قانون اسلام یا بزازی ازم؟ کیا چاہئے؟
عباسی خلیفہ بنیادی طور پر ایرانی یا فارسی خلیفہ تھے لکھا ان کو خلیفہ ہی جاتا ہے لیکن بنیادی طور پر یہ بادشاہت تھی، جو نسل در نسل چلی، اس نام نہاد خلافت نے اپنی بادشاہت کو اپنی نسلوں تک محدود رکھنے کے لئے کہ بادشاہت باپ سے بیٹے تک منتقل ہوتی رہے، طرح طرح کی قانون سازی کی، جس میں فتوے بازی، دلائیل بازی اور طرح طرح کی تاویل بازی شامل ہے۔ ۔
خلیفہ ہارون الرشید کا حوالہ ملاحظہ فرمائیے کہ یہ ایک بادشاہ جانے جاتے ہیں ،
ابو جعفر عبداللہ المامون ابن ہارون الرشید کے زمانے سنہ 813 تا 833 عیسوی میں پہلی بار یہ فتوی البزازی ( محمد بن محمد بن شهاب المعروف بابن البزاز الکردري الحنفي المتوفي ۸۲۷) نے دیا کہ رسول اکرم کی توہین کی سزا موت ہے ۔ اس فتوے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ بادشاہ کی بادشاہت کی حفاظت کی جائے اور وہ لوگ جو باہمی مشورے کی حکومت بذریعہ بیعت (ووٹنگ) خلافت راشدہ کے اصولوں پر چاہتے ہیں اور اس طرح باپ کی بادشاہت وراثت میں بیٹے کو ملنے کے خلاف ہیں، ایسے افراد کو شاتم رسول قرار دے کر، ان افراد کا قلع قمع کیا جائے۔ لہذا جو کوئی بھی اس موضوع پر بحث کرتا تھا، اس کے لئے یہ فتوی موجود تھا۔ مغل بادشاہوں نے نے بھی اسی فتوے کا سہارا لیا ۔ اور
فتاوی عالمگیری میں درج فتاوی اور روایات کے مطابق عام طور پر تارک الرسول اور تارک قرآن قرار دے کر مخالفین کی گردن زدنی کرتے رہے۔
جب ملاء ، خلافت کا اور اسلامی نظام کا تقاضا کرتا ہے تو وہ بنیادی طور پر عباسی خلافت نما بادشاہت مانگتا ہے کہ اس نظام میں البزازی ازم نے خوب فروغ پایا، ملاء کو قومی دولت، عورت اور غلام تینوں کی بادشاہ وقت کی طرف سے فراوانی رہی، فوج ، قانون اور کنٹرول ملاء کے ہاتھ میں رہا۔ پاکستان میں دفعہ 295 سی ، قرآنی یا اسلامی قوانین کی آئینہ دار نہیں۔ یہ البزازی ازم کی آئینہ دار ہے۔
ثبوت ملاحظہ فرمائیے۔ کہ 295 سی پہلی بار البزازی نے لکھا ، اسلام قرانی آیات سے مروج ایک متوازن اور رحم کرنے والے قانون کا نام ہے۔ جب کہ بزازی ازم ، انتہا پسندی۔ "اختلاف کی سزا موت" ، سنگساری، اور ٹوٹل کنٹرول کا نام ہے کہ آپ اللہ کے فرمان کے مطابق، کسی بھی بات پر "باہمی مشورہ " نا کرسکیں ، آواز اٹھائیں یا بحث کریں ، بس "اختلاف کی سزا موت " ۔
رب کریم اللہ تعالی نے صاف صاف لکھ دیا کہ دو وجوہات کے علاوہ کسی دوسری وجہ سے قتل کرنا گویا تمام انسانیت کا قتل ہے ، خود فیصلہ کیجئے کہ جو جان بچانے نکلے اسکو برسرعام بنا وارننگ کے قتل کردیا جائے اور جو قتل کردے اس کو ہیرو قرار دیا جائے، اس میں سے بزازی ازم کون سا ہے اور اسلام کون سا ہے۔ جو لوگ انتہا پسندی سے بھرپور بزازی ازم کے قائیل ہیں وہ اپنے آپ کو مسلمان کیوں کہتے ہیں ۔ اپنے آپ کو بزازی کیوں نہیں کہتے؟
سورہ المائیدہ - آیت نمبر 32
اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اورجس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی اورہمارے رسولوں ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں سے بہت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں
درج ذیل حوالہ ڈان اخبار سے ہے
حوالہ: