حسان خان
لائبریرین
گو رفعتوں میں چرخ سے بالا ہے آدمی
ہر شے سے کائنات کی اعلیٰ ہے آدمی
محرابِ زندگی کا اجالا ہے آدمی
لیکن ابھی تو طفلِ دوسالا ہے آدمی
اب تک تو خاک چھاننے والا ہے آدمی
اِس آدمی کا تجھ سے کہوں کیا میں کیف و کم
اک آن میں ہے سبز، تو اک آن میں بھسم
تریاق ہے جو صبح کو، تو شام کو ہے سم
منعم ہے، تو ہے شیر کا بھی خویشِ محترم
مفلس ہے تو گدھے کا بھی سالا ہے آدمی
قوت میں بے نظیر ہے، صولت میں فرد ہے
عزت میں بے مثال ہے، طاقت میں فرد ہے
اعزاز و احترام و جلالت میں فرد ہے
پیسہ ہے جیب میں تو شرافت میں فرد ہے
پیسہ اگر نہیں تو رِذالا ہے آدمی
کس کو خبر کہ دیوِ تہمتن بنے گا کب
شاہینِ زندگی کا نشیمن بنے گا کب
طاقت کا اس زمین پہ مامن بنے گا کب
کیا جانیے کہ فاتحِ آہن بنے گا کب
اب تک تو صرف روئی کا گالا ہے آدمی
تہمتن (tahamtan) = مردِ قوی جثہ و شجاع؛ رستم کا لقب
اب تک تو آستانِ حماقت ہے اور سر
اب تک تو 'خیر' سُست ہے، اور تیز گام 'شر'
اب تک تو پھر رہا ہے دل و ذہن اِدھر اُدھر
ہر ریوِ کامیاب کی خوراک ہے بشر
ہر دیوِ کامراں کا نوالا ہے آدمی
ریو (rev) = فریب، مکر، تزویر، دغا، ریا، حیلہ
انسان وہ کلی ہے جو اب تک کھلی نہیں
وہ شاخ ہے صبا سے جو اب تک ہلی نہیں
پوشاک ہے یہ وہ جو ابھی تک سلی نہیں
کنجی ہنوز عقل کی اُس کو ملی نہیں
جو آج تک ہے بند، وہ تالا ہے آدمی
اب تک ہے بزمِ جہل میں ناداں ڈٹا ہوا
اب تک ہے علم و عقل و ہنر میں گھٹا ہوا
اب تک لباسِ ذہن و ذکا ہے پھٹا ہوا
اب تک ہے خاکِ تیرہ میں انساں اٹا ہوا
ہرچند خاکِ تیرہ سے بالا ہے آدمی
پروا کسے جو آج ہے دن بھی سیاہ رات
کیا غم اگر زمین پہ وا ہے درِ ممات
یعنی بحکمِ دہر و بفرمانِ کائنات
انساں کو آج روند رہے ہیں جو حادثات
کل اُن کو جوش روندنے والا ہے آدمی
(جوش ملیح آبادی)