سید عمران
محفلین
مرنے کے بعد پانچ بڑے ہوش ربا مراحل ہیں...
جن کی تیاری کے لیے قرآن و حدیث میں اعمال بتائے گئے ہیں...
جی میں آیا انہیں شئیر کرلوں...
جس کو استفادہ حاصل کرنا ہے... کر لے...
پہلے ان پانچ مراحل کا تذکرہ...
پھر ایک ایک کرکے ان کا مختصر بیان...
اور انہیں طے کرنے والے اعمال کا ذکر ہوگا...
1) روح نکلنے کا وقت یعنی عالم نزع...
2) قبر و برزخ کا عالم...
3) قیامت کے میدان کا قیامت خیز وقت...
4) حساب کتاب اور میزان پر پیشی کا مرحلہ..
5) پل صراط کو طے کرنے کا سفر...
1) سب سے پہلا مرحلہ روح نکلنے کا ہے...
یہ بڑا جاں گسل اور سخت مرحلہ ہے...
جب انسان اس جہاں سے...
اپنے پیاروں سے..
اپنی تعلیمی قابلیت سے...
اپنی تمام تر ذاتی صفات سے...
اور اپنی جمع شدہ دولت اور جائیداد سے...
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہاتھ جھاڑ کر ایک طویل سفر پر روانہ ہوتا ہے...
اور اپنے ساتھ صرف نیک و بد اعمال کا پشتارا لے چلتا ہے..
تو اس مرحلے کی کیفیات کو مرنے والا تو بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتا... اس لیے اللہ تعالی بیان فرماتے ہیں...
1) كَلا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ (26) وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ (27) وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ (29) إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاق
2) فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ ﴿83﴾ وَأَنتُمْ حِينَئِذٍ تَنظُرُونَ ﴿84﴾ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَكِن لَّا تُبْصِرُونَ ﴿85﴾ فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ ﴿86﴾ تَرْجِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
3) وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰاتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْ
1) جب روح سارے بدن سے کھنچ کر ہنسلی کی ہڈی میں آکر اٹک جائے گی... اور لوگ کہیں گے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا... کوئی دوا دارو کرنے والا... حالانکہ مرنے والا تو سمجھ جاتا ہے کہ اب جدائی کا وقت آگیا... روح نکلنے کی شدت کے باعث اس کی پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ رہی ہوتی ہے... یہی تو اپنے رب سے ملاقات کا وقت ہے...
2) جب روح نکل کر گلے تک پہنچ جاتی ہے... اور تم مرنے والے کو اپنی آنکھوں سے مرتا دیکھ رہے ہوتے ہو... اس وقت ہم تم سے زیادہ اس کے نزدیک ہوتے ہیں... مگر تم دیکھ نہیں سکتے... اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تمہیں جزا و سزا کچھ نہیں ملنے والی تو تم اس کی روح کو پلٹا کیوں نہیں دیتے...
3) کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جانیں...
رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم موت کے اس انتہائی ہولناک مرحلے سے نمٹنے کا نہایت آسان نسخہ بیان فرمارہے ہیں...
1) ان الصدقۃ تطفی غضب الرب و تدفع میتۃ السوء
بے شک صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے...
2) اور اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اور خیرات کرو اس مال میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے... اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے تو وہ کہے کہ اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اور تھوڑی سی مہلت کیوں نہ دی کہ میں خیرات کرتا اور نیکوکاروں میں سے ہوتا...
3) دوسری حدیث ہے کہ اللہ تعالی پاک مال سے ہی صدقہ قبول فرماتے ہیں...
الحمد للہ آج آخرت کے سب سے پہلے مرحلے کی سختی اور اس سے نمٹنے کے بارے میں اللہ تعالی کی توفیق سے کچھ بیان ہوگیا...
لہذا اپنے حلال مال سے خوب کثرت سے صدقہ کریں...
حقیقی ضرورت مندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی مدد کریں...
مسجد و دینی مدارس میں مال خرچ کریں...
دین کی نشر و اشاعت کا موقع ملے تو اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں...
غیر سودی بینک... انشورنس... ٹی وی... فلم وغیرہ سمیت تمام حرام و حلال ذرائع رزق کی تعریف علماء سے ضرور پوچھیں...
بلادلیل اپنی خودساختہ تاویلات سے حرام کو حلال بنانے کی کوشش نہ کریں...
کیوں کہ معاملہ ہے ہمیشہ کی زندگی کا...
اللہ تعالی ہم سب کو آخرت کی تیاری کی توفیق بھی عطا فرمائیں...
اور آخرت کی گھاٹیوں کی ہولناکیوں سے بھی بچائیں... آمین!!!
جن کی تیاری کے لیے قرآن و حدیث میں اعمال بتائے گئے ہیں...
جی میں آیا انہیں شئیر کرلوں...
جس کو استفادہ حاصل کرنا ہے... کر لے...
پہلے ان پانچ مراحل کا تذکرہ...
پھر ایک ایک کرکے ان کا مختصر بیان...
اور انہیں طے کرنے والے اعمال کا ذکر ہوگا...
1) روح نکلنے کا وقت یعنی عالم نزع...
2) قبر و برزخ کا عالم...
3) قیامت کے میدان کا قیامت خیز وقت...
4) حساب کتاب اور میزان پر پیشی کا مرحلہ..
5) پل صراط کو طے کرنے کا سفر...
1) سب سے پہلا مرحلہ روح نکلنے کا ہے...
یہ بڑا جاں گسل اور سخت مرحلہ ہے...
جب انسان اس جہاں سے...
اپنے پیاروں سے..
اپنی تعلیمی قابلیت سے...
اپنی تمام تر ذاتی صفات سے...
اور اپنی جمع شدہ دولت اور جائیداد سے...
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہاتھ جھاڑ کر ایک طویل سفر پر روانہ ہوتا ہے...
اور اپنے ساتھ صرف نیک و بد اعمال کا پشتارا لے چلتا ہے..
تو اس مرحلے کی کیفیات کو مرنے والا تو بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتا... اس لیے اللہ تعالی بیان فرماتے ہیں...
1) كَلا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ (26) وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ (27) وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ (29) إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاق
2) فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ ﴿83﴾ وَأَنتُمْ حِينَئِذٍ تَنظُرُونَ ﴿84﴾ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَكِن لَّا تُبْصِرُونَ ﴿85﴾ فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ ﴿86﴾ تَرْجِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
3) وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰاتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْ
1) جب روح سارے بدن سے کھنچ کر ہنسلی کی ہڈی میں آکر اٹک جائے گی... اور لوگ کہیں گے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا... کوئی دوا دارو کرنے والا... حالانکہ مرنے والا تو سمجھ جاتا ہے کہ اب جدائی کا وقت آگیا... روح نکلنے کی شدت کے باعث اس کی پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ رہی ہوتی ہے... یہی تو اپنے رب سے ملاقات کا وقت ہے...
2) جب روح نکل کر گلے تک پہنچ جاتی ہے... اور تم مرنے والے کو اپنی آنکھوں سے مرتا دیکھ رہے ہوتے ہو... اس وقت ہم تم سے زیادہ اس کے نزدیک ہوتے ہیں... مگر تم دیکھ نہیں سکتے... اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تمہیں جزا و سزا کچھ نہیں ملنے والی تو تم اس کی روح کو پلٹا کیوں نہیں دیتے...
3) کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جانیں...
رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم موت کے اس انتہائی ہولناک مرحلے سے نمٹنے کا نہایت آسان نسخہ بیان فرمارہے ہیں...
1) ان الصدقۃ تطفی غضب الرب و تدفع میتۃ السوء
بے شک صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے...
2) اور اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُولَ رَبِّ لَوْلا أَخَّرْتَنِي إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُنْ مِنَ الصَّالِحِينَ وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
اور خیرات کرو اس مال میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے... اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے تو وہ کہے کہ اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اور تھوڑی سی مہلت کیوں نہ دی کہ میں خیرات کرتا اور نیکوکاروں میں سے ہوتا...
3) دوسری حدیث ہے کہ اللہ تعالی پاک مال سے ہی صدقہ قبول فرماتے ہیں...
الحمد للہ آج آخرت کے سب سے پہلے مرحلے کی سختی اور اس سے نمٹنے کے بارے میں اللہ تعالی کی توفیق سے کچھ بیان ہوگیا...
لہذا اپنے حلال مال سے خوب کثرت سے صدقہ کریں...
حقیقی ضرورت مندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی مدد کریں...
مسجد و دینی مدارس میں مال خرچ کریں...
دین کی نشر و اشاعت کا موقع ملے تو اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں...
غیر سودی بینک... انشورنس... ٹی وی... فلم وغیرہ سمیت تمام حرام و حلال ذرائع رزق کی تعریف علماء سے ضرور پوچھیں...
بلادلیل اپنی خودساختہ تاویلات سے حرام کو حلال بنانے کی کوشش نہ کریں...
کیوں کہ معاملہ ہے ہمیشہ کی زندگی کا...
اللہ تعالی ہم سب کو آخرت کی تیاری کی توفیق بھی عطا فرمائیں...
اور آخرت کی گھاٹیوں کی ہولناکیوں سے بھی بچائیں... آمین!!!
آخری تدوین: