(اگر مقدس حق دنیا کی متجسس نگاہوں سے اوجھل کر دیا جائے تو رحمت ہو اس دیوانے پر جو انسانی دماغ پر سنہرا خواب طاری کر دے۔ حکیم گورکی)
میں آہوں کا بیوپاری ہوں لہو کی شاعری میرا کام ہے چمن کی ماندہ ہواؤ اپنے دامن سمیٹ لو کہ میرے آتشیں گیت دبے ہوئے سینوں میں ایک تلاطم برپا کرنے والے ہیں
یہ بیباک نغمہ درد کی طرح اٹھا اور باغ کی فضا میں چند لمحے تھرتھرا کر ڈوب گیا۔ آواز میں ایک قسم کی دیوانگی تھی۔۔۔۔۔۔ناقابلِ بیان۔ میرے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی، میں نے آواز کی جستجو میں ادھر ادھر نگاہیں اٹھائیں۔ سامنے چبوترے کے قریب گھاس کے تختے پر چند بچے اپنی ماماؤں کے ساتھ کھیل کود میں محو تھے، پاس ہی دو تین گنوار بیٹھے تھے۔ بائیں طرف نیم کے درختوں کے نیچے مالی زمین کھودنے میں مصروف تھا۔ میں ابھی اسی جستجو میں ہی تھا کہ وہی درد میں ڈوبی ہوئی آواز پھر بلند ہوئی۔
میں ان لاشوں کا گیت گاتا ہوں جن کی سردی دسمبر مستعار لیتا ہے میرے سینے سے نکلی ہوئی آہ وہ لُو ہے جو جون کے مہینے میں چلتی ہے میں آہوں کا بیوپاری ہوں لہو کی شاعری میرا کام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آواز کنوئیں کے عقب سے آ رہی تھی، مجھ پر ایک رقت سے طاری ہو گئی، میں ایسا محسوس کرنے لگا کہ سرد اور گرم لہریں بیک وقت میرے جسم سے لپٹ رہی ہیں۔ اس خیال نے مجھے کسی قدر خوفزدہ کر دیا کہ آواز اس کنوئیں کے قریب سے بلند ہو رہی ہے جس میں آج سے کچھ سال پہلے لاشوں کا ایک انبار لگا ہوا تھا۔ اس خیال کے ساتھ ہی میرے دماغ میں جلیانوالہ باغ کے خونی حادثے کی ایک تصویر کھچ گئی۔ تھوڑی دیر کے لئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ باغ کی فضا گولیوں کی سنسناہٹ اور بھاگتے ہوئے لوگوں کی چیخ پکار سے گونج رہی ہے۔ میں لرز گیا، اپنے کاندھوں کو زور سے جھٹکا دیکر اور اس عمل سے اپنے خوف کو دور کرتے ہوئے میں اٹھا اور کنوئیں کا رخ کیا۔
سارے باغ پر ایک پراسرا خاموشی چھائی ہوئی تھی، میرے قدموں کے نیچے خشک پتوں کی سر سراہٹ سوکھی ہوئی ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز پیدا کر رہی تھی۔ کوشش کے باوجود میں اپنے دل سے وہ نا معلوم خوف دور نہ کر سکا جو اس آواز نے پیدا کر دیا تھا۔ ہر قدم مجھے یہی معلوم ہوتا تھا کہ گھاس کے سبز بستر پر بے شمار لاشیں پڑی ہوئی ہیں جنکی بوسیدہ ہڈیاں میرے پاؤں کے نیچے ٹوٹ رہی ہیں۔ یکایک میں نے اپنے قدم تیز کئے اور دھڑکتے ہوئے دل سے اس چبوترے پر بیٹھ گیا جو کنوئیں کے ارد گرد بنا ہوا تھا۔
میرے دماغ میں بار بار یہ عجیب سا شعر گونج رہا تھا۔
میں آہوں کا بیوپاری ہوں لہو کی شاعری میرا کام ہے
کنوئیں کے قریب کوئی متنفس موجود نہ تھا۔ میرے سامنے چھوٹے پھاٹک کی ساتھ والی دیوار پر گولیوں کے نشان تھے جن پر چوکور جالی منڈھی ہوئی تھی۔ میں ان نشانوں کو بیسیوں مرتبہ دیکھ چکا تھا مگر اب وہ دو نشان جو میری نگاہوں کے عین بالمقابل تھے دو خونیں آنکھیں معلوم ہو رہے تھے، جو دور۔۔۔۔۔۔۔بہت دور کسی غیر مرئی چیز کو ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی ہوں۔ بلا ارادہ میری نگاہیں ان دو چشم نما سوراخوں پر جم کر رہ گئیں۔ میں انکی طرف مختلف خیالات میں کھویا ہوا خدا معلوم کتنے عرصے تک دیکھتا رہا کہ دفعتاً پاس والی روش پر کسی کے بھاری قدموں کی چاپ نے مجھے اس خواب سے بیدار کر دیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا، گلاب کی جھاڑیوں سے ایک دراز قد آدمی سر جھکائے میری طرف بڑھ رہا تھا، اسکے دونوں ہاتھ اسکے بڑے کوٹ کی جیبوں میں ٹھنسے ہوئے تھے، چلتے ہوئے وہ زیرِ لب کچھ گنگنا رہا تھا۔ کنوئیں کے قریب پہنچ کر وہ یکایک ٹھٹکا اور گردن اٹھا کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"میں پانی پیؤنگا۔"
میں فوراً چبوترے پر سے اٹھا اور پمپ کا ہینڈل ہلاتے ہوئے اس اجنبی سے کہا۔
"آئیے۔"
اچھی طرح پانی پی چکنے کے بعد اس نے اپنے کوٹ کی میلی آستین سے منہ پونچھا اور واپس چلنے کو ہی تھا کہ میں نے دھڑکتے ہوئے دل سے دریافت کیا۔
"کیا ابھی ابھی آپ ہی گا رہے تھے؟"
"ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔مگر آپ کیوں دریافت کر رہے ہیں؟" یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا سر پھر اٹھایا، اسکی آنکھیں جن میں سرخ ڈورے غیر معمولی طور پر نمایاں تھے، میری قلبی واردات کا جائزہ لیتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔ میں گھبرا گیا۔
"آپ ایسے گیت نہ گایا کریں۔۔۔۔۔۔۔یہ سخت خوفناک ہیں۔"
"خوفناک۔۔۔۔۔۔۔نہیں، انہیں ہیبت ناک ہونا چاہیئے جبکہ میرے راگ کے ہر سُر میں رستے ہوئے زخموں کی جلن اور رکی ہوئی آہوں کی تپش معمور ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرے شعلوں کی زبانیں آپ کی برفائی ہوئی روح کو اچھی طرح چاٹ نہیں سکیں۔" اس نے اپنی نوکیلی ٹھوڑی کو انگلیوں سے کھجلاتے ہوئے کہا۔ یہ الفاظ اس شور کے مشابہ تھے جو برف کے ڈھیلے میں تپتی ہوئی سلاخ گزارنے سے پیدا ہوتا ہے۔
"آپ مجھے ڈرا رہے ہیں۔"
میرے یہ کہنے سے اس مردِ عجیب کے حلق سے ایک قہقہہ نما شور بلند ہوا۔ "ہا، ہا، ہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ڈر رہے ہیں۔ کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ آپ اس وقت اس منڈیر پر کھڑے ہیں جو آج سے کچھ عرصہ پہلے بے گناہ انسانوں کے خون سے لتھڑی ہوئی تھی، یہ حقیقت میری گفتگو سے زیادہ وحشت خیز ہے۔"
یہ سنکر میرے قدم ڈگمگا گئے، میں واقعی خونیں منڈیر پر کھڑا تھا۔ مجھے خوفزدہ دیکھ کر وہ پھر بولا۔
"تھرائی ہوئی رگوں سے بہا ہوا لہو کبھی فنا نہیں ہوتا۔ اس خاک کے ذرے ذرے میں مجھے سرخ بوندیں تڑپتی نظر آ رہی ہیں، آؤ تم بھی دیکھو۔"
یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی نظریں زمین پر گاڑ دیں۔ میں کنوئیں پر سے نیچے اتر آیا اور اسکے پاس کھڑا ہو گیا۔ میرا دل دھک دھک کر رہا تھا، دفعتاً اس نے اپنا ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا اور بڑے دھیمے لہجے میں کہا۔ "مگر تم اسے نہیں سمجھ سکو گے۔۔۔۔۔۔یہ بہت مشکل ہے۔"
میں اسکا مطلب بخوبی سمجھ رہا تھا، وہ غالباً مجھے اس خونی حادثے کی یاد دلا رہا تھا جو آج سے سولہ سال قبل اس باغ میں واقع ہوا تھا۔ اس حادثے کے وقت میری عمر قریباً پانچ سال کی تھی اس لئے میرے دماغ میں اسکے بہت دھندلے نقوش باقی تھے لیکن مجھے اتنا ضرور معلوم تھا کہ اس باغ میں عوام کے ایک جلسے پر گولیاں برسائی گئی تھیں جسکا نتیجہ قریباً دو ہزار اموات تھیں۔ میرے دل میں ان لوگوں کا بہت احترام تھا جنہوں نے اپنی مادرِ وطن اور جذبۂ آزادی کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دی تھیں بس اس احترام کے علاوہ میرے دل میں اس حادثے کے متعلق اور کوئی خاص جذبہ نہ تھا مگر آج اس مردِ عجیب کی گفتگو نے میرے سینے میں ایک ہیجان سا برپا کر دیا، میں ایسا محسوس کرنے لگا کہ گولیاں تڑ تڑ برس رہی ہیں اور بہت سے لوگ وحشت کے مارے ادھر ادھر بھاگتے ہوئے ایک دوسرے پر گر کر مر رہے ہیں۔ اس اثر کے تحت میں چلا اٹھا۔
"میں سمجھتا ہوں، میں سب کچھ سمجھتا ہوں۔ موت بھیانک ہے مگر ظلم اس سے کہیں خوفناک اور بھیانک ہے۔"
یہ کہتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے سب کچھ کہہ ڈالا ہے اور میرا سینہ بالکل خالی رہ گیا ہے، مجھ پر ایک مردنی سی چھا گئی۔ غیر ارادی طور پر میں نے اس شخص کے کوٹ کو پکڑ لیا اور تھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"آپ کون ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔آپ کون ہیں؟"
"آہوں کا بیوپاری۔۔۔۔۔۔۔ایک دیوانہ شاعر۔"
"آہوں کا بیوپاری۔۔۔۔۔۔۔ایک دیوانہ شاعر۔" اس کے الفاظ زیرِ لب گنگناتے ہوئے میں کنوئیں کے چبوترے پر بیٹھ گیا۔ اس وقت میرے دماغ میں اس دیوانے شاعر کا گیت گونج رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا، سامنے سپیدے کے دو درخت ہیبت ناک دیووں کی طرح انگڑائیاں لے رہے تھے، پاس ہی چنبیلی اور گلاب کی خار دار جھاڑیوں میں ہوا آہیں بکھیر رہی تھی۔ دیوانہ شاعر خاموش کھڑا سامنے والی دیوار کی ایک کھڑکی پر نگاہیں جمائے ہوئے تھا۔ شام کے خاکستری دھندلکے میں وہ ایک سایہ سا معلوم ہو رہا تھا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ اپنے خشک بالوں کو انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے گنگنایا۔
"آہ یہ سب کچھ خوفناک حقیقت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کسی صحرا میں جنگلی انسان کے پیروں کے نشانات کی طرح خوفناک۔"
"کیا کہا۔"
میں ان الفاظ کو اچھی طرح سن نہ سکا تھا جو اس نے منہ ہی منہ میں ادا کئے تھے۔
"کچھ بھی نہیں۔" یہ کہتے ہوئے وہ میرے پاس آ کر چبوترے پر بیٹھ گیا۔
"آپ گنگنا رہے تھے۔"
اس پر اس نے اپنی آنکھیں ایک عجیب انداز میں سکیڑیں اور ہاتھوں کو آپس میں زور زور سے ملتے ہوئے کہا۔ "سینے میں قید کئے ہوئے الفاظ باہر نکلنے کے لئے مضطرب ہوتے ہیں۔ اپنے آپ سے بولنا اس الوہیت سے گفتگو کرنا ہے جو ہمارے دل کی پہنائیوں میں مستور ہوتی ہے۔" پھر ساتھ ہی گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے کہا۔ "کیا آپ نے اس کھڑکی کو دیکھا ہے؟"
اس نے اپنی انگلی اس کھڑکی کی طرف اٹھائی جسے وہ چند لمحہ پہلے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس جانب دیکھا، چھوٹی سی کھڑکی تھی جو سامنے دیوار کی خستہ اینٹوں میں سوئی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔
"یہ کھڑکی جسکا ایک ڈنڈا نیچے لٹک رہا ہے؟" میں نے اس سے کہا۔
"ہاں، یہی جسکا ایک ڈنڈا نیچے لٹک رہا ہے۔ کیا تم اِس پر اُس معصوم لڑکی کے خون کے چھینٹے نہیں دیکھ رہے ہو جس کو صرف اسلئے ہلاک کیا گیا تھا کہ ترکشِ استبداد کو اپنے تیروں کی قوتِ پرواز کا امتحان لینا تھا۔۔۔۔۔۔۔میرے عزیز، تمھاری اس بہن کا خون ضرور رنگ لائیگا۔ میرے گیتوں کے زیر و بم میں اس کم سن روح کی پھڑپھڑاہٹ اور اسکی دلدوز چیخیں ہیں، یہ سکون کے دامن کو تار تار کر دیں گے۔ ایک ہنگامہ ہوگا، سینۂ گیتی شق ہو جائے گا۔ میری بے لگام آواز بلند سے بلند تر ہوتی جائے گی۔۔۔۔۔۔پھر کیا ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کیا ہوگا؟۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مجھے معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔آؤ دیکھو اس سینے میں کتنی زبردست آگ سلگ رہی ہے۔"
یہ کہتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اسے کوٹ کے اندر لے جا کر اپنے سینے پر رکھ دیا۔ اسکے ہاتھوں کی طرح اسکا سینہ بھی غیر معمولی طور پر گرم تھا۔ اس وقت اسکی آنکھوں کے ڈورے بہت ابھرے ہوئے تھے۔ میں نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا اور کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔
"آپ علیل ہیں، کیا میں آپ کو گھر چھوڑ آؤں؟"
"نہیں میرے عزیز میں علیل نہیں ہوں۔" اس نے زور سے اپنے سر کو ہلایا۔ "یہ انتقام ہے جو میرے اندر گرم سانس لے رہا ہے۔ میں اس دبی ہوئی آگ کو اپنے گیتوں کے دامن سے ہوا دے رہا ہوں کہ یہ شعلوں میں تبدیل ہو جائے۔"
"یہ درست ہے مگر آپ کی طبیعت واقعتہً خراب ہے، آپ کے ہاتھ بہت گرم ہیں، اس سردی میں آپ کو زیادہ بخار ہو جانے کا اندیشہ ہے۔"
اسکے ہاتھوں کی غیر معمولی گرمی اور آنکھوں میں ابھرے ہوئے سرخ ڈورے صاف طور پر ظاہر کر رہے تھے کہ اسے کافی بخار ہے۔
اس نے میرے کہنے کی کوئی پروا نہ کی اور جیبوں میں ہاتھ ٹھونس کر میری طرف بڑے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ لکڑی جلے اور دھواں نہ دے۔ میرے عزیز ان آنکھوں نے ایسا سماں دیکھا ہے کہ انہیں ابل کر باہر نکل آنا چاہیئے تھا۔ کیا کہہ رہے تھے کہ میں علیل ہوں۔۔۔۔۔۔ہا، ہا، ہا۔۔۔۔۔۔۔علالت، کاش کہ سب لوگ میری طرح علیل ہوتے، جایئے آپ ایسے نازک مزاج میری آہوں کے خریدار نہیں ہو سکتے۔"
"مگر۔۔۔۔۔۔۔۔"
"مگر وگر کچھ نہیں۔" وہ دفعتہً جوش میں چلانے لگا۔ "انسانیت کے بازار میں صرف تم لوگ باقی رہ گئے ہو جو کھوکھلے قہقہوں اور پھیکے تبسموں کے خریدار ہو۔ ایک زمانے سے تمھارے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی فلک شگاف چیخیں تمھارے کانوں سے ٹکرا رہی ہیں مگر تمھاری خوابیدہ سماعت میں ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔ آؤ اپنی روحوں کو میری آہوں کی آنچ دو، یہ انہیں حساس بنا دے گی۔"
میں اسکی گفتگو کو غور سے سن رہا تھا، میں حیران تھا کہ وہ چاہتا کیا ہے اور اسکے خیالات اس قدر پریشان و مضطرب کیوں ہیں۔ بیشتر اوقات میں نے خیال کیا کہ شاید وہ پاگل ہے۔ اسکی گفتگو با معنی ضرور تھی مگر لہجے میں ایک عجیب قسم کی دیوانگی تھی۔ اسکی عمر یہی کوئی پچیس تیس برس کے قریب ہوگی، ڈاڑھی کے بال جو ایک عرصے سے مونڈے نہ گئے تھے کچھ اس انداز میں اس کے چہرے پر اگے ہوئے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کسی خشک روٹی پر بہت سی چیونٹیاں چمٹی ہوئی ہیں۔ گال اندر کو پچکے ہوئے تھے، ماتھا باہر کی طرف ابھرا ہوا، ناک نوکیلی، آنکھیں بڑی جن سے وحشت ٹپکتی تھی، سر پر خشک اور خاک آلود بالوں کا ایک ہجوم۔ بڑے سے بھورے کوٹ میں وہ واقعی شاعر معلوم ہو رہا تھا، ایک دیوانہ شاعر، جیسا کہ اس نے خود اس نام سے اپنے آپ کو متعارف کرایا تھا۔
میں نے اکثر اوقات اخباروں میں ایک جماعت کا حال پڑھا تھا، اس جماعت کے خیالات دیوانے شاعر کے خیالات سے بہت حد تک ملتے جلتے تھے، میں نے خیال کیا کہ شاید وہ بھی اسی جماعت کا رکن ہے۔
"آپ انقلابی معلوم ہوتے ہیں۔"
اس پر وہ کھل کھلا کر ہنس پڑا۔ "آپ نے یہ بہت بڑا انکشاف کیا ہے، میاں میں تو کوٹھوں کی چھتوں پر چڑھ چڑھ کر پکارتا ہوں، میں انقلابی ہوں، میں انقلابی ہوں، مجھے روک لے جس سے بن پڑتا ہے، آپ نے واقعی بہت بڑا انکشاف کیا ہے۔"
یہ کہہ کر ہنستے ہوئے وہ اچانک سنجیدہ ہوگیا۔
"سکول کے ایک طالب علم کی طرح انقلاب کے حقیقی معانی سے تم بھی نا آشنا ہو۔ انقلابی وہ ہے جو ہر نا انصافی اور ہر غلطی پر چلا اٹھے، انقلابی وہ ہے جب سب زمینوں سب آسمانوں سب زبانوں اور سب وقتوں کا ایک مجسم گیت ہو۔ انقلابی، سماج کے قصاب خانے کی ایک بیمار اور فاقوں مری بھیڑ نہیں، وہ ایک مزدور ہے تنو مند جو اپنے آہنی ہتھوڑے کی ایک ضرب سے ہی ارضی جنت کے دروازے وا کر سکتا ہے۔ میرے عزیز، یہ منطق، خوابوں اور نظریوں کا زمانہ نہیں، انقلاب ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ یہ یہاں پر موجود ہے، اسکی لہریں بڑھ رہی ہیں، کون ہے جو اب اس کو روک سکتا ہے یہ بند باندھنے پر نہ رک سکیں گی۔"
اسکا ہر لفظ ہتھوڑے کی اس ضرب کی مانند تھا جو سرخ لوہے پر پڑ کر اسکی شکل تبدیل کر رہا ہو۔ میں نے محسوس کیا کہ میری روح کسی غیر مرئی چیز کو سجدہ کر رہی ہے۔
شام کی تاریکی بتدریج بڑھ رہی تھی، نیم کے درخت کپکپا رہے تھے، میرے سینے میں ایک نیا جہان آباد ہو رہا تھا۔ اچانک میرے دل سے کچھ الفاظ اٹھے اور لبوں سے باہر نکل گئے۔
"اگر انقلاب یہی ہے تو میں بھی انقلابی ہوں۔"
شاعر نے اپنا سر اٹھایا اور میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
"تو پھر اپنے خون کو کسی طشتری میں نکال کر رکھ چھوڑو کہ ہمیں آزادی کے کھیت کے لیے اس سرخ کھاد کی بہت ضرورت محسوس ہوگی، آہ وہ وقت کس قدر خوشگوار ہوگا جب میری آہوں کی زردی تبسم کا رنگ اختیار کر لے گی۔"
یہ کہہ کر وہ کنوئیں کی منڈیر سے اٹھا اور میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیکر کہنے لگا۔ "اس دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو حال سے مطمئن ہیں اگر تمھیں اپنی روح کی بالیدگی منظور ہے تو ایسے لوگوں سے ہمیشہ دور رہنے کی سعی کرنا، انکا احساس پتھرا گیا ہے۔ مستقبل کے جاں بخش مناظر انکی نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا اب میں چلتا ہوں۔"
اس نے بڑے پیار سے میرا ہاتھ دبایا اور پیشتر اسکے کہ میں اس سے کوئی اور بات کرتا وہ لمبے قدم اٹھاتا ہوا جھاڑیوں کے جھنڈ میں غائب ہو گیا۔
باغ کی فضا پر خاموشی طاری تھی، میں سر جھکائے ہوئے خدا معلوم کتنا عرصہ اپنے خیالات میں غرق رہا کہ اچانک اس شاعر کی آواز 'رات کی رانی' کی دلنواز خوشبو میں گھلی ہوئی میرے کانوں تک پہنچی۔ وہ باغ کے دوسرے گوشے میں گا رہا تھا۔
زمین ستاروں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہے اٹھو اور ان نگینوں کو اسکے ننگے سینے پر جڑ دو ڈھاؤ، کھودو، چیرو، مارو نئی دنیا کے معمارو، کیا تمھارے بازؤں میں قوت نہیں ہے؟ میں آہوں کا بیوپاری ہوں لہو کی شاعری میرا کام ہے
گیت ختم ہونے پر میں باغ میں کتنے عرصے تک بیٹھا رہا یہ مجھے قطعاً یاد نہیں۔ والدہ کا بیان ہے کہ میں اس روز گھر بہت دیر سے آیا تھا۔
"بابا جی کوئی کہانی سنائیے۔" سکول کے تین چار لڑکے الاؤ کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھ گئے اور اس بوڑھے آدمی سے جو ٹاٹ پر بیٹھا اپنے استخوانی ہاتھ آگ تاپنے کی خاطر الاؤ کی طرف بڑھائے ہوئے تھا، کہنے لگے۔
مردِ معمر نے جو غالباً کسی گہری سوچ میں غرق تھا، اپنا بھاری سر اٹھایا جو گردن کی لاغری کی وجہ سے نیچے کو جھکا ہوا تھا۔
"کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں خود ایک کہانی ہوں، مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اس کے بعد کے الفاظ اس نے اپنے پوپلے منہ میں ہی بڑبڑائے، شاید وہ اس جملہ کو لڑکوں کے سامنے ادا کرنا نہیں چاہتا تھا جنکی سمجھ اس قابل نہ تھی کہ وہ اس قسم کے فلسفیانہ نکات حل کر سکیں۔
لکڑی کے ٹکڑے ایک شور کے ساتھ جل جل کر الاؤ کے آتشیں شکم کو پر کر رہے تھے۔ شعلوں کی عنابی روشنی لڑکوں کے معصوم چہروں پر ایک عجیب انداز میں رقص کر رہی تھی۔ ننھی ننھی چنگاریاں سپید راکھ کی نقاب الٹ الٹ کر حیرت میں سر بلند شعلوں کا منہ تک رہی تھیں۔ درختوں کے خشک پتے بڑی دلیری سے آگ کا مقابلہ کرتے ہوئے اس شعلہ افشاں قبر میں ہمیشہ کے لئے کود رہے تھے۔ سرد ہوا کے جھونکے کوٹھڑی کی گرم فضا کا استقبال کرتے ہوئے اسکے ساتھ بڑی گرمجوشی سے بغلگیر ہو رہے تھے، کونے میں مٹی کا ایک دیا اپنی کمزور روشنی پر آنسو بہا رہا تھا۔
"کہانی۔۔۔۔۔۔ہر روز کہانی، کل سناؤں گا۔" بوڑھے آدمی نے الاؤ کی روشنی میں سے لڑکوں کی طرف نگاہیں اٹھا کر کہا۔
لڑکوں کے تمتمائے ہوئے چہروں پر افسردگی چھا گئی، نا امیدی کے عالم میں وہ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے گویا وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہے تھے، آج رات کہانی سنے بغیر سونا ہوگا۔
یکایک ان میں سے ایک لڑکا جو دوسروں کی نسبت بہت ہوشیار اور ذہین معلوم ہوتا تھا، الاؤ کے قریب تر سرک کر بلند آواز میں بولا۔
"مگر کل آپ نے وعدہ کیا تھا اور وعدہ خلافی کرنا درست نہیں ہے، کیا آپ کو کل والے حامد کا انجام یاد نہیں جو ہمیشہ اپنا کہا بھول جاتا تھا۔"
"درست۔۔۔۔۔میں بھول گیا تھا۔" بوڑھے آدمی نے یہ کہتے ہوئے اپنا سر جھکا لیا جیسے وہ اپنی بھول پر نادم ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اس دلیر لڑکے کی جرأت کا خیال کر کے مسکرایا۔ "میرے بچے مجھ سے غلطی ہو گئی ہے معاف کر دو، مگر میں کونسی کہانی سناؤں، ٹھہرو مجھے یاد کر لینے دو۔" یہ کہتے ہوئے وہ سر جھکا کر گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔
اسے جن اور پریوں کی لا یعنی داستانوں سے سخت نفرت تھی، وہ بچوں کی وہی کہانیاں سنایا کرتا تھا جو انکے دل و دماغ کی اصلاح کر سکیں۔ اسے بہت سے فضول قصے یاد تھے جو اس نے اپنے ایامِ طفلی میں سنے تھے یا کتابوں سے پڑھے تھے مگر اس وقت وہ اپنے بربطِ پیری کے بوسیدہ تار چھیڑ رہا تھا کہ شاید ان میں کوئی خوابیدہ راگ جاگ اٹھے۔
لڑکے بابا جی کو خاموش دیکھ کر آپس میں آہستہ آہستہ گفتگو کر رہے تھے، غالباً وہ کسی لڑکے کا ذکر کر رہے تھے جسے کتاب چرانے پر بید کی سزا ملی تھی۔ باتوں باتوں میں ان میں سے کسی نے بلند آواز میں کہا۔
"ماسٹر جی کے لڑکے نے بھی تو میری کتاب چرا لی تھی مگر اسے سزا وزا نہ ملی تھی۔"
"کتاب چرا لی تھی۔" ان چار لفظوں نے جو پوری آواز میں ادا کئے گئے تھے، بوڑھے کی خفتہ یاد میں ایک واقعے کو جگا دیا۔ اس نے اپنا سپید سر اٹھایا اور اپنی آنکھوں کے سامنے اس فراموش کردہ داستان کو انگڑائیاں لیتے ہوئے پایا۔ ایک لمحے کیلیئے اسکی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی مگر ساتھ ہی وہیں غرق ہو گئی۔۔۔۔۔۔اضطراب کی حالت میں اس نے اپنے نحیف جسم کو جنبش دے کر الاؤ کے قریب کیا۔ اسکے چہرے کے تغیر و تبدل سے صاف طور پر عیاں تھا کہ وہ کسی واقعے کو دوبارہ یاد کر کے بہت تکلیف محسوس کر رہا ہے۔
الاؤ کی روشنی بدستور لڑکوں کے چہروں پر ناچ رہی تھی۔۔۔۔۔دیا اسی طرح اپنے جلے نصیبوں کو رو رہا تھا۔ کوٹھڑی کے باہر رات سیاہ زلفیں بکھیرے روشنی کی طرف اپنی تاریک آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی۔ لڑکے آپس میں سکول کی باتیں کرنے میں مشغول تھے، چھت جھک کر انکی معصوم باتوں کو کان لگا کر سن رہی تھی۔
دفعتاً بوڑھے نے آخر ارادہ کرتے ہوئے کہا۔ "بچو، آج میں اپنی کہانی سناؤں گا۔"
لڑکے فوراً اپنی گفتگو چھوڑ کر ہمہ تن گوش ہو گئے۔ الاؤ کی چیختی ہوئی لکڑیاں ایک شور کے ساتھ اپنی جگہ پر ابھر کر خاموش ہو گئیں۔۔۔۔۔۔ایک لمحے کیلیئے فضا پر مکمل سکوت طاری رہا۔
"اپنی کہانی سنائیں گے؟" ایک لڑکے نے خوش ہو کر کہا۔ باقی سرک کر آگ کے قریب خاموشی سے بیٹھ گئے۔
"ہاں، اپنی کہانی۔" یہ کہہ کر بوڑھے آدمی نے اپنی جھکی ہوئی گھنی بھوؤں میں سے کوٹھڑی کے باہر تاریکی میں دیکھنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر لڑکوں سے مخاطب ہوا۔ "میں آج تمھیں اپنی پہلی چوری کی داستان سناؤں گا۔"
لڑکے حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے، انہیں در اصل یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ بابا جی کسی زمانے میں چوری بھی کرتے رہے ہیں۔ بابا جی جو ہر وقت انہیں برے کاموں سے بچنے کیلیئے نصیحت کیا کرتے ہیں۔
لڑکا جو ان سب میں دلیر تھا اپنی حیرانی نہ چھپا سکا۔ "مگر کیا آپ نے واقعی چوری کا ارتکاب کیا تھا؟"
"واقعی"
"آپ اس وقت کونسی جماعت میں پڑھا کرتے تھے؟"
"نویں میں"
یہ سنکر لڑکے کی حیرت اور بھی بڑھ گئی، اسے اپنے بھائی کا خیال آیا جو نویں جماعت میں تعلیم پا رہا تھا، وہ اس سے عمر میں دوگنا تھا۔ اسکی تعلیم اس سے کہیں زیادہ تھی، وہ انگریزی کی کئی کتابیں پڑھا ہوا تھا اور اسے ہر وقت نصیحتیں کیا کرتا تھا۔ پھر یہ کیونکر ممکن تھا کہ اس عمر کا لڑکا اور اچھا پڑھا لکھا لڑکا چوری کرے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکی عقل اس معمے کو نہ حل کر سکی، چنانچہ اس نے پھر سوال کیا۔
"آپ نے چوری کیوں کی؟"
یہ مشکل سوال دیکھ کر بوڑھا تھوڑی دیر کیلیئے بہت گھبرایا، آخر وہ اسکا کیا جواب دے سکتا تھا کہ فلاں کام اس نے کیوں کیا؟ بظاہر اسکا جواب یہی ہو سکتا تھا "اس لیئے کہ اس وقت دماغ میں یہی خیال آیا۔"
بوڑھے نے دل میں یہی جواب سوچا مگر اس سے مطمئن نہ ہو کر یہی بہتر خیال کیا کہ تمام داستان من و عن بیان کر دی جائے، اس لیئے کہ وہ بذاتِ خود اس سوال کا سب سے آسان جواب ہے۔
"اسکا جواب میری کہانی ہے جو تمھیں سنانے والا ہوں۔"
"سنائیے۔"
لڑکے اس بوڑھے آدمی کی چوری کا حال سننے کیلیئے اپنی اپنی جگہ پر جم کر بیٹھ گئے، جو الاؤ کے سامنے اپنے سپید بالوں کو انگلیوں سے کنگھی کر رہا تھا اور جسے وہ ایک بہت بڑا آدمی خیال کرتے تھے۔
مردِ معمر کچھ عرصے تک خاموش اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہا پھر اس بھولے ہوئے واقعے کے تمام منتشر ٹکڑے فراہم کر کے بولا۔
"ہر شخص خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کرتا ہے جس پر وہ تمام عمر نادم رہتا ہے۔ میری زندگی میں سب سے برا فعل ایک کتاب کی چوری ہے۔"
یہاں تک پہنچ کر وہ رک گیا، اسکی آنکھیں جو ہمیشہ ایک ناقابلِ انداز میں چمکتی رہتی تھیں، دھندلی پڑ گئیں۔ اسکے چہرے کی تبدیلی سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے زبردست ذہنی تکلیف کا سامنا کر رہا ہے۔ چند لمحات کے توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوا۔
"سب سے مکروہ فعل کتاب کی چوری ہے جو میں نے ایک کتب فروش کی دکان سے چرائی۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب میں نویں جماعت میں تعلیم پا رہا تھا۔ قدرتی طور پر جیسا کہ اب تمھیں کہانی سننے کا شوق ہے، مجھے افسانے یا ناول پڑھنے کا شوق تھا۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں خبط تھا۔ دوستوں سے مانگ کر یا خود خرید کر میں ہر ہفتے ایک نہ ایک کتاب ضرور مطالعہ کیا کرتا تھا۔ وہ کتابیں عموماً عشق و محبت کی بے معنی داستانیں یا فضول جاسوسی قصے ہوا کرتے تھے۔
یہ کتابیں میں ہمیشہ چھپ چھپ کر پڑھا کرتا تھا، میرے والدین کو میری اس حرکت کی کوئی خبر نہ تھی، اگر انہیں معلوم ہوتا تو وہ مجھے ہر گز ایسا نہ کرنے دیتے، اس لیئے کہ اس قسم کی کتابیں سکول کے لڑکے کیلیئے بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔ میں انکے مہلک نقصان سے غافل تھا، چنانچہ مجھے اسکا نتیجہ بھگتنا پڑا۔۔۔۔۔۔۔میں نے چوری کی اور پکڑا گیا۔"
"ہاں پکڑا گیا۔۔۔۔۔۔چونکہ میرے والدین اس واقعے سے بالکل بے خبر تھے۔ یہ عادت پکتے پکتے میری طبیعت بن گئی۔ اب مجھے ہر روز ایک کتاب یعنی ناول کی ضرورت لاحق ہونے لگی۔ گھر سے جتنے پیسے ملتے میں انہیں جوڑ جوڑ کر بازار سے افسانوں کی کتابیں خریدنے میں صرف کر دیتا۔ سکول کی پڑھائی سے رفتہ رفتہ مجھے نفرت ہونے لگی۔ پس ہر وقت میرے دل میں یہی خیال سمایا رہتا کہ فلاں کتاب جو فلاں ناول نویس کی لکھی ہوئی ہے ضرور پڑھنی چاہیئے، یا فلاں کتب فروش کے پاس نئی ناولوں کا ایک ذخیرہ موجود ہے وہ ایک نظر ضرور دیکھنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔شوق کی یہ انتہا دوسرے معنوں میں دیوانگی ہے۔ اس حالت میں انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کرنیوالا ہے یا کیا کر رہا ہے۔ اس وقت وہ ایک بے عقل بچے کی مانند ہوتا ہے جو اپنی طبیعت خوش کرنے یا شوق پورا کرنے کیلیئے جلتی ہوئی آگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ اسے یہ پتا نہیں ہوتا کہ وہ چمکنے والی شے جسے وہ پکڑ رہا ہے اسکا ہاتھ جلا دے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک یہی حالت میری تھی۔ فرق اتنا ہے کہ بچہ شعور سے محروم ہوتا ہے اسلیئے وہ بغیر سمجھے بوجھے بری سے بری حرکت کر بیٹھتا ہے مگر میں نے عقل کا مالک ہوتے ہوئے چوری ایسے مکروہ جرم کا ارتکاب کیا۔ یہ آنکھوں کی موجودگی میں میرے اندھے ہونے کی دلیل ہے۔ میں ہر گز ایسا کام نہ کرتا اگر میری عادت مجھے مجبور نہ کرتی۔
ہر انسان کے دماغ میں شیطان موجود ہوتا ہے جو وقتاً فوقتاً اسے برے سے برے کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ شیطان مجھ پر اس وقت غالب آیا جب کہ سوچنے کیلیئے بہت کم وقت تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر۔"
لڑکے خاموشی سے بوڑھے کے ہلتے ہوئے لبوں کی طرف نگاہیں گاڑے اسکی داستان کو سن رہے تھے۔ داستان کا تسلسل اس وقت ٹوٹتے دیکھ کر جب کہ اصل مقصد بیان کیا جانے والا تھا وہ بڑی بیقراری سے بقایا تفصیل کا انتظار کرنے لگے۔
"مسعود بیٹا، یہ سامنے والا دروازہ تو بند کر دینا، سرد ہوا آ رہی ہے۔" بوڑھے نے اپنا کمبل گھٹنوں پر ڈالتے ہوئے کہا۔
مسعود "اچھا بابا جی" کہہ کر اٹھا اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کرنے کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
"ہاں تو ایک دن جب کہ والد گھر سے باہر تھے۔" بوڑھے نے اپنی داستان سنانا شروع کر دی۔ "مجھے بھی کوئی خاص کام نہ تھا اور وہ کتاب جو میں ان دنوں پڑھ رہا تھا قریب الاختتام تھی، اسلیئے میرے جی میں آئی کہ چلو فلاں کتب فروش تک ہو آئیں جسکے پاس بہت سی جاسوسی ناولیں پڑی ہوئی تھیں۔
میری جیب میں اس وقت کچھ پیسے موجود تھے جو ایک معمولی ناول کے دام ادا کرنے کیلیئے کافی تھے چنانچہ میں گھر سے سیدھا اس کتب فروش کی دکان پر گیا۔ یوں تو اس دکان پر ہر وقت بہت اچھی اچھی ناولیں موجود رہتی تھیں مگر اس دن خاص طور پر بالکل نئی کتابوں کا ایک ڈھیر باہر تختے پر رکھا ہوا تھا۔ ان کتابوں کے رنگ برنگے سر ورق دیکھ کر میری طبیعت میں ایک ہیجان سا برپا ہو گیا۔ دل میں یہ خواہش گدگدانے لگی کہ وہ تمام میری ملکیت بن جائیں۔
میں دکاندار سے اجازت لیکر ان کتابوں کو ایک نظر دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔ ہر کتاب کے شوخ سر ورق پر اس قسم کی کوئی نہ کوئی عبارت لکھی ہوئی تھی۔
"یہ نا ممکن ہے کہ اس کا مطالعہ آپ پر سنسنی نہ طاری کر دے۔"
"مصورِ اسرار کا لاثانی شاہکار۔"
"تمثیل، ہیجان، رومان۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب یکجا"
اس قسم کی عبارتیں اشتیاق بڑھانے کیلیئے کافی تھیں مگر میں نے کوئی خاص توجہ نہ دی اسلیئے کہ میری نظروں سے اکثر ایسے الفاظ گزر چکے تھے۔ گو اسکے ساتھ ہی مجھے یہ خواہش ضرور تھی کہ میں ان کتابوں کا مالک بن جاؤں۔ خیر میں تھوڑا عرصہ کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ اس وقت میرے دل میں چوری کرنے کا خیال مطلقاً نہ تھا بلکہ میں نے خریدنے کیلیئے ایک کم قیمت کی ناول چن کر علیحدہ کر رکھی تھی۔
تھوڑی دیر کے بعد دل میں یہ ارادہ کر کے کہ میں دوسرے ہفتے ان ناولوں کو دوبارہ دیکھنے آؤنگا، میں نے اپنی انتخاب کردہ کتاب اٹھائی، کتاب کا اٹھانا تھا کہ میری نگاہیں ایک مجلد ناول پر گڑ گئیں۔ سر ورق کے ایک کونے پر میرے محبوب ناولسٹ کا نام سرخ لفظوں میں چھپا ہوا تھا، اسکے ذرا اوپر کتاب کا نام تھا۔
"منتقم شعاعیں۔۔۔۔۔۔۔کسطرح ایک دیوانے ڈاکٹر نے لندن کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا۔"
یہ سطور پڑھتے ہی میرے اشتیاق میں ایک قسم کی طغیانی آ گئی۔ کتاب کا وہی مصنف، جس نے اس سے پیشتر مجھ پر راتوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔ ناول کو دیکھتے ہی میرے دماغ میں خیالات کا ایک گروہ داخل ہو گیا۔
"منتقم شعاعیں۔۔۔۔۔۔۔دیوانے ڈاکٹر کی ایجاد۔۔۔۔۔۔۔۔کیسا دلچسپ افسانہ ہوگا۔
لندن تباہ کرنے کا ارادہ۔۔۔۔۔۔۔یہ کسطرح ہو سکتا ہے؟
اس مصنف نے فلاں فلاں کتابیں کتنی سنسنی خیز لکھی ہیں۔
یہ کتاب ضرور ان سے بہتر ہوگی۔"
میں خاموش اس کتاب کی طرف دیکھ رہا تھا اور یہ خیالات یکے بعد دیگرے میرے کانوں میں شور برپا کر رہے تھے۔ میں نے اس کتاب کو اٹھایا اور کھول کر دیکھا تو پہلے ورق پر یہ عبارت نطر آئی۔
"مصنف اس کتاب کو اپنی بہترین تصنیف قرار دیتا ہے۔"
ان الفاظ نے میرے اشتیاق کی آگ میں ایندھن کا کام دیا۔ دفعتاً میرے دماغ کے خدا معلوم کس گوشے سے ایک خیال کود پڑا وہ یہ کہ میں اس کتاب کو اپنے کوٹ میں چھپا کر لے جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری آنکھیں بے اختیار کتب فروش کی طرف مڑیں جو ایک کاغذ پر کچھ لکھنے میں مشغول تھا۔ دکان کی دوسری طرف دو نوجوان کھڑے میری طرح کتابیں دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔میں سر سے پیر تک لرز گیا۔"
یہ کہتے ہوئے بوڑھے کا نحیف جسم اس واقعے کی یاد سے کانپا، تھوڑی دیر خاموش رہ کر اس نے پھر اپنی داستان شروع کر دی۔
"ایک لحظے کے لئے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ چوری کرنا بہت برا کام ہے مگر ضمیر کی یہ آواز سر ورق پر بنی ہوئی لانبی لانبی شعاعوں میں غرق ہو گئی۔ میرا دماغ 'منتقم شعاعیں' 'منتقم شعاعیں' کی گردان کر رہا تھا۔ میں نے ادھر ادھر جھانکا اور جھٹ سے وہ کتاب کوٹ کے اندر بغل میں دبا لی۔۔۔۔۔۔یہ کرتے ہوئے میرے دونوں ہاتھ اور ٹانگیں بڑے زور سے کانپ رہے تھے۔
اس حالت پر قابو پا کر میں کتب فروش کے قریب گیا اور اس کتاب کے دام ادا کر دیئے جو میں نے پہلے منتخب کی تھی۔ قیمت لیتے وقت اور روپے میں سے باقی پیسے واپس کرنے میں اس نے غیر معمولی تاخیر لگا دی۔ اسکے علاوہ وہ میری طرف اس وقت عجیب نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جس سے میری طبیعت سخت پریشان ہو رہی تھی۔ جی یہی چاہتا تھا کہ سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے بھاگ نکلوں۔
اس دوران میں میں نے کئی بار اس جگہ پر جو کتاب کی وجہ سے ابھری ہوئی تھی، نگاہ ڈالی۔۔۔۔۔۔اور شاید اسے چھپانے کی بے سود کوشش بھی کی۔ میری ان عجیب حرکتوں کو دیکھ کر اسے شک ضرور ہوا اسلیئے کہ وہ بار بار کچھ کہنے کی کوشش کر کے پھر خاموش ہو جاتا تھا۔
میں نے باقی پیسے جلدی سے پکڑے اور وہاں سے چل دیا۔ دو سو قدم کے فاصلے پر میں نے کسی کی آواز سنی، مڑ کر دیکھا تو کتب فروش ننگے پاؤں چلا آ رہا تھا اور مجھے ٹھہرنے کیلیئے کہہ رہا تھا، یہ دیکھتے ہی میں نے اندھا دھند بھاگنا شروع کر دیا۔
مجھے معلوم نہ تھا کہ میں کدھر بھاگ رہا ہوں، اسکے علاوہ میں اپنے گھر کی جانب رخ کئے ہوئے نہ تھا بلکہ میں شروع ہی سے اس طرف بھاگ رہا تھا جدھر بازار کا اختتام تھا، اس غلطی کا مجھے اس وقت احساس ہوا جب دو تین آدمیوں نے مجھے پکڑ لیا۔"
بوڑھا اتنا کہہ کر اضطراب کی حالت میں اپنی خشک زبان لبوں پر پھیرنے لگا، کچھ توقف کے بعد وہ ایک لڑکے سے مخاطب ہوا۔ "مسعود، پانی کا ایک گھونٹ تو پلوانا۔"
مسعود خاموشی سے اٹھا اور کوٹھڑی کے ایک کونے میں پڑے ہوئے گھڑے سے گلاس میں پانی انڈیل کر لے آیا۔ بوڑھے نے گلاس کو پکڑتے ہی منہ سے لگا لیا اور ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی پی لیا۔ "ہاں میں کیا بیان کر رہا تھا؟" بوڑھے نے خالی گلاس کو زمین پر رکھتے ہوئے کہا۔
"آپ بھاگے جا رہے تھے۔" ایک لڑکے نے جواب دیا۔
"میرے پیچھے کتب فروش چور، چور کی آواز بلند کرتا ہوا بھاگا چلا آ رہا تھا، جب میں نے دو تین آدمیوں کو اپنے قریب پہنچتے ہوئے دیکھا تو میرے ہوش ٹھکانے نہ رہے۔ جیل کی آہنی سلاخیں، پولیس اور عدالت کی تصویریں ایک ایک کر کے میری آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگیں۔ بے عزتی کا خیال آتے ہی میری پیشانی عرق آلود ہو گئی، میں لڑکھڑایا اور گر پڑا، اٹھنا چاہا تو ٹانگوں نے جواب دے دیا۔ اس وقت میرے دماغ کی عجیب حالت تھی، ایک تند دھواں سا میرے سینے میں کروٹیں لے رہا تھا۔ آنکھیں فرطِ خوف سے ابل رہی تھیں اور کانوں میں ایک زبردست شور برپا تھا جیسے بہت سے لوگ آہنی چادروں کو ہتھوڑوں سے کوٹ رہے ہیں، میں ابھی اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ کتب فروش اور اسکے ہمراہ دو تین آدمیوں نے مجھے پکڑ لیا، اس وقت میری کیا حالت تھی، اسکا بیان کرنا بہت دشوار ہے، سینکڑوں خیالات پتھروں کی طرح میرے دماغ کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر مختلف قسم کی آوازیں پیدا کر رہے تھے۔ جب انہوں نے مجھے پکڑا تو ایسا معلوم ہوا کہ آہنی پنجرے نے میرے دل کو پکڑ کر مسل ڈالا ہے، میں بالکل خاموش تھا اور وہ مجھے دکان کی طرف کشاں کشاں لے جا رہے تھے۔
جیل خانے کی کوٹھڑی یا عدالت کا دروازہ دیکھنا یقینی تھا، یہ خیال کرتے ہوئے میرے ضمیر نے مجھ پر لعنت ملامت کرنا شروع کر دی۔ چونکہ اب جو ہونا تھا، ہو چکا تھا اور میرے پاس اپنے ضمیر کو جواب دینے کیلیئے کوئی الفاظ موجود نہ تھے، میری گرم آنکھوں میں آنسو اتر آئے اور میں نے بے اختیار رونا شروع کر دیا۔"
یہ کہتے ہوئے بوڑھے کی دھندلی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔
"کتب فروش نے مجھے پولیس کے حوالے نہ کیا، اپنی کتاب لے لی اور ٹھوڑی دیر نصیحت کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔" بوڑھے نے اپنے آنسو کمبل سے خشک کرتے ہوئے کہا۔ "خدا اس کو جزائے خیر دے، میں عدالت کے دروازے سے تو بچ گیا مگر اس واقعے کی والد اور سکول کے لڑکوں کو خبر ہوگئی، والد مجھ پر سخت خفا ہوئے اور ہر ممکن طریقے سے مجھے اس مکروہ فعل پر شرم دلانے کے بعد معاف کر دیا۔
دو تین روز مجھے اس ندامت میں بخار آتا رہا، اسکے بعد جب میں نے دیکھا کہ میرا دل کسی کروٹ آرام نہیں لیتا اور مجھ میں اتنی قوت نہیں کہ میں لوگوں کے سامنے اپنی نگاہیں اٹھا سکوں تو میں شہر چھوڑ کر وہاں سے ہمیشہ کیلیئے روپوش ہو گیا۔ اس وقت سے لیکر اب تک میں نے مختلف شہروں کی خاک چھانی ہے، ہزاروں مصائب برداشت کئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔صرف اس کتاب کی چوری کی وجہ سے، جو مجھے تا دمِ مرگ نادم و شرمسار رکھے گی۔
اس آوارہ گردی کے دوران میں میں نے اور بھی بہت سی چوریاں کیں، ڈاکے ڈالے اور ہمیشہ پکڑا گیا، مگر میں ان پر نادم نہیں ہوں، مجھے فخر ہے۔"
یہ کہتے ہوئے بوڑھے کی دھندلی آنکھوں میں پھر پہلی سی چمک نمودار ہو گئی اور اس نے الاؤ کے شعلوں کو ٹکٹکی لگا کر دیکھنا شروع کر دیا۔
"ہاں، مجھے فخر ہے۔" یہ الفاظ اسنے ٹھوڑے توقف کے بعد دوبارہ کہے۔
آگ کا ایک شعلہ نہ معلوم کیوں بلند ہوا اور ایک لمحہ فضا میں تھر تھرا کر پھر الاؤ کی آغوش میں سو گیا۔ بوڑھے نے شعلے کی جرأت دیکھی اور مسکرا دیا، پھر لڑکوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔
"کہانی ختم ہو گئی ہے، اب تم جاؤ، تمھارے والدین انتظار کرتے ہونگے۔"
"مگر آپ کو اپنی دوسری چوریوں پر فخر کیوں ہے؟" مسعود نے سوال کیا۔
"آہ، فخر کیوں ہے؟" بوڑھا مسکرایا۔ "اسلئے کہ وہ چوریاں نہیں تھیں، اپنی سرقہ شدہ چیزوں کو دوبارہ حاصل کرنا چوری نہیں میرے عزیز، بڑے ہو کر تمھیں اچھی طرح معلوم ہو جائے گا۔"
"میں سمجھا نہیں۔"
"ہر وہ چیز جو تم سے چرا لی گئی ہو، تمھیں حق حاصل ہے کہ اسے ہر ممکن طریقے سے اپنے قبضے میں لے آؤ، مگر یاد رہے تمھاری یہ کوشش کامیاب ہونی چاہیئے ورنہ ایسا کرتے ہوئے پکڑے جانا اور اذیتیں اٹھانا عبث ہے۔"
لڑکے اٹھے اور بابا جی کو شب بخیر کہتے ہوئے کوٹھڑی کے دروازے سے باہر چلے گئے، بوڑھے کی نگاہیں انکو تاریکی میں گم ہوتے دیکھ رہی تھیں، تھوڑی دیر اسی طرح دیکھنے کے بعد وہ اٹھا اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے بولا۔
"آہ، اگر بڑے ہو کر وہ صرف کھوئی ہوئی چیزیں واپس لے سکیں۔"