میرے ایک جاننے والے جو گنجے بھی ہیں، بہت امن پسند ہیں،جنگوں کے خلاف ہیں-آج کل بھی غزہ کے حوالے سے ساحر کے اس شعر کے قائل ہیں :
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
اور
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے ....وغیرہ وغیرہ
میں ان کو سمجھاتا ہوں کہ ساحر اگرچہ جنگوں کے خلاف تھے مگر جب جنگ مسلط کر دی جائے تو مظلوموں کی آواز بن جاتے تھے ،ان کے کئی اشعار اس کے ترجمان ہیں جیسے:
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے
اس ڈھنگ پر ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی
ظالم کی کوئی ذات نہ مذہب نہ کوئی قوم
ظالم کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے
پھلتی نہیں ہے شاخ ستم اس زمین پر
تاریخ جانتی ہے زمانہ گواہ ہے
کچھ کور باطنوں کی نظر تنگ ہی سہی
یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے
یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے
جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو
وہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے
پھوٹے گی صبح امن لہو رنگ ہی سہی
اسی طرح :یہ کس کا لہو ہے کون مرا: .....اور ..... :ظلم پھر ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے --خوں پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا :وہ نظمیں ہیں جو مظلوموں کے حق میں لکھی گئی ہیں -اسی طرح بہت سے اشعار ہیں جو ان کا مطمح نظر واضح کرتےہیں جیسے :
نہ منھ چھپا کے جیے ہم نہ سر جھکا کے جیے
ستمگروں کی نظر سے نظر ملا کے جیے
اب ایک رات اگر کم جیے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جیے
غزہ کے حالیہ منظر نامے میں بھی وہ گنجے صاحب یہ شعر پڑھتے سنائی دیتے ہیں
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
چونکہ غلط وقت پہ پڑھ کر غلط نتیجا برآمد کرتے ہیں تو میں ان کے لیے سزا یہ تجویز کرتا ہوں کہ دونوں مصرعوں میں لفظ :جنگ : کو الٹا کر دیں -
آجکل انھوں نے غزہ کی خونریزی سے بچاؤ کا بھی ایک پر امن حل پیش کر دیا ہے جس پر میں نے ایک قطعہ کہا ہے :
--------------
ہائے گنج گراں مایہ
کیا ہے گنجے نے حل قضیۂ فلسطیں خوب
نہاں ہے غزّہ سے ہجرت میں مومنوں کی حیات
وہ ایک ٹنڈ جسے سب گراں سمجھتے ہیں
ہزار جوؤں سے دیتی ہے آدمی کو نجات