ایس ایس ساگر
لائبریرین
صفحہ ۲۴۸
وہ اُس کا اُستاد ہے اور وہ ایسا جادوگر ہے کہ جس نے ایک آسمان چاند سورج ستاروں سمیت بنایا ہے اور ایک پہاڑ کے نیچے شہر عظیم بسایا ہے کہ چالیس ہزار جادوگر اُس میں رہتے ہیں۔ اور وہ کہا کرتا ہے کہ میں نے تم کو پیدا کیا ہے۔ خاک پڑے اُس کے منہ میں کہ دعوٰی خدائی کا کرتا ہے اور ہم برس میں ایک بار اُس کی خدمت میں جاتے ہیں، وہ کافر سخت ساحر ہے اور اس کا مکان یہاں سے تین سو کوس پر ہے۔
حاتم نے کہا ”توبہ کر ، خدا واحد ہے، کوئی اُس کا شریک نہیں اورنہ ہوگا۔ ہر ایک شے کو اس نے پیدا کیا ہے اور وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا“:
بیت
نہ گوہر میں ہے وہ نہ ہے سنگ میں
ولیکن چمکتا ہے ہر رنگ میں
”سرتک“ نے یہ کلمے سن کر کہا ”آمناصدقنا! میں نے اسم اعظم کی برکت دیکھی، اب اعتقاد جادوگروں سے بالکل اُٹھ گیا۔“
حاتم نے اُس کی تسلی کی اور کہا کہ میں اب کو ہ کملاق کو جایا چاہتا ہوں۔
سر تک نے عرض کی ”جو آپ کی خوشی ہے، میں بھی غلامی میں حاضر ہوں۔ اور یہ درخت جو نظر آتے ہیں شام احمر کے لشکر کے لوگ ہیں۔ یقین ہے کہ یہ قیامت تلک یوں ہی رہیں کیوں کہ وہ اُن کو جادو سے درخت بنا گیا ہے۔ اگر تم سے ہو سکے تو ان کو صورت اصلی پر لا کے اپنے ساتھ لے چلو۔“
اس بات کے سنتے ہی حاتم نے تھوڑا سا پانی پڑھ کر ”سرتک “کو دے کر کہا کہ اس پانی کو اُن پر بسم اللہ کر کے چھڑک دے اور قدرت الہیٰ کا تماشا دیکھ۔ غرض وہ اُس
صفحہ ۲۴۹
پانی کو لے کر گیا اور اُن درختوں پر چھڑکنے لگا۔ خدا کے فضل سے اور اُس اسم کی برکت سے وے سب کے سب اپنی اصلی صورت پر آ گئے اور ”سرتک“ سے پوچھنے لگے کہ اے” سرتک“ ! شام احمر جادو کہاں ہے؟
اُس نے کہا کہ وہ تم سب کو اپنے جادو سے درخت بنا کر کملاق کےپاس بھاگ گیا۔ اب حاتم نے تمہیں اسم اعظم پڑھ کر پھر آدمی کیا ہے، تم اپنا احوال بیان کر و، کیوں کر تھے؟
اُنہوں نے کہا کہ ہم زمین پر کھڑ ے تھے، طاقت چلنے پھرنے بولنے کی نہ رکھتے تھے اور بند بند درد کرتا تھا، اب اس جوان مرد کی توجہ سے اچھے ہوئے اور نجات پائی۔ حق تو یوں ہے کہ یہ عجب جوان مرد خدا ترس ہے اور صاحب اقبال اور زور آور ہے جو شام احمر جادو پر غالب ہوا۔
یہ گفت گو آپس میں کر کے متفق ہو کر حاتم کے پاس آئے اور پاؤں پر گر کر کہنے لگے کہ اے حاتم ! آگے ہم شام احمر کے بندوں میں تھے، آج سے تیرے غلاموں میں داخل ہوئے کیوں کہ تو نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ، خدا تجھ کو اس کی جزائے خیر دے۔
یہ بات سن کر حاتم نے پھر اُن پر اسم اعظم پڑھ کر پھونکا کہ جتنا اثر جادو کا ان میں باقی تھا جاتا رہا، جیسے تھے ویسے ہی ہو گئے اور حاتم سے کہنے لگے کہ اے خداوند! اب کہاں کے جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟
حاتم نے کہا کہ اے یارو! مجھے شام احمر جادو سے کچھ کام ہے۔ جب تک وہ میرے ہاتھ نہیں آتا تب تک میں کچھ کام نہ کروں گا۔ چناں چہ اُس کی بیٹی سے بیاہ کیا چاہتا ہوں۔
صفحہ ۲۵۰
اگر اُس نے خوشی بہ خوشی بیاہ دیا تو بہتر، نہیں تو جیتا نہ چھوڑوں گا۔
اُنہوں نے کہا کہ اُس کی بیٹی تم نے کہاں دیکھی ہے جو ایسے فریفتہ ہو گئے؟
حاتم نے تمام ماجرا عشق کا اول سے تا آخر بیان کر کے کہا کہ میں صرف اُسی کی آرزو اور اسی کے ملنے کی جست و جو میں رنج و محنت کھینچتا ہوا یہاں تک آ پہنچا ہوں ۔ اور شام احمر نے جو کچھ مجھ پر ظلم کیا، کیا کہوں ، نہ زبان کو یارا کہ تقریر کرے ، نہ قلم کو طاقت جو تحریر کرے۔ احسان ہے خدا کا کہ جس نے مجھ سے ضعیف کو ایسے زبردست پر فتح یاب کیا۔ اگرچہ اب وہ یہاں سے بھاگا اور اپنے اُستاد کے پاس گیا ہے تو اس سے کیا ہو سکتا ہے۔ انشااللہ تعالیٰ اب میں اس کو اس کے اُستاد سمیت ماروں گا اور نا م و نشان اُن دونوں کا اس صفحہ ٔ عالم سے مٹا دوں گا۔
اُنہوں نے عرض کی کہ خداوند! کملاق بڑا جادوگر ہے اور اُس کا زیر کرنا نہایت مشکل ہے۔
حاتم نے کہا ” اے یارو! ہمت نہ ہارو۔ اگر کچھ تماشا دیکھا چاہتے ہو تو میرے ساتھ چلو، نہیں تو یہیں آرام کرو، میں جانوں اور کملاق او ر شام احمر جادو جانے۔“
اُنہوں نے عرض کی کہ آپ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ یہ بات مرو ت ہے بعید ہے جو ہم تم کو تنہا جانے دیں ؛ بہتر یہی ہے کہ ہم بھی ہم راہ رکاب چلیں۔ بالفرض اگر وہ غالب آیا تو ہم تمہارے ساتھ پھر آویں گے اور جہاں تم جاؤ گے ہم بھی ساتھ ہوں گے۔ یہاں ہمارا کیا کام ہے، وہ ہمیں ہر گز جیتا
صفحہ ۲۵۱
نہ چھوڑے گا۔
غرض حاتم نے سب چاکروں سمیت کوہ کملاق کا رستہ پکڑا۔ تھوڑی دور جا کر اُنہوں نے کہا ”حضرت سلامت! شام احمر جادو یہاں سے ایک دن میں ہم سب سمیت اس پہاڑ پر جا پہنچا تھا۔“
حاتم نے جواب دیا کہ سچ ہے۔ وہ جادوگر تھا، اپنے جادو کے زور سے اس راہ دور دراز کو اتنا جلد طے کرتا تھا۔
اُنہوں نے عرض کی ” خداوند! اگر آپ جادوگر نہیں ہیں تو ایسے ساحر پر کیوں کر غالب ہوئے؟ کیوں کہ وہ ایسا جادوگر ہے کہ پہاڑ کو موم کرتا ہے اور موم کو لوہا پتھر کر ڈالتا ہے۔“
اتنے میں سرتک بولا کہ اے نادانو! میں نے اس کا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ بھی ایک روز میں وہاں جا سکتا ہے اور کملاق اور احمر کو اپنا تابع دار کر سکتا ہے۔
اگر چاہے تو اُن کو بھی مار ڈالے؛ تم نہیں جانتے ہو اس کو تائید خدا ہے۔
پھر حاتم نے کہا ”اے عزیزو! میں اسم اعظم جانتا ہوں ، جہاں وہ اثر کرے وہاں جادو کا کیا چلے، دیکھو اس اسم کے اثر سے وے جل کر خاک ہو جائیں گے۔“
پھر وے سب کے سب حاتم کے ساتھ اس تالا ب پر پہنچے کہ وہ پہلی منزل تھی، پر یہ معلوم نہ تھا کہ احمر جادو اسی راہ سے گزرا ہے اور اس تالاب پر بھی سحر پڑھ گیا ہے۔ بے تحاشا سبھوں نے پانی پی لیا، پیتے ہی اُن کی نافوں سے فوارے خون کے چھٹنے لگے۔ حاتم دیکھ کر حیران رہ گیا، پر اُن سے جدا نہ
صفحہ ۲۵۲
ہوتا تھا اس لیے کہ یہ بے چارے میرے ساتھ آئے ہیں، ان کو اکیلے کیوں کر چھوڑوں اور اس پانی میں کیا بلا تھی کہ جس کے پینے سے ان کی یہ حالت ہوئی۔
القصہ تمام رات گزرگئی، حاتم پیاسا رہا، پر پانی کا ایک قطرہ بھی اس نے نہ پیا۔ جب صبح ہوئی وے سب کے سب مانند مشک کے پھول گئے۔ حاتم اُن کی حالت دیکھ دیکھ کر ہاتھ ملتا تھا اور روتا تھا لیکن یہ نہ سمجھا کہ شام احمر جادو نے اس پانی پر بھی جادو کیا ہے؛ آخر اُن کی زندگی سے ناامید ہوا۔ وہیں خیال گذرا کہ شاید اسم اعظم کی برکت سے وہ بے چارے اچھے ہو جائیں او ر اُن کی جانیں بچیں ۔ یہ اندیشہ کر کے اُس اسم مبارک کو پڑھ کے اُن پر پھونکا۔ سوجن اُن کی پہلے ہی مرتبے میں اُتر گئی۔ دوسری دفعہ پھر پڑھ کے دم کیا، تب ان کی نافوں سے نیلا پانی جاری ہوا۔ غرض تیسری بار اپنی حالت اصلی پر آ گئے اور حاتم کو دعائیں دینے لگے اور تعریفیں کرنے۔
تب حاتم نے پوچھا کہ اے یارو! یہ کیا باعث ہے؟
وے بولے خداوند! ہم کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ شام احمر جادو اس تالاب پر بھی جادو کر گیا ہے۔ حاتم نے اُس پر بھی اسم اعظم پڑھ کر پھونکا۔ پہلے وہ جوش میں آیا پھر سرخ ہوکر سبز ہوتے ہی نیلا ہو گیا، بعد ایک دم کے صاف ہوا اور اپنی اصلی رنگت پر آرہا۔ حاتم نے جانا کہ اب اس تالاب سے جادو کا اثر جا چکا ہے، تھوڑا سا پانی آپ پیا اور سب کو فرمایا کہ پانی پیو اور نہاؤ تا کہ حرارت سحر کی بہ سبب اسم اعظم کے تمہارے بدنوں سے جاتی رہے۔
صفحہ ۲۵۳
اُنہوں نے اُس کے کہنے پر عمل کیا اور اعتقاد لا کر کہنے لگے” خداوند! ہم تمہارے ساتھ ہو کر شام احمر اور کملاق سے لڑیں گے۔“ اسی قصد پر آگے بڑھے۔
اور شام احمر جو بھاگا تو کملاق ہی کی ڈیوڑھی پر آ کھڑا ہوا۔ چوب داروں نے جا کر عرض کی ” خداوند! شام احمر جادو ننگے سر، ننگے پاؤں نہایت پریشان احوال در دولت پر کھڑا ہے۔ “کملاق نے اُس کو اندر بلاکر گلے لگا لیا اور پوچھا کہ تجھ پر کیا حادثہ پڑا ہے جو اس حال سے یہاں آیا؟
اُس نے عرض کی کہ میرے پہاڑ پر حاتم نام ایک جوان بڑا جادوگر کہیں سے آیا ہے، اُس نے مجھے ان حالوں میں پہنچایا ہے۔
کملاق یہ احوال سن کر آگ بگولا ہو گیا اور کہنے لگا کہ تو خاطر جمع رکھ، میں اُس کو ابھی چومیخا کر کے تیرے حوالے کردیتا ہوں ۔ غرض اُس کی تسلی کر کے ایک منتر پرھا اور اپنے پہاڑ کی طر ف پھونکا، وہیں ایک آگ نمودار ہوئی اور حلقے کی صورت ہو کر اُس پہاڑ کو گھیر لیا۔ حاتم بھی بعد دو چار روز کے کو ہ کملاق کی حد میں جا پہنچا۔ رفیقوں نے عرض کی ”قبلۂ عالم ! کوہ کملاق یہی ہے لیکن اس کے گر د یہ آگ جو شعلہ زن ہے، شاید جادو کا سبب ہے۔ “حاتم ٹھہر گیا اور اسم اعظم کو پڑھ کر اُس پہاڑ کی طرف دم کیا آگ بالکل بجھ گئی۔ یہ خبر کملاق جادوگر کو پہنچی ، اُس نے پھر ایک جادو ایسا کیا جس کے زور سے اُس پہاڑ کے گر د ایک دریائے عظیم پیدا ہوا اور موج مارتا ہوا حاتم کی طر ف بڑھا۔
صفحہ ۲۵۴
سبھوں نے التماس کیا کہ خداوند! یہ دریا جادو کا ہے اب ہم بے اجل ڈوبے، اس میں بچتے نظر نہیں آتے۔
حاتم نے کہا کہ مت گھبراؤ، خدا کو یاد کرو۔ یہ کہہ کر پھر اسم اعظم پڑھ کر پھونکا۔ وہ دریا ہوا ہو گیا اورزمین خشک نظر آئی۔ جادوگروں نے دریافت کیا کہ کوئی سحر اس جوان پر کارگر نہیں ہوتا، دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
اتنے میں کملاق نے ایک او ر منتر پڑھا۔ پڑھتے ہی اُس کے دس دس پانچ پانچ من کے پتھر پڑنے لگے۔ غرض اس قدر برسے کہ اس پہاڑ کے گر د ایک اور پہاڑ ہوگیا اور وہ نظر آنے سے رہ گیا۔
اس حال کو ملاحظہ کر کے حاتم بیٹھا اور اسم اعظم پڑھنے لگا، اُس کی برکت سے ایک ایسی ہوا بہی کہ اُن پتھروں کو لے گئی، کوہ کملاق نظر آنے لگا، حاتم آگے بڑھا۔
کملاق جادو نے پھر ایک ایسا افسوں پڑھا کہ وہ پہاڑ حاتم او رحاتم کے ہم راہیوں کی نظروں سے الوپ ہو گیا۔ تب اُنہوں نے عرض کی ”خداوند! اُس پہاڑ کو کملاق نے جادو کے سبب سے چھپایا ہے“۔ یہ سن کر حاتم وہیں بیٹھ گیا اور اسم اعظم پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگا۔ فضل الہیٰ سے بعد دو تین روز کے وہ پہاڑ پھر نظر آیا۔
حاتم اُٹھ کھڑا ہوا اور ساتھیوں سمیت اُس پر چڑھ گیا۔
جادوگروں نے وہاں کے اُس کو دیکھتے ہی غل مچایا کہ یہ جوان صحیح و سلامت یہاں آ پہنچا، تب کملاق شام احمر جادو سمیت اس آسمان پر جو اس پہاڑ سے تین ہزار گز بلند تھا چڑھ گیا او ر اپنے لشکر کو ا س کے دروازے پر چڑھایا۔
صفحہ ۲۵۵
حاتم نے جو دیکھا کہ اب سامنا کرنے والا کوئی نہ رہا بے دھڑک شہر میں داخل ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک شہر بہت بڑا عالی شان اور عمارت اُس کی دل چسپ اور ہر ایک مکان پاکیزہ ، دوکانوں میں دو رستہ کشادہ ، ستھری صاف اُن میں ہر ایک طرح کی جنس دھری ہے او ر قسم قسم کے جواہر جگمگا رہے ہیں اور انواع و اقسام کے میوے مٹھائیوں سے خوانچے معمور، موافق قرینے کے جا بہ جا لگے ہوئے؛ پر آدمی کا کہیں نام نہ تھا۔
حاتم نے یہ تماشا دیکھ کر اپنے لوگوں سے کہا کہ یہاں کے رہنے والے کیا ہوئے؟
اُنہوں نے کہا ” خداوند!کملاق آپ کے ڈر سے ان سبھوں کو لے کر اُسی آسمان پر گیا ہے جو اُس نے بنایا ہے۔“
حاتم اس بات کو سن کر ہنسسا اور کہنے لگا ”اب تم کیوں بھوکھے مرتے ہو؟ نعمتیں خدا نے دی ہیں ان کو مزے سے چکھو اور سجدۂ شکر جناب الہیٰ میں بجا لاؤ۔“
ہو بھوکھے تو تھے ہی، بے اختیار کھانے لگے ۔ جب کھا چکے سوج کر سم دم ہو گئے اور ہر ایک کی ناک سے لہو ٹپکنے لگا۔ حاتم نے معلوم کیا کہ وہ کم بخت ان نعمتوں پر بھی جادو کر گیا ہے۔ یہ سمجھ کر تھوڑا سا پانی منگوایا اور اُس پر اسم اعظم پڑھ کے ہر ایک کو پلا دیا؛ وہیں سحر کا اثر جاتا رہا، وے اچھے ہو گئے؛ پھر حاتم نے اسم اعظم پڑھ کے ہر ایک چیز پر پھونک کر کہا کہ اب شوق سے کھاؤ کہ جادو کا عمل باطل ہو گیا۔ تب اُنہوں نے دل جمعی سے پیٹ بھر کر کھایا۔ پھر حاتم نے پوچھا کہ جادو کا آسمان کہاں ہے؟
صفحہ ۲۵۶
اُنہوں نے عرض کی کہ وہ اس زمین پر ہوا میں مانند گیند کے نظر آتا ہے۔
حاتم اُس طرف متوجہ ہوا اور اسم اعظم پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگا۔ آخر وہ گیند بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو ہو کر پہاڑ پر گر پڑا اور بہت سے جادوگر واصل جہنم ہوئے؛ مگر کملاق اور شام احمر بچ کر پہاڑ کے اوپر گرے اور کسی طرف کو بھاگے۔ او ر حاتم اسم اعظم پڑھتا ہوا اُن کے پیچھے پیچھے چلا۔ آخر وے دونوں بھی گھبر ا کے پہاڑ سے گر ے اور پاش پاش ہو گئے۔ حاتم بہت شاد ہوا اور سجدۂ شکر بجا لایا۔
پھر ”سرتک“ سے کہنے لگا کہ میں نے تجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب کملاق کو ماروں گا، اُس کے ملک کا بادشاہ تجھ کو کروں گا۔ اب یہ ملک تجھ کو دیتا ہوں اور اپنا وعدہ وفا کرتا ہوں ، یہ شرطے کہ تو خدا کو ایک جانے، اُسی کی پرستش کرے اور کسی بندۂ خدا کو دکھ نہ دے، عدل و انصاف میں رات دن مشغول رہے۔ یہ کہہ کر پھر اُن سب جادوگروں سے بھی کہا کہ تم ”سرتک “کی سرداری قبول کرو اور یاد الہیٰ میں رہو اور اپنے تئیں بندہ ٔ خدا سمجھو۔ اور اگر ان باتوں سے خلاف کرو گے تو اپنی سزا کو پہنچو گے اور میں اب ملکہ زریں پوش کے پاس جاتا ہوں ، تم سب یہاں آپس میں ملے جلے ہوئے خوش و خرم رہو۔ اُنہوں نےکہا کہ خوشی تو ہماری یہی ہے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں لیکن حکم سے باہر نہیں ہو سکتے۔
غرض حاتم نے اُن کو وہیں چھوڑا اور آپ ملکہ زریں پوش کے مقام کی طرف روانہ ہوا۔ بعد چند روز کے وہاں صفحہ ۲۵۷
جا پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ نہ تالاب ہے، نہ وہ پانی ہے مگر وہ درخت جیوں کا تیوں ہرا بھرا کھڑا ہے۔ پر اُس تالاب کی جگہ ایک شیش محل نہایت عالی شان جگمگا رہا ہے۔
حاتم اس کے دروازے پر جا کھڑا ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہی نازنینیں سب کی سب اپنی اپنی جگہ کھڑی ہیں۔ یہ ان کو دیکھ کر خوش ہوا اور وہ اُس کے پاس آ کر پوچھنے لگیں کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟
اُس نے کہا کہ میں وہی شخص ہوں جو تمہارے ساتھ اس درخت پر لٹکتا تھا۔ اب میری طرف سے ملکہ کی خدمت میں سلام شوق کہو۔
اُن میں سے ایک دوڑ کر شہ زادی کے پاس گئی اور عرض کرنے لگی کہ اے شہ زادی ! حاتم نام ایک جوان جو سحر میں آلودہ ہو رہا تھا، اب اچھا ہو کر آیا ہے۔
اس نے سنتے ہی سر نیچا کر لیا۔ بعد ایک دم کے سر اُٹھا کر کہا کہ اب تک کہاں تھا؟ وہ شاید کوہ احمر کو گیا تھا، جاؤ جلد دریافت کرو۔
وہ خواص پھر آئی اور حاتم سے پوچھنے لگی کہ اے حاتم! کچھ کوہ احمر کے احوال سے واقف ہے تو بیان کر۔
اُس نے کہا کہ ملکہ زریں پو ش کا باپ کافر تھا، اپنے اعمالوں کے باعث سے مارا گیا اور جہنم میں جا پہنچا؛ اتنا تجھ سے کہا اور باقی ملکہ سے کہوں گا۔
اُس نازنیں نے حضور میں جا کر یوں ہی عرض کیا۔ بادشاہ زادی سنتے ہی آنسو بھر لائی کہ وہ نازنینیں تسلی
صفحہ ۲۵۸
دے دے کر التماس کرنے لگیں کہ اے شہزادی! ایسے برے باپ کے واسطے غم کھانا اور رونا عبث ہے، اُس نے اپنے فعل بد کی سزا پائی اور ہم تم اس قید شدید سے چھوٹے ۔ لازم ہے کہ اب اس جوان کو محل میں بلوا کر بہ خوبی ملاقات کرو۔
اس بات کو سن کر اس نے خوب سا سنگار کیا اور تخت مرصع پر آن و ادا سے آ بیٹھی ۔ پھر ایک اغمازوناز سے کہا کہ اچھا بلوا لو۔ وہیں ایک سہیلی دوڑی اور اُس کو بلا لائی۔ نظر اس کی ملکہ پر پڑی ، بے ہوش ہو گیا اور وہ بھی بھچک سی رہ گئی۔
بعد ایک دم کے اپنے تئیں سنبھال کر تخت پر سے اُٹھی ۔ شیشہ گلاب کا ہاتھ میں لے کر حاتم کے پاس آئی اور گلاب اُس کے منہ پر چھڑکا، حاتم ہوش میں آیا اور اُس رشک گلشن خوبی کو اپنے سرہانے دیکھ کر باغ باغ ہو گیا۔ غرض بادشاہ زادی تخت مرصع پر آ بیٹھی اور حاتم کو بھی ایک جڑاؤ کرسی پر بٹھلا کر اپنے باپ کا احوال پوچھنے لگی۔
حاتم نے تمام ماجرا بیان کیا اور کہا کہ میں نے تیرے واسطے اس قدر رنج کھینچے اور دکھ سہے ؛ اب تجھ کو بھی لازم ہے کہ میری محنت کی داد دے اور اپنی مہربانی و دوستی سے میری مصیبتوں کو راحت سے بدلے اور اس ناامید کی امید برلاوے۔
اس بات کو سن کر وہ سر بہ زانو ہوئی۔ اتنے میں ہم جولیوں نے کہا کہ بی بی ! حاتم بھی یمن کا شہ زادہ ہے۔ تمہارے نصیب اچھے تھے جو یہ خود بہ خود یہاں آیا۔ تم جو اس سے اپنی شادی کرو گی ، ہر طرح سے نام آوری اور بہتری
صفحہ ۲۵۹
ہے ۔ اور اپنے باپ کے مرنے کا غم نہ کرو، وہ کم بخت جادوگر تھا، خوب ہوا جو مرا، تمام جہاں کا فساد مٹا، اب سرانجام شادی کا کیا چاہیے۔ بادشاہ زادی شرما کر تخت سے اُٹھی او ر محل میں چلی گئی۔
مصا حبیں اُس کی شادی کی تیاری کرنے لگیں، سات روز تک راگ کی صحبت رہی، آٹھویں دن نویں شب حاتم نے موافق اپنے جد و آبا کی رسموں کے شاہ زادی سے نکاح کیا او ر خواب گاہ میں لے جا کر ہم کنار ہوا۔ چاہتا تھا کہ ہم بستر ہو اور شربت وصال پیے کہ احوال منیر شہ زادے کا یا د پڑا، خوف الہیٰ دل میں لایا، مانند بید کے کانپنے لگا؛ ندان ملکہ سے الگ ہو گیا۔ بادشاہ زادی ہکی بکی رہ گئی کہ ایسا اُس نے مجھ میں کیا عیب دیکھا کہ عین وصل میں جدا ہو گیا، اس سے کیوں کر پوچھوں، یہ سوچ کر کچھ چپ سی رہ گئی۔
جب اس نے اُس آئینہ رو کو آب حیرت میں غرق دیکھا کہا کہ اے راحت و آرام جان! اتنی پریشان خاطر کیوں ہوئی؟ خدا نہ کرے کہ میری زندگی میں کسی طرح کا غم والم تجھ کو ہو۔ اگر میری اس حرکت سے اندیشے میں ہوئی ہے تو بجا ہے کیوں کہ چاند اور سورج میں عیب ہے اور تو اُن سے بھی حسن میں بہترہے کہیں کی کہیں ؛ لیکن میں خدا کی راہ میں کمر باندھے اپنے گھر سے منیر شامی کے لیے نکلا ہوں۔ وہ عاشق حسن بانو کا ہے اور وہ نازنین سات سوال رکھتی ہے، جو کوئی اس کے سوال پورے کرے گا وہ اُس کو قبول کرے گی؛ اور منیر شامی اُس کے ایک سوال کا بھی جواب نہ دے سکا۔ چناں چہ حسن بانو نے اپنے شہر سے نکلوا دیا۔ وہ روتا پیٹتا آہیں بھرتا یمن کی طرف آ نکلا۔ میں بھی ایک دن شکا ر کھیلتا
صفحہ ۲۶۰
ہوا اُس کی طرف گیا تھا، اتفاقاً اُس سے ملا قات ہو گئی، احوال پوچھنے لگا۔ اس نے بہ طور فقیرو ں کے اپنا احوال ظاہر کیا، غرض اُس کی بے کسی پر دل میرا بھر آیا او ر آنسو ٹپک پڑے۔ آخر کا ر میں تاب نہ لا سکا، اس کے ساتھ ہو کر شاہ آباد میں آیا اور حسن بانو کے سوالوں کے جواب اپنے ذمے لیے۔ اُس بے چارے کو کاروان سرائے میں بٹھلا کر پھر جنگل کی راہ لی۔ چناں چہ خدا کے فضل سے تین سوال اس کے پورے کر چکا ہوں، یہ چو تھے سوال کی نوبت ہے۔ ایک ایسا اتفاق ہو گیا کہ تجھ کو دیکھ کر دل ہاتھ سے جاتا رہا اور تیرے عشق کے تیر نے کلیجا چھید ڈالا کہ تمام جہان کے کام کاج سے گزر گیا۔ بارے نصیبوں کی مدد سے تیرا دامن وصال ہاتھ لگا، آرزو تو یہ تھی کہ تیرے باغ حسن سے گل راحت چنوں اور اپنےغنچۂ دل کو کھولوں ، پر کیا کروں کہ میں نے اس کے ساتھ قسم کھائی ہے کہ بھائی میں تیرے کام میں دریغ نہ کروں گا بلکہ جب تک تو اپنی مراد کو نہ پہنچے گا تب تک مجھ پر بھی عیش و عشرت حرام ہے۔ پس یہ بات ہمت اور مروت سے بعید ہے کہ وہ بےچارہ انتظار کھینچے اور حاتم اپنے عیش و عشرت میں مشغول رہے۔ صلاح یہ ہے کہ تم اپنی خوشی سے مجھ کو رخصت کرو کہ شہر خورم کو جاؤں اور چوتھا سوال اُس کا پورا کروں۔
یہ بات سن کر شہ زادی نے کہا کہ پھر مجھ کو کہاں چھوڑ جاؤ گے۔ آگے تو میرا باپ جیتا تھا، وہ میری خبر لیتا تھا اب کیوں کر گزرے گی؟
حاتم نے کہا کہ میں یمن میں تجھے بھیج دیتا ہوں ۔ میرا باپ وہاں کا بادشاہ ہے، وہ تجھے اچھی طر ح سے رکھے گا، کسی طرح
وہ اُس کا اُستاد ہے اور وہ ایسا جادوگر ہے کہ جس نے ایک آسمان چاند سورج ستاروں سمیت بنایا ہے اور ایک پہاڑ کے نیچے شہر عظیم بسایا ہے کہ چالیس ہزار جادوگر اُس میں رہتے ہیں۔ اور وہ کہا کرتا ہے کہ میں نے تم کو پیدا کیا ہے۔ خاک پڑے اُس کے منہ میں کہ دعوٰی خدائی کا کرتا ہے اور ہم برس میں ایک بار اُس کی خدمت میں جاتے ہیں، وہ کافر سخت ساحر ہے اور اس کا مکان یہاں سے تین سو کوس پر ہے۔
حاتم نے کہا ”توبہ کر ، خدا واحد ہے، کوئی اُس کا شریک نہیں اورنہ ہوگا۔ ہر ایک شے کو اس نے پیدا کیا ہے اور وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا“:
بیت
نہ گوہر میں ہے وہ نہ ہے سنگ میں
ولیکن چمکتا ہے ہر رنگ میں
”سرتک“ نے یہ کلمے سن کر کہا ”آمناصدقنا! میں نے اسم اعظم کی برکت دیکھی، اب اعتقاد جادوگروں سے بالکل اُٹھ گیا۔“
حاتم نے اُس کی تسلی کی اور کہا کہ میں اب کو ہ کملاق کو جایا چاہتا ہوں۔
سر تک نے عرض کی ”جو آپ کی خوشی ہے، میں بھی غلامی میں حاضر ہوں۔ اور یہ درخت جو نظر آتے ہیں شام احمر کے لشکر کے لوگ ہیں۔ یقین ہے کہ یہ قیامت تلک یوں ہی رہیں کیوں کہ وہ اُن کو جادو سے درخت بنا گیا ہے۔ اگر تم سے ہو سکے تو ان کو صورت اصلی پر لا کے اپنے ساتھ لے چلو۔“
اس بات کے سنتے ہی حاتم نے تھوڑا سا پانی پڑھ کر ”سرتک “کو دے کر کہا کہ اس پانی کو اُن پر بسم اللہ کر کے چھڑک دے اور قدرت الہیٰ کا تماشا دیکھ۔ غرض وہ اُس
صفحہ ۲۴۹
پانی کو لے کر گیا اور اُن درختوں پر چھڑکنے لگا۔ خدا کے فضل سے اور اُس اسم کی برکت سے وے سب کے سب اپنی اصلی صورت پر آ گئے اور ”سرتک“ سے پوچھنے لگے کہ اے” سرتک“ ! شام احمر جادو کہاں ہے؟
اُس نے کہا کہ وہ تم سب کو اپنے جادو سے درخت بنا کر کملاق کےپاس بھاگ گیا۔ اب حاتم نے تمہیں اسم اعظم پڑھ کر پھر آدمی کیا ہے، تم اپنا احوال بیان کر و، کیوں کر تھے؟
اُنہوں نے کہا کہ ہم زمین پر کھڑ ے تھے، طاقت چلنے پھرنے بولنے کی نہ رکھتے تھے اور بند بند درد کرتا تھا، اب اس جوان مرد کی توجہ سے اچھے ہوئے اور نجات پائی۔ حق تو یوں ہے کہ یہ عجب جوان مرد خدا ترس ہے اور صاحب اقبال اور زور آور ہے جو شام احمر جادو پر غالب ہوا۔
یہ گفت گو آپس میں کر کے متفق ہو کر حاتم کے پاس آئے اور پاؤں پر گر کر کہنے لگے کہ اے حاتم ! آگے ہم شام احمر کے بندوں میں تھے، آج سے تیرے غلاموں میں داخل ہوئے کیوں کہ تو نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ، خدا تجھ کو اس کی جزائے خیر دے۔
یہ بات سن کر حاتم نے پھر اُن پر اسم اعظم پڑھ کر پھونکا کہ جتنا اثر جادو کا ان میں باقی تھا جاتا رہا، جیسے تھے ویسے ہی ہو گئے اور حاتم سے کہنے لگے کہ اے خداوند! اب کہاں کے جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟
حاتم نے کہا کہ اے یارو! مجھے شام احمر جادو سے کچھ کام ہے۔ جب تک وہ میرے ہاتھ نہیں آتا تب تک میں کچھ کام نہ کروں گا۔ چناں چہ اُس کی بیٹی سے بیاہ کیا چاہتا ہوں۔
صفحہ ۲۵۰
اگر اُس نے خوشی بہ خوشی بیاہ دیا تو بہتر، نہیں تو جیتا نہ چھوڑوں گا۔
اُنہوں نے کہا کہ اُس کی بیٹی تم نے کہاں دیکھی ہے جو ایسے فریفتہ ہو گئے؟
حاتم نے تمام ماجرا عشق کا اول سے تا آخر بیان کر کے کہا کہ میں صرف اُسی کی آرزو اور اسی کے ملنے کی جست و جو میں رنج و محنت کھینچتا ہوا یہاں تک آ پہنچا ہوں ۔ اور شام احمر نے جو کچھ مجھ پر ظلم کیا، کیا کہوں ، نہ زبان کو یارا کہ تقریر کرے ، نہ قلم کو طاقت جو تحریر کرے۔ احسان ہے خدا کا کہ جس نے مجھ سے ضعیف کو ایسے زبردست پر فتح یاب کیا۔ اگرچہ اب وہ یہاں سے بھاگا اور اپنے اُستاد کے پاس گیا ہے تو اس سے کیا ہو سکتا ہے۔ انشااللہ تعالیٰ اب میں اس کو اس کے اُستاد سمیت ماروں گا اور نا م و نشان اُن دونوں کا اس صفحہ ٔ عالم سے مٹا دوں گا۔
اُنہوں نے عرض کی کہ خداوند! کملاق بڑا جادوگر ہے اور اُس کا زیر کرنا نہایت مشکل ہے۔
حاتم نے کہا ” اے یارو! ہمت نہ ہارو۔ اگر کچھ تماشا دیکھا چاہتے ہو تو میرے ساتھ چلو، نہیں تو یہیں آرام کرو، میں جانوں اور کملاق او ر شام احمر جادو جانے۔“
اُنہوں نے عرض کی کہ آپ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ یہ بات مرو ت ہے بعید ہے جو ہم تم کو تنہا جانے دیں ؛ بہتر یہی ہے کہ ہم بھی ہم راہ رکاب چلیں۔ بالفرض اگر وہ غالب آیا تو ہم تمہارے ساتھ پھر آویں گے اور جہاں تم جاؤ گے ہم بھی ساتھ ہوں گے۔ یہاں ہمارا کیا کام ہے، وہ ہمیں ہر گز جیتا
صفحہ ۲۵۱
نہ چھوڑے گا۔
غرض حاتم نے سب چاکروں سمیت کوہ کملاق کا رستہ پکڑا۔ تھوڑی دور جا کر اُنہوں نے کہا ”حضرت سلامت! شام احمر جادو یہاں سے ایک دن میں ہم سب سمیت اس پہاڑ پر جا پہنچا تھا۔“
حاتم نے جواب دیا کہ سچ ہے۔ وہ جادوگر تھا، اپنے جادو کے زور سے اس راہ دور دراز کو اتنا جلد طے کرتا تھا۔
اُنہوں نے عرض کی ” خداوند! اگر آپ جادوگر نہیں ہیں تو ایسے ساحر پر کیوں کر غالب ہوئے؟ کیوں کہ وہ ایسا جادوگر ہے کہ پہاڑ کو موم کرتا ہے اور موم کو لوہا پتھر کر ڈالتا ہے۔“
اتنے میں سرتک بولا کہ اے نادانو! میں نے اس کا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ بھی ایک روز میں وہاں جا سکتا ہے اور کملاق اور احمر کو اپنا تابع دار کر سکتا ہے۔
اگر چاہے تو اُن کو بھی مار ڈالے؛ تم نہیں جانتے ہو اس کو تائید خدا ہے۔
پھر حاتم نے کہا ”اے عزیزو! میں اسم اعظم جانتا ہوں ، جہاں وہ اثر کرے وہاں جادو کا کیا چلے، دیکھو اس اسم کے اثر سے وے جل کر خاک ہو جائیں گے۔“
پھر وے سب کے سب حاتم کے ساتھ اس تالا ب پر پہنچے کہ وہ پہلی منزل تھی، پر یہ معلوم نہ تھا کہ احمر جادو اسی راہ سے گزرا ہے اور اس تالاب پر بھی سحر پڑھ گیا ہے۔ بے تحاشا سبھوں نے پانی پی لیا، پیتے ہی اُن کی نافوں سے فوارے خون کے چھٹنے لگے۔ حاتم دیکھ کر حیران رہ گیا، پر اُن سے جدا نہ
صفحہ ۲۵۲
ہوتا تھا اس لیے کہ یہ بے چارے میرے ساتھ آئے ہیں، ان کو اکیلے کیوں کر چھوڑوں اور اس پانی میں کیا بلا تھی کہ جس کے پینے سے ان کی یہ حالت ہوئی۔
القصہ تمام رات گزرگئی، حاتم پیاسا رہا، پر پانی کا ایک قطرہ بھی اس نے نہ پیا۔ جب صبح ہوئی وے سب کے سب مانند مشک کے پھول گئے۔ حاتم اُن کی حالت دیکھ دیکھ کر ہاتھ ملتا تھا اور روتا تھا لیکن یہ نہ سمجھا کہ شام احمر جادو نے اس پانی پر بھی جادو کیا ہے؛ آخر اُن کی زندگی سے ناامید ہوا۔ وہیں خیال گذرا کہ شاید اسم اعظم کی برکت سے وہ بے چارے اچھے ہو جائیں او ر اُن کی جانیں بچیں ۔ یہ اندیشہ کر کے اُس اسم مبارک کو پڑھ کے اُن پر پھونکا۔ سوجن اُن کی پہلے ہی مرتبے میں اُتر گئی۔ دوسری دفعہ پھر پڑھ کے دم کیا، تب ان کی نافوں سے نیلا پانی جاری ہوا۔ غرض تیسری بار اپنی حالت اصلی پر آ گئے اور حاتم کو دعائیں دینے لگے اور تعریفیں کرنے۔
تب حاتم نے پوچھا کہ اے یارو! یہ کیا باعث ہے؟
وے بولے خداوند! ہم کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ شام احمر جادو اس تالاب پر بھی جادو کر گیا ہے۔ حاتم نے اُس پر بھی اسم اعظم پڑھ کر پھونکا۔ پہلے وہ جوش میں آیا پھر سرخ ہوکر سبز ہوتے ہی نیلا ہو گیا، بعد ایک دم کے صاف ہوا اور اپنی اصلی رنگت پر آرہا۔ حاتم نے جانا کہ اب اس تالاب سے جادو کا اثر جا چکا ہے، تھوڑا سا پانی آپ پیا اور سب کو فرمایا کہ پانی پیو اور نہاؤ تا کہ حرارت سحر کی بہ سبب اسم اعظم کے تمہارے بدنوں سے جاتی رہے۔
صفحہ ۲۵۳
اُنہوں نے اُس کے کہنے پر عمل کیا اور اعتقاد لا کر کہنے لگے” خداوند! ہم تمہارے ساتھ ہو کر شام احمر اور کملاق سے لڑیں گے۔“ اسی قصد پر آگے بڑھے۔
اور شام احمر جو بھاگا تو کملاق ہی کی ڈیوڑھی پر آ کھڑا ہوا۔ چوب داروں نے جا کر عرض کی ” خداوند! شام احمر جادو ننگے سر، ننگے پاؤں نہایت پریشان احوال در دولت پر کھڑا ہے۔ “کملاق نے اُس کو اندر بلاکر گلے لگا لیا اور پوچھا کہ تجھ پر کیا حادثہ پڑا ہے جو اس حال سے یہاں آیا؟
اُس نے عرض کی کہ میرے پہاڑ پر حاتم نام ایک جوان بڑا جادوگر کہیں سے آیا ہے، اُس نے مجھے ان حالوں میں پہنچایا ہے۔
کملاق یہ احوال سن کر آگ بگولا ہو گیا اور کہنے لگا کہ تو خاطر جمع رکھ، میں اُس کو ابھی چومیخا کر کے تیرے حوالے کردیتا ہوں ۔ غرض اُس کی تسلی کر کے ایک منتر پرھا اور اپنے پہاڑ کی طر ف پھونکا، وہیں ایک آگ نمودار ہوئی اور حلقے کی صورت ہو کر اُس پہاڑ کو گھیر لیا۔ حاتم بھی بعد دو چار روز کے کو ہ کملاق کی حد میں جا پہنچا۔ رفیقوں نے عرض کی ”قبلۂ عالم ! کوہ کملاق یہی ہے لیکن اس کے گر د یہ آگ جو شعلہ زن ہے، شاید جادو کا سبب ہے۔ “حاتم ٹھہر گیا اور اسم اعظم کو پڑھ کر اُس پہاڑ کی طرف دم کیا آگ بالکل بجھ گئی۔ یہ خبر کملاق جادوگر کو پہنچی ، اُس نے پھر ایک جادو ایسا کیا جس کے زور سے اُس پہاڑ کے گر د ایک دریائے عظیم پیدا ہوا اور موج مارتا ہوا حاتم کی طر ف بڑھا۔
صفحہ ۲۵۴
سبھوں نے التماس کیا کہ خداوند! یہ دریا جادو کا ہے اب ہم بے اجل ڈوبے، اس میں بچتے نظر نہیں آتے۔
حاتم نے کہا کہ مت گھبراؤ، خدا کو یاد کرو۔ یہ کہہ کر پھر اسم اعظم پڑھ کر پھونکا۔ وہ دریا ہوا ہو گیا اورزمین خشک نظر آئی۔ جادوگروں نے دریافت کیا کہ کوئی سحر اس جوان پر کارگر نہیں ہوتا، دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
اتنے میں کملاق نے ایک او ر منتر پڑھا۔ پڑھتے ہی اُس کے دس دس پانچ پانچ من کے پتھر پڑنے لگے۔ غرض اس قدر برسے کہ اس پہاڑ کے گر د ایک اور پہاڑ ہوگیا اور وہ نظر آنے سے رہ گیا۔
اس حال کو ملاحظہ کر کے حاتم بیٹھا اور اسم اعظم پڑھنے لگا، اُس کی برکت سے ایک ایسی ہوا بہی کہ اُن پتھروں کو لے گئی، کوہ کملاق نظر آنے لگا، حاتم آگے بڑھا۔
کملاق جادو نے پھر ایک ایسا افسوں پڑھا کہ وہ پہاڑ حاتم او رحاتم کے ہم راہیوں کی نظروں سے الوپ ہو گیا۔ تب اُنہوں نے عرض کی ”خداوند! اُس پہاڑ کو کملاق نے جادو کے سبب سے چھپایا ہے“۔ یہ سن کر حاتم وہیں بیٹھ گیا اور اسم اعظم پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگا۔ فضل الہیٰ سے بعد دو تین روز کے وہ پہاڑ پھر نظر آیا۔
حاتم اُٹھ کھڑا ہوا اور ساتھیوں سمیت اُس پر چڑھ گیا۔
جادوگروں نے وہاں کے اُس کو دیکھتے ہی غل مچایا کہ یہ جوان صحیح و سلامت یہاں آ پہنچا، تب کملاق شام احمر جادو سمیت اس آسمان پر جو اس پہاڑ سے تین ہزار گز بلند تھا چڑھ گیا او ر اپنے لشکر کو ا س کے دروازے پر چڑھایا۔
صفحہ ۲۵۵
حاتم نے جو دیکھا کہ اب سامنا کرنے والا کوئی نہ رہا بے دھڑک شہر میں داخل ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک شہر بہت بڑا عالی شان اور عمارت اُس کی دل چسپ اور ہر ایک مکان پاکیزہ ، دوکانوں میں دو رستہ کشادہ ، ستھری صاف اُن میں ہر ایک طرح کی جنس دھری ہے او ر قسم قسم کے جواہر جگمگا رہے ہیں اور انواع و اقسام کے میوے مٹھائیوں سے خوانچے معمور، موافق قرینے کے جا بہ جا لگے ہوئے؛ پر آدمی کا کہیں نام نہ تھا۔
حاتم نے یہ تماشا دیکھ کر اپنے لوگوں سے کہا کہ یہاں کے رہنے والے کیا ہوئے؟
اُنہوں نے کہا ” خداوند!کملاق آپ کے ڈر سے ان سبھوں کو لے کر اُسی آسمان پر گیا ہے جو اُس نے بنایا ہے۔“
حاتم اس بات کو سن کر ہنسسا اور کہنے لگا ”اب تم کیوں بھوکھے مرتے ہو؟ نعمتیں خدا نے دی ہیں ان کو مزے سے چکھو اور سجدۂ شکر جناب الہیٰ میں بجا لاؤ۔“
ہو بھوکھے تو تھے ہی، بے اختیار کھانے لگے ۔ جب کھا چکے سوج کر سم دم ہو گئے اور ہر ایک کی ناک سے لہو ٹپکنے لگا۔ حاتم نے معلوم کیا کہ وہ کم بخت ان نعمتوں پر بھی جادو کر گیا ہے۔ یہ سمجھ کر تھوڑا سا پانی منگوایا اور اُس پر اسم اعظم پڑھ کے ہر ایک کو پلا دیا؛ وہیں سحر کا اثر جاتا رہا، وے اچھے ہو گئے؛ پھر حاتم نے اسم اعظم پڑھ کے ہر ایک چیز پر پھونک کر کہا کہ اب شوق سے کھاؤ کہ جادو کا عمل باطل ہو گیا۔ تب اُنہوں نے دل جمعی سے پیٹ بھر کر کھایا۔ پھر حاتم نے پوچھا کہ جادو کا آسمان کہاں ہے؟
صفحہ ۲۵۶
اُنہوں نے عرض کی کہ وہ اس زمین پر ہوا میں مانند گیند کے نظر آتا ہے۔
حاتم اُس طرف متوجہ ہوا اور اسم اعظم پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگا۔ آخر وہ گیند بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو ہو کر پہاڑ پر گر پڑا اور بہت سے جادوگر واصل جہنم ہوئے؛ مگر کملاق اور شام احمر بچ کر پہاڑ کے اوپر گرے اور کسی طرف کو بھاگے۔ او ر حاتم اسم اعظم پڑھتا ہوا اُن کے پیچھے پیچھے چلا۔ آخر وے دونوں بھی گھبر ا کے پہاڑ سے گر ے اور پاش پاش ہو گئے۔ حاتم بہت شاد ہوا اور سجدۂ شکر بجا لایا۔
پھر ”سرتک“ سے کہنے لگا کہ میں نے تجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب کملاق کو ماروں گا، اُس کے ملک کا بادشاہ تجھ کو کروں گا۔ اب یہ ملک تجھ کو دیتا ہوں اور اپنا وعدہ وفا کرتا ہوں ، یہ شرطے کہ تو خدا کو ایک جانے، اُسی کی پرستش کرے اور کسی بندۂ خدا کو دکھ نہ دے، عدل و انصاف میں رات دن مشغول رہے۔ یہ کہہ کر پھر اُن سب جادوگروں سے بھی کہا کہ تم ”سرتک “کی سرداری قبول کرو اور یاد الہیٰ میں رہو اور اپنے تئیں بندہ ٔ خدا سمجھو۔ اور اگر ان باتوں سے خلاف کرو گے تو اپنی سزا کو پہنچو گے اور میں اب ملکہ زریں پوش کے پاس جاتا ہوں ، تم سب یہاں آپس میں ملے جلے ہوئے خوش و خرم رہو۔ اُنہوں نےکہا کہ خوشی تو ہماری یہی ہے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں لیکن حکم سے باہر نہیں ہو سکتے۔
غرض حاتم نے اُن کو وہیں چھوڑا اور آپ ملکہ زریں پوش کے مقام کی طرف روانہ ہوا۔ بعد چند روز کے وہاں صفحہ ۲۵۷
جا پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ نہ تالاب ہے، نہ وہ پانی ہے مگر وہ درخت جیوں کا تیوں ہرا بھرا کھڑا ہے۔ پر اُس تالاب کی جگہ ایک شیش محل نہایت عالی شان جگمگا رہا ہے۔
حاتم اس کے دروازے پر جا کھڑا ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہی نازنینیں سب کی سب اپنی اپنی جگہ کھڑی ہیں۔ یہ ان کو دیکھ کر خوش ہوا اور وہ اُس کے پاس آ کر پوچھنے لگیں کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟
اُس نے کہا کہ میں وہی شخص ہوں جو تمہارے ساتھ اس درخت پر لٹکتا تھا۔ اب میری طرف سے ملکہ کی خدمت میں سلام شوق کہو۔
اُن میں سے ایک دوڑ کر شہ زادی کے پاس گئی اور عرض کرنے لگی کہ اے شہ زادی ! حاتم نام ایک جوان جو سحر میں آلودہ ہو رہا تھا، اب اچھا ہو کر آیا ہے۔
اس نے سنتے ہی سر نیچا کر لیا۔ بعد ایک دم کے سر اُٹھا کر کہا کہ اب تک کہاں تھا؟ وہ شاید کوہ احمر کو گیا تھا، جاؤ جلد دریافت کرو۔
وہ خواص پھر آئی اور حاتم سے پوچھنے لگی کہ اے حاتم! کچھ کوہ احمر کے احوال سے واقف ہے تو بیان کر۔
اُس نے کہا کہ ملکہ زریں پو ش کا باپ کافر تھا، اپنے اعمالوں کے باعث سے مارا گیا اور جہنم میں جا پہنچا؛ اتنا تجھ سے کہا اور باقی ملکہ سے کہوں گا۔
اُس نازنیں نے حضور میں جا کر یوں ہی عرض کیا۔ بادشاہ زادی سنتے ہی آنسو بھر لائی کہ وہ نازنینیں تسلی
صفحہ ۲۵۸
دے دے کر التماس کرنے لگیں کہ اے شہزادی! ایسے برے باپ کے واسطے غم کھانا اور رونا عبث ہے، اُس نے اپنے فعل بد کی سزا پائی اور ہم تم اس قید شدید سے چھوٹے ۔ لازم ہے کہ اب اس جوان کو محل میں بلوا کر بہ خوبی ملاقات کرو۔
اس بات کو سن کر اس نے خوب سا سنگار کیا اور تخت مرصع پر آن و ادا سے آ بیٹھی ۔ پھر ایک اغمازوناز سے کہا کہ اچھا بلوا لو۔ وہیں ایک سہیلی دوڑی اور اُس کو بلا لائی۔ نظر اس کی ملکہ پر پڑی ، بے ہوش ہو گیا اور وہ بھی بھچک سی رہ گئی۔
بعد ایک دم کے اپنے تئیں سنبھال کر تخت پر سے اُٹھی ۔ شیشہ گلاب کا ہاتھ میں لے کر حاتم کے پاس آئی اور گلاب اُس کے منہ پر چھڑکا، حاتم ہوش میں آیا اور اُس رشک گلشن خوبی کو اپنے سرہانے دیکھ کر باغ باغ ہو گیا۔ غرض بادشاہ زادی تخت مرصع پر آ بیٹھی اور حاتم کو بھی ایک جڑاؤ کرسی پر بٹھلا کر اپنے باپ کا احوال پوچھنے لگی۔
حاتم نے تمام ماجرا بیان کیا اور کہا کہ میں نے تیرے واسطے اس قدر رنج کھینچے اور دکھ سہے ؛ اب تجھ کو بھی لازم ہے کہ میری محنت کی داد دے اور اپنی مہربانی و دوستی سے میری مصیبتوں کو راحت سے بدلے اور اس ناامید کی امید برلاوے۔
اس بات کو سن کر وہ سر بہ زانو ہوئی۔ اتنے میں ہم جولیوں نے کہا کہ بی بی ! حاتم بھی یمن کا شہ زادہ ہے۔ تمہارے نصیب اچھے تھے جو یہ خود بہ خود یہاں آیا۔ تم جو اس سے اپنی شادی کرو گی ، ہر طرح سے نام آوری اور بہتری
صفحہ ۲۵۹
ہے ۔ اور اپنے باپ کے مرنے کا غم نہ کرو، وہ کم بخت جادوگر تھا، خوب ہوا جو مرا، تمام جہاں کا فساد مٹا، اب سرانجام شادی کا کیا چاہیے۔ بادشاہ زادی شرما کر تخت سے اُٹھی او ر محل میں چلی گئی۔
مصا حبیں اُس کی شادی کی تیاری کرنے لگیں، سات روز تک راگ کی صحبت رہی، آٹھویں دن نویں شب حاتم نے موافق اپنے جد و آبا کی رسموں کے شاہ زادی سے نکاح کیا او ر خواب گاہ میں لے جا کر ہم کنار ہوا۔ چاہتا تھا کہ ہم بستر ہو اور شربت وصال پیے کہ احوال منیر شہ زادے کا یا د پڑا، خوف الہیٰ دل میں لایا، مانند بید کے کانپنے لگا؛ ندان ملکہ سے الگ ہو گیا۔ بادشاہ زادی ہکی بکی رہ گئی کہ ایسا اُس نے مجھ میں کیا عیب دیکھا کہ عین وصل میں جدا ہو گیا، اس سے کیوں کر پوچھوں، یہ سوچ کر کچھ چپ سی رہ گئی۔
جب اس نے اُس آئینہ رو کو آب حیرت میں غرق دیکھا کہا کہ اے راحت و آرام جان! اتنی پریشان خاطر کیوں ہوئی؟ خدا نہ کرے کہ میری زندگی میں کسی طرح کا غم والم تجھ کو ہو۔ اگر میری اس حرکت سے اندیشے میں ہوئی ہے تو بجا ہے کیوں کہ چاند اور سورج میں عیب ہے اور تو اُن سے بھی حسن میں بہترہے کہیں کی کہیں ؛ لیکن میں خدا کی راہ میں کمر باندھے اپنے گھر سے منیر شامی کے لیے نکلا ہوں۔ وہ عاشق حسن بانو کا ہے اور وہ نازنین سات سوال رکھتی ہے، جو کوئی اس کے سوال پورے کرے گا وہ اُس کو قبول کرے گی؛ اور منیر شامی اُس کے ایک سوال کا بھی جواب نہ دے سکا۔ چناں چہ حسن بانو نے اپنے شہر سے نکلوا دیا۔ وہ روتا پیٹتا آہیں بھرتا یمن کی طرف آ نکلا۔ میں بھی ایک دن شکا ر کھیلتا
صفحہ ۲۶۰
ہوا اُس کی طرف گیا تھا، اتفاقاً اُس سے ملا قات ہو گئی، احوال پوچھنے لگا۔ اس نے بہ طور فقیرو ں کے اپنا احوال ظاہر کیا، غرض اُس کی بے کسی پر دل میرا بھر آیا او ر آنسو ٹپک پڑے۔ آخر کا ر میں تاب نہ لا سکا، اس کے ساتھ ہو کر شاہ آباد میں آیا اور حسن بانو کے سوالوں کے جواب اپنے ذمے لیے۔ اُس بے چارے کو کاروان سرائے میں بٹھلا کر پھر جنگل کی راہ لی۔ چناں چہ خدا کے فضل سے تین سوال اس کے پورے کر چکا ہوں، یہ چو تھے سوال کی نوبت ہے۔ ایک ایسا اتفاق ہو گیا کہ تجھ کو دیکھ کر دل ہاتھ سے جاتا رہا اور تیرے عشق کے تیر نے کلیجا چھید ڈالا کہ تمام جہان کے کام کاج سے گزر گیا۔ بارے نصیبوں کی مدد سے تیرا دامن وصال ہاتھ لگا، آرزو تو یہ تھی کہ تیرے باغ حسن سے گل راحت چنوں اور اپنےغنچۂ دل کو کھولوں ، پر کیا کروں کہ میں نے اس کے ساتھ قسم کھائی ہے کہ بھائی میں تیرے کام میں دریغ نہ کروں گا بلکہ جب تک تو اپنی مراد کو نہ پہنچے گا تب تک مجھ پر بھی عیش و عشرت حرام ہے۔ پس یہ بات ہمت اور مروت سے بعید ہے کہ وہ بےچارہ انتظار کھینچے اور حاتم اپنے عیش و عشرت میں مشغول رہے۔ صلاح یہ ہے کہ تم اپنی خوشی سے مجھ کو رخصت کرو کہ شہر خورم کو جاؤں اور چوتھا سوال اُس کا پورا کروں۔
یہ بات سن کر شہ زادی نے کہا کہ پھر مجھ کو کہاں چھوڑ جاؤ گے۔ آگے تو میرا باپ جیتا تھا، وہ میری خبر لیتا تھا اب کیوں کر گزرے گی؟
حاتم نے کہا کہ میں یمن میں تجھے بھیج دیتا ہوں ۔ میرا باپ وہاں کا بادشاہ ہے، وہ تجھے اچھی طر ح سے رکھے گا، کسی طرح