محمد علم اللہ
محفلین
آج دہلی میں منعقدہ عالمی کتاب میلہ میں جانے کااتفاق ہوا۔میں بطور خاص پاکستانی بکس اسٹالس میں بہت امیدوں کے ساتھ گیا کہ کچھ کتابیں خرید سکوں لیکن بہت مایوسی ہوئی۔ اکثر اسٹالوں میں وہی جنت کی کنجی،بہشتی زیور،پنج سورہ،پاکستانی سولہ سورہ ،وہابی ازم ایک فتنہ،بریلویوں کا پوسٹ مارٹم وغیرہ جیسی کتابیں ملی۔اسے دیکھ کر کافی حیرت ہوئی اور افسوس بھی ۔کچھ کتابیں نئے موضوعات پر تھیں بھی تو اسکی قیمت اتنی زیادہ تھی کہ خریدنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔پھر بھی میں نے قدرت اللہ شہاب صاحب کی شہاب نامہ اورسید عبد اللہ کی اداس نسلیں خریدی ۔ منثورات والوں نے بھی وہی کتابیں اپنے اسٹال میں لگائی تھیں جو مرکزی مکتبہ بہت پہلے سے چھاپتا اور بیچتا رہا ہے۔کئی کتابوں کے اسٹالس ایسے بھی نظر آئے جو بالکل خالی پڑے تھے تاہم اس پر پاکستانی بک اسٹالوں کے نام درج تھے ۔ پاکستانی انا ہزارے یعنی طاہرالقادری کی تصویر بھی ایک بک اسٹال میں نمایاں انداز میں آویزاں نظر آئی۔معلوم ہوا کہ موصوف کے ادارہ سے شائع ہونے والی کتابوںکا یہ اسٹال تھا جہاں بے چارے کتب فروش جھک مارتے نظر آئے(شایدمکھی ومچھر کی کمی کابھی یہاں انہیں بہت زیادہ احساس ہورہا ہوگاکہ لوگ خالی اوقات میںمچھرمار کر اور مکھیاں بھگا کراپنے اوقات صرف کرلیاکرتے ہیں)۔پتہ نہیں یہ اسٹال ہندوستانیوں کو کیوںمتوجہ نہیں کرسکا،حالانکہ ان کے عقائد کے ماننے والوںکی ایک کثیر تعدادیہاں بھی موجود ہے۔شاید پچھلے زمانہ میں گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے طاہرالقادری کی ملاقات اور مصافحہ و معانقہ کا یہ اثررہاہوگا یاپھراسلام آباد کو تحریر اسکوائر میں بدل ڈالنے کا خواب سجانے والے روحانی مبلغ کی اپنے مشن میں ناکامی کا شاخسانہ کہ اس اسٹال پر”ہو کا عالم“دیکھنے کو ملا۔