آبی ٹوکول بہت بہت شکریہ آپ کی محبت اور پسندیدگی کا اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
میں پیشے کے اعتبار سے صحافت یا سیاست سے منسلک نہیں ہوں، نہ ہی میرا شعرگوئی، کالم نگاری یا کس قسم کی علمی و ادبی سرگرمی سے واسطہ ہے۔پیشے کے اعتبار سے سافٹ وئیر انجنئر ہوں اور تعلیم بھی ساتھ چل رہی ہے۔ سیاست صحافت اور ادب کو مجھ سے کہیں بہتر جاننے والے یہیں اسی محفل پر موجود ہیں۔
جہاں تک میری سیاسیات پر تحریروں کا تعلق ہے تو میں صرف اسے قلمی جہاد سمجھ کر وقت نکالتا ہوں وگرنہ یہاں کے پرانے جاننے والے میری کم آمیزی سے بخوبی آگاہ ہیں۔
ہارون الرشید کی نثر نگاری جاوید چوہدری سے کہیں بہتر ہے اور بہت ادبی انداز میں لکھتے ہیں۔ ان کے ہاں مجھے ایک اور انداز دیکھنے کو ملا کہ کالم کا پہلا اور آخری فقرہ بالکل ایک سا ہوتا ہے اور تمام کی تمام تحریر پہلے فقرے سے کھلنا شروع ہوتی ہے، درمیان تک پھیلاؤ اور آخر میں سمیٹتے ہوئے وہی فقرہ دہرا دیتے ہیں۔
جاوید چوہدری کے کالم میں اعداد و شمار، تاریخیں، واقعات، مقامات شخصیات کی بھرمار ہوتی ہے۔ مجھے آج تک حسرت ہی رہی کہ جاوید چودھری کو کبھی تو غلط بات کرتا دیکھوں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آپ یہ دہشت گردی کی جنگ والا معاملہ ہی دیکھ لیجئے کہ عباس اطہر، نذیر ناجی، خورشید ندیم مسعود اشعر، منو بھائی اور حسن نثار سمیت بہتوں کا موقف کافی حد تک امریکی نکتہ نظر سے ہم آہنگ ہے اور ان لوگوں نے اس تواتر سے اس جنگ کے حق میں لکھا ہے کہ بسا اوقات واقعی امریکیوں کی مظلومیت اور معصومیت پر یقین آنے لگتا ہے۔
نوبت بایں جا رسید کہ پچھلے دنوں عباس اطہر نے کالم کے آخر میں صاف لکھ دیا کہ یہ جنگ ہماری اپنی جنگ ہے۔ اس قدر شور و غل میں جاوید چوہدری کی کی حق شناسی کو داد دینا پڑتی ہے کہ گذشتہ آٹھ سالوں میں ان کا موقف وہی ہے جو روز اول سے ہے۔
ہارون الرشید کے علاوہ عرفان صدیقی بھی بہت خوب لکھتے ہیں۔ نوائے وقت سے یہ اب جنگ گروپ کے ساتھ ہیں۔ اب تو ہارون الرشید بھی جنگ گروپ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔
موقف سے تو میں شاید اتفاق نہ کروں لیکن نثر کے حوالے سے خورشید ندیم کے کالم بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
روف کلاسرہ بھی جنوبی پنجاب کے ایک نئے ابھرتے ہوئے کالم نگار ہیں لیکن نثر تو کجا، مجھے ان سے غلط پیرائے میں اردو لکھنے کی شکایت ہے۔ موقف کے اعتبار سے بھی مجھے محسوس ہوا ہے کہ ابھی ان کا فکری سفر بیم و رجا کے دومیان ہے اور طے نہیں کر پائے ہیں کہ کس طرف کو منہ کریں۔