سید زبیر
محفلین
آدمی، آدمی سے ملتا ہے
آدمی، آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
آج کیا بات ہے که پھولوں کا؟
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے
سلسله فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے
کاروبار جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے
روح کو بهی مزا محبت کا
دل کی ہمسائگی سے ملتا ہے
آدمی، آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
آج کیا بات ہے که پھولوں کا؟
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے
سلسله فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے
کاروبار جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے
روح کو بهی مزا محبت کا
دل کی ہمسائگی سے ملتا ہے