قمراحمد
محفلین
آخر ہم بھی تو انسان ہیں
رفعت اللہ اورکزئی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور میں بم دھماکوں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہونے لگا ہے کہ اب تو عوام نے بھی اندازہ لگانا شروع کردیا ہے کہ کس دن دھماکہ ہوگا اور کس دن نہیں ہوگا۔
پچھلے جمعہ کے دن جب حیات آباد میں دھماکہ ہوا تو اس واقعہ سے قبل ہی شہر کے لوگ آپس میں کہتے تھے کہ ’ آج جمعہ ہے آج کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔‘
میں نے اس دن خود کئی صحافیوں کو یہ کہتے سنا تھا کہ ’تیار رہو آج جمعہ ہے کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور پیش آئے گا۔‘ اور پھر اس دن سچ مچ پشاور کے ماڈرن علاقے حیات آباد میں ایک ریسٹورنٹ میں دھماکہ ہوا جس میں جانی نقصانات تو نہیں ہوئے البتہ ہوٹل کو نقصان ضرور پہنچا ۔ عوام کا پہلے سے اندازہ لگانے کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس سے پہلے پشاور شہر میں ہونے والے تین دھماکے جمعہ ہی کے دن پیش آئے تھے۔
بدھ کو ہونے والے دھماکے کی خبر جب ٹی وی کے ذریعے سے ملی تو میں سیدھا لیڈی ریڈنگ ہپستال روانہ ہوا جو جائے وقوعہ کے قریب ہی واقع ہے۔ جب میں ہسپتال پہنچا تو ایمرجنسی کے گیٹ پر ہی دھماکے کی شدت اور نقصانات کا اندازہ ہوا۔ جتنی دیر میں ہپستال کے گیٹ پر موجود رہا وہاں مسلسل ایمبولینس اور گاڑیوں کے ذریعے سے لاشیں اور زخمی لائے جاتے رہے۔ وہاں قیامت جیسا منظر تھا۔
ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوا تو وہاں عجیب و غریب مناظر دیکھنے کو ملے۔ ایک موقع پر زخمیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوئی کہ وہاں بیڈ کم پڑگئے اور زخمیوں کو فرش پر لیٹا کر انھیں طبی امداد دی گئی۔ وارڈ کے باہر ہلاک ہونے والے افراد کے عزیز رشتہ دار بڑی تعداد میں موجود رہے اور وہ جس انداز سے رو رہے تھے اس سے پتھر دل بھی موم ہوجاتا تھا۔
میں نے جتنے بھی زخمیوں کو دیکھا ان میں کوئی بھی ایسا زخمی نظر نہیں آیا جس کے بدن کے دو تین حصوں پر زخم نہ آئے ہوں۔ ایمرجنسی وارڈ میں ایک تین سالہ لا وارث بچی بے ہوش پڑی ہوئی تھی۔ وہ بچی کچھ اس انداز سے بے سہارا بیڈ پر پڑی ہوئی تھی کہ ہر کوئی اسے دیکھنے آرہے تھا اور پھر جاتے وقت روئے بنا نہیں رہتا تھا۔
روزانہ دھماکوں اور ہلاکتیں کی ایک جیسی رپورٹنگ کرتے ہوئے ہمارے بھی اعصاب جواب دینے لگے ہیں۔ آج مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ رپورٹنگ کرتے ہوئے میں خاصا گھبرایا ہوا تھا۔ ایک تو شاید اس بات کا ڈر تھا کہ کوئی اور دھماکہ نہ ہوجائے۔ پھر وہاں ایمرجنسی وارڈ کے اندر بڑی تعداد میں لاشوں، زخمی خواتین اور بچیوں کو دیکھا تو اس سے بھی دماغ پر عجیب قسم کا دباؤ محسوس ہوا۔
جب دفتر پہنچا تو میں نے کیمرے سے تمام تصویریں ڈاؤن لوڈ کر لیں لیکن اس میں ایک تصویر بھی ٹھیک نہیں آئی تھی بلکہ تمام تصویریں ’آؤٹ آف فوکس‘ تھیں۔ بعد میں مجھے یاد آیا کہ ہسپتال میں تصویریں کھینچتے ہوئے میرے ہاتھ نجانے کیوں کانپ رہے تھے۔
جب حالات ہی ایسے ہوں کہ سامنے لاشیں ہی لاشیں پڑی ہوں جن میں خواتین بھی ہوں اور معصوم بچیاں بھی اور سب سے اہم بات یہ کہ ان تمام مرنے والے افراد کا کوئی قصور بھی نہ ہو لیکن پھر بھی وہ انتہائی ظالمانہ طریقے سے ہلاک کر دیے جائیں، کوئی لاوراث پڑا ہو یا مرنے والوں کے ماں باپ اور عزیز رشتہ دار آپ کے سامنے دھاڑیں مار کر رو رہے ہوں تو ان حالات میں ہاتھ نہیں کانپیں گے نہیں تو اور کیا ہوگا۔
آخر ہم بھی انسان ہیں۔