محب علوی
مدیر
تھا-" خلیل احمد خان رند سے دریافت فرمایا "معاف کرنا، آپ کی صحت پیدائشی خراب ہے یا بقلم خود خراب کی ہے؟ کیا آپ کے والد بھی نام کے آگے خان لکھتے تھے؟" وہ صاحب کہ روہیل کھنڈ کے اکھڑ پٹھان تھے، سچ مچ بگڑ گئے- کہنے لگے "کیا مطلب؟" بولے "ہم نے تو ویسے ہی پوچھہ لیا- اس واسطے کہ بارہ سنگھا ماں کےک پیٹ سے سینگوں کے جھاڑ سمیت پیدا نہیں ہوتا-" ایک دفعہ بشارت سے پوچھا "آپ ریشمی ازاربند استعمال کرتے ہیں- کھل کھل جانے کے علاوہ اس کے اور کیا فوائد ہیں؟" ایک اور موقعے پر تین چار دوستوں کی موجودگی میں بشارت کو بڑی سختی سے ٹوکا "یاراجی! معاف کرنا- میں تو جاہل آدمی ہوں- مگر یہ آپ دن بھر، آداب عرض!آداب عرض! تسلیمات عرض ہے! کیا کرتے رہتے ہیں- کیا السّلام و علیکم کہنے سے لوگ برا مان جائیں گے؟"
غارِ ہراس پر غارِحرا کا گمان (نعوذباللہ)
اس سے پہلے بشارت نے اس پہلو پر کبھی غور ہی نہیں کیا تھا- سچ تو یہ ہے کہ ادھر ہمارا بھی خیآل ہی نہیں گیا تھا- بشارت نے اپنے والد کو ہمیشہ آداب، تسلیمات ہی کہتے سُنا تھا- اور اس میں انھیں بڑی ملائمت اور نفاست محسوس ہوتی تھی- خان صاحب نے دوسری مرتبہ بھری محفل میں ٹوکا تو وہ سوچ میں پڑ گئے- اب جو پلٹ کر پیچھے دیکھا تو نظروں کے سامنے ایک منظر کے بعد دوسرا منظر آتا چلا گیا-
1- کیا دیکھتے ہیں کہ مغل تاجداروں نے کلاہِ تیموری اور تاشقندی عمامے اُتار پھینکے اور راجپوتی کھڑکی دار پگڑیاں پہن لیں- ظلِ سبحانی ماتھے پہ تلک لگائے فتح پور سیکری کے عبادت خانے میں بیٹھے فیضی سے فارسی رامائن کا پاٹ سُن رہے ہیں- تھوڑی دیر بعد پنڈتوں اور ملاؤں کے مناظرے میں وہ شوروغوغا ہوا کہ یوں لگتا تھا جیسے مست خچر بھڑوں کے چھتے چبا رہے ہیں- اکبرِاعظم مذہب سے اتنا مایوس اور بیزار ہوا کہ ایک نیا مذہب ایجاد کلر ڈالا- وہ اپنی رعایا کو جلد از جلد خوش اور رام کرنے کی غرض سے بھی اپنے آبائی دین سے بیزاری اور لاتعلقی ظاہر کرنا چاہتا تھا- حقیقت یہ ہے کہ بایں جاہ و حشم و شریعت سے بر گشتہ، ملاؤں سے مایوس اور اپنی رعیّت کی اکثریت سے خوف زدہ تھا- رفتہ رفتہ دیں پناہ کو اپنے غارِ ہراس پر غارِ حرا کا گمان ہونے لگا اور اس نے نبوت کا دعویٰ کردیا1 جس
-----------------------------------------------
1 اسلام کے پانچ ارکان ہیں- دین الٰہی میں اخلاصِ چارگانہ کی شمولیت کی شرط تھی- یعنی ترکِ ال، ترکِ جان، ترکِ دین اور ترکِ ناموس- اس دین میں پانچواں رکن اس لیے نہیں تھا کہ چوتھے یعنی ترکِ ناموس کے بعد کچھہ رہ نہیں جاتا-
---------------------------------
پر اس کی اپنی ملکہ جودھا بائی اور ملّا دوپیازہ تک ایمان نہ لائے- اُس نے سب کو خوش کرنے لیے سب مذاہب کا ایک کاک ٹیل بنایا جسے سب نے اسی بنا پر ٹھکرا دیا-
مرے کام کچھہ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی
2- پھر دیکھا کہ سمندِ شب رنگ کی ننگی پیٹھہ پر شبا شب منزلیں مارنے اور ملکوں ملکوں جھنڈا گاڑنے والے مغل سورما اب جمنا کنارے راجپوتی طرز کے درشن جھروکے میں اور لال عماری اور پیچ رنگ مستک والے فیلِ گراں ڈیل پر براجمان نظر آتے ہیں- لُو کے تھپیڑوں نے فرغانہ کے فرغل اُتروا دیے- ململ کے ہوادار انگرکھوں نے زرّہ بکتر کی جگہ لے لی- رفتہ رفتہ فاتحین نے اپنی مادری زبانیں عربی، ترکی اور فارسی ترک کر کے ایک نئی زبان اردو وضع کی جو ابتداً خود ان کے لیے بھی اتنی ہی بدیسی اور اجنبی تھی جتنی ہندوؤں کے لیے فارسی یا ترکی- مکمل عسکری فتح کے بعد حکمران قوم نے اپنی اصل زبان سے دست بردار ہو کر خوش دلی سے ایک نوع کی ثقافتی شکست مان لی، تاکہ ہارنے والے یہ نہ سمجھیں کہ وہ اپنے سکّے کے ساتھہ اپنی مادری زبان بھی مستقلاً رائج کرنا چاہتے ہیں- مسجدوں اور خانقاہوں کے دروازوں اور محر
ابوں پر ہندوؤں کے مقدّس پھول ---- کنول سے منبت کاری ہونے لگی- معرکہ آراؤں کی محفلوں میں تاجکستانی رقص کا وفوروخروش اور سمر قند و بخارا کے شعلہ ور گلو نغمے پھر کبھی سُنائی نہ دیے کہ وقت نے لًے ہی نہیں، نَے و نغمہ بھی بدل کے رکھہ دیے- ماورائے ہند کے صاحبِ کمال رامش گر اور اقصائے فارس کے نادر نوازندگان سبک دست اپنے بربط وچنگ ورباب بغلوں میں دبائے مدّتیں گزریںرخصت ہو گئے- ان کے جانے پر نہ آسمان رویا نہ ہمالیہ کی چھاتی شق ہوئی کہ ان کے قدردانوں نے اب ستار، سارنگی اور مردنگ پر ہندی راگ راگنیوں سے دلوں کو گرمانا سیکھہ لیا تھا-
گنگا جمنی کام
3- لکھنے والی انگلی جو لکھتی چلی جاتی ہے، ثقافتی سمجھوتے کے مرقعے کا ایک اور ورق پلٹ کر دکھاتی ہے- دریائے گومتی کے روپ کنارے رہس کا رسیا، اودھہ کا آخری تاجدار پیروں میں گھنگرو باندھے اسٹیج پر اپنی ہی بنائی ہوئی ہندی دُھن پر نرت بھاؤ بتا رہا ہے- ایک ورق اور پلٹیے تو جمنا کنارے ایک اور ہی منظر نگاہ کے سامنے آتا ہے چند متقّی، پرہیز گار اور باریش بزرگ مسند کی ٹیک
غارِ ہراس پر غارِحرا کا گمان (نعوذباللہ)
اس سے پہلے بشارت نے اس پہلو پر کبھی غور ہی نہیں کیا تھا- سچ تو یہ ہے کہ ادھر ہمارا بھی خیآل ہی نہیں گیا تھا- بشارت نے اپنے والد کو ہمیشہ آداب، تسلیمات ہی کہتے سُنا تھا- اور اس میں انھیں بڑی ملائمت اور نفاست محسوس ہوتی تھی- خان صاحب نے دوسری مرتبہ بھری محفل میں ٹوکا تو وہ سوچ میں پڑ گئے- اب جو پلٹ کر پیچھے دیکھا تو نظروں کے سامنے ایک منظر کے بعد دوسرا منظر آتا چلا گیا-
1- کیا دیکھتے ہیں کہ مغل تاجداروں نے کلاہِ تیموری اور تاشقندی عمامے اُتار پھینکے اور راجپوتی کھڑکی دار پگڑیاں پہن لیں- ظلِ سبحانی ماتھے پہ تلک لگائے فتح پور سیکری کے عبادت خانے میں بیٹھے فیضی سے فارسی رامائن کا پاٹ سُن رہے ہیں- تھوڑی دیر بعد پنڈتوں اور ملاؤں کے مناظرے میں وہ شوروغوغا ہوا کہ یوں لگتا تھا جیسے مست خچر بھڑوں کے چھتے چبا رہے ہیں- اکبرِاعظم مذہب سے اتنا مایوس اور بیزار ہوا کہ ایک نیا مذہب ایجاد کلر ڈالا- وہ اپنی رعایا کو جلد از جلد خوش اور رام کرنے کی غرض سے بھی اپنے آبائی دین سے بیزاری اور لاتعلقی ظاہر کرنا چاہتا تھا- حقیقت یہ ہے کہ بایں جاہ و حشم و شریعت سے بر گشتہ، ملاؤں سے مایوس اور اپنی رعیّت کی اکثریت سے خوف زدہ تھا- رفتہ رفتہ دیں پناہ کو اپنے غارِ ہراس پر غارِ حرا کا گمان ہونے لگا اور اس نے نبوت کا دعویٰ کردیا1 جس
-----------------------------------------------
1 اسلام کے پانچ ارکان ہیں- دین الٰہی میں اخلاصِ چارگانہ کی شمولیت کی شرط تھی- یعنی ترکِ ال، ترکِ جان، ترکِ دین اور ترکِ ناموس- اس دین میں پانچواں رکن اس لیے نہیں تھا کہ چوتھے یعنی ترکِ ناموس کے بعد کچھہ رہ نہیں جاتا-
---------------------------------
پر اس کی اپنی ملکہ جودھا بائی اور ملّا دوپیازہ تک ایمان نہ لائے- اُس نے سب کو خوش کرنے لیے سب مذاہب کا ایک کاک ٹیل بنایا جسے سب نے اسی بنا پر ٹھکرا دیا-
مرے کام کچھہ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی
2- پھر دیکھا کہ سمندِ شب رنگ کی ننگی پیٹھہ پر شبا شب منزلیں مارنے اور ملکوں ملکوں جھنڈا گاڑنے والے مغل سورما اب جمنا کنارے راجپوتی طرز کے درشن جھروکے میں اور لال عماری اور پیچ رنگ مستک والے فیلِ گراں ڈیل پر براجمان نظر آتے ہیں- لُو کے تھپیڑوں نے فرغانہ کے فرغل اُتروا دیے- ململ کے ہوادار انگرکھوں نے زرّہ بکتر کی جگہ لے لی- رفتہ رفتہ فاتحین نے اپنی مادری زبانیں عربی، ترکی اور فارسی ترک کر کے ایک نئی زبان اردو وضع کی جو ابتداً خود ان کے لیے بھی اتنی ہی بدیسی اور اجنبی تھی جتنی ہندوؤں کے لیے فارسی یا ترکی- مکمل عسکری فتح کے بعد حکمران قوم نے اپنی اصل زبان سے دست بردار ہو کر خوش دلی سے ایک نوع کی ثقافتی شکست مان لی، تاکہ ہارنے والے یہ نہ سمجھیں کہ وہ اپنے سکّے کے ساتھہ اپنی مادری زبان بھی مستقلاً رائج کرنا چاہتے ہیں- مسجدوں اور خانقاہوں کے دروازوں اور محر
ابوں پر ہندوؤں کے مقدّس پھول ---- کنول سے منبت کاری ہونے لگی- معرکہ آراؤں کی محفلوں میں تاجکستانی رقص کا وفوروخروش اور سمر قند و بخارا کے شعلہ ور گلو نغمے پھر کبھی سُنائی نہ دیے کہ وقت نے لًے ہی نہیں، نَے و نغمہ بھی بدل کے رکھہ دیے- ماورائے ہند کے صاحبِ کمال رامش گر اور اقصائے فارس کے نادر نوازندگان سبک دست اپنے بربط وچنگ ورباب بغلوں میں دبائے مدّتیں گزریںرخصت ہو گئے- ان کے جانے پر نہ آسمان رویا نہ ہمالیہ کی چھاتی شق ہوئی کہ ان کے قدردانوں نے اب ستار، سارنگی اور مردنگ پر ہندی راگ راگنیوں سے دلوں کو گرمانا سیکھہ لیا تھا-
گنگا جمنی کام
3- لکھنے والی انگلی جو لکھتی چلی جاتی ہے، ثقافتی سمجھوتے کے مرقعے کا ایک اور ورق پلٹ کر دکھاتی ہے- دریائے گومتی کے روپ کنارے رہس کا رسیا، اودھہ کا آخری تاجدار پیروں میں گھنگرو باندھے اسٹیج پر اپنی ہی بنائی ہوئی ہندی دُھن پر نرت بھاؤ بتا رہا ہے- ایک ورق اور پلٹیے تو جمنا کنارے ایک اور ہی منظر نگاہ کے سامنے آتا ہے چند متقّی، پرہیز گار اور باریش بزرگ مسند کی ٹیک