی پڑیاں تقسیم ہوں گی۔ ایک دیہاتی اپنی دس بارہ بیمار مرغیاں جھابے میں ڈال کے لے آیا تھا کہ صبح تک بچنے کی آس نہیں تھی۔ اسی طرح ایک کاشتکار اپنی جوان بھینس کو نہلا دُھلا کر بڑی امیدون سے ہمراہ لایا تھا۔ اس کے کٹّے ہی کٹّے ہوتے تھے۔ مادہ بچہ نہیں ہوتا تھا۔ اسے کسی نے اطلاع دی تھی کہ شاعروں کے میلے میں طوائفوں والے حکیم احسان اللہ تسلیم آنے والے ہیں۔ سامعین کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل تھی جنھوں نے اس سے قبل مشاعرہ اور شاعر نہیں دیکھے تھے۔ مشاعرہ خاصی دیر سے یعنی دس بجے شروع ہوا جو دیہات کے دو بجے کے عمل کے برابر تھا۔ جو نوجوان والنٹئیر (جنھیںدھیرج گنج والے بالم بٹیر کہتے تھے) روشنی کے انتظام کے انچارج تھے، انھوں نے مارے جوش کے چھ بجے ہی ہنڈے روشن کردیے، جو نو بجے تک اپنی بہارِ جان افزا دکھا کے گُل ہو گئے۔ ان میں دوبارہ تیل اور ہوا بھرنے اور اس عمل کے دوران آوارہ لونڈوں کو حسبِ مراتب وشرارت گاؤ دُم گالیاں دے دے کر پرے ہٹانے میں ایک گھنٹا لگ گیا۔ ایسا شور وغُل تھا کہ کان پڑی گالی سنائی نہیں دیتی تھی۔ تحصیل دار کو اسی دن کلکٹر نے طلب کرلیا۔ اس کی غیر موجودگی سے لونڈوں لہاڑیوں کو اور شہ ملی۔ رات کے بارہ بجے تک صرف ستائیس شاعروں کا بھگتان ہوا۔ صدرِ مشاعرہ مولی مجّن کو کسی ظالم نے داد دینے کا انوکھا طریقہ سکھایا تھا۔ وہ “ سبحان اللہ! واہ! وا! “ کہنے کے بجائے ہر شعر پر “ مکرر ارشاد “ کہتے۔ نتیجہ یہ کہ 27 شاعر 54 کے برابر ہوگئے! ہوٹنگ بھی دو سے ضرب ہو گئی۔ قادر بارہ بنکوی کے تو مطلعے پر ہی سامعین نے تمبو سر پر اٹھا لیا۔ وہ عاجز آ کر کہنے لگا “ حضرات! سنیے تو! شعر پڑھا ہے۔ گالی تو نہیں دی!“ اس پر حاضرین اور بے قابو ہو گئے۔ قادر بارہ بنکوی نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ایک شخص سے بیڑی مانگ کر بڑے اطمینان سے سلگائی اور باآوازِ بلند کہا “ آپ حضرات کو ذری قرار آئے تو دوسرا شعر عرض کروں۔“ بقول مرزا اردو شاعری کی تاریخ میں یہ پہلا مشاعرہ تھا جو سامعین نے لُوٹ لیا۔
ساغر جالونوی
رات کے بارہ کا عمل ہوگا۔ چارسو سامعین کا طوطی بول رہا تھا۔ مشاعرے کے شور وشغب سے سہم کر گاؤں کی سرحد پر گیڈروں تک نے بولنا بند کردیا۔ ایک مقامی شاعر خود کو ہر شعر پر ہوٹ کروا کے گردن ڈالے جا رہا تھا کہ ایک صاحب چاندنی پر گھنٹوں کے بل چلتے صدرِمشاعرہ تک پہنچے۔ دائیں ہاتھ سے آداب کیا اور بائیں سے اپنی مٹن چانپ مونچھ کو، جو کھچڑی ہوچلی تھی، تاؤ دیتے رہے۔ انہوں نے درخواست کی کہ میں ایک غریب، غریب الدیار آدمی ہوں* مجھے بھی کلامِ ناقص سنانے کی اجازت دی جائے۔ (ایک آواز آئی، ناقص صاحب کا کلام سنوائیے) موصوف نے خبر دار کیا کہ اگر پڑھوانے میں دیر کی گئی تو ان کے مدارج خودبخود بلند ہوتے چلے جائیں گے اور وہ استادوں سے پہلو مارنے لگیں گے۔ انہیں اجازت مل گئی، جس پر انہوں نے کھڑے ہوکر حاضرین کو، دائیں بائیں اور سامنے گھوم کر تین دفعہ آداب کیا۔ ان کی کریم رنگ کی ٹسر کی اچکن اتنی لمبی تھی کہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا تھا کہ انہوں نے پاجامہ پہن رکھا ہے یا نہیں۔ سیاہ مخمل کی ٹیڑھی ٹوپی بھیڑ بھڑ کے میں سیدھی ہو گئی تو انہوں نے اسے اتار کر اس میں پھونک ماری اور تھتکار کر اور بھی ٹیڑھے زاویے سے سر پر جمالی۔
مشاعرے کے دوران یہ صاحب چھٹی صف میں بیٹھے عجیب انداز سے “ ای سبحان اللہ! اے سبحان اللہ!“ کہہ کر داد دے رہے تھے۔ جب سب تالی بجانی بند کر دیتے تو یہ شروع ہو جاتے۔ اور اس انداز سے بجاتے گویا روٹی پکا رہے ہیں۔ فرشی آداب و تسلیمات کے بعد وہ اپنی بیاض لانے کے لیے اچکن اس طرح اٹھائے اپنی نشست تک واپس گئے جیسے خود بین و خود آرا خواتین بھری برسات اور چبھتی نظروں کی سہتی سہتی بوچھار میں صرف اتنے گہرے پانی سے بچنے کے لیے جس میں چیونٹی بھی نہ ڈوب سکے، اپنے پائنچے دو دو بالشت اوپر اٹھائے ایک گوارا ناگواری کے ساتھ چلتی ہیں اور دیکھنے والے قدم قدم پہ دعائیں کرتے ہیں کہ
الہٰی یہ گھٹا دو دن تو برسے
اپنی نشست سے انھوں نے بیاض اٹھائی جو دراصل اسکول کا ایک پرانا رجسٹر حاضری تھا جس میں امتحان کی پرانی کاپیوں کے خالی اوراق پر لکھی ہوئی غزلیات رکھ لی تھیں۔ اسے سینے سے لگائے وہ صاحب واپس صدرِ مشاعرہ کے پہلو میں اپنا کلام سنانے پہنچے۔ ہوٹنگ تھی کہ کسی طرح بند ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ ایسی ہوٹنگ نہیں دیکھی کہ شاعر کے آنے سے پہلے اور جانے کے بعد زوروں سے جاری رہے۔ انھوں نے اپنی ازکارِ رفتہ جیبی گھڑی ایک دفعہ بیٹھنے سے پہلے اور ایک دفعہ بیٹھنے کے بعد بغور دیکھی۔ پھر اسے ڈگڈگی کی طرح ہلایا اور کان سے لگا کردیکھا کہ اب بھی بند ہے یا دھکم پیل سے چل پڑی۔ اس سے فراغت پائی تو حاضرین کو مخاطب فرمایا، حضرات! آپ کے چیخنے سے تو میرے گلے میں خراش پڑ گئی!
ان صاحب نے صدر اور حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک خاص وجہ سے غیر طرحی غزل پڑھنے کی اجازت چاھتا ہوں۔ مگر بوجوہ وہ وجہ بتانا نہیں چاہتا! اس پر حاضرین نے شور مچایا، وجہ بتاؤ، وجہ بتاؤ، نہیں تو بدھو گھر کو جاؤ! اصرار بڑھا تو ان صاحب نے اپنی اچکن کے بٹن کھولتے ہوئے غیر طرحی غزل پڑھنے کی یہ وجہ بتائی کہ جو مصرعِ طرح دیا گیا، اس میں سکتہ پڑتا ہے۔ ثبوت میں انہوں نے تقطیع کر کے دکھا دی۔ مرض کو بروزن فرض باندھا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ یہ مشاعرہ یادگار رہے گا کہ آج کی رات شعرائے کانپور نے غلط العام تلفّظ کو شہرتِ عام اور بقائے دوام بخش دی۔ سامعین کی آخری صف سے ایک باریش بزرگ نے اٹھ کر نہ صرف اس کی تائید کی بلکہ یہ مزید چنگاری چھوڑی کہ الف بھی گرتا ہے!
یہ سننا تھا کہ شاعروں پر الف ایسے گرا جیسے فالج گرتا ہے۔ سکتے میں آگئے۔ سامعین نے آسمان، مصرعِ طرح اور شاعروں کو اپنے سینگوں پر اٹھالیا۔ مولی مجّن نے انگلی کے اشارے سے مولوی بادل(فارسی ٹیچر)کو بلا کر کان میں پوچھا کہ الف کیسے گرتا ہے؟ وہ پہلے تو چکرائے، پھر مثال میں مصرعِ طرح پڑھ کر سنا دیا کہ یوں! ایک ہلڑ مچا ہوا تھا۔ جوہر الہ آبادی کچھ کہنا چاہتے تھے، مگر شاعروں کے کہنے کی باری اب ختم ہو چکی تھی۔ پھبتیوں، ٹھٹھوں اور گالیوں کے سوا اور کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ایسا عالم تھا کہ اگر اس وقت زمین پھٹ جاتی تو بشارت خود کو مع شعرائے دبستانِ کانپور اور مولی مجّن گاؤ تکیے سمیت اس میں سما جانے کے لیے بخوشی آفر کر دیتے۔ اس شاعر اور معترض نے اپنا تخلص ساغر جالونوی بتایا۔
-----------------------------------------------------------------------------
* ہرچند کہ ان کا وطن جالون(خورد) وہاں سے کل اٹھارہ میل دور تھا مگر اگلے وقتوں میں آدمی اپنی میونسپلٹی کی حدود سے باہرقدم رکھتے ہی خود کو غریب الوطن کہنے لگتا تھا۔ اور وطن سے مراد صرف شہر یا قصبہ ہوتی تھی۔ صوبے یا ضلعے کو کوئی بھی اپنا وطن نہیں کہتا تھا۔