حسان خان
لائبریرین
ذرہ ذرہ سے اٹھی اک تازہ موجِ زندگی
آسمانوں نے علم کھولے زمیں نے سانس لی
بھاپ بن کر چھائی میدانوں پہ روحِ بحر و بر
دید کی خاطر پہاڑوں نے اٹھائے اپنے سر
سنسنائی سینۂ فولاد میں تیغِ دو دم
پتھروں میں کنمنائے ناتراشیدہ صنم
خفتہ میدانوں میں شہروں کا تخیل جاگ اٹھا
ایک پرتو سا در و دیوار کا پڑنے لگا
لیلیِ تعمیر کا رخسار لو دینے لگا
گونج اٹھی کہسار کے سینے میں تیشے کی صدا
حکمِ قدرت کو لیے موجِ ہوا آنے لگی
'با ادب، باہوش' کی پیہم صدا آنے لگی
ذوقِ ایجادات و صنعت کا بگل بجنے لگا
آئی طبلِ عالمِ خاکی سے 'دوں دوں' کی صدا
اپنے میثاقِ اطاعت کو سنانے کے لیے
آئیں ساری قوتیں عالم کی صف باندھے ہوئے
سامنے آ آ کے اشیاء نے بتائے اپنے نام
ہونکتے، بھپرے عناصر نے کیا جھک کر سلام
تند طوفانوں کی اکڑی گردنیں خم ہو گئیں
احتراماً قدِّ آدم بحر کی موجیں اٹھیں
رکھ کے کشتی میں خواصِ این و آں بہرِ خراج
نذر کو آیا قوائے کار فرما کا مزاج
جھک گئی ہستی مودّب ہو گئے ارض و سما
شاہدانِ دہر نے وا کر دیے بندِ قبا
روشنی کو سینۂ ظلمت میں راہیں مل گئیں
خاک کے در کھل گئے، کانوں کی باچھیں کھل گئیں
نو عروسِ دہر نے زلفوں کو برہم کر دیا
چاند مجرے کو جھکا، سورج نے سر خم کر دیا
(جوش ملیح آبادی)