کاشفی
محفلین
غزل
آج دل بیقرار ہے کیا ہے
درد ہے انتظار ہے کیا ہے
جس سے جلتا ہے دل جگر وہ آہ
شعلہ ہے یا شرار ہے کیا ہے
یہ جو کھٹکے ہے دل میں کانٹا یاں
مژہ ہے نوک خار ہے کیا ہے
چشم بددور تیری آنکھوں میں
نشہ ہے یا خمار ہے کیا ہے
میرے ہی نام سے خدا جانے
ننگ ہے اس کو عار ہے کیا ہے
کیوں گریباں تیرا آج حسن
اس طرح تار تار ہے کیا ہے