گرین گریپس ورڈپریس سانچہ – یوم ٹیکنالوجی ہفتہ بلاگستان

یوم ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک نیا اردوایا گیا ورڈپریس سانچہ پیش خدمت ہے، یہ سانچہ انگریزی سانچے گرین گریپس کو اردوانے کے بعد وجود میں آیا، ڈارک گرے رنگ کا بیک گراؤنڈ، صفحہ کے سب سے اوپر صفحات کے روابط اور نیچے بڑی سی تصویر جسے آپ اپنی مرضی کے مطابق تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ اس تصویر کی سورس فائل جو کہ فوٹو شاپ کی ہے وہ بھی ساتھ نتھی کر دی گئی ہے تاکہ آپ اپنی مرضی کی تصویر آسانی سے لگا سکیں، میں نے کافی کوشش کی ک اس تصویر کو بدلتی ہوئی تصاویر میں تبدیل کر دوں لیکن اس سانچے کی بناوٹ کچھ ایسی ہے کہ یہ تبدیلی ممکن نہ ہو سکی۔علوی نستعلیق خط متن اور عنوان کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اگرآپ تھوڑی بہت سی ایس ایس جانتے ہیں تو اپنی مرضی کا خط استعمال کر سکتے ہیں۔ صفحہ پر موجود بڑی سی تصویر کے ساتھ آپ اپنا تعارفی پیغام بھی شائع کر سکتے ہیں، جو کہ اباؤٹ نامی فائل میں موجود متن تبدیل کرنے سے صفحہ پر ظاہر ہو جائے گا۔بہت شکریہ

اسکا منظر کچھ ایسا ہو گا۔

screenshot.png
 
کیا حکومت کے پاس واقع الہ دین کا چراغ نہیں؟

کیا حکومت کے پاس واقع الہ دین کا چراغ نہیں؟
کالم نگار اور دوسرے مبصرین و دانشور حقائق بیان کر کر کے عوام کو اور ارباب اختیار کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ، مگر کسی چیخ و پکار کا اثر پاکستانی عوام کے قسمت پر نہیں ہو رہا اور وہ ڈوبتی ہی جا رہی ہے، ملاحظہ فرمائیے عبداللہ طارق سہیل کے کام سےاقتباس، جو 7 ستمبر کو شائع ہوا۔
پاکستان کی حکومت عوام کے مسائل حل نہیں کرتیں، ان میں اضافہ کرتی ہیں اور شکایت کی جائے تو عذر کرتی ہیں کہ ہمیں‌الہ دین کا چراغ نہیں‌ملا۔
مشرف کو پورے آٹھ سال تک یہ چراغ نہیں ملا، اب نئے وزیر اعظم نے بھی ڈیڑھ سالہ عرصہ گزارنے کے بعد اعلان کر دیا کہ ان کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں ہے اس لیے وہ عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔
کراچی میں گورنر سندھ کے افطار ڈنر میں خطاب کرتے ہوے انہوں نے یہ انکشاف کیا
مزید
 

ریحان

محفلین
یہ ہمارے ملک کے پڑھے لکھے پارلیمنٹیرنز ۔۔

یہ ہمارے ملک کے پڑھے لکھے پارلیمنٹیرنز ۔۔ اور ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کیوں نہیں لکھا ؟

مزید پڑھیں
 

گرائیں

محفلین
پانچواں رستہ ۔۔۔ پاڑہ چنار کرم ایجنسی از ڈاکٹر ارشاد علی۔

پاڑہ چنار(کرم ایجنسی) پاکستان کے شمال مغربی قبائلی پٹی کا وہ حصہ ہے جس کے تین اطراف افغانستان کا سرحد ہے اور ایک طرف پاکستان کا ضلع ہنگو ہے. یہاں لگ بھگ چھ لاکھ افراد زندگی بسر کر رہے ہیں. شہر کو ملک کے دیگر شہروں سے ملانے والی واحد شاہراہ پر پچھلے ڈیڑھ سال سے مقامی اور غیر ملکی شدت پسندوں کا عملی کنٹرول ہے. اور ہر طرح کے ٹریفک کے لئے بند ہے.

مقامی قبائل نے شر پسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے باقی تین اطراف پر توجہ دیتے ھوئے افغانستان کے لمبے اور کٹھن راستے کا انتخاب کیا کہ شائد حکومت کو کبھی اس علاقے کا بھی خیال آئیگا.

---
آج ایک اطلاع آئی ہے کہ آخر کار دو سال تک خدمت گذاری کرنے کے بعد افغان حکومت نے بھی پاڑہ چنار کے شہریوں پر راستہ مکمل طور پر بند کر دیا. یوں اب اپریل 2007 سے ملک سے کٹنے والا علاقہ چاروں طرف سے محصور ہو گیا ہے.
جاری رکھئے
 
بمبار گاڑیوں کا تاریخی تذکرہ کرتے ہوئے (Mike Davis) اپنی کتاب (Buda’s Wagon, A brief history of the Car Bomb) میں اسے (Mario Buda) کی طرف منسوب کرتے ہیں جوامریکا میں ایک اطالوی مہاجر دہشت پسندوں کے گروہ سے تعلق رکھتا تھا۔

مزید پڑھئے ۔۔۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،

ہم بھی “طالبان” ہیں۔

السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
رب زدنی علما
یہ نہ سوچیں کہ میں وہ طالبان کی بات کررہاہوں جوکہ ہرکام گولی کی نوک پرکرواناچاہتےہیں اسلام کانفاذبھی بندوق کے زورپرکرواناچاہتاہیں بلکہ میں وہ طالبان ہوجوکہ علم سےلگاؤرکھتاہے۔

ہم بھی"طالبان"ہیں۔

والسلام
جاویداقبال
 
Top