صفحہ 56 تا 60 (ریختہ)
و مہربانی کرتے ہیں۔ یہ سب زر و جواہر کی تعریف ہے، نہیں تو میں وہی برزخ سوداگر کی بیٹی ہوں کہ جس کو اپنے شہر سے نکلوادیا تھا اور مال و خزانہ لوٹ لیا تھا۔
اتنے میں بادشاہ اٹھا اور اس فقیر سے رخصت ہونے گا۔ ماہ رو شاہ نے ہاتھ باندھ کر عرض کی "اگر پیر و مرشد اس کم ترین کے گھر میں قدم رنجہ فرمائیں تو عین سرفرازی و بندہ پروری ہے اور یہ بات خصلت سے بزرگوں کی بعید نہیں۔"
اس انسان صورت، شیطان سیرت نے کہا کہ بابا البتہ میں آؤں گا۔
ماہ رو شاہ نے پھر بادشاہ سے عرض کی کہ میری حویلی شہر سے نہایت دور ہے ، شاہ صاحب کو تصدیع ہوگی۔ صلاح یہ ہے کہ یہاں ایک حویلی برزخ سوداگر کی قابل بادشاہوں کے بالفعل خالی پڑی ہے۔ اگر خداوند دو چار روز کے واسطے عنایت کریں تو یہ غلام ایسے ولی کی ضیافت قرار واقعی کرے اور دولت بے زوال سے بہرہ مند ہووے۔
بادشاہ نے کہا "اے فرزند ارجمند ! تو نے اس کی خبر کہاں سے پائی۔"
اس نے عرض کی کہ اکثر اس شہر کے رہنے والے اس کی تعریف کرتے ہیں اور نام اس کا بخوبی لیتے ہیں۔
بادشاہ نے کہا "اے ماہ رو شاہ ! وہ حویلی ہم نے تجھی کو بخشی۔"
اس بات کے سنتے ہی وہ آداب بجا لایا اور اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر اس حویلی میں داخل ہوا۔ پھر اس کو بے مرمت دیکھ کر بے اختیار در و دیوار سے لگ لگ رویا اور کہنے لگا کہ لوگوں اس حویلی کو مرمت کرکے جلد درست کرو۔ یہ کہہ کر اپنے شہر کو چلا گیا۔
بعد ایک مہینے کے ضیافتوں کا سر انجام تیار کرکے اس میں بھیجا اور کتنے خوان سونے روپے کے مرصع ہاسنوں سمیت اور بہت سا سر انجام زری ہاف و زرہفت و بوم طلا کا ایک اور طاؤس یاقوتی اور بہت سا جواہر بیش قیمتی اپنے ساتھ لایا، پھر اپنے نوکر چاکر اس حویلی میں چھوڑ کر بادشاہ کے پاس گیا۔ ہاتھ باندھ کر عرض کرنے لگا "جہاں پناہ ارادہ یوں ہے کہ چند روز برزخ سوداگر کی حویلی میں رہوں، سلام مجرے کو بھی روز حاضر ہوا کروں لیکن کل اپنے پیر و مرشد کی تواضع کرلوں۔"
بادشاہ نے فرمایا " بہت بہتر، یہ تیرا اختیار ہے بلکہ ہماری بادشاہت بھی اپنی ہی جان۔"
وہ اٹھ کر آداب بجا لایا اور عرض کرنے لگا کہ اس قدر بندہ پروری اور اتنی سرفرازی خداوند کی محض نوازش ہے۔ فدوی ہر صورت سے تابعدار بادشاہ عالم پناہ کا ہے۔
غرض بادشاہ سے رخصت ہوا اور اپنے باپ کے گھر آکر ضیافت کی تیاری کی۔ پھر ایک آدمی سے کہا کہ تو جا کر اس فقیر مکر ہائے کی خدمت میں اس عاجز کی طرف س بندگی عرض کر کہ کل اگر تشریف ارزانی فرماؤ تو گویا اس کم ترین کو بے داموں مول لو۔
غرض وہ گیا اور اس کے کہنے کے موجب عرض کی۔ اس نے اس بات کو قبول کیا۔
صبح کو اسی اپنی عادت سے فقیروں کو ساتھ لیے سونے روپے کی اینٹوں پر پاؤں رکھتا ہوا چلا۔ ماہ رو شاہ نے فرش فروش مکلف و مسند شاہانہ سے ایک مکان آگے ہی چمکا رکھ تھا، اس میں داخل ہوا۔
شاہ زادے نے اس کو مسند شاہانہ پر بٹھلایا، خوان و زر و جواہر مع طاؤس مرصع نذر گزارنے، فقیر نے قبول نہ کیے۔ تب اس نے تمام جواہر اپنے طاقوں میں چنوادیے اس لیے کے جس وقت نظر فقیر کی اس پر پڑے تو طمع اس کی زیادہ بڑھے۔ پھر کئی خوان میوے کے منگوائے اور ایک دستر خوان زر ہفت کا بچھوایا، جڑاؤ سنگ یشم (یشب) کے باسنوں میں طرح بہ طرح کے اور قسم قسم کے کھانے نکال کر چنے اور گنگا جمنی چلمچی آفتابے سے ہاتھ دھلا کر عرض کی کہ پیر و مرشد کچھ الش کردیں اور اس کم ترین کو سرفراز فرمائیں۔
اس بات کو سن کر اس کو تہ اندیشن نے ہاتھ بڑھایا اور اپنے انھیں چالیسوں فقیروں کے ساتھ کھانا کھانا شروع کیا۔ دو چار لقمے کھا کر کہا کہ بس زیادہ کرو۔ فقیروں کو پیٹ بھر کھانا اچھا نہیں کیوں کہ اگر بہت کھائیں گے تو عبادت الٰہی نہ کرسکیں گے۔
ماہ رو شاہ نے پھر عرض کی کہ پیر و مرشد! اس کمترین کی تسلی نہیں ہوئی، دو چار نوالے آپ اور بھی تناول کریں۔
اس نے کہا کہ اتنا کھانا تیری خاظر سے کھایا وگرنہ میں تمام رات و دن میں دو چار دانے کھاتا ہوں۔ آتھ پہر یاد خدا ہی میں مشغول رہتا ہوں کیوں کہ جو زیادہ کھاؤن تو عبادت کیا خاک کروں؟ دل میں کہتا کہ یہ اسباب سب کا سب اپنا ہی ہے، کہاں جاتا ہے۔
پھر ایک مرصع کار عطر دان پان دان آگے لا رکھا۔ اس نے عطر ملا؛ گھڑی دو گھڑی کے بعد رخصت ہو کر اپنے گھر آیا۔ ان چوروں سے کہنے لگا کہ یہ کھانا جب حلال ہوگا کہ ہم تم آج ہی کی رات چل کر تمام اسباب چرا کے اپنے گھر لے آویں۔
اسی گفتگو میں تھے کہ رات ہوگئی؛ تب اس نے چوروں کے کپڑے پہنے اور انہیں چالیسوں کو ساتھ لے کر آدھی رات کو اس کی حویلی کی طرف چلا۔
ماہ رو شاہ نےھ اپنے لوگوں کو پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ تم کچھ اسباب کہیں سے نہ سمیٹنا، جہاں کا تہاں پڑا رہنے دینا، پر مستعد بیٹھے رہنا۔اور ایک رقعہ شہر کے کوتوال کو لکھ بھیجا کہ آج کی رات ڈاکا پڑنے کی خبر ہے۔ تم تھوڑے سے لوگ لے کر جلد آؤ اور ایک کونے میں چھپے، گھات میں رہو۔ جس وقت اس حویلی سے شور و غل کی آواز بلند ہو، اسی گھڑی تم آن پہنچنا اور چوروں کو باندھ لینا۔
کوتوال اس خبر کو سنتے ہی سو دو سو پیادوں سے اس کی حویلی کے دائیں بائیں آکر بیٹھ رہا کہ اتنے میں وہ اجل گرفتہ ایک ڈھاڑے کا دھاڑا لے کر اس حویلی میں پیٹھا، اسباب غارت کرنے لگا۔
غرض ہر ایک نے ہر ایک طرح کے اسباب کا گٹھر باندھ کر اپنے اپنے سر پر رکھا۔ وہ درویش بھی اس طاؤس مرصع کو لے کر حویلی سے باہر نکلا۔ پیادے تو اسی تاک پر لگ رہے تے، اپنی اپنی جگہ سے کودے اور ان کو باندھنے لگے۔ ندان آن سبھوں کی مشکیاں چڑھا لیں اور گٹھریاں ان کے گلے میں دال دیں۔ عرض اس قدر شور و غل ہوا کہ کوتوال خود چلا آیا۔ انہوں نے عرض کی کہ اب آپ بھی ان سے خبردار رہیں، صبح کو حضور معلٰی میں لے چلیں۔ وہاں سے جو حکم ہوگا سو کیا جائے گا۔
حسن بانو ان دشمنوں کو گرفتار دیکھ کر نہایت خوش ہوئی اور اپنے نوکروں کو انعام دے کر ٹھنڈے جی سے پاؤن پھیلا کر سو رہی۔
اتنے میں صبح ہوئی۔ بادشاہ۔ بار آمد ہو کر تخت سلطنت پر جلوس فرمایا۔ وزیر، امیر، خان و نواب مجرا کرکے اپنے اپنے پائے پر کھڑے ہوئے۔ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ آج کی رات شہر میں کیا شور و غل تھا۔
اتنے میں کوتوال ان سبھوں کو باندھے ہوئے آن پہنچا اور آداب بادشاہی سے مجرا کر کے عرض کرنے لگا "جہاں پناہ! آج آدھی رات گئے برزخ سوداگر کی حویلی میں چور پڑے تھے۔ یہ نمک خوار اس احوال کے دریافت کرتے ہی وہاں جا پہنچا اور ان کو مع زر و جواہر باندھ کر حضور اعلیٰ میں لے آیا۔"
معلوم ایسا ہوتا ہے کہ شاید میں نے ان کو کہیں دیکھا ہے۔ ظاہرا صورت آشنا سے نظر پڑتے ہیں۔