اب میرا دل بلیوں اچھلنے لگا...اور میں سرجھاڑ منہ پھاڑ ...بغلیں بجاتا ہوا اپنے استاد صاحب کے پاس پہنچا... اور یہ خوش خبری سنائی... تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں...لیکن میں نے منہ کی کھائی...اور بڑے سنگین حالات سے دوچار ہوا... کیوں کہ محاورہ سنتے ہی وہ آگ بگولہ ہوگئے... سونے پر سہاگا یہ کہ ایک زناٹے دار طمانچہ میرے رخسارِ غم گسار پر جڑدیا۔
اب تو میری حالت اور پتلی ہوگئی... پیروں تلے زمین نکل گئی...رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے...کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں... اور پھر...ایک دم میرا پارہ چڑھ گیا...اور میرا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگا...کہ میں نے سردھڑ کی بازی لگاکر اور خون پسینا ایک کرکے جوکام کیا تھا... اس میں بھی مجھے ڈانٹ ڈپٹ اور مارکٹائی کا سامنا کرنا پڑا... ایسی کی تیسی ایسے محاورات کی...اگر میرا بس چلتا تو ان محاورات کو نیست ونابود ہی کردیتا... ان کے گلستان کو تہ وبالا کردیتا... ان کے چمن کو زیرو زبر کردیتا... اور پھر میں کافی دیر تک پیچ و تاب کھاتا رہا... بڑی بڑی ہانکتا رہا... یہاں تک کہ استاد صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا...اور پھر انہوں نے مجھے خوب سنائی ...کہ تم بڑے طوطا چشم ہو... ماننے کی صلاحیت تم میں صفر بٹا صفر ہے... اور نہ ماننا تمھارے اندر سولہ آنے فٹ ہے... دس میں سے صرف ایک محاورہ یاد کیا ...وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ... اور آٹے میں نمک کے برابر... پھر اس پر قیامت یہ کہ... الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ...کہ ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری...حد ہوگئی کہ صرف تین لفظی محاورہ یاد کیا... وہ بھی نقطے سے... خالی!!!!
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سا محاورہ تھا؟؟؟
کچھ دل سے