یاد بھی عجیب چیز ہے۔۔۔۔ آنے پر آئے تو بےتحاشہ آئے۔۔۔ اور نہ آئے تو کبھی گماں کے دریچوں کے بھی پاس نہ پھٹکے۔۔۔ مصروفیت حاوی ہو جاتی ہے۔ تو محبت اور تعلق مٹنے لگتے ہیں۔ لیکن کسی ایسے لمحے میں کبھی یونہی بیٹھے بیٹھے جب کسی کی یاد لبوں پر مسکان لے آئے۔۔۔ تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم کو سب یاد ہے۔۔۔ پانی پر برف جم گئی ہے۔ لیکن نیچے پانی یونہی رواں دواں ہے۔ یادوں کی حدت کبھی اس برف کو پگھلا دیتی ہے تو نیچے سے وہی اجلے لمحے اور بےغرض محبتیں اپنی اصل شکل میں نمودار ہوجاتی ہے۔ تخیل کے پردے میں انسان پہروں بھیگتا رہتا ہے۔ خود لطف لیتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جنہیں وہ یاد کر رہا ہوتا ہے۔ ان کیفیات سے بےخبر انجان اپنی زندگی کے فیصلوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ اور کبھی جب ان کی یادوں کی حدت ان کے تعلقات پر پڑی برف کو پگھلاتی ہے تو ادھر ہم سے بےخبری کے دشت میں خیمے لگا کر سوئے ہوتے ہیں۔ ازل سے سلسلہ ہے یاد آنے اور نہ آنے کا۔۔۔ جو چلا جا رہا ہے۔
محمداحمد بھائی بہت خوبصورت دھاگہ بنایا آپ نے۔ کہ مسرت کے موقعوں پر ان کی یاد کرنا جو کبھی انہیں یا اس جیسے موقعوں پر ہم رکاب تھے پرانی ریت ہے۔ اور آپ نے طرب کے ان لمحوں میں ان چہروں کو محو نہ ہونے دیا۔ جن کے مراسلوں کی شوخی آج بھی لبوں پر بےاختیار مسکان لے آتی ہے۔
کسی کے یوں بچھڑنے پر، کسی کے یاد آنے پر
بہت سے لوگ روتے ہیں کہ رونا اک روایت ہے
غم جاناں سے گھبرا کر روایت توڑ جاتا ہوں
تمہاری یاد آنے پر میں اکثر مسکراتا ہوں
یہ شعر ایسے لگتا ہے۔ شاید غلط لکھا ہو۔۔۔ پر اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے فی الوقت کے شعر غلط ہے یا صحیح۔۔۔ میں نے تو ان لوگوں کے واسطے لکھا کہ جو آج اگر یہاں موجود ہوتے تو اس طربیہ تقریب میں درخشاں ستاروں کی مانند چمکتے۔ کہ ان کے وجود کی رونق اس تقریب کا لطف دوبالا کر دیتیں۔
مقدس بٹیا اپنی مصروفیات میں کندن بننے کے عمل سے گزر رہی ہے۔ تو وہیں
قیصرانی بھائی بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں۔
ساجد بھائی اور
عسکری کا محفل کو خیر آباد کہنا بھی جہاں اک سانحہ ہے۔ وہیں
مہ جبین آپی
تعبیر آپی اور
قرۃالعین اعوان کی غیر موجودگی کو بھی بہت شدت سے محسوس کر رہا ہوں۔
فرحت کیانی بھی شاید سفر نصیب سے نہیں لوٹی۔ اور
محب علوی بھائی بلاگ میں ہی مصروف ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ جہاں بھی ہیں خوش رہیں۔ خوش باش رہیں۔ میری دعائیں ان سب کے لیے ہیں جن کو میں جانتا ہوں۔ یا جن کو میں نہیں جانتا۔۔۔ لیکن اس پر مسرت موقع پر آج سب ہوتے تو شاید۔۔۔۔۔۔۔۔ کہنا بہت کچھ چاہتا ہوں۔ لیکن ہمیشہ کی طرح الفاظ کی قلت کا شکار ہوگیا۔ لفظ ختم ہوگئے۔ اور سوچ کے دھارے الفاظ کی شکل میں نہ ڈھلنے پر تحلیل ہوتے جا رہے ہیں۔