بہت خوب اور بہت شکریہ
ظفری بھائی۔۔۔!
یہاں کچھ مزید اشعار دیکھنے کو ملے ۔ سوچا وہ بھی یہاں لکھ دیے جائیں۔
آپ کو دیکھ کر، دیکهتا ره گیا
کیا کہوں؟ اور کہنے کو کیا ره گیا؟
آتے آتے، میرا نام سا، ره گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا ره گیا
وه میرے سامنے ہی گیا، اور میں
راستے کی طرح دیکهتا ره گیا
جهوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تها کہ سچ بولتا ره گیا
آندهیوں کے ارادے تو اچھے نہ تهے
یہ دیا کیسے جلتا ہوا ره گیا؟
ان کی آنکهوں سے کیسے چهلکنے لگا
میرے ہونٹوں پہ جو ماجرا ره گیا
ایسے بچهڑے سبهی رات کے موڑ پر
آخری ہمسفر راستہ ره گیا
سوچ کر آؤ کوئے تمنا ہے یہ
جان من! جو یہاں ره گیا، ره گیا
وسیم بریلوی