آخری خواہش بھی سینے سے نکال آتا ہوں میں؟

نوید ناظم

محفلین
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخری خواہش بھی سینے سے نکال آتا ہوں میں؟
اس کو دفنا کر کہیں مٹی بھی ڈال آتا ہوں میں!

تا کہ مجھ سے بھی اندھیروں کا گلہ کر دے نہ وہ
اُس کے آنگن میں کوئی سورج اچھال آتا ہوں میں

کھولتی یادوں میں دل کو پھینک دیتا ہوں کبھی
کیسا داروغہ ہوں اپنا دل ابال آتا ہوں میں

شوق جو تھا تجھ سے ملنے کا وہ گھر میں رہ گیا
اب اجازت دو اگر، جا کر سنبھال آتا ہوں میں

میرا دروازہ ترا غم کھولتا ہے شام کو
جبکہ دن کو کام سے تھک کر نڈھال آتا ہوں میں

یہ مجھے معلوم ہے اس نے نہیں آنا کبھی
سال بھر کا پھر بھی کیلنڈر کھنگال آتا ہوں میں

دشت میں کیسے وہ چل پائے گا میرے ساتھ ساتھ
بس بہانہ کر کے کوئی اس کو ٹال آتا ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
دل ابالنا اور شوق سنبھالنا محاورے کے خلاف ہے۔ باقی چلے گا۔
مطلع کا مفہوم تو عجیب ہے ہی۔ ’بھی‘ سے کیا اضافی شے ڈالی جا سکتی ہے؟ مٹی کے علاوہ!
 

نوید ناظم

محفلین
دل ابالنا اور شوق سنبھالنا محاورے کے خلاف ہے۔ باقی چلے گا۔
مطلع کا مفہوم تو عجیب ہے ہی۔ ’بھی‘ سے کیا اضافی شے ڈالی جا سکتی ہے؟ مٹی کے علاوہ!
بہت شکریہ سر۔۔۔

مطلع میں بھی کی جگہ ہی کر دیا۔۔۔

آخری خواہش بھی سینے سے نکال آتا ہوں میں؟
اس کو دفنا کر کہیں مٹی ہی ڈال آتا ہوں میں!

دل ابالنے والا شعر نکال دیا سر۔
 

الف عین

لائبریرین
ٹھیک ہے۔ اب دوبارہ محترمہ تنگ کرنے تو نہیں آئیں گی نا کہ مزید شاعری کرنے کو مجبور ہونا پڑے! (مزاح)
 
Top