فی الوقت اس موضوع پر محدث محمد ناصر الدین البانی کی کتاب ’’السلسلۃ الصحیحۃ ‘‘سے ایک روایت نقل کی جارہی ہے:
إذا قبضت نفس العبد تلقاہ أہل الرحمۃ من عباد اللہ كما یلقون البشیر فی الدنیا ، فیقبلون علیہ لیسألوہ ، فیقول بعضہم لبعض : أنظروا أخاكم حتى یستریح ، فإنہ كان فی كرب ، فیقبلون علیہ ، فیسألونہ : ما فعل فلان ؟ ما فعلت فلانۃ ؟ہل تزوجت ؟ فإذا سألوا عن الرجل قد مات قبلہ قال لہم : إنہ قدہلك ، فیقولون : إنا للہ و إنا إلیہ راجعون ، ذہب بہ إلى أمہ الہاویۃ ، فبئست الأم و بئست المربیۃ . (قال الألبانی فی " السلسلۃ الصحیحۃ " 6 / 604)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کسی بندے کی روح قبض کی جاتی ہے تو (اس سے پہلے وفات پانے والے) اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس کا اس طرح استقبال کرتے ہیں جس طرح دنیا میں لوگ خوشخبری دینے والے سے ملتے ہیں۔ پھر جب وہ بندے اس سے سوال کرنا چاہتے ہیں تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کو تھوڑا آرام کرنے دو، یہ دنیا کی بے چینی و پریشانی میں مبتلا تھا۔ آخرکار وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ فلاں کس حال میں تھا؟ کیا اس کی شادی ہو گئی تھی؟ پھر جب وہ کسی ایسے آدمی کے بارے میں سوال کرتے ہیں جو اس سے پہلے مر چکا ہوتا ہے اور وہ جواب میں کہتا ہے کہ وہ تو مجھ سے پہلے مر چکا تھا، تو وہ کہتے ہیں انا لله و انا الیہ راجعون (یعنی وہ تو یہاں پہنچا ہی نہیں ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہنم اس کا ٹھکانہ ہوا ، وہ برا ٹھکانہ اور رہنے کی بری جگہ ہے۔