جگر آدمی، آدمی سے ملتا ہے

سید زبیر

محفلین
آدمی، آدمی سے ملتا ہے

آدمی، آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
آج کیا بات ہے که پھولوں کا؟
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے
سلسله فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے
کاروبار جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے
روح کو بهی مزا محبت کا
دل کی ہمسائگی سے ملتا ہے
 

mohsin ali razvi

محفلین
بشریت رسد زه انسانها
دل کجا طلب کار لقاست از = عامل شیرازی
 

الف نظامی

لائبریرین
آدمی، آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

بھول جاتا ہوں میں ستم اُس کے
وہ کچھ اِس سادگی سے ملتا ہے

مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹُوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے

آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا؟
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے

سلسلہ فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے

کاروبار جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے

روح کو بهی مزا محبت کا
دل کی ہمسائگی سے ملتا ہے

(جگر مراد آبادی)​
 
Top