آتش ہجر وہ رنگوں سے بجھا آیا ہے
کینوس پر تری تصویر بنا آیا ہے
موسمِ عشق ہی اب پھول کھلائے تو کھلے
دل تو ہر شاخ پہ اک تتلی بٹھا آیا ہے
اے وہ لڑکی جو کبھی گھر سے نکلتی ہی نہیں
دیکھ در پر ترے اک آبلہ پا آیا ہے
وقت کی میز سے وہ خواب اُٹھا لے کوئی
وہ جسے بھول کے عجلت میں چلا آیا ہے
چھوڑ آیا ہے سمندر کو دہائی دیتے
پیاس کو اپنی وہ ساحل پہ بٹھا آیا ہے
اپنی کٹیا میں کہیں اُس نے وہ دکھ بھوگا تھا
جس کو بھولا ہے تو جنگل بھی گنوا آیا ہے
اشک عیّار کی زنبیل میں کیا ہے یہ جمیل
گریہء سرخ ہے یا خون بہا آیا ہے
(جمیل الرحمن)