آج پھر بجٹ تقریر ہے ۔۔۔

یہ تحریر گذشتہ برس بجٹ کے موقع پر لکھی تھی۔

آج پھر بجٹ تقریر ہے۔
آج پھر ساری قوم ٹی وی، ریڈیو کے سامنے بیٹھی ہو گی۔
آج پھر سرکاری ملازمین تنخواہوں میں اضافے کی خوشخبری کے منتظر ہوں گے۔
آج پھر گاڑی خریدنے کے خواہشمند، گاڑی پر ڈیوٹی کم ہونے کے منتظر ہوں گے۔
آج پھر مزدور کم سے کم اجرت بڑھنے کے منتظر ہوں گے۔
آج پھر صنعتکار سیلز ٹیکس کے بڑھنے پر قیمتوں میں اضافہ کرنے کے منتظر ہوں گے۔
آج پھر تنخواہ دار طبقہ ٹیکس میں کمی کا منتظر ہو گا۔

تقریر ہو گی۔
دلوں کی دھڑکن اوپر نیچے ہو گی۔
کبھی تیوریاں چڑھیں گی۔
کبھی باچھیں کھلیں گی۔
تقریر ختم ہو گی۔

الیکٹرانک میڈیا کی دکان سجے گی۔
ہر چینل پر دنیا جہاں کے اکانومسٹ پتنگوں کی طرح ہر طرف سے نکلیں گے۔
سب اپنا منجن بیچیں گے۔
کوئی بجٹ کو تاریخی بجٹ ثابت کرے گا۔
کوئی بجٹ کو بد ترین بجٹ ثابت کرے گا۔
حکومتی نمائندے بھی نمودار ہوں گے۔
بجٹ کو عوام کے لیے تحفہ قرار دیں گے۔
اپوزیشن رہنما بھی تشریف لائیں گے۔
بجٹ کو عوام دشمن قرار دیں گے۔
سوشل میڈیا بھی خوب گرم ہو گا۔
ہر بندہ اپنے اندر موجود اکانومسٹ کو بیدار کرے گا۔
حکومتی و اپوزیشنی پارٹی کے ورکر ایک کے مقابلے میں دوسرا ہیش ٹیگ لے کر آئیں گے۔
فیس بک پر بھی تجزیوں کی بہار آئے گی۔

دن ختم ہو گا۔
بجٹ گزر جائے گا۔
زندگی معمول پر آ جائے گی۔

غریب کا بچہ آج پھر روٹی کے بغیر سو جائے گا۔
 

محمد امین

لائبریرین
کوئی 15 سال پہلے، آٹا، چینی، پیٹرول، گوشت، دالیں، پھل وغیرہ اپنی موجودہ قیمت سے 4، 5 گنا کم قیمت تھے۔۔ گائے کا گوشت 84 روپے کلو بغیر ہڈی ملتا تھا۔ دودھ شاید 30 35 روپے لٹر تھا، یا اس سے بھی کم۔
 

محمد امین

لائبریرین
4،5 سال قبل آم 20، 25 روپے کلو ملتے تھے۔ اب 80،100 روپے کلو کم از کم۔۔۔ کیلے بھی اچھے والے 100 روپے درجن ہیں، یہ تو 15،20 روپے درجن مل جاتے تھے 2 سال قبل۔۔ کوئی اچھا پھل 100 روپے کلو یا درجن سے کم نہیں ملتا۔۔۔
 

تجمل حسین

محفلین
کوئی 15 سال پہلے، آٹا، چینی، پیٹرول، گوشت، دالیں، پھل وغیرہ اپنی موجودہ قیمت سے 4، 5 گنا کم قیمت تھے۔۔ گائے کا گوشت 84 روپے کلو بغیر ہڈی ملتا تھا۔ دودھ شاید 30 35 روپے لٹر تھا، یا اس سے بھی کم۔
جناب والا! 15 سال پہلے تو دودھ ہمارے ہاں 12 سے 15 روپے لٹر تھا۔
 

arifkarim

معطل
جناب والا! 15 سال پہلے تو دودھ ہمارے ہاں 12 سے 15 روپے لٹر تھا۔
ہم نے پاکستان سنہ ۲۰۰۰ میں چھوڑا۔ اسوقت ۱۰ روپے لیٹر دودھ میں خود لایا کرتا تھا۔ مہنگائی کا نام و نشان نہیں تھا۔ اب الحمدللّٰہ سب کچھ مہنگا ہو گیا ہے
 

تجمل حسین

محفلین
ہم نے پاکستان سنہ ۲۰۰۰ میں چھوڑا۔ اسوقت ۱۰ روپے لیٹر دودھ میں خود لایا کرتا تھا۔ مہنگائی کا نام و نشان نہیں تھا۔ اب الحمدللّٰہ سب کچھ مہنگا ہو گیا ہے
یہ بھی تو دیکھیے کہ اس وقت مزدور کی مزدوری بھی تو اسی لحاظ سے تھی۔
 

محمد امین

لائبریرین
یہ بھی تو دیکھیے کہ اس وقت مزدور کی مزدوری بھی تو اسی لحاظ سے تھی۔

جی نہیں، مزدور کی اجرت کا تناسب وہ نہیں ہے جو مہنگائی کا ہے۔ اور پھر اس میں بہت سارے معاشی فیکٹرز ہیں۔ مثال کے طور پر جدید ترین چیزیں آنے لگی ہیں جن کو خریدنے کے لیے ہر بندے کا دل کرتا ہے لیکن وہ خریدنے کی سکت نہیں رکھتا لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ کر کے شوق پورا کرنا چاہتا ہے، جیسے کہ موبائل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ۔ اب کوئی کہے کہ عام آدمی کو کیا ضرورت یہ پر تعیش اشیاٰء استعمال کرے۔۔ تو اسی کو شاید معاشرتی عدم مساوات اور عدم توازن کہتے ہیں۔ پچھلے 30، 40 سالوں میں حکومت نے عام آدمی کے ٹرانسپورٹ کے مسائل ہی حل نہیں کیے تو نتیجتاََ ہر بندے کو اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل لازمی خریدنی پڑتی ہے، جس سے اس کے خرچوں میں اضافہ اور سڑکوں پر ماراماری بڑھتی اور ذہنی امراض میں اضافہ ہوتا ہے تو عام آدمی کو بھی لیکسوٹینل کھا کر سونا پڑتا ہے، اس کا خرچہ الگ۔ اب دیکھیں نا، پہلے ہمارے محلے میں ہر گھر میں گاڑی نہیں ہوتی تھی، بائک بھی نہیں ہوتی تھی، لیکن اب ہر گھر میں الحمد للہ کئی کئی بائکس اور دو دو گاڑیاں ہیں۔ لیکن کیا گاڑی اور مہنگے موبائل فونز سے معیارِ زندگی کا فیصلہ ہوتا ہے؟ اس بات کا جواب بہت مشکل اور پیچیدہ ہے۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
ہمارے باپ دادا نے مڈل کلاس ہونے کے باوجود الحمد للہ اپنا گھر بنا لیا۔۔۔ ہم سوچتے ہیں تو حیرانی پریشانی ہوتی ہے کہ اس تنخواہ میں گھر چل ہی سکتا ہے، بن تو نہیں سکتا۔۔ ہمارا علاقہ عام سا علاقہ ہے لیکن یہاں عام سا گھر بھی 1 کروڑ روپے سے کم نہیں ہے۔ مڈل کلاس آدمی موجودہ اجرت اور مہنگائی کے تناسب کی وجہ سے روپیہ پس انداز کر ہی نہیں سکتا۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
جناب والا! 15 سال پہلے تو دودھ ہمارے ہاں 12 سے 15 روپے لٹر تھا۔

مجھے اتنا یاد ہے کہ 1995-96 میں دودھ 16 روپے لٹر تھا، یعنی 20 سال قبل۔۔۔ سنہ 2000 کے بعد کا یاد نہیں کیوں کہ پھر قیمتیں بہت تیزی سے اوپر نیچے ہونا شروع ہوگئی تھیں مشرف دور میں۔۔
 

arifkarim

معطل
ہمارے باپ دادا نے مڈل کلاس ہونے کے باوجود الحمد للہ اپنا گھر بنا لیا۔۔۔ ہم سوچتے ہیں تو حیرانی پریشانی ہوتی ہے کہ اس تنخواہ میں گھر چل ہی سکتا ہے، بن تو نہیں سکتا۔۔ ہمارا علاقہ عام سا علاقہ ہے لیکن یہاں عام سا گھر بھی 1 کروڑ روپے سے کم نہیں ہے۔ مڈل کلاس آدمی موجودہ اجرت اور مہنگائی کے تناسب کی وجہ سے روپیہ پس انداز کر ہی نہیں سکتا۔۔
متفق! تنخواہ اور مال یعنی ویج اور کیپیٹل میں کوئی تناسب ہی نہیں ہے۔ کیپیٹل ازم تب چلتی ہے جب مال تنخواہ میں سے بچے۔ یہاں تو یہ صورت حال ہے کہ تمام تنخواہ ماہانہ خرچوں میں نکل جاتی ہے تو مکان خریدنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ماسوائے بینک سے قرضہ لینے کے۔
 

محمد امین

لائبریرین
متفق! تنخواہ اور مال یعنی ویج اور کیپیٹل میں کوئی تناسب ہی نہیں ہے۔ کیپیٹل ازم تب چلتی ہے جب مال تنخواہ میں سے بچے۔ یہاں تو یہ صورت حال ہے کہ تمام تنخواہ ماہانہ خرچوں میں نکل جاتی ہے تو مکان خریدنے کا اور کوئی ذریعہ نہیں ماسوائے بینک سے قرضہ لینے کے۔

جی اور انہی لیزنگ اسکیمز نے مزید ستیاناس کیا ہے مڈل کلاس کا۔ سہانے سپنے اور سبز باغ دکھا کر گاڑیاں خوب بیچیں۔۔۔ نتیجہ: مڈل کلاس کے اوپر قسطوں اور قرضوں کا بوجھ، اور سڑکوں پر بے تحاشہ خراب ڈرائیورز اور بے تحاشہ گاڑیاں، ایسے جیسے جانوروں کا بے لگام ریوڑ۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گذشتہ پندرہ بیس سالوں میں یقینا تنخواہوں میں اضافہ ہوا ہے اور کافی ہوا ہے لیکن مہنگائی اُس سے زیادہ ہوئی ہے، وجہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ تنخواہیں بڑھا دینا، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا انتہائی ناقص اور گھٹیا حل ہے اور یہ ایک شیطانی چکر Vicious Circle ہے۔ قیمتیں بڑھتی ہوئی دیکھ کر حکومت تنخواہیں بڑھا دیتی ہے اور جب تنخواہیں بڑھتی ہیں تو قوتِ خرید زیادہ ہونے کی وجہ سے قیمتیں مزید بڑھتی ہیں، اور پاکستان میں چور بازاری اور حکومتوں کا قیمتوں کے لیے چیک اینڈ بیلینس کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے افراطِ زر یا مزید مہنگائی ہوتی ہے اور یوں یہ نہ رکنے والا شیطانی چرخہ چلتا ہی چلا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ فلاحی ریاستیں مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے بجائے قوتِ خرید بڑھانے یا تنخواہیں زیادہ کرنے کے، ایسے کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہیں جن سے پیداواری لاگتوں میں کمی ہوتی ہے یا وہ قابو میں رہتی ہیں اور نتیجے کے طور اُن ریاستوں میں مہنگائی کی شرح قابو میں رہتی ہے۔

یہ سب سے اچھا اور پائیدار حل ہے اور "اصل" حکومتوں کے بہت سے کاموں میں سے یہ بھی ایک ہوتا ہے لیکن یہاں ایسا کون کرے، چور چوری کرے گا یا ہیرا پھیری کرے گا، نام چوری رکھ لو یا حکومت!
 
مختصر یہ کہ، کروڑوں روپوں کا مالک بھی امیر نہیں سمجھا جاتا اب!
میری رائے میں امیری یا غریبی کے لئے کوئی حد متعین نہیں کی جاسکتی۔ جس کے پاس میرے سے زیادہ سرمایہ وہ امیر ہے، اور جس کے پاس میرے سے کم وہ غریب ہے۔
اور میں متوسط۔ :p
 
اللہ پاک نے دو ہاتھ دئیے ہیں بالکل صحیح سلامت، دماغ دیا ہے جو ابهی تک کام کر رہا ہے، انهیں استعمال کرتا ہوں، محنت کرتا ہوں اور اپنے کنبے کے لیے رزق کما لیتا ہوں۔

مہنگائی بڑهے یا کم ہو، بجٹ عوام دوست ہے یا دشمن، سیاستدان، اینکرز، میڈیا کچھ بهی کہتے رہیں، اپنے خاندان کے لیے رزق مجهے خود ہی کمانا ہے۔ حالات چاہے کیسے بهی ہوں، خود ہی مقابلہ کرنا ہے۔ تو ان بجٹوں وجٹوں کو کیوں کوسوں یا ان پر خوش ہوؤں۔
 

arifkarim

معطل
یہی وجہ ہے کہ فلاحی ریاستیں مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے بجائے قوتِ خرید بڑھانے یا تنخواہیں زیادہ کرنے کے، ایسے کاموں پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہیں جن سے پیداواری لاگتوں میں کمی ہوتی ہے یا وہ قابو میں رہتی ہیں اور نتیجے کے طور اُن ریاستوں میں مہنگائی کی شرح قابو میں رہتی ہے۔
ناروے کی فلاحی ریاست میں مہنگائی کنٹرول کرنے کا پیمانہ ۲،۵ فیصد افراط زر ہے۔ یعنی اگر اس سے کم سالانہ مہنگائی ہوگی تو حکومتی سرمایہ کاری کم ہوگی اور مہنگائی زیادہ ہونے کی صورت میں حکومت مزید سرمایہ کاری کریگی۔ اب زیر بحث مسئلہ یہ آتا ہے کہ مہنگائی کو ماپا کیسے جائے۔ عموماً عام خرید و فروخت کی اشیا کو اسمیں شامل کر دیا جاتا ہے۔ البتہ املاک و اثاثہ جات کو خارج۔ یوں معاشرے میں بڑھتی مہنگائی کا درست تعین کرنا ممکن نہیں۔
 

arifkarim

معطل
مہنگائی بڑهے یا کم ہو، بجٹ عوام دوست ہے یا دشمن، سیاستدان، اینکرز، میڈیا کچھ بهی کہتے رہیں، اپنے خاندان کے لیے رزق مجهے خود ہی کمانا ہے۔ حالات چاہے کیسے بهی ہوں، خود ہی مقابلہ کرنا ہے۔ تو ان بجٹوں وجٹوں کو کیوں کوسوں یا ان پر خوش ہوؤں۔
حکومتی نااہلیوں کی وجہ سے قومی خسارہ بڑھتا ہے، ٹیکس بڑھتا ہے، مہنگائی ہوتی ہے جسکا بوجھ آپکی جیب کو چکانا پڑتا ہے۔ اگر آپ قومی کرنسی کی بجائے گھریلو کرنسی استعمال کر رہے ہوتے تو قومی بجٹ کا آپ پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ لیکن اب وہ دن گئے جب سونے اور چاندی کی اشرفیاں بطور کرنسی استعمال ہوتی تھیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اللہ پاک نے دو ہاتھ دئیے ہیں بالکل صحیح سلامت، دماغ دیا ہے جو ابهی تک کام کر رہا ہے، انهیں استعمال کرتا ہوں، محنت کرتا ہوں اور اپنے کنبے کے لیے رزق کما لیتا ہوں۔

مہنگائی بڑهے یا کم ہو، بجٹ عوام دوست ہے یا دشمن، سیاستدان، اینکرز، میڈیا کچھ بهی کہتے رہیں، اپنے خاندان کے لیے رزق مجهے خود ہی کمانا ہے۔ حالات چاہے کیسے بهی ہوں، خود ہی مقابلہ کرنا ہے۔ تو ان بجٹوں وجٹوں کو کیوں کوسوں یا ان پر خوش ہوؤں۔
چوہدری صاحب، لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے بھی ہیں جو آپ ہی کی طرح محنت کرتے ہیں بلکہ ہو سکتا ہے آپ سے زیادہ ہی کرتے ہوں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتے۔ اگر ان کو دو وقت کی روٹی کھلا دیتے ہیں تو اچھی تعلیم دلانے سے قاصر ہیں، اگر تعلیم بھی گر پڑ کر دلا رہے ہوں تو ان کا بر وقت اور صحیح علاج کروانے سے قاصر ہیں۔ کہاں تک سنیے گا۔

ایسے لوگوں کو بنیادی ضروریات مہیا کرنا یا ان ضروریات کو حاصل کرنے کے وسائل مہیا کرنا حکومتوں کا اور صاحبانِ امر کا فرض ہوتا ہے، لہذا ایک بجٹ وغیرہ کا دن بیچ میں سے نکال بھی دیں پھر بھی سارا سال ان بندگانِ خدا کی دیکھ ریکھ ان لوگوں کا فرض ہے جو ہر طرح کے وسائل پر صاب یا سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
 
Top