آج کے بندر

ضیاء حیدری

محفلین
---



**آج کے بندر انسان کیوں نہیں بن رہے؟**
تحریر سید ضیاء

بس یونہی یہ سوال ذہن میں آیا، کہ بندر اب انسان کیوں نہیں بنتا ہے؟ بلکہ دیکھا جائے تو انسان میں واپسی کا عمل شروع ہوگیا ہے۔

یہ سوال ایسا ہے کہ اگر داروِن آج زندہ ہوتے تو شاید اپنی تھیوری کے نیچے یہ نوٹ لگا دیتے:

*"برائے مہربانی، اس نظریے کو موجودہ نسلوں پر لاگو نہ کیا جائے۔ ان میں ارتقاء کا عمل سست روی بلکہ واپسی کا شکار ہے!"*



جنابِ والا، بندر جب انسان بننے کا ارادہ کرتے تھے تو وہ جنگل چھوڑتے تھے—آج کے انسان جنگل بساتے ہیں، شاپنگ مال کی صورت، سیاسی جلسوں کی صورت، یا سوشل میڈیا پر کمینٹس کی صورت۔



پہلے بندر نے دم چھوڑ دی تاکہ ہاتھ خالی ہوں، دل کھلا ہو، اور دماغ میں کچھ داخل ہو سکے۔

آج کا بندر دم نہیں چھوڑتا، بس selfie angle کے حساب سے چھپاتا ہے۔



اور رہی بات ارتقاء کی تو اب وہ ارتقاء "before-after filter" تک محدود ہے۔

اب عقل نہیں بڑھتی، صرف screen time۔



داروِن نے کہا تھا:

**"survival of the fittest"**

اور آج کے بندر نے اسے یوں پڑھا:

**"viral of the fittest reel-maker"**



پہلے انسان بننا ارتقاء تھا،

اب انسان رہنا ہی معجزہ ہے۔



داروِن صاحب اگر آج کل کے کسی شادی ہال میں، یا انسٹاگرام کے explore page پر پھنس جائیں،

تو یقینا کہیں گے:

**"میں نے بندر سے انسان بنتے دیکھا تھا،

مگر یہ پہلی بار دیکھ رہا ہوں کہ انسان خود کو واپس بندر بنانے پر تلا ہے—

اور وہ بھی قسطوں میں!"**



تو بندر صاحب بھی آج کل کا انسان دیکھ کر سوچ میں پڑے ہیں:

*"اگر انسان بننا یہی ہوتا، تو ہم تو جھیل کے کنارے آم توڑ کے خوش تھے!"*



---



اب نہ بندر انسان بننے کو تیار ہے،

نہ انسان بندر ہونے سے انکاری۔

بس ارتقاء کا پہیہ ساکت ہے—

اور داروِن بیچارہ اپنی تھیوری کو delete کرنے کی کوشش میں ہے،

لیکن password بھول گیا ہے۔
 
Top