محسن نقوی آج تنہائی نے تھوڑا سا دِلاسہ جو دیا

صائمہ شاہ

محفلین
آج تنہائی نے تھوڑا سا دِلاسہ جو دیا


آج تنہائی نے تھوڑا سا دِلاسہ جو دیا
کتنے رُوٹھے ہوئے ساتھی مُجھے یاد آئے ہیں
موسمِ وصل کی کِرنوں کا وہ انبوہِ رواں
جس کے ہمراہ کسی زُہرہ جبِیں کی ڈولی
ایسے اُتری تھی کہ جیسے کوئی آیت اُترے
ہِجر کی شام کے بِکھرے ہوئے کاجل کی لکِیر
جس نے آنکھوں کے گُلابوں پہ شفق چَھڑکی تھی
جیسے خُوشبو کسی جنگل میں برہنہ ٹھہرے
خلقتِ شہر کی جانب سے ملامت کا عذاب
جس نے اکثر مُجھے’’ہونے‘‘ کا یقیں بخشا تھا
دستِ اعدأ میں وہ کِھنچتی ہوئی تہمت کی کماں
بارشِ سنگ میں کُھلتی ہوئی تیروں کی دُکاں
مہرباں دوست، رفاقت کا بھرم رکھتے ہوئے
اجنبی لوگ، دل و جاں میں قدم رکھتے ہوئے
آج تنہائی نے تھوڑا سا دِلاسہ جو دیا
کتنے رُوٹھے ہوئے ساتھی مُجھے یاد آئے ہیں
اب نہ پندارِ وفا ہے، نہ محبت کی جزا
دستِ اعدأ کی کشِش ہے نہ رفیقوں کی سزا
تختۂ دار، نہ منصب، نہ عدالت کی خلِش
اب تو اِک چِیخ سی ہونٹوں میں دبی رہتی ہے
راس آئے گا کسے دشتِ بلا میرے بعد؟
کون مانگے گا اُجڑنے کی دُعا میرے بعد؟
آج تنہائی نے تھوڑا سا دِلاسہ جو دیا
 
اب نہ پندارِ وفا ہے، نہ محبت کی جزا
دستِ اعدأ کی کشِش ہے نہ رفیقوں کی سزا
تختۂ دار، نہ منصب، نہ عدالت کی خلِش
اب تو اِک چِیخ سی ہونٹوں میں دبی رہتی ہے
راس آئے گا کسے دشتِ بلا میرے بعد؟
کون مانگے گا اُجڑنے کی دُعا میرے بعد؟
آج تنہائی نے تھوڑا سا دِلاسہ جو دیا۔۔
واہ واہ ۔۔۔کیسا نوحہ لکھا ہے ۔۔۔۔بہت خوب صائمہ ۔۔۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
اب نہ پندارِ وفا ہے، نہ محبت کی جزا
دستِ اعدأ کی کشِش ہے نہ رفیقوں کی سزا
تختۂ دار، نہ منصب، نہ عدالت کی خلِش
اب تو اِک چِیخ سی ہونٹوں میں دبی رہتی ہے
راس آئے گا کسے دشتِ بلا میرے بعد؟
کون مانگے گا اُجڑنے کی دُعا میرے بعد؟
آج تنہائی نے تھوڑا سا دِلاسہ جو دیا۔۔
واہ واہ ۔۔۔ کیسا نوحہ لکھا ہے ۔۔۔ ۔بہت خوب صائمہ ۔۔۔
شکریہ مدیحہ
خلقتِ شہر کی جانب سے ملامت کا عذاب​
جس نے اکثر مُجھے’’ہونے‘‘ کا یقیں بخشا تھا​
دستِ اعدأ میں وہ کِھنچتی ہوئی تہمت کی کماں​
بارشِ سنگ میں کُھلتی ہوئی تیروں کی دُکاں​
مہرباں دوست، رفاقت کا بھرم رکھتے ہوئے​
اجنبی لوگ، دل و جاں میں قدم رکھتے ہوئے​
 

mohsin ali razvi

محفلین
غم دوران که شود مرهم عشق عامل غم نبود صاحب عشق
درد زخمیست که زدند بر دل ما ما کجا و تو کجا عامل عشق
-----
عشق هر جائی
------
زندگی حامل بربادی ما راه می خانه بود منزل عشق
دگر و باز دگر یافته ای جام و مینا ی دگر ساخته ای
کن خرابات دلم را ویران نو بهار دگری یافته ای
قلب عامل نبود سنگ بود سنگ تراشان کهن یافته ای
رخ زیبا و تنی همچون گل روح آواره سری یافته ای
مکتب عشق تو خالی زه وفا کاتب عشق دگر یافته ای
نرود عامل برباد از این میخانه تو ثنا خوان دگر یافته ای
جام و مینا ندهی قرض مرا نقد عشقی تو دگر یافته ای
بعد مرگم ندهی غسل مرا زنده عشقی تو دگر یافته ای
عاملا یوزه گری کن پیشه دگرو باز دگر عشق نما یافته ای
عامل شیرازی ۸:۵۲ -- دوشنبه یکم ذی الحج ۷/ ۱۰ ۲۰۱۳
 
Top