شمشاد خان
محفلین
ایک شاگرد نے اپنے استاد سے پوچھا: استاد جی! یہ آخرت میں حساب کتاب کیسے ہوگا؟
استاد نے ذرا سا توقف کیا، پھر اپنی جگہ سے اُٹھے اور سارے شاگردوں میں کچھ پیسے بانٹے۔
انہوں نے پہلے لڑکے کو سو درہم،
دوسرے کو پچھتر،
تیسرے کو ساٹھ،
چوتھے کو پچاس،
پانچویں کو پچیس،
چھٹے کو دس،
ساتویں کو پانچ،
اور جس لڑکے نے سوال پوچھا تھا اسے فقط ایک درہم دیا۔
لڑکے بلاشبہ استاد کی اس حرکت پر دل گرفتہ اور ملول تھا۔ اسے اپنی توہین محسوس ہو رہی تھی کہ استاد نے آخر اسے سب سے کمتر اور کم مستحق کیونکر جانا؟
استاد نے مسکراتے ہوئے سب کو دیکھا اور کہا:
سب لڑکوں کو چھٹی۔ اب تم سب جا کر ان پیسوں کو پورا پورا خرچ کرو۔ ہماری ملاقات ہفتے والے دن بستی کے نانبائی کے تنور پر ہوگی۔
ہفتے والے دن سارے طالبعلم نانبائی کے تنور پر پہنچ گئے، جہاں استاد پہلے سے ہی موجود سب کا انتظار کر رہا تھا۔ سب لڑکوں کے آ جانے کے بعد استاد نے انہیں بتایا کہ تم میں ہر ایک اس تنور پر چڑھ کر مجھے اپنے اپنے درہم کا حساب دے گا کہ کہاں کہاں خرچ کئے۔
پہلے والے لڑکے، جسے ایک سو درہم ملے تھے، کو دہکتے تنور کی منڈیر پر چڑھا کر استاد نے پوچھا؛ بتاؤ، میرے دیئے ہوئے سو درہم کیسے خرچ کیے تھے؟
جلتے تنور سے نکلتے شعلوں کی تپش اور گرم منڈیر کی حدت سے پریشان لڑکا ایک پیر رکھتا اور دوسرا اٹھاتا۔ خرچ کی ہوئی رقم کو یاد کرتا اور بتاتا کہ: پانچ کا گڑ لیا تھا، دس کی چائے، بیس کے انگور، پانچ درہم کی روٹیاں۔۔۔۔ اور اسی طرح باقی کے خرچے۔ لڑکے کے پاؤں حدت سے جل رہے تھے تو باقی کا جسم تنور سے نکلتے شعلوں سے جھلس رہا تھا۔ حتیٰ کہ اتنی سی دیر میں اسے پیاس بھی لگ گئی تھی اور الفاظ بھی لڑکھڑانا شروع۔ بمشکل حساب دیکر نیچے اترا۔
اس کے بعد دوسرا لڑکا، پھر تیسرا اور پھر اسی طرح باقی لڑکے۔۔۔۔ حتی کہ اس لڑکے کی باری آن پہنچی جسے ایک درہم ملا تھا۔۔۔۔۔۔۔
استاد نے اسے بھی کہا کہ تم بھی تنور پر چڑھ جاؤ اور اپنا حساب دو۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکا جلدی سے تنور پر چڑھا، بغیر کسی توقف کے بولا "میں نے ایک درہم کی گھر کیلئے دھنیا کی گڈی خریدی تھی"
اور ساتھ ہی مسکراتا ہوا نیچے اتر کر استاد کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا، جبکہ باقی کے لڑکے ابھی تک نڈھال بیٹھے اپنے پیروں پر پانی ڈال کر ٹھنڈا کر رہے تھے۔
استاد نے سب لڑکوں کو متوجہ کر کے اس لڑکے کو خاص طور پر سناتے ہوئے کہا: بچو! یہ قیامت والے دن کے حساب کتاب کا ایک چھوٹا سا منظر نامہ تھا۔ ہر انسان سے، اس کو جس قدر عطا کیا گیا، کے برابر حساب ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکے نے استاد کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ: آپ نے جتنا کم مجھے دیا، اس پر مجھے رشک اور آپ کی عطا پر پیار آ رہا ہے۔ تاہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی مثال تو بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے حساب کی شدت سے بچائے اور ہمارے ساتھ معافی اور درگزر والا معاملہ فرمائے۔ آمین
(عرب میڈیا سے ترجمہ)
استاد نے ذرا سا توقف کیا، پھر اپنی جگہ سے اُٹھے اور سارے شاگردوں میں کچھ پیسے بانٹے۔
انہوں نے پہلے لڑکے کو سو درہم،
دوسرے کو پچھتر،
تیسرے کو ساٹھ،
چوتھے کو پچاس،
پانچویں کو پچیس،
چھٹے کو دس،
ساتویں کو پانچ،
اور جس لڑکے نے سوال پوچھا تھا اسے فقط ایک درہم دیا۔
لڑکے بلاشبہ استاد کی اس حرکت پر دل گرفتہ اور ملول تھا۔ اسے اپنی توہین محسوس ہو رہی تھی کہ استاد نے آخر اسے سب سے کمتر اور کم مستحق کیونکر جانا؟
استاد نے مسکراتے ہوئے سب کو دیکھا اور کہا:
سب لڑکوں کو چھٹی۔ اب تم سب جا کر ان پیسوں کو پورا پورا خرچ کرو۔ ہماری ملاقات ہفتے والے دن بستی کے نانبائی کے تنور پر ہوگی۔
ہفتے والے دن سارے طالبعلم نانبائی کے تنور پر پہنچ گئے، جہاں استاد پہلے سے ہی موجود سب کا انتظار کر رہا تھا۔ سب لڑکوں کے آ جانے کے بعد استاد نے انہیں بتایا کہ تم میں ہر ایک اس تنور پر چڑھ کر مجھے اپنے اپنے درہم کا حساب دے گا کہ کہاں کہاں خرچ کئے۔
پہلے والے لڑکے، جسے ایک سو درہم ملے تھے، کو دہکتے تنور کی منڈیر پر چڑھا کر استاد نے پوچھا؛ بتاؤ، میرے دیئے ہوئے سو درہم کیسے خرچ کیے تھے؟
جلتے تنور سے نکلتے شعلوں کی تپش اور گرم منڈیر کی حدت سے پریشان لڑکا ایک پیر رکھتا اور دوسرا اٹھاتا۔ خرچ کی ہوئی رقم کو یاد کرتا اور بتاتا کہ: پانچ کا گڑ لیا تھا، دس کی چائے، بیس کے انگور، پانچ درہم کی روٹیاں۔۔۔۔ اور اسی طرح باقی کے خرچے۔ لڑکے کے پاؤں حدت سے جل رہے تھے تو باقی کا جسم تنور سے نکلتے شعلوں سے جھلس رہا تھا۔ حتیٰ کہ اتنی سی دیر میں اسے پیاس بھی لگ گئی تھی اور الفاظ بھی لڑکھڑانا شروع۔ بمشکل حساب دیکر نیچے اترا۔
اس کے بعد دوسرا لڑکا، پھر تیسرا اور پھر اسی طرح باقی لڑکے۔۔۔۔ حتی کہ اس لڑکے کی باری آن پہنچی جسے ایک درہم ملا تھا۔۔۔۔۔۔۔
استاد نے اسے بھی کہا کہ تم بھی تنور پر چڑھ جاؤ اور اپنا حساب دو۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکا جلدی سے تنور پر چڑھا، بغیر کسی توقف کے بولا "میں نے ایک درہم کی گھر کیلئے دھنیا کی گڈی خریدی تھی"
اور ساتھ ہی مسکراتا ہوا نیچے اتر کر استاد کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا، جبکہ باقی کے لڑکے ابھی تک نڈھال بیٹھے اپنے پیروں پر پانی ڈال کر ٹھنڈا کر رہے تھے۔
استاد نے سب لڑکوں کو متوجہ کر کے اس لڑکے کو خاص طور پر سناتے ہوئے کہا: بچو! یہ قیامت والے دن کے حساب کتاب کا ایک چھوٹا سا منظر نامہ تھا۔ ہر انسان سے، اس کو جس قدر عطا کیا گیا، کے برابر حساب ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکے نے استاد کو محبت سے دیکھتے ہوئے کہا کہ: آپ نے جتنا کم مجھے دیا، اس پر مجھے رشک اور آپ کی عطا پر پیار آ رہا ہے۔ تاہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی مثال تو بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے حساب کی شدت سے بچائے اور ہمارے ساتھ معافی اور درگزر والا معاملہ فرمائے۔ آمین
(عرب میڈیا سے ترجمہ)