آج کا قطعہ

یاسر شاہ

محفلین
بھائی لوگ

بٹی ہیں باپ کی جاگیریں بھائی لوگوں میں

تمام ارضِ فلسطیں یہودیوں کی ہوئی
حسین وادئ کشمیر مُودیوں کی ہوئی

وہ تھی جو ارضِ حجاز اب سعودیوں کی ہوئی
 

یاسر شاہ

محفلین
عشقِ صادق
ہم نے مانا کہ آپ ہیں عاشق
چپ رہیں اب کہ چپ بھی ہے ناطق
عشق میں صادق آپ ایسے ہیں
جیسے تھے میر جعفر و صادق
 

یاسر شاہ

محفلین
نورے کا عشق

کر دی نوری رقیب کے نام
لڑ کے رقیب سے نوراکشتی
رقیب بھی نورے سے خوش تھا
پبلک بھی نورے سے خوش تھی
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
images-1.jpg

یہ آخری تحریر تھی ڈاکٹر محمود ابو نجیلہ کی شہادت سے قبل جو ہسپتال کے نوٹس بورڈ پر انھوں نے لکھی۔


مقتل میں مسیحائی
( ڈاکٹر محمود ابو نجیلہ کی نذر)


ان مریضوں کی زندگی کے لیے
کام ہم سے جو ہو سکے وہ کیے
زخم اپنے تو سلنے والے نہ تھے
ہم نے اوروں کے زخم خوب سیے
ہم نے مقتل میں کی مسیحائی
اپنا کیا ہے جیےجیےنہ جیے
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
یہ آخری تحریر تھی ڈاکٹر محمود ابو نجیلہ کی شہادت سے قبل جو ہسپتال کے نوٹس بورڈ پر انھوں نے لکھی۔
اللہ پاک اپنا رحم فرما دیں ان مسیحاؤں پر ،ان معصوموں پر ۔ان کے شہداء کی قربانیوں کو ضائع نہ کیجیے ۔ آمین یارب العالمین
 

یاسر شاہ

محفلین
اللہ پاک اپنا رحم فرما دیں ان مسیحاؤں پر ،ان معصوموں پر ۔ان کے شہداء کی قربانیوں کو ضائع نہ کیجیے ۔ آمین یارب العالمین
آمین -خوش رہیں صحت و عافیت کے ساتھ -الله جل شانہ ہمیں بھی اپنے محبوب دین کے لیے قبول فرما لے -آمین
 

یاسر شاہ

محفلین
میرےعزیز ہموطنو !
مشرّف کر نہیں سکتی بشر کو محض انگریزی
جدا ہو دین جنرل سے تو رہ جاتی ہے پرویزی
بوقتِ نزع کام آئی کہاں وہ طبع کی تیزی
کُھلا ،زورِ خطابت کچھ نہ تھا جُز سحر انگیزی
 

سیما علی

لائبریرین
کُھلا ،زورِ خطابت کچھ نہ تھا جُز سحر انگیزی
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

دراصل انکو یعنی اسلام دشمنوں کو ڈر ہی ان مومنوں سے ہے ۔۔۔
دُنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
 

یاسر شاہ

محفلین
وحدت الوجود
بے وفاؤں کی بھی امیدِ وفا آپ ہی ہیں
میں گنہگار ہوں میرے بھی خدا آپ ہی ہیں
سب طبیبوں نے دیا مجھ کو جواب آخرِ کار
اب طبیب آپ دوا آپ شفا آپ ہی ہیں
 

یاسر شاہ

محفلین
-------------
ہم باز تکبّر سے آئے بھی تو کب آئے
مرنے کے قریں تھے جب اور ملنے کو سب آئے
جب گاف لگی پھٹنے خیرات لگی بٹنے
جب مرنے لگے ہائے سب جینے کے ڈھب آئے
 

یاسر شاہ

محفلین
یہ سکڑنا، پھیلنا جو دل کا ہے
اس سے ہی ہنگامہ کُل محفل کا ہے
حرکتِ دل بند اور ہنگامہ ختم
کام پھر دل کا وہی قاتل کا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
مشرّف کر نہیں سکتی بشر کو محض انگریزی
جدا ہو دین جنرل سے تو رہ جاتی ہے پرویزی
بوقتِ نزع کام آئی کہاں وہ طبع کی تیزی
کُھلا ،زورِ خطابت کچھ نہ تھا جُز سحر انگیزی
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
ہمارا یہ شعر لکھنے سے شاید پوری طرح بات نہیں واضع نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔
قطعنا مقصد یہ نہیں تھا ۔۔۔ہمارا مقصد یہ تھا کہ وردی پہنے سے غازی اورشہید کا کوئی تعلق نہیں ہے یا لفاظی جنرل کرے اب وہ انگریزی میں کرے یا کسی اور زبان میں ۔۔۔۔مسلمان وہی ہے جو اس شعر میں بیان ہے ۔۔۔مسلمان کا خلاصہ یہی ہے ۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
بندوق

بندوق کا بنانا تو بھیجے کا کام ہے
بندوق کا چلانا کلیجے کا کام ہے
بندوق دیتے ہیں وہ کلیجا نکال کر
ذمّے ہمارے اب لب و لہجے کا کام ہے

انسان کے دفاع کو بندوق ہے بنی
بندوق کے دفاع کو ہیں یاں پہ آدمی
 

یاسر شاہ

محفلین
اپنے شکاری خالہ زاد کی نذر

یہ فاختائیں بطّخیں اور تیتروں کے غول
پیدا ہوئے ہیں کیا تری بندوق کے لیے
کامل سعید پور کے بے تاج بادشاہ
چھوٹے ہیں ہم بھی تو کسی مخلوق کے لیے
 

یاسر شاہ

محفلین
تصویر خوبصورت ہے
"وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ"
نہ بھی ہو رنگ تو تصویر خوبصورت ہے
چھپا کے نقشِ مصوّر جو شکل ابھری ہے
یہ رنگا رنگئ حاضر بلا ضرورت ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
ہردلعزیزی
ہردلعزیز وہ بنے جس کا ہو کاروبار
ہم دوست اتنے رکھتے ہیں جن سے نبھا سکیں
مشکل پڑے انھیں کبھی تو کام آسکیں
گر کام بھی نہ آسکیں منھ تو چھپا سکیں
 
Top