آبِ گم ( کار کابلی والا اور الہ دین بے چراغ ۔۔172 صفحہ سے

تھا-" خلیل احمد خان رند سے دریافت فرمایا "معاف کرنا، آپ کی صحت پیدائشی خراب ہے یا بقلم خود خراب کی ہے؟ کیا آپ کے والد بھی نام کے آگے خان لکھتے تھے؟" وہ صاحب کہ روہیل کھنڈ کے اکھڑ پٹھان تھے، سچ مچ بگڑ گئے- کہنے لگے "کیا مطلب؟" بولے "ہم نے تو ویسے ہی پوچھہ لیا- اس واسطے کہ بارہ سنگھا ماں کےک پیٹ سے سینگوں کے جھاڑ سمیت پیدا نہیں ہوتا-" ایک دفعہ بشارت سے پوچھا "آپ ریشمی ازاربند استعمال کرتے ہیں- کھل کھل جانے کے علاوہ اس کے اور کیا فوائد ہیں؟" ایک اور موقعے پر تین چار دوستوں کی موجودگی میں بشارت کو بڑی سختی سے ٹوکا "یاراجی! معاف کرنا- میں تو جاہل آدمی ہوں- مگر یہ آپ دن بھر، آداب عرض!آداب عرض! تسلیمات عرض ہے! کیا کرتے رہتے ہیں- کیا السّلام و علیکم کہنے سے لوگ برا مان جائیں گے؟"

غارِ ہراس پر غارِحرا کا گمان (نعوذباللہ)

اس سے پہلے بشارت نے اس پہلو پر کبھی غور ہی نہیں کیا تھا- سچ تو یہ ہے کہ ادھر ہمارا بھی خیآل ہی نہیں گیا تھا- بشارت نے اپنے والد کو ہمیشہ آداب، تسلیمات ہی کہتے سُنا تھا- اور اس میں انھیں بڑی ملائمت اور نفاست محسوس ہوتی تھی- خان صاحب نے دوسری مرتبہ بھری محفل میں ٹوکا تو وہ سوچ میں پڑ گئے- اب جو پلٹ کر پیچھے دیکھا تو نظروں کے سامنے ایک منظر کے بعد دوسرا منظر آتا چلا گیا-
1- کیا دیکھتے ہیں کہ مغل تاجداروں نے کلاہِ تیموری اور تاشقندی عمامے اُتار پھینکے اور راجپوتی کھڑکی دار پگڑیاں پہن لیں- ظلِ سبحانی ماتھے پہ تلک لگائے فتح پور سیکری کے عبادت خانے میں بیٹھے فیضی سے فارسی رامائن کا پاٹ سُن رہے ہیں- تھوڑی دیر بعد پنڈتوں اور ملاؤں کے مناظرے میں وہ شوروغوغا ہوا کہ یوں لگتا تھا جیسے مست خچر بھڑوں کے چھتے چبا رہے ہیں- اکبرِاعظم مذہب سے اتنا مایوس اور بیزار ہوا کہ ایک نیا مذہب ایجاد کلر ڈالا- وہ اپنی رعایا کو جلد از جلد خوش اور رام کرنے کی غرض سے بھی اپنے آبائی دین سے بیزاری اور لاتعلقی ظاہر کرنا چاہتا تھا- حقیقت یہ ہے کہ بایں جاہ و حشم و شریعت سے بر گشتہ، ملاؤں سے مایوس اور اپنی رعیّت کی اکثریت سے خوف زدہ تھا- رفتہ رفتہ دیں پناہ کو اپنے غارِ ہراس پر غارِ حرا کا گمان ہونے لگا اور اس نے نبوت کا دعویٰ کردیا1 جس
-----------------------------------------------
1 اسلام کے پانچ ارکان ہیں- دین الٰہی میں اخلاصِ چارگانہ کی شمولیت کی شرط تھی- یعنی ترکِ ال، ترکِ جان، ترکِ دین اور ترکِ ناموس- اس دین میں پانچواں رکن اس لیے نہیں تھا کہ چوتھے یعنی ترکِ ناموس کے بعد کچھہ رہ نہیں جاتا-
---------------------------------
پر اس کی اپنی ملکہ جودھا بائی اور ملّا دوپیازہ تک ایمان نہ لائے- اُس نے سب کو خوش کرنے لیے سب مذاہب کا ایک کاک ٹیل بنایا جسے سب نے اسی بنا پر ٹھکرا دیا-
مرے کام کچھہ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی

2- پھر دیکھا کہ سمندِ شب رنگ کی ننگی پیٹھہ پر شبا شب منزلیں مارنے اور ملکوں ملکوں جھنڈا گاڑنے والے مغل سورما اب جمنا کنارے راجپوتی طرز کے درشن جھروکے میں اور لال عماری اور پیچ رنگ مستک والے فیلِ گراں ڈیل پر براجمان نظر آتے ہیں- لُو کے تھپیڑوں نے فرغانہ کے فرغل اُتروا دیے- ململ کے ہوادار انگرکھوں نے زرّہ بکتر کی جگہ لے لی- رفتہ رفتہ فاتحین نے اپنی مادری زبانیں عربی، ترکی اور فارسی ترک کر کے ایک نئی زبان اردو وضع کی جو ابتداً خود ان کے لیے بھی اتنی ہی بدیسی اور اجنبی تھی جتنی ہندوؤں کے لیے فارسی یا ترکی- مکمل عسکری فتح کے بعد حکمران قوم نے اپنی اصل زبان سے دست بردار ہو کر خوش دلی سے ایک نوع کی ثقافتی شکست مان لی، تاکہ ہارنے والے یہ نہ سمجھیں کہ وہ اپنے سکّے کے ساتھہ اپنی مادری زبان بھی مستقلاً رائج کرنا چاہتے ہیں- مسجدوں اور خانقاہوں کے دروازوں اور محر
ابوں پر ہندوؤں کے مقدّس پھول ---- کنول سے منبت کاری ہونے لگی- معرکہ آراؤں کی محفلوں میں تاجکستانی رقص کا وفوروخروش اور سمر قند و بخارا کے شعلہ ور گلو نغمے پھر کبھی سُنائی نہ دیے کہ وقت نے لًے ہی نہیں، نَے و نغمہ بھی بدل کے رکھہ دیے- ماورائے ہند کے صاحبِ کمال رامش گر اور اقصائے فارس کے نادر نوازندگان سبک دست اپنے بربط وچنگ ورباب بغلوں میں دبائے مدّتیں گزریںرخصت ہو گئے- ان کے جانے پر نہ آسمان رویا نہ ہمالیہ کی چھاتی شق ہوئی کہ ان کے قدردانوں نے اب ستار، سارنگی اور مردنگ پر ہندی راگ راگنیوں سے دلوں کو گرمانا سیکھہ لیا تھا-

گنگا جمنی کام

3- لکھنے والی انگلی جو لکھتی چلی جاتی ہے، ثقافتی سمجھوتے کے مرقعے کا ایک اور ورق پلٹ کر دکھاتی ہے- دریائے گومتی کے روپ کنارے رہس کا رسیا، اودھہ کا آخری تاجدار پیروں میں گھنگرو باندھے اسٹیج پر اپنی ہی بنائی ہوئی ہندی دُھن پر نرت بھاؤ بتا رہا ہے- ایک ورق اور پلٹیے تو جمنا کنارے ایک اور ہی منظر نگاہ کے سامنے آتا ہے چند متقّی، پرہیز گار اور باریش بزرگ مسند کی ٹیک
 
لگائے اسبابِ زوالِ امّت، احیائے دین اور ضرورتَِ جہاد پر عربی اور فارسی میں رسالے تحریر کر رہے ہیں، لیکن جب سلام کرنا ہو تو دہرے ہو ہو کر ایک دوسرے کو کورنش، آداب و تسلیمات، بندگی اور مجرا بجا لاتے ہیں- السّلام و علیکم کہنے سے احتراز کرتے ہیں کہ یہ رواج (جو بارہ سو سال سے مسلمانوں کا شعار اسی طرح رہا تھا جیسے"شلوم" امّتِ موموی کی یا "جے رام جی کی" اور "نمسکار" اہلِ ہنود کی پہچان رہی ہے) اب بالکل متروک ہو چکا تھا- نوبت یہاں تک پہنچی کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ خانوادے نے بھی السّلام وعلیکم کہنا ترک کردیا- مؤلف امیرالروایات لکھتا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ کے خاندان کے لوگ جب سلام کرتے تھے تو کہتے تھے عبدالقادر1 تسلیمات عرض کرتا ہے- رفیع الدین 2 تسلیمات عرض کرتاہے- جب ھضرت سیّد احمد بریلوی بیعت کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ پہلے شخص تھے جس نے اُنھیں السّلام و علیکم کہا!3
یہ سب ثقافتی سمجھوتے تسخیروتالیفِ قلوب کی خاطر قرن بہ قرن ہوا کیے، مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ دل کو سمجھانے والی بات تھی- آداب عرض اور آہنگِ خسروی آنے والی رستاخیز میں کسی کی جان ومال کو ----- حتیٰ کہ خود سمجھوتے کی زبان کو بھی---- نہ بچا سکے- وقت نے ایسے تمام دل خوش کن اور آرائشی سمجھوتوں کو خونا بہ برد کر دیا- مخمل وکمخواب کے غلاف گرتی ہوئی دیواروں کو گرنے سے نہیں روک سکتے- چنانچہ وہی ہوا جو ہونا تھا- بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ زبانِ یار تو قلم کر دی جائے، اخلاص ورواداری کا پرچم سر نگوں ہو جائے، مگر کلچر کا کام کارو فتح یاب ہو-
بشارت اکثر کہتے ہیں کہ میں یہ کبھی نہیں بھولوں گا کہ پشاور کے ایک اَن پڑھہ پٹھان کے طعنے نے چار پُشتوں کا پالا پوسا آداب چھڑوا دیا!
--------------------------------------
1 حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی رحمت اللہ علیہ-
2 حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی رحمت اللہ علیہ-
3 حضرت شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ ان کے السّلام و علیکم کہنے سے بہت خوش ہوئے اور حکم دیا کہ آئندہ سلام بطریقِ مسنون کیا جائے- (امیرالروایات)
--
-------------------------------------------

کراچی والے کسی چوزے کو مُرغا نہیں بننے دیتے

خان صاحب بحث کے دوران ہر بات اورہر صورتِ حال کے عموماً دو سبب بتاتے تھے، جن میں سے ایک کی حیثیت محض پخ کی ہوتی تھی-مثلاً ایک دن بشارت نے شکایت کی "کراچی کی صُبح کیسی گدلی گدلی اور مضمحل ہوتی ہے- خود سورج کو نکلنے میں آلکسی آتی ہے- صُبح اُٹھنے کو جی نہیں چاہتا-بدن ایسا دُکھتا ہے جیسے کسی باکسر نے رات بھر اس پر مشق کی ہو- میں کانپور میں مُرغ کی پہلی ہی اذان پر اس طرح اُٹھہ بیٹھتا تھا گویا کسی نے اسپرنگ لگا دیا ہو-" خان صاحب اپنی بریدہ انگشتِ شہادت ان کے گھٹنے کی طرف اُٹھاتے ہوئے بولے کہ "اس کے دو سبب ہیں- پہلا تو یہ کہ کراچی والے کسی چوزے کو مُرغا نہیں بننے دیتے-اذان دینے سے پہلے ہی اُس کا قصّہ تمام کر دیتے ہیں- دوسرا یہ کہ آپ کے اسپرنگ کو گٹھیا ہو گئی ہے- چالیس دن تک دانہ میتھی کی بھجیا کھاؤ اور بوڑھے گھٹنے پر گودر (پنگھٹ) کے پودے کا لیپ لگاؤ- ہمارا پشتو شاعر کہہ گیا ہے کہ پنگھٹ کا ہر پودا دوا ہوتا ہے، کیوں کہ کنواریوں کے پلّو اسے چھوتے رہتے ہیں- میں تو جن بھی کراچی آتا ہوں، حیران پریشان رہتا ہوں- جس سے ملو، جس سے بولو، کراچی سے کچھہ نہ کچھہ گلہ ضرور رکھتا ہے- ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو اپنے شہر پر فخر کرتا ہو- اس کے دو سبب ہیں- پہلا تو یہ کہ یہاں فخر کے لائق کوئی چیز نہیں- دوسرا یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔۔"

دیوارِ گریہ

دوسرا سبب بتانے کے لیے اُنھوں نے اپنی انگشتِ شہادت ابھی سُوئے فلک بلند کی ہی تھی کہ مرزا عبدالودود بیگ بیچ میں کود پڑے- کہنے لگے "صاحب! دوسرا سبب یہ کہ مہاجر، پنجابی، سندھی، بلوچ، پٹھان---- سب اپنے رب کا فضل تلاش کرنے کے لیے یہاں آ آ کر آباد ہوئے-کڑی دھوپ پڑ رہی تھی- سب کے سروں پر کراچی نے مادرِمہربان کی طرح اپنی پھٹی پرانی چادرکا سائبان تان دیا- اُن پر بھی جو بسر کرنے کے لیے فقط ٹھیا ٹھکانہ مانگتے تھے- پھر پسرتے چلے گئے- لیکن سب شاکی، سب آزردہ خاطر، سب برہم- مہاجرہی کو لیجیے- دلّی، لکھنؤ، بمبئی، بارہ بنکی، جونا گڑھہ
 
حد یہ کہ اُجاڑ جھجھنوں (جےپور- راقم الحروف کی طرف اشارہ) کو یاد کر کے آہیں بھرتا ہے- اسے یہ احسا نہیں کہ جنھیں یاد کرکر کے وہ خود پر دائمی رقّت طاری کیے رہتا ہے وہ چھوڑا پوا شہر نہیں، بلکہ اُس کی رُوٹھی جوانی ہے جو لوٹ کر نہیں آسکتی- ارے صاحب! اصل رونا جغرافیہ کا نہیں جوانی اور بیتے سَمے کا ہے جو آبِ حیاتِ امروز میں زہر گھول دیتا ہے-پنجابی جنھیں سب سے پہلے سر سیّد احمد خان نے "زندہ دلانِ پنجاب" کا لقب دیا تھا، جنّت میں پہنچ کر بھی "لہور لہور اے" پکاریں گے- کیں ریساں شہر لہور دیاں- انھیں کراچی ذرا نہیں بھاتا- وہ سندھہ کے چتی دار کیلے، چیکو اور پپیتے میں ملتان کے آم اور منٹگمری کے مالٹے کا مزہ نہ پا کر سچ مچ اُداس ہو جاتے ہیں- فرنٹیر کا گل زمان خان چوکیدار شیر شاہ کالونی کے جونگڑہ1 میں اپنے وطن کے کوہ ودشت ودریا مانگتا ہے-

کوئی نہیں جو اُٹھا لائے گھر میں صحرا کو

وہ صبح دلّی کی نہاری کھاتا ہے- سہ پہر کو سیٹھہ کی کوٹھی کے ایک اوجھل کونے میں مکئی کے بے موسم پودے کو بڑے لاڈ سے پانی دیتا ہے-

پردے وطن پہ ہر چا غم دی
ماپہ پردی وطن کر لی دی گلونہ2


وہ دن بھر پشتو لہجے میں بہیا اردو بولنے کے بعد شام کوٹرانزسٹر پر پشتو گانوں سے دل پشوری کرتا ہے اور رات کو پشاور ریلوے اسٹیشن کو آنکھوں میں بھر کے سڑک کے کنارے جھگی میں سو جاتا ہے- سڑک پر رات بھر پٹاخے چھوڑتی موٹر سائیکل رکشائیں اور دھڑدھڑاتے ٹرک گزرتے رہتے ہیں- پع اسے خواب میں ڈول سُرنا ااور رباب گھڑے پر ٹپّے سُنائےی دیتے ہیں- ادھر کوئٹہ اور زیارت سے آیا ہوا بلوچ کراچی کا نیلا سمندر دیکھتا ہے اور بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور ان فربہ دُنبوں کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جاتا ہے جن کے وہ بڑے خستہ سجی کباب بنا سکتا تھا- اب رہا پرانا سندھی، تو وہ غریب اُس زمانے کو یاد کر کے آہیں بھرتا ہے جب یہ چاروں حضرات کراچی تشریف نہیں لائے تھے-"
اس مرحلے پر بھی آخری کیل خآن صاحب ہی نے ٹھونکی- کہنے لگے، خا! اس کے دو سبب
---------------------------------
1: جونگڑہ (پشتو) جھونپڑی- جھگی

2: مطلب یہ کہ یوں تو پردیس میں ہر شخص غمگین ہوتا ہے، مگر مجھے دیکھو کہ میں نے پرائی زمین میں اپنے پھول کھلا دیے ہیں-
--
--------------------------------------------------
ہیں- پہلا یہ کہ شیخ سعدی کہہ گئے ہیں کہ جس گاؤں کا ہر باشندہ اُٹھتے بیٹھتے، سوت جاگتے، کسی دوسرے گاؤں کی یاد میں تڑپتا رہے، اُس گاؤں کا خانہ خراب ہووے ہی ہووے- ہمارے "ملک" میں اگر کوئی دوسری شادی کے بعد اپنے پہلے خاوند کو اس طرح یاد کرے تو دوسرا خاوند دونوں کی ناک کاٹ کے ایک دوسرے کی ہتھیلی پہ رکھہ دے گا- ملّا کرم علی کہتا تھا کہ جع عورت اپنے پہلے خاوند کو بہت یاد کرے اُسے حنانہ کہتے ہیں-ایسی عورت کے دوسرے خاوند کے لیے پشتو میں بہت برا لفظ ہے-
خان صاحب دقہق مسائل اور زندگی کی گتھیوں کو کبھی کبھی اپنی نا خواندہ سوجھہ بوجھہ سے اس طرح پانی کر دیتے:

کہ کتاب عقل کی طاق میں جوں دھری تھی توں ہی دھری رہی

اصولوں کے مُرغے اور جنگِ زرگری
معاف کیجئے بیچ میں یہ صفحہ ہائے معترضہ آن پڑے- لیکن ان سے فریقین کا مزاج اور قضیے کی نوعیت سمجھنے میں آسانی ہوگی جو اب اتنا طول کھینچ گیا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کو اپنے دلائل کا آموختہ سُناتے ہوئے کبھی کبھی مسکرا دیتے تھے- اب یہ کوئی معمولی کاروباری جھگڑا نہیں رہا تھا- دونوں فریق اپنے اپنے اصولوں کو منطق کی پالی میںمُرغوں کی طرح لڑا رہے تھے-اس شرط کے ساتھہ کہ جس کا مُرغا جیت جائے گا اُسے ذبح کر کے دونوں مل کے کھائیں گے یہ ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب اکثر فرماتے تھے کہ ہارا ہوا مُرغا کھانے سے آدمی اتنا بودا ہو جاتا ہے کہ حکومت کی ہر بات درست معلوم ہونے لگتی ہے- کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب محض تفننِ طبع اور خوش وقتی کے لیے معاملے کو طول دے رہے ہیں، وگرنہ وہ سیرچشم، دوست نواز، وسیع القلب اور فراخ دست آدمی تھے- بشارت کو اس کا بخوبی احساس تھا- اور اس کا بھی کہ خان‌صاحب انھیں جی جان سے چاہتے ہیں اور ان کی بذلہ سنجی سے بےحد محظوظ ہوتے ہیں- دو سال قبل بھی وہ بشارت سے پشاور میں کہہ چکے تھے کہ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کو سامنے بٹھا کر اسی طرح مہینوں آپ کی باتیں سنتا رہوں- بشارت خود بھی خان صاحب کے گرویدہ تھے- دہکتے سرخ انگارہ فولاد سے چنگاریاں اُڑتی دیکھنے میں انھیں بہت مزہ آتا تھا-
ایک طرف تو خان صاحب کی حساب فہمی کی یہ انتہا کہ ایک پائی چھوڑنے میں ان کی پختو پر
 
صفحہ 226-235

حرف آتا تھا- دوسری طرف محبّت و پاس داری کا یہ عالم کہ جہاں بشارت کا پسینہ گرے وہاں اُن کے دُشمن کا خون بہانے کے لیے تیار- بشارت کی دُکان سے ایک ایکسائز انسپکٹر چار سال قبل دس ہزار روپے کی لکڑی اُدھار لے گیا اور ہنوز رقم دبائے بیٹھا تھا- تین سال ہوئے ایک پرونوٹ (تمسک) لکھہ دیا تھا- مگر اب کہتا تھا کہ جاؤ نہیں دیتے- نالش کر کے دیکھہ لو- پرونوٹ کبھی کا خارج المعیاد ہو چکا- بشارت نے منجملہ اپنی اور پریشانیوں کے اس نقصان کا بھی ذکرکیا- دوسرے دن شام کو بعد مغرب خان صاحب اپنے پچیس تیس کمانڈو کی نفری لے کر اُس کے گھر پہنچ گئے- دروازہ کھٹکھایا- انسپکٹر نے کھولا اور سببِ نزول دریافت کیا تو خان صاحب نے کہا کہ ہم وہ کھڑکی دروازے اُکھاڑ کر لے جانے کے لیے آئے ہیں جن میں ہمارے بشارت بھائی کی لکڑی استعمال ہوئی ہے- یہ کہہ کر اُنھوں نے ایک ہی جھٹکے سے دروازے کو قبضے، اسکرو اور ہینڈل سمیت اُکھاڑ کر اس طرح بغل میں دبا لیا جیسے مکتب کے بھگوڑے لڑکے تختی بغل میں ‌دبائے پھرتے ہیں- دیوار پر سے انسپکٹر کے دادا مرحوم کا فوٹو جس کے بارے میں اُنھیں شبہ گزرا کہ اس فریم میں وہی لکڑی استعمال ہوئی ہے، کیل سمیت نوچ کر اپنے ایک لیفٹیننٹ کو تھما دیا- انسپکٹر ایک گھاگ تھا- موقعے کی نزاکت سمجھہ گیا- کہنے لگا، خان صاحب! بندہ ایک معروضہ گوش گزار کرنا چاہتا ہے- خان صاحب بولے، زہ پرہ!1 اب وہ کسی خرگوش کے گوش گزار کرنا---- معروضہ شعروضہ کبھی کا خارج المعیاد ہو چکا- بھرا ہوا پیٹ فارسیاں بولتا ہے- ہوش میں آؤ- رقم نکالو-
رات کے بارہ بجنے میں ابھی چار پانچ منٹ باقی تھے کہ خان صاحب نے دس ہزار کے نئے نوٹوں کی دس گڈیاں ‌لا کر بشارت کے حوالے کر دیں- ان میں سے سات پر ولیکا ٹیکسٹائل ملز کی مہر تھی جو اس انسپکٹر کے حلقئہ رشوت ستانی میں پڑتا تھا- یہی نہیں، اُنھوں نے اس سے اپنے پہلوان کمانڈوز کی رکشاؤں کا کرایہ اور دودھہ کے پیسے بھی بحساب ایک سیر فی کس وصول کر لیے-
خان صاحب گھر والوں میں ایسے گھل مل گئےکہ اکثر شام کو بچّوں کے لیے جو انھیں چچا کہنے لگے تھے، مٹھائی، کپڑے اور کھلونے لے کر جاتے- سب سے چھوٹے کو بہلانے کے لیے، پلنگ پر چت لیٹ جاتے اور پیٹ کو دھونکنی کی طرح پھلا اور پچکا کر اس پر بچّے کو اُچھالتے- پڑوس کے بچّے انھیں دیکھتے ہی ان کے پیٹ کے لیے مچلنے لگتےاور ماؤں کے سر ہوجاتے- خان صاحب نے اب بشارت کے ساتھہ ان کے رشتے داروں کی شادی بیاہ، غمی اور سالگرہ کی تقریبوں میں بھی جانا شروع
---------------------------------
1 : زہ پرہ (پشتو) چھوڑو بھی یار گولی مارو--------------------------------------

کردیا- لیکن بشارت نے کچھہ عرصے بعد اس سلسلے کو یکلخت بند کر دیا، اس لیے کہ انھیں خارجی ذرائع سے معلوم ہوا کہ ان کے (بشارت کے) رشتے داروں کی تمام تر ہمدردیاں خان صاحب کے ساتھہ ہیں! اور ایک دن تو وہ یہ سُن کر بھونچکے رہ گئے کہ ایک ایسے شرّی رشتے دار نے خان صاحب کو بالا بالا مدعو کیا ہے، جس سے ایک عرصے سے بشارت کے تعلقات کشیدہ بلکہ منقطع تھے-
بشارت کو کسی مخبر نے یہ بھی خبر دی کہ خان صاحب دو تین دفعہ چوری چھپے تھانے بھی جا چکے ہیں-اور ایس ایچ او کو قراقلی ٹوپی، ایک بوری اخروٹ، اصلی شہد اور درّے کے بنے ہوئے بغیر لائسنس کے ریوالور کا تحفہ بھی دے آئے ہیں! وہ گھبرائے- اب یہ کوئی نیا پھڈا ہے- اس کے بھی دو سبب ہو سکتے ہیں اُنھوں نے سوچا-

روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر

خان صاحب نے اب خود شیو کرنا اور شلوار میں کمر بند ڈالنا بھی چھوڑ دیا تھا- جیسا ہم پہلے کہیں بیان کر چکے ہیں، خلیفی سائیسی، کوچوانی، ڈرائیوری، کھانا پکانا، بیرا گیری، حجامت، باغبانی، پلمبنگ ----- یہ کہیے کیا نہیں آتا تھا- اس فن میں بھی طاق تھا جو ان سب سے فائدہ مند ہے--- مصاحبی اور خوشامد- جب سب ضمنی دھندے ٹھپ ہو جاتے تو خلیفہ اپنے بنیادی پیشے کی طرف رجوع کرتا- اپنے بیٹے کو جو آبائی پیشے سے متنفر و محجوب تھا، اکثر نصیحت کرتا تھا کہ بیٹا حجّام کبھی بے روزگار نہیں رہ سکتا- حجّام کی ضرورت ساری دنیا کو رہے گی- تا وقتے کہ ساری دنیا سِکھہ مذہب اختیار نہ کر لے! اور سِکھہ یہ کبھی نہیں ہونے دیں گے- خلیفہ دن رات خان صاحب کی خدمت میں جُتا رہتا- شام کو ان کے دوستوں کا غول کوہستانی ڈیرے ڈالتا تو لپک جھپک اندر سے قہوہ اور چلّم بھر بھر کے لاتا- ایک دفعہ اپنے گھر سے چار اصیل مُرغوں کی۔ جنھوں نے اذان دینی نئی نئی سیکھی تھی، بریانی بنا کر لایا- اُن کے متعلق اُس کا دعویٰ تھا کہ جب یہ پٹھے علی الصبح گردن پُھلا پُھلا کر اذان دیتے تو سارے محلّے کی مپرغیاں بے قرار ہو کر باہر نکل پڑتی تھیں- اُس نے یہ بھی کہا کہ جب وہ گورنر جنرل ہاؤس میں مالی کے عہدے پر فائز تھا تو اُس نے اپنی آنکھوں سے خواجہ ناظم الدین کو متوفّین کے والد کا روسٹ کھاتے دیکھا- پرائم منسٹر محمّد علی بوگرہ نے عالیہ سے (دوسری) شادی کے بعد متوفّی
 
مُرغ کی سوگوار بیوگان کے انڈوں کا مقوی حلوہ بنا کر نوش کیا- ایک دن کوہاٹ کی اراضی کا ایک تنازع طے ہونے کی خوشی میں وہ فریقین کے لیے مسلّم بھیڑ روسٹ کر کے لایا- ثبوت میں بکرے کی کٹی ہوئی دُم بھی اُٹھا لایا تاکہ خان صاحب کو شبہ نہ گزرے کہ بکرے کی بجائے سستی بھیڑ بھون کے بھیڑدی(اس رعایتِ لفظی پروہ دل ہی دل میں بہت خوش ہوا) خان صاحب اُسے دیکھتے ہی بولے کہ اتنی چھوٹی ران والے بکرے کی اتنی بڑی دُم نہیں ہو سکتی! دُم کے اس پہلو پر خلیفہ کی نظر نہیں گئی تھی- چنانچہ ہاتھہ جوڑ کر کھڑا ہو گیا- پھر خان صاحب کے گھٹنے پکڑ لیے اور جھوم جھوم کر ٹانگ دبانے لگا- اُنھوں نے یہ کہہ کر چُھڑائیکہ بد بختا! گھٹنا پکڑتے پکڑتے اب میری ران کیوں ‌ٹٹول رہا ہے؟
خان صاحب کو خلیفہ کے پکائے ہوئے کھانوںسے زیادہ اُس کی لچھے دار باتوں میں آتا تھا- فرماتے تھے، جس بات کو کہنے والا اور سُننے والا دونوں ہی جھوٹ سمجھیں، اُس کا گناہ نہیںہوتا- وہ اس کی شیخی کو بڑھاوا دیتے- وہ ہر دوسرے تیسرے دن، اُن کے تلوؤں پر روغنِ بادام کی مالش کرتا- کہتاتھا، اس سے دماغ کو ترواٹ پہنچتی ہے- ایک دن اچانک خان صاحب کو کچھہ خیال آ گیا- کہنے لگے، کیا تیرے خیال میں میرا مغز میرے تلوؤں میں اُترآیا ہے؟ لیکن خلیفہ ٹھیک ہی کہتا تھا، اس لیے کہ سات آٹھہ منٹ بعد ہی خان صاحب ریوالور تکیے کے نیچے رکھے، زور زور سے خرّوٹے لینے لگتے- ہر تین چار منٹ بعد چونکتے اور خرّاٹوں میں نیا سُر لگا کر پھر سے سو جاتے- ایک دن وہ بڑے اونچے سُر میں خرّاٹے لے رہے تھے کہ پیر دباتے دباتے خلیفہ کا ہاتھہ نہ جانے کیوں اُن کی واسکٹ کی جیب پر پڑ گیا- آنکھیں کھولے بغیر کہنے لگے کہ بد بختا! نبدی تو میرے کوٹ کی جیب میں ہے!
دراصل وہ اُن کے منہ لگ گیا تھا- خدمت گار، درباری، چلّم بھرنے والا، حجّام، داستان گو، میر مطبخ، اردلی، گائیڈ، مخبر، مشیر-----وہ اُن کا سبھی کچھہ تھا- تین چار دب سے آپس میں نہ جانے کیا مسکوٹ ہو رہی تھی- روزانہ شام کوبھی کی نہ کسی بہانے سے بشارت کے ہاں آجاتا- ان کی بیگم نے دو تین دفعہ کہا کہ اس کا آنا مصلحت اور نحوست سے خالی نہیں-

آدم خور شیر کو پہچاننے کی آسان ترکیب
ایک دن صبح اُٹھتے ہی خان صاحب نے اچانک یہ تجویز پیش کی کہ اب تک جو رقم آپ نے دی ہے اسی منھا کرنے کے بعد جو رقم واجب الادا بنتی ہے اس کے عوض یہ گاری جو عرصئہ دراز سے بیکار کھڑی ہے مجھے دے دیجیے- بشارت نے کہا، لکڑی کی اصل مالیت کسی طرض سات ہزار سے زائد نہیں، جبکہ اس گاڑی کی قیمت، مع نئی باڈی اور نئے پرزوں کے کسی طرح نو پزار سے کم نہیں- مزید برآں جس انگریز کی سواری میں یہ رہتی تھی اُسے سر کا خطاب ملنے والا تھا- خان صاحب نے جواب دیا، آپ کی گاڑی بہت سے بہت پانچ ہزار کی ہو گی، جبکہ میری لکڑی نو ہزار کی تھی-آپ نے تو پٹرول اور پنلچر جوڑنے کا تمام خرچہ، خلیفہ کی تنخواہ اور اُس کی زوجہ کا دین مہر بھی کار کی قیمت میں جوڑ دیا- بہت کچھہ بحثا بحثی اور"گھڑ سودے بازی" کے بعد واجب الادا رقم کا فرق گھٹ کر وہیں آ گیاجہاں سے قضیہ شروع ہوا تھا- یعنی 3-9-2513 اب خان صاحب اس کلیم کے عوض یہ گاڑی چاہتے تھے-
"خان صاحب آپ بزنس کر رہے ہیں یا بارٹر (birter)" بشارت نے جھنجھلا کر پوچھا-
"یہ کیا ہوتا ہے صیب؟"
"وہی جو آپ کرنا چاہتے ہیں-"
"پشتو میں اس کے لیے بہت برا لفظ ہے-"
وہ جب پشتو کا حوالہ دے دیں تو پھر کسی کی ہمّت نہیں ہوتی تھی کہ اصل یا ترجمے کی فرمائش کرے- اکثر فرماتے تھے کہ پشتو منّت و زاری اور فریاد وفغاں کی زبان نہیں- نر آدمی کی للکار ہے- مطلب یہ تھا کہ ڈنکے کی چوٹ پر بات کرنے، کچھار میں غافل سوتے ہوئے شیر کی مونچھیں پکڑ کر جگانے اور پھر اس سے ڈائیلاگ بولنے کی زبان ہے- مرزا اُس زمانے میں کہتے تھے کہ خان صاحب اُن لوگوں میں سے ہیں جو شیر کی مونچھیں اُکھاڑنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اُس کے منہ میں اپنا سر دے کر یہ علمی تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ویجی ٹیرین ہے یا آدم خورا-

"وٹّہ سٹّہ"
بشارت نے خان صاحب کی آسانی کے لیے بارٹر کہ تبادلۃ جنس کہنا شروع کر دیا- پھر اس کا مفہوم سمجھایا- طول طویل تشریح سُن کر بولے "یارا جی! تو پھر سیدھا سیدھا وٹّہ سٹّہ کیوں نہیں کہتے جس میں ہر فریق یہی سمجھتا ہے کہوہ گھاٹے میں رہا-"
اور یہی بھونڈی مثال برہانِ قاطع ثابت ہوئی- اسی پر تصفیہ ہوگیا- خان صاحب نے بڑی
 
بڑی خوشی اور فخر سے اعلان کیا کہ وہ "جنسی تبادلے" کے لیے تیار ہیں- دونوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور اس طرح گلے ملے جس طرح دو دکھیارے ملتے ہیں جو ایک دوسرے کے بہنوئی بھی ہوتے ہیں- اور سالے بھی-
لیکن بشارت دل ہی دل میں خوش تھے کہ کھٹارا گاڑی سات ہزار میں بک گئی- خان صاحب اب سے بھی زیادہ خوش کہ دلدز لکڑی کے عوض نو ہزار کی کار ہتھیا لی- دونوں فریق اس صورتِ حال کو حق کی فتح سمجھہ رہے تھے، حالانکہ ہم سے دل کی بات پوچھیں تو باطل نے باطل کو پچھاڑا تھا- اور کوڑے کرکٹ کا تبادلہ کوڑے کرکٹ سے ہوا تھا-خان صاحب کار کو چمکارتے ہوئے کہنے لگے "ہم اس کو طورخم لنڈی کوتل کا سیر کرائے گا-اخروٹ کے درخت کے سائے میں کھڑا کرے گا- اس میں کابل سے قراقلی، قالین اور چلغوزے بھر کے لائے گا- کابل کے شمال کے ایک چلغوزے میں، ایمان سے، نکاح کے دس چھوہاروں کے برابر طاقت ہوتا ہے!"
تصفیہ ہوتے ہی خان صاحب نے تازہ تازی سیکھی ہوئی لکھنؤی اردو اور کانپوری لہجے کے شکنجے سے خود کو ایک ہی جھٹکے میں آزاد کرا لیا- چرب زبان دشممن پر فتح پانے کے بعد "کیمو فلاژ" کی ضرورت نہ رہی-
ازبس کہ خان صاحب کے نزدیک مشکی سے بہتر دنیا بلکہ پل صراط پر بھی کوئی سواری نہیں ہو سکتی تھی، وہ اس کار کو جو اب اُن کی ہو چکی تھی، مشکی کہنے لگے تھے-

تاریخِ بالو شاہی

بشارت نے چوری چھپے دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی- مگر خان صاحب سے اپنی خوشی چھپائے نہ چھپ رہی تھی-وہ ہرچند رائے روڈ پر سے گزرتے ہوئے تانگوں کے گھوڑں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھہ رہے تھےکہ یہ لمحہ غلبہ و نصرت کا تھا- دشمن کے گھر کے چوگرد گھوڑے پر شہ گام 1
---------------------------------
1 شہ گام: بھٹی مختار مسعود صاحب نے کہ صاحبِ طرز انشا پرواز ہونے کے علاوہ شہ سواری میں بھی پائے طولی رکھتے ہیں، ہمیں بتایاکہ یہ وہ باوقار اور cerermonial چال ہے جو گھوڑا اُس وقت چلتا ہےجب بادشا اس پر سوارہو- پیٹ کا(بادشاہ کے) پانی نہیں ہلنے پاتا- ہمارے جن نوجوان پڑھنے والوں نے کببھی کوئی بادشاہ، شاہی گھوڑا یا خود جناب مختار مسعود کی چال نہیں دیکھی وہ "آواز دوست" میں ان کے الوب قلم کا طرزِخرام ملاحظہ فرمائیں- اس پر سوار لیلِ معنی کے پیٹ کا پانی نہیں ہلنے دیتے- البتہ قاری گھنٹوں ہلتا رہتا ہے--------------------------------
نکلنے کی گھڑی تھی- ضبط نہ ہو سکا تو سرِ دست مشکی کے زانو یعنی کار کے مڈ گارڈ کو تھپتھپا کر دل کے حوصلے نکالے- انجن کی تھوتھنی پر ہاتھہ رکھہ کر شاباشی دی- اُن کا بس چلتا تو اُسے گھاس دانہ کھلا کر اپنے ہاتھہ سے کھریرا کرتے- کچھہ دیر بعد جیسے ہی ایک تانگے والے نے اسپنسر آئی ہسپتال کے سامنے درخت کے سائے میں گھوڑا کھولا، وہ لپک کر اُس پر جا چڑھے- اور بشارت کی دکان کے دکان کے دو چکر لگائے- پھر بشارت ہی سے ٹھنڈا پانی منگوایا اور سر پر اس کے تریزوں کے بعد سات سیر بالو شاہی منگوا کر تقسیم کی- بشارت کے ترین رشتے داروں کے حصّے لگا کر خود پہنچوائے-بشارت دنگ رہ گئے- حد ہو گئی- انتہائی بد گُمانی کے عالم میں بھی انھیںکبھی ان تینوں پر شبہ نہیں گزرا تھا ایسےمثٰئنی اور منافق نکلیں گے- درپردہ خان صاحب سے مل جائیں گے- بہرکیف بالو شاہی کے ذریعے مانفقت کا بھانڈا پھوٹنے کی تاریخ میں یہ پلی مثال تھی- ہمارا مطلب ہے بالو شاہیوں کی تاریخ میں!
نیاز مندانِ بنّوں نے رائفلیں چلا چلا کر اعلانِ صلح کیا- ایک پڑوسی دکاندار دوڑا دوڑا بشارت کو مبارک باد دینے آیا- وہ یہ سمجھا کہ ان کے ہاں ایک اور بیٹا ہوا ہے-
ایک ٹرک ڈرائیور سے جو دکان پر پڑتل لکڑی کی ڈلیوری لینے آیا تھا، خان صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ ذرا ہمیں ہماری کار میں گوردھن داس مارکیٹ تک سیر تو کروادو- تمہارے چائے پانی کا بندوبست ہو جائے گا- کچھہ دیر بعد لوٹے تو کار کی کارکردگی سے بے انتہا خوش تھے- کہنے لگے خدا کی قسم! بالکل والد کے مشکی کی طرح ہے!
ایک پینٹر کو بلا کر راتوں رات کار پار سیاہ اسپرے پینٹ کروایا تاکہ عادات کے علاوہ شکلاً بھی مشکی سے مشابہت مکمل ہو جائے-

"!Et,tu,Brute"

دوسرے دن بشارت دکان کے شٹر بند کروا رہے تھے کہ سامنے ایک ٹرک آکررکا جس میں ڈرائیور کے پہلو میں تھانے کے منشی جی بیٹھے تھے اور پیچھے ان کی چوری شدہ لکڑی کے علاوہ رشوت میں پیش کردہ لکڑی بھی لدی تھی- تختوں پر وہی رائفل بردار کانسٹیبل ٹنگا تھا- خان صاحب نے ایک ڈی ایس پی کے توسط سے جو بنّوں کا رہنے والا، ان کا گرائیں تھا، نہ صرف سارا مال شیر کے منہ سے نکلوا لیا تھا بلکہ اُس کے دانت بھی تبرکاً نکال لائے تھے- ٹرک کے پیچھے پیچھے ایک ٹیکسی میں (جو شارع
 
عام پر اپنی عقب میں مقررہ مقدار سے زیادہ دھواں خارج کرنے کی بنا پر ابھی ابھی پکڑی گئی تھی) وکیل صاحب پہنچے، تاکہ باہمی صلح صفائی ہو جائےاور معاملہ رفع دفع ہو جائے- ان سے چند قدم کے فاصلے پر وہی ملزم نما موکل ایک ہاتھہ میں ان کا بریف کیس تھامے اور دوسرے میں قانون کی کتابیں اُٹھائے پیچھے چل رہا تھا-وکیل صاحب کے ہاتھہ میں مٹھائی کے دو ڈبّے تھے-ایک خان صاحب کو پیش کیا ور دوسرے مے بارے میں بشارت سے فرمایا کہ میری جانب سے بھابی اور بچّوں کو دے دیجیے گا-
تھانے کے منشی جی نے پوچھا ہمارا خلیفہ کہاں ہے؟ بشارت کو یہ معلوم کر کے بڑا شاک ہوا کہ پولیس لاک اپ میں رات گزارنے کے بعد سے خلیفہ مہینے دو بار تھانے جاتا رہا ہے- اور ایس ایچ او سے کر زیرِ حراست ملزموں تک کی حجامت بناتا رہا ہے! تھانے کے اسٹاف میں یا کسی حوالاتی ملزم کے ہاں مستقبیلِ قریب یا بعید میں ولادت ہونے والی ہو، یا تھانے کے نواحی علاقے کی جھگیوں میں کوئی عورت بھاری قدموں سے چھلتی ہوئی نظر آجائے تو اُس سے پکّا وعدہ کر لیتا کہ اگر لڑکا ہوا تو ختنے میں کروں گا- اس کے والد مرحوم کی وصّیت تھی کہ بیٹا اگر تم بادشاہ بھی بن جاؤ تو اپنے آبائی پیشے کو نہ چھوڑنا-دوم جس کسی سے ملو اس کو ہمیشہ کے لیے اپنا کر رکھو یا اُس کے ہو رہو- سو وہ غریب سب کا ہو رہا-
خان صاحب رات کے دو بجے تک قرضوں اور "پولا" توڑ کر کھیتوں کو پانی دینے کے سرسری مقدّمات، جن میں گالی گلوچ کی آمیزش سے پیچیدگیاں پیدا ہو گئی تھیں، نمٹاتے رہے- اثنائے سماعت و انفصالِ مقدّمات میں لوگ جوق در جوق ان کو خدا حافظ کہنے آتے رہے- عدالت ہر ایک کو میلمہ راغلے پخیر کہہ کر چائے، چلّم، چلغوزے اور بالو شاہی سے تواضع کرتی رہی- صبح چار بجے سے خان صاحب نے اپنا سامان باندھنا شروع کر دیا- فجر کی اذان کے بعد ایک اصیل مُرغ کو قبلہ رو کر کے قربانی کی- اُس کا سر بلّی اور باقیات گھر والوں کو ناشتے پرکھلائیں- دل خود چبایا- مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کسی بڑے موذی پر فتح حاصل ہو تو تو ہمارے قبیلے کا دستور ہے کہ گائے ذبح کرتے ہیں-دشمن گیا گزرا ہو تو دُنبے پر ہی اکتفا کرتے ہیں- ناشتے پر ہی اعلان کیا کہ مشکی، مال گاڑی سے نہیں جائے گی بلکہ میں اسے پنجاب کی سیر کراتا، دریاؤں کا پانی پلاتا،"بائی روڈ" لے کر جاؤں گا- بچّے اۃن کے جانے سے بہت اُداس تھے- اُنھوں نے خود بھی اقرار کیا کہ میرا بھی جانے کو جی نہیں چاہتا- مگر کیا کروں، لکڑی کا کاروبار وہیں ہے- اگر کراچی میں جنگلات ہوتے تو خدا کی قسم تم لوگوں کو چھوڑ کر ہرگز نہ جاتا- پھر اُنھوں نے ڈھارس بندھائی کہ انشاءاللہ دو مہینے بعد پھر آؤں گا- ایک بوہری سیٹھہ سے وصولی کرنی ہے- اکیلا آدمی ہوں- ایک وقت میں ایک ہی بے ایمان سے نمٹ سکتا ہوں-
بشارت کو مسکراتا دیکھہ کر خود بھی مسکرا دیے- ارشاد فرمایا، کراچی میں اُدھار پر بزنس بیوپار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کماد (گنّے) کے کھیت میں کبڈّی کھیلنا، جتنا بڑا شہر ہوگا اُتنا ہی بڑا گھپلا اور پھڈّا ہوگا- جس کی چھت زیادہ بڑی ہے اُس پر برف بھی زیادہ گرے گی-
پھر سب سے چھوٹے بچّے کو بہلانے کے لیے چارپائی پر لیٹ گئے-
چلتے وقت اُنھوں نے بشارت کی بیٹی منیزہ کو جو اُن کی چہیتی ہو گئی تھی پانچ سو روپے دیے- یہ اُس کی پانچویں سالگرہ کا تحفہ تھا جو آٹھہ دن بعد منائی جانے والی تھی-
3-9-73 روپے نوکروں میں تقسیم کیے- اس سے قبل، گزشتہ شب وہ ایک پٹھان نوجوان گل داؤد خان کو دو ہزار روپے دے چکے تھے تاکہ وہ اپنے چچا پر جس نے اُس کی زمینوں پر قبضہ غاصبانہ کر رکھا تھا کوہاٹ جا کر فوجداری مقدّمہ دائر کرے اور اس ونے کو یتیموں کی جائیداد پر قبضہ کرنے کی ایسی سزا دلوائے کہ سب چچاؤں کو عبرت ہو-ان تینوں رقموں کا حاصل جمع 3-9-2573 بنتا ہے- اور یہی وہ رقم تھی جس کا سارا جھگڑا تھااور جس کی وصولی کے لیے اُنھوں نے اپنے کمانڈوز اور بہیرو بنگاہ سمیت لشکر کشی کی تھی-بلکہ بقول مرزا، غنیم کے قلعے کے قلب میں تمبو تان کر بھنگڑا ڈال رکھا تھا-
اس قضیے کو تیس سال پونے کو آئے- ہماری ساری عمر حساب کتاب ،میں ہی گزری ہے- مگر ہم آج بھی یہ نہیں بتا سکتے کہ در حقیقت کس کی کس پر کتنی رقم نکلتی تھی اور آخر میں جیت کس کی رہی- ہماری ہی سمجھہ کا قصور تھا- جنہیں ہم حریف سمجھے، وہ دراصل حلیف اور دوست نکلے اور--- حسابِ دوستاں درِدل-1
خان صاحب نوکروں کو دے دلا کر بشارت کے والد کو خدا حافظ کہہ رہے تھے کہ بشارت کیا دیکھتا ہے کہ ٹھیک نو بجے ایک شخص چلا آ رہا ہے جس کا صرف چہرہ خلیفہ سے ملتا ہے-تنگ موری کے پاجامے، ململ کے کُرتے اور مخمل کی ٹوپی کی بجائے ملیشیا کی شلوار اور کُرتا- سر پر زری کی کلاہ پر مشہدی پگڑی، کامدار واسکٹ- پیرمیں ٹاےر کے تلے والی پشاوری چپل- واسکٹ اور کلاہ
-----------------------------

1 مرزا عبدالودود بیگ کہ دوستوں کو قرض دے دے کر رقم اور دوست دونوں سے بار بار ہاتھہ دھو چکے ہیں- قدرے تصّرف کے ساتھہ حسابِ دوستاں دردِ دل کہتے ہیں-
 
بالترتیب تین سائز بڑی اور چھوٹی تھی- کوٹ کی آستین پر امام ضامن- ہاتھہ میںں بلبن1 گھوڑے کی لگام- خان صاحب نے مطلع کیا کہ بلبن بھی ایک ٹرک میں بنّوں جا رہا ہے- اُن کے اصطبل میں جہاں پانچ گھوڑے بیکار کھڑے ہنہنا رہے ہیں وہاں ایک ار سہی- ہر جانور اپنے حصّے کا رزق ساتھہ لاتا ہے-
خان صاحب نے اعلان کیا کہ مشکی کو خلیفہ ڈرائیو کر کے پشاور لے جائے گا اور تا قیامت واپس نہیں آئے گا، جس کے دو سبب ہیں- پہلا تو یہ کہااس کے بزرگ قندھار سے براہِ پشاور واردِ ہندوستان ہوئے تھے- زادِ سفر میں ننگی تلوار کے سوا کچھہ نہ تھا- سو یہ بھی کثرتِ استعمال سے گِھس گِھسا کر اُسترا بن گئی! دوسرا یہ کہ اُنھوں نے اس نمک حلال کو ملازم رکھہ لیا ہے-
بشارت کا منہ پھٹا کا پھٹا رہ گیا-
"خلیفے! تم۔۔۔۔۔۔!"
"سرکا!۔۔۔۔۔" اُس نے اس انداز سے ہاتھہ جوڑ کر گھگیاتےہوئے کہا کہ کسی عذرووضاحت کی ضرورت نہ رہی- اس میں خجالت بھی تھی- لجاجت بھی- اور بہر طور روٹی کما کھانے کا حوصلہ بھی-

جب عمر کی نقدی ختم ہوئی

خان صاحب کے جانے کے کوئی چھہ سات ہفتے بعد ان کا املا کرایا ہوا ایک خط موصول ہوا- لکھا تھا کہ "بفضلِ خداوندی یہاں ہر طرح سے خیریت ہے- دیگر احوال یہ کہ میں نے اپنے دورانِ قیام میں آپ کو بتانا مناسب نہ سمجھا کہ ناحق آپ ترددّ کرتے اور صحبت کا سارا لطف کرکرا ہو جاتا- پشاور سے میری روانگی سے تین ہفتے پیشتر ڈاکٹروں نے مجھے جگر کا سروسس بتایا تھا- دوسرے درجے میں، جس کا کوئی علاج نہیں- جناح ہسپتال والوں نے بھی یہی تشخیص کی- ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ ہر وقت اپنا دل پشوری کرتے رہو- خود کو خوش رکھو اور ایسے خوش باش لوگوں کے ساتھہ زیادہ سے زیادہ وقت گزارو جن کی صحبت تمہیں بشاش رکھے- بش یہی تمہارا علاج اور خاب ژوند (میٹھی زندگی) کا نسخہ ہے- یارا جی! میں بچّہ نہیں ہوں- جو اُنھوں نے کہا وہ میں سمجھہ گیا اور جو نہیں کہا وہ بھی
--------------------------------
1 بلبن: ملاحظہ ہو "اسکول ماسٹر کا خواب"--------------------------------------------
بخوبی سمجھہ گیا- یہ مشورہ تو کوئی طبلہ بجانے والا بھی مفت دے سکتا تھا- اس کے لیے ایم آر سی پی اور ایف آر سی ایس ہونے اور جگہ بے جگہ ٹونٹی لگا کر دیکھنے کی ضرورت نہیں-"
"میں نے لنڈی کوتل سے لانڈھی تک نگاہ ڈالی- آپ سے زیادہ محبّتی، خود خرسند رہنے اور دوسروں کا دل شاد کرنے والا کوئی بندہ نظر نہیں آیا- چنانچہ میں ٹکٹ لے کر آپ کے پاس آگیا- باقی جو کچھہ ہوا وہ طبیعت کی زنگ اُتارنے کا بہانہ تھا- جتنے دن آپ کے ساتھہ گزرے اتنے دنوں سے میری زندگی بڑھہ گئی- خدا آُ کو اسی طرح شادمان اور مجھہ پر مہربان رکھے- آپ کو میری وجہ سے جو تکلیف ہوئی اُس کی معافی مانگنا لکھنؤی تکلّفات میں شامل ہوگا، جو مجھہ جیسے جاہل کے بس کا کام نہیں- مگر دوستی میں تو یہی کچھہ ہوتا ہے-میرا دادا کہتا تھا کہ فارسی میں ایک مثل ہے کہ یا تو ہاتھی بالوں سے دوستی مت کرو- اور اگر کر لی ہے تو پھر اپنا مکان ایسا بنواؤ جو ہاتھیوں کی ٹکر سہہ سکے-"
" ایک ٹرک والے کے ہمراہ مردان کا دس سیر تازہ گُڑ جس میں نئی فصل کے اخروٹوں سے مغز کاری کی گئی ہے، سوات کے شہد کے تین چھتّے قدرتی حالت میں بمعہ مومِ اصلی۔ مگسِ مروہ اور ایک صراحی دار گردن والی ٹوکری میں بیس فضلی بٹیرے روانہ کرت رہا ہوں- یوسفی صاحب کے لیے اُن کا پسندیدہ پشاور کینٹ والی دُکان کا دو سیر تازہ پنیر اور پنڈی کا پنٹرز بیف ایک نازک سی ہوا دار ٹوکری میں ہے- چلتے وقت اُنھوں نے گندھارا تہذیب کے دو تین اعلٰی نمونوں کی فرمائش کی تھی- کچھہ تو روانگی کی افراتفریح پھر میں جاہل آدمی- یہاں اپنے ہی جیسے دو تین دوستوں سے پوچھا- اُنھوں نے مجھے گندھارا کے دفتر بھیج دیا-وہ بولے ہم تو نہایت اعلٰی ٹرک اور genuine پارٹس بیچتے ہیں- تمہیں کس کا نمونہ درکار ہے؟ دوشنبہ کو ایک ٹھیکے دار کا مشی چار سنگ۔ سیاہ کی مورتیاں، نہایت خوبصورت تخت بھائی مردان کی کھدائی سے چادر میں چھپا کر لایا تھا- مگر ایک جاننے والے نے جو قدِ آدم سے بھی بڑی مورتیاں اسمگل کر کے امریکہ بھیجتا رہتا ہے، مجھے بتایا کہ یہ بدھہ کی نہیں ہیں- بلکہ اس کے چپڑقنات (اس کے لیے پشتو میں بہت برا لفظ ہے) چیلوں چانٹوں کی ہیں- بدھہ اتنا تکڑا کبھی تھا ہی نہیں- افواہاً سنا ہے، نروان کے بعد بدھہ کی صحت اور پسلیاں یوسفی صاحب جیسی ہو گئی تھیں- بہرحال تلاش جاری ہے- بعد سلام اُن سے عرض کیجیے گا کہ اس سے تو بہتر ہوگا کہ دیوار پر کابلی والا کا فوٹو ٹانگ لیں-1
---------------------------------
1 تیس سال بعد وصیت کی تعمیل کر رہا ہوں- نگار خانہ
دل میں جو تصویر وہ آویزاں کر گئے اُس کا دھندلا سا عکس پیش خدمت ہے-
 
“اس بیماری کا خانہ خراب ہو۔ عمر کا پیمانہ لبریز ہونے سے پہلے ہی چھلکا جا رہا ہے۔ خط لکھوانے میں بھی سانس اکھڑ جاتی ہے۔ ڈر کے مارے ٹھیک سے کھانس بھی نہیں سکتا۔ آپ کی بھابی رونے لگتی ہے۔ مجھ سے چھپ کر وقفے وقفے سے گرم چمک کے ساتھ اشک باری کرتی ہے۔ بہتیرا سمجھاتا ہوں کہ بختاور ! جب تک بالکل بے ہوش نہ ہو جاؤں، میں بیماری سے ہار ماننے والا آدمی نہیں۔ بشارت بھائی ! ایسے آدمی کے لیے پشتو میں بہت برا لفظ ہے۔ گزشتہ ہفتے یونیورسٹی روڈ پر ایک نیا مکان بنوانا شروع کر دیا ہے۔ دالان میں پشاور کے پچاس یا کراچی کے سو مشاعروں کے دو زانو بیٹھنے کی گنجائش ہوگی۔
باقی سب خیریت ہے۔ خلیفہ دست بستہ سلام عرض کرتا ہے۔ میں نے اسے مسلم کمرشل بینک میں چپراسی لگوادیا ہے۔ روزانہ شام کو اور چھٹی کے دن مشکی وہی چلاتا ہے۔ بہت چنگا ہے۔ مشکی کو پشتو میں روانی سے گالی دینے لگا ہے ۔ مگر ابھی پشتو مذکر مونث کی تمیز پیدا نہیں ہوئی۔ سننے والے ٹھٹھے لگاتے ہیں۔ کل ہی میں نے اسے گر بتایا ہے کہ جسے تو ہمیشہ مذکر سمجھتا آیا ہے اب اسے مونث بول ، پھر تجھے پشتو آجائے گی۔ سب کو درجہ بدرجہ سلام ، دعا ، پیار اور ڈانٹ ڈپٹ۔
آپ کا چاہنے والا
کابلی والا
“مکرر آنکہ ، یہاں آ کر پرانے حسابات دیکھے تو پتا چلا کہ ابھی متفرق مدات میں کچھ لینا دینا باقی ہے۔ مجھے سفر منع ہے۔ آپ کسی طرح فرصت نکال کر یہاں شتابی آجائیں تو حسابِ دوستاں بیباک ( لکھنے والے نے اسی طرح لکھا تھا اور کیا خوب لکھا تھا ) ہو جائے اور آپ کے کابلی والا کو تھوڑی سی زندگی اور ادھار مل جائے۔
نیز ، اب نئے مکان اور دالان کا انتظار کون کرے۔ میں نے آپ کے لیے سرِ دست ایک عدد بے چھید چاندنی اور پانچ شاعروں کا انتظام کر لیا ہے۔ والسلام ۔ “
بشارت پہلی ٹرین سے پشاور روانہ ہو گئے۔


اختتام
 
Top