Abbas Swabian
محفلین
(مذکر مونث اور دیگرضروری اصلاح ہو جائے تو مہربانی ہوگی)
آج جب گزرا ایک چوراہے سے
آنکھوں میں ایک چبھن سی ہوئی
ذرا گھوم کے دیکھا غور سے
بڑا دلخراش منظر تھا
ایک بے بس عورت کھڑی تھی
دکاندار تو موجود ہی تھا
مگر چند اور بھی تماشائی تھے
وہ عورت چند سکوں کی خاطر
سراپا سوال تھی بنی
اور وہ لوگ اس کے جسم کے
ہر ایک نقطے پہ نظریں رکھ کر
دلوں کو خوب ہوا دیتے رہے
وہ دکاندار بھی ظالم تھا بڑا
اس عورت کو چند طعنے دے کر
کہیں اور جانے کا کہا
وہ عورت صبر کا تھی پہاڑ
اپنے آنسو کو روک کر اس نے
ایک ایک دکان پہ گئی
مگر افسوس کہ سبھی پتھر دل
اس مجبور کو طعنے دیتے رہے
وہ بے بسی کے عالم میں
سرد آہ بھر کر کہنے لگی
میں اگر جسم فروشی کرتی
یہ سبھی مرد پجاری ہوتے
لیکن اے میرے خالق
آج بھی صبر ہے فاقے پر
میں نے جب سارا یہ منظر دیکھا
خود سے کہنے لگا میں اے شایین
یہ کن جانوروں کی بستی ہے
یہاں انسانیت اتنی سستی ہے؟
پھر دل میں خیال آیا اس عورت کا
سوچا کہ اس کی مدد کروں
لیکن نہ جانے پل بھر میں
وہ صبر کی پیکر کہاں چلی
آخری تدوین: