شہزاد وحید
محفلین
میری بدقسمتی کے میں آج تک اس دھاگے کی طرف نہ آسکا اور صرف فلموں والے دھاگے کی طرف مصروف رہا۔ خیر اب یہاں نظر پڑ گئ ہے تو امید ہے میں بھی اپنی پڑھی کتب کا تذکرہ کرتا رہوں گا یہاں۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے احمد اقبال کا طویل سلسلہ "شکاری" ختم کیا تھا جو کہ 20 حصوں پر مشتمل تھا اور چونکہ میں نے یہ سلسلہ ماسٹرز کے دور میں شروع کیا تھا تو اسے ختم کرنے میں مجھے ایک سال لگا جب کہ ایف ایس سی اور میٹرک کے دور میں یہ سلسلہ ختم کرنے میں مجھے ایک مہینہ لگتا۔
ابھی میں نسیم حجازی کی ایک شاندار ناول "آخری معرکہ" پڑھ رہا ہوں جس میں بڑی خوبصورتی اس نے سلطان محمود غزنوی کی ہندوستان میں فتوحات اور ہندو راجپوتوں کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا ہونے اور جھوٹے دیوتاؤں کا پرچار کرنے والے پروہتوں اور بچاریوں کے دلوں میں اسلام کی دھاک بیٹھے کے واقعات قلم بند کئے ہیں۔
آخری کچھ مراسلوں سے پتہ چلا ہے کہ تعلیم و تربیت اور دوسرے رسائل کا ذکر ہو رہا ہے۔ میرے پاس تعلیم و تربیت، بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ، نونہال، پیغام، آنکھ مچولی، جگنو کے 1985 سے لیکر 2004 تک کے تمام نمبرز موجود تھے جو میں نے بہت بہت بہت محنت سے جمع کئے تھے۔ لیکن افسوس وہ میرے چھوٹے بھائی کی لالچ کی نظر ہوگئے۔ ہم بھائی جب بچپن میں والد صاحب کے ساتھ بازار جاتے تھے تو میرا کھلونا ہمیشہ کتابیں ہی ہوا کرتی تھی۔ عمروعیار، ٹارزن، شیخ چلی، داستان امیر حمزہ (مقبول جہانگیر)، بوستان خیال، عنبر ناگ ماریہ، انسپکٹر جمشید، چلوسک ملوسک، چھن چھنگلو، آنگلو بانگلو کی کتابیں ہی میرا کھلونا تھے۔ میری عادت تھی کہ میں ہر کتاب پڑھنے کے بعد ایک ڈائری میں اس کا نام لکھ لیتا ہے اور وہ ڈائری میرے پاس اب بھی موجود ہیں۔ کئی لوگ بچوں کی ایسی کتابوں کو فضولیات تصور کرتے ہیں لیکن انہی کتابوں سے میرے مطالعہ کو شوق بڑھا اور پھر مجھے منٹو، پریم چند، کرشن چندر، ممتاز مفتی، ابن انشاء، مستنصر حسین تارڑ، عصمت چغتائی، اشفاق احمد، اے حمید جیسے لوگوں کو پڑھنے کا موقع ملا۔ ہمارے شہر گوجرانوالہ میں بدقسمتی سے لائیبریاں بہت کم تھی اور اب تو ہے ہی نہیں۔ دو میونسپلٹی کی لائیریریاں ہیں صرف جن میں سے ایک اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے احمد اقبال کا طویل سلسلہ "شکاری" ختم کیا تھا جو کہ 20 حصوں پر مشتمل تھا اور چونکہ میں نے یہ سلسلہ ماسٹرز کے دور میں شروع کیا تھا تو اسے ختم کرنے میں مجھے ایک سال لگا جب کہ ایف ایس سی اور میٹرک کے دور میں یہ سلسلہ ختم کرنے میں مجھے ایک مہینہ لگتا۔
ابھی میں نسیم حجازی کی ایک شاندار ناول "آخری معرکہ" پڑھ رہا ہوں جس میں بڑی خوبصورتی اس نے سلطان محمود غزنوی کی ہندوستان میں فتوحات اور ہندو راجپوتوں کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا ہونے اور جھوٹے دیوتاؤں کا پرچار کرنے والے پروہتوں اور بچاریوں کے دلوں میں اسلام کی دھاک بیٹھے کے واقعات قلم بند کئے ہیں۔
آخری کچھ مراسلوں سے پتہ چلا ہے کہ تعلیم و تربیت اور دوسرے رسائل کا ذکر ہو رہا ہے۔ میرے پاس تعلیم و تربیت، بچوں کی دنیا، بچوں کا باغ، نونہال، پیغام، آنکھ مچولی، جگنو کے 1985 سے لیکر 2004 تک کے تمام نمبرز موجود تھے جو میں نے بہت بہت بہت محنت سے جمع کئے تھے۔ لیکن افسوس وہ میرے چھوٹے بھائی کی لالچ کی نظر ہوگئے۔ ہم بھائی جب بچپن میں والد صاحب کے ساتھ بازار جاتے تھے تو میرا کھلونا ہمیشہ کتابیں ہی ہوا کرتی تھی۔ عمروعیار، ٹارزن، شیخ چلی، داستان امیر حمزہ (مقبول جہانگیر)، بوستان خیال، عنبر ناگ ماریہ، انسپکٹر جمشید، چلوسک ملوسک، چھن چھنگلو، آنگلو بانگلو کی کتابیں ہی میرا کھلونا تھے۔ میری عادت تھی کہ میں ہر کتاب پڑھنے کے بعد ایک ڈائری میں اس کا نام لکھ لیتا ہے اور وہ ڈائری میرے پاس اب بھی موجود ہیں۔ کئی لوگ بچوں کی ایسی کتابوں کو فضولیات تصور کرتے ہیں لیکن انہی کتابوں سے میرے مطالعہ کو شوق بڑھا اور پھر مجھے منٹو، پریم چند، کرشن چندر، ممتاز مفتی، ابن انشاء، مستنصر حسین تارڑ، عصمت چغتائی، اشفاق احمد، اے حمید جیسے لوگوں کو پڑھنے کا موقع ملا۔ ہمارے شہر گوجرانوالہ میں بدقسمتی سے لائیبریاں بہت کم تھی اور اب تو ہے ہی نہیں۔ دو میونسپلٹی کی لائیریریاں ہیں صرف جن میں سے ایک اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔