آدم خور اور جنگلی قاتل از کینیتھ اینڈرسن

قیصرانی

لائبریرین
تعارف
وقت اور تہذیب ہمیشہ آگے کو بڑھتے ہیں اور اپنے ساتھ صنعتی انقلاب، بہتر معیارِ زندگی اور آسائشیں بھی لاتے ہیں مگر اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے جو بتدریج کم ہوتی ہوئی فطرت ہوتی ہے۔ انسانی تخلیقات اور تعمیرات سے فطرت کا چہرہ داغدار ہوتا جاتا ہے۔ ہر روز، ہر منٹ بعد جنگل کے دیو، کئی کئی سو سال پرانے درخت گرائے جاتے ہیں، چاہے وہ تعمیراتی لکڑی کے حصول کے لیے ہوں یا پھر مشینی ثقافت کا پھیلاؤ ہو، جس سے معدودے چند افراد ہی محظوظ ہوتے ہیں اور بعض اوقات بہت خوفناک مظالم بھی ڈھائے جاتے ہیں۔ درختوں کے ساتھ کئی اور چیزیں بھی رخصت ہوتی ہیں، چاہے وہ جنگلی جانور ہوں، پرندے ہوں یا اس خوبصورت دھرتی پر رہنے والی دیگر مخلوقات۔ یہ سب بہت تیزی سے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔
بہت عرصہ قبل یہی ظلم امریکی گھاس کے میدانوں کے ساتھ ہوا جہاں کبھی بے شمار ارنے بھینسے موجود تھے اور آج وہاں ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ افریقہ اسی نقشِ قدم پر تیزی سے چل رہا ہے۔ کبھی اس براعظم پر خوبصورت جانوروں کے بے شمار ریوڑ ہوتے تھے۔ کچھ تو ابھی تک موجود ہیں جو ہزاروں میل کے فاصلے پر پھیلے ہوئے جبکہ دیگر کی دھوپ میں چمکتی ہڈیاں انسانی ہاتھوں ان کی تباہی کی گواہ ہیں۔ ہاتھیوں کو تجارتی پیمانے پر شکار کیا جاتا رہا تھا اور ایک ایک شکاری کئی کئی ہزار ہاتھیوں کا قاتل بنا۔ ہندوستان میں بھی جنگلی جانوروں کی تیزی سے کم ہوتی تعداد خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ میں ایسی بہت سی جگہوں کو جانتا ہوں جہاں 1930 تک رات کو شیر کی دھاڑ اور تیندوے کی آواز عام سنائی دیتی تھی اور اس کے بعد سانبھر اور دیگر جانوروں کی خطرے آوازیں بھی۔ اب رات بغیر کسی آواز کے گزرتی ہے اور واحد آواز جھینگر کی ہوتی ہے۔ جہاں کبھی شیر اور دیگر جانوروں کی شبینہ آمد و رفت کے پگ دکھائی دیتے تھے، اب وہاں چند خرگوشوں کے پگ بتاتے ہیں کہ وہ ابھی تک ناپید نہیں ہوئے۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ کسی ملک میں اتنی بڑی تعداد میں جنگلی حیات کیوں اور کیسے ناپید ہوتی ہے۔ جس انسان نے کبھی جنگل کو سمجھا نہیں اور اس سے محبت نہیں کی، اس میں موجود حیات سے تعلق نہیں پیدا کیا، وہ کبھی ان جذبات کو نہیں سمجھ سکتا اور نہ ہی اسے اس ناقابلِ تلافی نقصان کا احساس ہوگا کہ جنگلی حیات ناپید ہو گئی ہے۔ جہاں کبھی واقف آوازیں ہوتی تھیں، اب محض تباہی کے ہمراہ آنے والی خاموشی سنائی دیتی ہے۔
اس بات پر کسی کو شبہ نہیں کہ آنے والے وقت میں یہ چند بچے کچھے جانور بھی اپنے فطری ماحول سے ناپید ہو جائیں گے اور پھر جا کر یہ احساس ہوگا کہ کتنا ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔ میں ان کہانیوں کو اس لیے نہیں بیان کر رہا کہ اس طرح لوگوں کی مہم جوئی کی تسکین ہوگی بلکہ میرا مقصد یہ بھی ہے کہ انسانی خواہشات میں سے ایک، شکار جیسا شغل کیسے ناپیدی کی طرف جا رہا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
1 کمپی کاری کا قاتل
2 عالم بخش اور سیاہ ریچھ
3 ماموندر کا آدم خور
4 گرہٹی کا ہاتھی
5 سنگم کا تیندوا
6 راما پرم کا شیر
7 مدیانور کا بڑا تیندوا
8 راج نگر کا قصاب
 

قیصرانی

لائبریرین
1 کمپی کاری کا قاتل
اگر دو بلند پہاڑی سلسلوں کا تصور کریں جن کی اوسط بلندی 4٫000 فٹ سے زیادہ ہو اور ان کے درمیان پھیلی وادی پانچ میل چوڑی ہو جس میں گھنا جنگل ہو تو آپ کو پتہ چلے گا کہ میری کہانی کس علاقے سے متعلق ہے۔ یہ کہانی ضلع سالم کے شمالی علاقے سے متعلق ہے جو جنوبی ہندوستان میں مدراس کے صوبے میں واقع ہے۔ یہ پہاڑیاں شمال سے جنوب کو جاتی ہیں اور مشرقی سلسلہ زیادہ بلند ہے۔ اس کے جنوبی کنارے پر واقع پہاڑی گتھریاں ہے جو 4٫500 فٹ سے زیادہ بلند ہے۔ اس کی ڈھلانوں پر کوڈیکاری کا بنگلہ ہے جہاں سے دنیا کے خوبصورت ترین مناظر میں سے کچھ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہر سمت پہاڑیاں اور چٹانیں دکھائی دیتی ہیں۔ سورج صبح کے وقت گلابی رنگ کی دھند سے طلوع ہوتا ہے اور پھر تانبے جیسی رنگت چھوڑتا مغربی جانب غروب ہوتا ہے۔ پھر چاند طلوع ہوتا ہے اور اپنی سفید روشنی پھیلاتا ہے۔ چاند پہلے پہاڑیوں کے اوپر سے نکلتا ہے اور اس کی چاندنی پہاڑوں سے اترتی ہوئی آخرکار وادی میں داخل ہوتی ہے۔ رات بھر چاند کا سفر جاری رہتا ہے اور جنگل میں ہونے والے کئی حادثات بھی دیکھتا ہے۔ دم توڑتے سانبھر کی آواز ہو یا چیتل کی چیخ، چاندنی میں ان کی چیخ بیکار جاتی ہے اور ان کی جان بھوکے شیر کے ہاتھوں چلی جاتی ہے۔
بیس سال سے زیادہ عرصہ ہوا، میری ملاقات افغانستان کے بادشاہ امان اللہ کے بھائی سے ہوئی جو جلاوطنی کا عرصہ کوڈی کاری کے بنگلے میں گزار رہے تھے کہ انہیں یہ جگہ بہت پسند تھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ یہاں کے مناظر انہیں افغانستان کی یاد دلاتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ کوڈی کاری کے آس پاس گھنا جنگل ہے جبکہ افغانستان کے پہاڑ بالکل خالی ہیں۔ تاہم دونوں آزادی کا احساس دلاتے ہیں۔ کمپی کاری چھوٹی سی وادی ہے جو مغربی ڈھلوان پر آباد ہے۔ اس کے آس پاس کچھ کھیت ہیں اور کھیتوں کے پار بانسوں کا گھنا جنگل ہے جس میں سے ندی گزرتی ہے۔ میں اس وادی کو سپائیڈر ویلی یعنی مکڑیوں کی وادی کہتا ہوں کیونکہ یہاں بہت بڑی مکڑیاں اپنے جالے بنا کر رہتی ہیں جو عموماً ندی کے کنارے راستے کے درمیان بنے ہوتے ہیں۔ یہ ندی جنوب کو جاتے ہوئے وسیع ہوتی جاتی ہے اور اسے موراپور وادی کہا جاتا ہے جہاں یہ ندی دریائے چنار سے جا ملتی ہے، اس مقام کو سوپاٹھی کہا جاتا ہے جو دریائے کاویری سے دس میل دور ہے۔
میں نے اس علاقے کا بیان اس لیے تفصیل سے کیا ہے تاکہ قارئین کو تھوڑا بہت اندازہ ہوسکے کہ یہ کہانی کے واقعات کہاں پیش آئے تھے اور یہ بھی کہ یہ علاقہ کتنا خوبصورت ہے۔ یہاں سڑتی ہوئی نباتات، جنگل میں چھایا اندھیرا، دور سے شکار کی تلاش میں نکلے آدم خور شیر کی دھاڑ اور غراہٹ اور کے بعد چھا جانے والی ڈراؤنی خاموشی، جھاڑ جھنکار میں ہونے والی مدھم سرسراہٹ جو آدم خور کی ہوگی جو تہذیب یافتہ انسا ن کے خلاف اپنے داؤ آزما رہا ہوگا۔ خیر کہانی شروع کرتے ہیں۔
کمپی کاری آدم خور کے ظہور کے بعد شدید دہشت کا شکار تھا اور تین مقامی باشندے اس کا لقمہ بن چکے تھے۔ پہلا شکار ایک پجاری تھا جو گیارہ میل دور متھر سے کمپی کاری کو ایک ماہ قبل آیا تھا۔ مگر وہ دوبارہ دکھائی نہ دیا۔ ان علاقوں میں ہاتھی بکثرت تھے اور بسا اوقات انسان کو مار ڈالتے تھے۔ سو جب پجاری کمپی کاری نہ پہنچا تو اس کی تلاش کے لیے بندے متھر روانہ ہوئے۔ شاید یہ لوگ پجاری کی بجائے اس کی قیمہ ہوئی لاش تلاش کرنے کا سوچ کر نکلے تھے جس کےآس پاس ہاتھی کے پیروں کے نشانات ہوں گے۔ مگر انہیں دونوں نہیں ملے۔ کمپی کاری سے پانچ میل دور انہیں نر شیر کے پگ دکھائی دیے جس کے ساتھ تھوڑا سا خون موجود تھا اور متوفی کی لاٹھی اور دھوتی بھی وہیں مل گئی۔
دس روز بعد ایک عورت مغرب کے قریب کنویں سے پانی بھرنے گئی مگر واپس نہ لوٹی۔ آٹھ بجے اس کے شوہر نے اپنے چند دوستوں کے ہمراہ لاٹھیوں سے مسلح ہو کر تلاش شروع کی تو آدھا بھرا ہوا پیتل کا گھڑا راستے پر پڑا مل گیا۔ تاہم عورت کا کوئی نشان نہ ملا۔
اگلی صبح لوگوں کی جماعت تلاش پر نکلی اور راستے میں انہیں عورت کی ساڑھی اور پھر آگے چل کر چاندی کی پازیب بھی مل گئی۔ آخرکار عورت کی باقیات بھی مل گئیں۔ اس کا سر جھاڑی کے نیچے پڑا تھا جبکہ پیر اور ہاتھ اِدھر اُدھر پڑے تھے اور جسم کا باقی حصہ اور کتری ہوئی ہڈیاں بتا رہی تھیں کہ شیر بہت بھوکا تھا اور اس نے خوب پیٹ بھر کر کھایا تھا۔
ایک مہینہ گزر گیا۔ کمپی کاری کے لوگ جیسے محاصرے میں آ گئے ہوں۔ نہ تو کوئی یہاں آیا اور نہ ہی یہاں سے باہر گیا۔ انسانی فضلے سے گھروں کے باہر اور اندر بدبو ناقابلِ برداشت ہو گئی۔ کیا باہر قاتل اپنے شکار کی تلاش میں نہیں پھر رہا؟ کیا پہلا آدمی جو حوائجِ ضروریہ پوری کرنے کے لیے باہر نکلتا، اسے شیر نہ لے جاتا؟ رات کے وقت صورتحال بہت مشکل ہو جاتی کہ انسان اور ان کے مویشی اور بسا اوقات ان کے کتے بھی گھروں کے اندر پھنس پھنسا کر بیٹھ جاتے اور دروازے کے سامنے شہتیر یا نہر سے لا کر وزنی پتھر رکھ دیے جاتے۔ ہر گزرتے روز کے ساتھ ہی گھروں میں غلاظت بڑھتی جا رہی تھی اور لوگ ان حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
تاہم بہترین احتیاط بھی کبھی کام نہ آتی۔ میرے دوست بیرا پجاری کا داماد مارا ایسی صورتحال سے دلبرداشتہ ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ آدم خور ہو یا نہ ہو، وہ گھر کے اندر گندگی پھیلانے کو تیار نہیں۔ رات کے اندھیرے میں وہ باہر جاتا اور فارغ ہو کر آ جاتا۔ ایک رات وہ حسبِ معمول باہر نکلا مگر واپس نہ لوٹا۔ گھر کے اندر اس کی پریشان بیوی کہتی ہے کہ اس نے ہلکی سی دھپ کی آواز سنی تھی اور ساتھ ہی جیسے کسی کا گلہ گھونٹا جا رہا ہو، مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
پندرہ منٹ بعد اس نے شور مچا دیا۔ کوئی بھی مدد کو نہ آیا کہ سبھی خوفزدہ تھے۔ بند دروازوں کے پیچھے لوگ اس کی چیخم دھاڑ سنتے رہے۔ انہیں علم تھا کہ مارا اب انسانی مدد کی ضرورت سے دور چلا گیا ہے۔ وہ تو مر چکا ہے مگر وہ سب زندہ تھے۔ پھر باہر جا کر کیوں خود کو ہلاکت میں ڈالا جائے؟سو اس رات سبھی لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیدار اور اس بیچاری کی چیخیں سنتے رہے۔
اگلی صبح نیم دلی کے ساتھ مارا کی باقیات تلاش کرنے کی کوشش ہوئی اور اگر شیر نے گاؤں سے دو سو گز کے فاصلے پر پیٹ نہ بھرا ہوتا تو مارا کی باقیات کبھی نہ مل پاتیں۔ کنویں والی عورت کی نسبت مارا کی باقیات کچھ زیادہ تھین۔ شاید اس کا گوشت سخت ہو یا پھر شیر اتنا بھوکا نہ ہو؟کون جانتا ہے۔ اس کا سر اور دھڑ ابھی یکجا تھے۔
میرا دوست بیرا اس وقت کمپی کاری میں تھا، جب اس کے داماد کی ہلاکت ہوئی تو اس نے اٹھارہ میل کا مشکل سفر کر کے پناگرام کا رخ کیا۔ اس سفر میں کوئی اس کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھا، سو وہ اکیلا ہی آیا۔ اس نے نہ تو آدم خور کی کوئی آواز سنی اور نہ ہی اسے دیکھا۔ پناگرام میں وہ اپنے پرانے رفیق رنگا سے ملا اور یہ دونوں بس پر بیٹھ کر بنگلور آئے۔ نو بجے رات کو مجھے صدر دروازے کے باہر آوازیں سنائی دیں تو باہر جا کر دیکھا۔ اپنے پرانے دوستوں کو دیکھ کر مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ بہت خوشی ہوئی۔
ضلع سالم نے اُن دنوں جسمانی، روحانی اور اخلاقی بہتری کے لیے شراب پر پابندی لگا دی تھی۔ چونکہ میرے دوست جسمانی، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے ترقی نہیں چاہتے تھے، سو میں نے انہیں بہترین برانڈی پیش کی۔ تازہ دم ہو کر بیرا نے بتایا آدم خور کے بارے مختصراً بتایا۔ پھر اس نے صاف الفاظ میں مطالبہ کیا کہ اس کے داماد کا بدلہ مجھے لینا ہے۔
اس بچگانہ اعتماد کے سامنے میرا کوئی بہانہ نہیں چل سکتا تھا۔ تین روز بعد میں اپنی سٹڈ بیکر چھوڑ کر باقی کے پیدل سفر پر روانہ ہوا۔ راستے میں مقامی دکانوں سے ہم نے ضرورت کا سامان خریدا اور چند گھنٹے بعد ہم اٹھارہ میل کا سفر پورا کر کے کمپی کاری پہنچ گئے کہ اس وادی میں کار کا جانا ممکن نہیں تھا۔
منزل سے دو میل قبل ہمیں شیر کے تازہ پگ دکھائی دیے جو پگڈنڈی پر تھے۔ اس راستے پر کئی روز سے کوئی انسان نہیں گزرا تھا اور نشانات واضح تھے۔ میں نے پگوں کا بغور جائزہ لیا تو اتنا پتہ چلا کہ اوسط جسامت کے نر شیر کے پگ ہیں۔ یہ علم نہیں ہو سکا کہ آیا شیر جوان ہے یا بوڑھا یا ادھیڑ عمر اور نہ ہی ہمیں یہ علم تھا کہ آیا یہی آدم خور شیر ہے یا پھر ادھر سے گزرنے والا کوئی عام شیر۔
کمپی کاری کے لوگوں سے ہمیں زیادہ معلومات نہیں ملیں۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ شیر بہت بڑی جسامت کا ہے مگر ظاہر ہے کہ عام لوگ جب دہشت کے عالم میں رہ رہے ہوں تو آدم خور کی جسامت اصل سے کئی گنا زیادہ بڑی دکھائی دیتی ہے۔
مسئلہ یہ تھا: اب کیا کریں یا کیسے آگے بڑھیں؟ جواب یہ تھا: اگلی واردات کا انتظار کریں یا پھر زندہ گارا پیش کیا جائے۔ چونکہ اس شیر نے ابھی تک اس دیہات کا کوئی بھی مویشی ہلاک نہیں کیا تھا۔ اس کا شکار ہمیشہ انسان ہی بنے تھے۔ اب سوال یہ تھا: کوئی جانور باندھا جائے یا پھر کوئی انسان گارا بنے؟ اس کا واحد جواب یہ تھا کہ اگر گارا انسان نے بننا ہے تو یہ صرف میں ہی ہوں گا اور ظاہر ہے کہ مجھے یہ جواب انتہائی ناپسند تھا۔
بیرا، رنگا اور میں سر جوڑے چائے کی پیالیاں پیتے اور گفتگو کرتے رہے اور آخرکار ایک منصوبہ تشکیل پانے لگا۔ میں نے سوچا کہ پہلے حیوانی گارا پیش کیا جائے مگر ان دونوں کا خیال تھا کہ انسانی گارا بہتر رہے گا اور میں خود گارا بنوں تو مسئلہ جلد ہی حل ہو جائے گا۔ میری دلی خواہش تھی کہ ان کا منصوبہ اس سے مختلف ہوتا۔
تین افراد کی گفتگو میں دو کی رائے اکثریت ہوتی ہے۔ تیسرے انسان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔ تاہم میں نے یہ بات منوا لی کہ انسانی گارے کے ساتھ ساتھ ہمیں حیوانی گارا بھی باندھنا چاہیے تاکہ شیر کو زیادہ سے زیادہ لبھایا جا سکے۔
کمپی کاری میں بھینسے نہیں تھے، سو میں نے دو بیل خریدے جن میں سے ایک کو اس جگہ باندھا جہاں آتے ہوئے شیر کے پگ دکھائی دیے تھے اور دوسرے کو وادی کے نچلے سرے پر بل کھاتی ہوئی ندی کے خشک پیندے میں باندھا۔ میں کنویں کی منڈیر سے ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھا۔ میں نے کنویں کی رسی سے ایک دھاتی برتن باندھ دیا تھا جو میرے پاس ہی رکھا تھا۔ بوتل کی نسبت تازہ پانی ہمیشہ بہتر رہتا ہے۔
کنویں سے پچاس گز کی دوری پر تین سمت جنگل تھا۔ اس جگہ کسی نے پپیتے کے دس بارہ درخت لگا دیے تھے۔ کنویں سے بہنے والے پانی سے ان درختوں کے نیچے گھاس اور کچھ جھاڑیاں اگ آئی تھیں۔ دن کی روشنی میں تو یہ بہت معمولی دکھائی دیتی تھیں مگر دھندلکے اور اندھیرے میں مجھے اندازہ ہونے لگا کہ شیر کی آمد کا یہ بہترین راستہ ہو سکتا ہے۔ یہاں شیر جست لگانے کے لیے مناسب فاصلے تک پہنچ جاتا اور مجھے اس کا علم بھی نہ ہو پاتا۔
یہ سوچ آتے ہی میں نے اپنا مقام بدل کر کنویں کے دوسرے ستون سے ٹیک لگا لی اور اب پپیتے کے درخت میرے سامنے تھے۔
میں نے اس جگہ بیٹھنے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ چاند کی تیرہویں تاریخ تھی۔ غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی چاند نکل آتا مگر میں یہ بھول گیا تھا کہ مشرق میں پہاڑیوں سے چاند کو بلند ہونے میں کچھ وقت لگتا اور پھر اس کی چاندنی اس جگہ پڑنے لگتی۔ چاندنی یہاں اندازاً آٹھ بجے پہنچتی اور یہاں اپنی زندگی کے بدترین ڈیڑھ گھنٹے انتظار کی تکلیف سہنی پڑی۔ میں بتا نہیں سکتا کہ چاندنی کی اولین کرنیں جب یہاں پہنچیں تو میں کتنا خوش ہوا۔
اس سے مجھے گملا پور میں گزاری ہوئی راتیں یاد آ گئیں جہاں میں جھونپڑے میں چھپ کر تیندوے کا انتظار کرتا رہا تھا اور دن کو ٹیک کے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھتا تھا اور سوچتا تھا کہ کیا میں یہ حماقت پھر سے کبھی دہراؤں گا؟ عقلِ سلیم بتاتی تھی کہ یہی واحد حل تھا۔
رات پر گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی اور عام شبینہ پرندے بھی میرے قریب نہیں آئے۔ گرم دن گزارنے کے بعد چند چمگادڑیں اڑتے ہوئے پانی پینے آئیں۔ میں پپیتے والی سمت کے علاوہ بھی ہر سمت نگرانی کرتا رہا۔ چشمِ تصور سے مجھے ہر جانب سے آدم خور شیر آتے محسوس ہوتے رہے جو میری حدِ نگاہ سے ذرا پیچھے رہے ہوں گے۔ میں کنویں کی منڈیر پر چپکا بیٹھا رہا اور اعشاریہ 405 بور کی رائفل میرے ہاتھوں میں اور انگوٹھا ٹارچ کے بٹن پر تھا۔
ایسے وقت انسانی دماغ میں آنے والے خیالات عجیب اور ناقابلِ توجیہ ہوتے ہیں مگر میں انہیں سنا کر آپ کو کیوں پریشان کروں۔ پہلے پہل شیر کے بارے خیالات یہ تھے کہ یہ قسمت کا بدلا ہوگا۔ پھر کچھ دیر بعد شیر کا خیال زہن سے نکل گیا۔
آٹھ بجے کے بعد مشرقی پہاڑ کے اوپر آسمان روشن ہونے لگا اور ہلکی روشنی تیز ہونے لگی اور ستارے مدھم پڑنے لگے۔ پھر چاند نمودار ہوا اور میرے آس پاس کی جگہیں روشن ہو گئیں اور میری پریشانی ختم ہوئی۔جب چاند آسمان پر بلند تر ہوا تو روشنی بڑھنے لگی اور مجھے پپیتے کے تنوں کے درمیان کا منظر بھی دکھائی دینے لگا۔ رات کے پہلے نصف حصے میں کوئی آواز بھی سنائی نہ دی۔
گیارہ بجے کے بعد نر سانبھر نے ندی کی جانب سے آواز دی۔ میرا ایک گارا وہیں بندھا ہوا تھا۔ اس آواز میں خطرے اور تنبیہ کا عنصر واضح تھا۔ یہ آواز بار بار آئی اور پھر دور ہوتے ہوتے غائب ہو گئی۔شاید سانبھر مخالف سمت کی پہاڑیوں پر چڑھ کر خطرے سے دور نکل گیا ہوگا۔
ایک بار پھر خاموشی چھا گئی اور رات آہستہ آہستہ گزرتی رہی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اگر میں کنویں سے پانی نکالنے کی کوششش کروں تو چرخی کی آواز ایک میل دور موجود شیر بہ آسانی سن لے گا۔ دن کے وقت میں نے دیکھ لیا تھا کہ کنویں کی چرخی بہت زیادہ شور کرتی تھی۔ اگر شیر یہ آواز سنتا تو یہی سوچتا کہ اس کا مطلوبہ شکار پانی بھر رہا ہوگا۔
سو میں نے کنویں کی دوسری جانب جا کر ڈول اٹھایا۔ پھر میں نے اپنی رائفل کنویں کے ساتھ کھڑی کی اور پھر ڈول نیچے پھینکا اور پھر اسے آہستگی سے کھینچنا شروع کر دیا۔ پھر میں نے یہی عمل بار بار دہرایا۔ رات کی خاموشی میں چرخی کا شور دور دور تک سنائی دے رہا تھا اور میں نے لگ بھگ ایک گھنٹہ یہ مشق جاری رکھی۔ ہر چند منٹ بعد رک کر میں آس پاس کا بغور جائزہ لیتا۔ میری خصوصی توجہ درختوں کے نیچے بننے والے سایوں پر ہوتی تھی۔ تاہم کوئی حرکت نہ دکھائی دی نہ ہی جھاڑیوں سے کسی چوہے کی حرکت کی آواز آئی۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ جھونپڑوں کے اندر موجود لوگوں کے علاوہ اس علاقے میں واحد ذی روح ہوں۔
تین بجے کے بعد چاند مغربی پہاڑیوں کے پیچھے جانے لگا اور شام والی صورتحال پھر سامنے آئی۔ بتدریج تاریکی چھاتی رہی اور جلد ہی چند گز دور کی چیزیں اوجھل ہو گئیں۔ چاند غائب ہونے کے بعد ستاروں کی روشنی پھر سے تیز ہونے لگی۔
تاریکی کے محض نوے منٹ تھے مگر مجھے بہت زیادہ نیند آنا شروع ہو گئی۔ مگر اب مجھے پہلے سے زیادہ محتاط ہونا تھا کہ میں ایک گھنٹے سے آدم خور کو بلا رہا تھا۔ عین ممکن تھا کہ ساری رات وہ کہیں اور رہا ہو اور اب یہاں پہنچا ہو؟ ویسے بھی اچانک حملے کے لیے تمام تر حالات اس کی حمایت میں تھے کیونکہ پپیتے کے درخت پھر تاریکی میں ڈوب چکے تھے۔
اگر آدم خور حملے کا فیصلہ کرتا تو میں پوری طرح اس کے رحم و کرم پر ہوتا۔ تاہم اگر وہ دھاڑ کر حملہ بھی کرتا تو بھی میں انتہائی قریب سے اپنی رائفل چلا سکتا تھا۔ اگر وہ خاموشی سے حملہ کرتا تو مجھے اتنی مہلت بھی نہ ملتی۔
عین اسی وقت کنویں کے آس پاس موجود تمام چوہوں اور خرگوشوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ ان کی بھاگ دوڑ، خشک پتوں پر ان کی حرکات جو کبھی تو بلند ہوتیں اور کبھی محض ہلکی سی، جس سے شبہ ہوتا کہ آدم خور حملے کے لیے نہ تیار ہو رہا ہو۔
بحیثیتِ مجموعی بہت مشکل وقت گزرا۔ صبحِ کاذب آئی اور چلی گئی اور پھر پونے چھ بجے مشرقی جانب آسمان کا رنگ ہلکا پڑنا شروع ہو گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ سورج طلوع ہونے والا ہے اور رت جگا اپنے اختتام کو پہنچا۔ تاہم سات بجے کے بعد جا کر سورج پہاڑوں کے اوپر نکلا۔ پھر میں اپنی نشست سے اٹھا اور گاؤں کے جنوبی سرے پر لگے اپنے خیمے کو چل دیا۔
گرما گرم چائے پی کر میں سو گیا۔ ساڑھے دس اٹھ کر میں نے رنگا اور بیرا کے ساتھ نہر میں بندھے پہلے گارے کا چکر لگایا۔ گارا زندہ سلامت تھا۔ پاس جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ شیر اس کے پندرہ فٹ قریب تک آیا اور پھر اس کو دیکھ کر چلا گیا۔
رات کو سانبھر شیر کو ہی دیکھ کر خطرے کا اعلان کر رہا تھا۔ شیر کے پگ نرم اور خشک ریت پر واضح تھے مگر یہ کہنا مشکل تھا کہ آیا یہ وہی شیر ہے جس کے پگ ہم نے آتے ہوئے مغربی سمت دیکھے تھے۔ اُس جگہ زمین نرم نہیں تھی، سو شیر کے پگ اپنی اصل جسامت کے دکھائی دیے تھے۔ تاہم مجھے پورا یقین تھا کہ یہ شیر آدم خور ہے، کیونکہ عام شیر اس طرح گارے کو دیکھ کر واپس نہ مڑتا۔
پھر ہم دوسرے گارے کو روانہ ہوئے۔ وہاں جا کر دیکھا تو حیرت ہوئی کہ اسے شیر نے ہلاک کر دیا تھا۔ یہاں شیر کے پگ پچھلے روز والے پگوں جیسے تھے جو اس کے قریب دیکھے تھے۔
اب سوال یہ تھا: اس علاقے میں کیا دو شیر ہیں؟ یا پھر دوسرے شیر کو آدم خور نے ہی ہلاک کیا ہے؟ اگر ایک ہی شیر ہے جو کہ آدم خور ہے تو اس نے پہلے گارے کو کیوں چھوڑ دیا اور دوسرے کو کیوں مارا؟
میرا یہ خیال تھا کہ اس جگہ دو شیر ہیں اور پہلے گارے کو آدم خور نے دیکھ کر نظرانداز کر دیا تھا۔ رنگا کا بھی یہی خیال تھا۔ تاہم بیرا اس سے متفق نہیں ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ اس علاقے میں ایک ہی شیر ہے جو آدم خور ہے۔ پہلے بیل کو اس نے اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ وہ بیل سفید رنگ کا تھا۔ دوسرا بیل گہرا بھورا تھا، سو اسے کوئی شک نہیں ہوا۔
گارے کے رنگ کے بارے مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ میرے تجربے کے مطابق شیر کے لیے گارے کا رنگ کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور اگر دیگر شرائط پوری ہوں تو وہ ہر رنگ کے گارے کو مارنے پر تیار ہو جائے گا۔ ایک تو یہ کہ شیر کو بھوک لگی ہو، ورنہ شیر بے فائدہ شکار نہیں کرتا۔ دوسرا اسے کسی قسم کا شبہ نہ ہو۔ آج کل چونکہ شیروں کا شکار زوروں پر ہے، شیر بھی محتاط ہوتے جا رہے ہیں۔ فطرت تیزی سے ناپید ہوتی انواع کو بچنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اگر گارے کی گردن سے رسی بندھی ہو تو شیر شاید ہی اسے ہاتھ لگائے۔ اگرچہ وہ سوچ تو نہیں سکتا، مگر اس کی فطرت اسے بتاتی ہے کہ انسان کے لیے فطری بات نہیں کہ وہ اپنے مویشی جنگل میں رات کو باندھ جائیں۔ سینگوں سے بندھی رسی والے جانور کے شکار ہونےکے زیادہ امکانات ہیں کہ شیر سمجھے گا کہ اس جانور کے سینگ جھاڑیوں میں پھنس گئے ہوں گے۔ اسی طرح پچھلی ٹانگ سے بندھی رسی والا گارا بھی آسانی سے مارا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ شیر اور تیندوے، دونوں اپنے شکار کا گلا دبوچتے ہیں اور اس سلسلے میں کوئی بھی رکاوٹ انہیں شبہے میں ڈال دیتی ہے۔
عموماً اس بارے تیندوے شیر جتنے محتاط نہیں رہتے۔ ذاتی طور پر میں تیندوے کے لیے کتے کو بطور گارا استعمال کرنے کو ظلم سمجھتا ہوں کہ کتا بہت سمجھدار جانور ہوتا ہے اور اسے بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ کیوں باندھا گیا ہے۔ حملہ ہونے تک اسے شدید ذہنی عذاب سہنا پڑتا ہے۔ جوانی میں میں پوری کوشش کرتا تھا کہ گارے کے طور پر باندھے گئے کتے کی جان بچانے کی ہرممکن کوشش کروں۔ اس لیے میں نے چار انچ چوڑا چمڑے کا پٹہ بنوایا تھا جس میں چمڑے کی دو تہیں ہوتی تھیں اور بیرونی تہہ سے نکلے ہوئے دو دو انچ لمبے تیز کیل ہوتے تھے۔ جب تیندوا حملہ کرتا اور کیل اس کے منہ میں چبھتے تو تیندوا اچھل کر پیچھے ہٹتا تو مجھے بڑی ہنسی آتی۔ جتنی دیر وہ اس معمے کو حل کرتا، میں شکار کر لیتا۔ ایسے شعبدے شیر کے سامنے کام نہیں کرتے۔
بیمار جانور کا گارا بھی ناکام رہتا ہے۔ نیلگری پہاڑوں میں رہنے والے بڈاگا قبیلے کے لوگ گارے کے لیے صحت مند جانور نہیں بیچتے، چاہے ان کو کتنی قیمت دی جائے۔ ان کے خیال میں اچھے بیل کی قربانی گناہ ہوتی ہے۔ اس لیے وہ ایسا بیمار جانور بیچتے ہیں جس کی موت قریب ہو۔ مجھے یاد ہے کہ منہ کھر کی بیماری میں قریب المرگ ایک بیل میں نے گارے کے لیے باندھا۔ مسلسل تین راتوں تک شیر اس کے گرد چکر لگایا کرتا اور ایک بار تو وہاں بیٹھ بھی گیا تھا مگر پھر اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ چوتھی رات میرا بیٹا مچان پر بیٹھا اور آٹھ بجے بیل کا وقت پورا ہو گیا۔ بیل نیچے گرا اور ساری رات ایڑیاں رگڑنے کے بعد صبح مر گیا۔ اس رات شیر غائب رہا۔
گارے کی رنگت کے بارے شکاریوں کی رائے مختلف ہوتی ہے۔ کچھ لوگ سفید جانور باندھنے سے کتراتے ہیں کہ ان کے مارے جانے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ ماضی قریب کے تیندوؤں کا مشہور شکاری کالی بکری باندھنے کے خلاف تھا کہ اس طرح تیندوا ضرورت سے زیادہ محتاط ہو جاتا ہے۔ اس شکاری نے سو سے زیادہ تیندوے مارے تھے۔
میں اصل موضوع سے ہٹ کر اس لیے تفصیل بتا رہا تھا کہ بہت سارے لوگ تیندوے اور شیر کے شکار کا طریقہ جاننے کے مشتاق ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ہم دوسرے شکاریوں کی ‘خوش قسمتی‘ کے ڈھیروں قصے سنتے ہیں، مگر یاد رہے کہ یہ خوش قسمتی دراصل ماضی کے ان گنت تجربات کا نچوڑ ہوتی ہے جو کسی شکار کو کامیاب یا ناکام بناتی ہے۔
خیر، اصل کہانی کو لوٹتے ہیں۔ اب اس ادھ کھائے بیل پر مچان باندھنا رہ گیا تھا۔ تجربات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم نے دونوں گارے مناسب درختوں کے نیچے باندھے تھے۔ جتنی دیر میں جا کر نیند پوری کرتا، رنگا اور بیرا نے میری کینوس کی کرسی کو مچان کے طور پر باندھ دیا۔ دونوں ہی اس کام کے ماہر تھے۔ میرے خیال میں چارپائی کے بعد دوسری بہترین مچان تہہ ہونے والی کرسی ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ چارپائی کی مانند بڑی اور آرام دہ تو نہیں ہوتی مگر اس کو تہہ کرنا اور منتقل کرنا سہل ہوتے ہیں۔
پانچ بجے میں رت جگے کے لیے تیار ہو کر مچان پر پہنچ گیا۔
یہ مقام کمپی کاری سے بلند اور مغربی پہاڑیوں پر تھا، سو گاؤں میں گزشتہ روز کی نشست کی نسبت چاندنی یہاں جلدی پہنچ جاتی تھی۔ جب مغربی پہاڑیوں پر سورج غروب ہوا تو چاند مشرقی سرے سے نکل آیا تھا اور آس پاس صاف دکھائی دینے لگا۔
آٹھ بجے اچانک مجھے احساس ہوا کہ شیر میرے عین نیچے کھڑا ہے۔ وہ یہاں کس سمت سے اور کیسے آیا، مجھے علم نہیں۔ چونکہ یہ راستہ دونوں طرف مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا، سو شیر کی آمد کسی اور راستے سے ہوئی ہوگی۔ مجھے شیر کی موجودگی کی اطلاع تب ہوئی جب شیر نے درخت کے تنے سے اپنے جسم کو رگڑنا شروع کیا۔ اس دوران اس نے سر اٹھایا اور مجھے دیکھ لیا۔
پھر اس نے فوری ردعمل دکھایا۔ دھاڑ لگا کر اس نے درخت پر چڑھنا شروع کیا۔ خوش قسمتی سے ہم نے نسبتاً سیدھے تنے والا درخت چنا تھا اور پہلی شاخ پندرہ فٹ پر تھی جہاں میں کرسی پر بیٹھا تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہی آدم خور ہے، ورنہ عام شیر تو انسان کی موجودگی سے ہی فرار ہو جاتے ہیں۔
میں نے فوراً اپنی ٹانگیں اوپر کو اٹھائیں اور بائیں جانب جھک کر نیچے دیکھا۔ بدقسمتی سے میں غلط جانب مڑا تھا کیونکہ شیر دائیں سمت سے چڑھ رہا تھا۔ میں نے فوراً سمت بدلی مگر اب مجھے بائیں شانے سے گولی چلانی تھی۔
آپ کو یہ قطعہ پڑھے میں جتنا وقت لگا، اصل واقعات اس سے کم وقت میں رونما ہوئے۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میری نشست زمین سے پندرہ فٹ بلند تھی۔ ناک سے دم کے سرے تک شیر کی لمبائی نو فٹ اوسط شمار ہوتی ہے۔ اگر دم کو نکال کر آگے کو بڑھے ہوئے پنجے شمار کر لیں تو پچھلے پیروں پر کھڑے شیر کی اونچائی آٹھ فٹ بنتی ہے۔ اب آپ پندرہ فٹ سے آٹھ فٹ منفی کریں تو باقی سات فٹ بچتے ہیں جو اس رات شیر چڑھنے میں کامیاب رہا۔ مجھ پر حملہ کرنے کے لیے اس نے پنجے کو پھیلا کر کرسی پر حملہ کیا اور اس کے ناخن کرسی کو پھاڑتے ہوئے میری پتلون کو چیر گئے۔ اس دوران شیر کا توازن بگڑا اور وہ زمین پر گرا۔ شیر سے بچنے کے لیے میں کرسی سے اوپر اٹھا اور شکر ہے کہ میں رائفل سمیت شیر کے پیچھے نیچے نہیں گرا۔
آدم خور شیر ہو یا تیندوا، دونوں انسانوں پر پیچھے سے حملہ کرتے ہیں کہ عموماً وہ بزدل ہوتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے جب حملہ سامنے سے ہو یا جب شکار ان کی موجودگی سے خبردار ہو جائے تو بھی وہ حملہ کریں۔
اس رات بھی یہی ہوا۔ جب شیر زمین پر گرا تو اسے پتہ تھا کہ اس کی موجودگی راز نہیں رہی۔ زمین پر پہنچتے ہی اس نے زقند لگائی اور دھاڑ کے ساتھ جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ شیر فرار ہو گیا۔ ورنہ اپنے عین نیچے گولی چلاتے ہوئے عین ممکن تھا کہ رائفل میرے ہاتھ سے گر جاتی یا میں خود کرسی سے گر جاتا۔ شکر ہے کہ شیر نے فرار کو ترجیح دی۔
میری موجودگی بھی اب خفیہ نہ رہی تھی اور اب حرکت یا آواز کرنے میں کوئی مسئلہ نہ تھا۔ سو اپنا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ شیر کا پنجہ جہاں لگا تھا، کرسی پر پانچ انچ لمبی تین خراشیں تھیں۔ ان میں سے دو میری پتلون سے بھی پار ہوئی تھیں اور میرے کولہوں پر خراشیں پڑیں جو اب تکلیف دے رہی تھیں۔
عام طور پر لوگ اس بات پر ہنس پڑیں مگر یاد رہے کہ تمام گوشت خور درندوں کے پنجوں کے نیچے زہریلے جراثیم پل رہے ہوتے ہیں اور آدم خوروں پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ کرسی کی نشست اور میری پتلون، دونوں اتنی موٹی نہیں تھیں کہ جراثیم کو روک سکتیں۔ اب میرے زخم بگڑنے کا امکان تھا۔
میں اپنے ساتھ ابتدائی طبی امداد کا کافی سامان لایا تھا جس میں پانچ سی سی کی سرنج اور پروکین پینسلین بھی شامل تھی۔ تاہم یہ سب سامان کمپی کاری میں میرے خیمے میں یہاں سے دو میل دور رکھا تھا۔ اب دو راستے تھے۔ ایک تو یہ کہ ابھی واپس روانہ ہو جاتا اور جا کر دوائی استعمال کرتا یا پھر صبح تک انتظار کرتا جو کم از کم دس گھنٹے دور تھی اور تب تک جراثیم زخموں میں پھیل جاتے۔ تاہم اگر ابھی واپس جاتا تو آدم خور کے حملے کا اندیشہ تھا۔ تاہم دوسری جانب اگر زخم بگڑ جاتے تو میں آدم خور کا مقابلہ کرنے سے معذور ہو جاتا۔
میں نے آدم خور کے اندیشے کو ترجیح دی اور رائفل کو نیچے اتار کر میں بھی اترا اور خلوصِ دل سے دعا کرتا رہا تھا کہ میرے اترنے کے دوران آدم خور حملہ نہ کرے۔ زمین پر پہنچ کر میں نے درخت کے تنے سے ٹیک لگائی اور رائفل کو رسی سے الگ کیا۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ عین ممکن تھا کہ شیر دس میل دور ہوتا یا پھر نزدیکی جھاڑی کے پیچھے چھپا ہوتا۔ چاندنی خوب چھٹکی ہوئی تھی اور جنگل سے پھولوں کی خوشبو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ آ رہی تھی۔
چند لمحے رکنے کے بعد میں نے کمپی کاری کے دو میل سفر کا آغاز کیا۔ زمین کی نوعیت اور نباتات کے مطابق اس راستے کی چوڑائی بدلتی رہتی ہے اور بعض جگہ پندرہ فٹ تو بعض جگہ محض ایک گز چوڑا رہ جاتا ہے۔ بعض جگہوں پر اس کے اطراف میں اونچی گھاس اور خاردار بیلیں آ جاتی ہیں۔ راستے میں بانس کے جھنڈوں والی کئی ندیاں آتی ہیں اور ہوا میں جھولتے ہوئے ان کے تنے زمین پر عجیب عجیب سائے بناتے ہیں۔
ایسے مواقع پر دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور انسانی اعصاب ہر آواز کو آدم خور کے حملے سے جوڑ دیتے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ رفتار تیز رکھی جائے۔ دماغ کہتا ہے کہ ایک طرف دیکھو اور پھر فوراً خیال آتا ہے کہ کہیں آدم خور دوسری جانب سے حملہ نہ کر دے۔
تاہم ان تمام جذبات پر قابو رکھنا چاہیے ورنہ انسان ہیجان کا شکار ہو جائے گا اور ہیجان میں انسان خبردار نہیں رہ سکتا اور نتیجہ تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔
اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ انسان اپنے سامنے جھاڑیوں میں چھپے شیر کی موجودگی سے خبردار ہو کیونکہ چلتے ہوئے انسان پر عقب سے اگر حملہ ہو تو شیر کچھ نہ کچھ آواز پیدا کرے گا۔
اس لیے عقلمندی کا تقاضا ہے کہ پوری توجہ سامنے رکھی جائے مگر کسی جھاڑی کے پاس سے گزرتے ہوئے کنکھیوں سے دیکھ لینا چاہیے مگر ہر کو حرکت نہ دی جائے۔ اپنی رائفل کو مستقل فائر کے لیے تیار اور بغل میں رکھنا چاہیے کہ گولی کولہے یا پیٹ پر رائفل رکھ کر بھی چلانی پڑ سکتی ہے۔ رائفل کو شانے پر لانے اور نشانہ لینے کا وقت نہیں ملتا کیونکہ قاتل چاہے انسان ہو یا حیوان، کبھی اپنی موجودگی کا اعلان نہیں کرتا۔ اگر وہ ایسا کرنے لگیں تو قاتل کی بجائے مقتول بنتے وقت نہیں لگے گا۔
اگر آپ کا مطلوبہ جانور زخمی ہو تو شاید وہ غرا کر یا دھاڑ کر خبردار کرے اور پھر فلک شگاف دھاڑ کے ساتھ حملہ کرے گا۔ تاہم اگر شیر زخمی نہ ہو اور آدم خور بھی ہو تو پلک جھپکتے سر پر ہوگا۔
کمپی کاری سے چوتھائی میل پہلے راستے کے دونوں جانب چٹانی چھجے سے بنے ہوئے ہیں۔ پورے راستے میں یہی سب سے خطرناک مقام ہے کہ یہاں آدم خور کسی بھی پتھر کے پیچھے چھپ سکتا ہے۔ تاہم چونکہ اس نے فرار ہوتے ہوئے مخالف سمت کا رخ کیا تھا، سو میں نے سوچا کہ اسے اتنا وقت نہیں ملا ہوگا کہ وہ مڑ کر یہاں پہنچ سکتا۔ اس تسلی کی وجہ سے میں بعافیت یہاں سے گزر کر کمپی کاری اور پھر اپنے خیمے کو پہنچا۔
میری عدم موجودگی میں ہمیشہ کی طرح رنگا اور بیرا جاگ رہے تھے کہ مجھے کسی وقت بھی ان کی مدد کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ انہیں آگ جلا کر پانی گرم کرنے کا کہہ کر میں نے قہوہ پیا جو تیار تھا اور پھر اپنی سرنج نکال کر میں نے گرم پانی میں جراثیم سے پاک کی۔ پھر پروکین پینسلین کے 8 لاکھ یونٹ والے دو وائل مکس کیے اور خود کو ٹیکہ لگایا۔
پھر میں نے رنگا اور بیرا سے کہا کہ وہ پوٹشیم پرمیگانیٹ کے طاقتور محلول سے میرے زخموں کو دھوئیں اور پھر مرہم لگایا۔ زخم ایسی جگہ تھا کہ پٹی یا پلستر نہیں لگ سکتا تھا، سو میں سونے چلا گیا۔
کئی رت جگوں اور بے آرامی کے بعد میں آرام سے جو سویا تو صبح نو بجے کے قریب آنکھ کھلی۔ جنگل میں کوئی اتنا تاخیر سے نہیں اٹھتا کہ ہر کوئی سورج طلوع ہونے سے قبل ہی بیدار ہو کر کام پر لگ جاتا ہے۔ میں نے زخموں میں زیادہ تکلیف نہیں محسوس کی۔
مزید چار لاکھ یونٹ کا ٹیکہ لگا کر زخموں پر مرہم لگایا اور پھر دلیے، بیکن اور انڈوں کا بھرپور ناشتہ کیا اور پھر پکا ہوا پپیتہ کھایا جو کنویں کے پاس والے درختوں سے آیا تھا۔
پھر میں نہر والے گارے کی سمت چل پڑا جو آج بھی سلامت تھا۔ پھر دو میل دور میں گزشتہ رات والے مقام پر گیا جہاں دیکھا کہ شیر نے بیل کی لاش کو چھوا تک نہیں تھا۔ اس کے پگوں سے پتہ چلا کہ یہ وہی پہلے روز والا شیر تھا۔
نیلگری اور چتوڑ کے برعکس سالم کے جنگلات زیادہ تر خاردار ہیں اور امبل اور مڑے کانٹے بکثرت ہیں۔ وادیوں اور ندیوں کے کنارے البتہ بانس اگے ہوتے ہیں جو گنجان ہوتے ہیں۔ تاہم ان کا بھی نقصان ہی ہے کہ یہاں گھومنا پھرنا یا چھپ کر پیش قدمی انتہائی دشوار ہو جاتی ہے۔
درندے انتہائی خاموشی سے حرکت کرتے ہیں کیونکہ ان کی بقا کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ دیکھ بھال کر قدم رکھیں تاکہ آواز نہ ہو۔ پھر ان کا پچھلا پنجہ عین اگلے پنجے والی خالی جگہ پر پڑتا ہے۔ انسان کو بھی انتہائی احتیاط سے چلنا ہوتا ہے۔ اسے ہر قدم کے لیے جگہ کو دیکھنا ہوتا ہے کیونکہ خشک پتے اور چھوٹی سی ٹہنی پر بھی پاؤں پڑا تو آواز پیدا ہوگی۔ پھر کانٹے دار جھاڑیوں سے بچنا لازمی ہے ورنہ کپڑوں یا جلد میں گھسنے والا ایک کانٹا بھی پیش قدمی کو روک سکتا ہے۔ اس طرح آپ کی توجہ بٹ جائے گی اور آدم خور شیر کانٹوں سے نہیں الجھتا، سو نقصان آپ کا ہی ہوگا۔
اس جگہ جنگل انتہائی خاردار تھا، سو ہم کمپی کاری لوٹے اور گاؤں کے بزرگوں کے ساتھ سوچ بچار شروع کی۔ اب تک یہ حقائق سامنے آئے تھے:
آدم خور شیر نر اور اوسط جسامت کا تھا
مٹرگشت کے لیے اس کا پسندیدہ علاقہ مغربی پہاڑی سلسلے والا راستہ تھا
اسے بیل کے گوشت سے خاص دلچسپی نہیں تھی
یہ بات بھی یقینی نہیں تھی کہ یہاں صرف ایک شیر ہے یا دو شیر۔
ان لوگوں سے بات کر کے ہم اسی نتیجے پر پہنچے جو ہمارا پہلے روز تھا۔ یعنی یا تو اگلے انسانی شکار کا انتظار کریں یا پھر اسے زندہ انسان کا گارا پیش کریں جو اس جگہ ہو جہاں کمپی کاری آنے والا راستہ مغربی پہاڑوں سے نیچے اترتا ہے۔ اس کے علاوہ جنگل میں دو اور بیل بھی باندھ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا کہ اس سے پتہ چلتا کہ یہاں کوئی دوسرا شیر تو موجود نہیں۔
شیر کے پنجوں سے لگی خراشیں ایسی جگہ تھیں کہ پندرہ منٹ سے زیادہ ایک حالت میں بیٹھنا ممکن نہ تھا۔ اس طرح شیر کے لیے چھپ کر ‘بیٹھنا‘ ممکن نہ رہا۔ تاہم اگر میں ہی گارا بنتا تو ظاہر ہے کہ میرے بے حس و حرکت بیٹھنے کی کوئی ضرورت نہ رہتی الٹا حرکت کرتے رہنے سے شیر زیادہ متوجہ ہوتا۔ مگر اس طرح زخموں کے بھرنے کا عمل متاثر ہوتا بلکہ تکلیف دہ بھی۔
دوسرا متبادل کھڑے ہونے یا لیٹنے کا تھا۔ ساری رات کھڑا رہنا تو ممکن نہیں سو واحد طریقہ لیٹ جانا تھا۔
سارا دن ہم سوچتے رہے اور پھر اپنے خیال میں بہترین حل پر پہنچے۔ اب یہ بہترین کتنا بہترین تھا، آگے چل کر آپ بھی دیکھیں گے۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ کمپی کاری کو آنے والا راستہ کئی نالوں سے گزرتا ہے اور جگہ جگہ بانس کے گھنے جھنڈ اور جھاڑ جھنکار بھی پائے جاتے ہیں۔ انہی نالوں کی تہہ میں میرے منصوبے کے لیے مناسب جگہ موجود تھی۔
سو کمپی کاری کے قریب ترین گزرنے والے نالے کے ساتھ ہی ایک درخت پر میں پچھلی رات بیٹھا تھا اور یہ نالہ سب سے زیادہ چوڑا تھا اور اس میں ہر حجم کے گول مٹول پتھر پڑے تھے۔ میرا منصوبہ یہ تھا کہ گاؤں کی دو بیل گاڑیوں میں سے ایک کا پہیہ نکالوں اور نالے کی تہہ میں گڑھا کھود کر اندر چھپ جاؤں اور یہ پہیہ میرے اوپر رکھ کر بڑے پتھروں کی مدد سے جما دیا جائے۔ چھوٹے پتھروں اور خشک پتوں وغیرہ کی مدد سے یہ پورا پہیہ چھپا دیا جاتا۔ اس کے علاوہ میں انسانی پتلا بنا کر راستے کے سامنے کہیں رکھ دیتا۔ جس سمت یہ پتلا ہوتا، اس سمت پہیہ تھوڑا سا بلند ہوتا تاکہ پتلا دکھائی دیتا رہے اور اس پر گولی چلا سکوں۔
یہ میرا منصوبہ تھا۔ جو افراد ہندوستان سے واقف نہیں، ان کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ یہاں بیل گاڑی کے پہیے بڑے اور پانچ فٹ قطر کے ہوتے ہیں۔ پوری گولائی میں چند انچوں کے فاصلے پر تین تین انچ موٹی بارہ لکڑیاں لگی ہوتی ہیں اور چھ انچ چوڑی اور تین انچ موٹی بیرونی گولائی پر فولادی پتری چڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کے وسط میں ڈیڑھ انچ موٹی لوہے کی سلاخ کے لیے سوراخ ہوتا ہے جو ایکسل کا کام کرتی ہے۔ پہیے کی بیرونی جانب ایکسل کو روکنے کے لیے لوہے کی موٹی سلاخ اس کے پار لگائی جاتی ہے۔ اندرونی جانب پہیے کو پھسلنے سے روکنےکے لیے سلاخ سوراخ کے باہر اچانک موٹی ہو جاتی ہے۔ زیادہ آرام دہ گاڑیوں میں ایکسل کے لیے سوراخ کی اندرونی جانب لوہے کی پتری لگی ہوتی ہے۔ ہر دو ہفتے بعد اس کو چکنا رکھنے کی خاطر پرانا موٹر آئل لگا دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بیرونی سلاخ نکال کر پہیہ الگ کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے تیل کا ڈبہ ہمیشہ بیل گاڑی کے نچلے حصے سے لٹکا رہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پاس پڑی ہوئی کوئی بھی لکڑی یا ٹہنی استعمال کی جا سکتی ہے۔
چونکہ اس روز دیر ہو چکی تھی، سو ہم نے پہیے کا خیال بھلا کر گاؤں والوں سے پرانے کپڑے جمع کرنا شروع کر دیے۔ ان علاقوں میں پتلون نہیں ملتی، سو میں نے اپنی ایک پتلون قربان کی جس میں بانس اور بھوسہ بھر کر ہم نے دو ‘ٹانگیں‘ بنائیں۔ چونکہ شیر کو پتلون اجنبی لگتی، ہم نے اس کے اوپر دھوتی لپیٹ دی۔ دھڑ کے لیے ہم نے پرانی بوری میں بھوسہ بھرا اور اوپر دو پھٹی پرانی قمیضیں اور ایک لیرا لیرا کوٹ اوپر ڈال دیا۔ سر کو بنانے کے لیے کافی مہارت درکار تھی سو ہم نے بڑے حجم کا ناریل اٹھایا جس کے الجھے ہوئے ریشوں نے بالوں کا کام کیا۔
تہواروں اور دیگر مواقع پر ہندوستانی خواتین پراندے لگاتی ہیں جو مصنوعی بال ہوتے ہیں اور ان سے جوڑا یا کونڈے بناتی ہیں۔ پھر اس میں یاسمین یا چمبیلی کے پھول لگاتی ہیں۔ خوش قسمتی سے ایک پرانا پراندہ ہمیں مل گیا۔ اس کو کنگھا کر کے ہم نے پتلے کے سر پر جما دیا۔ پھر ایک پھٹی پرانی پگڑی ہم نے ناریل پر باندھی اور پیروں کی جگہ سلپیر رکھ باندھ دیے۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، شیروں میں سونگھنے کی حس بالکل نہیں ہوتی، اس لیے یہ پتلا شیر کے لیے کافی حقیقی دکھائی دیتا۔ تاہم اگر وہ کچھ دیر گھورتا رہتا تو شاید پتلے کے ساکت ہونے پر اسے شبہ ہو جاتا۔
رات کو میں نے زخموں پر تازہ مرہم لگا کر اگلی صبح پھر پینسلین کا ٹیکہ لگایا۔ شکر ہے کہ زخم بھرنے لگ گئے تھے۔
صبح آٹھ بجے پانچ چھ دیہاتیوں کے ساتھ مل کر ہم نے بیل گاڑی کا پہیہ مطلوبہ جگہ منتقل کر دیا۔ یہاں ہم نے چار فٹ چوڑا اور چار فٹ گہرا گڑھا کھودا۔ کام آسان تھا کہ ندی کی ریت بہت نرم تھی۔ پھر کچھ گھاس کاٹ کر تہہ میں بچھا دی گئی تاکہ نمی جذب ہو سکے کیونکہ ندی کی تہہ جتنا کھودتے جائیں، نمی بڑھتی جاتی ہے۔
اندر بیٹھا تو پتہ چلا کہ میں نیم دراز حالت میں ہی رہ سکتا ہوں جو کافی بے آرام ہوتی ہے۔ تاہم بیٹھے رہنے سے کافی بہتر تھی۔
پتلے کو ہم نے املی کے درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بٹھا دیا جو پندرہ فٹ دور نالے کے مغربی کنارے پر تھا۔ سو شیر چاہے جس سمت سے بھی آتا، فوراً پتلے کو دیکھ لیتا۔ آخر میں جتنی دیر میرے ساتھ بڑے پتھر جمع کرتے، میں رائفل لیے نگران رہا اور پھر پہیے کو چھپانے کے لیے جھاڑ جھنکار بھی جمع کیا گیا۔
آخرکار جب میں اس گڑھے میں گھاس تو پہیہ میرے سر سے محض دو انچ اوپر تھا۔ زمین اور پہیے کے درمیان پتلے کی سمت چھ انچ کا وقفہ تھا جہاں دو پتھر رکھ کر اتنی جگہ پیدا کی گئی تھی کہ میں رائفل نکال کر گولی چلا سکتا۔ پہیے کے اوپر بھاری پتھر رکھ کر اسے مضبوطی سے اس جگہ جما دیا گیا اور درمیان میں جگہ خالی تھی تاکہ ہوا کی آمد و رفت رہ سکے۔ پھر اس پہیے اور پتھروں اور آس پاس کافی جھاڑ جھنکار پھیلا دیا گیا تاکہ ایک تو شیر کو پتھروں کا ڈھیر دیکھ کر شبہ نہ ہو اور دوسرا یہ بھی کہ اگر شیر پیچھے سے آئے تو مجھے اس کے چلنے کی آواز آ جائے۔
حفاظت کے خیال سے میں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ سب لوگ ایک ساتھ واپس جائیں گے اور اگلے روز صبح کو ایک ساتھ واپس آئیں گے۔ میں ساری رات یہاں ایک طرح سے قید رہتا کہ اوپر رکھے پتھر اتنے بھاری تھے کہ انہیں ہلانا ممکن نہیں تھا۔
ساڑھے چار بجے میں اپنے گڑھے میں داخل ہوا اور میرے ساتھیوں نے نصف گھنٹے میں پتھر وغیرہ سب چھپا دیے۔ پانچ بجے کے قریب میں تنہا رہ گیا۔ گڑھے کے اندر بہت گرمی تھی۔ میں نے اپنا کوٹ اور قمیض اتار دی اور باقی کپڑے بھی اتار دیتا مگر زخم کے خیال سے نہیں اتارے۔
سامنے والے سوراخ سے مجھے پتلا اور اس کے آس پاس کا کافی حصہ دکھائی دے رہا تھا۔ پتلے کے پیچھے مہندی کی کچھ جھاڑیاں بھی اگی ہوئی تھیں۔ اچانک اس سمت مجھے حرکت محسوس ہوئی اور غور کیا تو پتہ چلا کہ یہ حرکت نر چیتل کے کان ہلانے کی تھی جو اس پتلے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ جنگل میں بے حس و حرکت بیٹھنے کی اہمیت مجھ پر واضح ہو گئی کہ نر چیتل دس منٹ تک پتلے کو دیکھتا رہا۔ پھر اس کی دلچسپی ختم ہو گئی اور راستے پر نکل آیا اور اسے عبور کر کے دوسری جانب جنگل میں غائب ہو گیا۔ چیتل اور پتلے کا درمیانی فاصلہ بمشکل بیس فٹ ہوگا مگر چیتل کو اس سے کوئی خطرہ نہ لاحق ہوا۔ اگر کوئی انسان بیٹھا ہوتا تو وہ کوئی حرکت ضرور کرتا اور پلک جھپکانے کی حرکت بھی چیتل کو بھگا دیتی۔
پھر موروں کا جوڑا آیا۔ نر نے رک کر اپنی دم پھیلائی۔ مادہ اسے دیکھنے کے علاوہ اِدھر اُدھر بھی دیکھتی رہی۔ مگر جونہی اس نے پتلا دیکھا، بھاگ کر اڑ گئی۔ نر نے مایوسی سے دم جھکائی اور پر پھڑپھڑاتا ہوا بھاگتے ہوئے اڑا۔
ہر سمت سے جنگلی مرغوں کی آوازیں آنے لگیں جو اندھیرا چھانے سے قبل اپنا پیٹ بھرنے نکلے تھے۔ پھر دیگر پرندوں کی آوازیں بھی آئیں۔ مختلف نر ماداؤں پر ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ اگرچہ مادہ ان پر توجہ نہیں دے رہی تھی مگر مادہ کی دلچسپی کے حصول کے لیے وہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال رہے تھے۔
تاریکی چھانے لگی اور پھر موروں کے جوڑے نے رخصتی کی آواز نکالی کہ وہ اب جنگل میں اونچے درخت پر شاید چوتھائی میل دور بیٹھے تھے۔ سورج مغربی پہاڑیوں کے پیچھے غروب ہو گیا۔
جو قارئین ہندوستانی جنگلوں سے واقف ہیں، جانتے ہیں کہ کتنی تیزی سے دن کی جگہ رات شروع ہو جاتی ہے اور دن کے پرندے چپ ہو جاتے ہیں اور شبینہ پرندے ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ شب پرندوں کی آوازیں آنے لگیں جو اپنے بڑے پر پھڑپھڑاتے ہوئے حشرات کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تھے اور کچھ ریت پر پتھروں کی طرح بیٹھ گئے۔
جہاں میں بیٹھا تھا، وہاں گہری تاریکی چھا چکی تھی اور پتلا بھی درخت کی چھاؤں میں چھپ گیا تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ چاندنی یہاں دس بجے کے بعد ہی پہنچے گی۔ نو بجے مجھے ندی کی تہہ میں اپنی جانب آتی ہوئی آوازوں سے پتہ چلا کہ کالا ریچھ آ رہا ہے۔ شیر کی آمد جاننے کے لیے ہم نے جو جھاڑ جھنکار جمع کیا تھا، ریچھ تقریباً اس پر پہنچ گیا۔ پھر اس کی نگاہ پتھروں اور بیل گاڑی کے پہیے پر پڑی۔ مجھے بخوبی اندازہ تھا کہ اس کے ننھے سے دماغ کے اندر اس وقت کیا سوچیں پیدا ہو رہی ہوں گی۔ ‘اہاں، موٹے موٹے کیڑے، شاید دیمک بھی مل جائے، کیا پتہ چھوٹی مکھیوں والا شہد کا چھتہ ہو جن کے ڈنگ مجھ جیسے بڑے ریچھ کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔‘
انہی سوچوں کے ساتھ ہی ریچھ نے پتھر اور جھاڑیاں ہٹانی شروع کر دیں۔
میں نے سرگوشی کی، ‘شش، دفع ہو جاؤ۔‘
ریچھ نے میری آواز سنی تو رک گیا۔ شاید وہ سوچ رہا ہو کہ یہ آواز کہاں سے آئی؟ چند منٹ خاموشی کے بعد اس نے پھر کام شروع کر دیا۔ میں نے پھر سرگوشی میں اسے دفع ہونے کا کہا۔ رکنے کے بعد وہ پہیے پر چڑھا اور سیدھا مجھے گھورنے لگا۔
ریچھ کی غراہٹ کے جواب میں میں نے اسے بھاگنے کا کہا۔ بیچارہ ریچھ حواس باختہ ہو کر بھاگ نکلا اور راستے میں موجود رکاوٹوں سے ٹکراتا ہوا کنارے پر چڑھا اور بانس کے جھنڈوں سے ہوتا ہوا نکل گیا۔
ریچھ کو گئے دس منٹ ہوئے ہوں گے کہ مجھے انتہائی مدھم آوازیں آنے لگیں جیسے نرم گدیوں والا بھاری جانور چل رہا ہو۔ اس آواز کو لکھنا ممکن نہیں۔ یوں سمجھیں جیسے تکیہ بستر پر پھینکیں تو اس سے ملتی جلتی آواز۔
شیر پہنچ گیا تھا اور اب میرے عقب میں پڑے جھاڑ جھنکار کو احتیاط سے عبور کر رہا تھا۔
کیا وہ پتلے پر حملہ کرے گا؟ کیا وہ میرے سامنے سے گزرے گا؟ منتظر حالت میں یہ سوال میرے ذہن میں ابھرے۔ میرے اعصاب تناؤ کا شکار ہو رہے تھے۔
چاند نکل آیا تھا مگر اس کی روشنی ابھی درخت کے نیچے نہیں پہنچی تھی۔ پتلا مجھے دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر مجھے علم تھا کہ شیر اسے بخوبی دیکھ لے گا۔
پتہ نہیں کتنی دیر خاموشی رہی۔ پھر مجھے عین اپنے سر کے اوپر پتھر سرکنے کی آواز آئی۔ اس سمت سے حملے کا کسی کو اندازہ تک نہ تھا مگر پہلے ریچھ بھی اس انہونی کی طرف متوجہ کر چکا تھا اور اب شیر بھی پہنچ گیا تھا۔ بھلا شیر نے پتلے کو نظرانداز کر کے عین اس جگہ کا رخ کیوں کیا جہاں میں چھپا ہوا تھا؟ عین ممکن تھا کہ ریچھ شیر کو دیکھ رہا ہو اور اس طرح اس کے فرار ہونے سے اسے شبہ ہوا ہو اور وہ تحقیق کرنے آن پہنچا ہو۔ یہ بھی ممکن تھا کہ شیر کی پتلے کی سمت آمد کے راستے میں ہی میں موجود ہوں؟ وجہ چاہے جو بھی ہو، شیر اب مجھ سے محض دو گز دور اور میرے اوپر تھا۔
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اپنے اوپر مجھے شیر کے سانس لینے کی آواز آئی۔ پہیے پر رکھے ایک بڑے پتھر پر شیر کھڑا ہو کر مجھے گھورنے لگا۔
میں نے بھی وقت ضائع نہیں کیا اور اس دوران کروٹ لے کر شیر کی طرف رخ کر لیا۔ میں نے اپنی رائفل کو بھی گھمایا مگر اس کا کندہ پیندے سے ٹِک گیا۔ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ گڑھا چار فٹ گہرا اور چار فٹ چوڑا تھا۔ سو رائفل کو سیدھا کھڑا کرنا ممکن نہیں تھا۔ خیر رائفل کو میں محض ساٹھ درجے کے زاویے پر کھڑا کر سکا۔ بدقسمتی سے شیر دوسری سمت تھا۔
پھر واقعات تیزی سے رونما ہونے لگے۔ ریچھ کی نسبت شیر کا رویہ یکسر مختلف تھا۔ اس کے خدوخال مجھے دھندلے دکھائی دے رہے تھے۔ پھر وہ دھاڑا اور مسلسل غراتے ہوئے اس نے پہیے پر جست لگائی اور اندر پنجہ گھسا کر مجھے پکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔
مجھے علم تھا کہ اگر اس کا پنجہ مجھے چھو گیا تو میری دھجیاں بکھیر دے گا۔ ہر ممکن کوشش سے گڑھے کی تہہ کے قریب رہتے ہوئے میں نے رائفل کا رخ موڑنے کی کوشش جاری رکھی۔
ان سارے واقعات کو چند لمحے لگے۔ شیر مزید قریب ہو کر دھاڑ رہا تھا کہ میری رائفل اس کے شانے سے مس ہوئی اور میں نے گولی چلا دی۔
اس محدود جگہ پر ہونے والے دھماکے کی آواز شدید محسوس ہوئی۔ شیر دھاڑتے ہوئے گولی کے دھکے سے اچھل کر پیچھے گرا۔ اگلے چند لمحے وہ پتھر، پہیے اور ریت کو چبانے کی کوششش کرتا رہا اور تکلیف سے دھاڑتا رہا۔ پھر میں نے اسے نیچے گرتے سنا اور پھر اٹھا، پھر گرا اور پھر اٹھ کر ندی کے کنارے جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔ اس کے دھاڑنے کی آواز کم از کم پندرہ منٹ تک آتی رہی۔
پھر جنگل مکمل خاموش ہو گیا۔ چند منٹ قبل کے شور شرابے سے جنگل کی تمام تر مخلوقات بشمول حشرات نے خاموش ہو کر چھپنے کو ترجیح دی۔
گھنٹے گزرتے رہے۔ ایک بجے پہاڑیوں سے ہوا چلنا شروع ہو گئی اور آسمان پر تاریک بادل چھانے لگے اور چاند کو پوری طرح چھپا لیا اور پھر مغربی پہاڑوں پر بارش کی آواز آنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد یہاں بھی موٹے موٹے قطرے گرنے لگے۔ پھر موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ استوائی علاقوں کے باشندے جانتے ہیں کہ یہ بارش کتنی تیز ہوتی ہے۔ میں پوری طرح بھیگ گیا اور ساتھ ہی گڑھے میں پانی آنے لگا۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ یہ ندی جو ابھی تک خشک تھی، کچھ دیر میں برساتی پانی سے بھر جائے گی۔ میں کسی چوہے کی طرح ڈوب جاؤں گا۔
اس حقیقت کے آشکار ہوتے ہی میں نے فوراً گھٹنوں کے جھک کر اپنی کمر کی ٹیک سے پہیہ ہٹانا چاہا مگر نہ ہلا۔ میرے ساتھیوں نے میرے تحفظ کی خاطر بہت وزنی پتھر جما دیے تھے جنہیں ہٹانا اکیلے میرے بس میں نہیں تھا۔
اب ایک صورت باقی بچی تھی کہ میں گولی چلانے کی نیت سے چھوڑے جانے والے چھ انچ کے سوراخ کو کھود کر بڑا کروں۔ دیوانہ وار میں نے دونوں ہاتھوں سے ریت کھودنی شروع کر دی۔ اس دوران گڑھا پانی اور ریت سے نصف بھر چکا تھا اور بھربھرے کنارے ٹوٹ رہے تھے۔ صاف لگ رہا تھا کہ اگر میں چند منٹ میں باہر نہ نکل سکا تو پھر میں پہیہ اور پتھر، سبھی مجھ پر آن گریں گے۔
جب باہر نکلنے کے لیے مناسب سوراخ ہو گیا تو میں نے اپنی رائفل کو پہیے سے باہر نکال کر رکھ دیا اور پھر پھنس پھنسا کر اس سوراخ سے نکلا۔ بارش مسلسل جاری تھی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ شیر کتنی دیر قبل اور کس سمت گیا تھا۔ سو رائفل اٹھا کر میں نے پتلے کو اٹھا کر مغربی کنارے پر رکھ دیا۔ پھر کمپی کاری جانے کے لیے میں نے نہر عبور کرنا شروع کی تو مجھے دور پہاڑوں سے برساتی پانی کا ریلا آنے کا شور سنائی دیا۔
چند منٹ میں ریلا پہنچ گیا۔ تین فٹ اونچی جھاگ بھرے پانی کی دیوار تھی جو اپنے ساتھ بہت کچھ لا رہی تھی۔ درختوں کے تنے، اکھڑے ہوئے درخت، خشک بانس اور ہر قسم کا جھاڑ جھنکار اس میں تھا۔ یہ سب کچھ گاڑی کے پہیے تک پہنچا اور سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں یہ ندی چار فٹ گہرا اور بپھرا ہوا دریا بن چکی تھی۔
اپنے بحفاظت فرار پر شکر ادا کرتے ہوئے میں نے کمپی کاری کا رخ کیا۔ بارش کے شور سے کچھ اور نہ سنائی دیا۔ تاریکی بہت گہری تھی اور ٹارچ کی روشنی محدود دائرے میں کام کر رہی تھی۔ نرم ربر کے جوتوں کے نیچے گیلی زمین انتہائی پھسلوان بن گئی تھی۔ راستے میں مجھے تین اور ندیاں عبور کرنا پڑیں جو میری نشست والی ندی سے کچھ چھوٹی تھیں مگر ان میں بھی سیلاب سا آیا ہوا تھا۔
کمپی کاری کے نصف راستے پر مجھے قریب آتی ہوئی روشنی دکھائی دی۔ کچھ دیر بعد مجھے بیرا اور رنگا کے ساتھ کچھ دیہاتی لالٹین اٹھائے آتے دکھائی دیے۔ مجھے لاحق خطرے کے بارے انہیں بروقت احساس ہو گیا تھا اور وہ آدم خور کے خطرے سے قطع نظر، میری مدد کو آ رہے تھے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اگلی صبح سورج خوب چمک رہا تھا۔ ہم اس گڑھے کو واپس لوٹے جہاں میں بیٹھا تھا۔ سبھی ندیوں میں اب مٹیالا پانی بہہ رہا تھا مگر اس کی گہرائی دو فٹ رہ گئی تھی۔ گڑھے کے مقام پر کہیں بھی بیل گاڑی کا پہیہ نہیں دکھائی دیا۔ شاید سیلابی پانی اسے اپنے ساتھ بہت دور تک بہا کر لے گیا ہوگا اور پہیہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہوگا۔ ہم نے دونوں کناروں کی اچھی طرح تلاشی لی مگر شیر کا کوئی نشان نہ ملا۔ بارش نے شیر کے خون اور دیگر علامات کو خوب مٹا دیا تھا۔
دو گھنٹے بعد مایوس اور تھکے ہارے ہم کمپی کاری لوٹے۔ تین دن مزید رک کر میں نے شیر کے بارے خبر کا انتظار کیا مگر مایوسی ہوئی۔ بیرا اور رنگا کا یہی خیال تھا کہ شیر زخموں کی تاب نہ لا کر مر گیا ہوگا۔ مگر مجھے یقین نہیں تھا کہ ان حالات میں چلائی گئی گولی سے شیر کو مہلک زخم لگا ہوگا۔
اس جانور کے شکار کے لیے لی گئی چھٹی ختم ہو گئی، سو میں کمپی کاری سے چوتھے روز نکلا اور بیرا اور رنگا کو ہدایت کی کہ وہ مسلسل صورتحال کا جائزہ لیتے رہیں۔ اگر کوئی نئی اطلاع ملتی تو پناگرام سے دھرماپوری جا کر مجھے تار بھیج کر میرے جواب کا وہیں انتظار کرتے۔
بنگلور واپسی کے دسویں روز مجھے مطلوبہ تار ملا کہ کوڈی کاری کے فارسٹ گارڈ کا ایک مال بردار گدھا مارا گیا ہے۔ واردات کے وقت کا اندازہ لگایا تو میرے پہنچنے تک کل چار روز گزر چکے ہوتے۔ سو میں نے انہیں کمپی کاری لوٹ کر مجھے حالات سے آگاہ رکھیں۔
چھ دن بعد مجھے دوسرا تار ملا کہ شیر نے دریائے چنار پر سوپاٹھی کو جانے والے راستے پر بیل گاڑیوں کے قافلے کے آخری گاڑی بان پر حملہ کیا ہے۔ یہ قافلہ مراپور کی بستی سے روانہ ہوا تھا۔
بلاشبہ یہ آدم خور کی واردات تھی۔ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں میں بذریعہ کار روانہ ہو گیا تھا۔ راستے میں بیرا اور رنگا کو لینے کے بعد ہم پناگرام کو روانہ ہوئے جہاں کار کھڑی کر کے ہم بارہ میل کے پیدل سفر پر مراپور روانہ ہو گئے۔ راستے میں ہم نے دریائے چنار بھی عبور کیا۔
راستے میں پتہ چلا کہ گاڑی بان حملے میں بچ گیا تھا کہ اس نے حملہ ہوتے ہی گاڑی سے باہر چھلانگ لگا دی تھی اور دونوں بیلوں کے درمیان کاٹھی کے نیچے چھپ گیا تھا۔ اس نے خوب شور مچانا شروع کیا اور اس کے ساتھیوں نے اس کا ساتھ دیا۔ شیر ڈر کر فرار ہو گیا۔
میں نے گاڑی بان سے موراپور میں بات کی۔ اس نے بتایا کہ شیر اچانک اس کی گاڑی کے پیچھے نمودار ہوا کہ اس کی گاڑی آخ پر چل رہی تھی اور جست لگا کر گاڑی پر سوار ہونے کی کوشش کی تو گاڑی بان نے جست لگا کر بیلوں کے درمیان پناہ لے لی۔ جب میں نے پوچھا کہ شیر کو گاڑی پر چڑھنے میں کیا دقت رہی ہوگی تو وہ بولا کہ شیر ابھی آدھا سوار ہوا تھا کہ اس نے گاڑی سے چھلانگ لگا دی تھی۔
اسی دوران سوپاٹھی سے ہمارے بعد آنے والے مسافروں نے بتایا کہ انہیں شیر کے گزشتہ رات والے پگ دریائے چنار کو جاتے دکھائی دیے تھے۔
یہ سنتے ہی ہم سوپاٹھی کو لوٹے اور فوراً ہی پگ تلاش کر لیے۔ دریائے چنار میں پانی کا بہاؤ چمک رہا تھا۔ یہاں نرم اور نم ریت پر ہمیں آدم خور کے پگ واضح دکھائی دیے۔ جسم کا زیادہ تر بوجھ اگلے بائیں پیر پر تھا اور ہر قدم پر دائیں پنجے کا معمولی سا نشان دکھائی دیتا تھا۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اس جگہ مکڑیوں کی وادی دریائے چنار سے ملتی ہے۔ نصف میل نیچے کی جانب جہاں شیر گیا تھا، وہاں دریا کے وسط میں چھوٹی اور لمبی چٹان تھی۔ اس کی اونچائی چار فٹ تھی اور دریا کے وسط میں موجود اس کی لمبائی چالیس فٹ اور چوڑائی آٹھ فٹ تھی۔ میں نے رات کو اس چٹان پر بسر کرنے کا فیصلہ کیا کہ اگر شیر دریا سے واپس ہوتا تو اونچائی سے آسانی سے دکھائی دے جاتا۔
رنگا کی پرانی پگڑی، دھوتی اور بھوری صدری مانگ کر میں نے اپنے کپڑوں کے اوپر تینوں پہن لیں اور ساڑھے پانچ بجے اس چٹان پر بیٹھ گیا۔ رنگا اور بیرا اکیلے مراپور جانے سے گھبرا رہے تھے، سو انہوں نے دریائے چنار کے پاس ہی مٹھی کے اونچے درختوں کے دوشاخوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔
رات کافی تاریک ہونی تھی مگر اونچی چٹان پر بیٹھ کر مجھے دریا کی سفید ریت پر تاروں کی روشنی میں آتا شیر دور سے دکھائی دے جاتا۔ اس جگہ دریا سو گز چوڑا تھا۔ مجھے علم تھا کہ شیر معذور بھی ہو چکا ہے اور ویسے بھی شیر پچاس گز سے زیادہ دور سے حملہ نہیں کرتا بلکہ ہرممکن طور پر قریب پہنچ کر حملہ کرتا ہے۔
ٹارچ کا بغور معائنہ کر کے میں نے اپنی اعشاریہ 405 بور کی رائفل بھر کر اپنے دائیں جانب رکھ لی جہاں شیر کو دکھائی نہ دیتی۔ اس کے علاوہ میں اضافی ہتھیار کے طور پر اپنی بارہ بور کی دو نالی جیفریز بھی لایا تھا۔ اس کی تنگ نالی میں بٹانے اور عام نالی میں گولی کا کارتوس تھا۔ بندوق کو میں نے بائیں جانب رکھا۔ چائے کی تھرموس، چند روٹیاں اور پائپ کی موجودگی میں صبح تک مجھے ہر طرح سے آرام تھا۔ میں اپنے کوٹ کے اوپر بیٹھ گیا کہ اس طرح پتھر بھی نہ چبھتا اور رات کو سردی ہوتی تو کوٹ پہن بھی لیتا۔
معمول کے مطابق پرندوں اور جانوروں نے آوازیں نکال کر دن کو رخصت کیا اور رات کے باسیوں نے اپنی آوازیں سنانا شروع کر دیں۔
ساڑے سات تک تاریکی چھا چکی تھی اور دریائے چنار کی سفید ریت چاروں طرف بکھری ہوئی تھی۔
نو بجے کے بعد کنارے سے ایک ہاتھی شور مچاتا اترا اور ریت پر چلنے لگا اور میری چٹان کے پاس سے گزر گیا۔ تھوڑا آگے جا کر اسے ہوا کے جھونکے نے میرے بارے خبردار کیا۔ اپنی سونڈ کو موڑ کر اس نے زمین پر مارا اور پھر مڑا تو میری زیادہ بو آئی۔ پھر وہ کنارے پر چڑھ کر جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔ عام ہاتھی کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے۔
سورج غروب ہونے کے بعد سے گیارہ بجے تک بھی میں مسلسل چاروں طرف نگران تھا۔ اچانک مجھے آنکھوں کے گوشے سے پیچھے بائیں جانب کچھ حرکت سی محسوس ہوئی۔ اس جانب دیکھا تو کچھ دکھائی نہ دیا۔ ارے، وہاں کوئی بھورا سا دھبہ تھا جو سفید ریت پر دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے منہ دوسری طرف موڑ کر پھر واپس اس جانب دیکھا تو وہ دھبہ غائب ہو چکا تھا۔
میں نے سوچا: ‘یہ عجیب بات ہے۔ کیا میری آنکھیں درست کام نہیں کر رہیں یا تھکن کا نتیجہ ہے؟‘
اس جانب غور سے دیکھنے پر مجھے دھبہ پھر دکھائی دیا، مگر اس مرتبہ وہ مجھے سے زیادہ قریب آ چکا تھا اور اب کنارے اور چٹان کے وسط تک پہنچ گیا تھا۔
اب میں کسی اور جانب دیکھنے کا خطرہ نہیں مول لے سکتا تھا کہ اس دھبے کی اہمیت زیادہ تھی۔ پھر میں نے اسے پھیل کر اپنی جانب تیرتے دیکھا۔ یہ دھبہ پھیلتے اور سکڑتے ہوئے میری جانب بڑھتا رہا مگر کوئی آواز نہ پیدا ہوئی۔
اچانک مجھ پر انکشاف ہوا کہ یہ کیا ہے۔ یہ شیر تھا جو اپنے پیٹ کے بل جھک کر خاموشی سے میری جانب آ رہا تھا تاکہ اتنے قریب پہنچ جائے کہ حملہ کر سکے۔ میرے چہرے اور گردن سے پسینہ بہنے لگا۔ میں دہشت اور جوش سے کانپنے لگا۔ تاہم اس سے فائدہ نہیں ملنا تھا، سو میں نے گہرا سانس لے کر روک لیا۔ اس طرح میرے اعصاب قابو میں آ گئے۔ میں نے خدا سے دعا مانگی اور اپنی گود سے رائفل اٹھا کر شانے سے لگائی۔
شیر اب بھی بیس گز دور ہوگا، مگر اس نے میری حرکت دیکھی تو اسے علم ہو گیا کہ اس کی موجودگی کا راز فاش ہو گیا ہے۔ اس کے پیچھے کالے رنگ کی لکیر ہلی جو اس کی دم تھی۔ دھبہ ایک دم مختصر ہوا تاکہ حملہ کر سکے۔ میری ٹارچ کی روشنی سیدھی اس کے کھلے منہ پر پڑی۔ اس کی جست سے ایک ثانیہ قبل میری رائفل بول پڑی۔
میری گولی چلتے ہی وہ اٹھا اور آگے کو جست لگائی۔ شکر ہے کہ میری ٹارچ نہیں بجھی اور میں دوسری گولی چلا سکا۔ اس دوران شیر چٹان تک پہنچ گیا تھا۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ پچھلے زخم یا شاید اب کی پہلی گولی کی وجہ سے وہ چٹان پر نہ چڑھ سکا۔ میری تیسری گولی اس کی کھوپڑی پر لگی اور اس کا حملہ وہیں تھم گیا اور شیر نیچے ریت پر گر گیا۔
سیٹی بجاتے ہوئے سوپاٹھی کے راستے پر میں نے رنگا اور بیرا کو ان کے درختوں سے اتارا۔ میری گولیوں کی آوازیں سن کر اور مجھے آتا دیکھ کر وہ سمجھ گئے تھے کہ میں نے آدم خور کو ہلاک کر لیا ہے۔
اگلی صبح ہم نے جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ شیر اوسط جسامت کا اور نسبتاً کمزور نر شیر تھا۔ سترہ روز قبل گڑھے میں سے چلائی ہوئی گولی نے میری توقع سے زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ گولی اس کے دائیں شانے سے ہوتی ہوئی اور اس کی ہڈی کو توڑتے ہوئے باہر نکل گئی تھی۔ تاہم زخم اچھی حالت میں تھا اور مجھے یقین ہے کہ وقت کے ساتھ بھر بھی جاتا، مگر شیر لنگڑاتا ضرور۔گزشتہ رات کی پہلی گولی اس کے کھلے منہ سے گزری اور گردن سے نکل گئی۔ پھر بھی شیر نہ رکا۔ دوسری گولی کافی اونچی گئی تھی اور اس کے بائیں کندھے کے پیچھے داخل ہوئی اور پھیپھڑوں سے گزرتی ہوئی باہر نکل گئی۔ پھر بھی شیر نہ رکا۔ میری آخری گولی جو اس کی کھوپڑی میں پیوست ہوئی، نے آدم خور کے حملے کو روک دیا۔
شیر آدم خوری پر کیوں مائل ہوا؟ ہر شکاری یہ راز جاننے کی کوشش کرتا ہے، چاہے اس کا شکار کوئی تیندوا ہو یا پھر شیر۔ اس سے نہ صرف اس کی اپنی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ عوام الناس کو بھی پتہ چلتا ہے۔ یہ شیر بھی انسانی قصور سے آدم خور بنا تھا۔ اس کی اگلی دائیں ٹانگ میں ایک پرانی گولی موجود تھی اور کہنی کے جوڑ میں پیوست ہو گئی تھی۔ یہ گولی نرم سیسے کی تھی جو پھیل گئی تھی۔ شاید ایک سال یا زیادہ عرصہ قبل کسی شکاری نے توڑے دار بندوق سے اس کو شکار کرنے کی کوشش کی تھی۔
یہ رکاوٹ جو اس کے جسم کے اہم ترین جوڑ میں پیوست تھی، نے نہ صرف شیر کو بہت تکلیف پہنچائی بلکہ اس کی وجہ سے وہ اپنی عام خوراک کو شکار کرنے کے قابل نہ رہ گیا تھا۔ شیر کے شکار کرنے کے لیے سب سے اہم اس کا دائیاں پنجہ ہوتا ہے۔ بلاشبہ اسی وجہ سے شیر عام جنگلی جانوروں اور مویشیوں پر حملے کے قابل نہ رہا اور فاقوں کی بجائے اس نے انسانوں کو شکار کرنا شروع کر دیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
2۔ عالم بخش اور کالا ریچھ
یہ کہانی کالے ریچھ سے متعلق ہے، جو بہت بڑا اور بہت برا تھا۔
میں کئی دوسری کہانیوں میں بتا چکا ہوں کہ تمام ریچھ بدمزاج، ناقابلِ اعتبار اور غصیلے ہوتے ہیں۔ عموماً یہ انسانوں پر بغیر کسی وجہ کے محض اس لیے حملہ کر دیتے ہیں کہ ان کے سوتے ہوئے یا پیٹ بھرتے ہوئے یا ویسے ہی کوئی انسان کے قریب سے گزر رہا تھا۔اس لیے مقامی قبائل ریچھوں سے کافی دور رہنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ہاتھیوں سے بھی مقامی لوگ فاصلہ رکھنا بہتر سمجھتے ہیں۔
یہ ریچھ دیگر کی نسبت انتہائی بدمزاج اور زیادہ کمینہ تھا۔ بہت دور سے بھی انسان کو دیکھ کر وہ ہر ممکن کوشش کر کے انسانوں پر حملہ کرتا۔
اس عجیب رویے کی توجیہ مشکل ہے۔ اس بارے کئی کہانیاں مشہور تھیں۔ ایک کے مطابق تو یہ ریچھ پاگل ہو چکا تھا۔ دوسری کہانی کے مطابق یہ ریچھ نہیں بلکہ ریچھنی تھی جس کے بچوں کو کسی انسان نے چرا لیا تو یہ پاگل ہو گئی۔ میرا خیال ہے کہ اس ریچھ کو کسی انسان نے ماضی میں زخمی کیا ہوگا۔ ایک کہانی تو یہ بھی مشہور تھی کہ ایک سال قبل ایک نوجوان لڑکی کو ریچھ نے اغوا کر کے اپنی بیوی بنا لیا تھا۔ یہ لڑکی اس وقت پہاڑی پر بکریاں چرا رہی تھی جہاں ریچھ بھی ایک غار میں رہتا تھا۔ ریچھ اسے اپنی غار میں لے گیا۔ کہانی کے مطابق پھر دیہاتی اس لڑکی کو چھڑانے گئے اور ریچھ کے غصے کے باوجود اسے چھڑا کر لے آئے۔ اسی وجہ سے ریچھ نے انسانوں سے انتقام لینا شروع کر دیا۔
وجہ چاہے جو بھی رہی ہو، ریچھ کے متاثرین کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ اس ریچھ کے ہاتھوں کم از کم بارہ افراد ہلاک اور پچیس سے زیادہ مجروح ہوئے تھے۔
ہر ریچھ کی مانند اس کا پہلا وار ہمیشہ اپنے شکار کے چہرے پر ہوتا تھا جسے وہ اپنے بہت لمبے اور طاقتور ناخنوں سے چیرنا شروع کر دیتا تھا اور ساتھ ساتھ چہرے کو چبانا بھی شروع کر دیتا۔ اس کے زخمی کردہ نصف افراد کی ایک یا دونوں آنکھیں ضائع ہو چکی تھیں۔ بعض کے ناک غائب تھے تو بعض کی رخساروں کی ہڈیاں نکل آئی تھیں۔ جو افراد جاں بحق ہوئے، ان میں تقریباً سبھی کا چہرہ ان کے سر سے الگ ہو چکا ہوتا تھا۔ مقامی لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ یہ ریچھ آدم خور ہو چکا ہے کیونکہ اس کے شکار کردہ کم از کم تین انسانوں کی لاشیں جزوی کھائی جا چکی تھیں۔
چونکہ ان افواہوں کی تصدیق کرنے کا موقع مجھے نہیں ملا مگر شاید ان میں کچھ صداقت ہو سکتی ہے کہ ہندوستانی کالا ریچھ مردار بھی کھا لیتا ہے، تاہم عام حالات میں یہ ریچھ سبزی خور ہوتا ہے اور جڑوں، پھل، شہد، دیمک اور اسی طرز کی دیگر چیزیں کھاتا ہے۔ مگر تازہ گوشت چاہے وہ حیوانی ہو یا انسانی، اس سے منہ نہیں موڑتا۔
یہ ریچھ پہلے ناگوارہ کی پہاڑیوں میں رہتا تھا جو ارسیکری کے بڑے قصبے کے مشرق میں ہے۔ یہ علاقہ ریاست میسور میں اور بنگلور سے 105 میل اور شمال مغرب میں واقع ہے۔
انہی پہاڑیوں میں اس نے وارداتیں شروع کی تھیں۔ پھر جوں جوں انسان کا خوف اس کے دل سے نکلتا گیا، اس نے نیچے میدانی علاقوں تک اپنی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھا دیا اور کھیتوں میں لوگوں کو طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے وقت ڈرانے پہنچ جاتا۔ وہ یہاں پائی جانے والی بے شمار چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں سے نکل کر پیٹ بھرنے کہیں بھی پہنچ جاتا۔
سال بھر سے میں اس ریچھ کے بارے اڑتی اڑتی خبریں سن رہا تھا مگر زیادہ توجہ اس لیے نہیں دی کہ ہندوستان میں جنگلی درندوں کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بارے باتیں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہیں۔ مزید یہ بھی کہ مجھے ریچھوں سے کافی دلچسپی ہے اور شاید اسی وجہ نظرانداز کر گیا۔ میں اس ریچھ کا پیچھا کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
مگر ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ مجھے مجبور ہونا پڑا۔ میرا ایک مسلمان دوست تھا جس کا نام عالم بخش تھا۔ عالم بخش ارسیکری اور شموگا کے درمیان واقع ایک مسلمان پیر کے مزار کا متولی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بزرگ پچاس سال قبل یہاں رہتے تھے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں ایسے مزار بے شمار ملتے ہیں۔ مسلمان قوم انہیں بہت مقدس سمجھتی اور ان کا احترام کرتی ہے۔ ہر مزار کا اپنا ایک متولی ہوتا ہے جو عموماً کوئی بوڑھا آدمی ہوتا ہے جو خود ہی یہ ذمہ داری سنبھال لیتا ہے اور وہیں پاس ہی رہنا شروع کر دیتا ہے۔ ذمہ داریوں میں عموماً مزار پر چراغ جلانا ہوتا ہے جو ساری رات جلتا رہتا ہے۔ یہ علامت ہوتی ہے کہ اس پیر کی یاد اس کے مریدوں کے دل میں اسی طرح روشن رہتی ہے۔
پہلی بار عالم بخش سے میری ملاقات بنگلور سے شموگا جاتے ہوئے ایک تاریک رات ہوئی تھی۔ میں شیر کے شکار پر جا رہا تھا۔ اچانک گاڑی کا پچھلا پہیہ نکل گیا اور گاڑی زور سے سڑک سے ٹکرائی۔ اس وقت میں اکیلا سفر کر رہا تھا اور نیچے اتر کر میں نے مایوسی اور غصے سے گاڑی کا جائزہ لیا۔ خوش قسمتی سے یہ حادثہ اس مزار کے عین سامنے ہوا تھا اور شور سن کر عالم بخش اپنی جھگی سے باہر نکلا۔ میرا مسئلہ دیکھ کر اس نے مدد کرنے کے لیے لالٹین جلایا اور پھر گاڑی کے سامنے پتھر وغیرہ رکھ دیے تاکہ میں گاڑی کو اٹھا سکوں۔ پھر اس نے مجھے گرم چائے کا پیالہ بھی لا کر دیا۔ میں نے پہیہ بدلا اور پھر اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر وعدہ کیا کہ جب بھی یہاں سے گزرا، اس سے لازماً ملاقات کروں گا۔ میں نے اس وعدے کو ہمیشہ نبھایا اور ہر بار اس کے لیے کوئی تحفے تحائف اور دیگر سامان لاتا رہا۔
مزار سے چار سو گز پیچھے چھوٹی سی پہاڑی ہے جس میں بڑے بڑے پتھر موجود ہیں اور یہاں خاردار جھاڑیاں اگی ہیں۔ اس مقام سے لے کر مزار تک، مون سون کے موسم میں دیہاتی مونگ پھلی بو دیتے ہیں۔ ہر ریچھ مونگ پھلیوں کا شیدائی ہوتا ہے اور یہ ریچھ بھی تھا۔ یہ پہاڑی ریچھ کی رہائش کے لیے بہترین مقام ہے اور ساتھ ہی مونگ پھلیاں بھی موجود ہیں۔ سو ریچھ نے یہاں رہنا شروع کر دیا۔
ریچھ کی رہائش ایک بڑے پتھر کے نیچے موجود غار تھی۔ سورج غروب ہوتے ہی وہ بھوک سے بے تاب ہو کر اس غار سے نکل آتا اور جوں جوں تاریکی گہری ہوتی، وہ مونگ پھلی کے کھیتوں کی جانب اترتا دکھائی دیتا۔ یہاں وہ ساری رات پیٹ بھرتا۔ علی الصبح وہ بھرے پیٹ کے ساتھ لوٹ جاتا۔ سکون سے سارا دن سو کر گزارتا۔ میں یہ کہنا بھول گیا تھا کہ پہاڑی کی دوسری جانب ایک قدرتی تالاب تھا۔ سو ریچھ کی تمام تر ضروریات آسانی سے پوری ہو رہی تھیں۔
اسی دوران مزار کے ساتھ سڑک پر موجود انجیر کے درختوں پر پھل پک گیا اور شاخیں پکے ہوئے انجیروں سے جھک گئیں۔ بہت سارے انجیر نیچے گر جاتے۔ سینکڑوں کی تعداد میں مختلف اقسام کے پرندے دن کے وقت اپنا پیٹ بھرنے آتے۔ رات کو ہندوستانی پھل والی چمگادڑیں پہنچ جاتیں اور شور مچاتے ہوئے اپنا پیٹ بھرتیں۔
یہ بے شمار پرندے اور جانور دن رات اپنا پیٹ بھرنے کے دوران بہت سارے انجیر گرا بھی دیتے اور کچھ انجیر پک کر خود ہی گر جاتے تو کچھ ہوا سے گرتے۔ ریچھ کو انجیر بھی بہت پسند ہوتے ہیں۔
اب کھیتوں سے نکل کر وہ انجیر کے درختوں تک آنا شروع ہو گیا جو مزار کے گرد و نواح میں تھے۔ یہاں سے مسئلہ شروع ہوا۔
عالم بخش کا بائیس سال کا ایک بیٹا تھا جو اس کی بیوی اور بہن کے ساتھ وہیں رہتا تھا۔ ایک رات کھانا کھانے کے بعد جب سب سونے لگے تو لڑکے کو کسی وجہ سے باہر جانا پڑا۔ رات تاریک تھی اور ریچھ پاس ہی انجیر کے درختوں کے نیچے پیٹ بھر رہا تھا۔ اچانک انسان کے ظہور سے ریچھ کو خطرہ محسوس ہوا ہوگا اور اس نے فوراً حملہ کر دیا۔ یہ حملہ حادثاتی تھا اور ریچھ نے چہرے کی بجائے گلے پر حملہ کیا۔ لڑکے نے چیخنے کی کوشش کی اور ریچھ کو لاتیں اور گھونسے مارے۔ ریچھ نے پھر حملہ کیا اور ایک آنکھ اور ناک نکال لے گیا اور اس کے سینے، کندھوں اور کمر پر پنجوں سے گہری خراشیں ڈالیں اور پھر اسے چھوڑ کر اندھیرے میں گم ہو گیا۔
خون میں لت پت لڑکا گھر واپس پہنچا۔ اس کی شہہ رگ کٹ گئی تھی اور اگرچہ ان لوگوں نے پرانے کپڑوں سے خون روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔
صبحِ کاذب کے وقت لڑکے کی روح نکل گئی۔ انجیروں اور مونگ پھلیوں سے پیٹ بھر کر ریچھ واپس اپنی غار میں چلا گیا۔
عالم بخش بہت غریب تھا اور تار بھیجنے کے قابل نہ تھا اور نہ ہی اتنے پیسے تھے کہ بنگلور تک کا کرایہ بھرتا۔ تاہم اس نے پوسٹ کارڈ پر اپنی داستانِ غم پنسل سے اردو زبان میں لکھ کر بھیجی۔ خط پر اس کے خشک آنسو موجود تھے۔ دو روز بعد مجھے یہ پوسٹ کارڈ ملا اور تین گھنٹے بعد میں ارسیکری روانہ ہو گیا۔
میرا خیال تھا کہ ریچھ کا شکار آسان کام ہوگا اور ایک یا دو گھنٹے بعد فارغ ہو جاؤں گا۔ اسی وجہ سے میں نے زیادہ تیاری نہیں کی تھی۔ میرے پاس ٹارچ، اعشاریہ 405 بور کی ونچسٹر رائفل اور ایک جوڑا کپڑے تھے۔ شام پانچ بجے کے بعد میں عالم بخش کو ملا اور کہانی سننے پر زیادہ وقت نہیں لگا۔
راتیں تاریک تھیں۔ مگر میرا منصوبہ سادہ سا تھا کہ میں اندھیرا چھانے کے بعد باہر نکلتا اور ٹارچ کی روشنی میں ریچھ کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا۔
یہ سن کر عالم بخش مجھے اپنی جھگی کے اندر لے گیا اور دروازہ بند کر دیا۔ اس چھوٹے سے کمرے میں دیے کی روشنی میں اس نے مجھے کئی مرتبہ اپنے بیٹے کی موت کے واقعات سنائے۔ ہر چند منٹ بعد پورا خاندان رونے لگ جاتا۔ مجبوری کی حالت میں مجھے آٹھ بجے تک یہ سب برداشت کرنا پڑا۔ آٹھ بجے جب یہ برداشت سے باہر ہو گیا تو میں نے ریچھ کی تلاش میں باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔
اپنی رائفل بھر کر میں نے ٹارچ کا معائنہ کیا اور پھر باہر قدم رکھا۔ عالم بخش نے میرے پیچھے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔ تاریکی بہت گہری تھی اور جونہی میں نے رائفل پر موجود ٹارچ کو جلایا تو اس کی طاقتور روشنی نے بائیں جانب مجھے مونگ پھلی کے کھیت دکھائے اور دائیں جانب سڑک کے کنارے انجیر کے درخت کھڑے تھے۔
چونکہ ریچھ کہیں دکھائی نہیں دیا، میں نے فیصلہ کیا کہ میں اسے تلاش کرتا ہوں اور یہ کام انجیر کے درختوں سے شروع کیا۔ درخت سڑک کے دونوں جانب تھے، سو میں نے سڑک پر چلنے کا فیصلہ کیا اور ٹارچ دونوں جانب گھماتا جاتا۔ اس طرح میں ڈیڑھ میل ایک سمت میں چلا مگر ریچھ نہ دکھائی دیا۔ پھر میں مزار کی طرف لوٹا اور پھر دوسری جانب ڈیڑھ میل چلا۔ مگر ریچھ ندارد۔ پھر میں مزار کو لوٹا اور مونگ پھلی کے کھیتوں میں ریچھ کو تلاش کرنے لگا۔
ٹارچ کی روشنی منعکس کرتے ہوئے بہت ساری چمکدار آنکھیں مجھے دیکھنے لگیں۔ تاہم یہ سب خرگوش اور تین چار گیدڑ تھے۔ میں نے پہاڑی کے گرد چکر کاٹا اور راستے میں کیچڑ میں لوٹتے ہوئے کچھ سور ڈر کر بھاگ اٹھے۔ تاہم ریچھ کا کوئی نشان نہ ملا۔ پھر میں پہاڑی کے قریب پہنچ کر اس کے گرد دو یا تین چکر لگائے اور ٹارچ کی روشنی اوپر اور اطراف میں پھینکتا رہا۔ میں کافی تھک گیا تھا مگر ریچھ کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ تیسرے چکر پر میں ایک انتہائی زہریلے رسل وائپر پر پیر رکھتے رکھتے بچا۔ یہ سانپ عین میرے راستے میں دو پتھروں کے درمیان کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ چونکہ میں ریچھ کی تلاش پر توجہ دے رہا تھا، اس لیے راستے کو نظرانداز کر دیا تھا۔ میرا پیر اس کے منہ سے چند انچ کے فاصلے پر پڑا اور اس کی پھنکار سن کر میں خبردار ہوا۔ لاشعوری طور پر میں نے فوراً پیچھے کو چھلانگ لگائی اور سانپ پر روشنی ڈالی تو دیکھا اس کا وار عین اسی جگہ ہوا جہاں سے میں نے قدم ہٹایا تھا۔ میں بال بال بچا تھا اور ایک لمحے کو تو خیال آیا کہ سانپ کو گولی مار دوں۔ تاہم اس طرح اتنا شور ہوتا کہ ریچھ فرار ہو جاتا اور ویسے بھی قیمتی کارتوس ضائع ہوتا۔ ویسے بھی سانپ نے حملہ کرنے سے قبل مجھے پھنکار کر خبردار تو کر ہی دیا تھا۔ سو میں نے اس پر چھوٹا پتھر پھینکا اور سانپ فرار ہو گیا۔
اس وقت تک یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ یا تو ریچھ شام ہوتے ہی اترا اور اب بہت دور پہنچ چکا ہوگا یا پھر ابھی تک اس کا پیٹ بھرا ہوگا اور غار میں سو رہا ہوگا۔ میں نے سوچا کہ عالم بخش کی جھگی کو جا کر دو گھنٹے بعد پھر چکر لگاؤں گا۔
میں نے ایسا ہی کیا اور ایسے دو مزید چکروں کے بعد بھی ریچھ کا کوئی نشان نہ ملا۔ صبحِ کاذب ہو گئی مگر ریچھ نہ دکھائی دیا۔
جب دن نکل آیا تو میں نے عالم بخش سے کہا کہ میں بنگلور جانا رہا ہوں مگر اس نے درخواست کی کہ آج کا دن رک کر پہاڑی پر غاروں میں ریچھ کو تلاش کروں۔ اس دوران اس کی بیوی میرے لیے گرما گرم روٹیاں اور چائے بنا چکی ہے۔ دونوں سے میں نے خوب انصاف کیا۔ پھر میں سو گیا۔ دوپہر کے وقت عالم بخش نے مجھے بیدار کر کے بتایا کہ اس کی بیوی نے میرے لیے خصوصی طور پر پلاؤ تیار کیا ہے۔ اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں خوب پیٹ بھر کر پلاؤ کھایا۔ عالم بخش کی بیوی یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی کہ مجھے اس کا بنایا ہوا پلاؤ بہت پسند آیا تھا۔ سورج اب نصف النہار پر تھا اور خوب گرمی ہو گئی تھی۔ ریچھ کی تلاش کا یہ بہت موزوں وقت تھا کہ اس وقت ریچھ خوب گہری نیند سو رہے ہوتے ہیں۔
عالم بخش میرے ساتھ پہاڑی پر آیا اور پچاس گز کے فاصلے سے اس نے وہ غار دکھائی جہاں ریچھ رہتا تھا۔ میں نے ربر سول جوتے پہنے تھے سو انتہائی خاموشی سے غار کے قریب پہنچا۔ تاہم اس کا نقصان یہ تھا کہ گرم پتھر اب میرے تلوے جلا رہے تھے۔
غار کے منہ پر پہنچ کر میں اکڑوں بیٹھ کر پوری توجہ سے آوازیں سننے لگا۔
سوتا ہوا ریچھ زور زور سے خراٹے لیتا ہے جو انسان جتنے ہی بلند ہوتے ہیں۔ اگر ریچھ سو رہا ہوتا تو مجھے اس کے خراٹوں کی آواز آنی چاہیے تھی۔ دس منٹ میں سورج میری پشت جلانے لگا اور میں نے چند پتھر اٹھا کر غار کے اندر پھینکے۔
یہ بات عام فہم ہے کہ اس طرح کی مداخلت سے سویا ہوا ریچھ بہت غصے میں آ جاتا ہے۔ مگر غار میں خاموشی ہی رہی۔ میں نے پھر چند پتھر پھینکے مگر کچھ نہ ہوا۔ ریچھ اندر نہیں تھا۔
پہاڑی سے اتر کر میں نے عالم بخش کو بتایا کہ ریچھ موجود نہیں۔ پھر بتایا کہ میں بنگلور واپس جا رہا ہوں اور ریچھ کی اطلاع ملتے ہی مجھے تار بھیج دے۔ میں نے اسے کچھ پیسے دیے تاکہ فوری ضروریات پوری کر سکے اور تار بھی بھیج سکے۔ پھر میں بنگلور لوٹ آیا۔ ایک مہینہ گزر گیا مگر کوئی اطلاع نہ ملی۔
مزار کے دوسری جانب شمال مغرب میں بیس میل دور چک مگلور کا جنگل شروع ہوتا ہے جو میسور کے ضلع کدور میں واقع ہے۔چک مگلور اور کدور کے وسط میں سیکری پنٹہ کا چھوٹا سا قصبہ ہے اور اس کے چاروں طرف جنگل ہے۔
ریچھ کی اگلی خبر مجھے سیکرے پنٹہ کے نزدیک سے ملی جہاں ریچھ نے دو لکڑہاروں کو زخمی کیا تھا اور ان میں سے ایک جاں بحق ہو گیا۔ چک مگلور نے فارسٹ آفیسر نے مجھے خط لکھ کر اس ریچھ سے دو دو ہاتھ کرنے کی درخواست کی۔
میں نے سوچا کہ یہ وہی ریچھ ہوگا جس نے عالم بخش کے بیٹے کو ہلاک کیا تھا۔ تاہم اتنے بڑے جنگل میں ایک ریچھ کو تلاش کرنا بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کرنا کارِ دارد تھا۔ سو میں نے ڈی ایف او کو خط لکھا کہ وہ مجھے اس ریچھ کے بارے مزید معلومات بھیجے۔
دس روز بعد مجھے اس کا جواب ملا کہ اس ریچھ کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ قصبے سے تین میل دور ایک پہاڑی غار میں رہتا ہے۔ یہاں قریب سے ہی ایک راستہ گزرتا ہے جہاں گشت کرتے ہوئے فارسٹ گارڈ کو ریچھ نے زخمی کیا تھا۔
سو میں چک مگلور روانہ ہوا اور وہاں ڈی ایف او کو اٹھایا اور سیکری پنٹہ کا رخ کیا جہاں میسور کے محکمہ جنگلات کا چھوٹا ریسٹ ہاؤس ہے۔ یہاں اگلے چند روز میرا قیام ہونا تھا۔
قسمت سے اگلے روز دوپہر کو ایک بندہ دوڑتا ہوا آیا اور ہمیں بتایا کہ اس کا بھائی جو گڈریا ہے، ریچھ کی قیام گاہ والی پہاڑی کے پاس مویشی چرا رہا تھا کہ ریچھ نے اس پر حملہ کیا۔ اس نے مدد کے لیے شور مچایا تو ریچھ نے بھی غرانا شروع کر دیا۔ اس کا بھائی جو پہاڑی کے نیچے تھا، نے آوازیں سنتے ہی دوڑ لگائی اور ہمارے پاس آن کر دم لیا۔
ریچھ ہمیشہ شبینہ جانور ہوتے ہیں اور کبھی بھی دن کے وقت حرکت کرتے نہیں دکھائی دیتے۔ زیادہ سے زیادہ وہ صبح یا شام کے دھندلکے میں دکھائی دے سکتا ہے۔ مگر دوپہر کے وقت تو ناممکن ہے۔ شاید گڈریا ریچھ کے غار کے بہت قریب پہنچ گیا ہوگا جس سے ریچھ نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کی یہی واحد توجیہہ تھی۔
ہمیں یہ خبر ساڑھے چار بجے کے قریب ملی، سو میں نے رائفل اور ٹارچ اٹھائی اور تین چار مددگاروں کو ساتھ لے کر روانہ ہوا تاکہ گڈریے کی مدد کروں۔ جلد ہی ہمیں احساس ہو گیا کہ فاصلہ گڈریے کے بھائی کی اطلاع سے کہیں زیادہ تھا۔ کم از کم چھ میل کا سفر طے کرنے کے بعد ہم اس پہاڑی کے قریب پہنچے جس پر گھنا جھاڑ جھنکار اور بانس کا جنگل بھی اگا ہوا تھا۔ چھ بج رہے تھے اور سردیوں کا موسم تھا اور اندھیرا چھا رہا تھا۔ میرے ساتھ آئے آدمیوں نے آگے بڑھنے سے یکسر انکار کر دیا اور کہا کہ وہ سیکری پنٹہ جا رہے ہیں اور مجھے بھی یہی کہا کہ ابھی واپس چلوں اور اگلی صبح تلاش کا کام کریں گے۔ تاہم گڈریے کے بھائی نے کہا کہ وہ اسی جگہ رک کر میرا انتظار کرے گا مگر اسے جنگل میں جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ اپنے بھائی کے محلِ وقوع کے بارے اس نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ اس جگہ کہیں ہوگا۔
میں نے اس جگہ کا رخ کیا اور اس بندے کا نام بہ آوازِ بلند لیتا گیا۔ مجھے کوئی جواب نہ ملا سو میں نے مزید آگے گھنے جنگل کا رخ کیا۔ اس وقت تک تاریکی گہری ہو چکی تھی مگر مجھے مسئلہ نہیں ہوا کہ میرے پاس ٹارچ تھی۔ اس کی روشنی میں نے اِدھر اُدھر پھینکنا شروع کر دی۔
جلد ہی جنگل اتنا گھنا ہو گیا کہ مجھے رکنا پڑا۔ میں مڑنے ہی والا تھا کہ مجھے شبہ ہوا کہ ہلکی سی کراہ دور سے سنائی دی ہے۔ اس جگہ زمین پہاڑی کے دو چوٹیوں کے درمیان نیم وادی کی شکل میں نیچے اتر رہی تھی اور یہ کراہ وہیں کسی نشیب سے آئی تھی۔
گڈریے کا نام تھِما تھا اور دونوں ہاتھوں سے منہ پر پیالہ سا بنا کر میں نے اس کا نام زور سے پکارا اور پھر جواب سننے کی کوشش کی۔ ہاں، اب کے صاف کراہ سنائی دی جو مدھم تو تھی مگر واضح بھی تھی۔ یہ آواز سامنے سے ہی آئی تھی۔
جھاڑیوں سے زورآزمائی کر کے میں نیچے اترا اور جگہ جگہ پتھروں پھر پھسلتے ہوئے اور کانٹوں میں الجھتے ہوئے راستہ طے کیا۔ دو سو گز بعد میں نے پھر آواز دی۔ کچھ دیر بعد دائیں جانب سے آواز آئی۔ اسی طرح میں آگے بڑھتا رہا اور آخرکار تھِما کو تلاش کر لیا جو ایک درخت کے نیچے اور اپنے خون کے تالاب میں پڑا تھا۔ اس کا چہرہ تار تار اور ہڈیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کی زندگی کا واحد ثبوت اس کے منہ پر خون سے اٹھنے والے بلبلے تھے۔ مزید یہ بھی کہ ریچھ نے اس کے پیٹ پر پنجے مارے تھے جس کے سوراخ سے اس کی آنتیں نکلی ہوئی تھیں۔ جب میں نے اسے تلاش کیا تو وہ بمشکل ہوش میں تھا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس نے میرے پکارنے پر کوئی جواب نہیں دیا تھا بلکہ وہ وقفے وقفے سے نیم بے ہوشی میں کراہ رہا تھا۔
صورتحال بہت نازک تھی۔ اگر یہ بندہ ساری رات یہیں پڑا رہتا تو صبح تک اس کا دم نکل جاتا۔ اس بندے کو اٹھا کر اس کے بھائی تک لے جانا ہی واحد حل تھا۔ مگر اسے کندھے پر ڈالنا بہت مشکل کام تھا کیونکہ اس کی حالت نازک تھی۔ مزید یہ کہ اس بندے کی جسامت بھاری تھی جو میرے برابر تھی۔ مگر اسے اٹھا کر میں نے رائفل کے کندے کا سہارا لے کر واپسی کا رخ کیا۔
اس خوفناک سفر کو میں دوبارہ کبھی نہیں کرنا چاہوں گا۔ میں چوٹی کے قریب پہنچا ہی تھا کہ حادثہ رونما ہوا۔ میرا بائیاں پیر پھسلا اور دو بڑے پتھروں کے درمیان آیا۔ میرے ٹخنے میں درد کی لہر اٹھی اور میں نیچے گرا اور تھِما میرے اوپر۔
میرے ٹخنے میں موچ آ گئی تھی اور چلنا ممکن نہ رہا۔ اس جگہ لیٹے ہوئے میں نے تھِما کے بھائی کو آوازیں دیں مگر ایک گھنٹہ گزر گیا مجھے کوئی جواب نہ ملا۔ مجبوری میں اس دم توڑتے انسان کے ساتھ رات گزارنی تھی۔
ٹارچ کے سیل بچانے کی نیت سے میں اسے کم استعمال کر رہا تھا۔ صبح کے قریب بہت سردی ہو گئی اور تھما کی کراہیں مدھم ہوتی گئیں۔ پانچ بجے صبح اس کی جان نکل گئی اور میں اس کے ساتھ چھ بجے تک بیٹھا رہا۔
پھر میں نے کھڑے ہونے کی کوشش کی مگر پیر زمین پر رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ رینگنے کی کوشش کی تو خاردار جھاڑیاں رکاوٹ بن گئیں۔ میرے ہاتھ اور میرا چہرہ زخمی ہو گئے اور کپڑے پھٹ گئے۔ جلد ہی میں نے اس حقیقت کو قبول کر لیا کہ مجھے یہیں رک کر امداد کا انتظار کرنا ہوگا۔
دوپہر کے بعد محکمہ جنگلات کے لوگ تھِما کے بھائی اور دس بارہ دیہاتیوں کے ہمراہ آن پہنچے۔ آخرکار میری آوازوں کی مدد سے وہ لوگ یہاں تک پہنچ گئے۔ شام کو ہم سیکرے پنٹہ پہنچے جہاں میں بستر پر لیٹا تو میرا پیر بہت سوج چکا تھا۔ ڈی ایف او نو بجے آیا اور میری کار چلا کر مجھے چک مگلور لے گیا جہاں ہسپتال سے طبی امداد لی۔ ایک ہفتے بعد جا کر میں زمین پر پیر رکھنے کے قابل ہوا۔ آپ کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ مجھے اس ریچھ کے خلاف کتنا غصہ جمع ہو گیا ہوگا۔ سو میں نے خود سے وعدہ کیا کہ جونہی چلنے کے قابل ہوا تو اس ریچھ کو فنا کر دوں گا۔
اس دوران ریچھ نچلا نہیں بیٹھا اور اس نے دو مزید لوگوں کو اُسی راستے پر زخمی کیا۔
جب میں بمشکل چلنے کے قابل ہوا تو چار روز بعد میں سیکری پنٹہ پہنچ گیا۔ یہاں مجھے بتایا گیا کہ ریچھ اب گاؤں سے ایک میل دور کھیتوں میں مٹرگشت کا عادی ہو چکا ہے جہاں کئی درختوں کا پھل پکنے والا ہے۔ پانچ بجے میں ان درختوں کو پہنچ گیا اور سب سے بڑے درخت کو منتخب کیا جس پر سب سے زیادہ پھل لگے تھے اور اس کے نیچے رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے درخت سے ٹیک لگا کر رائفل کو اپنے گھٹنوں پر رکھ لیا۔
گیارہ بجے کے بعد مجھے ریچھ کا شور سنائی دیا جو بڑبڑاتا اور غراتا آ رہا تھا۔ جگہ جگہ رک کر وہ پھل کھاتا رہا اور میرے قریب آتا گیا۔ راستے میں کئی جگہ اس نے مختلف جڑیں بھی کھود کر نکالی تھیں۔ اسے اس درخت تک آتے ہوئے ایک گھنٹہ لگ گیا۔ آخرکار وہ سامنے آیا جو ستاروں کی روشنی میں کالا دھبہ دکھائی دے رہا تھا۔
میں نے ٹارچ کا بٹن دبایا اور روشنی کا دائرہ سیدھا ریچھ پر پڑا۔ ریچھ فوراً حیرت سے اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوا اور میں نے اس کے سینے پر بنے V کے نشان کے عین وسط میں گولی پیوست کر دی۔ اس طرح یہ برا ریچھ اپنے انجام کو پہنچا۔
ریچھ کو جلدی غصہ آ جاتا ہے مگر عام طور پر بے ضرر ہوتے ہیں۔ یہ ریچھ اپنی نسل سے مختلف تھا اور بغیر کسی وجہ کے انتہائی بےدردی سے لوگوں کو ہلاک کرتا رہا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
3۔ ماموندر کی آدم خور
یہ جانور مادہ اور نوجوان تھی اور بغیر کسی وجہ کے آدم خور بنی۔ چونکہ اس کی وارداتیں چملا وادی کے آدم خور کی ہلاکت کے کچھ عرصے بعد اور انہی علاقوں میں شروع ہوئی تھیں، اس لیے اندازہ ہے کہ شاید اس آدم خور کا جوڑا ہو۔ ایک اور نظریہ یہ تھا کہ اس شیرنی نے اپنی ماں سے کم عمری میں یہ عادت پائی ہوگی۔
اس کی آدم خوری کی وجہ چاہے جو بھی ہو، اس نے پہلی بار ایک گڈریے پر حملہ کر کے اسے ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اس کوشش کی وجہ یہ تھی کہ شیرنی نے پہلے ایک دودھیل گائے پر حملہ کیا تھا اور اس کی گردن توڑ دی تھی کہ چرواہے نے اسے بھگانے کی کوشش کی تھی۔ چرواہے نے اس کو بھگانے کے لیے شور کرتے ہوئے اپنا ڈنڈا لہرایا تھا۔ عام شیر ایسی مداخلت سے بھاگ جاتے ہیں مگر اس بار اس کا الٹا اثر ہوا۔ بھاگنے کی بجائے شیرنی نے جست لگائی اور چرواہے پر حملہ کر دیا اور چشمِ زدن میں بیس گز کا فاصلہ طے کر کے حملہ کر دیا۔ چرواہا مڑ کر باھگا مگر شیرنی کے پنجے نے اس کے کندھے سے کولہوں تک اسے چھیل کر رکھ دیا۔ چرواہا زمین پر گرا مگر چونکہ انسان پر شیرنی کا یہ پہلا حملہ تھا تو بظاہر شیرنی اس وار کو کافی سمجھ کر پھر گائے کو لوٹ گئی۔
جب شیرنی نے گائے کو کھانا شروع کیا تو چالیس گز دور چرواہے شیرنی کے پیٹ بھرنے کی آوازیں سنتا رہا مگر اس نے بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر وہ ایسا کرتا تو اس بار شیرنی کا حملہ مہلک ثابت ہوتا۔ سو وہ اسی طرح اوندھا پڑا رہا مگر نہایت آہستگی سے سر موڑ کر شیرنی کو پیٹ بھرتے دیکھتا رہا۔
بعد میں اس نے مجھے بتایا کہ اسے وہ ایک گھنٹہ ساری عمر یاد رہے گا۔ بظاہر کئی مرتبہ رک کر شیرنی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ایک بار تو کھانا چھوڑ کر شیرنی نے اس کی سمت چند قدم بھی اٹھائے۔ شکر ہے کہ دہشت کے مارے یہ بیچارہ حرکت نہ کر سکا۔ اگر وہ ذرا سی بھی حرکت کرتا تو ظاہر ہے کہ شیرنی اسے زندہ نہ چھوڑتی۔ خوش قسمتی سے شیرنی نے ارادہ بدل دیا۔
مزید ایک گھنٹہ گزرا اور پھر شیرنی کا پیٹ بھر گیا۔ پھر وہ پچھلے پیروں پر بیٹھ کر اپنے اگلے پنجے اور چہرہ چاٹ کر صاف کرتی رہی۔پھر چرواہے پر آخری نگاہ ڈال کر شیرنی اٹھی اور جنگل کو چلی گئی۔
چرواہا بیچارہ مزید دس منٹ لیٹا رہا کہ شیرنی واقعی چلی گئی ہے۔ پھر وہ اٹھا اور گاؤں کی جانب بھاگ کھڑا ہوا۔
اس کہانی کا انجام بھی یادگار تھا۔ کسی مناسب طبی امداد کے بغیر ہی اس کے گہرے زخم بھر گئے۔ حکیم نے اس کے زخموں پر گائے کا گوبر اور چند جڑی بوٹیاں کچل کر باندھی تھیں۔ شاید اس نے جو چادر اوڑھی ہوئی ہو، اس نے شیرنی کے پنجوں سے زہریلے مادے کو روک دیا ہو۔
یہ واقعہ ماموندر کے ریلوے سٹیشن سے بمشکل چار میل دور ہوا تھا اور وہاں پہاڑی اچانک تین سو فٹ نیچے ہو کر جنگل میں بدل جاتی ہے۔ یہاں ایک ندی بھی بہہ رہی تھی۔
زخمی ہونے کا اگلا واقعہ ایک موت پر منتج ہوا۔ اس بار بھی مویشیوں کے ریوڑ پر حملہ ہوا تھا اور بوڑھا آدمی زخموں کی تاب نہ لا کر مر گیا۔ اس بار بھی تقریباً پچھلے واقعے کی طرح واقعات ہوئے۔ شیرنی جنگل میں ریلوے لائن سے ایک میل دور چرنے والے ریوڑ پر حملہ آور ہوئی اور ایک بار پھر دودھیل گائے کو نشانہ بنایا۔ جب خوفزدہ مویشی بھاگ کر چرواہے کے پاس پہنچے تو وہ جائزہ لینے خود آیا۔ جلد ہی اس نے شیرنی کو مردہ گائے پر دیکھا۔ تاہم اس بار وہ شیرنی کو دیکھتے ہی وہیں رک گیا۔ مگر شیرنی کو اس کی موجودگی پسند نہیں آئی اور اس نے حملہ کر کے اسے بری طرح زخمی کر دیا۔ پھر وہ مردہ گائے کو گھسیٹ کر جھاڑیوں میں لے گئی۔
تین گھنٹے بعد مدد پہنچی۔ مویشی ریلوے لائن کو عبور کر گئے تھے۔ اس بندے کا بھائی اس کی تلاش میں نکلا تو دیکھا کہ مویشی تو موجود ہیں مگر رکھوالا غائب ہے۔ ریلوے لائن پر کھڑے ہو کر اس نے بھائی کو کئی آوازیں دیں مگر جواب نہ ملا۔ اسے گڑبڑ کا احساس ہوا تو وہ بھاگ کر ماموندر سے مدد لانے چلا گیا۔
کھوجی جماعت نے مویشیوں کے نشانات کا تعاقب کیا اور زخمی بندے تک آن پہنچے۔ جریانِ خون اور زخموں سے وہ بندہ قریب المرگ اور بیہوش تھا۔ وہ اسے اٹھا کر پہلے گاؤں اور پھر ریلوے سٹیشن لائے تاکہ مال گاڑی میں گارڈ کے ڈبے میں اسے نزدیکی قصبے رانی گنٹا لے جائیں۔ اُس جگہ ہسپتال تھا۔ مگر بوڑھا آدمی مال بردار گاڑی کے سفر میں ہی مر گیا۔
تیسری واردات کے بعد جا کر شیرنی نے آدم خوری شروع کی۔ اس بار بھی اس نے چرواہے پر حملہ کیا مگر اس بار یہ حملہ صبح نو بجے ہوا۔ اس حملے کے بارے ہمیں دوسرے چرواہے نے بتایا جو اس کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ شیرنی حسبِ معمول بھاگ کر آئی اور ایک کم عمر بیل پر حملہ کیا مگر اسے گرانے میں ناکام رہی۔ دوسری جانب بیل اپنی پشت پر سوار شیرنی کو لے کر چرواہوں کی جانب بھاگا۔ ان میں سے ایک جو زندہ بچا، وہ مڑ کر بھاگا۔ دوسرا حیرت اور خوف کے مارے وہیں گڑ گیا۔ بھاگنے والے نے ایک بار مڑ کر دیکھا تھا کہ شیرنی بیل کی پشت سے جست لگا کر اس بندے پر حملہ آور ہوئی۔ پھر اس نے دوبارہ مڑ کر نہیں دیکھا۔
امدادی جماعت لاٹھیوں اور توڑے دار بندوقوں سے مسلح ہو کر پہنچے تو چرواہے کی لاش نہ ملی۔ سو اس جماعت نے گاؤں جا کر مزید افراد کو اپنے ساتھ ملایا اور تقریباً تین گھنٹے بعد سو آدمی جمع ہو کر تلاش کو نکلے۔ نشانات واضح تھے اور جلد ہی وہ متوفی کی لاش پر پہنچ گئے جو اوندھی ایک نالے کے اندر ریت پر پڑی تھی۔ اس کے کولہوں اور سینے کا کچھ گوشت کھایا جا چکا تھا۔
اگلے دو ماہ میں شیرنی نے تین اور انسانوں کو اپنا لقمہ بنایا۔ ان میں سے ایک چرواہا تھا جبکہ دوسرا مسافر اور تیسرا ایک لمبانی تھا جو جنگل سے شہد جمع کرنے نکلا تھا۔ اس کے بعد مویشیوں کا جنگل میں چرنا اور شہد جمع کرنے کا کام روک دیا گیا۔ مسافروں نے بھی پیدل سفر کرنا بند کر دیا اور ٹرین سے سفر شروع کر دیا۔
اُس وقت محکمہ جنگلات کا ضلعی افسر مسٹر لٹل ووڈ تھا اور اس نے مجھے خط لکھ کر دعوت دی کہ میں اگلے چند روز اس کے ساتھ ماموندر کے خوبصورت فارسٹ بنگلے میں اس کے ساتھ گزاروں اور شیرنی کو مارنے کی کوشش کروں۔ پندرہ روز کی چھٹی لے کر میں نے بنگلور سے رات والی میل ٹرین پکڑی اور اگلے دن ساڑھے تین بجے دوپہر کو ماموندر اترا کہ یہ ٹرین بہت سست چلتی ہے۔
فارسٹ بنگلا سٹیشن سے سات فرلانگ دور ایک بنجر پہاڑی پر واقع ہے۔ اس بنگلے کو جانے والا راستہ ماموندر سے گزر کر جاتا ہے جہاں رک کر میں سب کو اپنی آمد کا سبب بتا دیا کہ میں یہاں اس شیرنی کو ہلاک کرنے آیا ہوں۔ میرا مقصد یہ تھا کہ لوگ اس خبر کو زیادہ سے زیادہ پھیلا دیں۔ اس طرح مجھے نہ صرف شیرنی کے بارے پوری تفصیل مل جاتی بلکہ کسی بھی انسان یا جانور پر ہونے والے نئے حملے کا بھی پتہ چلتا رہتا۔ اس کے علاوہ میں نے یہاں تین بھینسے بھی خریدے اور ایک مقامی شکاری اروکیا سوامی کے ذمے لگا دیے۔ یہ شکاری پہلے سے میرے لیے کام کر رہا تھا۔
اس بنگلے کا برآمدہ لمبا اور چوڑا تھا۔ یہاں سے پانچ مختلف فائر لائن یا فارسٹ لائن نکلتی تھیں۔ جنوب اور جنوب مغرب کو جانے والی لائنیں گاؤں اور ریلوے لائن کے قریب سے گزرتی تھیں۔باقی تین جنگل میں دور تک جاتی تھیں اور انسان کئی میل دور تک دیکھ سکتا تھا۔ شمال والی فائر لائن اس جگہ جاتی تھی جہاں پہلا چرواہا زخمی ہوا تھا۔ مشرق اور شمال مشرق کی جانب یہ بالکل سیدھی جاتی تھیں۔ ہر طرف زمین مسطح تھی۔
بہت برس قبل جب یہاں شکار بکثرت ہوتا تھا، میں نے بہت مرتبہ برآمدے یا صحن میں کھڑے ہو کر دورین کی مدد سے ان فارسٹ لائنوں پر جنگلی جانوروں کو علی الصبح یا شام کے وقت گزرتے دیکھا تھا۔ سانبھر، چیتل اور مور تو بکثرت انہیں عبور کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ تین بار ریچھ بھی انہیں عبور کرتے دیکھے تھے اور ایک بار شام پانچ بجے یہاں سے گزرتا دیکھا تھا۔ دو میل دور میں نے گیارہ جنگلی کتوں کو ایک بوڑھے ریچھ کا گھیراؤ کرتے دیکھا تھا۔ ریچھ کو عبرتناک انجام سے بچانے کے لیے میں پیچھے لپکا۔ تین کتے میری گولی کا شکار ہوئے تو اس کے ساتھیوں کو خطرے کا احساس ہوا۔ چوتھے کتے کی ہلاکت پر ان کا پورا گروہ بھاگ نکلا۔ جتنی دیر وہ نظروں سے اوجھل ہوتے، پانچواں کتا بھی اپنے انجام کو پہنچا۔
ان دنوں میرے پاس اعشاریہ 405 بور کی ونچسٹر تھی اور اب پانچوں گولیاں چلانے کے بعد خالی رائفل ہاتھ میں تھامے مجھے احساس ہوا کہ اب میرا سامنا غصے سے پاگل ریچھ سے ہے جو کتوں کے ہاتھوں زخمی بھی ہو چکا ہے۔
میں اس سے ساٹھ گز دور تھا جب اس نے سیدھا مجھ پر حملہ کر دیا۔ ‘ووف ووف‘ کرتا ہوا آیا اور میں نے فارسٹ لائن پر دوڑ لگا دی اور ساتھ ہی ساتھ رائفل میں گولی بھر کر رائفل کو تیار کر لیا۔ پھر مڑ کر میں نے ریچھ کی طرف رخ کیا جو اب محض پندرہ گز دور تھا۔ عام ریچھوں کی مانند پانچ گز کے فاصلے پر پہنچ کر وہ پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوا جسے ریچھ کا معانقہ کہتے ہیں اور ہر کوئی اس مہلک معانقے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
تاہم ہندوستانی ریچھ ایسا معانقہ نہیں کرتے بلکہ پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر ریچھ اپنے تین انچ لمبے ناخنوں سے شکار کا منہ نوچ لیتے ہیں یا پھر اس کے سر کو چبانے لگتے ہیں۔ تاہم جب ریچھ بلند ہوا تو اس کے سینے پر V کا نشان واضح دکھائی دینے لگا۔ ایک ہی کارتوس رائفل میں تھا، سو میں نے عین اسی نشان کے نچلے سرے پر گولی چلا دی اور ریچھ مجھ سے دو گز دور گرا اور مر گیا۔
تین جنگلی کتے نر اور دو مادہ تھے۔ محکمہ جنگلات ہر نر کے بدلے دس روپے اور مادہ کے بدلے پندرہ روپے کا انعام دیتا ہے۔ جنگلی کتے ہرنوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں اس لیے ان کی تباہی کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم مجھے ریچھ کی ہلاکت پر افسوس ہوا کہ ریچھ نے مجھے اس پر مجبور کر دیا تھا۔
تاہم یہ سب بہت عرصہ قبل ہوا تھا۔
اس بنگلے کو ایک اور چیز پسندیدہ بناتی ہے۔ دن کو دو بجے کے بعد سمندر کی جانب سے ٹھنڈی ہوا چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ میرے خیال میں اس بنگلے سے براہ راست اگر دیکھا جائے تو خلیج بنگال پچہتر میل سے کم نہیں۔ تاہم میں اتنا ماہر نہیں کہ یہ کہہ سکوں کہ سمندر کی ہوا کتنے فاصلے پر پہنچ کر بے اثر ہو جاتی ہے۔ مجھے اتنا علم ہے کہ ہر روز دو بجے کے بعد یہ بنگلہ کافی ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور قیلولہ کرنے میں بہت مزہ آتا ہے۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو ماموندر کے فارسٹ بنگلے کا چکر لگا لیں۔
اس روز بہت دیر ہو گئی تھی کہ بھینسے ساڑھے پانچ آن پہنچے، سو میں نے ایک بھینسا دو میل دور شمالی فائر لائن پر املی کے بڑے درخت کے نیچے باندھا۔ سات بجے کے بعد میں واپس بنگلے پہنچا اور گیراج میں دیگر دو بھینسے باندھد یے اور ارکیا سوامی سے کہا کہ وہ باورچی خانے میں سو جائے۔
اگلی صبح ہم باہر نکلے۔ سب سے پہلے ہم نے رات والے گارے کا معائنہ کیا جو زندہ سلامت تھا اور اسے عین اُس جگہ لے گئے جہاں پہلی واردات ہوئی تھی۔ یہاں ہم نے بھینسے کو گھاس کے ایک خوبصورت قطعے میں درخت کی جڑ سے باندھ دیا۔
ہم بنگلے واپس لوٹے اور دوسرے بھینسے کو مشرق کو جانے والی فائر لائن پر لے گئے اور تقریباً اسی جگہ جا کر باندھ دیا جہاں ریچھ اور جنگلی کتوں والا واقعہ ہوا تھا۔
پھر بنگلے آ کر ہم نے تیسرے بھینسے کو ریلوے لائن کے مغرب میں لے جا کر وہاں باندھا جہاں بوڑھا چرواہا ہلاک ہوا تھا۔
جب ہم تیسری بار بنگلے لوٹے تو گرمی بہت بڑھ چکی تھی۔ پسینے سے بھیگی اپنی قمیض اتار کر میں نے ٹھنڈا کھانا کھایا اور سمندری ہوا کا انتظار کرنے لگا جو مجھے علم تھا کہ دو بجے شروع ہو جائے گی۔ عین دو بجے ہوا چلنا شروع ہوئی اور انتہائی گرم برآمدہ اچانک ٹھنڈا ہونے لگا۔
اگلے دو دن بیکار گزرے۔ میں ہر روز گاروں کا انتظار کرتا مگر انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا۔ پانچویں روز کی شام کو تکلیف دہ حادثہ پیش آیا۔
جنوبی ہندوستان میں ریلوے لائن کے کنارے رات کے وقت مٹی کے تیل سے جلنے والے اشارے استعمال ہوتے ہیں مگر بڑے ریلوے جنکشنوں کے شنٹنگ یارڈ پر ایسا نہیں ہوتا۔ آپ کو علم ہوگا کہ ہر ریلوے سٹیشن پر دو اشارے دونوں سمتوں میں ہوتے ہیں۔ نزدیکی اشارے کو ہوم سگنل اور بیرونی کو آؤٹر سگنل کہتے ہیں۔ عام طور پر ریلوے کے ملازمین ہر روز شام کو چھ بجے ان لیمپوں کے شیشے صاف کر کے بتی کو تراشتے ہیں اور پھر جلا کر واپس آ جاتے ہیں۔ تاہم ماموندر کی آدم خور شیرنی کی وجہ سے اور چونکہ دونوں سمتوں کے آؤٹر سگنل عین جنگل میں تھے، یہ کام سورج غروب ہونے سے قبل پانچ بجے سے پہلے سرانجام دے دیا جاتا تھا۔
اس شام کو چار بجے دو پوائنٹس مین سنگل جلانے نکلے۔ دونوں نے مخالف سمتوں کا رخ کیا۔ دوسرا پوائنٹس مین واپس نہ لوٹا۔
چھ بجے سے ذرا قبل سات افراد کی جماعت دوڑتی ہوئی بنگلے میں اطلاع دینے آئی۔ انہیں سٹیشن ماسٹر نے بھیجا تھا۔ رائفل، ٹارچ اور رت جگے کے لیے درکار دیگر چیزیں اٹھاتے ہوئے میں نے ان لوگوں کو ارکیا سوامی کے ساتھ سٹیشن بھیجا کہ وہ اب رات کو اکیلا بنگلے میں رہنے کے خیال سے دہشت زدہ تھا۔ پھر میں نے مغرب کو جانے والے فارسٹ لائن کا رخ کیا جس کے بارے مجھے علم تھا کہ یہ اندرونی اور بیرونی سگنلوں کے درمیان سے گزرتی تھی۔
جب میں ریلوے لائن کو پہنچا جو زمین سے دس فٹ اونچی گزرتی ہے، میں نے بائیں جانب دیکھا تو پتہ چلا کہ اندرونی سگنل چمک رہا تھا۔
میں نے سوچا: ‘احمق آدمی، ابھی دن موجود تھا تو اسے پہلے بیرونی سگنل جلانا چاہیے تھا اور پھر اندرونی سگنل کو جاتا۔ اس طرح اس نے پہلے اندرونی سگنل جلایا جس سے کافی وقت ضائع ہو گیا۔‘
پھر دائیں جانب مڑ کر میں آؤٹر سگنل کو گیا جو موڑ مڑنے کے بعد دکھائی دیا۔ چلتے ہوئے میں زمین پر غور سے دیکھتا گیا کہ حملہ یہیں کہیں ہوا ہوگا مگر مجھے کوئی نشان نہ دکھائی دیا۔ جب میں نے آؤٹر سگنل کے پاس پہنچ کر سر اٹھایا تو دیکھا کہ یہ روشن تھا۔ یعنی پوائنٹس مین دراصل بیرونی سگنل جلائے جانے کے بعد ہلاک ہوا۔ اندرونی سگنل بھی جل رہا تھا۔ یعنی سنگل مین کی ہلاکت اندرونی سنگل اور سٹیشن کے درمیان کہیں ہوئی تھی۔
مگر ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ اندرونی سنگل سے بھی پہلے کھیت شروع ہو جاتے تھے جو سٹیشن تک پھیلے ہوئے تھے۔ سو کوئی شیر چاہے وہ آدم خور ہی کیوں نہ ہو، کیا دن کے وقت کھلے میں آ سکتا ہے؟ ایسا ہونا ممکن تو تھا مگر بہت کم امکان تھا۔
میری گھڑی پر 6 بج کر 55 منٹ ہو رہے تھے اور اندھیرا چھانے لگا تھا۔ اس لیے میں نے بہت محتاط ہو کر اندرونی سگنل کو گیا۔ خوش قسمتی سے چاند نکل آیا تھا اور چاندنی سے اندھیرا چھٹ گیا تھا۔
جہاں میں پہلے پہنچا تھا، وہاں پہنچا تو دیکھا کہ فارسٹ لائن کی طرف سے ایک نالی آ رہی تھی جو گہرے نالے میں بدل جاتی تھی۔ وہاں مجھے کوئی چیز ریلوے کے سلپیروں کے نیچے پھڑپھڑاتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میں رکا اور جھک کر سلیپروں کے درمیان دیکھا۔
یہ متوفی کی سفید دھوتی تھی جو پتھر میں پھنسی ہوئی تھی۔ اس سے بیس فٹ دور ایک تاریک چیز دکھائی دی جو مجھے علم تھا کہ متوفی کی لاش ہوگی۔ اس کم روشنی میں بھی میں بتا سکتا تھا کہ اتنی مختصر مدت میں ہی اس لاش کو جزوی طور پر کھایا گیا ہے۔ گردن پوری طرح چبائی گئی تھی اور سر الگ ہو کر ایک گز دور پڑا تھا۔ شاید شیرنی اس وقت بھی پاس ہی کہیں چھپی ہوئی ہو یا مجھے دیکھ رہی ہو، سو نیچے اتر کر لاش کا تفصیلی معائنہ کرنا فضول ہوتا۔
بعجلت جائزہ لیا تو فیصلہ کیا کہ میں ریلوے کی پٹری پر آڑا لیٹنا ہی پڑے گا۔ یہ جگہ نالے کے عین وسط میں تھی۔ اس طرح میں سامنے اور پیچھے سے حملے سے محفوظ رہتا کہ شیرنی کو نالے کی تہہ سے کم از کم پندرہ فٹ کی چھلانگ لگانی پڑتی۔ اس طرح شیرنی دائیں یا بائیں سے حملہ کرتی۔ میں یہ بتانا بھول گیا تھا کہ نالے کی چوڑائی بیس فٹ تھی۔ اگرچہ یہ زیادہ نہیں مگر مجھے اتنا وقت مل جاتا کہ شیرنی کی آمد سے خبردار ہو جاتا۔
یہ بھی ممکن تھا کہ شیرنی نالے کے کنارے پر چڑھ کر جست لگات، جو میرے پیچھے یا اطراف سے بھی ہو سکتا تھا۔ تاہم یہ خطرہ مول لینا ہی تھا۔
بنگلے سے روانہ ہوتے وقت میں نے ٹارچ کو رائفل پر لگا لیا تھا۔ میں نے اپنا تھیلا اپنے سامنے رکھا اور اس پر اوندھا لیٹ گیا۔ یہ پٹڑی براڈ گیج تھی اور دونوں کا درمیانی فاصلہ ساڑھے پانچ فٹ تھا۔ اپنی ٹانگیں پھیلائیں تو پیروں کے تلوے دوسری ریل کو چھونے لگے۔ میں آٹھ انچ چوڑے ٹیک کی لکڑی کے سلیپر پر لیٹا تھا جو بہت سخت تھا۔
چاند خوب چمک رہا تھا اور پورا منظر واضح دکھائی دے رہا تھا۔ لاش اور اس کا سر مجھے صاف دکھائی دے رہے تھے جو نالے کی باریک ریت پر پڑے تھے۔ ہر طرف موت کا سا سکوت چھایا ہوا تھا۔
لال رنگ کا آؤٹر سگنل مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا۔
گھنٹے گزرتے رہے۔ مغرب کی سمت جنگل سے سانبھر کی آواز سنائی دی۔ شاید شیرنی کو دیکھ کر سانبھر بولا ہو؟ نہیں، دوسرے سانبھر نے شمال مشرق سے جواب دیا اور تیسرے کی آواز مشرق سے ائی۔ وقفے وقفے سے چیتل بھی آوازیں نکالتے رہے۔
تاہم یہ ساری آوازیں مختلف سمتوں سے آتی رہیں، اگر آواز ایک سمت سے آ رہی ہوتی تو اس کا مطلب کسی درندے کی موجودگی ہوتی۔ مگر ہر طرف سے آنے والی آوازیں بتا رہی تھیں کہ کئی درندے نکلے ہوئے ہیں۔ چاندنی رات کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ جنگلی کتوں کا غولِ بیابانی شکار پر نکلا ہو۔ جنگلی کتے عموماً دن کے وقت یا پھر بعض جنگلوں میں چاندنی رات کو بھی شکار پر نکلتے ہیں مگر تاریک راتوں میں دکھائی نہیں دیتے۔
نصف شب کو خاموشی چھا گئی۔ پھر اچانک میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے کیونکہ ایک عجیب منظر دکھائی دیا۔کٹا ہوا سر اچانک ایک جانب لڑھک گیا۔
ابھی تک اس کا رخ آسمان کی جانب تھا مگر اب اس کی بے جان آنکھیں میری جانب ہو گئیں۔ حالانکہ کسی جانور نے اسے نہیں چھوؤا۔ یہ سر کھلی جگہ چاندنی تلے صاف دکھائی دے رہا تھا۔
پھر سر نے دوبارہ حرکت کی اور واپس پہلی حالت میں چلا گیا۔ پھر نصف مڑا اور جیسے حرکت کی سکت نہ ہو، رک گیا اور پھر مڑ کر اپنی بے جان آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگا۔
میں بتاتا چلوں کہ میں توہم پرست نہیں اور نہ ہی اندھیرے سے ڈرتا ہوں۔ میں نے بے شمار راتیں اس سے بھی خطرناک جگہوں پر گزاری ہیں۔ میں نے ادھ کھائی انسانی لاشوں پر بھی آدم خور کا انتظار کرتے ان گنت راتیں بسر کی ہیں اور پہلے بھی مجھے ایسے لگا تھا کہ جیسے لاشیں حرکت کر رہی ہوں۔ مگر کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کٹا ہوا سر اپنے آپ اس طرح ہلا ہو۔
انتہائی شدید خوف نے مجھے جیسے جکڑ لیا ہو اور دل چاہا کہ اٹھ کر بھاگ جاؤں۔ مگر پھر عقلِ سلیم نے تسلی دی کہ مردہ انسانی سر کسی بھی قیمت پر خود سے نہیں ہل سکتا۔ مگر پھر کس چیز نے اسے ہلایا ہوگا؟
میں نے سر کو بغور دیکھا اور پھر چاندنی میں مجھے جواب مل گیا۔ سفید ریت پر دو تاریک جسم ہلتے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ دو کالے بھنورے تھے جو ڈیڑھ انچ لمبے ہوتے ہیں۔ انہیں Rhinoceros beetles کہتے ہیں اور ان کی ناک لمبوتری ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ شبینہ ہوتے ہیں مگر علی الصبح یا شام کو بھی جنگل میں دکھائی دے جاتے ہیں اور عموماً گوبر کی گیند بنا کر اسے لڑھکائے جا رہے ہوتے ہیں جو ان سے دو یا تین گنا زیادہ بڑی ہوتی ہے۔
دونوں بھنوروں نے مل کر ایک بار سر کو حرکت دے دی مگر دوسری بار کامیاب نہ ہو پائے۔ میں اس منظر میں اتنا کھو گیا تھا کہ مجھے شیرنی یکسر بھول گئی تھی۔اگر شیرنی حملہ کرتی تو میں بالکل تیار نہ ہوتا۔
ایک بج کر چالیس منٹ پر پٹڑیاں لرزنے لگیں۔ پھر مجھے دور سے آواز نزدیک ہوتی سنائی دی۔ پھر تیز سیٹی کی آواز نے ماحول درہم برہم کر دیا اور پھر انجن کی طاقتور روشنی مجھ پر پڑی۔ مدراس سے بمبئی جانے والی نائٹ میل ٹرین تھی۔
بادلِ نخواستہ میں اٹھا اور اپنا تھیلا اٹھا کر نالے کے کنارے پٹڑی سے دو فٹ دور چلا گیا۔ تاہم مجھے ٹرین ڈرائیور یاد نہ رہا۔ اس نے روشنی میں مجھے دیکھ لیا تھا مگر میری رائفل اسے دکھائی نہ دی۔ چند منٹ بعد اس نے مجھے بتایا کہ وہ سمجھا کہ میں خودکشی کرنے لیٹا تھا اور عین وقت پر ہمت جواب دے گئی تو اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ بتاتا چلوں کہ ہندوستان میں خودکشی کا یہ طریقہ کافی مقبول ہے۔
خیر، بریکوں کی آواز اور بھاپ کی سیٹی کے بعد ٹرین مجھ سے تھوڑا آگے جا کر رکی۔ اگلے لمحے بھاری بوٹوں کی دھمک ہوئی اور کئی لوگ میری جانب لپکے۔ یہ ڈرائیور اور دو فائر مین تھے جو انجن سے اترے۔
آتے ہی انہوں نے مجھے دبوچ لیا۔ پھر انہیں احساس ہوا کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس دوران بوگی کی کھڑکیوں سے لوگوں نے سرنکال کر دیکھنا شروع کر دیا اور سینکڑوں آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ گارڈ بھی ٹرین کے عقب سے آیا۔ سو انہیں حقیقت بتانی ہی پڑی۔
‘لاش کہاں ہے؟‘ ادھیڑ عمر کے اینگلو انڈین ڈرائیور نے پوچھا۔ میں نے لاش کی جانب اشارہ کیا۔ ‘تم یہاں اکیلے لیٹے ہوئے ہو؟‘ اس نے غیر یقینی سے پوچھا۔
جب میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے کہا، ‘تم پاگل ہو گئے ہو‘ اور ساتھ اپنی کھوپڑی کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے دو فائرمین اور ہندوستانی گارڈ نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
چند منٹ بعد ٹرین بمبئی کو اپنے سفر پر روانہ ہو گئی اور میں پھر اکیلا رہ گیا۔ اتنے شور و غل کے بعد شیرنی کا آنا ناممکن لگ رہا تھا۔
اڑھائی بجے پھر پٹڑیاں لرزنے لگیں۔ اس بار انجن کی روشنی پڑنے سے قبل ہی میں کنارے پر لیٹ گیا اور رائفل چھپا دی۔ نتیجتاً مال بردار گاڑی بغیر رکے نکل گئی۔ چار بجے پھر یہ عمل دہرایا گیا اور اس بار ریٹرن میل ٹرین تھی جو پوری رفتار سے بمبئی سے مدراس جا رہی تھی کہ میل ٹرینیں ماموندر پر نہیں رکتیں۔
صبح کاذب آئی اور چلی گئی۔ پھر دور سے بیدار ہوتے مور کی آواز سنائی دی جس کے فوراً بعد جنگل کے سب سے پیارے پرندے بھورے جنگلی مرغ کی آواز آئی۔
ہلکے گلابی رنگ کی لکیر مشرقی پہاڑیوں پر دکھائی دی جو کالے آسمان میں واضح دکھائی دے رہی تھی۔ اسی دوران ساری رات چمکنے کے بعد چاند غروب ہونے والا تھا اور اب مدھم پڑنا شروع ہو گیا۔
پھر گلابی رنگ مدھم ہوتا ہوا سرخی مائل اور پھر سبز اور نیلے کے رنگوں کے امتزاج کے ساتھ بدلتا رہا۔ پھر اس کا رنگ عنابی مائل زرد ہوا اور پھر نارنجی اور پھر گہرا سرخ اور پھر سورج مشرقی پہاڑیوں کے اوپر سے نمودار ہوا۔
سورج کی روشنی بڑھنے لگی اور آخرکار پورا سورج نکل آیا۔ آسمان پر خوبصورت بادل دکھائی دے رہے تھے۔ پھر اچانک سارے جنگل سے اندھیرا چھٹ گیا اور سورج کی روشنی ہر جگہ پڑنے لگی۔
ایک نیا دن پیدا ہوا اور اپنے ہمراہ پورے جنگل کے پرندوں کی خوبصورت چہکار لے کر آیا۔ ہر جھاڑی اور درخت زندگی سے بھرپور اور تازہ دم تھا۔ ہندوستانی جنگلوں میں طلوعِ آفتاب دیکھنے والے لوگ کبھی وہ منظر نہیں بھول سکتے۔
سر کا رخ اب بھی میری جانب تھا مگر اس نے دوبارہ حرکت نہیں کی۔ اسے حرکت دینے والے بھنورے کب کے جا چکے تھے۔
میں نے سٹیشن کا رخ کیا اور مایوسی کی حالت میں سٹیشن ماسٹر کو حالات سے آگاہی دی کہ وہ متوفی کی لاش کو شمشان گھاٹ بھجوا دے۔ آٹھ بجے میں بنگلے کے برآمدے میں سو رہا تھا۔ دوپہر کو سمندری ہوا سے میری نیند بھی گہری ہو گئی۔
چار بجے میں اٹھا تو بالکل تازہ دم تھا اور جلدی جلدی دوپہر کا کھانا کھا کر چائے پی۔ اتنی دیر میں ارکیا سوامی نے بتایا کہ وہ چار دیگر افراد کے سات گاروں کو دیکھنے گیا تھا اور سبھی بعافیت تھے۔ لگتا تھا کہ شیرنی انہیں نہیں مارنے والی۔
پھر مغرب کا وقت ہوا اور بہترین چاندنی پھیل گئی۔ میرا دل چاہا کہ گشت کروں۔ اگر میں فائر لائن کے عین وسط میں چلتا تو محتاط چلتے ہوئے میں محفوظ رہتا۔ اس کے علاوہ یہ شیرنی کو للچانے کا بھی ایک طریقہ تھا۔
میں اپنے ہمراہ خاکی کپڑے اور کالی قمیض لایا تھا جو رات کو مچان پر بیٹھنے کے لیے ہی مناسب ہوتے ہیں۔ سو میں نے ارکیا سوامی کے گھر جا کر اس کی لمبی سفید قمیض مانگی اور نیچے خاکی پتلون پہنی ہوئی تھی۔ پھر ارکیا سوامی نے میرے سر پر پگڑی بھی باندھ دی۔
پتہ نہیں کہ مجھے دیکھ کر شیرنی کو کیا محسوس ہوتا مگر دیہاتی لوگ میرا منصوبہ سن کر کافی پریشان ہوئے۔
کچھ دیر تو میں سوچتا رہا کہ کون سی فائر لائن لوں پھر میں نے مشرقی سمت جانے والی لائن پکڑ لی۔ ساڑھے سات بجے گشت کا آغاز ہوا۔ میں لائن کے عین وسط میں چل رہا تھا اور آنکھوں کو حرکت دیتے ہوئے دونوں اطراف سے پوری طرح چوکنا تھا۔ وقتاً فوقتاً میں اپنے عقب میں بھی دیکھ لیتا۔
اگرچہ چاندنی خوب چھٹکی ہوئی تھی مگر جھاڑیوں کے نیچے تاریکی ہی تھی۔ پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ چاندنی کے باوجود مجھے جھاڑیوں میں بیٹھے درندے کو دیکھنا کارِ دارد ہوگا اور یہ شیرنی تو ویسے بھی چھپی ہوئی ہوگی۔اس لیے میں نے سماعت پر بھروسہ کیا اور ساتھ چھٹی حس بھی تو موجود تھی۔
ہر دس منٹ بعد میں سیٹی پر کوئی نہ کوئی دھن بجاتا تاکہ شیرنی کی توجہ اپنی طرف مرکوز کر سکوں۔ ہر تیس سیکنڈ بعد اسے روک دیتا تاکہ میرے کانوں کو آوازیں سننے میں مشکل نہ ہو۔
جھاڑیوں سے بھری کئی پہاڑیوں کے پاس سے میں نے گزرتے ہوئے سرسراہٹیں سنیں۔ یہ آوازیں بانس کے جھنڈ میں رہنے والے چوہے عام نکالتے ہیں جو میری آمد سے خبردار ہو کر چھپ جاتے تھے۔ پھر مجھے طویل سرسراہٹ سنائی دی جو شاید رسل وائپر ہوگا۔ اس سانپ کی عادت ہے کہ کنڈلی مار کر بیٹھتا ہے تاکہ گرم ہو سکے۔ پھر فائر لائن سے گزرنے والے ایک خرگوش پر آسمان سے کوئی بھاری چیز گری۔ یہ بڑا الو تھا جو خرگوش کی پیشانی پر اب مسلسل ٹھونگے مارتا جا رہا تھا۔ میں نزدیک پہنچا تو الو نے اپنے پر خرگوش کے گرد اس طرح پھیلا دیے جیسے وہ اسے بچا رہا ہو، ویسے ہی جیسے مرغی چوزوں کو بچاتی ہے۔ جب میں بہت قریب پہنچا تو الو اڑ گیا۔ میں نے لپک کر خرگوش کو اٹھایا اور اس کی کمر تھپکی۔ جونہی اسے ہوش آیا، اس نے لاتیں مارنا شروع کر دیں۔ میں نے اسے نرمی سے زمین پر رکھا اور وہ بھاگ کر اونچی گھاس میں گم ہو گیا۔
ان جنگلوں میں بھینسے نہیں ہوتے مگر ریچھ عام ملتے ہیں۔ جلد ہی ریچھ دکھائی دے گیا جو دیمک کھائے جا رہا تھا۔ درمیان میں وہ عجیب عجیب طرح کی بڑبڑاہٹ اور غراہٹ کی آوازیں نکالے جا رہا تھا۔ اس آواز سے مجھے اس کی موجودگی کا علم ہوا اور پھر دکھائی دے گیا۔
یہاں میرے دائیں جانب دیمک کی بل تھی اور اس کے پاس کھڑے ہو کر ریچھ نے اس میں سوراخ کیا اور سر ڈال کر دیمک ہڑپ کرنا شروع کر دی۔ جب بھی بڑی مقدار میں دیمک نگلتا تو خوشی کی آواز آتی۔
ریچھ اتنا مصروف تھا کہ میں اس کے پاس سے گزر گیا مگر اسے میری موجودگی کا احساس تک نہ ہوا۔ دو گھنٹے تک میں اس فائر لائن پر چلتا رہا اور پھر واپس مڑا۔ ریچھ جا چکا تھا۔ فارسٹ بنگلے تک کچھ اور نہ دکھائی دیا۔
پھر میں نے شمالی فائر لائن کا رخ کیا اور ریل کی پٹڑی کی سمت چل پڑا۔ یہ فائر لائن سیدھی نہیں ہے بلکہ دائیں بائیں گھومتی جاتی ہے۔ تیسرے میل پر ایک ندی راستے میں پڑتی ہے جس میں صاف شفاف اور ٹھنڈا پانی چاندی کی طرح چمک رہا تھا۔
یہاں جھک کر میں نے بائیں ہاتھ کی اوک سے پانی پیا جبکہ دائیں ہاتھ میں رائفل تھامی ہوئی تھی۔ اس دوران میں نے پوری توجہ سے آس پاس کے جنگل کو دیکھا۔ تاہم نہ تو کچھ دکھائی دیا اور نہ ہی کچھ سنائی دیا۔ میں پھر چل پڑا۔
گارا اگلے موڑ پر بندھا ہوا تھا اور صحیح سلامت تھا۔ جب میں پاس سے گزرا تو اس نے مجھے عجیب سے انداز سے دیکھا کہ میں نے اسے کیوں یہاں باندھا ہوا ہے۔ میرے پاس اس کا جواب نہیں تھا، سو نظریں چراتے ہوئے میں چل پڑا۔
آخرکار میں پٹڑی پر پہنچا۔ یہاں فائر لائن رک جاتی ہے اور یہاں سے جنگلی جانوروں کی گزرگاہ شروع ہو کر سبزے میں گم ہو جاتی ہے۔ مزید آگے جانا خطرناک ہوتا۔ سو میں واپس مڑا۔
واپسی کے راستے پر مجھے ایک کوبرا دکھائی دیا جو جنگلی چوہے کو نگل رہا تھا۔ تین چوتھائی چوہا اندر تھا اور پچھلے پیر اور دم لٹک رہی تھی۔ سانپ نے مجھے دیکھا تو اپنا پھن زمین سے دو فٹ اوپر اٹھا کر پھیلا دیا۔ پچھلی ٹانگیں اور دم اس کے منہ سے لٹک رہی تھیں۔ اس کی آنکھیں چاندنی میں انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں۔
یہاں رک کر میں نے نے زمین پر پیر مارے اور تالی بجائی۔ سانپ اچانک پریشان ہوا اور چوہے کو اگلنے کے بعد ایک طرف کی گھاس میں گم ہو گیا۔
ایک بار پھر میں بنگلے کو پہنچ گیا۔ پونے تین بج رہے تھے اور میں ںے بیس میل طے کر لیے تھے۔
اب دو فائر لائن بچ گئی تھیں مگر میرے پاس ایک کا وقت تھا۔ یا تو جنوب مشرق والی کا رخ کرتا جو ابھی تک میں نے نہیں دیکھی تھی یا پھر جنوب مغرب والی کا رخ کرتا جو ریلوے کی پٹڑی کو جاتی ہے اور وہاں پچھلی رات میں لاش پر بیٹھا تھا۔ بغیر کسی وجہ کے میں نے دوسری کا رخ کیا۔
میں ریلوے لائن تک پہنچا اور اسے عبور کر کے مزید آگے ایک میل مغرب کو گیا کہ اچانک شیرنی کی دھاڑ سے رات کا سناٹا ٹوٹ گیا۔ ایسا لگا کہ شیرنی مجھ سے محض دو فرلانگ آگے ہو۔ شاید شیرنی اسی فائر لائن پر ہی آ رہی ہو یا اس کا رخ دوسری جانب ہو۔
پچاس گز دوڑ کر میں ایک درخت کے پیچھے چھپا اور رائفل کو تیار کر کے تانا اور پھر نر شیر کی آواز نکالی۔
فوری جواب ملا اور اس بار یہ جواب محض سو گز دور سے آیا تھا۔ اب اگر میں دوبارہ بولتا تو اتنے قریب سے شیرنی کو احساس ہو جاتا کہ آواز نقلی ہے۔
بہت قریب سے شیر کی آواز نہیں نکالنی چاہیے کیونکہ اصلی شیر آواز کا فرق پہچان لیتا ہے۔ اگر شیر کو شک ہو جائے تو فرار ہو جاتا ہے۔ سو گز سے زیادہ دوری پر یہ آواز کام دیتی ہے۔ اگرچہ آدم خور شیر ہو یا ویسے فطری تجسس، عین ممکن ہے کہ شیر پھر بھی آ جائے، مگر اس کو شک ہو جائے تو فرار بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے میں خاموش رہا۔
تیس سیکنڈ بعد شیرنی میرے سامنے فائر لائن پر آتی دکھائی دی۔ اس کی کھال چاندنی میں چمک رہی تھی۔ وہ میرے سامنے پہنچی اور پھر گزر گئی۔
میں نے کان کے پیچھے گولی چلائی۔ زمین پر گرتے ہوئے اس کی دم ایک بار ہلی۔ اسے علم بھی نہ ہو سکا کہ کیا ہوا ہے۔ انتہائی غیر شکاری انداز سے شیرنی ہلاک ہوئی۔
تاہم گزشتہ کئی سال سے ماموندر میں درندوں کے ہاتھوں کوئی انسانی ہلاکت نہیں ہوئی۔ یہ شیرنی نوجوان اور ہٹی کٹی تھی اور کوئی وجہ نہیں دکھائی دی کہ اس نے کیوں آدم خوری شروع کی۔ شاید چملا کے آدم خور نے اسے عادت ڈالی ہو۔
گرہٹی کا پاگل ہاتھی
یہ ایک پاگل ہاتھی کی داستان ہے جسے مدراس کی حکومت نے سرکاری طور پر سالم کے کلکٹر اور ضلعی افسر برائے جنگلات کے ذریعے پاگل قرار دیا تھا۔
یہ واقعات بہت پہلے رونما ہوئے تھے۔ عام پاگل ہاتھیوں کی مانند اس ہاتھی کے پاگل ہونے کا سبب بھی معلوم نہیں ہو سکا۔ گرہٹی کے فارسٹ گارڈ کے مطابق اس ہاتھی کے پاگل ہونے سے ایک ماہ قبل رات کے وقت اس نے دو نر ہاتھیوں کی لڑائی کی آواز جنگل میں سنی تھی۔ اس کے مطابق لڑائی تین گھنٹے سے زیادہ جاری رہی اور فارسٹ بنگلے سے نصف میل دور چشمے پر ہوئی تھی۔
اگلے روز وہ جنگل گیا تو اس نے بہت زیادہ خون دیکھا۔ اس کے بیان کردہ واقعات سے اندازہ ہے کہ یہ لڑائی بہت بڑی تھی۔ شاید پاگل ہاتھی اس لڑائی میں شدید زخمی ہوا ہوگا اور پھر اس نے نسلِ انسانی سے انتقام لینا شروع کر دیا۔
ایک اور وجہ یہ بھی بیان کی جاتی تھی کہ شاید یہ مست ہاتھی ہوگا۔ ہر سال نر ہاتھی تین ماہ کے لیے مست ہوتے ہیں اور بہت خطرناک ہو جاتے ہیں۔
تیسرا امکان یہ ہے کہ ضلع سالم میں بہت سارے چور شکاری ہیں اور یہ ہاتھی ان میں سے کسی کی گولی کا نشانہ بنا ہوگا۔ یہ لوگ خشک موسم میں چشموں اور چاٹن (جہاں مٹی میں قدرتی طور پر نمک ملتا ہو) کے قریب چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں اور وہاں آنے والے ہر معصوم جانور کو بے دریغ ہلاک کرتے جاتے ہیں۔ شاید کسی چور شکاری نے غلطی سے یا گھبرا کر ہاتھی کو گولی ماری ہو اور زخمی ہاتھی پاگل ہو گیا ہو۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی فصل کی حفاظت کرتے ہوئے کسی کسان نے اس پر توڑے دار بندوق سے گولی چلائی ہو۔ ہاتھی جنگل کے قریب کھیتوں میں سخت تباہی پھیلاتے ہیں۔
وجہ جو بھی رہی ہو، گرہٹی کا پاگل ہاتھی اچانک نمودار ہوا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے پورا جنگل بند کر کے دہشت پھیلا دی اور پیدل مسافر اور بیل گاڑی پر سوار افراد چار سو مربع میل کے اس علاقے سے کترانے لگے۔
گرہٹی چھوٹی سی بستی ہے جس میں پانچ یا چھ گھر ہیں اور انچٹی سے پناگرام جانے والی سڑک سے دو میل دور وادی میں ہے۔ یہ جگہ ضلع سالم کے شمالی فارسٹ ڈویژن میں ہے۔ یہاں کا علاقہ پہاڑی ہے اور تلوادی کی ندی سے تین میل کے فاصلے تک بانس کے گھنے جنگل ہیں۔ اس مقام سے پندرہ میل آگے جا کر تلوادی ندی دریائے کاویری سے مل جاتی ہے۔ بانس کے جنگل میں ہمیشہ سے ہاتھی رہتے آئے ہیں اور اکثر تین چار تنہا ہاتھی بھی مل جاتے ہیں جو اگرچہ پاگل تو نہیں ہوتے، مگر ان کا سامنا کرنے سے عموماً گریز ہی کیا جاتا ہے۔
ایک اور ندی گولاموٹھی کے نام سے ہے جو تلوادی کے متوازی اور اس سے بارہ میل شمال میں بہتی ہے اور آگے جا کر گنڈالم دریا سے ملتی ہے۔ یہ دریا مزید آگے کاویری سے مل جاتا ہے۔ یہ تین دریا اور یہاں کی پہاڑیاں اور بانس کے گھنے جنگل ہاتھیوں کی رہائش کے لیے بہترین مقام ہیں اور یہیں سے پاگل ہاتھی کی وارداتوں کا آغاز ہوا۔
ابتدا کچھ ایسے ہوئی۔ گرمیوں کے وسط میں گولاموتی کی ندی خشک ہو گئی اور کہیں کہیں پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب سے بچ گئے جو دریا کی تہہ میں اور پتھروں سے گھرے ہوئے ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک تالاب میں کچھ مچھلیاں بھی جمع ہو گئی تھیں جو چھ سے آٹھ انچ لمبی تھیں۔ ایک روز سہ پہر کے وقت پانچ میل دور انچٹی سے دو بندے اس خشک ہوتے ہوئے تالاب میں جال ڈال کر مچھلیاں پکڑنے آئے۔
تالاب پر پہنچ کر انہوں نے جال لگایا۔ جلد ہی کافی مچھلیاں پکڑ لیں۔ پھر مچھلیاں ٹوکریوں میں ڈال کر وہ ایک درخت کے نیچے قیلولہ کرنے سو گئے۔
پانچ بجے ان میں سے ایک کی آنکھ کھلی۔ سورج تالاب کے مغرب والی پہاڑی کے پیچھے چھپ گیا تھا مگر روشنی خاصی تھی۔ جب وہ بیٹھا تو پیچھے سے کوئی آواز سنائی دی۔ مڑ کر دیکھا کہ گولاموتی کے جنوبی کنارے سے ہاتھی اتر کر ان کی سمت آ رہا تھا۔
اس بندے نے اپنے ساتھی کو جھنجھوڑا اور تامل میں چیخا: ‘انائی وارا دھو‘ جس کا مطلب تھا کہ ہاتھی آ رہا ہے۔ پھر وہ بندہ شمالی کنارے کے جنگل کو بھاگ گیا۔ اس کا ساتھی اچانک نیند سے بیدار ہوا تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا اور حیرت سے اپنے ساتھی کو جاتے دیکھتا رہا۔ اتنے میں ہاتھی سر پر آ گیا۔
فرار ہونے والا بندہ اپنے پیچھے ساتھی کی چیخیں سنتا رہا جو ہاتھی کی چنگھاڑ کے ساتھ آ رہی تھیں۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ ظاہر ہے کہ اس نے رک کر صورتحال جاننے کی کوشش نہیں کی۔ دو روز بعد انچٹی سے ایک جماعت اس بندے کی باقیات کو اٹھانے آئی جو گوشت اور ہڈیوں کے ملغوبے کی شکل میں باقی تھا۔ پہلے ہاتھی نے اس پر اپنا پیر رکھا اور پھر سونڈ کی مدد سے اس کے اعضا اکھاڑ دیے۔ پھر اس کی ایک ٹانگ دس گز دور لے جا کر جامن کے درخت سے ٹکرائی اور پھر اسے دور پھینک دیا۔
اس پاگل ہاتھی کا یہ پہلا شکار تھا۔ اس نے دوسری مرتبہ ایک لڑکے پر حملہ کیا جو اپنے مویشیوں کو گنڈالم لے جا رہا تھا۔ یہ لڑکا نوجوان اور پھرتیلا ہونے کی وجہ سے ندی کی ریت پر بھاگا اور ہاتھی پیچھے پیچھے تھا۔ جب اس نے ہاتھی کو قریب آتے دیکھا تو وہ پہاڑی کے کنارے پر چڑھ گیا جو کافی ڈھلوان تھا اور وہاں چھوٹے چھوٹے گول پتھر بکثرت تھے۔ یہاں اسے دور نکلنے کا موقع مل گیا۔
دیوانہ وار بھاگتے ہوئے اس بیچارے کے پیروں کے تلوے لیر لیر ہو گئے اور جسم پر جگہ جگہ کانٹوں سے زخمی ہو گیا۔ تاہم اس نے دوڑ جاری رکھی اور آخرکار اونچی چٹان پر چڑھ گیا جو پہاڑی پر دو سو گز کی بلندی سے شروع ہوتی تھی۔
بعد میں اس نے بتایا کہ ہاتھی اس چٹان تک پہنچ گیا تھا اور چٹان کے گرد کئی بار چکر بھی لگایا اور اپنی سونڈ سے اسے پکڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ تاہم اس لڑکے نے سمجھداری سے کام لیا اور مسلسل حرکت کرتا ہوا ہاتھی سے دور رہا۔ یہاں چٹان کا کل رقبہ پچیس مربع فٹ تھا اور کئی بار ہاتھی کی سونڈ اس کے پیر سے ایک فٹ دور رہ گئی تھی۔ ایک گھنٹہ کوشش کے بعد ہاتھی اچانک مڑا اور چلا گیا۔ تاہم یہ لڑکا اتنا پریشان تھا کہ اس نے ساری رات وہیں گزاری اور اگلی صبح جب سورج خاصا چڑھ آیا تھا تو وہ اپنی تسلی کر کے اترا۔
اس کے بعد ایک ماہ گزر گیا اور مقامی لوگ یہ سوچنے لگے کہ شاید ہاتھی کہیں اور نکل گیا ہوگا یا پھر مست والی حالت ختم ہو گئی ہوگی۔
تاہم ان کی امیدیں نہ بر آئیں۔ لڑکے والے واقعے کے ٹھیک سوا مہینے بعد پاگل ہاتھی نے نترا پالم کو پیدل جانے والے دو مسافروں کا پیچھا کیا۔ یہ بستی انچٹی سے آٹھ میل جنوب میں ہے۔ ان بندوں نے اچانک دیکھا کہ سو گز دور ہاتھی ان کے پیچھے بھاگا آ رہا ہے۔ ایک آدمی تیس اور دوسرا چالیس سال کا تھا۔ بڑی عمر کا آدمی جلدی تھک گیا اور اس کا سانس چڑھ گیا۔ اسے علم تھا کہ اس کے پیچھے خوفناک موت آ رہی ہے سو اس نے ہمت نہیں ہاری۔ بدقسمتی سے اس بندے کی عقل کام چھوڑ گئی تھی ورنہ چاہتا تو کسی درخت پر چڑھ جاتا، کسی چٹان کے پیچھے چھپ جاتا یا اپنے کپڑے کا کوئی حصہ اتار کر پھینک دیتا۔ اتار کر پھینکے گئے کپڑے سے اسے کم از کم چند منٹ کا اضافی وقت مل جاتا۔ جب بھی ہاتھی پیچھے لگا ہو تو آخری چارے کے طور پر کپڑے اتار کر پھینکے چاہیں کہ جب ہاتھی کپڑوں کے پاس پہنچتا ہے تو ان میں سے انسانی بو آتی ہے اور ہاتھی انہیں پھاڑنے کے لیے رک جاتا ہے۔ اس طرح شکار کو فرار ہونےکا موقع مل جاتا ہے۔
تاہم جب تک ہمت رہی، یہ بندہ بھاگتا رہا اورجب گرا تو ہاتھی سر پر پہنچ گیا۔ ہاتھی نے اسے اٹھا کر ساتھ پڑے بڑے پتھر سے ٹکرا ٹکرا کر اس کا قیمہ بنا دیا اور پھر پھینک کر جنگل میں گم ہو گیا۔
ان واقعات کی وجہ سے محکمہ جنگلات کو عرضیاں بھیجی گئیں کہ اس ہاتھی کو پاگل قرار دیا جائے تاکہ اس ضلع کے تمام شکاریوں کو ہاتھی کے شکار کی عام اجازت مل جائے۔ عام طور پر ہندوستان میں ہاتھیوں کو بچانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔سرخ فیتے کی وجہ سے منظوری میں تین ماہ گزر گئے۔ پھر ایک ماہ کا وقفہ گزرا جس میں ضلع کے تمام لائسنس یافتہ شکاریوں کو اطلاع بھیجی گئی۔
اس دوران ہاتھی نچلا نہیں بیٹھا۔ اس نے صندل کی لکڑی سے لدی ایک بیل گاڑی پر حملہ کیا۔ گاڑی بان اور فارسٹ گارڈ جو ہمراہ تھے، جنگل میں چھپ کر اپنی جان بچا سکےتاہم گاڑی کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے اور بیل بھی معمولی زخمی ہوئے۔
کچھ دن گزرے کہ ہاتھی نے عجیب کام کام کیا۔ عموماً چرواہے جب مویشی چراتے ہیں تو وہ کافی رقبے پر پھیل جاتے ہیں۔ شاید ایک جانور ہاتھی کے بہت قریب چلا گیا اور ہاتھی نے اس پر حملہ کر کے اس کی کمر توڑ دی۔
پھر کچھ دن خاموشی سے گزرے کہ خبر آئی کہ ہاتھی نے ایک پجاری کو ہلاک کر دیا ہے۔ پجاری قبیلے کے لوگ اس علاقے میں رہتے تھے۔ یہ بندہ ایک ٹھیکدار کے لیے شہد جمع کر کے آ رہا تھا جس کے پاس جنگل کے اس حصے سے شہد جمع کرنے کا ٹھیکہ تھا۔
پھر سرکاری اطلاع میرے پاس پہنچی۔ اصولی طور پر مجھے ہاتھی کا شکار کرنے میں کوئی لطف نہیں آتا کہ مجھے ہاتھی پسند ہیں۔ دوسرا یہ بھی کہ اس میں خطرے کا عنصر نہیں ہے کیونکہ ہاتھی بہت بڑا جانور ہے اور جب یہ پیٹ بھر رہے ہوں تو ان کی آواز دور سے سنائی دے جاتی ہے۔ پھر محض ہوا کے رخ کا خیال رکھتے ہوئے مخالف سمت سے جا کر قریب پہنچ کر گولی چلا دی۔ اس لیے محض ہلکا سا تجربہ کافی ہے کہ پیر رکھتے ہوئے کیسے احتیاط کرنی چاہیے تاکہ کوئی ٹہنی یا خشک پتے نہ آواز پیدا کریں۔
شکار کا ایک اور اہم اصول ساکت ہونا ہے۔ چاہے آپ جس بھی حالت میں ہوں، جب شکار آپ کی سمت دیکھے تو آپ اسی حالت میں تھم جائیں۔ بعض حالتیں ایسی ہوتی ہیں کہ رکنا مشکل ہوتا ہے مگر اس وقت ہلکی سی حرکت بھی آپ کا بھانڈا پھوڑ سکتی ہے۔ ایک ہی حالت میں دس منٹ تک ساکت رہنے کی صلاحیت بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ بعض اوقات یہ بہت تھکا دیتی ہے۔
ان طریقوں پر عمل کرتے ہوئے میں ہاتھیوں سے محض چند گز کے فاصلے تک پہنچ جاتا ہوں اور انہیں سکون سے پیٹ بھرتے دیکھتا ہوں اور انہیں میری خبر تک نہیں ہوتی۔ مگر میری بو کا ہلکا سا جھونکا یا معمولی سی آواز بھی انہیں بھاگنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ہاتھی کی نگاہ انتہائی کمزور ہوتی ہے اور اگر آپ خاکی سبز کپڑے پہنے ہوئے ہوں اور بالکل ساکت ہوں تو آپ کی طرف دیکھنے کے باوجود بھی ہاتھی آپ کو نہیں دیکھ سکے گا۔
انہی وجوہات کی بنا پر میں ہاتھیوں پر گولی چلانے کے خلاف ہوں۔ ویسے بھی بہت سارے پاگل ہاتھی حقیقت میں پاگل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، چور شکاری اور زمیندار اکثر ہاتھیوں پر گولی چلا کر انہیں زخمی کر دیتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہاتھی انسان سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ بھی ہے کہ بہت سارے واقعات جو پاگل ہاتھیوں سے منسوب کیے جاتے ہیں، حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتے اور لوگ ان کے شکار کے لیے ایسے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ شکار کی اجازت مل جائے۔ عموماً کلکٹر ان واقعات کی پوری طرح چھان بین کرتے ہیں اور پھر احکامات جاری کرتے ہیں مگر بعض اوقات غلط ہاتھی بھی مارے جاتے ہیں۔
سو میں نے سرکاری اطلاع پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ مگر تین ہفتے بعد رنگا کا خط ملا جو میرا شکاری ہے اور پناگرام میں رہتا ہے۔ اس نے لکھا کہ چار روز قبل اس ہاتھی نے ایک پجاری عورت کو انائی بدھامدھوو نامی جگہ پر ہلاک کیا ہے۔یہ جگہ گرہٹی سے سات میل دور ہے۔ اس جگہ کے نام کا ترجمہ ‘وہ تالاب جہاں ہاتھی گرا‘ بنتا ہے۔ یہ قدرتی تالاب ہے جس کے کنارے پتھریلے ہیں اور اس میں انائی بدھالا نامی دریا کا پانی گرتا ہے۔ یہ دریا چنار کی ایک شاخ ہے جو بذاتِ خود کاویری کی شاخ ہے۔ کاویری جنوبی ہندوستان کا سب سے بڑا دریا ہے۔ مزید یہ کہ یہ تالاب بہت گہرا ہے اور کبھی خشک نہیں ہوا۔ بتایا گیا کہ بہت برس گزرے، ایک ہاتھی اس تالاب سے پانی پینے آیا اور پیر پھسلنے کے سبب تالاب میں جا گرا۔ چونکہ تالاب کے کنارے پتھریلے اور پھسلواں تھے، اس لیے ہاتھی باہر نہ نکل سکا۔ ہاتھی بہت اچھے تیراک ہوتے ہیں اور ان کی ہمت اور طاقت کا بھی جوڑ نہیں، مگر ان کی جسامت بہت بھاری ہوتی ہے اور یہ ہاتھی بیچارہ تین دن مسلسل تیرنے کے بعد آہستہ آہستہ ڈوب گیا۔ اس دوران گیارہ میل دور سے پناگرام سے بہت سارے لوگ جمع ہو کر یہ ‘تماشا‘ دیکھ رہے تھے۔
رنگا کا خط ملنے کے بعد، اور چونکہ رنگا سے ملے بہت عرصہ ہو گیا تھا، سو میں نے چار روز کی چھٹی لی اور پناگرام کو چل پڑا۔ راستے میں رنگا کو اٹھایا اور گرہٹی کے فارسٹ بنگلے کو جانے والے راستے کے اٹھارہ میل سڑک انتہائی خراب تھی۔ راستے میں ہم اس تالاب سے بھی گزرے۔
گرہٹی کے فارسٹ گارڈ نے ہاتھی کی موجودگی کے بارے بتایا اور یہ بھی کہ اس علاقے میں دس ہاتھیوں کاغول بھی موجود ہے۔ یہ سب ہاتھی بنگلے کے سامنے والےتالاب سے پانی پیتے تھے۔ اس غول میں کئی ہاتھی پاگل ہاتھی کی جسامت کے تھے، سو ان میں فرق کرنادشوار تھا۔ اس لیے ہمیں پگوں کا پیچھا کرنے میں کافی مشکل پیش آتی۔
مزید برآں ہاتھی کی بتائی گئی تفصیل بھی کافی مبہم تھی اور یہ بتایا گیا کہ اس کے اگلے پیر کی گولائی چار فٹ دس انچ ہے جس سے پتہ چلتا تھا کہ ہاتھی لگ بھگ نو فٹ آٹھ انچ اونچا ہوگا کیونکہ اگلے پیر کی گولائی کو دو سے ضرب دیں تو اونچائی بنتی ہے۔ ہاتھی کا رنگ سیاہ بتایا گیا تھا مگر نہانے کے بعد ہر ہاتھی سیاہ نکل آتا ہے۔ مگر ہاتھی مٹی میں لوٹ لگاتے ہیں تو ان کا رنگ بھی مٹی کی مناسبت سے بدلتا رہتا ہے۔ یہ بھی کوئی اہم نشانی نہیں تھی۔ البتہ ایک چیز اہم تھی کہ بتایا گیا تھا کہ اس ہاتھی کے بیرونی دانت تین فٹ سے زیادہ طویل اور سرے پر ایک دوسرے کو قطع کرتے تھے۔
آپ نے درست اندازہ لگایا کہ محض آخری نشانی ایسی تھی کہ میں ہاتھی کی تلاش میں استعمال کر سکتا تھا۔ تاہم اس لیے مجھے ہاتھی کو عین سامنے سے دیکھنا پڑتا کہ اطراف سے مغالطہ ہو سکتا تھا۔ ظاہر ہے کہ غلط ہاتھی کا شکار کرتا تو نہ صرف مجھے افسوس ہوتا بلکہ سرکاری طور پر مجھے کافی مشکلات پیش آتیں۔
ایک طریقہ تو یہ تھا کہ میں تالاب پر جا کر ہر ہاتھی کے قدموں کے نشانات ماپتا اور مطلوبہ حجم والے نشانات کا تعاقب کر کے ہاتھی کے دانت دیکھتا اور اگر اس کے دانت سروں پر ایک دوسرے کو قطع کر رہے ہوتے تو وہی میر امطلوبہ ہاتھی ہوتا۔ اگر دانت فاصلے پر ہوتے تو اس ہاتھی کو چھوڑ کر واپس تالاب پر آتا اور اسی طرح دوسرے ہاتھی کا تعاقب کرتا۔ یاد رہے کہ میرے پاس کل چار روز تھے اور ان میں سے ایک دن رنگا کو اٹھانے، گرہٹی آنے اور تحقیق کرنے پر صرف ہو گیا تھا۔
رات کو دس بجے مجھے ہاتھیوں کے غول کی آواز تالاب کی سمت سے آئی۔ ظاہر ہے کہ یہ میرے مطلوبہ ہاتھی نہیں تھے۔ سو میں دوبارہ سو گیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
صبح پو پھٹتے ہی میں اٹھا اور رنگا اور فارسٹ گارڈ کو اپنے منصوبے کے بارے بتایا۔ تالاب کے کنارے پر مٹی بھربھری ہو چکی تھی اور ہر عمر کے ہاتھی کے پیروں کے نشانات موجود تھے۔
تالاب کے گرد چکر لگایا تو مجھے مطلوبہ جسامت کے تین ہاتھیوں کے نشان ملے۔ ان میں سے دو تالاب کے اسی جانب تھے جہاں سے غول نے پانی پیا تھا۔ تیسرا ہاتھی دوسری جانب سے آیا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہی ہاتھی ہمارا مطلوبہ ہوگا۔ سو ہم نے ان کے تعاقب کا فیصلہ کر لیا۔ رنگا آگے چل رہا تھا۔ میرے پاس اعشاریہ 400/450 بور کی دو نالی جیفریز رائفل تھی جبکہ میرے پیچھے فارسٹ گارڈ عقب کی نگرانی کرتا آ رہا تھا کہ کہیں ہاتھی چکر کاٹ کر اب ہمارے پیچھے نہ اپنا پیٹ بھر رہا ہو۔
تالاب سے کچھ دور تک لمبی تیز دھار گھاس موجود تھی جہاں ہاتھیوں کے گزرنے کی وجہ سے راستے سے بنے ہوئے تھے۔ پھر خاردار جھاڑیاں اور بیلیں شروع ہوئیں۔ یہاں بھی ہاتھی کی گزرگاہ صاف دکھائی دے رہی تھی مگر چلتے ہوئے کانٹے بار بار ہمارے کپڑوں میں اٹک جاتے۔
تاہم نشانات واضح تھے اور ہم نے کچھ ہی وقت میں ایک میل کا سفر کر لیا اور ایک چھوٹی پہاڑی کے نیچے جا پہنچے۔ اس پہاڑی کی ڈھلوانیں بانس کے گھنے جنگل سے بھری ہوئی تھیں اور ہاتھی ان سے گزر کر اوپر کو گیا تھا۔ یہاں کئی جگہ رک کر اس نے بانس کی نرم کونپلوں سے پیٹ بھرا تھا اور جگہ جگہ گرے ہوئے بانس اس کا ثبوت تھے۔ یہاں ہاتھی کا بہت سارا گوبر بھی پڑا تھا اور چوٹی سے ہو کر ہم نیچے اترے تو ظاہر تھا کہ ہاتھی یہاں صبح سویرے کئی گھنٹے تک اپنا پیٹ بھرتا رہا تھا کہ یہاں موجود ہاتھی کا گوبر ابھی نیم گرم تھا۔
یہاں سے آگے بڑھنا کافی دشوار ہو گیا۔ ہر سمت بانس کا گھنا جنگل تھا اور ذرا سی بھی بے احتیاطی سے شور ہوتا اور ہاتھی بھاگ جاتا۔
میں ںے رنگا کے بازو کو چھو کر اسے ساکت ہونے کا اشارہ کیا اور خود بھی تھ گیا۔ دس منٹ تک ہم نے ہاتھی کے پیٹ بھرنے کی آواز سننے کی کوشش کی جو خوراک ہضم کرتے ہوئے ہاتھی نکالتا ہے۔ مگر جنگل نسبتاً خاموش تھا اور جنگلی مرغوں کی آوازیں ہر سمت سے آ رہی تھیں اور سامنے والی پہاڑی پر لنگور شور کر رہے تھے۔
بظاہر ہاتھی کہیں آرام کر رہا ہوگا یا پھر نیچے وادی میں چلا گیا ہوگا۔ اس لیے ہم نے احتیاط سے پیش قدمی جاری رکھی۔ ہمیں مسلسل نیچے بھی دیکھنا پڑتا تھا کہ ہم چلتے ہوئے کوئی شور نہ کریں۔ نصف میل کے مزید سفر کے بعد ہم وادی میں پہنچ گئے جہاں جھاڑیاں بہت زیادہ تھیں۔ ان میں جنگلی آلو بخارے، کھڑبیل اور املی کے درخت بھی بکثرت تھے اور پندرہ یا بیس گز سے زیادہ دور کچھ نہیں دکھائی دیتا تھا۔ اگلے دو سو گز کے بعد ہم گولاموٹھی دریا کو جانے والی ایک ندی کی پتھریلی گزرگاہ پر پہنچ گئے۔
یہاں ہاتھی مڑا اور پچاس گز دور ریتلے قطعے سے ہو کر گزرا۔ دوسرے کنارے پر جہاں ہاتھی چڑھا، کافی ڈھلوان تھا۔ اس پر چڑھتے ہوئے خطرہ تھا کہ سامنے کہیں پاگل ہاتھی نہ آ جائے۔
ہر ممکن طریقے سے ہم بہت آہستگی اور خاموشی سے آگے بڑھنے لگے۔ ہاتھی اب پھر چل پڑا تھا۔ جلد ہی ہم نے جان لیا کہ وہ پہاڑی کی دوسری جانب والی وادی کی طرف جا رہا ہے۔ یہ سوچ کر ہم نے اپنی رفتار بڑھا دی مگر چوتھائی میل دور گئے ہوں گے کہ ہمیں ہاتھی کے نظامِ انہضام سے نکلنے والی آوازیں آنے لگیں۔
میں نے رنگا اور فارسٹ گارڈ کو املی کے مضبوط اور تناور درخت پر چڑھا دیا اور خود اکیلا اس جانب بڑھا۔ ہاتھی ایک نشیب میں تھا جہاں بانس کا گھنا جنگل تھا۔ بظاہر وہ آرام کر رہا تھا یا شاید لیٹا ہوا ہو کیونکہ اس کی چرنے کی آواز نہیں آ رہی تھی۔ تاہم اب ہاضمے کے دوران نکلنے والی آوازیں بھی بند ہو گئی تھیں۔
بہت احتیاط سے میں قدم بقدم نشیب میں داخل ہوا۔ پھر جھک کر میں نے مٹی اٹھائی اور گرا کر ہوا کا رخ جانچا۔ مٹی تقریباً سیدھی گری یعنی ہوا نہیں چل رہی تھی۔ یہ مسئلہ ہو سکتا تھا کہ تھمی ہوئی ہوا میں ہاتھی میری بو سونگھ لیتا۔
اس طرح مزید محتاط ہو کر میں آگے بڑھا۔ بانس میرے اوپر چھائے ہوئے تھے اور ہر جھنڈ کے پاس پہنچنے سے قبل اس کا بغور جائزہ لیتا۔ چند گز آگے جا کر مجھے اپنے سامنے سلیٹی رنگ کا ایک تودہ دکھائی دیا۔ یہ ہاتھی تھا جو زمین پر لیٹا ہوا تھا۔ بدقسمتی سے اس کا رخ میری مخالف جانب تھا۔
اب دو ہی راستے تھے: یا تو میں چکر کاٹ کر دوسری جانب جاتا اور ہاتھی کے دانت دیکھتا یا پھر اسے نیند سے بیدار کرتا۔ ظاہر ہے کہ بیدار ہوتے ہی ہاتھی میری جانب رخ کرتا۔ سو اسے ہلاک کرنے سے قبل میں تسلی کر لیتا۔
دوسرے طریقے کو آسان سمجھتے ہوئے میں بانس کے ایک جھنڈ کے پیچھے جزوی طور پر چھپا اور سیٹی بجائی۔ ہاتھی نے حرکت نہ کی۔ شاید وہ گہری نیند سو رہا تھا یا پھر اس نے سوچا کہ کوئی پرندہ بولا ہوگا۔ پھر میں نے ٹک ٹک کی آواز نکالی۔ ہاتھی فوراً بیدار ہوا اور میری جانب مڑا۔
بہت بڑا ہاتھی تھا۔ کم از کم دس فٹ اونچا ہوگا اور اس کے خوبصورت دانت صبح سویرے دھوپ میں چمک رہے تھے۔ تاہم ان کا درمیانی فاصلہ زیادہ تھا۔ غلط ہاتھی کا پیچھا کیا تھا۔
نصف منٹ تک ہاتھی مجھے حیرت سے دیکھتا رہا اور اس کی ننھی آنکھیں نیند کے خمار سے بوجھل تھیں۔ میں اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہوگا۔ حیرت کے بعد اس کا دوسرا تاثر ناراضگی تھا جس کے اظہار کے لیے وہ چنگھاڑا اور میری جانب ایک دو قدم بڑھا۔ میں نے ایک بار سیٹی بجائی اور ہاتھی مڑ کر جنگل میں غائب ہو گیا۔
جب میں واپس رنگا اور فارسٹ گارڈ کے پاس پہنچا تو وہ صورتحال کا اندازہ کر کے املی کے درخت سے اتر آئے تھے۔ پھر ہم تینوں مایوسی کے مارے واپس تالاب کو لوٹے۔ غصہ الگ تھا۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، دو اور ہاتھیوں کے پیروں کے نشان بھی اس جیسے تھے۔ مگر یہ نشان کیچڑ پر تھے، سو ان کی درست پیمائش کارِ دارد تھی کہ کیچڑ میں نشان اصل سے بڑا بنتا ہے۔ رنگا نے ایک کا پیچھا کیا جبکہ میں اور فارسٹ گارڈ دوسرے ہاتھی کے پیچھے گئے اور طے کیا کہ پندرہ منٹ کے بعد واپس یہیں لوٹ کر بات کریں گے۔
کچھ دور جانے پر پتہ چل گیا کہ یہ ہاتھی غول کے ساتھ گیا تھا اور عام ہاتھی تھا کہ جنگل میں ہتھنیوں اور بچوں کے پیٹ بھرنے کے نشانات ملے تھے۔ یہ ہاتھی پاگل نہیں ہو سکتا، سو پندرہ منٹ بعد میں واپس لوٹا۔ رنگا کے پاس چونکہ گھڑی نہیں تھی، سو وہ ابھی واپس نہیں آیا تھا۔ سو زمین پر بیٹھ کر میں نے پائپ اور چائے پی، فارسٹ گارڈ تھرماس اٹھائے ہوئے تھا۔ مزید دس منٹ بعد رنگا واپس آیا اور بولا کہ وہ چوتھائی میل گیا تھا اور یہ ہاتھی چکر کاٹ کر بنگلے کے پیچھے اور دیگر ہاتھیوں کے عین مخالف سمت گیا تھا۔
یہ خبر امید افزا تھی سو ہم فوراً روانہ ہو گئے۔ جلد ہی ہم اس مقام پر پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر یقین ہو گیا کہ یہ ہاتھی مسافر ہے کیونکہ وہ پیٹ بھرنے کے لیے کہیں نہیں رکا تھا، بس کہیں کہیں سونڈ سے کونپلیں نوچتا گیا تھا۔یہ ہاتھی سیدھا آگے بڑھتا ہوا فارسٹ بنگلے کے پیچھے والے جنگل میں دو پہاڑیوں سے گزرا اور اس کا رخ براہ راست تلوادی کی ندی کی طرف تھا۔
اس ندی تک پہنچنے میں ہم چار میل کا سفر کرنا پڑا اور یہاں ہاتھی جنوب مغرب کو مڑ گیا تھا اور دریائے تلوادی میں ہی سفر کر رہا تھا۔ مجھے علم تھا کہ دریائے کاویری اس جگہ سے پندرہ میل دور ہے، سو مجھے لگا کہ ہاتھی نے اچانک کاویری کا رخ کر لیا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو دریا کو تیر کر عبور کرتا اور دوسرے کنارے پر پہنچ کر گم ہو جاتا کہ وہاں نہ صرف جنگل بہت گھنا ہے بلکہ وہاں کا علاقہ پہاڑی بھی ہے اور نیلگری اور بلیگیری رنگن تک سو میل تک مسلسل جنگل ہی جنگل ہے۔
ہم لوگ ہر ممکن تیزی سے بڑھے اور ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے ہاتھی کا پیچھا کئی گھنٹوں تک جاری رکھا۔ ہاتھی کے قدموں کی طوالت سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کسی خاص مقام کا سوچ کر جا رہا ہے۔
دریا کی نرم ریت اب دوپہر کے سورج میں انگاروں کی طرح دہک رہی تھی۔ مجھے چلنے میں دقت ہو رہی تھی۔ وقفے وقفے سے دریا کی تہہ پتھریلی ہو جاتی اور گول موٹو پتھر دکھائی دیتے۔ ایسی جگہوں پر ہاتھی کناروں کی جانب ہو کر چلتا رہا تاکہ پتھروں سے بچ سکے۔ ہم نے اس کی پیروی کی اور تیزی سے اپنا راستہ بناتے چلے گئے۔ پسینے سے ہمارا حال برا تھا۔
پندرہ میل کے سفر کے بعد ہم تلوادی اور کاویری کے سنگم پر آن پہنچے۔ دریا سے چند سو گز قبل تلوادی کی ندی اتائی ملائی نامی دیہات والے راستے سے گزری۔ یہاں ہاتھی نے اپنا رخ بدل کر اتائی ملائی کو دو میل تک گیا تھا اور پھر دوبارہ جنوب کو مڑ کر دریا کے کنارے دلدل کی سمت چل پڑا۔ اس دلدل کو کرتی پالم کہا جاتا تھا یعنی بھینسے والی دلدل، جسے میں خوب پہچانتا تھا۔ بہت سال قبل یہ جگہ بھینسوں کا پسندیدہ مقام تھی۔ تاہم اس موسم میں یہ خشک ہو چکی تھی اور کہیں کہیں زمین نرم تھی۔ تاہم گھنی گھاس ہر جگہ اگی ہوئی تھی اور درختوں کے جھنڈ بھی کئی جگہوں پر موجود تھے۔
تاہم یہاں ہاتھی کے پیٹ بھرنے کی علامات دکھائی دیں اور ہمیں ہاتھی کا گوبر دکھائی دیا جو زیادہ پرانا نہیں تھا۔
یہاں سے کیچڑ شروع ہو گیا تھا، سو میں نے رنگا اور فارسٹ گارڈ کو واپس بھیج دیا تاکہ کم سے کم آواز پیدا ہو۔ پیش قدمی بہت سست تھی کیونکہ مجھے نہ صرف ہاتھی کا بھی خیال رکھنا تھا بلکہ زمین پر بھی دیکھ بھال کر قدم رکھنا تھا کہ کہیں دلدل نہ شروع ہو جائے۔ کئی بار میں گھٹنوں تک دلدل میں دھنس گیا مگر پھر خود کو نکال لیتا تھا اور کوشش ہوتی تھی کہ آواز نہ نکلے۔
کئی مرتبہ رک کر میں نے آواز سننے کی کوشش کی مگر کچھ سنائی نہ دیا۔ پھر اچانک بڑی گھاس میں سرسراہٹ سنائی دی اور ہاتھی بیس گز دور کھڑا تھا۔ ابھی ابھی وہ کیچڑ سے اٹھا تھا اور سارے بدن سے کیچڑ ٹپک رہا تھا۔ یہ بڑا نر ہاتھی تھا اور اس کے بیرونی دانت چمک رہے تھے اور ان کا خم خوبصورت تھا۔ تاہم یہ ہاتھی بھی مطلوبہ نہ تھا۔ مجھے اتنی مایوسی ہوئی کہ میں نے آواز کر کے ہاتھی کو بھگا دیا اور پھر واپس اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹا۔ انہیں بھی پتہ چل چکا تھا کہ میرا مزاج برہم ہے۔
چار بج چکے تھے اور ابھی ہمیں پندرہ میل تلوادی کے ساتھ اور پھر چار میل مزید گرہٹی کے بنگلے کا سفر رہتا تھا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ ہم بیلی گنڈلو میں رات گزار کر واپس جاتے مگر اس طرح اگلا روز آدھا تو واپسی پر ضائع ہو جاتا جبکہ میرے پاس کل دو روز بچے تھے۔ سو میں نے واپسی کا حکم دیا۔ میرے ساتھیوں نے اس پر احتجاج کیا کہ عنقریب سورج غروب ہو جائے گا اور چاند بھی نہیں اور نہ ہی ٹارچ، تو باقی کا سفر گہرے اندھیرے میں کرنا پرخطر ہوگا۔ کیا پتہ ہاتھی کا سامنا ہو جائے۔ میں نے کہا چاہے ایک ہاتھی ہو یا ہزار، میں ان سب کو جہنم رسید کرنے کو تیار ہوں۔
واپسی کا سفر بہت تھکا دینے والا اور دشوار تھا۔ جگہ جگہ ہم پتھروں اور نکلی ہوئی جڑوں سے ٹھوکریں کھاتے اور بیلوں سے الجھتے ہوئے گئے مگر ہاتھی کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ لگ بھگ نصف شب کے قریب ہم گرہٹی کے بنگلے پہنچے اور تھکن سے نڈھال تھے۔ ہم لوگ پو پھٹتے نکلتے تھے اور مسلسل چلتے ہوئے دریاؤں، دلدلوں، نہروں، کانٹوں اور جنگلوں میں سفر کرتے رہے تھے اور چالیس میل طے کیے۔ بھوک اور پیاس سے برا حال تھا۔
اگلی صبح جسم درد سے ٹوٹ رہا تھا اور پیر سوجے ہوئے تھے۔ فارسٹ گارڈ کا ٹخنہ سوجا ہوا تھا جو تلوادی کے دریا میں کہیں مُڑ گیا تھا۔ اس نے تو معذرت کر لی۔ رنگا البتہ ٹھیک تھا اور تیار ھی۔ دلیہ، بیکن اور انڈوں کے ساتھ تیز کافی سے میں تازہ دم ہو گیا جبکہ راگی کو ابال کر ایک گیند کی شکل میں بنا کر کافی کے ساتھ کھا کر رنگا بھی سارے دن کے لیے تیار تھا۔
پچھلی رات ہم اتنے تھکے ہوئے تھے کہ ہمیں کوئی آواز نہ سنائی دی تھی مگر اب تالاب پر جا کر دیکھا کہ ہاتھیوں کا غول رات کو پانی پینے آیا تھا۔ اس کے علاوہ دو بڑے نر ہاتھیوں کے پیروں کے نشان بھی واضح تھے۔ ان میں سے ایک تو شاید وہی تھا جس کا میں پیچھا کرتا رہا تھا مگر دوسرے کا پیچھا نہیں کیا تھا۔ تیسرے نر کے بارے علم تھا کہ وہ یہاں سے دور نکل گیا ہے۔
پھر بھی ہمارے پاس زیادہ کچھ کرنے کو نہیں تھا۔ سو ہم نے ایک ہاتھی کا پیچھا کیا اور اس تک جا پہنچے۔ ساڑھے نو بجے ہمیں وہ دکھائی دیا۔ یہ پچھلے دو نروں کی نسبت چھوٹا تھا۔ تاہم یہ ہاتھی بھی پاگل نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ کل والے تین نروں میں یہت تیسرا تھا۔ تالاب کو واپس لوٹے اور دوسرے نشان کا پیچھا شروع کیا۔ ہم اڑھائی بجے اس ہاتھی تک پہنچے جو املی کے ایک بڑے درخت کے سائے میں آرام سے کھڑا تھا۔ یہ بھی مطلوبہ ہاتھی نہیں تھا۔ یہ وہی ہاتھی تھا جس کا ہم نے پہلے پہل پیچھا کیا تھا۔
اب یہ ظاہر ہو چکا تھا کہ پاگل ہاتھی اس علاقے میں نہیں ہے۔ تین دن گزر چکے تھے مگر میں ابھی تک ناکام رہا تھا۔
پانچ بجے ہم بنگلے پہنچے اور چائے کی دیگچی تیار کی۔ ساڑھے پانچ بجے انچٹی سے تین بیل گاڑیاں آئیں جو یہاں سے آٹھ میل دور ہے۔ ان کا مقصد یہاں رات گزارنا تھا تاکہ ہاتھی کے خطرے سے بچ سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ نصف راستے پر انہیں گولاموٹھی ندی مین ایک بڑے ہاتھی کے نشانات ملے جو بار بار اس راستے کو عبور کر رہا تھا۔
اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے میں اور رنگا رات کا کھانا کھا کر جلدی جلدی تیا رہو گئے اور فارسٹ گارڈ کو بھی کار میں ساتھ بٹھا کر مطلوبہ مقام کو روانہ ہو گئے۔
سات بجے ہم اس مقام پر پہنچے تو تاریکی چھا چکی تھی۔ کار کی روشنی میں ہمیں ہاتھی کے قدموں کے نشانات ملے۔ ٹارچ کی روشنی میں ہم نے ہاتھی کے بڑے بڑے پیروں کے نشان بیل گاڑیوں کے نشانات کے اوپر ثبت دیکھے۔ ہاتھی گرم موسم میں دن کے وقت مٹرگشت نہیں کرتے۔ یہ ہاتھی ہماری آمد سے قبل یہاں پھر رہا تھا اور شاید ہماری کار کی آواز سن کر یا اس کی بتیاں دیکھ کر کہیں چھپ گیا ہوگا۔
ہم نے سٹڈبیکر کی چھت اتاری اور میں نے رنگا کو سپاٹ لائٹ تھمائی تاکہ وہ پچھلی نشست پر بیٹھے اور گارڈ کو میں نے اگلی نشست پر بٹھایا۔ میں اتری ہوئی چھت پر بیٹھا اور میرے پیر ڈرائیونگ سیٹ پر تھے۔ ٹارچ اور رائفل تیار تھے۔ ہر طرف گہری تاریکی تھی اور ہمارے آس پاس مٹھی اور جامن کے درخت ندی کے کنارے اگے ہوئے تھے اور بانس کے جھنڈ بھی۔ جب بھی ہوا چلتی تو بانسوں سے آوازیں آتیں۔
امکانات کم لگ رہے تھے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ آیا یہ نشانات پاگل ہاتھی کے ہی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کوئی دوسرا ہاتھی ہو۔ البتہ یہ باتی یقینی تھی کہ گرہٹی میں دیکھے جانے والے دیگر ہاتھیوں کی نسبت یہ نشانات مختلف تھے۔ دوسرا یہ بھی ہاتھی کے واپس لوٹنے کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا۔ تیسرا یہ کہ دو گھنٹے میں ہاتھی بہ آسانی دس میل کا سفر کر سکتا ہے۔ چوتھا یہ کہ ہوا ہر سمت سے چل رہی تھی اور اگر یہ ہاتھی پاگل نہ ہوتا تو ہماری بو سونگھ کر دور سے ہی فرار ہو جاتا۔ مگر دوسری جانب یہ بھی امکان تھا کہ اگر یہ ہاتھی پاگل ہے تو ہماری بو سونگھ کر کھینچا چلا آئے گا۔
ہم نے ساڑھے آٹھ بجے تک تاریکی میں انتظار کیا اور پھر اچانک ندی کے اوپر کی جانب کہیں ایک کھوکھلے تنے کے گرنے کی آواز آئی۔ ہاتھی حرکت کر رہا تھا اور آواز سے اندازہ ہوا کہ چار یا پانچ سو گز دور سے تھی۔ پھر اگلے پندرہ منٹ تک خاموشی رہی اور پھر بہت قریب سے ایک شاخ ٹوٹنے کی آواز آئی۔ ظاہر ہے کہ ہاتھی ہماری جانب آ رہا تھا اور پیٹ بھی بھر رہا تھا۔
مجھے علم تھا کہ ہاتھی نے ابھی جو شاخ توڑی ہے، سو اسے کھانے میں نصف گھنٹہ تو لگ ہی جائے گا۔ دریا کے موڑ مڑتے ہی ہاتھی کو ہماری کار اور ہم دکھائی دے جائیں گے۔ اگر ہاتھی پاگل نہیں تھا تو ہمیں دیکھتے ہی فرار ہو جاتا۔ مگر میں یہ سوچتے ہوئے بھول گیا کہ تیز ہوا ہماری جانب سے ہاتھی کی طرف جا رہی تھی۔
چند منٹ کی خاموشی کے بعد کار کے قریب دریا کے کنارے جھاڑیوں سے سرسراہٹ کی آواز آئی۔ یہ آواز اتنی معمولی تھی کہ جیسے کوئی چھوٹا جانور ان میں سے گزرا ہو۔ پھر اچانک بانس کے کچلے جانے کی آواز آئی۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ ہوا بھی رک گئی۔
پھر حملہ کرتے ہاتھی کی فلک شگاف آواز آئی اور دوڑتے ہوئے ہاتھی کے سامنے بانس گرنے اور کچلے جانے لگے۔
رنگا نے سکون کے ساتھ روشنی ڈالی جو تاریکی کو چیرتی ہوئی ہاتھی پر پڑی اور میری ٹارچ کی روشنی بھی ہاتھی پر پڑی۔ بہت بڑا اور کالا سیاہ ہاتھی تھا جس نے اپنی سونڈ موڑ کر اٹھائی ہوئی تھی او دو سفید دانت سروں پر مل رہے تھے۔
پچاس گز کے فاصلے پر میری دائیں نال سے نکلنے والی گولی ہاتھی کے گلے میں پیوست ہو گئی۔ گولی کے دھکے سے ہاتھی رکا اور تکلیف سے چیخ ماری۔ ہاتھی دھماکے، تکلیف اور روشنی سے بوکھلا گیا اور وہ جنگل کی سمت مڑا۔ میری دوسری گولی بعجلت میں اس کی کنپٹی پر چلائی گئی جو سر میں کہیں پیوست ہوئی۔ ہاتھی جنگل کو بھاگتے ہوئے ٹھوکر کھا کر گرا اور جتنی دیر میں رائفل دوبارہ بھرتا، ہاتھی پھر اٹھ گیا۔ میری تیسری گولی اس کے جسم میں کہیں پیوست ہوئی۔ پندرہ منٹ تک اس کے فرار کی آوازیں سنائی دیتی رہیں اور فرار کے دوران ہاتھی کئی بار گرا اور کئی بار اٹھا۔
کار کو سٹارٹ کر کے ہم واپس گرہٹی لوٹے۔ رنگا نے علی الصبح مجھے بیدار کر کے گرما گرم چائے پیش کی۔
ساڑھے چھ بجے ہم پھر ہاتھی کے پیچھے روانہ ہو گئے تھے۔ جگہ جگہ اس کے گلے سے نکلنے والے خون کے لوتھڑے دکھائی دیتے رہے۔ اس کے فرار کے راستے پر جھاڑیاں بھی خون سے رنگین تھیں۔ ہاتھی کے پیچھے جھاڑیوں میں چلتے ہوئے ہمارے کپڑے بھی خون میں لت پت ہوتے گئے۔
ہاتھی کئی جگہ گرا تھا اور ہر مرتبہ سبز گھاس لال ہو چکی تھی۔ مجھے اس قاتل ہاتھی کی حالت پر ترس آیا۔
دو میل بعد وہ دکھائی دیا۔ گھٹنوں کے بل جھکا ہوا اور درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ وہ اتنا کمزور تھا کہ حرکت کرتے ہوئے مشکل ہوتی تھی۔ جب اس نے مجھے آتے دیکھا تو بھی حرکت نہیں کی۔ اس کی ننھی ننھی سرخ آنکھوں میں ابھی جان باقی تھی۔ وہ مجھے آتے دیکھتا رہا۔ پندرہ گز کے فاصلے پر رک کر میں نے اسے تکلیف سے نجات دلانے کے لیے رائفل اٹھائی۔وہ سر سے پیر تک لرزا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوا۔ اس کی اونچائی دس فٹ سے زیادہ تھی۔ اس کی سونڈ آگے کو بڑھی اور کان ہلے اور اس نے میری جانب دو قدم اٹھائے۔ عین اسی وقت اعشاریہ 400/450 بور کی بھاری رائفل ہاتھی کے ماتھے میں گھسی اور ہاتھی وہیں گر گیا۔
قاتل ہونے کے باوجود ہاتھی حوصلہ مند تھا۔ رائفل کی نال سے دھواں نکل رہا تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
4۔ سنگم کا تیندوا
بنگلور میں مجھے گھر میں اطلاع ملی کہ سنگم کے نواح میں ایک تیندوا آدم خور ہو گیا ہے۔ یہ مقام بنگلور سے ستر میل جنوب میں ہے۔
جنوبی ہندوستان میں آدم خور تیندوے بہت کم ملتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ ہے کہ یہاں جنگل نہ تو بہت زیادہ ہوتے ہیں اور نہ ہی مسلسل پہاڑ ہیں جیسا کہ شمال میں ہمالیہ ہے۔ مغربی گھاٹ ایک استثناء ہے کہ یہ پہاڑی سلسلے چار سو میل سے زیادہ طویل اور دس سے پندرہ میل چوڑآئی میں پھیلے ہوئے اور گھنے جنگل رکھتے ہیں۔ تاہم دیگر جنگلات اتنے گھنے نہیں اور ان کے ارد گرد گھنے جنگلات ہیں۔ اسی وجہ سے درندے اور بالخصوص تیندوے مویشیوں اور بکریوں پر ہاتھ صاف کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہاں بکریں اور مویشی بکثرت ہیں اور بسا اوقات پالتو کتے بھی ان کا کھاجا بنتے ہیں۔ کتے اور بندر اس علاقے علاقے میں انتہائی نقصان دہ ہیں۔ یہ کتے گرمیوں میں ریبیز کا شکار ہو جاتے تھے اور ان کے کاٹنے سے بے شمار انسان ہر سال اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے اور جب پاگل کتے کے علاج کی ویکسین آئی تو صورتحال بہتر ہوئی۔ بندر ہمیشہ نقصان دہ ہوتے ہیں اور فصلوں اور پھل دار درختوں کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ ہندو مت کے ماننے والے بندر کو مقدس جانور گردانتے ہیں اور ان کی ہلاکت یا روک تھام کے سلسلے میں کسی بھی اقدام کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔سو جہاں تک کتوں اور بندروں کا تعلق ہے تو تیندوے فائدہ مند ہیں۔
ابھی میں نے مغربی گھاٹ کا ذکر کیا ہے جہاں بارش بہت زیادہ ہوتی ہے اور اکثر سالانہ 100 انچ سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں بانس کے گھنے جنگلات ہیں اور لمبی گھاس اور سدابہار جھاڑیاں پائی جاتی ہیں اور یہاں مچھر، مکھیاں اور دیگر طفیلیے بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ تیندوؤں کو نہ تو پانی پسند ہوتا ہے اور نہ ہی حشرات۔ اس لیے وہ ایسی جگہوں پر پائے جاتے ہیں جہاں یہ چیزیں موجود نہ ہوں۔ قدرتی طور پر جنوبی ہندوستان میں جہاں جہاں تیندوے ملتے ہیں، وہاں ان کے لیے کافی خوراک موجود ہوتی ہے سو وہ آدم خوری کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ تاہم گملا پور کا تیندوا ایک استثنا تھا جس کے بارے میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ وہ کن حالات میں آدم خوری کی طرف مائل ہوا۔
بنگلور میں شیروں اور تیندوؤں کے ہاتھوں لوگوں کے زخمی ہونے کے بارے اکثر خبریں پہنچتی تھیں جن میں سے تیندوؤں کا ذکر زیادہ ہوتا تھا۔ تاہم ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا کہ تحقیق کا ایک ہی نتیجہ نکلتا تھا کہ کسی کسان نے اپنی توڑے دار بندوق سے یا کسی اناڑی شکاری نے اندازے سے تیندوے پر گراپ چلائی ہوتے تھے جن سے وہ محض زخمی ہوتا تھا۔ اس کے بعد ناتجربہ کاری کے باعث جب وہ گھنے جنگل میں جانور کا پیچھا کرتا تو تیندوا زخموں کی تکلیف کے سبب اسے گھائل کر دیتا۔ گزشتہ برسوں میں ایسے واقعات کا کم از کم پچھتر فیصد حصہ زخم خراب ہونے کے سبب ہونے والی اموات کا ہوتا تھا۔ تاہم سلفا ادویات کی آمد کے بعد یہ تناسب دس فیصد سے بھی کم رہ گیا۔
سو ایسی خبروں پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا۔ وجہ بھی تو کوئی ہو۔ انہیں اور کام بہت ہوتے تھے۔ مزید یہ بھی کہ ہندوستان میں افواہیں بہت زیادہ پھیلتی ہیں۔
ہلکی خراش کو شدید زخمی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جب ایک اصل ہلاکت ہو تو اخبار اسے بے شمار ہلاکتیں بنا کر پیش کرتے ہیں۔
سو جب مجھے خبر ملی کہ تیندوے نے ایک عورت کو ہلاک کر دیا ہے اور پھر بعد میں ایک بچے کو بھی سنگم میں کھا گیا ہے تو میں نے یقین نہیں کیا۔ پھر تیندوے نے تیسرا اور چوتھا شکار کیا۔ اخباروں کے صفحہ اوّل پر یہ خبریں چھپیں۔
بنگلور، میسور اور مدراس سے بہت سارے شکاری اس تیندوے کے پیچھے گئے اور ایک شکاری نے ایک تیندوا بھی شکار کر لیا۔ ایک مہینہ گزر گیا اور تیندوے نے مزید کوئی واردات نہیں کی۔ سب یہی سمجھے کہ آدم خور تیندوا ہلاک ہو گیا ہے۔ سو سبھی شکاری واپس لوٹ آئے۔
پھر تیندوے نے ایک اور واردات کی مگر اپنے شکار کو لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکا کہ متوفی اپنے چھپر میں چار پہاڑی کتوں کے ساتھ سو رہا تھا۔ یہ کتے ہرنوں اور خرگوشوں کے شکار کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ چھپر کے دروازے کی جگہ خاردار جھاڑیاں تھیں اور چھت جست کی چادروں پر مشتمل تھی جبکہ قریب قریب لکڑیاں گاڑ کر اور ان میں کانٹے دار جھاڑیاں پھنسا کر دیواریں بنا دی گئی تھیں۔ تیندوا رات کو آیا اور اس نے اپنے پنجوں سے دروازے اور لکڑیوں کے درمیان سوراخ کر لیا۔ تیندوے کی بو پا کر کتے خبردار ہو گئے اور زور زور سے بھونکتے ہوئے ایک طرف سمٹ گئے۔ ظاہر ہے کہ اس شور سے بندہ بیدار ہو گیا ہوگا۔
تیندوا اندر داخل ہوا۔ کتے ایک طرف جمع ہو گئے مگر انہوں نے اور کچھ نہ کیا۔ تیندوا ان کے قریب سے گزر کر بندے کے پاس پہنچا اور اس کے گلے کو دبوچ لیا۔ ایک چیخ مار کر وہ بندہ ہلاک ہو گیا۔
پاس والے جھونپڑے کے مکین کتوں کے بھونکنے اور تیندوے کے غرانے سے بیدار ہو گئے اور سوچنے لگے کہ کیا ہو رہا ہے مگر کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ باہر نکل کر دیکھتے۔ تیندوے نے اسی سوراخ سے اس بندے کی لاش کو باہر نکالنے کی کوشش کی مگر سوراخ کافی چھوٹا تھا۔ سسو تیندوا باہر نکل کر لاش کو باہر گھسیٹنے کی کوشش کرنے لگا۔ لاش کانٹوں میں پھنس گئی۔ تیندوے نے زور کا جھٹکا دیا تو جنگلا زور سے تیندوے پر گرا۔ خوفزدہ ہو کر تیندوے نے راہِ فرار اختیار کی جبکہ متوفی کی لاش اسی طرح پھنسی پڑی رہی۔
تیندوے کے شور سے ہمسائیوں کو علم ہو گیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے شور مچا کر پورے گاؤں کو بیدار کر دیا۔ کافی دیر بعد کچھ بہادر دیہاتی لالٹین اور توڑے دار بندوقیں، لاٹھیں اور ڈنڈے لے کر نکلے تو متوفی کی لاش ملی مگر تیندوا غائب تھا۔
لوگ خبردار ہو گئے اور پٹیل نے خود بنگلور آ کر مجھے خبر پہنچائی۔ اس وقت مجھے دو دن کی چھٹی مل سکی اور اتوار ملا کر تین دن بنے۔ سو میں نے پٹیل سے ان تین دن تیندوے کے شکار کی کوشش کا وعدہ کیا۔
سنگم کو جانے والا راستہ کنکان ہالی سے گزرتا ہے جو بنگلور سے 36 میل دور ہے یہاں سڑک دریائے کاویری میں اچانک خم کھا کر اترتی ہے۔ اس راستے کے آخری دس میل راستہ انتہائی خستہ ہے اور کار کے انجر پنجر ڈھیلے ہو گئے۔ انتہائی دشوار چڑھائیاں، چوڑے موڑ اور مشکل زاویے (اس علاقے میں جنگلی ہاتھیوں سے بچاؤ کی خاطر سنگِ میل اور دیگر علامتیں کالے رنگ سے بنائی جاتی ہیں) سے گزر کر آخرکار میں چھوتے ٹریولر بنگلے کو پہنچا۔ سفر اگرچہ مختصر تھا مگر انتہائی مشکل۔
سنگم کا نام یہاں دریائے کاویری اور ارکراورتھی کے ملاپ کی جگہ کو کہا جاتا تھا جو یہاں سے جنوب کی سمت سیدھا بنگلور کی سمت بہتا ہے۔
یہاں دریائے کاویری مغرب سے مشرق کو بہتا ہے اور سنگم اس کے شمالی کنارے پر میسور ریاست میں واقع ہے۔ جنوبی کنارے پر شمالی کومبتور کا ضلع ہے۔ سنگم سے مشرق میں تیرہ میل دور میسور ریاست ختم ہوتی ہے اور ضلع سالم شروع ہوتا ہے۔ جنوبی کنارے پر ضلع شمالی کومبتور ہے۔ شمالی کومبتور اور سالم ضلع، دونوں ہی مدراس پریزیڈنسی میں واقع ہیں۔
سنگم خوبصورت اور درختوں سے بھرا عالقہ ہے اور یہاں بہترین مہاشیر مچھلی کا شکار بھی ہوتا ہے جبکہ اس کے ریتلے کناروں پر مگرمچھ کا شکار بھی کیا جا سکتا ہے۔ میسور والی جانب کے جنگل میجں چیتل، سانبھر، کاکڑ، جنگلی سور اور پرندوں کے علاوہ کبھی کبھار ریچھ، تیندوے اور شیر بھی مل جاتے ہیں۔ ہاتھی کومبتور والے کنارے کو اکثر عبور کرتے رہتے ہیں۔ جنوبی کنارے کے ساتھ ساتھ کومبتور کے جنگلوں میں جنگلی بھینسوں کے کئی ریوڑ بھی پائے جاتے ہیں۔ ہاتھی اور ریچھ تو یہاں عام ملتے ہیں۔
کار کو دریا کے کنارے مٹھی کے بڑے درختوں کے نیچے روک کر میں نے پاس ہی اس دیہات کا چکر لگایا جہاں کتوں کا رکھوالا مارا گیا تھا اور خود جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔ ہمسائیوں نے سارے وقوعے کی تفصیلات بھی بیان کیں جنہوں نے یہ سب کچھ ہوتے سنا مگر مدد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ پٹیل جو میرے ساتھ ہی آیا تھا، نے بھی اپنی طرف سے اس واقعے کی تفصیل بتائی۔
سوالات اور جوابات کے بعد ظاہر ہو گیا کہ تیندوے کا شکار کافی مشکل ہوگا کیونکہ شمالی کنارے کا جنگل بہت بڑا اور وسیع ہے اور جنوبی اور کومبتور والی جانب بھی جنگل میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ تاہم جنوبی کنارے کی اتنی اہمیت نہیں تھی کہ شیر اور تیندوے پانی کے شائق نہیں ہوتے اور بڑے دریا عبور کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ تاہم اگر انہیں عبور کرنا پڑے تو بہت اچھے تیراک ثابت ہوتے ہیں۔
سب سے پہلا اور متوقع کام گارے باندھنا تھا۔ پٹیل کی مدد سے ہم نے پانچ بچھڑے خریدے۔ پہلے کو ہم نے بنگلے سے مغرب کی جانب نصف میل کی دوری پر باندھا جہاں سے دریا بھی اتنا ہی دور تھا۔ دوسرا دریا کے ساتھ سیدھی لکیر میں ایک میل مزید مغرب کی سمت باندھا، تیسرا اس سے ایک میل مزید دور، چوتھا ارکاورتھی ندی کے کنارے اور بنگلے اور دریائے کاویری دونوں سے نصف میل دور جبکہ پانچواں اس سے ایک میل مشرق میں باندھا۔ اس طرح یہ پانچوں تقریباً ایک سیدھے خط میں باندھے گئے تھے اور دریا سے ان کا زیادہ سے زیادہ فاصلہ نصف میل تھا۔ مشرق سے مغرب تک ان کا کل فاصلہ چار میل تھا۔
مغرب کے بعد میں بنگلے پہنچا۔ برآمدے میں بیٹھ کر ٹھنڈے کھانے سے پیٹ بھرا اور پھر چائے کے دو مگ پیے۔ پھر پائپ سلگا کر میں نے دیوار سے ٹیک لگائی اور دریا کے بہاؤ کی آواز سننے لگا۔ رات کافی تاریک اور مطلع ابر آلود تھا۔ تھوڑے بہت ستارے گزرتے بادلوں سے دکھائی دے جاتے مگر ان کی روشنی ناکافی تھی۔ سو میں کمرے میں سونے چلا گیا۔
اگلی صبح ہم نے گاروں کو دیکھا۔ سبھی زندہ سلامت تھے۔ میں نے پچھلے روز والی سڑک پر مٹرگشت کی۔ تاہم کہیں تیندوے کے پگ دکھائی نہ دیے۔ چیتلوں کے ایک مندے اور تین سانبھر کے پگ دکھائی دیے جو رات کو یہاں سے گزرے تھے۔ اور کسی جانور کے پگ نہ دکھائی دی۔
بنگلے کو واپس لوٹتے ہوئے میں نے سڑک کی بجائے پہاڑی اور جنگل سے گزرنے کا فیصلہ کیا اور راستے میں ارکاورتھی ندی کے خشک پاٹ سے گزرا اور وہاں سے جنوب کا رخ کیا اور نہر کے ریتلے پیندے پر چلتے ہوئے پگ تلاش کرتا گیا۔ تاہم کوئی پگ نہ دکھائی دیے البتہ چیتلوں کا وہی مندہ یہاں سے بھی گزرا تھا۔ جلد ہی میں چوتھے گارے کے قریب سے گزرا اور اس مقام پر پہنچا جہاں ارکاورتھی ندی دریائے کاویری میں گرتی ہے۔
تین میں سے ڈیڑھ دن گزر چکے تھے اور میں نے ابھی تک تیندوے کے پگ بھی نہیں دیکھے تھے۔ صورتحال کافی مایوس کن تھی۔
دوپہر کا کھانا کھا کر میں نے مشرقی سمت جانے کا سوچا۔ یہاں ساڑھے تین میل دور دریا ایک کھائی سے گزرتے ہوئے محض بیس فٹ چوڑا رہ جاتا ہے۔ اس مقام کو مقامی زبان میں ‘بکری کی جست‘ کہا جاتا ہے۔ روایات میں ہے کہ بہت برس پہلے یہاں جنگلی بھیڑ جنگلی کتوں سے بچاؤ کے لیے بھاگتی ہوئی کومبتور کی جانب سے آئی اور دریا کے کنارے اس نے عظیم جست لگائی اور میسور والی سمت پہنچ کر کتوں سے بچ گئی۔
یہاں پانی کے شور کے سامنے ہر قسم کی آواز دب جاتی ہے اور انسان کو اس کی اپنی چیخ بھی سنائی نہیں دیتی۔
میں چٹانوں پر یٹھ کر پانی کو دیکھتا رہا۔ سو گز دور پانی کی سطح پھر ہموار ہو گئی تھی اور کبھی کبھار کوئی مچھلی ہوا میں جست لگا کر پانی کی سطح توڑتی۔ مچھلیاں کھانے والا باز آسمان پر چکر کاٹ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد میں نے واپس بنگلے کا رخ کیا۔ ابھی تک تیندوے کے پگ دکھائی نہیں دیے تھے۔
رات کو مطلع صاف تھا۔ اگرچہ چاند نہیں تھا مگر ستاروں کی روشنی اتنی تھی کہ چند گز دور کی چیز صاف دکھائی دیتی تھی۔
بنگلے کے رکھوالے کے پاس ایک دیسی کتا تھا جو میں نے اپنی عادت کے برخلاف گارے کی نیت سے نصف شب کے لیے ادھار مانگ لیا۔ پہلے تو وہ جھجھکا مگر پھر تین روپے لے کر اس نے کتا میرے حوالے کر دیا۔
دن کے وقت چلتے ہوئے میں نےا یک میل دور ایک پتھریلا کنارہ دیکھا تھا۔ میں نے کتے کو وہاں لے جا کر ایک پتھر سے باندھ دیا اور خود ایک طرف ہٹ گیا۔ پھر جب کتا نظروں سے اوجھل ہو گیا تو میں واپس اس چٹان کی سمت چھپتا چھپاتا پہنچا۔ پھر انتہائی خاموشی سے میں اس چٹان پر چڑھا اور لیٹ گیا۔ پتھر ابھی تک سورج کی گرمی سے تپ رہا تھا۔
کتا یہ سمجھا کہ میں اسے چھوڑ کر چلا گیا ہوں، سو اس نے بھونکنا اور رونا شرعو کر دیا۔ کتے بہت عقلمند ہوتے ہیں اور انہیں گارا بنانا ظلم کے مترادف ہوتا ہے۔ گائے بکری کے برعکس کتوں کو خطرے کا فوری احساس ہو جاتا ہے اور اگرچہ ان پر حملہ نہ بھی ہو تو بھی وہ بہت دیر تک ذہنی تکلیف کا شکار رہتے ہیں۔ ایک بار ایک کتے کو جب گارے کے طور پر باندھا گیا تو تیندوے نے اس پر حملہ نہیں کیا۔ مگر اگلے روز کتا بیمار پڑ گیا اور ایک ہفتے بعد مر گیا۔
میں چٹان کے اوپر سے دیکھتا رہا۔ ایک گھنٹہ گزر گیا اور پھر ایک بھورے رنگ کا سایہ سا سڑک پر آتا دکھائی دیا۔ یہ سایہ کتے سے دس فٹ دور رک گیا۔ کیا یہ تیندوا ہے؟
ستاروں کی روشنی اتنی مدہم ہوتی ہے کہ تاریکی کم گہری ہو جاتی ہے مگر کچھ واضح دکھائی نہیں دیتا۔مجھے محض ایک بھورے رنگ کا سایہ سا کتے کی طرف متوجہ دکھائی دیا۔ کتے کا رخ اسی کی جانب تھا اور زور زور سے غرا رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ تیندوا ہی ہوگا، اور پھر میں نے اس سمت رائفل اٹھائی اور رائفل پر لگی ٹارچ جلائی۔
یہ سایہ لگڑبگڑ کا تھا جو جنوبی ہندوستان میں عام پایا جاتا ہے۔ کتا اور زور سے غرا رہا تھا اور پھر بھونکنے لگا۔
اب اصل ڈرامہ شروع ہوا جو ہندوستانی جنگلوں میں بعض لوگوں نے ہی دیکھا ہوگا۔ لگڑبگڑ دوڑ کر کنارے پر موجود جھاڑیوں میں چھپ گیا اور اپنی منحوس آواز میں بولنے لگا۔
کتا اس کی جانب منہ کر اور زور سے بھونکنے لگا۔ پھر لگڑبگڑ کا شور بڑھ گیا۔
افریقی لگڑبگڑ کی آواز ہنسی سے مشابہہ ہوتی ہے جبکہ ہندوستانی بھورا اور دھاری دار لگڑبگڑ عموماً خاموش رہتا ہے اور اکیلا یا جوڑوں کی صورت میں شکار پر نکلتا ہے۔ دھبے دار لگڑبگڑ غول کی صورت میں پھرتا ہے۔ اصولی طور پر تمام لگڑبگڑ بزدل ہوتے ہیں مگر ان کی جسامت کے حساب طاقتور سے ان کے جبڑے بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ اگر یہ انسان کے بازو پر کاٹیں تو بازو کو صاف پار کاٹ جائیٰں گے۔
کبھی کبھار انتہائی بہادری کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں جن میں سے ایک کا میں نے مشاہدہ کیا تھا۔ میں ایک بار تیندوے کے شکار کے لیے مچان پر بیٹھا تھا۔ تیندوا آ گیا اور پیٹ بھرنے لگا۔ میں نے تیندوے کی جنس کے بارے جاننے کی غرض سے انتظار کیا۔ مجھے اطلاع ملی تھی کہ اس جگہ ایک نر اور ایک مادہ تیندوا موجود ہیں اور مادہ کے ساتھ چھ ماہ کے دو بچے بھی ہیں۔ سو میں نر کو مارنے کے ارادے سے آیا تھا۔
جتنی دیر میں انتظار کرتا رہا، لگڑبگڑ بھی پہنچ گیا اور اس مرتبہ اس کی آمد کافی ڈرامائی تھی۔ مجھے اس کی آمد کی اطلاع تک نہ ہوئی اور وہ اچانک عجیب عجیب آوازیں نکالتا ہوا تیندوے پر چڑھ دوڑا۔ تیندوا اپنے شکار پر چڑھ کر اسے گھورنے لگا اور ساتھ غراتا بھی رہا۔ لگڑبگڑ تیندوے سے پانچ فٹ کے فاصلے پر پہنچ کر انتہائی منحوس آوازیں نکالنے لگا جیسے کوئی بدروح واویلا کر رہی ہو۔
تیندوا بھی زیادہ زور سے غرانے لگا اور بار بار لگڑبگڑ کو پنجہ مارنے کی کوشش کرتا۔ تاہم ہر بار لگڑبگڑ پیچھے ہٹ جاتا اور پھر فوراً آگے بڑھتا اور تیندوے کے عقب کا رخ کرتا۔ پہلے پہل تو تیندوا بھی اس کے ساتھ ساتھ گھومتا رہا اور پنجہ گھماتے ہوئے لگڑبگڑ کو بھگانے کی کوشش کرتا رہا۔ تاہم لگڑبگڑ ہمیشہ اس کی پہنچ سے دور رہا اور اسی طرح آوازیں نکالتا رہا۔
ڈر یا پھر تنفر کے مارے تیندوا آخرکار اپنے شکار سے ہٹ کر ایک طرف چل دیا جبکہ لگڑبگڑ کی منحوس آوازیں جاری رہیں حتیٰ کہ تیندوا جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ پھر اس نے شکار کا رخ کیا اور انتہائی رغبت سے گوشت کھانے لگا۔
تاہم جس لگڑبگڑ کو میں اب دیکھ رہا تھا، وہ اس کتے سے خوفزدہ تھا۔ بار بار وہ سڑک کے ایک یا دوسری جانب غائب ہو جاتا اور پھر لوٹ آتا اور اس کی منحوس لے بھی جاری رہی۔
ان دونوں واقعات سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ لگڑبگڑ اپنی منحوس آوازوں سے اپنے مخالف کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے لگڑبگڑ نے تیندوے کو اس کے شکار سے بھگا دیا تھا اور اب یہ لگڑبگڑ کتے کو اس لیے ڈرا رہا ہوگا کہ کتا راستے سے ہٹ جائے یا پھر جھاڑیوں میں گھسے تاکہ اس پر حملہ آسان ہو۔
چونکہ کتا بندھا ہوا تھا، سو وہ اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکا اور لگڑبگڑ کو یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ ایک گھنٹہ تک یہی کچھ ہوتا رہا اور آخرکار مجھے یقین ہو گیا کہ لگڑبگڑ کی نحوست بھری آوازوں سے تیندوا کبھی کا دور نکل گیا ہوگا۔ سو میں نے ایک پتھر اٹھایا اور لگڑبگڑ کو دے مارا۔ پتھر ذرا پہلے گرا اور سڑک پر آواز پیدا ہوئی۔ تیندوا بوکھلاہٹ سے اچھلا اور جھاڑیوں میں گھس گیا۔ کتے نے بھونکنا بند کر کے کانپنا شروع کر دیا۔ میں سمجھا کہ لگڑبگڑ اب دفع ہو گیا ہوگا۔
بمشکل پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ پھر لگڑبگڑ کی بکواس شروع ہو گئی۔ کتا بھی بھونکنے اور غرانے لگا۔ میں نے ایک اور پتھر پھینکا اور اس بار دس منٹ کے لیے خاموشی چھا گئی۔ کئی بار یہی ہوا۔ پانچویں پتھر کے بعد جا کر لگڑبگڑ کو احساس ہوا کہ اب اسے جانا چاہیے، سو دس بجے وہ دفع ہوا۔ِ
بارہ بجے سے پانچ منٹ قبل مجھے انسانی آوازیں آتی سنائی دیں۔ تھوڑی دیر بعد دو لالٹینوں کی روشنیاں نمودار ہوئیں اور کئی افراد دکھائی دیے۔ کتے نے انہیں دیکھا تو چپ ہو گیا۔
جب وہ لوگ کتے کے قریب پہنچے تو میں نے گنا کہ وہ گیارہ تھے۔ دو کے پاس لالٹین تھے اور باقی تقریباً سبھی کے پاس لاٹھیاں اور ڈنڈے تھے۔ ایک بندہ توڑے دار بندوق سے مسلح تھا۔ وہ میری ہی تلاش میں آئے تھے۔ میں نے انہیں آواز دی اور چٹان سے اتر آیا۔
انہوں نے بتایا کہ بمشکل ایک گھنٹہ قبل تیندوا اسی گاؤں کے ایک جھونپڑے میں گھسا اور پچیس سال کی ایک عورت کو گلے سے پکڑ لیا۔ اس جھونپڑے میں پانچ افراد سو رہے تھے۔ عورت نے چیخ ماری تو باقی سب بھی اٹھ گئے جو اس کا باپ، اس کی ماں اور دو بھائی تھے۔
اسی دوران تیندوا اس عورت کو گھسیٹ کر اسی سوراخ سے نکالنے کے چکر میں تھا کہ جس سے وہ اندر آیا تھا۔ لڑکی نے سخت مزاحمت کی۔ تیندوا نے اسے چھوڑ کر بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔ ایک بھائی نے دیاسلائی جلا کر روشنی کی۔ اس کے باپ نے انتہائی بہادری اور حاضردماغی کے ساتھ جو ہاتھ میں آیا، تیندوے پر دے مارا۔ اتفاق سے اس کے ہاتھ تانبے کا گھڑا لگا جو کافی وزنی تھا۔ آدم خور چاہے تیندوا ہو یا شیر، ہمیشہ بزدل ہوتے ہیں اور یہ تیندوا بھی بزدل تھا۔ اپنے شکار کو چھوڑ کر اس نے فوراً راہِ فرار اختیار کی۔
زخمی لڑکی کی چیخوں اور گھر والوں کے شور کی وجہ سے پورا گاؤں بیدار ہو گیا تھا۔ مرد حضرات لالٹینوں اور لاٹھی ڈنڈوں سے مسلح ہو کر نکل آئے۔ پھر ان میں سے گیارہ افراد مجھے تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے اور بنگلے کے چوکیدار نے انہیں بتایا کہ میں اس کے کتے کے ساتھ کہاں بیٹھا ہوں گا۔
میں نے انہیں ہدایت کی کہ کتے کو کھول کر ساتھ لیتے آئیں اور ہم بعجلت بنگلے کو چل پڑے۔ وہاں کار کی عقبی نشست سے ابتدائی طبی امداد کا سامان اٹھا کر ہم نے گاؤں کا رخ کیا جہاں خوفناک منظر دکھائی دیا۔ لڑکی کے دائیں شانے کو بری طرح چبایا گیا تھا۔ اس کے پیٹ پر بھی کافی زخم تھے۔ دائیں چھاتی اور پستان لیرا لیر ہو گئے تھے۔ اس کی قمیض اور ساڑھی بھی پھٹ چکی تھی اور بیچاری لڑکی اپنے خون میں نہائی بیہوش پڑی تھی۔
مجھے فوراً پتہ چل گیا کہ میری طبی امداد بالکل کافی نہیں ہوگی۔ سو اس کے زخموں کو پوٹاشیم پرمیگنیٹ کے محلول سے دھو کر میں نے ایک اور ساڑھی سے پٹیاں پھاڑ کر اس کے زخموں پر ہر ممکن احتیاط سے باندھ دیں۔ پھر اس کے باپ، دو بھائیوں اور تین دیگر افراد کی مدد سے اسے چارپائی پر ڈال کر بنگلے میں لائے اور وہاں اسے گاڑی میں ہر ممکن احتیاط سے لٹا کر میں نے اس کے باپ اور بھائیوں کو ساتھ لیا اور سیدھا کنکان ہالی کا رخ کیا جہاں قریب ترین دیہاتی ہسپتال تھا۔ ساڑھے تین بجے ہم پہنچے اور ڈاکٹر کو جگا کر مریضہ اس کے حوالے کی۔ اس کی حالت کافی نازک تھی کہ خون بہت بہہ گیا تھا۔
ساڑھے چار بجے میں کنکان ہالی کے ٹریولر بنگلے میں نہا رہا تھا جہاں میں اپنے خون آلود کپڑے اتارے۔ پھر میں نے بنگلے کے بیرے سے کمبل اور صاف دھوتی ادھار لی کہ عجلت میں مجھے اپنے کپڑے ساتھ لانا یاد نہیں رہا تھا۔
پو پھٹ رہی تھی کہ میں نے ڈاک خانے پر دستک دی اور بہت مہربان پوسٹ ماسٹر کو نیند سے جگا کر لیٹ فیس کے ساتھ ہنگامی تار بنگلور بھیجا کہ مجھے چار دن کی اضافی رخصت دی جائے۔
جب میں بنگلے میں پہنچا تو لڑکی کا چھوٹا بھائی میرا منتظر تھا۔ اس نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ ابھی ہسپتال سے یہ بتانے آیا ہے کہ اس کی بہن مر گئی ہے۔ کچھ دیر بعد اس کا باپ یہ درخواست کرنے آیا کہ متوفیہ کو اپنی کار میں سنگم پہنچا دوں تاکہ وہاں دریائے کاویرے کے کنارے اسے جلا کر راکھ بکھیری جائے۔ ظاہر ہے کہ ایسی درخواست کو کون رد کر سکتا ہے۔ اسی اثنا میں بیرے نے اپنی دھوتی اور کمبل واپس مانگ لیا۔ سو مجبوری میں اپنے خون آلود کپڑے دوبارہ پہنے۔
ہم ہسپتال گئے اور متوفیہ کی لاش کو پچھلی نشست پر لٹا دیا اور واپس لوٹے۔ راستے میں پولیس میں رپورٹ درج کرانے میں دو گھنٹے مزید لگ گئے۔
دریا کے کنارے پر مگرمچھوں سے پاک سرد تالاب میں غسل کر کے میں نے کپڑے بدلے اور ٹھنڈا کھانا کھا کر گرما گرم چائے کے دو بڑے پیالے پیے۔ پھر بنگلے کے برآمدے میں پرانی کرسی پر نیم دراز ہو کر میں نے پائپ سلگایا اور ساری صورتحال کا جائزہ لیا اور اونگھنے لگا۔
تیندوے کے شکار کی خاطر میرے پاس کل چار دن اور پانچ راتیں تھیں۔ خدا جانے ابھی اور کتنے آدم خور اس علاقے کی قسمت میں لکھے تھے۔ جو حقائق سامنے آئے وہ کچھ یوں تھے: اول، تیندوا گارے کو متوجہ نہیں ہوگا۔ دوئم، بہت بڑا علاقہ اس کی آماجگاہ ہے۔ سوئم، اب وہ لوگوں کو جھونپڑوں میں گھس کر بھی ہلاک کرنا شروع ہو گیا تھا۔ اسی دوران مجھے نیند آ گئی۔
تین بجے میں بیدار ہوا تو نیند کے دوران ہی مجھے لائحہ عمل سوجھ گیا تھا۔
سنگم کا چھوٹا سا دیہات بارہ گھروں پر مشتمل تھا اور عام رواج کے مطابق ایک گلی وسط سے گزرتی تھی اور دونوں جانب گھر بنے ہوئے تھے۔ مجھے یاد تھا کہ گلی کی جنوبی سمت اور دریا کے کنارے کے پاس مویشیوں کا ایک باڑہ تھا جہاں سارے گاؤں کے مویشی باندھے جاتے تھے۔ اس کے گرد بانسوں سے دیوار بنائی گئی تھی اور خاردار جھاڑیاں بانسوں میں اڑس دی گئی تھیں۔ باقی گاؤں میں محض وہی کتے بچ گئے تھے جن کا مالک تیندوے کا شکار بنا تھا۔ یہ کتے اسی کے جھونپڑے میں بند تھے اور یہ جھونپڑا مویشیوں کے اسی باڑے کی مغربی دیوار کے ساتھ بنا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر باڑے کے اندر چھپ جاؤں تو تیندوے کی جانب سے اچانک حملے کا اندیشہ بھی نہیں رہے گا کہ مویشی تیندوے کی موجودگی بھانپ لیں گے۔ دوسرا پاس والے جھونپڑے سے کتے بھی شور کریں گے۔ اس کے علاوہ اپنے خریدے ہوئے پانچوں گارے بھی بندھواتا رہوں گا مبادا کہ تیندوا ان کی طرف متوجہ ہو جائے۔
یہ سوچ کر میں نے رات کے لیے گرم کپڑے پہنے۔ اس کے علاوہ چائے کا بڑا تھرماس، کچھ بسکٹ اور پائپ اور تمباکو بھی اٹھا لیے کہ احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
تیندوے کی وجہ سے سارے گاؤں والے اپنے گھروں میں دبک گئے تھے اور دروازوں اور چھتوں پر خاردار جھاڑیاں کاٹ کر لگا دی گئی تھیں۔ سو میں نے باڑے کے وسط میں ڈیرہ جما لیا۔ یہاں سے ہر سمت پچاس پچاس گز تک باڑہ تھا اور سو کے قریب مویشی تھے۔
پہلے پہل مویشی میری موجودگی کو ناپسند کرتے رہے اور کناروں پر رہنے کو ترجیح دی۔ میں وسط میں اکیلا بیٹھا تھا۔ پھر میں نے ان سے دوستی کی کوشش شروع کر دی۔ ایک نے تو میری تھرماس کو لات مار دی۔ کچھ بیل کافی غصے میں تھے اور جب بھی قریب ہوتا تو سینگ دکھاتے۔ تاہم ایک گھنٹے کی محنت کے بعد ان سے کچھ کچھ دوستی شروع ہوئی اور کچھ مویشی میری جانب آنا شروع ہو گئے۔نصف مویشی تو سونے کے لیے لیٹ گئے تھے۔ میں بھی لیٹ گیا۔
گھنٹے گزرتے رہے اور سناٹا رہا۔ کبھی کبھار کسی مویشی کے پھنکارنے کی آواز آ جاتی یا وہ حرکت کرتے۔ ایک گائے نے اپنی تھوتھنی میرے سینے سے لگا لی۔ آخرکار وہ میرے پاس ہی لیٹ گئی۔
مویشیوں کے پسو مجھے کاٹنے لگے۔ بار بار کھجلاتا اور یہ بھی علم تھا کہ جتنا کھجلاؤں گا، کھجلی اتنی بڑھتی جائے گی۔ سردی ہونے لگ گئی تھی سو میں گائے کے ساتھ لیٹ گیا۔ وقتاً فوقتاً کوئی جانور آواز یا حرکت کرتا۔
گھنٹے گزرتے رہے اور پسو کاٹتے رہے۔ ایک بجے سانبھر گاؤں کے شمال والی پہاڑی پر سے آواز نکالی۔ مادہ سانبھر کی آواز تھی جو کئی بار آئی۔ پھر کاکڑ بولا۔
مادہ سانبھر خاموش ہو گئی تھی جبکہ کاکڑ نے پہاڑی پر چڑھ کر وقفے وقفے سے شور کرنا جاری رکھا۔ ان کے خوف کی جو بھی وجہ ہو، وہ اب پہاڑی سے اتر آئی تھی۔
بیس منٹ بعد چیتل بولنا شروع ہو گئے جو پہاڑی سے لے کر دریا کے کنارے تک پھیلے ہوئے تھے۔ انہیں شیر یا تیندوا دکھائی دیا ہوگا۔ اگلے چند منٹ میں پتہ چل جاتا کہ آیا یہ آدم خور ہے یا عام درندہ۔
تاریکی بہت گہری تھی کہ اچانک مویشی بیدار ہو گئے۔ ایک ساتھ سبھی زمین سے اٹھے اور میں بھی ان کے ساتھ اٹھا اور گائے کے پیچھے پیچھے رہا۔ کچھ بیل پھنکارنے لگے۔ ان سب کا رخ گاؤں کی گلی کی سمت تھا۔
سبھی مویشی بے چین ہو کر باڑے کے دوسرے سرے پر جمع ہو گئے۔ ساتھ والے جھونپڑے کے کتے جو اب تک بھونک رہے تھے، اب اچانک رونے لگے۔ ان کے خوف کی جو بھی وجہ تھی، وہ اس وقت عین ہمارے سامنے سے گزر رہی تھی۔
میں اس وقت تک مویشیوں کے وسط میں پھنس چکا تھا اور مجھے خیال رکھنا پڑ رہا تھا کہ کہیں مویشیوں کے سینگ نہ لگیں۔ پھر میں نے سامنے والے دروازے کی طرف راستہ بنانا شروع کیا تاکہ وہاں پہنچ کر کچھ دیکھ سکوں۔ مگر تاریکی اور باڑ کی وجہ سے کچھ نہ دکھائی دیا۔
مجھے کتوں کی آوازیں آ رہی تھیں جو اب بھونکنے کی بجائے رونے لگ گئے تھے۔ اگرچہ میرے کان معمولی سے معمولی آواز سننے کو تیار تھے مگر شور اتنا مچا ہوا تھا کہ کچھ سنائی نہ دیا۔ چند منٹ بعد مجھے ایسی آواز آئی جیسے کسی چیز کو کھرچا جا رہا ہو۔ مزید غور کیا تو یہ آواز گلی میں دائیں جانب سے آ رہی تھی۔ کتے مزید شور کرنے لگے۔ پھر مججھے احساس ہوا کہ تیندوا کسی گھر کے دروازے کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مویشیوں سے راستہ بنا کر میں باڑ کے پاس پہنچا اور ٹارچ جلانے کے بعد اچک کر دیکھنے لگا کہ شاید تیندوے کا کوئی حصہ دکھائی دے جائے۔ عین اسی لمحے اس جھونپڑے کے مکینوں نے شور مچا دیا اور کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی۔
میں سمجھا کہ آدم خور جھونپڑے میں گھس گیا ہے، میں نے احتیاط کا دامن چھوڑتے ہوئے باڑے کا دروازہ کھولا۔ بدقسمتی سے شام کو یہاں داخل ہوتے ہی میں نے Y شکل کا ایک ڈنڈا اس کے پیچھے گاڑ دیا تھا، جس کی وجہ سے دروازہ کھولنے میں چند سیکنڈ لگے۔ اسے ایک طرف پھینک کر میں نے ٹارچ جلائی اور دروازہ بند کر کے گلی میں آیا۔ تیندوا کہیں دکھائی نہ دیا۔ عقب سے حملے سے بچاؤ کی خاطر باڑے کی دیوار سے ٹیک لگا کر میں نے ہر طرف ٹارچ کی روشنی پھینکی مگر تیندوا غائب ہو چکا تھا۔ اس دوران جھونپڑے کے مکینوں کی چیخ و پکار پورے زور و شور سے جاری رہی۔
پھر مجھے خیال آیا کہ شاید تیندوا اسی جھونپڑے میں گھسا ہوا ہے اور مکینوں کی چیر پھاڑ کر رہا ہے۔ سو میں نے انتہائی احتیاط سے بیس گز کا فاصلہ طے کیا اور جھونپڑے کو جا پہنچا۔
جب میں اس کے دروازے کے سامنے پہنچا تو وہ بند تھا۔ میں نے مکینوں کو آواز دی۔ پہلے پہل تو ان کے شور کی وجہ سے میری آواز نہ سنائی دی مگر پھر جب میں نے دوبارہ زور سے آواز دی تو وہ لوگ بتدریج خاموش ہوتے گئے۔
میں نے انہیں دروازہ کھولنے کا کہا۔ مگر وہ اس پر تیار نہ تھے۔ پہلے انہوں نے پوچھا کہ میں انسان ہوں یا شیطان۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں کون ہوں اور یہ بھی کہ تیندوا جا چکا ہے۔ انہوں نے صاف انکار کیا اور کہا کہ اب یہ دروازہ صبح کو ہی کھلے گا۔ اس دوران میں نے ٹارچ کی روشنی میں زمین اور دروازے پر تیندوے کے پنجوں کے تازہ نشانات دیکھے جہاں وہ دروازہ توڑنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔
میٰں باڑے کو لوٹا اور دوبارہ ڈنڈا اسی طرح پھنسا کر دروازہ بند کیا اور اس جگہ کو لوٹا جہاں میں پہلے بیٹھا تھا۔
مجھے چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی۔ بدقسمتی سے مویشیوں نے بھاگم دوڑ میں میری تھرموس توڑ دی تھی۔بسکٹ بھی کھائے جا چکے تھے اور وہی گائے کہ جو میرے پاس بیٹھی تھی، اب بسکٹ کے کاغذ کو چبا رہی تھی۔ خوش قسمتی سے میرا پائپ اور تمباکو جیب میں تھے، سو میں نے بقیہ رات پھر اسی گائے سے ٹیک لگا کر آرام سے کاٹی۔
صبح پو پھٹتے ہی میں بنگلے کو لوٹا اور بہت تھکا ماندہ اور مایوس تھا۔ پسوؤں کے کاٹنے سے شدید کھجلی ہو رہی تھی۔ مجھے بخوبی علم تھا کہ اگلے دس روز تک یہ کھجلی بڑھتی جائے گی اور تکلیف میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
سرد پانی سے غسل کر کے میں نے گرم چائے، ڈبہ بند بیکن، ڈبل روٹی اور مکھن سے اپنا پیٹ بھرا اور ساڑھے سات بجے سو گیا۔ دوپہر کو کھانا کھانے اٹھا اور پھر دوبارہ تین بجے تک کے لیے سو گیا۔ پھر میں نے ایک اور منصوبہ سوچنا شروع کیا۔
ظاہر ہے کہ اب دوبارہ باڑے میں رکنا ناممکن تھا ورنہ پسو کاٹ کاٹ کر مجھے ادھ موا کر دیتے۔ تاہم یہ بات بھی اہم تھی کہ تیندوے کی آمد کے بارے مجھے مویشیوں اور کتوں نے ہی بروقت خبردار کیا تھا۔
آخرکار میں نے ایک نیا منصوبہ سوچا۔ کتوں والے جھونپڑے کی چھت جستی چادروں سے بنی تھی۔ اگر میں اس چھت پر لیٹ کر خود کو چھپا لیتا تو مجھے گلی صاف دکھائی دیتی اور جونہی تیندوا گزرتا، میں اسے مار لیتا۔ کتے اور مویشی مجھے تیندوے کی آمد سے خبردار کر دیتے۔ چھت پر اپنے پیچھے اور اطراف میں خاردار کانٹے بچھا کر وہاں سے بے خوف ہو جاتا۔ اگر تیندوا چھت پر جست بھی لگاتا تو اتنی آواز پیدا ہوتی کہ مجھے بخوبی سنائی دیتی۔ یہ واحد اور بہترین حل سجھائی دیا۔
سو اپنا شکاری سامان اٹھا کر میں گاؤں کو لوٹا۔ میں نے بسکٹ اور چائے بھی ساتھ اٹھائی تھی (چائے کے لیے میں نے بنگلے کے چوکیدار سے شراب کی خالی بوتل ادھار لی تھی)۔ پھر دیہاتیوں کو اپنا منصوبہ بتایا تو وہ لوگ فوراً کانٹے اور خاردار جھاڑیاں کاٹ کر کتوں والے جھونپڑے کی چھت پر جمع کرنے لگے۔ کچھ لوگوں نے ان کانٹوں کے وسط میں بھوسہ بچھایا تاکہ مجھے زیادہ تکلیف نہ ہو۔
چھ بجے میں اپنی جگہ پر پہنچ گیا۔ فوراً ہی دو نقصانات معلوم ہوئے: پہلا تو یہ کہ گلی کا رخ کرنے پر میری ٹانگیں باقی جسم کی نسبت ذرا سا زیادہ بلندی پر تھیں کیونکہ چھت کا زاویہ کچھ ایسا تھا کہ بارش کا پانی گلی میں گرتا۔ دوسرا یہ کہ ساری رات مجھے اوندھا لیٹنا پڑتا کہ ذرا سی حرکت سے بھی خاصی آواز ہوتی تھی۔ تاہم میں اس طرح عقب سے حملے سے محفوظ تھا اور مجھے پوری گلی صاف دکھائی دے رہی تھی اور جونہی مویشی یا کتے بے چین ہوتے تو مجھے فوراً پتہ چل جاتا اور یہاں منحوس پسو بھی نہیں تھے۔
تاہم یہ رات سکون سے گزری اور تیندوا گاؤں سے دو یا تین میل قریب نہ آیا۔ اگلی صبح بنگلے میں پہنچا اور نہا دھو کر پھر سارا دن سو کر گزارا۔ ہر روز کئی آدمیوں کی جماعت پانچوں گاروں کی دیکھ بھال کرتی رہی مگر تیندوے نے انہیں چھوؤا تک نہیں۔
اس رات میں پھر چھت پر تھا۔ رات دو بجے کے قریب ہر طرف خاموشی تھی اور مجھے اونگھ آ گئی۔ اچانک جیسے کسی خواب سے بیدار ہوا ہوں، میں نے مویشیوں کو بے چینی سے حرکت کرتے سنا۔ پھر میرے نیچے سے ایک کتا بھونکا اور پھر چاروں مل کر رونے اور بھونکنے لگے۔
آہستگی سے آگے بڑھ کر میں نے گلی کو دونوں سمتوں میں دیکھا۔ ستاروں کی روشنی اتنی نہیں تھی کہ کچھ صاف دکھائی دیتا، مگر گلی محض اطراف سے ہلکی سی فرق دکھائی دے رہی تھی۔ مجھے کچھ سنائی نہ دیا۔
اچانک مدھم سی آواز آئی۔ جیسے کوئی سانپ پھنکارا ہو۔ پھر دوبارہ وہی آواز سنائی دی۔ اس بار یہ آواز عین میرے نیچے سے آئی تھی۔ یہ سانپ کی آواز تھی یا پھر تیندوے کی، تیندوا جب اپنا اوپری ہونٹ سکوڑتا ہے تو ایسی آواز نکلتی ہے۔
میں نے نیچے گھورا مگر کچھ دکھائی نہ دیا۔ پھر اچانک عجیب لمبوترا سا دھبہ دکھائی دیا جو اطراف سے ذرا سا ہلکا تھا۔ یہ آواز اسی سے آئی تھی۔ کتے پورے زور سے بھونک اور رو رہے تھے۔ مویشی بھی بے چین تھے۔
اب مجھے احساس ہوا کہ میں عین نیچے گولی نہیں چلا سکتا۔ مجھے کم از کم ایک فٹ آگے بڑھنا تھا تاکہ میرے کندھے اور سر چھت سے باہر نکلیں۔ جونہی میں نے حرکت کی تو احتیاط کے باوجود بھوسے اور چھت سے ہلکی سی آواز آئی۔
پھر اسی دھبے سے غراہٹ کی آواز سنائی دی۔ تیندوے کو میرے موجودگی کا علم ہو چکا تھا۔اب کسی بھی لمحے تیندوا جست کر کے مجھ پر حملہ کر سکتا تھا۔
پیروں سے دھکیلتے ہوئے میں نے بقیہ فاصلہ طے کیا اور رائفل کا رخ نیچے کو کر کے ٹارچ جلائی۔ دو چمکتی ہوئی گولیاں دکھائی دیں جو جست لگانے کے لیے جھکا ہوا تھا۔ اتنے قریب سے ایک ہی گولی کافی تھی اور تیندوا وہیں گرا اور اس کی چمکدار آنکھیں سفید سے مدھم نارنجی ہوئیں، پھر ہلکی سبز اور پھر بے جان ہو گئیں اور جامنی مائل نیلے رنگ کی روشنی منعکس ہوتی رہی
اگلی صبح جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ یہ بوڑھی مادہ تھی جس کے بڑے دانت مسوڑھوں تک گھس گئے تھے۔ اس کی کھال بہت مدھم ہو چکی تھی اور دھبے بھی مدھم اور دھندلے ہو گئے تھے۔ تاہم اس کے جسم پر کوئی زخم یا معذوری دکھائی نہیں دی۔ شاید بڑھاپے کی وہ سے وہ جانوروں کا شکار کرنے سے معذور ہو گئی تھی اور انسانوں سے پیٹ بھرنے لگی۔ ہر آدم خور کی طرح اس کی جتنی بھی دہشت رہی، مگر وقت کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچی۔ جدید آتشیں اسلحہ اور انسانی عقل جنگل کی مہارت اور بھوک سے کہیں طاقتور ہوتے ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
6۔ راما پرم کا آدم خور
یہ کہانی ایک ایسے شیر کی ہے جس نے تین ماہ کے لیے آدھے ضلع کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا جو ساٹھ میل لمبا اور ساٹھ ہی میل چوڑا علاقہ بنتا تھا۔ اگرچہ اس کی حکمرانی نسبتاً مختصر تھی، مگر اس دوران وہ اپنی سلطنت کے 3٫600 مربع میل میں ہر جگہ موجود دکھائی دیتا رہا۔ ہر کوئی اس کے پیچھے تھا مگر وہ کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ اس کا انجام انتہائی غیر متوقع تھا۔
شمالی کومبتور کا ضلع زیادہ تر جنگلات اور پہاڑی ہے۔ اس کے جنوبی سرے پر کومبتور کا اصل ضلع ہے جہاں سے اچانک ڈیم بیم کی پہاڑیاں شروع ہوتی ہیں۔ جنوب مغرب میں نیلگری یا نیلے پہاڑوں کا سلسلہ اور جنگلات ہیں۔ مغرب میں میسور کے جنگلات ملتے ہیں۔ شمال مغرب میں بلی ریرنگن کا پہاڑی سلسلہ ہے۔ شمال، شمال مشرق اور مشرق میں دریائے کاویری بہتا ہے اور اس کے کناروں پر گھنا جنگل پایا جاتا ہے اور جنوب مشرقی اور مشرقی سمتوں میں ضلع سالم کے جنگلات ہیں۔
شمالی ضلع کومبتور میں محض ایک قابلِ ذکر قصبہ ہے جو کولیگل کے نام سے شمال مغربی کنارے پر اور دریائے کاویری سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔ کولیگل سے چار سڑکیں نکلتی ہیں۔ مغرب اور میسور کو شمال کی جانب جانے والی سڑکیں ہمارے لیے اہم نہیں۔ تیسری سڑک جنوب کی سمت اور لگ بھگ سیدھی ہی بیلی ریرنگن کی پہاڑیوں کو جاتی ہیں۔ اس سڑک پر لوکن ہالی نامی بڑا دیہات آتا ہے اور اس سے تیرہ میل مزید آگے بیلور ہے جہاں بائسن رینج شروع ہوتی ہے۔ آگے چل کر حسنور 48ویں سنگ میل پر آتا ہے ڈیم بیم ان پہاڑیوں کے اوپر کولیگال سے 52 میل دور واقع ہے۔
چوتھی سڑک جنوب مشرق کی سمت کو پچیس میل دور راماپرم سے ہو کر گزرتی ہے اور پھر اس کا رخ جنوب کی سمت برگور کو ہو جاتا ہے جو 24 میل مزید آگے ہے اور تماراکاری مزید پانچ میل آگے اور آخرکار جنوب مشرق میں ڈیم بیم کی بلندی پر پہنچتی ہے۔ پھر یہ سڑک اچانک نیچے اترتے ہوئے اندیور کو جاتی ہے جو میدانوں میں واقع ہے۔ یہ سڑک کل 81 میل طویل ہے۔
کولیگال، لوکن ہالی، بیلور اور ڈیم بیم والی سڑک پر کبھی کبھار لاریاں چلتی ہیں اور روزانہ بس چلتی ہے۔ راماپرم، تماراکاری اور اندیور والی سڑک موٹروں کے لیے مناسب نہیں اور اس پر صرف جیپیں اور پرانی اونچی امریکی کاریں ہی چل سکتی ہیں۔ اس کی لمبائی 60 میل ہے۔ سارا علاقہ انتہائی خطرناک ہے پوری سڑک پر بڑے بڑے پتھر اور تنگ موڑ عام ہیں۔ یہ راستہ تنگ ہوتا جاتا ہے اور درمیان میں بیل گاڑیوں کے پہیوں سے سڑک کٹی ہوئی ہے اور اطراف میں گھنا جنگل۔ ریتلے اور پتھریلے نالے جگہ جگہ راستے کو کاٹتے ہوئے گزرتے ہیں۔ گہری وادیوں میں بانس کے بڑے جھنڈ ملتے ہیں جن کے جھکے ہوئے سرے کار کی چھت سے مس کرتے جاتے ہیں۔ راستہ اتنا مشکل ہوتا ہے کہ کار کو چھوٹے گیئر میں چلانا پڑتا ہے اور عموماً انجن کا پانی کھول رہا ہوتا ہے۔ کہیں کہیں بانس کے گرے ہوئے تنے یا درختوں کی ٹوٹی ہوئی شاخیں بھی راستے میں پڑی ملتی ہیں جو عموماً ہاتھی اپنا پیٹ بھرنے کے چکر میں گرا کر جاتا ہے۔ ہر بار ڈرائیور کو رک کر کلہاڑی یا ٹوکے سے اسے کاٹ کر راستہ صاف کرنا پڑتا ہے۔ کلہاڑی یا ٹوکے کے بغیر ان راستوں پر گاڑی لے جانا ممکن نہیں۔
شیر عموماً گھنے جنگل کو پسند نہیں کرتے اور نسبتاً کم گھنے جنگل میں رہتے ہیں۔ تاہم بائسن اور ہاتھی ایسے جنگل کو پسند کرتے ہیں۔ شیر کی ناپسندیدگی کی اپنی وجوہات ہوتی ہیں جن میں سرِفہرست گھنی جھاڑیوں کی وجہ سے چھپ کر جانوروں تک پہنچنا اور ان پر حملہ کرنا بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ شیر کا عام کھاجا جیسا کہ ہرن، سور اور مویشی وغیرہ ایسے گھنے جنگلات میں داخل نہیں ہوتے اور گھنے جنگلات میں رہنے والے ہاتھیوں اور بائسن سے شیر کی نہیں بنتی۔ تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پائے جانے والے حشرات اور دیگر طفیلیے جیسا کہ جونکیں اور پسو وغیرہ یہاں بکثرت ہوتے ہیں جن سے شیر کو نفرت ہوتی ہے۔
راماپرم کا آدم خور دریائے کاویری کے کناروں سے اس مقام سے نکلا جسے پونچا ملائی کہا جاتا تھا۔ یہ جگہ چھ ہزار فٹ سے زیادہ اونچی ہے۔ اس پہاڑ کی ڈھلوانوں پر کافی کے کچھ باغات موجود ہیں جو شلوگا اور ہندوستانی مالکان کے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس آدم خور نے انہی باغات کے آس پاس مویشیوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ اس نے بہت سارے مویشی پھاڑ کھائے اور پھر ایک روز ایک زمیندار نے اس شیر سے نجات پانے کے لیے کومبتور شہر کا رخ کیا اور بہت بڑا اور خوفناک شکنجہ خریدا۔
یہ شکنجہ فولاد سے بنا ہوا تھا جس کو کھولیں تو اس کا قطر اڑھائی فٹ بنتا تھا۔ اس کے دانت دو انچ لمبے تھے۔ جب اس پر دباؤ پڑتا تو اس کا بہت طاقتور سپرنگ برق رفتاری سے شکنجے کو بند کر دیتا اور دانت ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتے۔
جلد ہی شیر نے ایک دودھیل گائے ماری اور اسے ایک کھائی میں گھسیٹ کر لے گیا اور خشک پتوں کے نیچے چھپا دی، مگر اسے کھایا نہیں۔ اس کا پیچھا کر کے گائے کی لاش کو تلاش کیا گیا اور پھر گائے کی پچھلی ٹانگوں کے درمیان یہ شکنجہ انتہائی مہارت سے لگا دیا گیا۔ پھر وہی خشک پتے بکھیر کر شکنجے کو چھپا دیا گیا۔ شیر واپس آیا اور بدقسمتی سے سیدھا اس کا سر اس شکنجے میں پھنس گیا۔ یہ شکنجہ اس کے کانوں کے پیچھے پیوست ہو گیا۔
شکنجے کو لکڑی کے ایک کھونٹے کی مدد سے زمین میں گاڑا گیا تھا۔ شیر نے شکنجے پر زور لگایا تو کھونٹہ نکل آیا مگر شکنجے کی گرفت ڈھیلی نہ پڑی۔ شیر نے سیدھا جنگل کا رخ کیا اور شکنجے کو ساتھ لیتا گیا۔ تقریباً دو میل دور جا کر شیر دو بڑے پتھروں کے درمیان سے گزرا تو شکنجہ وہیں پھنس گیا۔ شیر نے نکلنے کے لیے بہت زور لگایا مگر شکنجے کی گرفت مزید سخت ہوتی گئی۔
شیر تکلیف سے دھاڑتا رہا اور جدوجہد جاری رہی۔ نصف شب تک زمیندار اور اس کے مزارع اور کارندے دو میل دور پلانٹیشن میں یہ آوازیں سنیں۔ آخرکار شکنجے کی گرفت کمزور پڑی اور شیر نکل آیا مگر اس دوران اس کی ایک آنکھ اور بائیاں کان شکنجے میں پھنسے رہ گئے۔ اس کے علاوہ چہرے اور گردن پر بھی شدید زخم آئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ہفتے تک شیر تکلیف کی شدت سے دن رات دھاڑتا پھرا۔
پھر اچانک خاموشی کا دور شروع ہوا۔ ہر کوئی سمجھا کہ زخموں کی وجہ سے شیر مر گیا ہے۔ زمیندار اور اس کے ملازمین نے زمین پر اترتے ہوئے گِدھوں کی تلاش جاری رکھی تاکہ شیر کی لاش تلاش کر سکیں۔ تاہم گدھ فضا میں اونچے اڑتے رہے مگر کوئی بھی نیچے نہ اترا۔
دو ہفتے گزر گئے اور پھر ایک سہ پہر کو ایک چھوٹے کافی کے باغ کے راستے پر مقامی شلوگا اور اس کی اٹھارہ سالہ بیوی گزرے۔ روایتی طور پر بیوی اپنے شوہر سے ایک گز پیچھے چل رہی تھی اور اس کے سر پر گندم کا تھیلا لدا ہوا تھا۔ انہوں نے راستے میں ایک خشک نالہ عبور کیا اور دوسرے کنارے پر چڑھ رہے تھے کہ سرکنڈوں سے اچانک شیر نے عورت پر جست لگائی اور اسے زمین پر گرا دیا۔
مڑ کر شلوگا نے اپنی بیوی کو زمین پر گرے ہوئے دیکھا۔ شیر اس کی پیٹھ پر سوار تھا اور دونوں پنجے اس کے شانوں پر تھے اور کھلا ہوا منہ بیوی کے سر کے عین اوپر۔ شیر کی ایک آنکھ اور بائیاں کان بھی غائب تھے جبکہ چہرے اور گردن کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے۔
شلوگا خوف سے اپنی جگہ گڑ سا گیا۔ نہ وہ کوئی حرکت کر سکا اور نہ ہی کوئی آواز نکال سکا بلکہ اسی جگہ کھڑا حیرت اور دہشت سے دیکھتا رہا۔ شیر بُری طرح غرایا اور خوفناک شکل بنائی۔ پھر اس نے لڑکی کو دائیں شانے سے پکڑا اور اس کے ساتھ ندی عبور کرنے لگا۔ لڑککی کا سر ایک طرف لٹک رہا تھا اور لمبے بال اور بائیں بازو کے علاوہ ٹانگیں بھی ریت پر گھسٹ رہی تھیں۔ اگلے ہی لمحے شیر لڑکی سمیت نالے کے دوسری جانب والے جنگل میں غائب ہو گیا۔
شاید بیچاری لڑکی یا تو بیہوش ہو گئی تھی یا پھر شاید دہشت کے مارے مر گئی تھی۔ اس کے بعد شلوگا کو اس کی بیوی کبھی نہ دکھائی دی۔ عجیب بات یہ تھی کہ حملے کے وقت بھی اس کی بیوی کچھ نہ بولی تھی۔
ایک مہینے بعد ایک چرواہا لڑکا شیر کے ہاتھوں راماپرام سے دو میل کے فاصلے پر مارا گیا۔ اس بار ادھ کھائی لاش جھاڑیوں سے مل گئی۔ تیسری واردات تین ہفتے بعد ہوئی جو کولیگال، لوکن ہالی، بیلور اور ڈیم بیم والی سڑک کے اکیسویں سنگِ میل کے قریب ہوئی۔ اس بار ایک روڈ قلی ماری گئی جو ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ یہ واردات شام پانچ بجے سے پہلے اور اس کے دیگر ساتھیوں کے عین سامنے ہوئی۔ وہ چند منٹ قبل اپنا کام روک کر جنگل میں قضائے حاجت کے لیے گئی تھی کہ شیر اسے اٹھا لے گیا۔ اس نے کافی چیخم پکار کی اور اس کے ساتھیوں نے شیر کو صاف دیکھا۔ اس کے چہرے پر زخم تھے اور ایک آنکھ اور بائیاں کان بھی گم تھے۔
اتفاق دیکھیے کہ انہی دنوں شمالی کومبتور کے لیے میرا شکاری لائسنس ختم ہوا تھا۔ یہ علاقہ دو فارسٹ ڈویژن میں منقسم ہے، شمالی کومبتور اصل اور کولیگال ڈویژن۔ اگرچہ انتظامی اعتبار سے کولیگال شمالی کومبتور کے تحت آتا ہے مگر محکمہ جنگلات نے اس کو دو الگ فارسٹ ڈویژن میں تقسیم کر دیا ہے۔ میرا لائسنس جو ختم ہوا تھا، شمالی کومبتور اور ڈیم بیم کے لیے کارآمد تھا جبکہ لوکان ہالی، بیلور اور راماپرام کولیگال ڈویژن کا حصہ تھے۔ میرا ارادہ تھا کہ پرانے لائسنس کی تجدید کرانے کے لیے مطلوبہ فیس بھیجوں کہ اخبار میں اس شیر کی آخری واردات کے بارے خبر پڑھنے کو ملی۔ فیصلہ کرنا آسان تھا۔ دس روز کی چھٹی بچی ہوئی تھی، سو میں علی الصبح بنگلور سے نکلا اور کولیگال کے محکمہ جنگلات کے دفتر جا پہنچا جو 87 میل دور تھا۔ ابھی یہ دفتر نہیں کھلا تھا۔ جلد ہی میں نے لائسنس کی تجدید کرا لی اور شیر کے بارے تمام تر معلومات بھی جمع کر لیں۔
آدم خور کی جولان گاہ میرے لیے نیا علاقہ تھا، سو میں نے سوچا کہ راماپرام میں قیام کروں جو یہاں سے 25 میل دور تھا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد میں وہاں جا پہنچا۔ راستہ کافی خراب تھا۔
پہلا کام تو ظاہر ہے کہ یہی تھا مقامی لوگوں کو اعتماد میں لوں کہ میں شیر کو مارنے آیا ہوں۔ لوگ میرے واقف نہیں تھے، سو انہوں نے ملی جلی معلومات مہیا کیں اور بتایا کہ شیر پونچائی ملائی اور بیلور کے درمیان کہیں بھی ہو سکتا ہے جو پہلی اور آخری واردات کے مقامات تھے۔ دونوں کا درمیانی فاصلہ ساٹھ میل بنتا تھا۔
بیلور کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ کولیگال سے تیس میل دور چھوٹا گاؤں ہے جو کولیگال، لوکان ہالی اور ڈیم بیم والی سڑک پر واقع ہے۔ اب یا تو میں کولیگال تک کار پر جا کر پھر بیلور کو جاتا یا پھر راماپرم میں گاڑی چھوڑ کر راماپرم سے بیلور تک کا 19 میل کا سفر پیدل طے کرتا۔ میں نے دوسری ترکیب پر عمل کرنے کا سوچا۔ اس طرح مجھے راستے میں آنے والی تمام وادیوں کو دیکھنے اور ان کے لوگوں سے بات کرنے کا موقع مل جاتا اور عین ممکن ہے کہ شیر کے بارے بھی کچھ پتہ چل جاتا۔
سو، اگلی صبح میں راما پرم کے چھوٹے فارسٹ بنگلے سے نکلا اور بیلور کی سمت روانہ ہوا۔ راستہ جنوب مغرب کو جاتا تھا اور کہیں کھیت آتے تو کہیں جنگل اور کہیں راستہ پہاڑیوں سے کتراتا ہوا بڑھتا جاتا اور ایک جگہ محفوظ جنگل سے بھی گزرا۔
میں کئی بستیوں سے گزرا، مگر ان کے مکین یا تو گھروں کے اندر بند تھے یا پھر دہلیز پر بیٹھے ملے۔ مویشی بھی یا تو پاس ہی بندھے ہوئے تھے یا پھر بستی کے کنارے پر چر رہے تھے۔ آدم خور کی خبر دور دور تک پھیل چکی تھی اور لوگ دہشت زدہ تھے۔
میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اور ہر ممکن جگہ پوچھتا جاتا۔ یہاں زیادہ تر شلوگا لوگ آباد ہیں اور ہر کسی نے یہی بتایا کہ شیر یا تو ایک رات قبل ان کی بستی کے قریب دھاڑ رہا تھا یا تین دن سے کم وقت میں اس کی دھاڑ سنائی دی تھی۔ ایک جگہ مجھے ایک بندے نے تازہ ہل چلے کھیت میں شیر کے پگ دکھائے جو اس کے گھر سے سو گز کے فاصلے پر تھا۔ میں نے ان نشانات کا تفصیلی معائنہ کیا اور جلد ہی واضح ہو گیا کہ یا تو یہ سبھی لوگ اتنے دہشت زدہ ہیں کہ غلط خبر دے رہے ہیں یا پھر اس 19 میل کے علاقے میں بہت سارے شیر موجود ہیں۔ ہر بستی کے لوگوں نے یہی کہا تھا کہ پچھلے تین یا چار روز میں شیر ہر بستی سے گزرا تھا۔
تین بجے میں بیلور پہنچا۔ اس بستی میں کل بیس گھر تھے۔ یہاں روڈ گینگ کے لوگ ملے جنہوں نے شیر کے حملے کو دیکھا تھا۔ ان کی دی ہوئی معلومات میں پہلے بتا چکا ہوں۔ یہ لوگ دہشت کے عالم میں کھڑے شیر کو عورت کو لے جاتے دیکھتے رہے جو شور مچا رہی تھی۔
نزدیک ترین فارسٹ بنگلا ساڑھے تین میل دور تھا۔ ریزرو سڑک کے دونوں جانب موجود تھا۔ ساڑھے پانچ بج رہے تھے اور مجھے علم تھا کہ گھنٹے بھر میں اندھیرا ہو جائے گا۔ سو تیز قدمی سے چلتے ہوئے میں اندھیرا چھانے سے ذرا قبل بنگلے پر پہنچ گیا۔
سورج جب بنگلے سے تین میل مغرب میں واقع بیلی ریرنگن پہاڑیوں کے پیچھے چھپا اور پرندے اور جانور سونے کی تیاری میں بولنے لگے تو اس وقت میں برآمدے میں آرم چیئر گھسیٹ کر اس پر نیم دراز ہو گیا۔ دور سے نر سانبھر کی دعوتِ مبارزت سنائی دی جو مغربی پہاڑ سے اتر رہا تھا۔ یہ آوازیں موسیقی کی مانند میرے کانوں کو بھلی لگ رہی تھیں۔ وادی میں گھنا جنگل قالین کی طرح بچھا دکھائی دے رہا تھا۔
نصف گھنٹے بعد مکمل تاریکی چھا گئی اور ہزاروں جگنو چمکنے لگے۔ ہر درخت اور جھاڑی پر جگنو چمکتے دکھائی دیے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ سارے جگنو ایک ہی وقت جلتے اور پاس والے درخت یا جھاڑیاں جگمگا اٹھتیں۔
اس روز میں بنگلے کے چھوٹے وسطی کمرے کے فرش پر جلد ہی سو گیا۔ دو بجے شیر کی آواز نے مجھے جگا دیا۔ وقفے وقفے سے بولتے ہوئے شیر وادی سے گزرا اور پھر اس کی آواز دور کہیں کھو گئی۔
علی الصبح میں بیلور جا پہنچا جہاں میں نے دو مقامی شکاری بھرتی کیے اور تین بچھڑے خریدے۔ ایک بچھڑے کو ہم نے بنگلے کے مغرب میں گزرنے والے نالے میں باندھا جہاں سے گزشتہ رات شیر گزرا تھا۔ دوسرے کو ہم نے سڑک سے سو گز دور ایک گھاس کے قطعے میں باندھا۔ یہ جگہ گاؤں اور فارسٹ بنگلے کے وسط میں تھی۔ تیسرے کو باندھنے کے لیے ہم نے واپسی پر 21ویں سنگِ میل کا رخ کیا جہاں سڑک ایک ندی سے گزرتی ہے۔ اس ندی کے کنارے بانس کا گھنا جنگل ہے۔ یہاں ایک جگہ کچھ زمین خالی کر کے محکمہ جنگلات نے مختلف درختوں کے بیج اگانے کا تجربہ کیا تھا۔ میرے ساتھیوں نے بتایا کہ شیر اکثر اسی جگہ سے گزرتا ہے اور میں نے وہاں شیر کے نئے اور پرانے، ہر طرح کے ماگھ دیکھے۔ پھر میں نے ان نشانات کو پچھلے نشانات سے ملایا تو پتہ چلا کہ دونوں نر شیروں کے پگ ہیں مگر یہ والا شیر زیادہ بوڑھا اور جسیم ہے۔
تیسرا گارا ہم نے یہاں باندھا جہاں ندی اس جگہ سے گزرتی ہے۔
اس کام سے فارغ ہوتے ہوتے ساڑھے پانچ بج گئے اور ہم بیلور لوٹے جہاں ایک مضبوط شلوگا نے میرا استقبال کیا اور بتایا کہ وہ اس لڑکی کا شوہر ہے جو آدم خور کا پہلا شکار بنی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ پونچا ملائی میں کافی کے باغات پر کام کرتا ہے اور وہاں سے گزرنے والے مسافروں نے اسے بتایا کہ ایک صاحب راما پرم آیا ہوا ہے جو آدم خور کو شکار کرنا چاہتا ہے۔ اپنی بیوی کے انتقام کے خیال سے وہ اپنے مالک سے اجازت لے کر میرے پاس آن پہنچا تاکہ میری ہر ممکن مدد کر سکے۔ راماپرم میں اسے پتہ چلا کہ میں بیلور چلا گیا ہوں تو وہ سیدھا وہیں پہنچ گیا۔
میں نے اس کی مدد کا شکریہ ادا کیا کہ وہ اتنی تکلیف اٹھا کر پہنچا ہے اور اسے فوراً اپنے مددگار کے طور پر بھرتی کر لیا۔ مجھے اس کی شکل و صورت اور اس کا عزم پسند آیا کہ وہ ہر ممکن طریقے سے آدم خور کی ہلاکت چاہتا ہے۔ اس پر وہ مسکرایا اور بولا کہ وہ اس شرط پر میری مدد کرے گا کہ بدلے میں اسے کوئی معاوضہ نہیں چاہیے۔
میں فارسٹ بنگلے کو لوٹا اور انہیں ہدایات کرتا آیا کہ اگلی صبح وہ اور دونوں مقامی شکاری 21ویں سنگِ میل والے گارے کو دیکھ آئیں جبکہ میں بقیہ دونوں کو دیکھ لوں گا۔ صبح اٹھتے ہی میں نے یہی کام کیا اور پہلے میں نے وادی میں نالے والے بچھڑے کو اور پھر دوسرے کو دیکھا۔ دونوں بخیریت تھے اور شیر کے پگ بھی نہیں ملے۔
پھر میں بیلور گیا جہاں ایک گھنٹے بعد تینوں واپس لوٹے اور بتایا کہ بچھڑا سلامت ہے۔
شلوگا اور مقامی شکاری کو وہیں چھوڑ کر دوسرے شکاری کے ساتھ میں روانہ ہوا جو اس علاقے کو بخوبی جانتا تھا۔ ہم نے سیدھا بیلی ریرنگن پہاڑیوں کا رخ کیا۔ یہ سارا علاقہ میرے لیے نیا تھا اور میں نے شکاری کو اپنے آگے رکھا اور خود رائفل لیے اس کے پیچھے تیار چلتا رہا۔ شلوگا پیدائشی شکاری ہوتے ہیں اور اس بندے نے کسی قسم کے خوف یا پریشانی کا مظاہرہ نہیں کیا حالانکہ ہم جنگل میں اور نالوں سے گزرتے رہے اور بعض جگہ تو ہمیں جھک کر چلنا پڑتا تھا کہ بانس جھکے ہوئے ہوتے تھے یا کوئی خاردار جھاڑی راستے میں ہوتی تھی۔ ہمیں شیر کا کوئی تازہ ماگھ نہیں دکھائی دیا۔
راستے میں ایک جگہ ایک نر تیندوا گزرا تھا اور دوسری جگہ ایک مادہ اور اس کا بچہ۔ تاہم شیر کے پگ نہیں دکھائی دیے۔
تین بجے کے قریب ہم فارسٹ بنگلے کو لوٹے اور ٹھنڈا کھانا کھایا۔ شلوگا نے آگ جلا لی تھی جس پر میں نے ہم دونوں کے لیے چائے بنا لی۔ پھر میں نے بنگلے کے کنوین سے پانی نکال کر غسل کیا۔
پانچ بجے میں اور شلوگا دونوں بیلور لوٹ آئے جہاں میں نے ان تینوں کو ہدایت کی کہ اگلی صبح وہ 21ویں سنگِ میل والے گارے کو دیکھیں جبکہ بقیہ دو کو میں دیکھ لوں گا۔ سات بجے کے بعد میں بنگلے پر پہنچا۔ اس رات شیر کی آواز نہ آئی اور میں نے ساری رات سکون سے سو کر گزری۔ اگلی صبح میں دونوں بچھڑوں کو دیکھنے نکلا۔ دونوں سلامت تھے۔
بنگلے پر لوٹ کر میں نے پیٹ پوجا کی اور پھر بیلور کی سمت چل پڑا۔ راستے میں شیر کے پگ نہیں ملے اور سوا نو بجے میں بیلور پہنچ گیا۔ دس بجے سے ذرا قبل وہ لوٹے اور بتایا کہ شیر نے گارا کر لیا ہے اور رسی کتر کر اسے لے گیا ہے۔
خوش قسمتی سے میں پوری طرح تیار ہو کر آیا تھا اور ٹارچ اور دیگر سامان ہمراہ تھیلے میں ہمراہ تھا۔ بعجلت ہم روانہ ہوئے اور بارہ بجے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ بچھڑے سے بیس فٹ دور ہمیں شیر کے پگ نرم مٹی میں دکھائی دیے اور ان کے معائنے سے پتہ چلا کہ یہ واردات شیر نے نہیں بلکہ شیرنی نے کی ہے۔ اس جگہ سے اس نے جست لگا کر بچھڑے کو مارا اور پھر رسی کتر کر لے گئی۔
یہ کہنا مشکل تھا کہ شیرنی گارے کو کتنی دور لے کر گئی ہوگی۔ سو میں نے اپنے ساتھیوں کو وہیں رکنے کا کہا کہ وہ تین بجے تک میرا انتظار کریں جبکہ میں نشانات کا پیچھا کروں گا۔ اگر شیرنی شکار کو لے کر دور گئی ہوگی تو میں وہیں کوئی چھپنے کی جگہ بنا کر شیرنی کا انتظار کروں گا اور تین بجے تک واپسی ممکن نہیں ہوگی بلکہ رات وہیں گزارنی ہوگی۔ سو میرے ساتھی تین بجے کے بعد واپس لوٹ جائیں گے۔ اگر شیرنی شکار کو لے کر دور نہیں گئی تو پھر میں لوٹ کر اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے جا کر مناسب مچان بنواؤں گا۔
میں نے دیکھا کہ دو سو گز تک شیرنی کبھی گھسیٹتی تو کبھی اٹھاتی گئی۔ پھر بانس کے جنگل سے نکل کر وہ خاردار جھاڑیوں میں جا پہنچی جہاں پیش قدمی مشکل تھی۔ سو اس نے لاش کو اپنے شانے پر ڈالا اور پھر تعاقب کرنا بہت مشکل ہو گیا۔ شیر بعض اوقات ایسا کرتے ہیں۔
کھر سے لگنے والی خراش، سینگ، ٹوٹی ہوئی ٹہنیاں ہی شیرنی کے گزرنے کی نشانیاں تھیں۔ سڑتی ہوئی نباتات اور گرے ہوئے پتوں نے پگوں کو بخوبی چھپا دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ پیش قدمی بہت سست ہو گئی تھی۔ مجھے یہ پسند نہیں تھا کہ میری پوری توجہ پگوں کی تلاش پر مرکوز تھی جس کی وجہ سے میں اپنے ماحول پر توجہ نہیں دے پا رہا تھا۔ آخرکار خاردار جھاڑیاں ختم ہوئیں اور نسبتاً کھلا جنگل شروع ہو گیا جس میں درخت اور کجھور کے جھاڑ جگہ جگہ اگے ہوئے تھے۔
دو مرتبہ میں ایسے مقام پر پہنچا جہاں شیرنی نے بھینسے کو رکھ کر آرام کیا تھا اور پھر اٹھا کر چل دی۔ ظاہر ہے کہ شیرنی کے ذہن میں کوئی خاص مقام تھا، شاید ایسی جگہ جہاں اس کے بچے قریب ہوں۔
نشانات آگے بڑھتے گئے اور راستہ پتھریلا ہوتا گیا۔ آخرکار درختون سے مجھے ایک پہاڑی دکھائی دی جو وہاں سے چوتھائی میل دور اور دو سو فٹ بلند تھی۔ نشانات سیدھے اسی پہاڑی کو جا رہے تھے۔ تاہم اس وقت تک مجھے یقین ہو چکا تھا کہ یہ آدم خور نہیں بلکہ عام شیرنی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اب تک کی تمام تر معلومات کے مطابق آدم خور مادہ نہیں بلکہ نر تھا، اگرچہ جانور کے پگ سے جنس کا تعین ہمیشہ سو فیصد درست نہیں ہوتا۔ تاہم یہ بات سبھی جانتے تھے کہ آدم خور کی ایک آنکھ اور ایک کان غائب ہیں، سو اگر میں اس جانور کی ایک جھلک دیکھ لیتا تو معاملہ آسان ہو جاتا۔
تاہم جھلک کیسے دیکھ سکوں گا، یہ ایک مسئلہ تھا۔ ایک ممکنہ حل تو یہ تھا کہ میں اسی طرح تعاقب جاری رکھتا اور شیرنی تک جا پہنچتا۔ تاہم مجھے یہ پسند نہیں تھا کیونکہ اگر شیرنی آدم خور نہ بھی ہوتی تو بھی وہ اپنے غار میں اور بچوں کے اتنے قریب مجھے برداشت نہ کرتی۔
خیر میں نے تعاقب جاری رکھا۔ اب نشانات کی مدد سے تعاقب آسان ہو گیا تھا کہ شیرنی پتھروں اور چٹانوں سے گزر رہی تھی اور بیل کی لاش ان سے ٹکرا رہی تھی اور خون کے نشانات بکثرت تھے۔
آدھا فاصلہ طے ہو گیا تھا۔ بقیہ آدھا فاصلہ طے کرنے پر چوٹی پر پہنچ جاتا۔ پتھر جگہ جگہ جمع تھے اور نشانات ان کے بیچوں بیچ گھوم کر جا رہے تھے کہ شیرنی بچ بچا کر چل رہی تھی۔ تین بجنے میں دس منٹ رہتے تھے اور سورج بے رحمی سے آگ برسا رہا تھا اور پتھر گرمی سے تپ رہے تھے۔ ہوا اتنی گرم تھی جیسے کسی بھٹی سے نکل رہی ہو۔ میرے کپڑے پسینے سے بھیگ چکے تھے اور پسینہ آنکھوں کو جلا رہا تھا۔ میں نے ہونٹوں پر زبان پھیری تو مجھے ابھی تک یاد ہے کہ نمکین ذائقہ تھا۔
میرے ربڑ کے جوتوں سے کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ موڑ پر موڑ آ رہے تھے اور کچھ علم نہیں تھا کہ آگے کیا ہوگا۔ پھر میں ایک لٹکی ہوئی چٹان پر پہنچا جو زمین سے شاید 30 درجے کے زاویے پر اٹھی ہوئی تھی۔ اس کے نیچے دو دھاری دار گول مٹول سے شیرنی کے بچے ایک دوسرے سے کھیل رہے تھے۔
میں وہیں تھم گیا۔ رائفل میں گولی بھرنے کا عمل بہت آہستگی سے کیا مگر ہلکی سی کلک کی آواز آئی۔ اگرچہ بچے چھوٹے تھے مگر ان کی چھٹی حس نے انہیں خطرے سے فوراً آگاہ کر دیا۔ کھیل چھوڑ کر مجھے دیکھنے لگ گئے۔
اب بھی میں اس منظر کو بھلا نہیں سکتا۔ ایک بچہ معصوم سی حیرت سے دیکھ رہا تھا جبکہ دوسرے کے چہرے کے تاثرات نفرت اور غصے سے بگڑ رہے تھے۔ اس نے ہلکی سی آواز نکالی۔
یہ معمولی سی آواز بہت بڑے ہنگامے کا پیش خیمہ تھی۔ غار سے دھاڑتی ہوئی شیرنی بچوں کے اوپر سے جست لگا کر گزری اور سیدھا میری جانب آئی۔
ہمارا درمیانی فاصلہ بمشکل بیس گز رہا ہوگا۔ میں نے اس کی آنکھوں کے درمیان کا نشانہ لیا ہوا تھا۔ شیرنی پانچ گز دور آن کر رکی اور زمین پر بیٹھ کر کھلی آنکھوں اور کھلے منہ سے غرانے لگی۔ شیرنی بہت خوبصورت تھی، مگر آدم خور نہیں تھی۔
حیرت کی بات دیکھیے کہ شیرنی نے حملہ نہیں کیا۔ شاید اس کا حوصلہ عین وقت پر جواب دے گیا۔ وہ زبانِ حال سے مجھے کہہ رہی تھی: ‘یہاں سے دفع ہو جاؤ اور میرے بچوں کو کوئی نقصان پہنچایا تو جان سے مار دوں گی۔‘
ظاہر ہے کہ اس پر عمل کرتے ہوئے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اس سے نظریں ہٹائے بغیر اور رائفل اسی طرح تانے اور لبلبی پر انگلی رکھے ہوئے میں نے واپسی اختیار کی۔
شیرنی اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ شاید اسے احساس ہو گیا ہوگا کہ میں واپس جا رہا ہوں۔ اس وقت بھی مجھے احساس ہو گیا تھا کہ شیرنی مجھے نقصان پہنچانے کی بجائے اپنے بچے بچا رہی ہے۔ میں بھی ڈرا ہوا تھا۔ میں بھی اس کو یا اس کے خاندان کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔
اسی طرح میں نے پسپائی جاری رکھی اور شیرنی بھی دھاڑتی رہی۔ جب میں پہلا موڑ مڑا تو شیرنی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ پھر میں نے مڑ کر راستے کو دیکھنے کی ہمت کی کہ میں کہاں جا رہا تھا۔ شیرنی نے اب دھاڑنا بند کر کے غرانا شروع کر دیا تھا۔ مجھے علم تھا کہ جتنی دیر شیرنی غراتی رہے گی، خطرہ نہیں ہے۔ مجھے علم ہوتا رہے گا کہ وہ کہاں ہے۔
ایک بڑا ٹول عبور کیا اور پھر میں نے تیزی سے چلنا شروع کر دیا مبادا کہ شیرنی کا ارادہ بدل جائے اور میرے پیچھے آ جائے۔ اب اس نے غرانا بند کر دیا تھا اور اصل خطرہ شروع ہو رہا تھا۔ شیرنی عین ممکن ہے کہ اپنے بچوں کے پاس چلی گئی ہو یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ میرا پیچھا کر رہی ہو۔ ہر ممکن عجلت سے میں پہاڑی سے نیچے اترا اور اس دوران مڑ مڑ کر دیکھتا رہا۔ جلد ہی درخت اور کھجوروں والے مقام پر جا پہنچا اور پھر خاردار جھاڑیوں سے ہوتے ہوئے بانس کا جنگل اور پھر سڑک آ گئی۔
ساڑھے چار بجے میرے ساتھی بیلور لوٹ گئے تھے۔ ابھی میں نے نو میل کا فاصلہ طے کرنا تھا جبکہ دو گھنٹے جتنی روشنی باقی تھی۔ مگر میں پھر بھی سڑک کے کنارے پانچ منٹ بیٹھ کر پائپ سے لطف اندوز ہوا۔ شکر ہے کہ شیرنی کو گولی مارنے کی ضرورت نہیں پیش آئی تھی اور اس کے بچوں کا خاکہ ابھی تک میرے ذہن میں تازہ تھا۔
ساڑھے چھ بجے کے بعد میں بیلور پہنچا۔ میرے تینوں ساتھی منتظر ملے۔ انہیں تفصیل سے کہانی بتائی تو انہوں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ واقعی شیرنی کا عین وقت پر حملہ مؤخر کرنا عجیب بات ہے۔
تاریکی چھا چکی تھی کہ میں سفر کے آخری حصے پر نکلا۔ میرا رخ بنگلے کی جانب تھا۔ مگر چونکہ ایک بچھڑا اس گاؤں اور بنگلے کے درمیان بندھا ہوا تھا اور سڑک سے زیادہ دور بھی نہیں تھا، سو میں نے سوچا کہ اس کا چکر لگاتا جاؤں۔ یہ خیال کیوں آیا، کچھ کہنا مشکل ہے کہ میں اسی روز صبح کے وقت اس کو دیکھ کر ہی بیلور گیا تھا۔ خیر، میں ہمیشہ اپنی چھٹی حس کے کہنے پر چلا ہوں، سو اس بار بھی میں نے بچھڑے کا رخ کیا۔ گہری تاریکی تھی مگر تاروں کی چھاؤں میں دھندلا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ راستے کے کنارے پر اگی جھاڑیاں عجیب عجیب شکل کی دکھائی دے رہی تھیں۔ کبھی کبھی ہوا کے جھونکے سے ٹیک کا بڑا پتہ زمین پر حرکت کرتا تو ایسی آواز آتی جیسے بہت بڑا پتنگا اڑ رہا ہو۔
میں انجیر کے اس چھوٹے درخت کے نیچے پہنچا جہاں بچھڑا بندھا ہوا تھا۔ یہاں سائے گہرے تھے اور بچھڑا بھورے رنگ کا تھا۔ بہت قریب پہنچا تو بچھڑا میری آمد کو محسوس کر کے اچانک اٹھا۔ تاہم بچھڑا بخیریت تھا۔ میں اس کی دوسری جانب گیا تاکہ پچھلے پیر سے بندھی رسی کا جائزہ لے سکوں کہ کہیں وہ بل کھا کر مڑ نہ گئی ہو۔
عین اسی لمحے آدم خور نے حملہ کیا۔
خوش قسمتی سے میں دوسری جانب چلا گیا تھا، اس طرح میرے اور آدم خور کے درمیان بچھڑا آ گیا۔ تاہم مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ یہ حملہ میری بیخبری میں ہوا تھا۔
اچانک جنگل کے اسی مقام سے زور کی دھاڑ سنائی دی جہاں سے میں ابھی نکل کر بچھڑے کے پاس آیا تھا۔ بچھڑا مڑا اور میں اس کے عین پیچھے جست لگا کر چھپ گیا۔ میری کمر درخت کی جانب تھی اور رسی سے الجھتے الجھتے بچا۔ بہت بڑا بھورے رنگ کا جسم بچھڑے کی پشت پر سوار تھا اور بچھڑا اس کا وزن نہ سہار سکا اور گر گیا۔
تاہم شیر نے بچھڑے کے گلے یا گردن کو نہیں دبوچا۔ اس کا مقصد محض بچھڑے کو پار کر کے مجھ تک پہنچنا تھا مگر بچھڑے کے گرنے سے چھلانگ ادھوری رہ گئی ورنہ پلک جھپکتے ہی وہ مجھ تک پہنچ جاتا۔
جتنی دیر شیر گرے ہوئے بچھڑے سے اٹھتا، میری گولی اس کی آنکھوں کے بیچ لگی۔ بل کھا کر وہ پیچھے کو گرا مگر ابھی تک اس کا دھڑ بچھڑے پر تھا۔ بچھڑا اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا اور شیر کا سر اور اگلا دھڑ بچھڑے پر تھا۔
بغیر سوچے سمجھے میں نے دوسری گولی چلائی جو شیر کے بائیں شانے کے پیچھے لگی۔ بچھڑا گر گیا۔ شیر پھسلتا ہوا میری جانب گرا اور میری تیسری گولی اس کے گلے میں پیوست ہو گئی۔
بچھڑے نے حرکت نہ کی۔ شیر نے لاتیں چلائیں اور پھر ساکت ہو گیا۔
رائفل پر لگی ٹارچ سے پتہ چلا کہ پہلی گولی سے شیر کی کھوپڑی پاش پاش ہو گئی تھی۔ دوسری گولی نیچے گئی۔ اعشاریہ 405 کی بھاری گولی شیر کے سینے کے کنارے سے ہوتی ہوئی بچھڑے میں سوراخ کر گئی۔ تیسری گولی بے فائدہ چلی اور شیر کے گلے سے گزری اور بڑا سوراخ کر گئی۔ اس بچھڑے نے میری جان بچائی تھی، وہ میرے ہی ہاتھوں ہلاک ہوا۔
میرے ہاتھ کانپ رہے تھے اور گھٹنے جواب دے رہے تھے اور خود کو بہت بیمار محسوس کیا۔ ظاہر ہے کہ ایسے واقعات کا اثر گہرا ہوتا ہے۔ میں انجیر کے درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ میں نے ہاتھ سے پیشانی کو چھوا تو میری پیشانی بہت ٹھنڈی ہو رہی تھی۔
پتہ نہیں میں کتنی دیر اسی طرح بیٹھا رہا۔ پھر میں نے اپنا پائپ نکال کر بھرا اور سلگا لیا۔ چند کش لگانے سے میرے اعصاب قابو میں آنا شروع ہو گئے۔ پھر میں نے سڑک پر پہنچ کر بیلور کا رخ کیا۔
گاؤں میں پہنچا تو سب لوگ گھروں سے باہر نکلے ہوئے اور جوش و خروش سے باتیں کر رہے تھے۔ پاس موجود پہاڑیوں سے میری گولیوں کے دھماکوں کی بازگشت ہوتی ہوئی گاؤں تک پہنچ گئی تھی۔ ان کا اندازہ تھا کہ بنگلے کو جاتے ہوئے مجھ پر حملہ ہوا ہوگا مگر انہیں یہ علم نہیں تھا کہ آیا آدم خور کا حملہ تھا یا کسی ریچھ یا ہاتھی کا۔
مجھے اندھیرے میں آتا دیکھ کر سب میری جانب لپکے اور میرے تینوں ملازمین سب سے آگے تھے۔ میں وہیں راستے کے کنارے پر بیٹھ گیا اور انہیں پوری کہانی سنائی۔ انتہائی حیرت سے انہوں نے ساری کہانی سنی اور مبارکبادوں اور بخیریت واپسی پر شکر کے کلمات سے فضا گونج اٹھی۔
تازہ دودھ کی چاٹی میرے سامنے رکھ دی گئی اور ساتھ کیلوں کا گچھا بھی۔ اگرچہ یہ کوئی بہت بڑا تحفہ نہیں تھا مگر پھر بھی دیہاتیوں کی طرف سے خلوص کا اظہار تھا۔
اگلے نصف گھنٹے بعد سارے دیہاتی لالٹینوں اور مشعلوں، مضبوط ڈنڈے اور رسی سمیت میرے ساتھ شیر کو لانے کے لیے تیار ہو گئے۔ پھر ہم واپس جائے وقوعہ پر گئے جہاں پچاس سے زیادہ دیہاتی حیرت سے سارا منظر دیکھتے رہے۔ آدم خور کی پہلی شکار والی عورت کا شوہر عجیب کام کرنے لگا۔ اس نے چاقو نکالا اور مردہ آدم خور میں گھونپنے لگا۔ میں نے نرمی سے فوراً اسے روک دیا۔ کھال پہلے ہی گولیوں سے کافی چھلنی ہو رہی تھی۔ پھر وہ اپنی بیوی کا سوچ کر رونے لگا۔
بہادر انسان کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ یہ چھوت کی طرح پھیلتا ہے اور مجھے خود اپنے گلے میں کچھ اٹکتا ہوا محسوس ہوا۔
اب زیادہ بتانے کو کچھ نہیں رہا۔ اگلی صبح بنگلے کو آتے ہوئے شلوگا اسی راستے سے آیا جس سے میں آیا تھا۔ پچاس گز آگے جا کر وہ قضائے حاجت کے لیے رکا تو دیکھا کہ آلوبخارے کی جھاڑی میں شیر کے بیٹھنے کے نشانات دکھائی دیے۔ یعنی پچھلی رات شیر میری گھات میں بیٹھا تھا اور یا تو مجھے آتے دیکھا یا پھر میری آہٹ سن کر اس نے انسانی موجودگی بھانپ لی ہوگی۔
اس نے مجھے یہ بات بتائی تو میں تصدیق کرنے خود نکل کھڑا ہوا۔ اس کی بات سچ نکلی۔ نرم ریت پر شیرنی کے پگ صاف دکھائی دے رہے تھے اور جھاڑی کے نیچے گھاس کچلی ہوئی تھی جہاں شیر بیٹھ کر میرا انتظار کر رہا تھا۔
کچھ لوگ قسمت یا چھٹی حس پر یقین نہیں رکھتے۔ مجھے ان نہ ماننے والوں پر زیادہ حیرت ہوتی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
7۔ مدیانور کا بڑا تیندوا
نیلگری کے نیلے پہاڑوں سے اترنے والے دریائے مویار کے جنوبی کنارے پر واقع زرخیز زمینوں پر مدیانور کا چھوٹا سا دیہات ہے۔ یہ جگہ بیلی ریرینگن پہاڑیوں کے سلسلے کے جنوب میں ہے۔
یہ چھوٹی وادی انتہائی پرسکون ہے اور یہاں کے باسی چین کی نیند سوتے تھے۔ دوسرے سرے پر موجود پہاڑوں کی وجہ سے یہاں بارشیں ہمیشہ ہوتی تھیں۔ زمین بہت زرخیز تھی۔ موسم استوائی نوعیت کا ہے اور رات کو سرد ہو جاتا ہے کیونکہ پہاڑوں سے سرد ہوا نیچے کو چلتی ہے۔
یہاں کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور چند لوگ مویشی بھی چراتے ہیں۔ پاس پڑوس کے جنگل میں صبح سویرے مویشی چرائی کے لیے بھیج دیے جاتے ہیں۔ ان جانوروں کے دودھ سے گھی بناتے ہیں جو کھانے پکانے کے لیے پورے ہندوستان میں عام استعمال ہوتا ہے۔ مٹی کے تیل کے ڈبوں میں یہ گھی بھر کر گھاٹ یعنی پہاڑوں پر جانے والی سڑک کو روانہ کیا جاتا ہے جہاں آگے چل کر یہ میسور سے ستیامنگلم کو جانے والی بڑی سڑک سے ڈیم بیم کی وادی میں جا ملتا ہے۔ یہاں پہنچ کر گھی کے کنستر کبھی بیل گاڑی تو کبھی لاری پر لاد دیے جاتے ہیں اور آگے چل کر انہیں فروخت کیا جاتا ہے۔ ان کی فروخت کے اہم مراکز میسور، ستیامنگلم کے علاوہ گوبی چٹی پلیم ہیں۔
سو یہاں کے باشندے خوشحال اور مطمئن ہیں۔ یہاں چند ہی مسافر آتے ہیں کہ یہ یہاں کے راستے پر گاڑی نہیں چل سکتی۔
کبھی کبھار ریوڑوں پر شیر یا تیندوے حملہ آور ہوتے اور کبھی کسانوں کی فصلیں ہاتھی اجاڑ دیتے۔ جنگلی سور اور ہرن بھی فصلوں کو نقصان پہنچاتے رہتے تھے مگر انہیں معمولی نقصان اور قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا جاتا تھا۔
یہ بڑا تیندوا اپنی جسامت کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اس تیندوے کے بارے مشہور تھا کہ وہ دریائے مویار کی دوسری جانب انیکتی یا سیگور یا پھر نیلگری کے پہاڑوں سے آیا ہوگا۔ اس نے پہلے پہل گاؤں کے مویشیوں پر حملے شروع کیے اور شیر کے انداز میں ہی جانوروں کی گردن توڑتا تھا سو کچھ عرصہ کے لیے لوگوں نے تیندوے کی بجائے اسے شیر سمجھا۔
پھر جوں جوں اس کا حوصلہ بڑھتا گیا، تیندوے نے میرے دوست ہفی ہیل سٹون کی زمینوں پر اس کی بہترین دودھیل گایوں پر حملے شروع کر دیے۔ یہ زمینیں مویار وادی میں تھیں اور بہترین شمار ہوتی تھیں کہ ان کا مالک بھی بہترین انتظامی صلاحیتوں کا حامل تھا۔ پیشے کے اعتبار سے بہترین انجینیئرتھا اور ذہین موجد ہونے کے علاوہ اس نے بہت ساری نئی ایجادات کرنے کے علاوہ پہلے سے موجود آلات کو بھی بہتر بنایا۔ اس کے علاوہ ہفی پیدائشی شکاری بھی تھا۔ اسے جنگل اور جنگلی جانوروں سے لگاؤ تھا اورآتشیں اسلحے کے استعمال کا بھی ماہر تھا۔ ذہانت اور جنگلی حیات سے لگاؤ کا نتیجہ مویار وادی رینچ نکلا جو اس نے گھنے جنگل سے زمین صاف کر کے پیدا کیا۔
پہلے پہل اس نے عظیم الجثہ درخت کٹوا کر زمین صاف کی۔ ہفی نے ان درختوں کو جلا کر کوئلہ بنایا اور پھر انہیں دور کے قصبوں کو بیچا اور اینٹیں، پتھر، سیمنٹ وغیرہ وہیں سے منگوایا۔ اس کے علاوہ بڑھئی منگوا کر ہفی نے ان سے جنگلات کی اچھی لکڑی سے جدید ساخت کی عمارت بنوائی۔ پون چکی اور بیٹری چارجر کی مدد سے اس نے گھر میں بجلی لگائی اور روشنی، ریفریجریٹر اور دیگر برقی آلات لگائے۔ پھر اس نے زرعی مشینیں منگوائیں اور تھوڑے عرصے میں جنگل کے وسط میں رینچ بن گئی۔
ہفی کی دلچسپی کاروبار میں تھی اور اکثر ملک سے باہر جاتا رہتا تھا۔ بعض اوقات اس کا سفر چند ہفتے کا ہوتا تو بعض اوقات مہینوں باہر رہتا۔ مندرجہ ذیل کہانی اس کی طویل غیر حاضری سے متعلق ہے۔ ہفی نے مجھے اپنے فارم کا کسی وقت بھی چکر لگانے کی اجازت دی ہوئی تھی اور کہا تھا کہ اس کی عدم موجودگی میں اس کے مویشیوں کا خیال رکھوں۔ ایک روز ہفی کے فارم کے نگران ورگیز کا خط ملا کہ ایک بڑے تیندوے نے ہفی کا بہترین السیشن کتا مار ڈالا ہے اور میں اس بارے کچھ کروں۔
ان دنوں میں بہت مصروف تھا اور اگلے دو ہفتے کے دوران وقت نکالنا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ ورگیز کا خط چونکہ دیہاتی ڈاکخانے سے ہو کر آیا تھا، سو اسے پہنچنے میں چھ روز لگے۔ تاہم میرے بیٹے ڈونلڈ نے یہ کام کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ چونکہ میری کار سٹڈ بیکر کا ایک ایکسل ٹوٹا ہوا تھا اور نیا بمبئی سے آیا نہیں تھا، سو ڈونلڈ نے اپنے دوست سے اس کی کا رادھار مانگی۔
یہاں سے میں ڈونلڈ کے الفاظ میں آگے کے واقعات بیان کرتا ہوں کیونکہ میں نے ان میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔ میرا کام محض چند مشوروں تک محدود رہا تھا۔
‘جب میرے والد نے مجھے مدیانور جانے کا کہا تو پہلا مسئلہ گاڑی کا تھا کیونکہ ان کی کار خراب تھی۔ سو میں نے اپنے دوست رستم دودھ والا سے کار ادھار مانگنے کا سوچا۔ رستم میرا سکول کے زمانے کا دوست ہے اور اس کے پاس ہمیشہ تین یا چار کاریں موجود رہتی ہیں۔ سو تھوڑی بہت گپ شپ کرنے کے بعد میں نے کار مانگ لی۔ پھر اگلے چار گھنٹوں میں میں نے شکار سے متعلق سارا سامان جمع کیا اور اپنے والد سے ان کے شیر کے شکار کا تعویذ بھی لیا جو ان کے پرانے دوست اور جنگل کے باسی بدھیا نے انہیں دیا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ میرےو الد اس تعویذ کے بارے بات نہیں کرتے کہ لوگ ان کا مذاق اڑائیں گے مگر مجھے علم ہے کہ وہ اس تعویذ پر اندھا اعتقاد رکھتے ہیں۔ یہ تعویذ بانس کے چھوٹے سے ٹکڑے میں ہے اور اس کو ہاتھی کی دم کے بالوں کی رسی سے باندھا گیا تھا۔ اس کے اندر کیا ہے، میں نہیں جانتا۔ تاہم یہ سب کچھ گلے میں لٹکایا جاتا ہے مگر والد اسے اپنی جیب میں رکھتے ہیں۔
نکلنے سے قبل میں نے ایک اور دوست کو ساتھ لے جانے کا سوچا جس کا نام سیڈرک بون ہے اور اچھا فوٹوگرافر ہے۔ سیڈرک فوراً تیار ہو گیا اور جلد ہی ہم تینوں روانہ ہو گئے۔ میرے پاس میری اعشاریہ 423 بور کی ماؤزر رائفل تھی جو والد کی پرانی اعشاریہ 405 ونچسٹر سے کہیں طاقتور ہے۔ انہیں بھی اس بارے علم ہے مگر وہ عادتاً مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے اعشاریہ 3006 کی سپرنگ فیلڈ رائفل بھی متبادل کے طو رپر اٹھا لی تاکہ ہرن وغیرہ کا شکار کر سکوں۔ والد ہمیشہ ہرنوں کے شکار کی مخالفت کرتے ہیں مگر میں سنی ان سنی کر دیتا ہوں۔ تاہم جب وہ ساتھ ہوں تو ظاہر ہے کہ ایسے شکار سے گریز کرنا پڑتا ہے، تاہم جب وہ ساتھ نہ ہوں تو پھر سب چلتا ہے۔
مدیانور کے راستے پر آخری سترہ میل راستہ بہت خراب ہے اور ہمیں وہاں پہنچنے میں کل آٹھ گھنٹے لگے۔ ورگیز ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوا مگر والد کی بجائے مجھے دیکھ کر اسے کچھ مایوسی ہوئی۔ یہ عجیب مسئلہ ہے کہ جوانوں پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا اور ہمیں غیرذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ شاید وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی وہ بھی جوان تھے۔
بہرطور، ورگیز نے بتایا کہ گاؤں کے مویشیوں کے علاوہ ہیل سٹون کی ایک گائے بھی تین روز قبل تیندوے کا شکار ہوئی ہے۔ فوری مسئلہ گارے کے لیے کچھ بچھڑے خریدنے کا تھا۔ تاہم اس بارے رستم موجود تھا۔
رستم کے بارے کچھ بات ہو جائے۔ اس کی عمر 22 سال ہے اور وہ پارسی ہے جو ہندوستان میں آباد قدیم ایرانی قوم ہے۔ اس کا تعلق بہت امیر گھرانے سے ہے اور بمبئی میں اس کی لاکھوں کی جائیداد ہے اور اس کی روز کی آمدنی میری سالانہ آمدنی سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ رستم کے والد کامیاب تاجر ہیں اور ان کی آمدنی رستم سے کہیں زیادہ ہے۔ والد کو شکار کا شوق ہے اور وہ اپنے بیٹے کو بہت پسند کرتے ہیں مگر بعض اوقات اسے شکا رپر نہیں جانے دیتے۔ جب بھی ایسا ہو تو رستم اور میں اپنے والدوں کی ملاقات کرا دیتے ہیں اور گھنٹہ دو گپ شپ کے بعد ہمیں اجازت مل جاتی ہے۔
خیر، واپس اپنی کہانی کو لوٹتے ہیں۔ رستم نے چار بچھڑے خریدے اور انہیں تیندوے کی حالیہ وارداتوں کے مقامات کے پاس مناسب جگہوں پر بندھوا دیا۔ ان میں سے پہلا ہیل سٹون کی زمینوں اور جنگل کی حد پر باندھا گیا۔ دوسرے کو ہم نے ایک چھوٹی جھیل کے کنارے گھنے بانس کے جنگل کے پاس اور پہلے بچھڑے سے چوتھائی میلد ور باندھا۔ تیسرے کو ہم نے مدیانور گاؤں کے پاس باندھا اور چوتھے کو مدیانور جانے والے راستے پر باندھا۔ والد کے پس ہمیشہ ان کی اپنی مچان ہوتی ہے مگر ورگیز نے ہمیں ہیل سٹون کی مچان دے دی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ گارا ہونے کے بعد میں مچان باندھوں گا۔
ہم نے چاروں بچھڑوں کو پچھلی ٹانگوں میں رسی باندھ کر کھونٹے سے باندھ دیا کیونکہ گردن میں رسی باندھنا غلطی ہوتی ہے۔ بعض اوقات تیندوے اور اکثر شیر ایسے جانور پر حملہ نہیں کرتے جس کے گلے سے رسی لٹک رہی ہو۔ چونکہ وہ شکار کے لیے گردن دبوچتے ہیں، سو گردن میں بندھی رسی ان کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔
آخری وقت میں مجھے ورگیز نے بتایا کہ بنگلے کے پاس ہی دو روز قبل شیر کی آواز سنائی دی تھی۔ سو بنگلے کے نزدیک والے بچھڑے کے لیے میں نے رسی کو زنجیر سے بدل دیا۔اگر شیر حملہ کرتا تو رسی کو توڑ کر لے جاتا۔ چونکہ زنجیر صرف ایک ہی تھی، سو باقی تینوں بچھڑے رسی سے باندھنے پڑے۔
رستم اس رات مدیانور کے کھیتوں میں سور کے شکار پر جانا چاہتا تھا مگر میں نے اسے روک دیا کہ تیندوا ڈر جائے گا۔ اگلی صبح پتہ چلا کہ چاروں گارے سلامت موجود ہیں۔ مگر شکار میں صبر سے کام لینا پڑتا ہے اور والد کی نصیحت میں نے رستم کو سنائی کہ ایک دو مزید روز لگ سکتے ہیں۔ تیسری رات بنگلے کے پاس والے بچھڑے کو ایک بڑے تیندوے نے ہلاک کیا۔ اسی رات شیر نے جھیل کے پاس والے بچھڑے کو مارا۔
اب مسئلہ پیدا ہو گیا۔ میں نے خود سے کہا۔ ‘تیندوے کو گولی مارو، میں شیر کا شکار کروں گا۔‘تاہم مسئلہ یہ تھا کہ رستم نے مجھے یاد دلایا کہ یہاں ہمارے آنے کا واحد مقصد تیندوے کی ہلاکت تھا جس نے ہیل سٹون کی گائے اور کتے کو مارا تھا۔ جبکہ شیر نے ہیل سٹون کے جانوروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ میرےو الد بھی یہی کچھ کہتے اور مجھے علم تھا کہ رستم کی بات درست ہے۔ مگر میں نے شیر کے شکار کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا تھا۔ سو میں نے اسے کہا تم تیندوے کا شکار کرو اور میں شیر کا۔ مگر رستم اپنی بات پر اڑا رہا اور مجھے تیندوے پر آمادہ ہونا پڑا۔
سیڈرک نے میرے ساتھ آنے کا فیصلہ کیا کہ رستم کی بجائے اسے مجھ پر زیادہ بھروسہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ رستم اتنا شور مچاتا ہے کہ شیر آنے سے قبل ہی بھاگ جائے گا۔
سو میں نے ہیل سٹون کی مچان کو درخت پر گارے سے تیس گز دور لٹکایا۔ رستم نے اپنے والے شکار پر مچان باندھنے کے لیے گاؤں والوں کو بلوایا۔ میں یہ بتانا بھول گیا تھا کہ چاروں بچھڑے باندھنےو قت میں نے خیال رکھا تھا کہ وہ درختوں کے قریب ہوں تاکہ بعد میں مچان باندھنے میں سہولت ہو۔
ہم تینوں بنگلے سے 4 بجے شام کو نکلے۔ رستم کو زیادہ دور جانا تھا، سو وہ اور ورگیز سینڈوچ، پانی کی بوتلوں، مفلر، کمبل اور پتہ نہیں کیا کیا اٹھائے تیز قدموں سے چل پڑے۔ سڈرک اور میں آرام سے ٹہلتے ہوئے روانہ ہوئے اور ہمارے ساتھ خوراک اور پانی کی ایک بوتل تھی۔ موسم گرم ہو رہا تھا، سو ہم نے کمبل لانا مناسب نہیں سمجھا۔
مچان پر بیٹھنا اکتا دینے والا کام ہے۔ مجھ سے ساکت ہو کر نہیں بیٹھا جاتا۔ والد ہمیشہ مجھے کسی مجسمے کی مانند ساکت بیٹھنے کا کہتے ہیں مگر پتہ نہیں کہ وہ خود کیسے ایسا کر لیتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ بہت مرتبہ مچان پر بیٹھا ہوں اور ان کی عادت ہے کہ وہ ٹانگیں نیچے تہہ کر رکھتے ہیں، پائپ اور چائے پینے کے بعد کسی مجسمے کی مانند ساکت ہو کر پوری رات گزار دیتے ہیں۔ مگر مجھے ہر طرح کی پریشانی ہوتی ہے۔ پیروں میں سوئیاں چبھنے لگتی ہیں، کمر تھک کر درد کرنے لگتی ہے، مچھر نہ صرف کاٹتے ہیں بلکہ ناک اور کان میں بھی گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں ہر مچھر کو مارنے کی کوشش کرتا ہوں مگر والد کو یہ بات پسند نہیں اور منع کرتے ہیں۔ شاید وہ بھول جاتے ہوں گے کہ میرا جوان خون شاید مچھروں کو زیادہ پسند آتا ہوگا۔ آپ کو تو علم ہوگا ہی کہ بزرگ کیسے جوانوں کو نصیحت کرتے ہیں۔
خیر، سات بجے تک اندھیرا چھا چکا تھا اور مچھر ہمارا خون چوسنے میں پوری طرح مگن تھے۔ میں سڈرک کو پہلے ہی منع کر چکا تھا کہ مچھروں کو مارنا نہیں۔ اسی لیے جب میں نے مچھروں کو مارا تو اس نے کئی با رمجھےکہنی ماری۔ وقت گزرتا رہا اور پونے آٹھ بجے ہمیں بھورے رنگ کا دھندلا دھبہ دکھائی دیا جو پتہ نہیں کہاں سے آ گیا تھا۔ چونکہ چاند نہیں تھا، اس لیے تاروں کی مدھم روشنی میں کافی حد تک صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس سےاتنی روشنی تھی کہ ہمیں بڑے درخت اور یہ دھبہ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ مردہ بچھڑا ہمیں دکھائی نہیں دے رہا تھا کیونکہ وہ کالے رنگ کا تھا۔ خیر، یہ دھبہ پھر بیل کی سمت بڑھا اور پھر ہمیں زنجیرکھڑکھڑانے کی آواز آئی۔ پھر تیندوے کےگوشت کھانے اور ہڈیاں چبانے کی آواز آئی۔ آہستہ آہستہ میں نے رائفل شانے تک اٹھائی مگر رائفل پر لگی ہوئی ٹارچ درخت سے ٹکرائی اور ہلکی سی آواز پیدا ہوئی۔ بچھڑے کی سمت سے غراہٹ سنائی دی اور پھر دھبہ میرے بائیں جانب چل پڑا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دس منٹ بعد میرے دائیں جانب عین میرے نیچے نمودار ہوا۔ پھر مجھے چاٹنے کی آواز آئی جیسےتیندوا پچھلی ٹانگوں پر بیٹھا خود کو صاف کر رہا ہو۔ اس بار میں نے رائفل کو محتاط ہو کر اٹھایا اور ٹارچ جلائی۔روشنی سیدھی تیندوے پر پڑے جو کتے کی طرح بیس گز دور بیٹھا تھا۔ اس نے میری جانب دیکھا اور میں نے تیزی سے نشانہ لیتے ہوئے گولی چلائی۔ اعشاریہ 423 کی رائفل سے گولی نکلی اور تیندوا وہیں گر گیا۔ میں سمجھا کہ تیندوا مر گیا ہوگا۔ مگر پھر اچانک وہ اچھلا اور سیدھا ہمارے نیچے سے ہوتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔
سڈرک یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ تیندوے کے غائب ہوتے ہی اس نے نیچے اترنے کا سوچا۔ میں نے اسے روکا تو وہ کہنے لگا کہ چلو چل کر تیندوے کا پیچھا کرتے ہیں۔ میں نے اسے حماقت سے روکا کہ صبح تک یہاں سے ہلنا بھی نہیں۔
ہم ایک گھنٹہ اور بیٹھے رہے۔ مچھر ہمیں اتنا کاٹ رہے تھے کہ ہم نے بنگلے کو جانے کا سوچا۔ میں پہلے اترا اور پھر سڈرک نے مجھے رائفل پکڑائی۔ پھر وہ پانی کی بوتل سمیت اترا۔ آخری چھ فٹ وہ جست لگا کر اترا۔ جونہی وہ زمین پر پہنچا تو ہمیں زور کی غراہٹ قریب سے سنائی دی۔ میں نے ٹارچ اور رائفل کو اس سمت پھیرا مگر کچھ دکھائی نہ دیا۔ کچھ منٹ انتظار کے بعد ہم اس سمت چند قدم بڑھے مگر خاردار جھاڑیاں اتنی گھنی تھیں کہ ہمیں کچھ دکھائی نہ دیا۔ تاریکی میں مزید پیش قدمی مناسب نہ محسوس ہوئی۔ پھر ہم اس جگہ گئے جہاں تیندوے پر میں نے گولی چلائی تھی اور خون کے نشانات تلاش کرنا شروع کیے۔
ٹارچ کی روشنی میں ہمیں خون کا کوئی نشان نہ ملا اور میں سمجھا کہ نشانہ خطا گیا ہوگا۔ میں نے سرگوشیوں میں سڈرک سے یہ بات کی مگر اسے یقین تھا کہ تیندوے کو گولی لگی ہے۔ تاہم مجھے شک تھا، سو ہم نے فیصلہ کیا کہ واپس مچان پر جاتے ہیں کہ شاید گولی خطا گئی ہو اور تیندوا واپس آئے۔
بقیہ رات انتہائی بے آرامی سے کٹی۔ مچھروں کے علاوہ سردی نے بہت تنگ کیا۔ خیر، پو پھٹتے ہی ہم نیچے اتر کر گھاس پر لیٹ گئے تاکہ تھکے ہوئے جسموں کو آرام ملے اور سورج چڑھ آئے۔ سات بجے ہم نے خون کے نشانات کی تلاش شروع کی۔ جلد ہی خاردار جھاڑیوں کے پاس خون کی چند بوندیں دکھائی دیں اور پھر چالیس گز آگےچل کر ایک جگہ کافی خون دکھائی دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ تیندوے کو کاری زخم لگا ہے، سو وہ یہاں آ کر لیٹا ہوگا۔ شاید پچھلی رات سڈرک کے اترنے پر یہیں سے تیندوے نے غرا کر اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی۔ اب ہمیں احساس ہوا کہ خوش قسمتی سے تیندوے نے حملہ نہیں کیا ورنہ ہم اسے سوئے ہوئے ملتے۔
سڈرک نے اس مقام کی تصویر کھینچی۔ وہ ہر وقت اور ہر چیز کی تصویر کھینچنے کاشوقین تھا۔
اس مقام سے مزید ایک سو گز تک خون کی لکیر ملتی رہی۔ اس دوران تیندوا ایک بار پھر لیٹا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کو کاری زخم لگا ہے۔ اس کے بعد خون کی لکیر مدھم ہوتی گئی کہ شاید چربی کا ٹکڑا یا کوئی جھلی گولی کے زخم پر آ گئی ہوگی اور بیرونی جریانِ خون رک گیا ہوگا۔
جھاڑ جھنکار بہت گھنا تھا اور ہم نے ہر جگہ دیکھا مگر تیندوا نہ ملا۔ جنگل کی لائن پر چلتے ہوئے ہم تیندوے کی تلاش کی کوشش کرتے رہے۔
میں مزید سو گز گیا ہوں گا اور سڈرک میرے پیچھے بیس قدم دور کیمرہ اٹھائے چل رہا تھا۔ اچانک انہونی ہوئی۔ شاید تیندوا کہیں چھپا ہوا ہوگا اور دکھائی نہ دیا۔ اس نے مجھے گزرنے دیا اور پھر غراتے ہوئے اس نے حملہ کیا۔ سڈرک اس مقام پر تھا جہاں تیندوا چھپا ہوا تھا اور تیندوے نے اس کی بجائے مجھ پر حملہ کیا۔ شاید تیندوا مجھے اتنے غور سے دیکھ رہا ہوگا کہ اس نے سڈرک پر توجہ نہیں دی۔ خیر، تیندوے نے حملہ کیا اور اس کی غراہٹ سنتے ہی میں مڑا اور اسے دیکھ لیا۔ خوش قسمتی سے گزشتہ رات والی گولی اس کی اگلی دائیں ٹانگ کو توڑ چکی تھی، اس لیے وہ لنگڑاتا ہوا آیا۔
میں رائفل بائیں شانے سے چلاتا ہوں، سو رائفل تان کر میں نے گولی چلائی جو تیندوے کے گلے میں پیوست ہوئی۔ وہ آگے جھک گیا اور غراتا رہا۔ اس دوران میں نے دوسری گولی بھی اس میں اتار دی۔
پھر جا کر مجھے احساس ہوا کہ سڈرک اس کے عین پیچھے اور جوش کے مارے ناچ رہا تھا۔ وہ گولی کی عین سیدھ میں تھا اور عین ممکن تھا کہ میری گولی تیندوے کی بجائے ہو سکتا ہے کہ اسے لگتی۔ تاہم اس کی ہمت دیکھیے کہ اس نے تیندوے کے حملے کی تصویریں بھی کھینچی تھیں۔ سڈرک کو یہ کیسے ہمت ہوئی کہ اتنے نازک وقت میں بھی تصویر لینی ہے کہ جس وقت سو میں سے ننانوے لوگ مڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے شوق کی وجہ سے اسے کچھ اور نہ سجھائی دیا تھا۔ اس نے بتایا کہ بغیر سوچے سمجھے کیمرہ آنکھ سے لگاتے ہی اس نے مشینی انداز میں تصاویر اتارنی شروع کر دی تھیں۔
جب ہم خوشخبری لے کر بنگلے پہنچے تو دیکھا کہ رستم اور ورگیز پہلے ہی آ چکے تھے۔ وہ دونوں دو بجے تک بیٹھے اور پھر مچھروں سے تنگ آ کر انہوں نے بنگلے کا رخ کیا کہ شیر نہیں آیا تھا۔ بنگلے کو لوٹ کر وہ سو گئے۔
نو بجے ہم تیندوے کو بنگلے میں لائے اور ایک گھنٹے میں اس کی کھال اتر گئی تھی۔ یہ تیندوا کافی بڑا اور نر تھا۔ اس کی لمبائی ناک سے دم تک 7 فٹ 8 انچ تھی۔
قبل از وقت دوپہر کا کھانا کھا کر میں نے رستم کو کہا کہ چلو چل کر پھر بیل والے گارے پر بیٹھتے ہیں۔ اس دوران ورگیز نے باقی دو گاروں کی دیکھ بھال کو بندے بھیج دیے تھے اور انہوں نے آ کر بتایا کہ وہ دونوں بخیریت ہیں۔
جب ہم رستم کی مچان کو پہنچے تو دیکھا کہ شیر نے صبح کے قریب پہنچ کر اپنا پیٹ بھرا تھا۔ شاید وہ وہیں کہیں چھپا ہوا دیکھ رہا ہوگا۔ بعد میں جب رستم اور ورگیز چلے گئے تو اس نے آ کر کھا لیا ہوگا۔ تین چوتھائی بچھڑا کھایا جا چکا تھا۔
رستم کو بہت مایوسی ہوئی، مگر اس نے پھر بھی بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ اچانک مجھے خیال آیا۔ میں نے ورگیز کو ایک مقامی بندے کے ساتھ بھیج کر مدیانور کے ساتھ بندھا ہوا بچھڑا منگوایا۔ دو گھنٹے بعد بچھڑا آیا تو میں نے اسے بچھڑے کی لاش سے تیس قدم دور بندھوا دیا۔ مجھے توقع تھی کہ شیر اس پر حملہ کرے گا کیونکہ لاش میں زیادہ گوشت نہیں بچا تھا اور سڑاند پیدا ہو گئی تھی۔ رستم کی سوچ مختلف تھی کہ شیر جہاں ایک روز قبل بچھڑے کی لاش چھوڑ گیا تھا، وہاں اب زندہ بچھڑا کھڑا ہوگا۔ تاہم میں نے اس کی بات پر توجہ نہیں دی۔
ساڑھے پانچ بجے میں، سڈرک اور رستم مچان پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔ مچان کے گرد ہم نے تازہ پتے لگا دیے تھے۔ رستم نے پہلے گولی چلانی تھی اور پھر میں گولی چلاتا۔ سڈرک نے کیمرے کے ساتھ فلیش کا نیا بلب بھی لگا لیا تھا کہ شاید کوئی اچھی تصویر بنانے کو مل جائے۔
دھندلکے کی آمد کے ساتھ ہر قسم کے پتنگے اور حشرات پاس والے تالاب سے اڑ کر ہمیں عذاب دینے کو پہنچ گئے۔ مگر ہم جوان اور پرجوش تھے۔ رستم شیر کے شکار کے لیے عرصے سے منتظر تھا۔
آٹھ بجے، پھر نو بجے اور پھر کچھ دیر بعد ہمیں شیر کی دھاڑ سنائی دی جو پہاڑی سے اتر کر تالاب کو آ رہا تھا۔ یہ آواز ایک میل دور رہی ہوگی۔ 45 منٹ بعد ہماری بائیں جانب بانس کے گھنے جھنڈ سے کاکڑ کی آواز آئی۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ شیر پہنچنے والا ہے۔
ہم منتظر رہے۔ اس بار پچھلی رات کی نسبت زیادہ اندھیرا تھا کہ یہاں بانس زیادہ تھے۔ میں نے رستم کو سرگوشی میں بتایا کہ جب تک شیر نئے بچھڑے پر حملہ یا لاش سے پیٹ نہ بھرنا شروع کرے، اور جب تک میں ٹارچ نہ جلاؤں، تب تک گولی نہیں چلانی ۔ خوش قسمتی سے دوسرا بچھڑا سفید رنگ کا تھا اور ہلکا سا دکھائی دے رہا تھا۔ ہمیں صاف سنائی دے رہا تھا کہ بچھڑا رسی سے پیر چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔ شاید اسے آنے والے خطرے کا پیشگی اندازہ ہو گیا تھا۔
دس منٹ تک خاموشی رہی۔ پھر گہری دھاڑ کے ساتھ شیر نے نئے بچھڑے پر حملہ کیا۔
رستم بیدِ مجنوں کی طرح کانپ رہا تھا مگر نے اسے کندھے سے پکڑ کر خاموش رکھا۔ پھر بیل کا گلا گھونٹنے کی آواز آئی اور پھر اس کی گردن ٹوٹنے کا کڑاکا سنائی دیا اور بیل کی لاش زمین پر دھم سے گری۔
میں نے رستم کے کندھے کو تھامے رکھا۔ دس منٹ کی خاموشی کے بعد شیر نے بچھڑے کی پچھلی ٹانگوں کا رخ کیا تاکہ پیٹ چیر کر آنتیں وغیرہ نکال سکے۔
ہم پھر بھی منتظر رہے اور شیر نے پیٹ پھاڑ کر بیل کی آنتیں نکالیں۔ میں نے محسوس کیا کہ اس وقت شیر کی توجہ پوری طرح بچھڑے پر مرکوز ہوگی۔ سو میں نے رستم کا کندھا چھوڑ کر اسے تیار رہنے کے لیے ٹہوکا دیا۔
ہم نے اپنی رائفلیں اٹھائیں۔ دس سیکنڈ بعد میں نے اپنی ٹارچ جلائی۔ روشنی پڑتے ہی شیر نے مڑ کر مچان کی سمت دیکھا۔ عین اسی وقت رستم کی ٹارچ بھی جلی اور دونوں روشنیوں میں شیر حیرانی سے ہماری جانب دیکھ رہا تھا۔ سیکنڈ گزرتے گئے اور میں سوچ رہا تھا کہ رستم کب گولی چلائے گا۔ جونہی میں نے اپنی رائفل کی لبلبی دبائی تو اعشاریہ 400/450 کا دھماکہ سنائی دیا۔
رستم نے بیک وقت دونوں نالیاں چلائی تھیں اور دھکا بہت زوردار رہا ہوگا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ پیچھے جھک گیا تھا۔ تاہم اس کی دونوں گولیاں عین نشانے پر شیر کی گردن پر کندھے کے عین اوپر لگیں۔شیر کو زور کا جھٹکا لگا اور وہ آگے کو جھکا جیسے سونے لگا ہو۔ اس کی دم چند مرتبہ ہلی اور پھر سب کچھ ساکت ہو گیا۔ رستم کا یہ پہلا شیر تھا۔
ہم نے مزید نصف گھنٹہ انتظار کیا مگر شیر میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ سو ہم مچان سے اتر کر شیر پر گئے مگر ہماری ٹارچیں شیر پر مرتکز رہیں۔ شیر نے کوئی حرکت نہ کی۔ معائنے پر رستم کی خوشی دوبالا ہو گئی تھی کہ اس نے شاندار نر شیر مارا تھا۔ شیر کی لمبائی 9 فٹ 4 انچ تھی۔
پھر ہم خوشی خوشی بنگلور لوٹے۔ رستم نے شیر مارا تھا، میں نے ہیل سٹون کے دشمن تیندوے کو مار لیا۔ مگر سڈرک بون سب سے زیادہ خوش تھا کہ اس نے انتہائی خوبصورت تصاویر لیں اور زخمی ہونے سے بھی بچا کہ تیندوے نے اس کی بجائے مجھ پر حملہ کرنے کا سوچا تھا۔
میں نے والد کو پوری کہانی سنائی تو انہوں نے مجھے اور رستم کو مبارکباد دی۔ مگر انہیں اندازہ نہیں تھا کہ سڈرک کتنا خوش قسمت تھا۔
اگلی صبح جب انہوں نے تصاویر دیکھیں تو بہت خفا ہوئے۔ اس وقت تو مجھے بہت برا لگا مگر اب ان کی باتیں یاد کرتا ہوں تو ان کی باتیں درست لگتی ہیں۔
میں نے دو بڑی غلطیاں کی تھیں۔ پہلی بات تو یہ کہ میں نے زخمی تیندوے کی تلاش پر پوری توجہ نہیں دی تھی۔ دوسرا جوش کے مارے میں نے گولی چلائی تو سامنے کھڑے سڈرک کو نہیں دیکھا جو محض بیس قدم دور تھا۔ خیر، کہتے ہیں کہ قسمت اناڑیوں کی مدد کرتی ہے، سو میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
8۔ راج نگرا کا قصاب
اس کہانی کے لکھنے کے وقت تک یہ قصاب زندہ تھا اور اس کی ہلاکت کے لیے میری ہر کوشش ناکام ہوئی تھی۔ نہ صرف مجھے بلکہ دیگر کئی شکاریوں کی دو سال سے زیادہ جاری رہنے والی کوششیں بے سود رہیں۔
یہ شیر غیرمعمولی جانور تھا اور اس کی عادات شیروں سے بہت ہٹ کر اور ایسے علاقے سے متعلق تھیں جہاں برسوں سے کوئی شیر نہیں رہتا تھا۔ ابتداء میں یہ شیر انسانوں کو محض اپنے اگلے پنجوں سے خراشیں ڈالنے تک محدود رہتا تھا۔ اس طرح کے کل 33 واقعات درج ہوئے جن میں اکثریت چرواہوں کی تھی۔ ایک بار بھی اس نے کسی کو نہ جان سے مارا اور نہ ہی کاٹا۔ ہر بار اس نے اپنے شکار کی کھوپڑی سے پنجے مارنا شروع کیے اور منہ اور گردن کے علاوہ سینے اور کمر پر بھی پنجے مارتا تھا۔
اس عادت سے مجھے شک ہوا کہ کہیں یہ شیر کی بجائے تیندوا نہ ہو۔ تاہم جب میں نے بعد میں اس کے متاثرین سے بات کی تو ہر ایک نے تصدیق کی کہ وہ تیندوا نہیں بلکہ شیر تھا۔
میں نے یہ بھی سوچا تھا کہ شاید یہ شیر زخمی ہو یا اسے کسی نے زخم پہنچایا ہو جو اس کے منہ، جبڑے یا چہرے پر لگا ہو اور اسی وجہ سے وہ کاٹ نہ سکتا ہو۔ تاہم چرواہوں نے اس کی بھی تردید کی کہ دو سال کے دوران یہی شیر ان کے 200 سے زیادہ مویشی مار کر کھا چکا تھا اور کہیں بھی ایسا نہیں لگا کہ اس کا منہ زخمی ہو۔ اس نے نہ صرف عام شیروں کی مانند اپنے شکاروں کی گردن توڑی تھی بلکہ ہر جانور کو بالکل شیروں کے انداز سے کھایا تھا۔
اس جانور کی ایک اور عجیب عادت یہ تھی کہ وہ جنگل کے حصے میں رہتا تھا جو خاردار اور نیچی جھاڑیوں سے بھرا ہوا، پتھریلا اور اونچی نیچی پہاڑیوں پر مشتمل تھا جن میں کہیں کہیں ندیاں بہتی تھیں اور ان کے کناروں پر لمبی گھاس اور کہیں کہیں بانس کے جھنڈ بھی ملتے ہیں۔ یہاں تیندوے اکثر آتے جاتے رہتے تھے اور یہاں سے گزرنے والی مرکزی سڑک پر بھی دکھائی دے جاتے تھے مگر موجودہ پوری نسل میں کسی نے کبھی شیر کو یہاں نہیں دیکھا تھا۔
جنگل کا یہ حصہ ڈیم بیم کے پہاڑی مقام سے جنوب میں ضلع شمالی کومبتور میں واقع تھا۔ ڈیم بیم سے 2٫500 فٹ نیچے یہ بارانی اور جھاڑیوں پر مبنی علاقہ ہے جہاں کھجور کے درخت بکثرت ہیں عمومی طور پر خاردار جھاڑیاں موجود ہیں۔ یہاں عام جانور بھی بہت کم ملتے ہیں اور زیادہ تر چند مور اور اکا دکا جنگلی بھیڑ دکھائی دے جاتی ہے۔ یہ علاقہ کافی چھوٹا ہے اور شمالاً جنوباً پانچ میل جبکہ شرقاً غرباً تیس میل پھیلا ہوا ہے۔ مغرب میں اس کا اختتام بھوانی دریا پر ہوتا ہے جو آگے چل کر دریائے کاویری سے مل جاتا ہے۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ شیر نیلگری کے جنگلوں سے پھرتا پھراتا دریائے مویار تک پہنچا اور یہاں رہنے لگ گیا۔ تاہم اس کی یہاں سے رغبت کی وجہ سمجھ آتی ہے کہ یہاں جگہ جگہ مویشیوں کی پٹیاں موجود ہیں اور سینکڑوں مویشی یہاں چرتے ہیں۔ اس وجہ سے جنگلی حیات جتنی کم ہے، مویشی اتنے زیادہ ہیں اور توازن برقرار رہتا ہے۔ مویشیوں کا شکار شیر کے لیے نسبتاً آسان ہوتا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ شروع شروع میں شیر نے عام انداز سے اپنے شکار کرتا اور انہیں کھاتا رہا اور جب کوئی چرواہا اسے بھگانے کی کوشش کرتا تو بھاگ بھی جاتا۔ تاہم ایک وقت ایسا آیا کہ شیر نے چرواہوں کی مداخلت کو برداشت کرنا چھوڑ دیا کہ اکثر اس کے شکار اس کے ہاتھ سے نکل جاتے تھے۔
پہلا حملہ اس نے ایک چرواہے لڑکے پر کیا۔ جب شیر تازہ ماری ہوئی گائے گھسیٹ رہا تھا تو اس لڑکے نے ایک پتھر مارا جو شیر کے پہلو پر لگا۔ گائے کو چھوڑ کر اس نے لڑکے پر حملہ کیا اور اس کے چہرے اور سینے پر بری طرح پنجے مارے۔ پھر اس نے لوٹ کر گائے اٹھائی اور دور لے جا کر سکون سے اپنا پیٹ بھرا۔
کئی بار چرواہوں نے شیر کو اس کے شکار سے بھگانے یا پھر اس کے پیٹ بھرنے کے دوران اسے بھگانے کی کوشش کی۔ ہر مرتبہ شیر نے حملہ کر کے انہیں پنجے مارے۔
فطری طور پر جوں جوں شیر کے حملے بڑھتے گئے، مداخلت کم ہوتی گئی۔ آخرکار شیر کو پتہ چل گیا کہ اس نے لوگوں کو مارنے کی بجائے زخمی کرنے کی وجہ سے لوگوں نے اس کو تنگ کرنا چھوڑ دیا۔
اس طرح وقت گزرتا رہا۔ قریب دو سال گزر گئے اور مجروحین کی تعداد 33 ہو گئی۔ ان میں سے 11 عفونت سے مر گئے کہ شیر کے پنجوں میں سڑتا ہوا گوشت ہوتا ہے۔ تاہم ان اموات کا براہ راست ذمہ دار شیر نہیں تھا۔ یہ حملے کے نتیجے میں بالواسطہ اموات ہوئیں۔
پھر جولائی 1955 میں ایک چرواہا واپس نہ لوٹا۔ یہ پتہ چل چکا تھا کہ اس پر شیر نے حملہ کیا تھا کیونکہ اس کی چیخیں پاس موجود دوسرے چرواہے نے سنی تھیں مگر فطری بات ہے کہ وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ پہلے بھی ایسا ہوتا تھا کہ حملے کے بعد چرواہے خود ہی سڑک پر یا گاؤں تک چل کر پہنچ جاتے تھے۔ تاہم یہ بندہ واپس نہ لوٹا۔ دو گھنٹے بعد اس کی تلاش میں لوگ نکلے۔ یہ لوگ جائے وقوعہ پر پہنچے اور وہاں انہیں مردہ گائے تو دکھائی دی مگر چرواہا غائب تھا۔ ان لوگوں کی ہمت جواب دے گئی اور وہ لوگ واپس لوٹ آئے۔ چرواہے کا پھر کوئی نشان نہ ملا۔
پھر پانچ یا چھ مزید چرواہوں پر حملے ہوئے اور ان میں سے تین زخمی حالت میں لوٹ آئے جبکہ باقی تین نہ لوٹے۔ ان کا پھر کوئی پتہ بھی نہ چل سکا۔ جس وقت سے میری کہانی شروع ہوتی ہے، اس وقت تک سرکاری طور پر 4 اموات اور 36 واقعات زخمی کرنے کے ہو چکے تھے۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا شیر ان زخمی افراد کو جنگل میں لے جا کر خود کھا جاتا تھا یا پھر انہیں زخمی حالت میں دیگر جانوروں کا کھاجا بننے کو چھوڑ جاتا تھا۔
میں اس شیر کی وارداتوں کے بارے اکثر اخبار میں پڑھتا تھا تاہم اس بارے تفصیل مجھے پہلی بار محکمہ جنگلات کے افسران کی طرف سے بھیجی گئی۔ چونکہ میرے پاس چند روز کی چھٹی کا حق باقی تھا، سو میں نے اس شیر کے پیچھے جانے کا سوچا۔
میرے پاس جنگل کا نقشہ تھا اور دیگر معلومات بھی کہ وارداتیں کہاں کہاں ہوئی ہیں۔ سو میں نے راج نگرا کے چھوٹے دیہات کو اپنا مستقر بنانے کا سوچا جہاں قیام کے لیے ایک خیراتی ادارے کی سرائے موجود تھی۔ ڈیم بیم کے راستے یہاں تک کا کل فاصلہ 147 میل بنتا ہے اور سڑک اچھی حالت میں تھی۔ سو سٹڈ بیکر پر مجھے کل چار گھنٹے سے ذرا زیادہ وقت لگا اور میں پہنچ گیا۔
مجھے علم نہ تھا کہ کتنا دلچسپ وقت آنے والا ہے۔ میں راج نگرا سے محض دو میل دور تھا اور سڑک پر جا رہا تھا کہ مجھے سامنے تین بندے دکھائی دیے۔ دو آدمی تیسرے کو سہارا دیے لے جا رہے تھے۔ میں نے پاس پہنچ کر دیکھا کہ درمیانی آدمی خون میں نہایا ہوا تھا۔ میں نے رک کر وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ چند منٹ قبل شیر نے اس پر حملہ کر کے پنجے مارے تھے۔ مزید سوالات سے پتہ چلا کہ شیر نے باقاعدہ اس بندے پر گھات لگائی تھی۔ مضروب نے بتایا کہ اسے کسی خطرے کا احساس نہ ہوا اور اچانک شیر اس پر چڑھ دوڑا۔ شیر نے اس کے پاس پہنچ کر اگلے پنجے فضا میں اٹھائے اور اس کے سر اور سینے پر بری طرح پنجے مارے۔ جب وہ نیچے گرا تو شیر اس کے اوپر تھا اور اس بندے نے مدد کے لیے چلانا شروع کر دیا۔ پھر شیر نے اسے چھوڑا اور مویشیوں پر حملہ کیا جو اس کے پاس دوڑ رہے تھے۔ اس بندے نے زمین پر لیٹے لیٹے دیکھا کہ شیر نے ایک نوعمر بھورے بیل پر حملہ کیا اور ہلاک کرنے کے بعد اسے گھسیٹ کر لے گیا۔ چونکہ کوئی اس کی مدد کو نہ آیا تھا، سو اس بندے نے ہمت کر کے سڑک کا رخ کیا جہاں کچھ دیر بعد یہ دو آدمی بھی پہنچ گئے۔
میں نے اس موقع کو نعمتِ غیر مترقبہ جانا اور فوراً ان سے جائے واردات کا پوچھا۔ اس نے تفصیل سے مجھے اس مقام کا بتایا اور پھر میں نے ان میں سے ایک بندے کو ساتھ چلنے کا کہا جبکہ دوسرا بندہ زخمی کے ساتھ راجا نگرا کو لے جاتا۔
اب دونوں میں چخ چخ شروع ہو گئی کہ ان میں سے کون میرے ساتھ چلے گا۔ بظاہر دونوں کو گاؤں میں انتہائی اہم کام پڑ گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ آدم خور کا سامنا کرنے کی ہمت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ اس بارے تو میں انہیں الزام نہیں دے سکتا کہ وہ لوگ شیر کی حرکات کو بہت دنوں سے دیکھ رہے تھے اور میں ان کے لیے یکسر اجنبی تھا۔ شاید ان لوگوں نے سوچا ہوگا کہ شیر کے آتے ہی میں انہیں اکیلا چھوڑ کر بھاگ جاؤں گا۔
تاہم کافی منت سماجت، دباؤ اور پھر دھمکیوں کے بعد ایک بندہ میرے ساتھ جانے کو تیار ہو گیا جبکہ دوسرا بندہ زخمی کے ساتھ گاؤں کو چل دیا۔
ہم دونوں نے سڑک چھوڑی اور جنگل میں داخل ہو گئے۔ سارا راستہ ہمیں زخمی بندے کا خون دکھائی دیتا رہا۔ ایک جگہ کافی خون دکھائی دیا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ بندہ میرے اندازے سے کہیں زیادہ زخمی تھا۔ اب مجھے افسوس ہوا کہ میں اسے کار پر ستیامنگلم کیوں نہ لے گیا، جہاں ہسپتال میں اس بیچارے کو طبی امداد مل جاتی۔ اگرچہ یہ میری غلطی تھی، مگر پھر بھی میں نے شیر کے تعاقب کا یہ سنہری موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
تھوڑی دیر بعد ہم جائے وقوعہ پر جا پہنچے۔ ریت پر ثبت نشانات نے پوری کہانی سنا دی۔ ہم نے پھر تیس گز دور وہ مقام تلاش کیا جہاں شیر نے بیل مارا تھا۔ اب میرے ساتھی نے مزید آگے جانے سے انکار کیا اور مجھے بھی اس کی موجودگی کی ضرورت نہ رہی تھی کہ وہ ضرورت سے زیادہ خوفزدہ تھا۔ اس لیے میں ںے اسے وہیں چھوڑا اور شیر کے نشانات کا تعاقب شروع کیا۔ شیر بیل کو لے کر اس پہاڑی سے کھائی میں اتر کر دوسری پہاڑی کی سمت گیا تھا جو یہاں سے چوتھائی میل دور تھی۔
بدقسمتی سے مجھے اتنی جلدی کی توقع نہیں تھی اور میں نے عام چمڑے کے جوتے پہنے تھے۔ ربڑ کے تلے والے جوتے چلتے ہوئے کوئی آواز نہیں کرتے مگر ان جوتوں سے پتھروں پر چلتے ہوئے کچھ نہ کچھ آواز ہو رہی تھی۔ تاہم ہر ممکن آہستگی کے ساتھ میں آگے بڑھا اور نالے تک پہنچ گیا۔ پھر رک کر میں نے آس پاس بغور دیکھا۔ یہاں جھاڑیاں بہت گھنی تھیں اور نالے کے موڑ پر مزید گھنی ہو گئی تھیں۔ سامنے والی پہاڑی کی ڈھلوانیں نسبتاً کھلی تھیں۔ وہاں شیر یا بیل کی کوئی علامت نہیں دکھائی دی۔ بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ شیر نے بیل کو اسی نالے میں کہیں چھپایا ہوگا اور اب شاید اس سے پیٹ بھر رہا ہوگا۔اگر نہ بھی کھا رہا ہوگا تو بھی کہیں آس پاس لیٹا ضرور ہوگا۔
جوتوں کی وجہ سے مجھے نقصان پہنچ رہا تھا اور پیش قدمی سے شیر آگاہ ہو جاتا۔ اگر جوتے اتار کر بڑھتا تو کانٹے چبھتے اور نوکیلے پتھروں سے پیر زخمی ہو جاتے۔ تاہم یہ بھی اہم تھا کہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے دینا حماقت ہوتی۔ ایسا موقع قسمت سے ملتا ہے۔ ابھی پانچ بج رہے تھے اور ڈیڑھ گھنٹے بعد سورج غروب ہو جاتا۔
جتنی دیر میں یہ سوچتا، شیر نے پہل کر دی۔ اس نے میری پیش قدمی کو سن لیا ہوگا اور شاید دیکھ بھی لیا ہو۔ اس نے پہلو سے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میری لاعلمی میں وہ میری سمت والے کنارے پر اس طرح پہنچ گیا کہ وہ اب میرے پیچھے اور کچھ بلندی پر تھا۔ میں اس کی آمد سے بے خبر سوچ رہا تھا۔ پھر وہ پیٹ کے بل رینگ کر مجھ سے دس فٹ دور ایک گھنی جھاڑی تک پہنچ گیا۔ میں ابھی تک بے خبر تھا۔ اس مرتبہ میری چھٹی حس مجھے خطرے سے آگاہ کرنے میں ناکام رہی۔ جونہی میں نے نالے میں پیش قدمی کا سوچا، میرے پیچھے کان پھاڑ دھاڑ سنائی دی اور شیر نے جست لگائی۔ میں مڑا اور انتہائی قریب سے گولی چلائی جو خالی گئی۔
دھماکے سے ڈر کر یا اپنے سامنے چرواہے کو نہ پا کر یا پھر میرے نیلے کوٹ سسے گھبرا کر شیر نے فرار کو ترجیح دی۔ زور زور سے غراتا ہوا شیر سیدھا جھاڑیوں اور پھر نالے کی سمت بھاگا۔ ہر ممکن تیزی سے میں نے پیچھا کیا اور نالے کی تہہ میں پہنچ کر بیل کی لاش سے ٹھوکر کھائی۔ معائنے سے علم ہوا کہ شیر کھانا شروع کر چکا تھا کہ اس نے میری آمد کو سن کر یا محسوس کر کے حملہ کیا۔
اس جگہ درخت نہیں تھے، سو میں ایک گھنی جھاڑی کے نیچے بیٹھ گیا اور اندھیرا چھانے تک منتظر رہا مبادا کہ شیر واپس آ جائے۔ جب شیر نہ آیا تو سوا چھ بجے میں نے احتیاط سے واپسی اختیار کی۔ جہاں چرواہے کو چھوڑا تھا، وہاں پہنچا تو وہ غائب تھا۔ میں نے سوچا کہ وہ شاید گاؤں چلا گیا ہوگا۔ پھر سڑک پر آ کر میں گاڑی میں بیٹھا اور راجنگرا پہنچ گیا۔
وہاں پہنچا تو دیکھا کہ کافی لوگ جمع تھے اور فارسٹ گارڈ بھی آیا ہوا تھا۔ فارسٹ گارڈ نے بتایا کہ زخمی چرواہے کو پہلے ہی اس کی بیوی اور بھائی کے ساتھ ستیامنگلم ہسپتال بھیجا جا چکا ہے۔ جو چرواہا زخمی کو لے کر آیا تھا، وہ تو موجود تھا۔ مگر میرے ساتھ جانے والا دوسرا بندہ ابھی تک نہیں لوٹا تھا۔
مجھے پتہ تھا کہ جہاں میں نے اسے چھوڑا، وہ وہاں نہیں تھا، شیر بھی بھاگ گیا تھا۔ اب وہ چرواہا کہاں گیا ہوگا؟ یہ تو ظاہری بات تھی کہ وہ شیر والے جنگل میں رات کو کسی قیمت پر نہ رہتا۔ پھر وہ کہاں گیا ہوگا؟ میں یہی سوچتا رہا۔ جب اس کے خاندان والوں نے میرے سوالات سنے تو انہوں نے رونا اور بین کرنا شروع کر دیا۔
اب اندھیرا گہرا ہو چکا تھا، سو گمشدہ بندے کی تلاش ممکن نہین تھی۔ دوسرا اگر شیر اسے لے گیا ہوتا تو نشانات بھی دکھائی نہ دیتے۔ مگر پھر بھی فارسٹ گارڈ کو ساتھ گاڑی میں بٹھا کر میں نے اس جگہ کا رخ کیا جہاں پہلے گاڑی کھڑی کی تھی۔ وہاں پہنچ کر میں نے گارڈ کو کہا کہ وہ گمشدہ بندے کا نام لے کر پکارے۔ مگر بے سود۔ پھر ایک میل مزید آگے سڑک پر گئے اور پھر واپس گاؤں لوٹے۔ اب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ شیر اس بندے کو اٹھا لے گیا ہوگا۔ شاید جتنی دیر میں بیل کی لاش کے پاس چھپ کر بیٹھا رہا، شیر نے اتنی دیر میں اس بندے کو شکار کر لیا ہوگا۔
اس رات ہم زیادہ دیر نہ سو سکے کہ متوفی کے خاندان والوں کے بین کی آواز سے مسلسل احساس ہوتا رہا کہ وہ بندہ میری وجہ سے مارا گیا ہے۔ شاید اگر میں اس بندے کو زبردستی ساتھ نہ لے جاتا تو وہ شاید اس وقت بھی زندہ ہوتا۔
پو پھٹتے ہی میں واپس اس جگہ لوٹا جہاں اسے چھوڑا تھا۔ یہاں پہنچ کر میں نے نشانات تلاش کرنا شروع کیے مگر ناکام رہا۔
پھر میں نے دائروں کی شکل میں نشانات تلاش کرنا شروع کیے مگر ناکام رہا۔ حیرت کی بات تھی کہ وہ بندہ اچانک کیسے غائب ہو گیا۔ مجھے یہ تو پتہ تھا کہ وہ میرے پیچھے شیر کے تعاقب میں نہیں آیا تھا۔ شاید اکیلا ہونے کی وجہ سے گھبرا کر اس نے سڑک کا رخ کیا ہوگا۔ یہ سوچ کر میں نے سڑک کی جانب تلاش شروع کی۔
جہاں اسے چھوڑ کر گیا تھا، اس جگہ سے تین سو گز دور مجھے کچھ فاصلے پر دو چپل پڑے ملے۔ یہاں چھوٹی اور خشک گھاس اگی ہوئی تھی سو پگ دکھائی نہیں دیے۔ تاہم چپلوں کی حالت سے لگ رہ تھا وہ دوڑتے ہوئے اترے ہوں گے۔ مزید تلاش کرنے پر مجھے ایک جانب ہوا میں سفید رنگ کی کوئی چیز پھڑپھڑاتی دکھائی دی۔ یہ اس بندے کی دھوتی تھی جو جھاڑی میں الجھی ہوئی تھی۔
گھاس پر اور جھاڑیوں پر بھی خون کے دھبے دکھائی دیے اور غور کرنے پر پتہ چلا کہ شیر نے کہاں سے حملہ کیا ہوگا۔ حملے کے بعد وہ متوفی کو لے کر سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے نالے کی سمت گیا۔ جہاں میں بیل کی لاش پر بیٹھا تھا، شیر اس سے کافی نیچے نالے میں گھسا۔
چوتھائی میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد میں نالے میں گھسا۔ مگر مجھے نہ تو کچھ دکھائی دیا اور نہ ہی کچھ سنائی دیا۔ مجھے علم تھا کہ شیر نے باقیات یہیں کہیں چھپائی ہوئی ہوں گی۔
خاموشی سے دیکھتے ہوئے میں نے اچانک دو کوے دیکھے جو نالے میں مزید سو گز نیچے کی جانب ببول کے خاردار درخت پر بیٹھے شور کرتے ہوئے بار بار نیچے کو دیکھ رہے تھے۔ اب یا تو کوے لاش کو پا چکے تھے یا پھر وہ شیر کو دیکھ رہے تھے جو مجھے دیکھ رہا ہوگا۔
نالے کے عین وسط میں پنجوں کے بل چلتے ہوئے میں آہستہ آہستہ اس جانب بڑھنے لگا۔ اس مرتبہ میں نے ربر سول کے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ پچاس گز دور کوے مجھے دیکھ کر خاموش ہو کر اڑ گئے۔
میں نے ان کی نشت کے درخت کو یاد رکھا اور آہستہ آہستہ اس جگہ پہنچا۔ درخت کے عین نیچے نالے کی تہہ میں ایک چٹان سی نکلی ہوئی تھی جس کے پیچھے گمشدہ منیاپا کی ادھ کھائی لاش پڑی تھی۔ نرم ریت پر شیر کے پگ صاف دکھائی دے رہے تھے کہ یہ عام جسامت کا نر شیر ہے۔
ایک بار پھر اس جگہ مچان کے لیے کوئی مناسب درخت نہیں تھا۔ لے دے کے یہی ایک ببول کا درخت ملا جو خاردار ہونے کی وجہ سے ناقابلِ استعمال تھا۔ نہ ہی کوئی بانس کے جھنڈ یا بڑی جھاڑیاں دکھائی دیں۔ یہاں چھپ کر بیٹھنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ تاہم کچھ نہ کچھ کرنا تو تھا ہی کہ میں منیاپا کی موت کا کسی حد تک ذمہ دار تھا۔
مجھے علم تھا کہ آدم خور سہ پہر سے قبل واپس نہیں آئے گا۔ اگر میں اس جگہ لاش کو چھوڑ جاتا تو گدھ اسے دیکھ کر صاف کر جاتے۔ سو میں نے اپنا خاکی کوٹ اتارا اور لاش کو ڈھانپ دیا اور پھر اس پر پتھر وغیرہ رکھ دیے۔ پھر میں کار کو واپس لوٹا اور راج نگرا لوٹا۔
پہنچ کر میں نے بری خبر سنائی تو متوفی کی بیوہ نے فوراً لاش کو واپس لانے کا مطالبہ کیا تاکہ اسے جلایا جا سکے۔ اسے سمجھانے میں پورا ایک گھنٹہ لگا کہ شام تک لاش وہیں پڑی رہے تاکہ شیر کو مارنے کا موقع مل سکے۔ بڑی مشکل سے اس نے مجھے اجازت دی۔
ناشتے کے بعد میں نے گاؤں کے پٹیل اور فارسٹ گارڈ کے ساتھ بیٹھ کر بات کی۔ انہیں لاش کے مقام کا بتا کر کہا کہ میں دوپہر کو وہاں واپس جاؤں گا تاکہ شیر کا انتظار کروں۔ انہوں نے میرے منصوبے کو احمقانہ کہا جس سے مجھے پورا اتفاق تھا۔ مگر چونکہ ان کے پاس بہتر حل نہیں تھا، سو اسی پر عمل کرنا تھا۔ دوسری صورت لاش کو گاؤں لا کر جلانا تھی مگر اس طرح شیر کو مارنے کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا۔
بارہ بجے کے بعد میں لاش سے چند گز دور بیٹھ گیا۔ لاش سے تعفن اٹھنا شروع ہو گیا تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں مکھیاں میرے کوٹ پر بیٹھی تھیں اور کوٹ ہٹاتے ہی وہ لاش پر بیٹھ گئیں۔
میں پوری طرح تیار ہو کر آیا تھا اور روئی نتھنوں میں پھنسا لی تھی۔ مگر بو پھر بھی محسوس ہو رہی تھی۔ مجھے متلی ہونے لگی۔ گرمی شدید تھی۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ محض جھاڑیوں سے جھینگر کی آواز آ رہی تھی۔
تین بج گئے، پھر چار اور پھر پانچ۔ ساڑھے پانچ بجے ایک مور نالے کی تہہ میں اترا۔ میں اس طرح ساکت بیٹھا تھا کہ اسے میری موجودگی کا علم نہ ہوا۔ اس سے جنگل میں خاموش اور ساکت بیٹھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔چلتے ہوئے بمشکل دس فٹ کے فاصلے پر اسے لاش اور میں دکھائی دیے تو اس نے فوراً پر پھڑپھڑاتے ہوئے فرار کو ترجیح دی۔
میں بہت پرجوش اور خوفزدہ بھی تھا۔ اس کے علاوہ تعفن سے برا حال تھا۔
پھر پندرہ منٹ کے لیے مکمل خاموشی چھا گئی، ایسی خاموشی جو ہر طرح سے مکمل تھی۔یہ وہی خاموشی تھی جو آدم خور کی آمد سے قبل ہوتی ہے۔
میں بالکل ساکت بیٹھا سامنے اور اطراف میں نگراں تھا۔ تمام تر حسیں پوری طرح بیدار تھیں مگر نہ تو کچھ دکھائی دیا اور نہ ہی کچھ سنائی دیا۔
پھر نالے کے اوپر کی سمت سے جنگلی مرغ کی آواز سے سناٹا ٹوٹ گیا۔ چھ بجے اور پھر سوا چھ۔ پھر ایک شبینہ پرندے کی آواز سنائی دی۔ مجھے علم ہو گیا کہ اب میری واپسی کا وقت ہو چلا ہے۔ تھوڑی دیر میں تاریکی چھانے لگتی اور پھر زمین پر آدم خور کے انتظار میں بیٹھنا خودکشی ہوتی۔
اپنی جگہ سے اٹھ کر میں کار کو لوٹا۔ میں نے پہلے ہی لوگوں کو کہہ دیا تھا کہ وہ مجھے کار کے پاس ملیں تاکہ ہم منیاپا کی باقیات اٹھا سکیں۔ تاریکی تو چھا چکی تھی مگر مجھے علم تھا کہ ہماری تعداد ٹارچ کی روشنی کی وجہ سے حملے کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ اس جگہ لوٹ کر ہم نے ساتھ لائے پرانے کمبل میں باقیات لپیٹیں۔ میرے ہمراہی تو گاؤں کو چل پڑے مگر میں نے گاڑی پر سڑک کا رخ کیا۔
اگلی صبح میں پھر اسی نالے کے آس پاس پھر رہا تھا۔ شیر واپس نہ لوٹا تھا ورنہ مجھے اس کے پگ دکھائی دے جاتے۔ پھر میں نے اس نالے کے ساتھ ساتھ اس جگہ جانے کا سوچا جہاں دو روز قبل بیل کی لاش پڑی تھی۔ میں نالے کے اندر بہت محتاط ہو کر چلتا رہا کیونکہ بعض جگہ اس کی چوڑائی چھ فٹ رہ جاتی تھی اور کئی جگہ پتھروں کے ڈھیر پر خاردار جھاڑیوں کے سوا کچھ اور نہ دکھائی دیتا۔ بیل کی لاش منیاپا کی لاش سے نصف میل سے بھی زیادہ فاصلے پر تھی۔ یہ لاش ایک جھاڑی کے نیچے چھپی ہوئی تھی اور یہ جگہ گدھوں سے محفوظ تھی۔ تاہم جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ شیر پچھلی رات آ کر پوری لاش ہڑپ کر گیا تھا۔ شاید وہ انسانی شکار کو بھلا کر یہاں آیا ہو کہ اس نے مجھے انسانی لاش کے ساتھ بیٹھا دیکھ لیا ہو۔ خیر، اب شیر پر گھات لگانے کے لیے کوئی شکار نہ بچا تھا۔
دوپہر اور شام کو بھی میں پہاڑیوں پر اور وادیوں میں گھومتا رہا اور ندی نالے عبور کرتا رہا۔ کئی بار مجھے شیر کے پگ تو ملے مگر شیر نہ دکھائی دیا۔
اس طرح میں نے تین دن گزارے مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ چونکہ میرے پاس ایک ہفتے کی چھٹی تھی تو اب چار دن باقی بچ گئے تھے۔
اگلی صبح میں نے حکمتِ عملی بدلی۔ ایک اونچی پہاڑی پر چڑھ کر میں نے کئی مرتبہ شیر کی آواز نکالی۔ ہر دس منٹ بعد یہ آواز نکالتا رہا مگر جواب نہ ملا۔ دو گھنٹے بعد دوسری پہاڑی پر یہی کام کیا مگر ناکام رہا۔ بظاہر شیر اس علاقے میں نہیں تھا۔
پانچویں روز چرواہے پھر اپنے مویشیوں کو لے کر باہر گئے۔ آپ کو شاید ایسا لگے کہ چرواہے بہت بہادر تھے۔ مگر یاد رہے کہ دیہاتی مویشیوں کا دارومدار اسی پر ہوتا ہے۔ اگر وہ چرانے کے لیے نہ بھیجے جائیں تو وہ بھوکے رہیں گے۔ دیہاتوں کے اندر میں چارے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔
اگلی صبح میں ان کے ساتھ گیا اور شام کو بھی یہی کام کیا۔ رات تک شیر کا کوئی نشان نہ ملا۔ چھٹی صبح میں بہت مایوس ہو چکا تھا۔ مجھے لگا کہ اس شیر کے شکار کا موقع پھر نہیں ملے گا۔تاہم میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ مویشیوں کے ساتھ جنگل میں جاتا رہا۔
اس روز میں نے بہت میل کا سفر کیا اور اس وقت میں منیاپا کی لاش والے مقام سے آٹھ میل دور تھا کہ کچھ لوگ بھاگتے ہوئے مجھے یہ بتانے آئے کہ شیر نے تین میل دور ایک اور چرواہے پر حملہ کیا ہے۔
میں فوراً ان کے ساتھ جائے وقوعہ کو بھاگا۔ ایک بار پھر واقف علامات دکھائی دیں۔ چہرے، سینے اور پہلوؤں پر بری طرح پنجے مارے گئے تھے۔ اس بندے کا کافی خون بہہ گیا تھا اور چلنے کے قابل نہ رہا تھا۔ تاہم اس بندے پر کاٹنے کا کوئی زخم نہیں تھا۔ سو اسے کار میں ڈال کر میں نے اسے مقامی ہسپتال چھوڑا کہ اس کی حالت کافی خراب تھی۔ پھر جائے وقوعہ کو پہنچا اور جنگل میں گھسا۔ خون کے نشانات سے اس مقام تک جانا آسان تھا۔
تاہم اس بار شیر مویشی ہلاک کرنے میں ناکام رہا تھا کہ مویشی سڑک کو بھاگ گئے تھے۔ اس لیے شیر کی تلاش بیکار کام لگا۔ میں اِدھر اُدھر گھومتا رہا اور شیر کی آواز نکالتا رہا مگر کچھ نہ ہوا اور ایک دن مزید گزر گیا۔
میں نے منصوبہ بنایا کہ اس رات میں پانچ میل تک سڑک پر کار چلاتا رہوں اور سپاٹ لائٹ سے شیر کی آنکھیں تلاش کرتا رہوں۔ سو دس بجے میں نے عمل شروع کیا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پانچ میل دور پہنچا اور پندرہ منٹ رک کر واپسی کا سفر اختیار کیا۔ اسی طرح چھ گھنٹے تک میں گھومتا رہا۔
اس طرح ساتواں دن نکلا جو میری چھٹی کا آخری دن تھا۔ آخری حملے کے بعد چرواہوں نے باہر جانا بند کر دیا تھا۔ سو میں اکیلا نکلا۔ دوپہر کو میں کار سے چھ میل دور تھا اور پھر میں نے واپسی اختیار کی۔
میں پہاڑی سے اتر رہا تھا اور نیچے دامن میں نشیب سا تھا۔ فوراً دوسری پہاڑی شروع ہو گئی۔ اس وادی سے کوئی ندی نہیں گزرتی تھی اور چند ایک ببول کے درخت موجود تھے جبکہ مجھے سے پچاس گز آگے شیر باہر نکلا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو بیک وقت دیکھا اور شیر جست لگا کر ایک خاردار جھاڑی کے پیچھے چھپ گیا۔
رائفل کو شانے سے لگا کر میں احتیاط سے آگے بڑھا اور امید تھی کہ شیر حملہ کرے گا۔ مگر دہشت سے میرا دل بھی دھڑک رہا تھا۔
تاہم حملہ نہ ہوا۔ شاید شیر کی چھٹی حس نے اسے بتا دیا کہ میں شکار نہیں بلکہ شکاری ہوں۔ سو جھاڑی کے قریب پہنچنے سے قبل ہی وہ گم ہو چکا تھا۔ میں نے جھاڑی کے گرد گھوم کر بھی دیکھا مگر شیر جا چکا تھا۔
اس طرح میری چھٹی کا ساتواں اور آخری روز ختم ہوا۔ اب بنگلور واپس جانا تھا۔
اگرچہ یہ کہانی شکار میں ناکامی سے متعلق ہے مگر یاد رہے کہ ہر بار ایسے کاموں میں کامیابی ممکن نہیں ہوتی۔ناکامی اور مایوسی اکثر ہوتی ہیں۔ تاہم محبت، لگن اور کوشش کے ساتھ انسان شیر کو بچھاڑ سکتا ہے۔ تاہم ان سب کے باوجود بھی بہت مرتبہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ مجھے واپسی پر بہت مایوسی ہو رہی تھی مگر فی الوقت کچھ عرصہ میں مزید چھٹی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ شاید اگلی بار میری قسمت ساتھ دے۔
میں نے منیاپا کی بیوہ کو ایک چیک دیا اور واپس بنگلور روانہ ہو گیا۔ راستے میں خاردار جھاڑیاں کار سے لگتی رہیں۔ میں نے اس شیر کو عارضی کامیابی پر مبارکباد دی کہ نہ صرف اپنی جان بچانے میں کامیاب رہا بلکہ اس لیے بھی اس نے اپنی کاٹنے کی بجائے پنجے مارنے کی عادت کا راز محفوظ رکھا۔
 
Top