صابرہ امین
لائبریرین
صفحہ 141 سے 145
ص141
کہنا تھا کہ اگر اس وقت وہ چور میرے پاس ہوتے تو یہ مال متاع میں ان کو بخش دیتا کہ پهر وہ محتاج نہ رہتے اور بندگان خدا کو ایذا نہ دیتے ۔
حاصل کلام اُس نے ایک جوڑا کپڑے کا اچھا سا اُس میں سے پہنا اور تھوڑا سا زر و جواہر اپنی جیب میں ڈال کر اُن چوروں کی تلاش میں روانہ ہوا اور دعائیں مانگتا تھا کہ الہٰی! اُس بڑھیا کو پھر مجھ سے ملا۔
تھوڑی ہی دور پہنچا ہوگا کہ وه بڑھيا برسر راه بہ حال تباه ، فقیروں کی سی صورت بنائے بیٹھی سوال کر رہی تھی کہ جانے والے بابا کچھ خیر کیے جا۔
یہ اس کو دیکھتے ہی دوڑا اور خوش ہو کر مثل گل کے کھل گیا اور مٹھی بھر روپے اشرفیاں جیب سے نکال کر اس کو دیے۱ اور اپنا قدم آگے رکھا۔ اُس نے وہ روپے لے لیے اور پھر اُسی صورت سے با آواز بلند کہا کہ " یکے دکے بٹو ہی کا راه باٹ میں خدا نگہبان ہے ۔“
اس آواز کو سن کر وے ہی ساتوں پهانسی گر پھر کسے کسائے ادهر اُدهر سے نکلے اور اس سے ملاقات کر کے کہنے لگے کہ اے جوان! تو کہاں جاتا ہے ؟
اُس نے ان کو پہچان کر کہا "اے عزیزو! میں تم سے ایک عرض رکھتا ہوں ، اگر تم قبول کرو تو کہوں ؟
انھوں نے کہا ” کیا کہتے ہو فرماؤ ۔“
حاتم نے کہا ” اگر تم سب توبہ کرو اور مردم آزاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱- نسخہء مكتوبہ (صفحه ۱۱۱)” دیں ‘‘ -
ص142
سے ہاتھ اٹھاؤ تو میں اس قدر زر و جواہر دوں کہ وه تمهاری سات پیڑھی تک کام آوے۔
اُنھوں نے کہا کہ ہم تو پیٹ ہی کے واسطے اپنے اوپر عذاب لیتے ہیں ۔ اگر اتنا مال و اسباب پاویں تو پھر کیا دیوانے ہیں جو ایسی حرکت کریں بلکہ آج کی تاریخ سے عہد کرتے ہیں کہ جس کام سے خدا راضی نہ ہو، سو تمام عمر نہ کریں -
حاتم نے کہا کہ تم خدا کی طرف متوجہ ہو کر قول دو اور قسم بہ دل کھاؤ تو میں اتنا گنج و مال تمھیں دوں کہ نہال ہو جاؤ۔ یہ بات سن کر انھوں نے عرض کی کہ پہلے ہمیں دکھلا دو تو ہم توبہ کریں ۔
حاتم ان کا ہاتھ پکڑ کر اس کوئیں پر لے آیا اور اُس زر بے شمار کو دکھلا کر کہنے لگا کہ اب اسے لو اور اپنے وعدے کو وفا کرو۔
وے اس کو دیکھتے ہی نہایت خوش ہوئے اور ہاتھ باندھ کر یہ بات کہنے لگے کہ اب جو کہو سو کر یں ۔
حاتم نے کہا” تم سب اس طرح قسم کھاؤ کہ خدا دانا اور بینا ہے اورہر ایک کا احوال جانتا ہے ۔ اگر آج سے ہم کسی کا مال چراویں یا کسی پنچھی پردیسی کو ستاویں تو خدا کے غضب میں گرفتار ہوویں -
انھوں نے اسی طور سے قسم کھائی اور چوری سے توبہ کی ۔
حاتم نے وه زر و جواہر سب اُن کو بخشا اور راہ راست دکھلا کر جنگل کا رستہ ليا کہ ایک کتا جیب نکالے سامنے سے دکھلائی دیا ۔ اُس نے معلوم کیا کہ شاید اس صحرا میں کوئی
ص143
کاروان اُترا ہے اور یہ كتا اُسی قافلے کا ہے۔
جب وہ اس کے پاس آیا تب حاتم نے اس کو اپنی گود میں اُٹھا لیا اور پانی اس کے واسطے ادهر اُدھر ڈهونڈھنے لگا اور جی میں کہتا تھا کہ اس جنگل میں کوئی چشمہ ملے تو میں اس پیاسے کو خوب سا پانی پلاؤں ۔
اتنے میں ایک گاؤں دکھلائی دیا ۔ حاتم اس کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں کے لوگ گیہوں کی روٹیاں اور مٹها مسافروں کو دیتے تھے ، حاتم کے بھی آگے لے آئے ۔ اس نے وے روٹیاں اور چھاچھ لے کر کتے کے آگے رکھ دی ۔ کتے نے پیٹ بھر کر کھایا اور۱ حاتم اس کی طرف دیکھ کر کہتا تھا ، کیا خوش ترکیب اور کیا خوب صورت کتا ہے اور وہ اُس کے سامنے بیٹھا ہوا شکر خدا کر رہا تها ۔
اتنے میں حاتم شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور دل میں خدا کو یاد کرکے یوں کہنے ۲ کہ یہ تیری ہی قدرت ہے کہ اٹهاره ہزار عالم کو تو نے پیدا کیا اور ایک کی صورت سے دوسرے کی شکل کو ملنے نہ دیا ۔ اتنے میں ایک سخت سی چیز شاخ کی مانند اس کے ہاتھ میں لگی ۔ جب غور کرکے دیکھا تو ایک میخ آہنی نظر پڑی - ووں ہی وه میخ اُس کے سر سے نکال لی. وہ کتا ایک جوان خوش رو کی صورت ہو گیا ۔
حاتم متعجب ہو کر کہنے لگا کہ اے بندهء خدا ! یہ کیا بھید ہے اور تو کون ہے کہ پہلے تیری صورت حیوان کی تھی
ا - نسخہء مطبوعه بمبئ (ص ۸۴) ”پھر“ - نسخہء مكتوبہ (ص ۱۱۴) - نسخہء مكتوبہ (ص ۱۱۴)” کہے“
ص144
اور اُس میخ کے نکالتے ہی تو انسان ہو گیا ؟
اُس نے دیکھا کہ اس شخص نے مجھ پر احسان کیا ، اس سے اپنا احوال نہ چھپانا چاہیے ۔ اس بات کو سوچ کر اس کے پاؤں پر گر پڑا اور کہنے لگا ''اے مرد بزرگ ! میں بنی آدم ہوں ، تیری دست گری سے اپنی اصلی صورت پر آیا ۔“
حاتم نے کہا " یہ کیا سبب تھا کہ تیری صورت کتے کی بن گئی تھی ؟؟“
جوان نے کہا ” میں ایک سوداگر کا بیٹا ہوں - باپ میرا بہت سا مال و اسباب لے کر چین میں گیا تھا . وہاں سے کچھ ۱ مول لے کر خطا میں آیا اور اس کی فروخت سے بہت سا نفع اُٹهايا اور میرے تئیں بڑی دھوم سے بیاہ دیا ۔ کتنے روز جیا ، پھر شربت اجل پی کر مر گیا ۔ مال و اسباب ، زر و جواہر میرے ہاتھ لگا۔ میں ایک مدت تک اس کو بیچ بیچ کر عیش و عشرت کرتا رہا . جب وہ کم ہونے پر آیا ، تب میں خطا کا مال خرید کر کے شہر چین میں گیا اور خرید و فروخت کر کے پھر اپنے شہر کو روانہ ہوا۔ جب تک میں آؤں ، وہ عورت بد ذات جو باپ نے بیاہ دی تھی، پیچھے ایک غلام حبشی سے پچی هوگئ ۲ تھی اور یہ میخ لوہے کی جادوگروں سے پڑھوا کر اپنے پاس رکھ چھوڑی تھی ۔ جب میں گھر میں آپہنچا اور ایک دن غافل سوگیا ، اس نے فرصت پا کر یہ میخ میرے سر میں ٹھونک دی ۔ میں اُس کے لگتے ہی کتا ہو گیا ۔ اُس نے اُسی گھڑی دھتکار کر نکال دیا ۔ میں کان پھٹپٹهاتا هوا بازار میں آیا ۔ وہاں کے کتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا- نسخہء مكتوبہ ( ص ۱۱۵) میں ” کچھ “ نہیں ہے ۔
۲ - نسخیء مكتوبہ (ص ۱۱۵ ) میں ” پچی ہو گئ “ اور نسخہء بمبئی (ص۵۸) میں ” بجھے تھی“
ص145
اجنبی جان کر بھونکنے لگے اور کتنے ہی دوڑے۔ اُن کی د ہشت سے آج تیسرا دن ہے کہ میں شہر چھوڑ کر اس جنگل میں بھوکا پیاسا پڑا پھرتا تھا ۔ آگے کیا کہوں ، بارے آج خدا نے اپنے فضل و کرم سے تجھے اس مکان پر بھیجا جو تو نے کھانا کھلایا ، پانی پلایا ، آدمی بنایا ۔
حاتم اس بات کے سنتے ہی سر بہ زانو ہوا اور کہنے لگا کہ اے عزیز! تیرا گھر کس شہر میں ہے ؟
اس نے کہا کہ اس جنگل سے تین روز کی راہ پر اور اس کو شہر سورت کہتے ہیں ۔
حاتم نے کہا کہ اس شہر میں تو حارث ۱ سوداگر بھی رہتا ہے اور اس کی بیٹی تین سوال رکھتی ہے ۔ اُسی ۲ لڑکی نے مجھے اس بات کی خبر کو بھیجا ہے کہ ” نہ کیا وہ کام میں نے جو آج کی رات کام آتا میرے ۔“
اُس نے کہا کہ صاحب ! یہ بات سچ ہے اور میں بھی اُسی شہرکا رہنے والا ہوں -
پھر حاتم نے کہا کہ اے بنده خدا ! تو اس میخ کو اپنے پاس رہنے دے. اگر تیرا جی بدلا لینے کو چاہے گا تو فرصت پا کر اپنی جورو کے سر میں گاڑ دينا ، وہ کتيا ہوجائے گی ۔
اسی ڈھب کی باتیں کرتے ہوئے وہ دونوں وہاں سےچل نکلے۔ تین روز کے عرصے میں اُس شہر میں داخل ہوئے اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ ”حارس" نسخہء مكتوبہ (ص ۱۱۶) ” حارث“ نسخہء مطبوعہ بمبئی (ص ۱۱۶)
۲۔ نسخہء مكتوبہ (ص ۱۱۶) ” اُس لڑکی نے اس بات
ص141
کہنا تھا کہ اگر اس وقت وہ چور میرے پاس ہوتے تو یہ مال متاع میں ان کو بخش دیتا کہ پهر وہ محتاج نہ رہتے اور بندگان خدا کو ایذا نہ دیتے ۔
حاصل کلام اُس نے ایک جوڑا کپڑے کا اچھا سا اُس میں سے پہنا اور تھوڑا سا زر و جواہر اپنی جیب میں ڈال کر اُن چوروں کی تلاش میں روانہ ہوا اور دعائیں مانگتا تھا کہ الہٰی! اُس بڑھیا کو پھر مجھ سے ملا۔
تھوڑی ہی دور پہنچا ہوگا کہ وه بڑھيا برسر راه بہ حال تباه ، فقیروں کی سی صورت بنائے بیٹھی سوال کر رہی تھی کہ جانے والے بابا کچھ خیر کیے جا۔
یہ اس کو دیکھتے ہی دوڑا اور خوش ہو کر مثل گل کے کھل گیا اور مٹھی بھر روپے اشرفیاں جیب سے نکال کر اس کو دیے۱ اور اپنا قدم آگے رکھا۔ اُس نے وہ روپے لے لیے اور پھر اُسی صورت سے با آواز بلند کہا کہ " یکے دکے بٹو ہی کا راه باٹ میں خدا نگہبان ہے ۔“
اس آواز کو سن کر وے ہی ساتوں پهانسی گر پھر کسے کسائے ادهر اُدهر سے نکلے اور اس سے ملاقات کر کے کہنے لگے کہ اے جوان! تو کہاں جاتا ہے ؟
اُس نے ان کو پہچان کر کہا "اے عزیزو! میں تم سے ایک عرض رکھتا ہوں ، اگر تم قبول کرو تو کہوں ؟
انھوں نے کہا ” کیا کہتے ہو فرماؤ ۔“
حاتم نے کہا ” اگر تم سب توبہ کرو اور مردم آزاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱- نسخہء مكتوبہ (صفحه ۱۱۱)” دیں ‘‘ -
ص142
سے ہاتھ اٹھاؤ تو میں اس قدر زر و جواہر دوں کہ وه تمهاری سات پیڑھی تک کام آوے۔
اُنھوں نے کہا کہ ہم تو پیٹ ہی کے واسطے اپنے اوپر عذاب لیتے ہیں ۔ اگر اتنا مال و اسباب پاویں تو پھر کیا دیوانے ہیں جو ایسی حرکت کریں بلکہ آج کی تاریخ سے عہد کرتے ہیں کہ جس کام سے خدا راضی نہ ہو، سو تمام عمر نہ کریں -
حاتم نے کہا کہ تم خدا کی طرف متوجہ ہو کر قول دو اور قسم بہ دل کھاؤ تو میں اتنا گنج و مال تمھیں دوں کہ نہال ہو جاؤ۔ یہ بات سن کر انھوں نے عرض کی کہ پہلے ہمیں دکھلا دو تو ہم توبہ کریں ۔
حاتم ان کا ہاتھ پکڑ کر اس کوئیں پر لے آیا اور اُس زر بے شمار کو دکھلا کر کہنے لگا کہ اب اسے لو اور اپنے وعدے کو وفا کرو۔
وے اس کو دیکھتے ہی نہایت خوش ہوئے اور ہاتھ باندھ کر یہ بات کہنے لگے کہ اب جو کہو سو کر یں ۔
حاتم نے کہا” تم سب اس طرح قسم کھاؤ کہ خدا دانا اور بینا ہے اورہر ایک کا احوال جانتا ہے ۔ اگر آج سے ہم کسی کا مال چراویں یا کسی پنچھی پردیسی کو ستاویں تو خدا کے غضب میں گرفتار ہوویں -
انھوں نے اسی طور سے قسم کھائی اور چوری سے توبہ کی ۔
حاتم نے وه زر و جواہر سب اُن کو بخشا اور راہ راست دکھلا کر جنگل کا رستہ ليا کہ ایک کتا جیب نکالے سامنے سے دکھلائی دیا ۔ اُس نے معلوم کیا کہ شاید اس صحرا میں کوئی
ص143
کاروان اُترا ہے اور یہ كتا اُسی قافلے کا ہے۔
جب وہ اس کے پاس آیا تب حاتم نے اس کو اپنی گود میں اُٹھا لیا اور پانی اس کے واسطے ادهر اُدھر ڈهونڈھنے لگا اور جی میں کہتا تھا کہ اس جنگل میں کوئی چشمہ ملے تو میں اس پیاسے کو خوب سا پانی پلاؤں ۔
اتنے میں ایک گاؤں دکھلائی دیا ۔ حاتم اس کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں کے لوگ گیہوں کی روٹیاں اور مٹها مسافروں کو دیتے تھے ، حاتم کے بھی آگے لے آئے ۔ اس نے وے روٹیاں اور چھاچھ لے کر کتے کے آگے رکھ دی ۔ کتے نے پیٹ بھر کر کھایا اور۱ حاتم اس کی طرف دیکھ کر کہتا تھا ، کیا خوش ترکیب اور کیا خوب صورت کتا ہے اور وہ اُس کے سامنے بیٹھا ہوا شکر خدا کر رہا تها ۔
اتنے میں حاتم شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور دل میں خدا کو یاد کرکے یوں کہنے ۲ کہ یہ تیری ہی قدرت ہے کہ اٹهاره ہزار عالم کو تو نے پیدا کیا اور ایک کی صورت سے دوسرے کی شکل کو ملنے نہ دیا ۔ اتنے میں ایک سخت سی چیز شاخ کی مانند اس کے ہاتھ میں لگی ۔ جب غور کرکے دیکھا تو ایک میخ آہنی نظر پڑی - ووں ہی وه میخ اُس کے سر سے نکال لی. وہ کتا ایک جوان خوش رو کی صورت ہو گیا ۔
حاتم متعجب ہو کر کہنے لگا کہ اے بندهء خدا ! یہ کیا بھید ہے اور تو کون ہے کہ پہلے تیری صورت حیوان کی تھی
ا - نسخہء مطبوعه بمبئ (ص ۸۴) ”پھر“ - نسخہء مكتوبہ (ص ۱۱۴) - نسخہء مكتوبہ (ص ۱۱۴)” کہے“
ص144
اور اُس میخ کے نکالتے ہی تو انسان ہو گیا ؟
اُس نے دیکھا کہ اس شخص نے مجھ پر احسان کیا ، اس سے اپنا احوال نہ چھپانا چاہیے ۔ اس بات کو سوچ کر اس کے پاؤں پر گر پڑا اور کہنے لگا ''اے مرد بزرگ ! میں بنی آدم ہوں ، تیری دست گری سے اپنی اصلی صورت پر آیا ۔“
حاتم نے کہا " یہ کیا سبب تھا کہ تیری صورت کتے کی بن گئی تھی ؟؟“
جوان نے کہا ” میں ایک سوداگر کا بیٹا ہوں - باپ میرا بہت سا مال و اسباب لے کر چین میں گیا تھا . وہاں سے کچھ ۱ مول لے کر خطا میں آیا اور اس کی فروخت سے بہت سا نفع اُٹهايا اور میرے تئیں بڑی دھوم سے بیاہ دیا ۔ کتنے روز جیا ، پھر شربت اجل پی کر مر گیا ۔ مال و اسباب ، زر و جواہر میرے ہاتھ لگا۔ میں ایک مدت تک اس کو بیچ بیچ کر عیش و عشرت کرتا رہا . جب وہ کم ہونے پر آیا ، تب میں خطا کا مال خرید کر کے شہر چین میں گیا اور خرید و فروخت کر کے پھر اپنے شہر کو روانہ ہوا۔ جب تک میں آؤں ، وہ عورت بد ذات جو باپ نے بیاہ دی تھی، پیچھے ایک غلام حبشی سے پچی هوگئ ۲ تھی اور یہ میخ لوہے کی جادوگروں سے پڑھوا کر اپنے پاس رکھ چھوڑی تھی ۔ جب میں گھر میں آپہنچا اور ایک دن غافل سوگیا ، اس نے فرصت پا کر یہ میخ میرے سر میں ٹھونک دی ۔ میں اُس کے لگتے ہی کتا ہو گیا ۔ اُس نے اُسی گھڑی دھتکار کر نکال دیا ۔ میں کان پھٹپٹهاتا هوا بازار میں آیا ۔ وہاں کے کتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا- نسخہء مكتوبہ ( ص ۱۱۵) میں ” کچھ “ نہیں ہے ۔
۲ - نسخیء مكتوبہ (ص ۱۱۵ ) میں ” پچی ہو گئ “ اور نسخہء بمبئی (ص۵۸) میں ” بجھے تھی“
ص145
اجنبی جان کر بھونکنے لگے اور کتنے ہی دوڑے۔ اُن کی د ہشت سے آج تیسرا دن ہے کہ میں شہر چھوڑ کر اس جنگل میں بھوکا پیاسا پڑا پھرتا تھا ۔ آگے کیا کہوں ، بارے آج خدا نے اپنے فضل و کرم سے تجھے اس مکان پر بھیجا جو تو نے کھانا کھلایا ، پانی پلایا ، آدمی بنایا ۔
حاتم اس بات کے سنتے ہی سر بہ زانو ہوا اور کہنے لگا کہ اے عزیز! تیرا گھر کس شہر میں ہے ؟
اس نے کہا کہ اس جنگل سے تین روز کی راہ پر اور اس کو شہر سورت کہتے ہیں ۔
حاتم نے کہا کہ اس شہر میں تو حارث ۱ سوداگر بھی رہتا ہے اور اس کی بیٹی تین سوال رکھتی ہے ۔ اُسی ۲ لڑکی نے مجھے اس بات کی خبر کو بھیجا ہے کہ ” نہ کیا وہ کام میں نے جو آج کی رات کام آتا میرے ۔“
اُس نے کہا کہ صاحب ! یہ بات سچ ہے اور میں بھی اُسی شہرکا رہنے والا ہوں -
پھر حاتم نے کہا کہ اے بنده خدا ! تو اس میخ کو اپنے پاس رہنے دے. اگر تیرا جی بدلا لینے کو چاہے گا تو فرصت پا کر اپنی جورو کے سر میں گاڑ دينا ، وہ کتيا ہوجائے گی ۔
اسی ڈھب کی باتیں کرتے ہوئے وہ دونوں وہاں سےچل نکلے۔ تین روز کے عرصے میں اُس شہر میں داخل ہوئے اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ ”حارس" نسخہء مكتوبہ (ص ۱۱۶) ” حارث“ نسخہء مطبوعہ بمبئی (ص ۱۱۶)
۲۔ نسخہء مكتوبہ (ص ۱۱۶) ” اُس لڑکی نے اس بات
آخری تدوین: