عدیل منا
محفلین
(عربی میں لکھی گئی تحریر کا اردو میں ترجمہ)
کسی آدمی کی کہانی جوجدہ سے ریاض جا رہا تھا۔
ایک بار ریاض جانے کیلئے میں ایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلا، لیکن راستے میں رش اور چیکنگ کی وجہ سے ائیر پورٹ لیٹ پہنچا۔ جلدی سے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور دوڑتے ہوئے کاؤنٹر پر پہنچا۔ کاؤنٹر پر موجود ملازم سے میں نے کہا، مجھے ریاض جانا ہے۔
اس نے کہا۔ ریاض والی فلائٹ تو بند ہوچکی ہے۔
میں نے کہا۔ پلیز مجھے ضرور آج شام ریاض پہنچنا ہے۔
اس نے کہا۔ زیادہ باتوں کی ضرورت نہیں۔اس وقت آپکو کوئی بھی جانے نہیں دےگا۔
میں نے کہا۔ اللہ تمہارا حساب کردے۔
اس نے کہا۔ اس میں میرا کیا قصور؟
بہرحال میں ائیر پورٹ سے باہر نکلا۔پریشان تھا کہ کیا کروں، ریاض جانے کا پروگرام کینسل کردوں، اپنی گاڑی پر روانہ ہوجاؤں یا ٹیکسی میں چلا جاؤں؟ بالآخر ٹیکسی میں جانے والی بات پر اتفاق کیا۔ ائیرپورٹ کے باہر ایک پرائیویٹ گاڑی کھڑی تھی۔میں نے پوچھا ریاض کیلئے کتنے لوگے؟ اس نے کہا 500ریال۔بڑی مشکل سے اسے 450ریال پر راضی کیا اور اس کے ساتھ بیٹھ کر ریاض کیلئے روانہ ہوا۔ بیٹھتے ہی میں نے اسےکہا گاڑی تیز چلانی ہے۔ اس نے کہا فکر مت کرو۔ واقعی اس نے خطرناک حد تک گاڑی دوڑانی شروع کردی۔ راستے میں اس سے کچھ باتیں ہوئیں۔ اس نے میری جاب اور خاندان کے متعلق سوالات کئے اور کچھ سوالات میں نے بھی پوچھ لئے۔
اچانک مجھے اپنی والدہ کا خیال آیا کہ ان سے بات کرلوں۔ میں نے موبائل نکالا اور والدہ کوفون کیا۔
انہوں نے پوچھا بیٹے کہاں ہو؟
میں نے جہاز کے نکل جانے اور ٹیکسی میں سفر کرنے والی بات بتادی۔ماں نے دعا دی، بیٹے! اللہ تمہیں ہر قسم کے شر سے بچا ئے۔ میں نے کہا انشاء اللہ میں ریاض پہنچ کر آپکو اطلاع دیدوں گا۔
قدرتی طور پر میرے دل پر ایک پریشانی سے چھاگئی اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مصیبت میرا انتظار کررہی ہو۔اس کے بعد میں نے اپنی بیوی کو فون کیا اور اسے بھی ساری بات بتادی اور اسے ہدایت کی کہ بچوں کا خیال رکھے با لخصوص چھوٹی بیٹی سو سو کا۔
اس نے کہا جب سے آپ گئے ہو، سوسو مسلسل آپ کے بارے میں پوچھ رہی ہے۔
میں نے کہا۔ ملادو۔
بچی نے کہا۔بابا آپ کب آئیں گے؟
میں نے کہا۔ابھی تھوڑی دیر میں آجاؤں گا، کوئی چیز چاہیئے؟
وہ بولی۔ہاں، میرے لئے چاکلیٹ لے آؤ۔
میں ہنسا اور کہا۔ ٹھیک ہے۔
اسکے بعد میں اپنی سوچوں میں گم ہوگیا کہ اچانک ڈرائیور کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔
اس نے پوچھا۔کیا میں سگریٹ پی سکتا ہوں؟
میں نے کہا۔ بھائی! تم مجھے ایک نیک اورسمجھدار انسان لگ رہے ہو، کیوں اپنے آپ اور اپنے مال کو نقصان پہنچارہے ہو؟
اس نے کہا۔ میں نے پچھلے رمضان میں بہت کوشش کی کہ سگریٹ چھوڑدوں لیکن کامیاب نہیں ہوسکا۔
میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بڑی قوت عطا کی ہے، تم سگریٹ چھوڑنے کا معمولی کام نہیں کرسکتے۔۔۔بہرحال، اس نے کہا۔ آج کے بعد میں سگریٹ نہیں پیئوں گا۔
میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ثابت قدمی عطا فرمائے۔
مجھے یاد پڑتا ہےکہ اس کے بعد میں نےگاڑی کے دروازے سےسر لگایا کہ اچانک ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی اور پتہ لگا کہ گاڑی کا ایک ٹائر پھٹ گیا ہے۔ میں نے گھبرا کے ڈرائیور سے کہا،سپیڈ کم کردو۔ اس نے گھبراہٹ میں کوئی جواب نہیں دیا۔گاڑی ایک طرف نکل گئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی ایک جگہ جاکر رک گئی۔
مجھے اللہ نے توفیق دی اور میں نے زور زور سے کلمہ تشہد پڑھا۔مجھے سر میں چوٹ لگی تھی اور درد کی شدت سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ سر پھٹا جا رہا ہو۔ میں جسم کے کسی حصے کو حرکت نہیں دے سکتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا درد کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں بات کرنا چاہ رہا تھا لیکن بول نہیں سکتاتھا۔ حتیٰ کہ میری آنکھیں کھلی تھیں لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔اتنے میں میں نے لوگوں کے قدموں کی آواز سنی جو ایک دوسرے سے یہ کہہ رہے تھے کہ اسے ہلاؤ نہیں، سر سے خون نکل رہا ہے اور دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔ میری تکلیف میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا اور سانس لینے میں شدید دشواری محسوس کررہا تھا۔مجھے اندازہ ہوا کہ شاید میری موت آگئی ہے۔اس وقت مجھے گذری ہوئی زندگی پر جو ندامت ہوئی، میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔مجھے لگا کہ اب مجھے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
(اس کہانی کے متعلق آخر میں بتاؤنگا کہ اس کی کیا حقیقت ہے۔یہاں ہم میں سے ہر کوئی یہ تصوّر کرے کہ جو کچھ ہورہا ہے میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ کیونکہ عنقریب ہم سب کو اس سے ملتے جلتے حالات سے سابقہ پیش آناہے)
اسکے بعد لوگوں کی آوازیں آنا بند ہوگئیں۔میری آنکھوں کے سامنے مکمل تاریکی چھاگئی اور میں ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے میرے جسم کو چھریوں سے کاٹا جارہا ہو۔اتنے میں مجھے ایک سفید ریش آدمی نظر آیا۔
اس نے مجھے کہا۔ بیٹے! یہ تمہاری زندگی کی آخری گھڑی ہے، میں تمہیں نصیحت کرناچاہتاہوں کیونکہ اللہ نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔
میں نے پوچھا۔کیا ہے نصیحت؟
اس نے کہا۔"عیسائیت کی ترغیب" خدا کی قسم!اس میں تمہاری نجات ہے۔اگر تم اس پر ایمان لائے تو تمہیں اپنے گھر والوں کو لوٹادونگا اور تمہاری روح واپس لے آؤنگا۔۔۔۔جلدی سے بولو، ٹائم ختم ہوا جا رہا ہے۔
مجھے اندازہ ہوا کہ یہ شیطان ہے۔مجھے اس وقت جتنی بھی تکلیف تھی اور جتنا بھی اذیّت سے دوچار تھا لیکن اس کے باوجود اللہ اور اسکے رسول پر پکّا ایمان تھا۔میں نے اسے کہا۔جاؤ، اللہ کے دشمن۔میں نے اسلام کی حالت میں زندگی گزاری ہے اور مسلمان ہی مرونگا۔
اس کا رنگ زرد پڑگیا، بولا۔تمہاری نجات اس میں ہے کہ تم یہودی یا نصرانی مرجاؤ، ورنہ میں تمہاری تکلیف بڑھا دونگا اور تمہاری روح قبض کردونگا۔
میں نے کہا۔موت تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے، جو بھی ہو میں اسلام کی حالت ہی میں مرونگا۔
اتنے میں اس نے اوپر دیکھا اور دیکھتے ہی بھاگ نکلا۔(جاری ہے)