کیا ہماری قومی غیرت و حمیت مرچکی ہے؟
چینی، نکتہ چینی/ فضل ربی راھی
[align=justify:31c23bc699]ملک عزیز میں فوجی حکم رانوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے اور ذاتی تشخص کو اُبھارنے کے لئے ہمیشہ قومی مفادات کی قربانی دی ہے۔ پہلے مارشل لاء سے لے کر موجودہ جنرل پرویز مشرف کی غیر آئینی، غیرقانونی اور غیر اخلاقی حکومت تک، کسی بھی عسکری حکومت نے عوام کی اُمنگوں اور قومی مفادات پر مبنی ترجیحات کے مطابق اندرونی اور بیرونی پالیسیاں تشکیل نہیں دیں۔ انھوں نے ہمیشہ امریکا کی نظرِ التفات کو مدِّ نظر رکھا۔ ان آمروں نے اپنی آمرانہ حکومتوں کو تحفظ دینے کے لیے امریکی مقاصد کی تکمیل کی اور ملک عزیز میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو پنپنے نہیں دیا۔ 1971ء کا سانحہ ہو، سیاچین گلیشیئر پر پسپائی ہو یا معرکہ کارگل کی شرم ناک شکست اور یا کشمیر پر بھارت کے آگے سینہ سپر ہوجانے کا بزدلانہ اقدام ہو، یہ سب فوجی جرنیلوں کی آمرانہ پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔
جنرل مشرف کی موجودہ عسکری حکومت نے اپنے عجیب و غریب اقدامات اور امریکا کی کاسہ لیسی میں اپنے تمام پیش رَو جرنیلوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں مدعی سست اور گواہ چست کے مصداق جنرل مشرف نے اپنے ہی عوام پر بارود و آہن کی بارش برسائی۔ وزیرستان، باجوڑ اور بلوچستان کے حالات اور واقعات اہل وطن کے سامنے ہیں۔ اس کے علاوہ جنرل مشرف کی حکومت میں حقیقی جمہوریت کے نام پر جو ڈرامہ جاری ہے اور حاضر سروس جرنیل جس طرح صدر ہوکر غیر سیاسی اور غیر جمہوری انداز میں سیاست بازی کر رہے ہیں، اس نے عالمی سطح پر ملک کو ایک مضحکہ خیز دو راہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ملک میں سیاسی انتشار، امن و امان کی روز افزوں مخدوش صورتِ حال، بے روزگاری اور مہنگائی نے عوام کی زندگی حد سے زیادہ مشکل بنادی ہے۔ دوسری طرف غیر دانش مندانہ خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان تنہائی کی طرف گامزن ہے۔ عالمی دہشت گردی اور مسئلہ کشمیر سمیت ہر معاملے میں ہماری حکومت دفاعی پوزیشن میں ہے۔ ریاستی خود مختاری بکاؤ مال بن چکی ہے اور افغانستان میں موجود امریکا اور نیٹو کے فوجی جب چاہیں ہمارے قومی اقتدارِ اعلیٰ کے لیے چیلنج بن جاتے ہیں۔ افغانستان کی حکومت آئے روز ہم پر بے بنیاد الزامات لگاتی رہتی ہے۔ امریکا ایک طرف تو ہمیں دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں قابل اعتماد ساتھی اور نان نیٹو اتحادی سمجھتا ہے تو دوسری جانب ہمارے ملک کو دہشت گردی کی نرسری بھی قرار دیتا ہے۔ وہ ہماری غیرمعمولی خدمات کا صلہ یہ دیتا ہے کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کو اپنا سٹرٹیجک پارٹنر قرار دے کر اس کے ساتھ سول ایٹمی معاہدہ کرتا ہے۔ اس طرح مسئلہ کشمیر پر مسلسل پسپائی کے باوجود بھارت کے تحقیر آمیز مطالبوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایک طرف تو مشرف کی حکومت امریکی احکامات اور اس کی نام نہاد عالمی دہشت گردی کی مہم میں اپنے ہی عوام کو کچلنے میں مصروف ہے جب کہ دوسری جانب امریکا کے بعض ادارے اور شخصیات سمیت پوری دنیا امریکا کی موجودہ پالیسیوں کو غیر منصفانہ اور ناکام قرار دے رہی ہے۔ یہاں تک کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئ بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ امریکا ور نیٹو کی افواج کے حملوں اور بم باری سے بے گناہ افغان بچوں کو بے دردی سے قتل کیا جا رہا ہے اور ہم اتنے مضبوط نہیں کہ اسے روک سکیں۔ حقوقِ انسانی کے عالمی دن کے موقع پر اپنی تقریر کے دوران انھوں نے کہا کہ افغان عوم پر ظلم کی انتہا ہوگئی ہے۔ طالبان کے حملوں اور اتحادی افواج کی بم باری سے ہمارے بچے روز مر رہے ہیں۔ جنگ کے خوف سے ہزاروں، افغان ملک سے بھاگ گئے ہیں اور ہماری زندگی مشکلات کے ساتھ چل رہی ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے مطابق کرزئی بات کہتے ہوئے رو پڑے لیکن اس کے برعکس جنرل مشرف کی حکومت کو اپنے ہی عوام کے قتل عام پر کوئی پچھتاوا، کوئی افسوس نہیں۔ باجوڑ میں 80 سے زائد بے گناہ بچوں کی شہادت پر انھوں نے کہا تھا کہ وہ سب دہشت گرد تھے اور اس پر انھیں کوئی افسوس نہیں۔ وزیرستان میں بے گناہ اہل وطن کی ہلاکت پر انھیں خوشی محسوس ہوتی ہے اور بلوچستان میں اکبر بگٹی کی ماورائے عدالت قتل پر وہ اپنی سپاہ کو مبارک باد پیش کرتے رہے ہیں۔
جنرل مشرف کے ایٹمی پاکستان سے زیادہ جرات کا مظاہرہ تو مقبوضہ عراق کے صدر جلال الدین طالبانی نے کیا ہے۔ انھوں نے امریکا کی طرف سے جاری کردہ ’’عراق سٹڈی گروپ‘‘ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے امریکا کو باور کرایا ہے کہ عراق کے بارے میں بیکر ہملٹن رپورٹ درست اور منصفانہ نہیں ہے۔ جس میں ایسی باتیں شامل کی گئی ہیں جن سے عراق کی خود مختاری اور آئین کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اُنھوں نے امریکا پر یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ عراق پر چھوٹی سی نو آبادی جیسی شرائط عائدنہ کرے۔ان کا یہ اعلان کہ عراق کو اپنی خود مختاری بحال کرنا ہوگی، ہماری موجودہ عسکری حکومت کے لیی لمحہ فکریہ مہیا کرتی ہے کہ وہ امریکا کا ناجائز حد تک ساتھ دیتے ہوئے اپنی ریاستی خود مختاری اور اقتدارِ اعلیٰ کی حفاظت نہ کرسکی۔
موجودہ پاکستان آج جس ناگفتہ بِہ صورتِ حال سے دوچار ہے، اس کی تمام تر ذمے داری موجودہ فوجی حکم رانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس میں ان سیاست دانوں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا جو جنرل مشرف کے غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں اور جنرل مشرف کو تاحیات صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ تاریخ فوجی آمروں کے ساتھ ساتھ ان مفاد پرست سیاست دانوں سے بھی ضرور نمٹے گی لیکن موجودہ صورتِ حال میں اگر محب وطن سیاست دان موجودہ آمرانہ حکومت کے خلاف متحد نہ ہوئے اور انھوں نے ذاتی خواہشات اور پنے محدود مفادات کو پس پشت نہیں ڈالا تو وطن عزیز کی غیر ت و حمیت کا جنازہ روز اُٹھتا رہے گا اور عوام کی بے بسی اور مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا جو مستقبل قریب یا بعید میں کسی بھی ناخوش گوار انقلابی کروٹ میں بدل سکتا ہے۔[/align:31c23bc699]
٭٭٭
[align=left:31c23bc699](بشکریہ روزنامہ ''آزادی'' سوات)[/align:31c23bc699]