آخرت کا گھر کس کيلئے ہے

راجہ صاحب

محفلین
حضرت عمر بن عبدلعزيز رحمہ اللہ کے مہمانوں کي خدمت خود کرتے ، اپنے ہاتھ سے چراغ درست کرتے ، جب آپکو اس کے متعلق کہا گيا تو فرمانے لگے۔
جب چراغ کي درستي کيلئے اٹھا تھا تو بھي عمر ہي تھا اب بيٹھا ھوں تب بھي عمر ہي ہوں، حضرت عمر بن عبدالعزيزرحمہ اللہ کے بارے ميں تاريخ نگار لکھتے ہيں، کہ انتقال کے بعد آپ نے جو سرمايہ اپنے پيچھے چھوڑا، کل اکيس دينار تھے، جن ميں سے پانچ دينار اس کے کفن ميں اور دو دينار ان کي قبر کي زمين خريدنے پر صرف ہوئے، گيارہ لڑکوں اور ايک بيوہ پر يہ تقسيم کيا گيا، تو ہر ايک کے حصے ميں انيس انيس درہم آئے۔
ايک مشہور ثقہ بزرگ فرماتے ہيں، ہشام بن عبدالملک جب مرے تو ان کے بھي گيارہ لڑکے تھے اورحضرت عمر بن عبد العزيز کے بھي گيارہ لڑکے تھے، ہشام کے ترکہ ميں سے ان لڑکوں پر دس دس لاکھ درہم تقسيم ھوئے اور حضرت عمر بن عبدالعزيز کے لڑکوں پر صرف انيس انيس درہم۔
انہي بزرگ کا کہنا ہے کہ عرصے کے بعد ميں نے ہشام کہ ايک لڑکے کو ديکھا کھ لوگ اس کو صدقہ دے رہے تھے اور حضرت عمر بن وعبدا لعزيز رحمہ اللہ کے لڑکے کو اس حال ميں پايا کہ ايک دن ميں سو گھوڑے جہاد کيلئے دے دئيے۔
حضرت عمر بن عبدالعزيز ہي کا واقعہ ہے کہ آخري وقت قريب آپہچا ھے ، زندگي کے سانس ايک ايک کرکے ختم ہونے جارہے ھيں، ايک قريبي عزيز دوست مسلمہ عبدالملک قريب بيٹھے ھيں، اپنے جانشينوں کيلئے وصيت نامھ لکھواچکے ھيں، اپني تکفين و تدفين کے بارے ميں ہدايات دينے کے بعد آپ سے مسلمہ بن عبدالملک نے اھل و عيال کي نسبت سوال کيا کہ۔۔۔۔۔۔
اے امير المومنين آپ نے اپني اولاد کا منہ ھميشہ خشک رکھا، اس لئے آپ کو ايسي حالت ميں چھوڑ کر جاتے ھيں،کہ ان کے پاس کچھ نہيں ہے، کاش مجھے يا اپنے خاندان کے کسي اور شخص کو ان کے متعلق کچھ وصيت کر جاتے۔
فرمايا مجھے ٹيک لگا کر بٹھاؤ۔
پھر فرمايا کہ تمہارا يہ کہنا کہ ميں نے ان کے منہ کو خشک رکھاتو خدا کي قسم ان کا حق کبھي تلف نہيں کيا اور جس چيز ميں ان کا حق نہيں تھا، ان کو کبھي نھيں دي، تمہارا يہ کہنا کہ ميں تمہيں يا خاندان کے سکي شخص کو ان کے متعلق وصيت کر جائوں، تو ان کے معاملے ميں ميرا وصي اور ولي صرف خدا ہے، اور وہ ہي صلحا کا ولي ہوتا ہے ميرے لڑکے اگر خدا تعالي سے ڈريں گےتو خدا ان کيے لئے کوئي صورت نکال دے گا، اور اگر وہ مبتلائے گناہ ہوں گے تو ميں ان کو معصيت کيلئے طاقتور بنائوں گا۔
اس کے بعد لڑکوں کو بلايا اور باچشم تر انا کو ديکھ کر فرمايا، ميري جان ان نوجوانوں پر قربان جن کو ميں داخل ہو، يا تم لوگ محتاج رہو اور جنت ميں جائو، ليکن يہ بات کہ تم محتاج رہو اور جنت ميں جائو اس کو زيادہ محبوب تھي، بي نسبت اس کے تم دولت مند لوگ ہو اور آگ ميں جائو، اٹھو خدا تعالي تم کو محفوظ رکھے۔
لڑکو تمہارے باپ کو دو باتوں ميں سے ايک کا اختيار تھا، ايک يہ کہ تم لوگ دولت مند ہوجاؤ اور جہنم ميں داخل ہو جاؤ، اٹھو خدا تم کو محفوظ رکھے۔
آپ کي اہليہ محترمہ کا بيان ہے کہ آخري وقت ميں نے سنا کہ بار بار اس آيت کي تلاوت فرمارہے تھے، جس کا ترجمہ يہ ہے۔
يہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کيلئے بناتے ہيں، جو زمين ميں نہ تفوق چاہتے ہيں، نہ فساد کرتے ہيں، اور عافيت صرف پرہيزگاروں کيلئے ہے۔
اس کے بعد گردن جھکا لي اور وقت کا سب سے بڑا متقي انسان اپنے خلاق حقيقي سے جا ملا، دوستوں ہميشہ يہ بات ياد رکھو کہ برکت حلال مال ميں ہي ہوتي ہے جو لوگ دوسروں کا حق دباتے ھيں يا حرام ذرائع سے مال اکھٹا کرتے ھيں، کہ انکے مال ميں کبھي بھي برکت نھيں ھوتي۔
 

خرم

محفلین
اللہ آپ کو جزا اور ہم سب کو ان درخشندہ مثالوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

ابوشامل

محفلین
عمر ثانی

حکمرانوں میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد ان جیسی ہستی مسلمانوں کو دوبارہ نصیب نہیں ہوئی، دیگر کئی حکمرانوں میں بھی خوبیاں تھیں اور وہ عظیم شمار ہوتے تھے لیکن خلافت کے احیاء کی کوشش کسی نے نہیں کی اور صلاح الدین ایوبی جیسے حکمران بھی اپنے بعد بیٹوں کو جانشیں مقرر کر گئے جبکہ اورنگزیب عالمگیر بھی احیائے خلافت کا کام نہ کرسکے۔ یہ کارنامہ صرف عمر ثانی کے نام ہے جنہوں نے جان دینا گوارہ کرلی لیکن حق سے نہ ہٹے۔
 
Top