اسکین دستیاب آرائشِ محفل

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ ۲۴۸
وہ اُس کا اُستاد ہے اور وہ ایسا جادوگر ہے کہ جس نے ایک آسمان چاند سورج ستاروں سمیت بنایا ہے اور ایک پہاڑ کے نیچے شہر عظیم بسایا ہے کہ چالیس ہزار جادوگر اُس میں رہتے ہیں۔ اور وہ کہا کرتا ہے کہ میں نے تم کو پیدا کیا ہے۔ خاک پڑے اُس کے منہ میں کہ دعوٰی خدائی کا کرتا ہے اور ہم برس میں ایک بار اُس کی خدمت میں جاتے ہیں، وہ کافر سخت ساحر ہے اور اس کا مکان یہاں سے تین سو کوس پر ہے۔
حاتم نے کہا ”توبہ کر ، خدا واحد ہے، کوئی اُس کا شریک نہیں اورنہ ہوگا۔ ہر ایک شے کو اس نے پیدا کیا ہے اور وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا“:
بیت
نہ گوہر میں ہے وہ نہ ہے سنگ میں
ولیکن چمکتا ہے ہر رنگ میں
”سرتک“ نے یہ کلمے سن کر کہا ”آمناصدقنا! میں نے اسم اعظم کی برکت دیکھی، اب اعتقاد جادوگروں سے بالکل اُٹھ گیا۔“
حاتم نے اُس کی تسلی کی اور کہا کہ میں اب کو ہ کملاق کو جایا چاہتا ہوں۔
سر تک نے عرض کی ”جو آپ کی خوشی ہے، میں بھی غلامی میں حاضر ہوں۔ اور یہ درخت جو نظر آتے ہیں شام احمر کے لشکر کے لوگ ہیں۔ یقین ہے کہ یہ قیامت تلک یوں ہی رہیں کیوں کہ وہ اُن کو جادو سے درخت بنا گیا ہے۔ اگر تم سے ہو سکے تو ان کو صورت اصلی پر لا کے اپنے ساتھ لے چلو۔“
اس بات کے سنتے ہی حاتم نے تھوڑا سا پانی پڑھ کر ”سرتک “کو دے کر کہا کہ اس پانی کو اُن پر بسم اللہ کر کے چھڑک دے اور قدرت الہیٰ کا تماشا دیکھ۔ غرض وہ اُس

صفحہ ۲۴۹
پانی کو لے کر گیا اور اُن درختوں پر چھڑکنے لگا۔ خدا کے فضل سے اور اُس اسم کی برکت سے وے سب کے سب اپنی اصلی صورت پر آ گئے اور ”سرتک“ سے پوچھنے لگے کہ اے” سرتک“ ! شام احمر جادو کہاں ہے؟
اُس نے کہا کہ وہ تم سب کو اپنے جادو سے درخت بنا کر کملاق کےپاس بھاگ گیا۔ اب حاتم نے تمہیں اسم اعظم پڑھ کر پھر آدمی کیا ہے، تم اپنا احوال بیان کر و، کیوں کر تھے؟
اُنہوں نے کہا کہ ہم زمین پر کھڑ ے تھے، طاقت چلنے پھرنے بولنے کی نہ رکھتے تھے اور بند بند درد کرتا تھا، اب اس جوان مرد کی توجہ سے اچھے ہوئے اور نجات پائی۔ حق تو یوں ہے کہ یہ عجب جوان مرد خدا ترس ہے اور صاحب اقبال اور زور آور ہے جو شام احمر جادو پر غالب ہوا۔
یہ گفت گو آپس میں کر کے متفق ہو کر حاتم کے پاس آئے اور پاؤں پر گر کر کہنے لگے کہ اے حاتم ! آگے ہم شام احمر کے بندوں میں تھے، آج سے تیرے غلاموں میں داخل ہوئے کیوں کہ تو نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ، خدا تجھ کو اس کی جزائے خیر دے۔
یہ بات سن کر حاتم نے پھر اُن پر اسم اعظم پڑھ کر پھونکا کہ جتنا اثر جادو کا ان میں باقی تھا جاتا رہا، جیسے تھے ویسے ہی ہو گئے اور حاتم سے کہنے لگے کہ اے خداوند! اب کہاں کے جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟
حاتم نے کہا کہ اے یارو! مجھے شام احمر جادو سے کچھ کام ہے۔ جب تک وہ میرے ہاتھ نہیں آتا تب تک میں کچھ کام نہ کروں گا۔ چناں چہ اُس کی بیٹی سے بیاہ کیا چاہتا ہوں۔

صفحہ ۲۵۰
اگر اُس نے خوشی بہ خوشی بیاہ دیا تو بہتر، نہیں تو جیتا نہ چھوڑوں گا۔
اُنہوں نے کہا کہ اُس کی بیٹی تم نے کہاں دیکھی ہے جو ایسے فریفتہ ہو گئے؟
حاتم نے تمام ماجرا عشق کا اول سے تا آخر بیان کر کے کہا کہ میں صرف اُسی کی آرزو اور اسی کے ملنے کی جست و جو میں رنج و محنت کھینچتا ہوا یہاں تک آ پہنچا ہوں ۔ اور شام احمر نے جو کچھ مجھ پر ظلم کیا، کیا کہوں ، نہ زبان کو یارا کہ تقریر کرے ، نہ قلم کو طاقت جو تحریر کرے۔ احسان ہے خدا کا کہ جس نے مجھ سے ضعیف کو ایسے زبردست پر فتح یاب کیا۔ اگرچہ اب وہ یہاں سے بھاگا اور اپنے اُستاد کے پاس گیا ہے تو اس سے کیا ہو سکتا ہے۔ انشااللہ تعالیٰ اب میں اس کو اس کے اُستاد سمیت ماروں گا اور نا م و نشان اُن دونوں کا اس صفحہ ٔ عالم سے مٹا دوں گا۔
اُنہوں نے عرض کی کہ خداوند! کملاق بڑا جادوگر ہے اور اُس کا زیر کرنا نہایت مشکل ہے۔
حاتم نے کہا ” اے یارو! ہمت نہ ہارو۔ اگر کچھ تماشا دیکھا چاہتے ہو تو میرے ساتھ چلو، نہیں تو یہیں آرام کرو، میں جانوں اور کملاق او ر شام احمر جادو جانے۔“
اُنہوں نے عرض کی کہ آپ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ یہ بات مرو ت ہے بعید ہے جو ہم تم کو تنہا جانے دیں ؛ بہتر یہی ہے کہ ہم بھی ہم راہ رکاب چلیں۔ بالفرض اگر وہ غالب آیا تو ہم تمہارے ساتھ پھر آویں گے اور جہاں تم جاؤ گے ہم بھی ساتھ ہوں گے۔ یہاں ہمارا کیا کام ہے، وہ ہمیں ہر گز جیتا

صفحہ ۲۵۱
نہ چھوڑے گا۔
غرض حاتم نے سب چاکروں سمیت کوہ کملاق کا رستہ پکڑا۔ تھوڑی دور جا کر اُنہوں نے کہا ”حضرت سلامت! شام احمر جادو یہاں سے ایک دن میں ہم سب سمیت اس پہاڑ پر جا پہنچا تھا۔“
حاتم نے جواب دیا کہ سچ ہے۔ وہ جادوگر تھا، اپنے جادو کے زور سے اس راہ دور دراز کو اتنا جلد طے کرتا تھا۔
اُنہوں نے عرض کی ” خداوند! اگر آپ جادوگر نہیں ہیں تو ایسے ساحر پر کیوں کر غالب ہوئے؟ کیوں کہ وہ ایسا جادوگر ہے کہ پہاڑ کو موم کرتا ہے اور موم کو لوہا پتھر کر ڈالتا ہے۔“
اتنے میں سرتک بولا کہ اے نادانو! میں نے اس کا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ بھی ایک روز میں وہاں جا سکتا ہے اور کملاق اور احمر کو اپنا تابع دار کر سکتا ہے۔
اگر چاہے تو اُن کو بھی مار ڈالے؛ تم نہیں جانتے ہو اس کو تائید خدا ہے۔
پھر حاتم نے کہا ”اے عزیزو! میں اسم اعظم جانتا ہوں ، جہاں وہ اثر کرے وہاں جادو کا کیا چلے، دیکھو اس اسم کے اثر سے وے جل کر خاک ہو جائیں گے۔“
پھر وے سب کے سب حاتم کے ساتھ اس تالا ب پر پہنچے کہ وہ پہلی منزل تھی، پر یہ معلوم نہ تھا کہ احمر جادو اسی راہ سے گزرا ہے اور اس تالاب پر بھی سحر پڑھ گیا ہے۔ بے تحاشا سبھوں نے پانی پی لیا، پیتے ہی اُن کی نافوں سے فوارے خون کے چھٹنے لگے۔ حاتم دیکھ کر حیران رہ گیا، پر اُن سے جدا نہ

صفحہ ۲۵۲
ہوتا تھا اس لیے کہ یہ بے چارے میرے ساتھ آئے ہیں، ان کو اکیلے کیوں کر چھوڑوں اور اس پانی میں کیا بلا تھی کہ جس کے پینے سے ان کی یہ حالت ہوئی۔
القصہ تمام رات گزرگئی، حاتم پیاسا رہا، پر پانی کا ایک قطرہ بھی اس نے نہ پیا۔ جب صبح ہوئی وے سب کے سب مانند مشک کے پھول گئے۔ حاتم اُن کی حالت دیکھ دیکھ کر ہاتھ ملتا تھا اور روتا تھا لیکن یہ نہ سمجھا کہ شام احمر جادو نے اس پانی پر بھی جادو کیا ہے؛ آخر اُن کی زندگی سے ناامید ہوا۔ وہیں خیال گذرا کہ شاید اسم اعظم کی برکت سے وہ بے چارے اچھے ہو جائیں او ر اُن کی جانیں بچیں ۔ یہ اندیشہ کر کے اُس اسم مبارک کو پڑھ کے اُن پر پھونکا۔ سوجن اُن کی پہلے ہی مرتبے میں اُتر گئی۔ دوسری دفعہ پھر پڑھ کے دم کیا، تب ان کی نافوں سے نیلا پانی جاری ہوا۔ غرض تیسری بار اپنی حالت اصلی پر آ گئے اور حاتم کو دعائیں دینے لگے اور تعریفیں کرنے۔
تب حاتم نے پوچھا کہ اے یارو! یہ کیا باعث ہے؟
وے بولے خداوند! ہم کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ شام احمر جادو اس تالاب پر بھی جادو کر گیا ہے۔ حاتم نے اُس پر بھی اسم اعظم پڑھ کر پھونکا۔ پہلے وہ جوش میں آیا پھر سرخ ہوکر سبز ہوتے ہی نیلا ہو گیا، بعد ایک دم کے صاف ہوا اور اپنی اصلی رنگت پر آرہا۔ حاتم نے جانا کہ اب اس تالاب سے جادو کا اثر جا چکا ہے، تھوڑا سا پانی آپ پیا اور سب کو فرمایا کہ پانی پیو اور نہاؤ تا کہ حرارت سحر کی بہ سبب اسم اعظم کے تمہارے بدنوں سے جاتی رہے۔

صفحہ ۲۵۳
اُنہوں نے اُس کے کہنے پر عمل کیا اور اعتقاد لا کر کہنے لگے” خداوند! ہم تمہارے ساتھ ہو کر شام احمر اور کملاق سے لڑیں گے۔“ اسی قصد پر آگے بڑھے۔
اور شام احمر جو بھاگا تو کملاق ہی کی ڈیوڑھی پر آ کھڑا ہوا۔ چوب داروں نے جا کر عرض کی ” خداوند! شام احمر جادو ننگے سر، ننگے پاؤں نہایت پریشان احوال در دولت پر کھڑا ہے۔ “کملاق نے اُس کو اندر بلاکر گلے لگا لیا اور پوچھا کہ تجھ پر کیا حادثہ پڑا ہے جو اس حال سے یہاں آیا؟
اُس نے عرض کی کہ میرے پہاڑ پر حاتم نام ایک جوان بڑا جادوگر کہیں سے آیا ہے، اُس نے مجھے ان حالوں میں پہنچایا ہے۔
کملاق یہ احوال سن کر آگ بگولا ہو گیا اور کہنے لگا کہ تو خاطر جمع رکھ، میں اُس کو ابھی چومیخا کر کے تیرے حوالے کردیتا ہوں ۔ غرض اُس کی تسلی کر کے ایک منتر پرھا اور اپنے پہاڑ کی طر ف پھونکا، وہیں ایک آگ نمودار ہوئی اور حلقے کی صورت ہو کر اُس پہاڑ کو گھیر لیا۔ حاتم بھی بعد دو چار روز کے کو ہ کملاق کی حد میں جا پہنچا۔ رفیقوں نے عرض کی ”قبلۂ عالم ! کوہ کملاق یہی ہے لیکن اس کے گر د یہ آگ جو شعلہ زن ہے، شاید جادو کا سبب ہے۔ “حاتم ٹھہر گیا اور اسم اعظم کو پڑھ کر اُس پہاڑ کی طرف دم کیا آگ بالکل بجھ گئی۔ یہ خبر کملاق جادوگر کو پہنچی ، اُس نے پھر ایک جادو ایسا کیا جس کے زور سے اُس پہاڑ کے گر د ایک دریائے عظیم پیدا ہوا اور موج مارتا ہوا حاتم کی طر ف بڑھا۔

صفحہ ۲۵۴
سبھوں نے التماس کیا کہ خداوند! یہ دریا جادو کا ہے اب ہم بے اجل ڈوبے، اس میں بچتے نظر نہیں آتے۔
حاتم نے کہا کہ مت گھبراؤ، خدا کو یاد کرو۔ یہ کہہ کر پھر اسم اعظم پڑھ کر پھونکا۔ وہ دریا ہوا ہو گیا اورزمین خشک نظر آئی۔ جادوگروں نے دریافت کیا کہ کوئی سحر اس جوان پر کارگر نہیں ہوتا، دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
اتنے میں کملاق نے ایک او ر منتر پڑھا۔ پڑھتے ہی اُس کے دس دس پانچ پانچ من کے پتھر پڑنے لگے۔ غرض اس قدر برسے کہ اس پہاڑ کے گر د ایک اور پہاڑ ہوگیا اور وہ نظر آنے سے رہ گیا۔
اس حال کو ملاحظہ کر کے حاتم بیٹھا اور اسم اعظم پڑھنے لگا، اُس کی برکت سے ایک ایسی ہوا بہی کہ اُن پتھروں کو لے گئی، کوہ کملاق نظر آنے لگا، حاتم آگے بڑھا۔
کملاق جادو نے پھر ایک ایسا افسوں پڑھا کہ وہ پہاڑ حاتم او رحاتم کے ہم راہیوں کی نظروں سے الوپ ہو گیا۔ تب اُنہوں نے عرض کی ”خداوند! اُس پہاڑ کو کملاق نے جادو کے سبب سے چھپایا ہے“۔ یہ سن کر حاتم وہیں بیٹھ گیا اور اسم اعظم پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگا۔ فضل الہیٰ سے بعد دو تین روز کے وہ پہاڑ پھر نظر آیا۔
حاتم اُٹھ کھڑا ہوا اور ساتھیوں سمیت اُس پر چڑھ گیا۔
جادوگروں نے وہاں کے اُس کو دیکھتے ہی غل مچایا کہ یہ جوان صحیح و سلامت یہاں آ پہنچا، تب کملاق شام احمر جادو سمیت اس آسمان پر جو اس پہاڑ سے تین ہزار گز بلند تھا چڑھ گیا او ر اپنے لشکر کو ا س کے دروازے پر چڑھایا۔

صفحہ ۲۵۵
حاتم نے جو دیکھا کہ اب سامنا کرنے والا کوئی نہ رہا بے دھڑک شہر میں داخل ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک شہر بہت بڑا عالی شان اور عمارت اُس کی دل چسپ اور ہر ایک مکان پاکیزہ ، دوکانوں میں دو رستہ کشادہ ، ستھری صاف اُن میں ہر ایک طرح کی جنس دھری ہے او ر قسم قسم کے جواہر جگمگا رہے ہیں اور انواع و اقسام کے میوے مٹھائیوں سے خوانچے معمور، موافق قرینے کے جا بہ جا لگے ہوئے؛ پر آدمی کا کہیں نام نہ تھا۔
حاتم نے یہ تماشا دیکھ کر اپنے لوگوں سے کہا کہ یہاں کے رہنے والے کیا ہوئے؟
اُنہوں نے کہا ” خداوند!کملاق آپ کے ڈر سے ان سبھوں کو لے کر اُسی آسمان پر گیا ہے جو اُس نے بنایا ہے۔“
حاتم اس بات کو سن کر ہنسسا اور کہنے لگا ”اب تم کیوں بھوکھے مرتے ہو؟ نعمتیں خدا نے دی ہیں ان کو مزے سے چکھو اور سجدۂ شکر جناب الہیٰ میں بجا لاؤ۔“
ہو بھوکھے تو تھے ہی، بے اختیار کھانے لگے ۔ جب کھا چکے سوج کر سم دم ہو گئے اور ہر ایک کی ناک سے لہو ٹپکنے لگا۔ حاتم نے معلوم کیا کہ وہ کم بخت ان نعمتوں پر بھی جادو کر گیا ہے۔ یہ سمجھ کر تھوڑا سا پانی منگوایا اور اُس پر اسم اعظم پڑھ کے ہر ایک کو پلا دیا؛ وہیں سحر کا اثر جاتا رہا، وے اچھے ہو گئے؛ پھر حاتم نے اسم اعظم پڑھ کے ہر ایک چیز پر پھونک کر کہا کہ اب شوق سے کھاؤ کہ جادو کا عمل باطل ہو گیا۔ تب اُنہوں نے دل جمعی سے پیٹ بھر کر کھایا۔ پھر حاتم نے پوچھا کہ جادو کا آسمان کہاں ہے؟

صفحہ ۲۵۶

اُنہوں نے عرض کی کہ وہ اس زمین پر ہوا میں مانند گیند کے نظر آتا ہے۔
حاتم اُس طرف متوجہ ہوا اور اسم اعظم پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگا۔ آخر وہ گیند بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو ہو کر پہاڑ پر گر پڑا اور بہت سے جادوگر واصل جہنم ہوئے؛ مگر کملاق اور شام احمر بچ کر پہاڑ کے اوپر گرے اور کسی طرف کو بھاگے۔ او ر حاتم اسم اعظم پڑھتا ہوا اُن کے پیچھے پیچھے چلا۔ آخر وے دونوں بھی گھبر ا کے پہاڑ سے گر ے اور پاش پاش ہو گئے۔ حاتم بہت شاد ہوا اور سجدۂ شکر بجا لایا۔
پھر ”سرتک“ سے کہنے لگا کہ میں نے تجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب کملاق کو ماروں گا، اُس کے ملک کا بادشاہ تجھ کو کروں گا۔ اب یہ ملک تجھ کو دیتا ہوں اور اپنا وعدہ وفا کرتا ہوں ، یہ شرطے کہ تو خدا کو ایک جانے، اُسی کی پرستش کرے اور کسی بندۂ خدا کو دکھ نہ دے، عدل و انصاف میں رات دن مشغول رہے۔ یہ کہہ کر پھر اُن سب جادوگروں سے بھی کہا کہ تم ”سرتک “کی سرداری قبول کرو اور یاد الہیٰ میں رہو اور اپنے تئیں بندہ ٔ خدا سمجھو۔ اور اگر ان باتوں سے خلاف کرو گے تو اپنی سزا کو پہنچو گے اور میں اب ملکہ زریں پوش کے پاس جاتا ہوں ، تم سب یہاں آپس میں ملے جلے ہوئے خوش و خرم رہو۔ اُنہوں نےکہا کہ خوشی تو ہماری یہی ہے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں لیکن حکم سے باہر نہیں ہو سکتے۔
غرض حاتم نے اُن کو وہیں چھوڑا اور آپ ملکہ زریں پوش کے مقام کی طرف روانہ ہوا۔ بعد چند روز کے وہاں صفحہ ۲۵۷
جا پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ نہ تالاب ہے، نہ وہ پانی ہے مگر وہ درخت جیوں کا تیوں ہرا بھرا کھڑا ہے۔ پر اُس تالاب کی جگہ ایک شیش محل نہایت عالی شان جگمگا رہا ہے۔
حاتم اس کے دروازے پر جا کھڑا ہوا۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہی نازنینیں سب کی سب اپنی اپنی جگہ کھڑی ہیں۔ یہ ان کو دیکھ کر خوش ہوا اور وہ اُس کے پاس آ کر پوچھنے لگیں کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟
اُس نے کہا کہ میں وہی شخص ہوں جو تمہارے ساتھ اس درخت پر لٹکتا تھا۔ اب میری طرف سے ملکہ کی خدمت میں سلام شوق کہو۔
اُن میں سے ایک دوڑ کر شہ زادی کے پاس گئی اور عرض کرنے لگی کہ اے شہ زادی ! حاتم نام ایک جوان جو سحر میں آلودہ ہو رہا تھا، اب اچھا ہو کر آیا ہے۔
اس نے سنتے ہی سر نیچا کر لیا۔ بعد ایک دم کے سر اُٹھا کر کہا کہ اب تک کہاں تھا؟ وہ شاید کوہ احمر کو گیا تھا، جاؤ جلد دریافت کرو۔
وہ خواص پھر آئی اور حاتم سے پوچھنے لگی کہ اے حاتم! کچھ کوہ احمر کے احوال سے واقف ہے تو بیان کر۔
اُس نے کہا کہ ملکہ زریں پو ش کا باپ کافر تھا، اپنے اعمالوں کے باعث سے مارا گیا اور جہنم میں جا پہنچا؛ اتنا تجھ سے کہا اور باقی ملکہ سے کہوں گا۔
اُس نازنیں نے حضور میں جا کر یوں ہی عرض کیا۔ بادشاہ زادی سنتے ہی آنسو بھر لائی کہ وہ نازنینیں تسلی

صفحہ ۲۵۸
دے دے کر التماس کرنے لگیں کہ اے شہزادی! ایسے برے باپ کے واسطے غم کھانا اور رونا عبث ہے، اُس نے اپنے فعل بد کی سزا پائی اور ہم تم اس قید شدید سے چھوٹے ۔ لازم ہے کہ اب اس جوان کو محل میں بلوا کر بہ خوبی ملاقات کرو۔
اس بات کو سن کر اس نے خوب سا سنگار کیا اور تخت مرصع پر آن و ادا سے آ بیٹھی ۔ پھر ایک اغمازوناز سے کہا کہ اچھا بلوا لو۔ وہیں ایک سہیلی دوڑی اور اُس کو بلا لائی۔ نظر اس کی ملکہ پر پڑی ، بے ہوش ہو گیا اور وہ بھی بھچک سی رہ گئی۔
بعد ایک دم کے اپنے تئیں سنبھال کر تخت پر سے اُٹھی ۔ شیشہ گلاب کا ہاتھ میں لے کر حاتم کے پاس آئی اور گلاب اُس کے منہ پر چھڑکا، حاتم ہوش میں آیا اور اُس رشک گلشن خوبی کو اپنے سرہانے دیکھ کر باغ باغ ہو گیا۔ غرض بادشاہ زادی تخت مرصع پر آ بیٹھی اور حاتم کو بھی ایک جڑاؤ کرسی پر بٹھلا کر اپنے باپ کا احوال پوچھنے لگی۔
حاتم نے تمام ماجرا بیان کیا اور کہا کہ میں نے تیرے واسطے اس قدر رنج کھینچے اور دکھ سہے ؛ اب تجھ کو بھی لازم ہے کہ میری محنت کی داد دے اور اپنی مہربانی و دوستی سے میری مصیبتوں کو راحت سے بدلے اور اس ناامید کی امید برلاوے۔
اس بات کو سن کر وہ سر بہ زانو ہوئی۔ اتنے میں ہم جولیوں نے کہا کہ بی بی ! حاتم بھی یمن کا شہ زادہ ہے۔ تمہارے نصیب اچھے تھے جو یہ خود بہ خود یہاں آیا۔ تم جو اس سے اپنی شادی کرو گی ، ہر طرح سے نام آوری اور بہتری

صفحہ ۲۵۹
ہے ۔ اور اپنے باپ کے مرنے کا غم نہ کرو، وہ کم بخت جادوگر تھا، خوب ہوا جو مرا، تمام جہاں کا فساد مٹا، اب سرانجام شادی کا کیا چاہیے۔ بادشاہ زادی شرما کر تخت سے اُٹھی او ر محل میں چلی گئی۔
مصا حبیں اُس کی شادی کی تیاری کرنے لگیں، سات روز تک راگ کی صحبت رہی، آٹھویں دن نویں شب حاتم نے موافق اپنے جد و آبا کی رسموں کے شاہ زادی سے نکاح کیا او ر خواب گاہ میں لے جا کر ہم کنار ہوا۔ چاہتا تھا کہ ہم بستر ہو اور شربت وصال پیے کہ احوال منیر شہ زادے کا یا د پڑا، خوف الہیٰ دل میں لایا، مانند بید کے کانپنے لگا؛ ندان ملکہ سے الگ ہو گیا۔ بادشاہ زادی ہکی بکی رہ گئی کہ ایسا اُس نے مجھ میں کیا عیب دیکھا کہ عین وصل میں جدا ہو گیا، اس سے کیوں کر پوچھوں، یہ سوچ کر کچھ چپ سی رہ گئی۔
جب اس نے اُس آئینہ رو کو آب حیرت میں غرق دیکھا کہا کہ اے راحت و آرام جان! اتنی پریشان خاطر کیوں ہوئی؟ خدا نہ کرے کہ میری زندگی میں کسی طرح کا غم والم تجھ کو ہو۔ اگر میری اس حرکت سے اندیشے میں ہوئی ہے تو بجا ہے کیوں کہ چاند اور سورج میں عیب ہے اور تو اُن سے بھی حسن میں بہترہے کہیں کی کہیں ؛ لیکن میں خدا کی راہ میں کمر باندھے اپنے گھر سے منیر شامی کے لیے نکلا ہوں۔ وہ عاشق حسن بانو کا ہے اور وہ نازنین سات سوال رکھتی ہے، جو کوئی اس کے سوال پورے کرے گا وہ اُس کو قبول کرے گی؛ اور منیر شامی اُس کے ایک سوال کا بھی جواب نہ دے سکا۔ چناں چہ حسن بانو نے اپنے شہر سے نکلوا دیا۔ وہ روتا پیٹتا آہیں بھرتا یمن کی طرف آ نکلا۔ میں بھی ایک دن شکا ر کھیلتا

صفحہ ۲۶۰
ہوا اُس کی طرف گیا تھا، اتفاقاً اُس سے ملا قات ہو گئی، احوال پوچھنے لگا۔ اس نے بہ طور فقیرو ں کے اپنا احوال ظاہر کیا، غرض اُس کی بے کسی پر دل میرا بھر آیا او ر آنسو ٹپک پڑے۔ آخر کا ر میں تاب نہ لا سکا، اس کے ساتھ ہو کر شاہ آباد میں آیا اور حسن بانو کے سوالوں کے جواب اپنے ذمے لیے۔ اُس بے چارے کو کاروان سرائے میں بٹھلا کر پھر جنگل کی راہ لی۔ چناں چہ خدا کے فضل سے تین سوال اس کے پورے کر چکا ہوں، یہ چو تھے سوال کی نوبت ہے۔ ایک ایسا اتفاق ہو گیا کہ تجھ کو دیکھ کر دل ہاتھ سے جاتا رہا اور تیرے عشق کے تیر نے کلیجا چھید ڈالا کہ تمام جہان کے کام کاج سے گزر گیا۔ بارے نصیبوں کی مدد سے تیرا دامن وصال ہاتھ لگا، آرزو تو یہ تھی کہ تیرے باغ حسن سے گل راحت چنوں اور اپنےغنچۂ دل کو کھولوں ، پر کیا کروں کہ میں نے اس کے ساتھ قسم کھائی ہے کہ بھائی میں تیرے کام میں دریغ نہ کروں گا بلکہ جب تک تو اپنی مراد کو نہ پہنچے گا تب تک مجھ پر بھی عیش و عشرت حرام ہے۔ پس یہ بات ہمت اور مروت سے بعید ہے کہ وہ بےچارہ انتظار کھینچے اور حاتم اپنے عیش و عشرت میں مشغول رہے۔ صلاح یہ ہے کہ تم اپنی خوشی سے مجھ کو رخصت کرو کہ شہر خورم کو جاؤں اور چوتھا سوال اُس کا پورا کروں۔
یہ بات سن کر شہ زادی نے کہا کہ پھر مجھ کو کہاں چھوڑ جاؤ گے۔ آگے تو میرا باپ جیتا تھا، وہ میری خبر لیتا تھا اب کیوں کر گزرے گی؟
حاتم نے کہا کہ میں یمن میں تجھے بھیج دیتا ہوں ۔ میرا باپ وہاں کا بادشاہ ہے، وہ تجھے اچھی طر ح سے رکھے گا، کسی طرح
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۵۰

ماہ یار سلیمانی سے عہدہ برآ ہو گا۔

شاہزادے نے پھر عرض کی "وہ ایسا ویسا نہیں ہے، یمن کا بادشاہ زادہ ہے۔ عقل و ہنر میں جن و پری سے بھی زیادہ ہے۔ ایک پرند کے جوڑے نے کیفیت اُس موتی کی اُس سے بیان کر کے بشارت دی ہے؛ چناں چہ جو کچھ ماہ یار سلیمانی کی زبانی میں نے سنا تھا، اس نے میرے سامنے مفصل ظاہر کیا۔ مجھ کو یقین ہوا ہے کہ اس موتی کا احوال وہ ٹھیک ٹھیک جانتا ہے۔ بالفعل میں اسے جزیرۂ برزخ کے قریب چھوڑ آیا ہوں۔ عجب آدمی ہے کہ زبان دیو پری کی بھی جانتا ہے۔"

انہوں نے پوچھا "پھر تیرے آنے کا موجب کیا ہے؟"

اس نے التماس کیا "ارادہ غلام کا یہ ہے کہ لاؤ لشکر ساتھ لے کر مانند پادشاہوں کے شہر میں داخل ہوں۔"

پادشاہ نے سنتے ہی کئی ہزار پری زاد سواری کے اسباب سمیت ساتھ کر دیے۔ شہزادہ اسی گھڑی روانہ ہوا، وعدے کے دن جا پہنچا۔ لشکر کو دریا کنارے چھوڑا، حاتم کے مکانپر آیا۔ اس کو جو نہ پایا، حیران ہوا کہ کیا اس نے وعدہ خلافی کی جو پہلے چلا گیا۔

اتنے میں حاتم کے گھوڑے کو چرتے دیکھ کر پہچانا کہ وہی گھوڑا ہے۔ پھر پری زادوں سے کہا کہ اس باغ میں جا کر اس کو ڈھونڈو۔

وہیں وہ سب باغ میں آ کر تلاش کرنے لگے۔ اتنے میں کسی پری زاد کی نظر جا پڑی کہ ایک جوان خوش رو ایک درخت کے تلے بیٹھا تماشا دیکھتا ہے۔ وہ الٹے پاؤں پھرا اور


صفحہ ۳۵۱

یہ احوال شہزادے سے عرض کیا کہ میں ایک آدمی کو بیٹھے دیکھ آیا ہوں، خدا جانے وہی ہے یا کوئی اور۔

جلد اُٹھ کھڑا ہوا، پاؤں اٹھائے وہاں چلا گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ حاتم سر جھکائے متفکر ہے۔ پکارا "اے بھائی! سر اٹھا، کس سوچ میں ہے۔" حاتم نے جو آنکھ اُٹھا کر دیکھا تو مہر آور ہے، اُٹھ کر گلے سے لپٹ گیا۔ پھر وہ دونوں باغ سے باہر آئے۔ حاتم نے دیکھا کہ ایک لشکر عظیم الشان اُترا ہوا ہے اور ایک بارگاہ شاہانہ کھڑی ہے۔ پوچھا کہ یہ بارگاہ لشکر کس کا ہے؟ مہر آور نے کہا "آپ ہی کا ہے۔" پھر اس نے اس کا ہاتھ پکڑ سریچے کے اندر لے گیا اور تخت مرصع پر بٹھلایا، خاصہ یاد فرمایا۔ حاتم نے بعد ایک مدت کے جو انواع اقسام کے کھانے دیکھے، بہ رغبت تمام نوش جان کیے۔ پھر طائفوں کو یاد کیا، ناچ ہونے لگا۔ ٖغرض تمام رات عیش و عشرت سے کاٹی۔

صبح ہوتے ہی کوچ کا نقارہ کیا، سوار ہوئے۔ یہ خبر جزیرۂ برزخ کے بادشاہ کو پہنچی کہ پری زادوں کا لشکر بے شمار قریب آ پہنچا ہے۔ پر مطلب اُن کے آنے کا معلوم نہیں۔ اُس نے غضب ہو کر ایک سردار کے ساتھ کئی ہزار پری زاد کر کے فرمایا کہ جلد جا کر اُن کی راہ بند کرو، آگے نہ آنے پاویں۔ وہ لشکر سمیت بر سر راہ اُتر پڑا۔ کئی دن کے بعد جو وہ وہاں جا پہنچے، دیکھا کہ لشکر عظیم راہ روکےہوئے پڑا ہے، رک رہے۔ اتنے میں خبر پہنچی کہ ماہ یار سلیمانی نے تم سے لڑنے کو فوج بھیجی ہے۔

شہ زادے نے ایک مرد معقول اُس سردار کے پاس بھیجا کہ ہم لڑنے کے ارادے پر نہیں آئے ہیں بلکہ ہمیں بادشاہ کی خدمت


صفحہ ۳۵۲

میں حاضر ہونے کی آرزو ہے۔

یہ سن کر اُس نے شہ زادے مہر آور کو کہلا بھیجا کہ آپ فراغت سے یہاں ڈیرہ کریں، بادشاہ سے بد خوبی ملاقات ہو گی۔ اپنے بادشاہ کو اس مضمون کی عرضی بھیجی۔

فرمایا "جو یہ ارادہ ہے تو اپنے ساتھ بہ عزت تمام لے آؤ، ایک مکان پرتکلف میں اُترواؤ۔" غرض حاتم اور مہر آور چند مصاحب اور تھوڑے لوگوں سے شہر میں داخل ہوئے۔ لشکر کو قریب شہر کے کسی باغ میں اُترنے کا حکم کیا۔ پھر ماہ یار سلیمانی نے ایک امیر کو مہر آور کے پاس بھیجا کہ آپ کیوں تشریف لائے ہیں؟

اُس نے کہا کہ شہ زادہ یمن کو آپ کے قدم دیکھنے کی نہایت آرزو ہے، چناں چہ میں اُس کو لے آیا ہوں۔ وہ بہت خوش گو اور خوش رو ہے۔ آپ دیکھ کر کمال محظوظ ہوں گے۔

یہ سن کر بادشاہ نے پہلے تو مہمانی بھیجی، دوسرے روز حاتم کو بلوا کر ایک جڑاؤ کرسی پر بٹھلایا۔ مہربانی سے پوچھا کہ اس ملک میں تم کس ارادے سے آئے ہو اور کیوں کر یہاں تک پہنچے؟

حاتم نے کہا "خدا کریم ہے، ہر طرح سے اُس نے ہمیں پہنچایا۔" پھر رُوپے کا انڈا جو حسن بانو نے اُس موتی کا نمونہ دیا تھا، اس کے آگے رکھ دیا اور کہا "مطلب یہ ہے اگر اس کی جوڑی کا موتی حضور سے عنایت ہو تو عین الطاف ہے۔

ماہ یار نے کہا "دوسرا اس کا کہاں سے ملے گا؟"

حاتم بولا " میں نے سنا ہے کہ آپ کی سرکار میں ہے، مرحمت


صفحہ ۳۵۳

کریں تو اپنی مراد کو پہنچوں۔"

بادشاہ نے فرمایا "اگر تو میری ایک شرط بجا لائے تو موتی کے ساتھ اپنی بیٹی بھی دوں۔"

حاتم نے سر نیچا کیا۔ بعد ایک ساعت اُٹھ کر التماس کیا "مجھ کو موتی درکار ہے، صاحب زادی کے آپ مختار ہیں، جسے چاہیں اُسے دیں۔"

بادشاہ نے فرمایا "جس وقت تو اُس کی پیدائش کا احوال بیان کرے گا، موتی اور لڑکی تیری حوالے کروں گا؛ پھر تیرا اختیار، جسے چاہے اُسے دیجیو۔"

حاتم نے سن کر عرض کی کہ مہر آور شہ زادے کو بلوا بھیجیے۔

اُس نے وہیں بلوا لیا، گلے لگا کر ایک کرسی پر اُس کو بھی بٹھلایا۔

تب حاتم نے پخت و پز کر کے اُس موتی کی پیدائش کا احوال کہنا شروع کیا۔ ماہ یار سلیمانی سر نیچا کیے سننےلگا۔ غرض جو کچھ اُس پرندے سے سنا تھا، تمام و کمال کہہ سنایا۔

بادشاہ تحسین و آفرین کر کے تخت سے اُٹھ کھڑا ہوا اور محل میں جا کر موتی لے آیا۔ پھر ارشاد کیا کہ بادشاہ زادی کو دلہن بنائیں، بیاہ کی تیاری کریں۔ حاتم موتی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔

بعد اس کے بہت سے ہاتھی گھوڑے جڑاؤ ساز براق سے سجوا منگوائے۔ اور شہ زادی کو بنا چنا کتنی سہیلیاں خوش پوشاک، بہت سے غلام چست و چالاک سمیت مجلس میں بلوایا۔


صفحہ ۳۵۴

حاتم کی جوں ہی نگاہ اُس پر پڑی، بول اُٹھا کہ یہ میری بہن ہے، اس کو میںن ے شہ زادۂ مہر آور کو دیا، یہ اُسی کےلایق ہے۔ چاہیے کہ تم بھی اپنی رسم کے موافق ان دونوں کی شادی کر دو اور موتی مجھے بخشو کہ میں حسن بانو کو دوں۔

ماہ یار سلیمانی نے مجلس نشاط کا حکم کیا اور لڑکی کو اپنے دستور و قاعدے کے موافق مہر آور کے ساتھ بیاہ دیا۔ الحمدہ اللہ کہ عاشق و معشوق اپنی اپنی مراد کو پہنچے۔

بعد ایک مہینے کے دونوں شہ زادے، شہ زادی سمیت بادشاہ سے رخصت ہو کر چند روز میں اُسی دریا کنارے پر پھر آئے۔

حاتم نے کہا "بھائی! یہاں سے تم اپنے ملک کو سدھارو، میں اپنے شہر کو جاتا ہوں۔"

مہر آور بولا "بھائی جان! یہ بات مروت سے بہت دور ہے جو ایسے مکان خطرناک میں تجھے اس وقت تنہا چھوڑوں اور آپ اس جاہ و حشم سے گھر کی راہ لوں۔ ارادہ میرا یہ ہے کہ اسی تجمل سے تجھ کو شمس بادشاہ تک پہنچاؤں، آپ بھی اُس سے ملاقات کروں۔ پھر اپنے لشکر کو فرمایا "جلد سرانجام تیار کریں اور زنانیوں سواریوں سمت پار اُتریں۔"

یہ کہہ کر حاتم اور آپ یہ دستور گھوڑوں پر سوار ہوئے، رستہ پکڑا؛ چند روز میں دریائے قہرمان کے پار ہوئے اور ایک جنگل میں اُترے۔ دیوؤں کو خبر پہنچی کہ پری زادوں کا لشکر آ پہنچا ہے، وہ بھی جمع ہو کر بہ سر راہ آ پڑے۔

مہر آور نے ایک پری زاد کو بھیجا کہ اے عزیا! ہم دونوں حضرت سلیمان علیہ السلام کے خانہ زاد ہیں۔ ہمارا قصد تم سے بگاڑ کا نہیں


صفحہ ۳۵۵

ہے، تم ہمارے مقابل کیوں ہوئے ہو۔ ہم شمس بادشاہ کی مبارک باد کے واسطے جاتے ہیں کہ اُس نے بعد مدت کے غضب خدا سے نجات پائی ہے۔

اُنہوں نے کہلا بھیجا کہ ہم کو بھی تم سے لڑنے کا ارادہ نہیں ہے، صرف ملاقات کو آئے ہیں۔

غرض اُن کے سرداروں کو بلا کر ملاقات کی۔حاتم کو ایک کونے میں چھپا رکھا؛ پھر اُن کو انواع و اقسام کے کھانے کھلا کر، طرح بہ طرح کی شرابیں پلا کر رخصت کیا اور آپ بھی روانہ ہوا۔

چند روز میں دیوؤں کی سرحد سے نکلا۔ شمس بادشاہ کو خبر پہنچی کہ حاتم اور مہر آور آپ کی ملاقات کو آتے ہیں۔ یہ سن کر وہ بھی اپنےلشکر سمیت اُ ن کے استقبال کےلیے چلا۔ اثناء راہ میں باہم ملاقات ہوئی، خوش ہو ہو کر بغل گیر ہوئے، تمام ماجرا اپنا اور مہر آور کا بیان کیا۔

شمس بادشاہ نے سن کر مہر آور کی بہت معذرت کی اور کہا کہ احسان تمہارا مجھ پر ہے جو اس جوان کو صحیح و سلامت مجھ تلک پہنچایا۔ میں رات دن اس کے لیے غم گین رہتا تھا، بلکہ زندگانی مجھ پر تلخ تھی۔ الحمد للہ یہ جیتا جاگتا خدا کے فضل سے اور تمہاری بہ دولت آ ملا۔

پھر مہر آور شاہ کو لشکر سمیت ایک باغ میں اتارا، چالیس روز تک مجلس نشاط اور عیش گرم رکھی۔ غرض جتنے حقوق مہمان داری کے تھے سب بجا لایا۔ اکتالیسویں دن شہ زادہ مہر آور نے حاتم اور شمس بادشاہ سے رخصت چاہی، اپنے ملک کی راہ لی۔


صفحہ ۳۵۶

بعد اس کے بادشاہ نے حاتم سے کہا "اے یمن کے شہ زادے! تو نے نہایت راہ کی مشقت، سفر کی مصیبت کھینچی ہے، اب بھی تیرا ملک دور ہے لیکن خاطر جمع رکھ کہ ایک دم میں تجھے تیرے شہر میں پہنچا دیتا ہوں۔"

یہ کہہ کر کئی پری زادوں سے فرمایا کہ ابھی شہ زادۂ حاتم کو اُڑن کھٹولے پر بٹھلا کر یمن میں پہنچا دو۔

حاتم نے کہا "مجھ کو یمن سے کچھ کام نہیں بلکہ شاہ آباد کو جانا منظور ہے، یہ فرمائیے کہ وہیں پہنچا دیں۔"

پری زادوں نے وہیں اُس کو کھٹولے پر بٹھلا کے شاہ آباد کا رستہ لیا، رات دن چلے گئے۔ جب ماندے ہوتے کسی دل چسپ جگہ اُتر پڑتے، قدرے دم لے کر پھر اُڑتے؛ اسی طرح سے بعد ایک مہینے کے نواح شہر میں جا پہنچے۔

حاتم نے اپنی رسید لکھ کر پری زادوں کو دی اور رخصت کیا، آپ شہر میں داخل ہوا۔ لوگوں نے حسن بانو کو خبر پہنچائی کہ وہ جوان پرھ صحیح و سلامت آن پہنچا۔

اس نے بہ دستور پردہ کر کے اندر بلا لیا اور ایک طلائی کرسی پر بٹھلایا۔ حاتم نے کچھ بات نہ کی، بیٹھتے (۱) ہی دلمیاں (۲) سے اُس موتی کو نکال کر سب لوگوں کو دکھلایا، پھر اس میں رکھ لیا اور سرگذشت ساری بیان کی۔ پھر نکال کر حسن بانو کو
-----------------------------------------------------------------------------------------
(۱) نسخۂ مطبوعہ بمبئی میں (صفحہ ۲۷۷) "بیٹھے" ہے لیکن "بیٹھتے" ہونا چاہیے اس لیے درست کیا۔ فائق
(۲) "دلمیاں" نسخۂ مطبوعہ بمبئی (صفحہ ۲۷۷)- غالباً "ھمیانی" ہو گا۔ مرتب


صفحہ ۳۵۷

دیا، وہ نہایت شاد ہوئی اور حاتم کی ہمت پر آفرین و تحسین کرنے لگی۔

اتنے میں حاتم اُٹھ کھڑا ہوا، اُس سے رخصت ہو کر مہمان سرائے میں آیا اور منیر شامی سے ملا، اپنا تمام ماجرا کہہ سنایا۔ پھر اُس کی ہاتھ اپنےہاتھ میں لے کر کہنے لگا کہ لے اب خوش ہو، خاطر جمع رکھ، وصال یار نزدیک ہے؛ ایک سوال رہ گیا ہے ان شاء اللہ تعالٰی اُس کو بھی پورا کرتا ہوں۔

منیر شامی یہ سن کر بے اختیار حاتم کے پاؤں پر گر پڑا، اُسے اُٹھا کر گلے لگا لیا؛ غرض دونوں ملے جلے سات روز تک باہم رہے۔

جب حاتم نے دیکھا ماندگی بدن کی بالکل رفع ہوئ، آٹھویں دن پوشاک بدل حسن بانو کے دروازے پر آیا۔ چوب داروں نے خبر کی، اُس نے بہ دستور اند بلا کر کرسئی مرصع پر بٹھایا۔

حاتم نے کہا "اب ساتواں سوال بیان کیجیے۔"

حسن بانو بولی "اب ‘حمام باد گرد‘ کی خبر لاؤ کیوں کہ حمام کو گردش سے کیا کام۔ میں نے سنا ہے کہ وہ چکی کی طرح پھرتا ہے، پھر اُس میں لوگ کیوں کر نہاتے ہیں؟ لازم ہے کہ اُس کا احوال اور اُس کی بنیاد کا تحقیق کر کے آؤ"

حاتم نے کہا "اتنا جانتی ہو وہ کدھر ہے؟"

حسن بانو بولی "دکھن اور پچھم کے کونے میں، پر اُس کی پیدائش نہیں معلوم، اور یہ بھی نہیں جانتی کہ کس پردے میں ہے۔"


صفحہ ۳۵۸

یہ بات سن کر حاتم حسن بانو سے رخصت ہوا اور مہمان سرائے میں آیا۔ منیر شامی کی بہت سی تسلی اور دل داری کی اور کہا "ان شاء اللہ تعالٰی اب کا سفر کر آؤں تو تیری معشوقہ کو تجھ سے ملاؤں، اپنے قول سے سچا ہوں۔" یہ کہہ کر منیر شامی سے رخصت ہوا۔
 

محمد عمر

لائبریرین
281

حاتم بھی اس ہندو کے ساتھ چلا آیا۔

تب اس ہندو نے کہا کہ اے جوان! کیوں دیکھا تو نے۔ عورتیں اپنی رضا و رغبت جلتی ہیں، کوئی ان پر زور و ظلم نہیں کرتا، اور شرط محبت کی یہی ہے۔

حاتم نے کہا "یہ سچ کہتے ہو، پر طریق دوستی و وفاداری کا یہ ہے کہ اس کے پیچھے آتش فراق میں جلیں کیوں کہ وہ آگ اس آگ سے بھی تیز تر ہے۔" غرض بعد کئی دن کے پھر حاتم نے کہا کہ اے عزیز! مجھ کو کوہ ندا کی طرف جانا ہے، رخصت کر ۔

یہ بات سن کر اس ہندو نے کہا کہ اے جوان! کوہ ندا یہاں سے بہت دور ہے، تو نہ پہنچ سکے گا۔

حاتم نے کہا کہ خدا کریم و کار ساز ہے، وہ بہ ہر صورت پہنچا ہی رہے گا۔ یہ کہہ کر وہاں سے رخصت ہوا۔ ملک ملک گاؤں گاؤں کی سیر کرتا ہوا اتر کی طرف جا پہنچا کہ ایک شہر دکھلائی دیا۔ جب اس کے قریب جا پہنچا تو لوگوں کو دیکھا کہ بہت سے جمع ہیں اور شور و غل کرتے ہیں۔ جا کر ان سے پوچھا کہ اے یارو! اس شور کرنے کا سبب کیا ہے؟ کسی نے کہا کہ یہاں کے رئیس کی بیٹی مر گئی ہے، ہم سب چاہتے کہ اس کے خاوند کو بھی اس کے ساتھ گاڑیں۔ وہ اس بات کو قبول نہیں کرتا، اسی واسطے یہ شور و غوغا ہے۔

حاتم نے کہا کہ تمھارا رئیس کہاں ہے؟ مجھ کو اس کے پاس لے چلو، میں کچھ اس سے کہوں گا۔ یہ بات سن کر وہ اس کو اپنے سردار کے پاس لے گئے۔

حاتم نے اس کو دیکھتے ہی کہا کہ اے مرد بزرگ!

282

تمہاری کیا رسم ہے جو جیتے کو مردے کے ساتھ گاڑتے ہیں، اس پر کہ وہ غریب راضی نہیں، زبردستی کرتے ہو اور خدا سے نہیں ڈرتے۔

وہ بولا کہ اے عزیز! یہ جوان بھی تیرے ہی طرح سے مسافر اس شہر میں وارد ہوا تھا۔ چند روز یہاں رہ کر میری بیٹی کو چاہنے لگا، نداں ہم لوگوں میں مل گیا۔ اور اس شہر کا یہ دستور شے کہ جب تک لڑکی یا لڑکا اپنی جوانی پر نہیں آتا تب تک ہم لوگ اس کو اپنی رضا و رغبت سے نہیں بیاہتے جب تک کہ آپس میں عشق و محبت نہ ہو بلکہ حد سے گزر جائے، یہاں تک کہ ہر ایک اپنی خوشی سے اقرار کرے کہ جو کوئی تم میں سے مر جائے گا تو اس کے ساتھ دوسرا جیتے جی گڑے گا، تب تم ان دونوں کو بیاہ دیتے ہیں۔ چنان چہ یہ جوان بھی ہماری رسم سے آگاہ ہو کر اس لڑکی پر عاشق ہوا تھا۔ جب محبت کامل دیکھی تب میں حاکم شہر کے پاس ان دونوں کو لے گیا۔ اس نے ان سے کہا کہ ہمارے ملک کی یہ رسم ہے، جو عورت مر جائے تو شوہر کو اس کے ساتھ دفن کرتے ہیں، جو خاوند مر جائے تو جورو کو اس کے ساتھ گاڑ دیتے ہیں۔ اس بات کو ان دونوں نے قبول کیا، تب ہم نے ان کا عقد باندھ دیا۔ یہ کیا انصاف نے کہ ایک مدت تک اس سے چین کرتا رہا اور اس کی جوانی کے باغ سے گل عیش لوٹتا رہا۔ اب وہ جو مر گئی ہے تو یہ اپنی خوشی سے اس کے ساتھ نہیں گڑتا اور اپنے اقرار پر ثابت قدم نہیں رہتا۔ اس میں کس کا قصور نے، کچھ ہم زبردستی سے کسی کو نہیں گاڑتے، اگر اس کو باندھ کر قبر میں رکھ دیں تو البتہ ظلم ہے۔ تو ہی پوچھ کہ یہ اپنے قول سے کیوں پھرا ہے

283

اپنے وعدے کو کیوں نہیں وفا کرتا؟

یہ بات سن کر حاتم اس کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اے جوان! تو کس لیے اپنے کہنے پر عمل نہیں کرتا، کب تلک جیے گا آخر مرنا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ جو کچھ تو نے کہا ہے، اس پر ثابت رہ۔

اس نے کہا "اے مسافر! تو بھی اُنہیں میں مل گیا جو یہ بات کہتا ہے، تو اپنے شہر کا دستور بیان کیوں نہیں کرتا۔"

حاتم نے کہا "میں کیا کہوں، تو آپ ہی اقرار کر چکا ہے، اب پھرنے سے تجھے شرم نہیں آتی۔"

اس نے کہا کہ یہ مجھ سے کبھی نہ ہو گا جو میں ان کا کہا کروں اور جیتے جی اس مردے کے ساتھ گڑوں۔

حاتم نے معلوم کیا کہ سب کے سب اس کو بے گاڑے نہ رہیں گے اور یہ بھی اپنی خوشی سے نہ گڑے گا۔ اس بات کو لحاظ کر کے اس نے اپنے شہر کی بولی میں کہا کہ تو خاطر جمع رکھ، میں تجھے اس قبر سے کسی نہ کسی طرح نکال لوں گا ، پر اب ان کے سامنے اس میں گڑ۔

اُس نے کہا کہ اگر گڑوں گا تو تیرے نکالنے کے وقت تک جیتا کیوں کر رہوں گا؟

پھر حاتم نے اُس کی تسلی کر کے اُن لوگوں سے کہا کہ یارو! یہ اجل گرفتہ اپنی بولی میں کہتا ہے کہ ہمارے شہر کا یہ دستور ہے کہ قبر کو بہ طور حجرے کے بناتے ہیں؛ اگر یہ بھی اسی طرح سے بنا دیں گے تو اپنی خوشی سے گڑوں گا۔

284

اس سخن کر سن کر وے کہنے لگے کہ یہ بات حاکم سے تعلق رکھتی ہے، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ جو کہے گا سو کریں گے۔ حاتم اُن سبھوں کو وہاں کے حاکم کے پاس لے گیا۔ وہ سب کے سب کہنے لگے "’خداوند! یہ شخص ہرگز گڑنے پر راضی نہیں ہوتا۔ پر یہ بات کہتا ہے کہ جس صورت سے میرے ملک میں گور بنتی ہے، اگر اُس ڈھب کی بناؤ گے تو میں قبول کروں گا۔"

حاکم نے کہا کہ اس کے شہر میں قبریں کس طرح کی بنتی ہیں؟

حاتم نے کیا "حضرت سلامت! کوٹھڑی کی طرح اور بہت بڑی کہ جس میں دس بیس آدمی اچھی طرح سے بیٹھیں لیٹیں۔"

یہ بات حاتم کی زبانی سنتے ہی حاکم سر بہ زانو ہوا۔ بعد ایک دم کے سر اُٹھا کر کہنے لگا کہ خیر جس طرح کی گور بنانے کو کہتا ہے ویسی ہی تیار کرو۔ بات یہ ہے کہ وہ اپنی خوشی سے گڑے۔

یہ سن کر وہ لوگ پھر آئے اور ایک قبر ویسی ہی بنائی۔ تب حاتم نے ان لوگوں کی آنکھ بچا کر کہا کہ ہرگز اندیشہ نہ کر، میں رات کے وقت تجھے اس میں سے نکال لے جاؤں گا۔ وہ اس بات پر حاتم کی راضی ہوا اور اُن لوگوں سے کہنے لگا کہ اے یارو! اب دیر نہ کرو، جو تم کیا چاہتے ہو سو مجھے قبول ہے۔ آخر انہوں نے ان دونوں کو اس قبر میں گاڑ دیا اور ایک پتھر سے اس کے منہ کو بند کر کے حاتم سمیت اپنے شہر کو گئے۔

پھر اُس کی مہمان داری کی اور ایک مکان ستھرا سونے کو دیا، وہ منتظر رات ہونے کا تھا کہ کسی طرح سے اُس شخص کو

285

قبر سے باہر نکال لے۔ جب رات ہوئی اور گھر والے سو رہے تب حاتم اپنے بچھونے سے اُٹھا اور اس کی گور کی طرف گیا۔ اس ملک کا یہ دستور تھا کہ تین روز تک قبر پر مردے کے وارث تمام رات جاگا کریں اور گھر نہ آویں، عورتوں کا منہ نہ دیکھیں۔ چنانچہ اُسی سبب سے حاتم نے تین رات قابو نہ پایا، خالی پھر پھر آیا۔

چوتھی رات لوگ اپنے اپنے گھر آئے، حاتم اُٹھ کر اس گور پر گیا اور وہ شخص گور کے اندر حاتم کو اس طرح سے برا بھلا کہہ کے سو رہا کہ وہ مسافر نہایت جھوٹا اور دغا باز تھا جو مجھ غریب کو اپنی دغا بازی سے اس گور میں گڑوا گیا۔ میں نے خود برا کیا جو ایسے کا کہنا مانا اور اس کے سخن کو سچ جانا، کسی کا اس میں کیا دوس، اپنا کیا اپنے آگے آیا۔ الغرض حاتم اپنا منہ تاب دان پر رکھ کر پکارا کہ اے جوان! میں تجھے نکالنے کو آیا ہوں۔ اس نے جواب نہ دیا، اس نے جانا کہ شاید مر گیا۔ پھر پکارا تب بھی نہ بولا، پھر تو حاتم کو یقین ہوا کہ یہ ہرگز نہیں جیتا؛ نہایت افسوس کیا اور بے اختیار رو دیا؛ تیسری بار یہ آواز بلند پکارا کہ اے جوان! اگر جیتا ہے تو جواب دے نہیں تو قیامت تک اسی گور میں رہے گا، میں اپنے وعدے کو وفا کر چکا ہوں۔

اتنے میں وہ چونکا اور سنا کہ کوئی شخص قبر پر چلا رہا ہے، اُٹھ کھڑا ہوا اور تاب دان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تو کون ہے جو پکارتا ہے؟

حاتم نے جو اس کی آواز سنی سجدۂ شکر بجا لایا اور بولا "میں وہی ہوں کہ جس نے تجھ سے وعدہ کیا تھا۔" یہ کہہ کر


286

خنجر کمر سے نکال لیا اور کھود کر اس کو نکالا، کھانا پانی کھلا پلا کر ایک ساعت کے بعد کہا کہ آب جدھر چاہے اُدھر چلا جا۔

اُس نے کہا کہ میرے پاس خرج راہ نہیں۔ حاتم نے کئی درم کھیسے سے نکال کر دیے، پھر رخصت کیا اور آپ اُس قبر کو درست کر کے اپنی جگہ پر آ کے سو رہا، اس لیے کہ کوئی معلوم نہ کرے۔

اتنے میں صبح ہوئی، تب اُٹھ کر ان لوگوں سے کہنے لگا کہ مجھ کو کوہ ندا کی خبر کو جانا ہے، رخصت کرو۔ اُنہوں نے کہا کہ اے جوان! کوہ ندا یہاں سے بہت نزدیک ہے، بہتر ہے تشریف لے جائیے پر اتنی بات یاد رکھیو کہ تھوڑی دور جا کر ایک دوراہا ملے گا، چاہیے کہ اُس کی داہنی صرف کی راہ اختیار کرے، یقین ہے کہ منزل مقصود کو پہنچے گا۔ حاتم اُن سے رخصت ہوا اور دس روز تک رات دن منزلیں طے کرتا ہوا چلا گیا۔ گیارہویں دن اس دو راہے پر جا پہنچا اور اُس کی نصیحت کو بھول کر بائیں طرف کی راہ چل نکلا۔ حیف ہے کہ راہ کو اُس نے منع کیا تھا وہی راہ اختیار کی۔ بعد دو دن کے کیا دیکھتا ہے کہ تمام جانور کیا درندے کیا گزندے بھاگے ہوئے چلے آئے ہیں۔ یہ ایک کونے میں کھڑا ہو کر دیکھنے لگا کہ شاید کوئی بھیڑیا یا کوئی اور درندہ پیچھے پڑا ہے جو اتنا جی چھپائے گرتے پڑتے چلے آتے ہیں۔ یہ سمجھ کر ایک درخت پر چڑھ گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ بڑے بڑے ہاتھی مست اور گینڈے بھی گھبرائے ہوئے بے اختیار دوڑے آتے ہیں اور ان کے پیچھے چھوٹا سا جانور مہیب صورت، چراغ سی آنکھیں، دم سر پر چھتر کیے چلا آتا ہے۔ حاتم ڈرا کہ یہ

287

کوئی بلائے عظیم ہے کہ جس کے ڈر سے اتنے اتنے بڑے بڑے جانور، درندے بھاگے چلے آتے ہیں، میں غریب کس شمار اور کس قطار میں۔ پھر اپنے دل کو مضبوط کر، خنجر کھینچ مستعد ہو بیٹھا۔ اتفاقاً وہ جانور اُسی درخت کے نیچے آیا اور آدمی کی بو پاتے ہی غرا کر اُچھلا۔ چاہتا تھا کہ حاتم کو پکڑ کر چیر ڈالے، ووں ہی اس نے ایک ایسا خنجر مارا کہ دونوں ہاتھ قلم ہو گئے، گر پڑا اور سنبھل کر نہایت غضب سے لپکا۔ حاتم نے پھر اس کے پیٹ میں ایک خنجر مارا کہ انتڑیاں نکل پڑیں، زمین پر گر پڑا اور گرنے ہی پیشاب کر دُم کو اس میں بھگو کے ہلانے لگا۔ حاصل کلام جہاں جہاں اس کی بوندیں پڑیں وہاں آگ لگ اٹھی۔ جب اس درخت کے پاس پہنچی، حاتم جست کر کے ایک چشمے میں جا پڑا اور وہ جانور مر گیا۔ جب آگ بجھ چکی حاتم جست کر کے پانی سے نکل اُسی درخت کے تلے آیا اور اس جانور کے چار دانت جو خنجر کے برابر تیز تھے، اُکھاڑ لیے اور دُم دونوں کانوں سمیت کاٹ لی، پھر ترکش میں رکھ کر آگے چلا۔

بعد کئی دن کے دور سے ایک قلعہ دکھلائی دیا، اسی طرف متوجہ ہوا۔ جب نزدیک پہنچا اُسے سنسان پایا، اور کنگورے اُس کے آسمان سے لگے دیکھے۔ ندان اندر گیا تو کیا دیکھتا ہے بڑی بڑی عمارتیں اس میں آئینہ وار چمک رہی ہیں اور بازار چوپڑ کا نہایت ستھرا، صاف اور آراستہ ہو رہا ہے اور جس دوکان میں جو چیز چاہیے سو موجود ہے، مگر آدمی کا نام و نشان نہیں۔

یہ احوال دیکھ کر حیران ہوا۔ دل میں کہنے لگا کہ کوئی بلا یا دیو اس شہر میں آیا ہے کہ اُس کے ڈر سے یہاں کے لوگ

288

اپنی اپنی دوکانیں چھوڑ چھوڑ بھاگ گئے ہیں۔ یہ بات دل میں کہتا ہوا آگے بڑھا یہاں تک کہ خاص قلعہ بادشاہی تک جا پہنچا۔ اس میں بادشاہ اپنے آل و عیال اور گھر بار، مال و اسباب و اجناس سمیت رہتا تھا اور دو چار نوکر چاکر بھی باہر کے دروازے پر دریچوں میں بیٹھے تھے۔

حاتم کو دیکھ کر ایک بولا کہ بعد مدت کے ایک مسافر اس شہر میں آیا۔

دوسرے نے کہا کہ اس کو پکارو جو ادھر آوے، یہ بات سن کر ایک شخص نے پکارا۔

حاتم ایک درجے کے نیچے کھڑا ہو رہا۔ بادشاہ نے کھڑکی سے سر نکال کر کہا کہ اے جوان! تو کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟

حاتم نے عرض کی کہ میں یمن کا رہنے والا ہوں، شاہ آباد سے آیا ہوں اور قصد کوہ ندا کا رکھتا ہوں۔

یہ بات سن کے بادشاہ نے کہا "اے جوان! تو راہ بھول گیا جو بائیں طرف کے رستے سے آیا، شاید تیری موت تجھ کو یہاں لائی ہے، اسی وقت سے تو جان کہ جہان سے جا چکا۔"

حاتم نے التماس کیا کہ اگر یہی خدا کی خواہش ہے تو دل سے راضی ہوں، لیکن تو اپنا ماجرا کہہ کہ بہ ظاہر دولت مند معلوم ہوتا ہے پھر قلعہ بند کیوں ہوا ہے؟ سچ بتلا کہ تو کون ہے؟

اُس نے کہا کہ میں اس شہر کا بادشاہ ہوں اور اس ملک میں بلائے عظیم چند روز سے آتی ہے، اس کے سبب سے کیا رعیت،

289

کیا سپاہ، جس طرف جس کی بنی مجھے چھوڑ کر چلے گئے، شہر ویران ہو گیا اور میں محتاج۔ لیکن ان کا بھی اس میں کچھ قصور نہیں کیوں کہ اُس بلا سے کسی شیر کی طاقت نہیں جو عہدہ برآ ہو سکے اور میں اپنی شرم و حیا سے آل و اطفال سمیت قلعہ بند ہو کر بیٹھا ہوں، اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ اُسے ماروں، لاچار ہو کر گوشہ گیری توکل بہ خدا اختیار کی ہے۔

حاتم نے کہا "اے بادشاہ! بلا کوئی دیو ہے یا کوئی درندۂ عظیم ہے کہ کوئی اس کے سامنے ہو نہیں سکتا؟"

بادشاہ نے فرمایا کہ مسکن اس کا کوہ قاف میں ہے مگر تھوڑے دنوں سے یہاں اس کا گزر ہونے لگا ہے، اسی کے باعث تمام ملک ویران ہو گیا ہے۔ ہر روز ایک وقت اس کو آنا اور دو چار آدمیوں کو کھا کر چلے جانا، مگر آج تک اس کا قدم قلعے میں نہیں آیا، اس واسطے کہ ایک خندق عظیم اس کے گرد پانی سے مدام بھری رہتی ہے، معلوم نہیں کہ وہ کیا ہے۔

یہ بات سن کر حاتم بولا کہ اے بادشاہ! تجھے مبارک ہو کہ میں نے اس کا کام تمام کیا فلانے جنگل میں۔ خدا مسبب الاسباب ہے جو میں کوہ ندا کی راہ بھول کر بائیں طرف کو آ نکلا۔ پھر تمام ماجرا اس جانور کا اور اپنا بیان کیا۔

اس بات کے سنتے ہی وہ اپنے قلعے سے اترا اور حاتم کو گلے لگا کر اندر لے گیا، بہ عزت تمام مسند پر بٹھایا، کھانے اقسام کے منگوا کر اس کے آگے چنوائے۔ حاتم نے بہ خوبی اُن کو تناول فرمایا اور بادشاہ بھی اس کا شریک طعام رہا؛ پھر آب خاصہ منگوا کر نوش جان کیا اور اس کو بھی پلایا۔ بعد اس کے کہا "میں کیوں کر باور کروں کہ وہ بلاے بد ماری گئی؟"

290

تب حاتم نے اس کی دُم اور دانت و کان ترکش سے دکھلا دیے۔

بادشاہ اُن کے دیکھتے ہی حاتم کے پاؤں پر گر پڑا اور بہت سی شکر گزاری کی۔ پھر ہر ایک طرف شقے پروانے لکھ کر لوگوں کو بھجوائے کہ وہ بلا دفع ہوئی، تم ندھڑک آپ اپنے ملک میں بسو اور اوقات بہ خوبی بسر کرو۔

بعد چند روز کے حاتم نے رخصت چاہی اور عرض کی کہ ایک رھبر میرے ساتھ کر دو کہ کوہ ندا کا رستہ بتلا دے۔

بادشاہ نے فرمایا کہ اے جوان! بہ شہر اب خدا کے فضل سے آباد ہو جائے گا، اسے اپنا ہی سمجھ، بود و بوش یہیں اختیار کرو، میں اپنی بیٹی تمہاری خدمت میں دیتا ہوں، اُس کو قبول کرو۔

حاتم نے کہا "جب تک میں بندگان خدا کے کاموں سے فراغت نہیں پاتا عیش دنیا کا حرام جانتا ہوں۔"

بادشاہ نے یہ کلمہ سن کر کہا "آفرین تیری ہمت و جوان مردی پر اور ایک رہبر ساتھ دے کر رخصت کیا۔" حاتم اس کے ساتھ ہوا۔ تھوڑی دور جا کر وہ کہنے لگا کہ اے حاتم! کوہ ندا کو یہی سیدھی راہ ہے، اب ندھڑک چلا جا۔ حاتم اس کو رخصت کر کے اُدھر متوجہ ہوا۔ بعد چند روز کے ایک شہر آباد میں جا پہنچا، وہاں کے لوگ اس کو حاکم کے پاس لے گئے۔

اس نے اُٹھ کر تعظیم کی اور پوچھا کہ اے مسافر! تو یہاں کہاں سے آیا ہے؟ کیوں کہ اس شہر میں سکندر بادشاہ تشریف لائے تھے، اب تجھ کو دیکھا؟ اس کا سبب کیا ہے، سچ کہو

291

حاتم نے کہا کہ مجھ کو حسن بانو برزخ سوداگر کی بیٹی نے بھیجا ہے کہ تو جا کر کوہ ندا کی خبر جو ٹھیک ٹھیک ہو سو لے آ۔ حق تو یہ ہے کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے میں نے بہت سے رنج کھینچے، اب امیدوار اس بات کا ہوں کہ اگر تم اس کے بھید سے واقف ہو تو عند اللہ کہہ دو، عین بندہ نوازی و مسافر پروری ہے کیوں کہ مصیبت میری راحت سے مبدل ہو جاوے۔

رئیس شوہر نے کہا کہ راز کوہ ندا کا ایسا نہیں جو سرسری بیان ہو سکے۔ اگر تو چند روز یہاں رہے گا تو معلوم کرے گا۔

حاتم نے کہا "بہت اچھا۔" حاکم نے اُس کے رہنے کو ایک مکان عالی شان، فرش و فروش پاکیزہ سے آراستہ کروا دیا۔ حاتم اُس میں رہنے لگا اور دونوں وقت آب و طعام گرم و سرد، پاکیزہ و لطیف بھیجنے لگا اور آپ بھی اکثر اس سے ہم صحبت ہوا کرتا۔

ایک دن سو دو سو آدمیوں میں حاتم سمیت بیٹھا ہوا کچھ باتیں کر رہا تھا، اتنے میں تذکرہ کوہ ندا کا آ پڑا۔ اُن لوگوں سے پوچھا کہ کوہ ندا کون سا ہے؟ اُنہوں نے عرض کی "خداوند! کوہ ندا وہ ہے کہ جس کے قلعے کی ہر ایک دیوار آسمان سے لگ رہی ہے اور اس سے خود بہ خود آواز آتی ہے۔" یہ اُسی گفتگو میں تھا کہ اتنے میں ایک آواز اُس پہاڑ کی طرف سے آئی کہ "یا اخی، یا اخی۔" اُس مجلس میں سے ایک جوان خوش رو بے اختیار دوڑا ۔

لوگوں نے اس کے وارثوں سے جا کر کہا کہ فلانے شخص کی کوہ ندا سے طلب ہوئی ہے، وہ چلا۔ اس بات کے سنتے ہی

292

وہ سب دوڑے آئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ تمام منہ اس کا سرخ ہو رہا ہے، لوگ اس کے گرد ہیں، وہ بے اختیار کوہ ندا کی طرف چلا جاتا ہے۔

یہ حال دیکھ کر حاتم بھی حیران ہو کر پوچھنے لگا کہ اے یارو ! اس جوان کو بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا کہ دیوانوں کے مانند دوڑا جاتا ہے، نہ کچھ کہتا ہے نہ سنتا ہے۔

لوگوں نے کہا "اس کو کوہ ندا سے ندا آئی ہے کہ شتابی آ۔"

حاتم نے اپنے جی میں کہا کہ بارے معلوم ہوا کہ کسی نے بلایا ہے جو ایسا اُڑا جاتا ہے۔ اس بات کو سوچ کر اُس کو پکڑ لیا اور کہا "اے بھائی! یہ مروت سے دور ہے جو تو نہیں بتاتا؛ براے خدا کہہ دے کہ کس کے بلائے پر ہم سب کو چھوڑے چلا جاتا ہے؟" غرض ہر چند حاتم نے سر پٹکا، پر اُس نے جواب نہ دیا اور ہاتھ جھٹک کر بھاگا اور پہاڑ کے تلے جا پہنچا، حاتم بھی اس کے پیچھے لپک چلا گیا کہ یکایکی پہاڑ حاتم کی نظروں سے غائب اوجھل ہو گیا، اس نے ہر چند نظر گڑا گڑا کر دیکھا، سوائے رنگین پتھروں کے کچھ نہ سوجھا۔

تب بہت حیران ہوا، ندان لوگوں کے ساتھ ہو کر شہر میں پھر آیا۔ حاصل یہ ہے کہ ہر ایک شخص اپنے گھر آیا پر کوئی اس کے واسطے نہ رویا بلکہ بہت سا کھانا بانٹا خوشی کی، پھر اپنے اپنے کام میں مشغول ہوئے۔

تب حاتم نے پوچھا "اے صاحبو! تم میں سے کسی کو بھی معلوم ہوا کہ اس پر کیا گزرا؟"

اُنہوں نے جواب دیا کہ تو بھی تو موجود تھا، جو تو نے

293

دیکھا سو ہم نے، پھر ہم سے کیوں پوچھتا ہے؟

یہ سن کر حاتم چپ ہو رہا اور اس جوان کے واسطے آب دیدہ ہو کر تاسف کرنے لگا۔

اُنہوں نے کہا کہ اے شخص! یہ رسم ہماری ملک کی نہیں ہے جو کوئی کسی کے واسطے رووے یا غم کرے۔ اگر تو اس شہر میں دو چار روز رہا چاہتا ہے تو ہماری طریق پر رہ، نہیں تو اس بستی سے نکالا جائے گا۔

اس سخن کے سنتے ہی حاتم آنسو پی گیا، پر دل میں اس کا غم کھانے لگا۔ اُنہوں نے اس کو متفکر دیکھ کر پھر کہا کہ اے عزیز! اب کیوں اندیشہ مند ہے؟ احوال کوہ ندا کا یہی جو تو نے دیکھا۔

حاتم بولا "میں نے کیا خاک دیکھا، کچھ بھی معلوم نہ ہوا۔ اسی حیرت میں ہوں کہ حسن بانو کو جا کر کیا جواب دوں گا۔"

غرض چھ مہینے حاتم کو اُس شہر میں گزر گئے اور اس عرصے میں اسی طرح سے پندرہ آدمی اُس پہاڑ کی طرف گئے اور پھر نہ پھرے۔ اتفاقاً ایک شخص حاتم نامی وہاں تھا، حاتم میں اور اس میں نہایت دوستی تھی۔ اور محبت از بس کہ ہو گئی تھی، اسی ڈھب سے وے دونوں رات دن ایک ہی جگہ رہتے تھے اور بہت سے لوگ اُن کے ہم صحبت تھے کہ ناگاہ کوہ ندا کے قلعے کے اندر سے آواز آئی "یا اخی؛ یا اخی۔" اس بات کے سنتے ہی وہ بے چارہ اس پہاڑ کی طرف متوجہ ہوا، اس کے خویش و اقربا کو خبر پہنچی کہ حاتم بھی وہاں بلایا گیا۔

سب آ کر جمع ہوئے اور اسے گھیر لیا، تب حاتم اپنے جی

294

میں کہنے لگا کہ یہ بھی اسی طرف چلا جائے گا؛ افسوس ہے کہ مجھ کو اس سے محبت و اُلفت بہت سی ہو گئی تھی، اب یہ بھی جدا ہوتا ہے، میں اس کو ہرگز نہ چھوڑوں گا۔ اس کا ساتھ دینا مجھ کو ضرور ہے، جو ہونی ہو سو ہو، کیوں کہ یہاں کے لوگوں سے مفصل کوہ ندا کا احوال معلوم نہ ہوا۔ اس بات کو ٹھہرا کر کمر کس کر باندھی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر پہاڑ کی طرف دوڑا۔ ہر چند کہتا تھا کہ بھائی یہ کیا احوال ہے اور تجھے کون کھینچ لیے جاتا ہے، وہ کچھ جواب نہ دیتا تھا۔ آخر جھنجلا کر بولا "اے بے مروت! یہ کیسی دوستی تھی، آخر ہم تم ایک مدت تک ہم نوالہ و ہم پیالہ رہے، اب ایک بات سے بھی گئے۔ تیری زبان کیوں بند ہو گئی، سچ کہہ کہ تجھے کون گھسیٹتا ہے اور تو کدھر جاتا ہے؟ اس نے کچھ دھیان نہ کیا کہ یہ کون سے اور کیا بکتا ہے بلکہ حاتم کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ چھڑانے لگا: ندان یہاں تک زور کیا کہ اس کے ہاتھ چھٹ گئے اور حاتم زمین پر گر پڑا، تب وہ کوہ ندا کی طرف روانہ ہوا۔ حاتم بھی اُٹھ کر اس کے پیچھے لگ لیا، ایک دم میں دونوں آگے پیچھے پہاڑ کے نیچے جا چھپے۔

حاتم نے اُچھل کر اس کی کمر نہایت زور سے پکڑ لی۔ ہرچند اُس نے چاہا کہ اس کو جدا کرے لیکن نہ کر سکا۔ آخر اس طرح سے وے دونوں گرتے پڑتے پہاڑ کے اوپر جا پہنچے۔ جوں ہی نزدیک قلعے کئے گئے، ایک کھڑکی دکھائی دی؛ یہ دونوں لپٹے لپٹائے اس کے اندر چلے گئے، لوگوں کی نظروں سے غائب ہوئے۔

وے ناچار وہاں سے حاتم کا افسوس کرتے ہوئے شہر میں آئے اور حاکم کو خبر پہنچائی کہ مسافر بھی اس کے ساتھ اُسی

295

پہاڑ پر چلا گیا۔ اس بات کے سنتے ہی حاکم غضب ہو کر کہ کہنے لگا کہ اے نادانو! آج تک کوئی بے بلائے اُس پہاڑ پر نہیں گیا، تم نے اس کو کیوں چھوڑا اور کس واسطے جانے دیا۔ یہ وبال اُس غریب کا تمہاری گردن پر پڑا۔

اُنہوں عرض کی "خداوند! ہم نے تو اُسے بہتیرا سمجھایا کہ تو وہاں مت جا، اس نے ہمارا کہا نہ مانا اور کہا کہ وہ میرا یار جانی ہے، میں اس کو ہرگز تنہا نہ چھوڑوں گا، بلکہ جو مصیبت اُس پر پڑے گی میں بھی اُس میں شریک ہوں گا۔ غرض یہ باتیں کر کے رئیس اور رعیت سب کے سب حاتم کے لیے کڑھنے لگے۔

اور وہاں کا احوال یہ ہے کہ جب وہ دونوں کھڑکی سے آگے بڑھے تو محلۂ خموشاں تھا۔ غرض ایک میدان وسیع میں جا پہنچے وہاں ایک ایسا سبزہ زار نظر پڑا کہ نظر کام نہ کرتی تھی؛ گویا فرش زمردی چار طرف بچھا ہے، پر تھوڑی سی زمین اُس میں خالی تھی۔ وہ جوان اس پر پاؤں رکھنے لگا، پاؤں رکھتے ہی چت گر پڑا۔ حاتم نے چاہا کہ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُٹھاوے، اتنے میں منہ اُس کا زرد ہو گیا، آنکھیں پتھرا گئیں، ہاتھ پاؤں سخت ہو گئے۔ یہ احوال اُس کا دیکھ کر حاتم نے اپنے دل میں کہا کہ یہ مر گیا؛ آنکھوں میں آنسو بھر لایا، بے اختیار رونے لگا کہ اُس میں زمین ترق گئی، وہ جوان اُس میں سما گیا، ووں ہی وہ جگہ سبز ہو گی۔

اس ماجرے کو دیکھ کر حاتم نے سجدہ کیا اور کہا کہ دنیا فانی ہے، سب کو مرنا ہے، واقعی اب کوہ ندا کی حقیقت کما حقہ معلوم ہوئی، پس اب یہاں سے چلیے۔ یہ دھن باندھ کے روانہ ہوا۔ تمام دن پھرا پر اُس کھڑکی اور قلعے کا کہیں

296

کھوج نہ ملا۔ خدا جانے کھڑکی کیا ہوئی اور قلعہ کدھر گیا۔ حیران و سرگرداں سات دن تک بے آب و دانہ رہا۔ غرض جینے سے مایوس ہو کر دل میں کہنے لگا "اے حاتم ! تیری موت ہی یہاں لائی ہے جو تو بے بلائے آیا، کیوں کہ نہ اب وہ قلعہ نظر آتا ہے، نہ وہ پہاڑ، نہ وہ شہر۔" اتنے میں ایک دریا کے کنارے جا پہنچا؟ کیا دیکھتا ہے کہ وہ بڑے زور و شور سے بہہ رہا ہے اور اس کا اُور چھور بھی نہیں ملتا۔ یہ نہایت متفکر ہوا اور کہنے لگا "یا الٰہی! اب اسے کیوں کر پار اُتروں، سوائے تیرے کون بیڑا پار کرے گا۔" اتنے میں ایک ناؤ نظر پڑی کہ ادھر ہی چلی آتی ہے۔ جانا اُس نے کہ کوئی ملاح لیے آتا ہے؛ جب کنارے آ لگی تو اس پر کسی کو نہ دیکھا، متعجب ہوا، پھر شکر خدا کا بجا لا کر سوار ہو لیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک دسترخوان میں کچھ لپیٹا دہرا ہے؛ بھوکا تو تھا ہی، فوراً ہاتھ بڑھا کر کھولا تو دو روٹیاں اور مچھلی کے کباب گرما گرم پائے۔ چاہتا تھا کہ کھائے، یہ دھیان آیا کہ شاید ملاح نے اپنے واسطے رکھا ہو، پرائے کا حق کھانا خوب نہیں۔

اتنے میں ایک مچھلی نے دریا سے سر نکال کر کہا کہ اے حاتم! یہ روٹیاں اور کباب تیرا ہی رزق ہے، شوق سے کھا، کچھ اندیشہ جی میں نہ لا۔ یہ کہہ کر غوطہ مار گئی۔

حاتم نے اسی وقت اُس کو نوش جان کیا، پانی پیا اور سجدۂ شکر بجا لایا۔ ووں ہی ایک آندھی ایسی چلی کہ تین دن میں کشتی کو کنارے پر لے گئی۔ حاتم خدا کی حمد کرتا ہوا اس پر سے اُترا اور دل میں کہنے لگا کہ راہ شہر کی کہاں ہے جو وہاں جا کر حقیقت اُس جوان کی لوگوں بیان کروں۔

297

غرض سات رات دن چلتے چلتے گزر گئے پر اُس نے کہیں سراغ راہ اور آب و دانے کا نشان نہ پایا بلکہ ایک درخت بھی نہ دیکھا جس کے پتے بھی چباتا۔ حیران سر گردان چلا جاتا تھا کہ ایک پہاڑ بلند عظیم الشان نظر آیا، اُسی کی طرف متوجہ ہوا۔

تین دن کے بعد اُس کے نیچے جا پہنچا اور جس پتھر کو اُٹھا کر دیکھا، اس کے تلے لہو ہی بہتے پایا۔ فکر کرنے لگا کہ کوئی یہاں نہیں ہے جس سے اُس کا احوال پوچھوں؟ آخر ناچار ہو کر پہاڑ چڑھنے لگا۔ بارہ دن کے بعد اس کے اوپر جا پہنچا تو ایک میدان کف دست دکھائی دیا کہ وہاں کی خاک اور جانور، چرندے پرندے بیر بہوٹی لال ہو رہے ہیں۔ حاتم بھوک پیاس بھولا اور قدم بڑھائے چھ کوس تک چلا ہی گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک دریا لہو کا لہریں لے رہا ہے اور اُس میں جتنے جانور ہیں ایسے سرخ ہو رہے ہیں گویا لہو سے بنے ہیں۔ گھبرایا کہ اس دریا ہے کیوں کر پار ہوں گا۔ ناچار کنارے کنارے چل نکلا کہ کہیں تو اس سے اُترنے کا قابو ملے گا۔ جب بھوک لگتی تو شکار کر کے کھاتا، جب پیاس لگتی تو، مہرہ منہ میں رکھ لیتا۔ ایک مہینہ اسی طرح سے گزر گیا، ندان اسُی (ایسی) جگہ پہنچا کہ جہاں سوائے دریائے خون کے نہ زمین تھی نہ درخت، نہ چرند تھے نہ پرند۔ جی میں کہنے لگا "اے حاتم! ایک مہینے تک تو یہ کچھ رنج و مصیبت سے (سہے)، پاؤں چلنے سے رھے پر گھاٹ نظر نہ آیا؟ اگر دس برس تک یوں ہی پھرے سوائے دریائے خون کے کچھ نہ دیکھے گا؛ خدا کے کارخانے میں دم مارنا آسان نہیں اور جن چیزوں کو اُس نے چھپایا ہے، ان کا کھولنا امکان نہیں۔ اگر وہی فضل کرے تو یہاں سے سلامت

298

منزل مقصود کو پہنچے والا (۱) تجھ سے تدبیر کچھ نہیں ہو سکتی۔ حیف ہے کہ وہاں بے چارہ منیر شامی تیری راہ تک رہا ہے اور تو یہاں اس گرداب بلا میں سسک رہا ہے؛ لیکن اس سے یہ سخت حیرانی ہے کہ کوہ ندا کی خبر حسن بانو برزخ سوداگر کی بیٹی کو کیوں کر ملے جو وہ اُس کے خبر لانے کے لیے لوگوں کو بھیجتی ہے اور بیابان محبت میں ڈالتی ہے۔ یقین ہے کہ اکثر اُس کی خبر لینے کو آئے ہوں گے، پر ناچار محروم ہی پھر پھر گئے ہوں گے۔

اتنے میں یہ سوچ کر کہ کہنے لگا کہ تو نے کچھ اپنے حظ نفس کے واسطے یہ کام نہیں کیا بلکہ ایک بندۂ خدا کے لیے یہاں تک تو آیا ہے۔ اس کے کرم سے امید وار رہ، وہ تجھ کو اس بلا نجات دے گا اور وہ البتہ مراد کو پہنچاوے گا۔ اسی اندیشے میں تھا کہ کچھ چیز دریا میں نمود ہوئی۔ حاتم اُس کی ظرف بہ نظر غور دیکھنے لگا کہ شاید یہ کوئی جانور کے یا لکڑا بہا چلا آتا ہے۔ جب ٹک ایک اور ورے آئی تو کشی ہی تھی، خدا کا شکر کیا اور چڑھ بیٹھا، پھر ویسی ہی روٹیاں اور کباب بہ دستور پائے۔ بے تامل اُنہیں کھایا اور حمد خدا کی بجا لایا۔ جب کسی قریب مانجھ دھار کے پہنچی، ہوا زور سے چلنے لگی اور موجیں بڑی بڑی اُٹھنے۔ حاتم ڈرا اور خدا کو یاد کرنے لگا؛ آخر آنکھیں بند کر کے ناؤ میں لیٹ گیا۔ اتنے میں وہ کشتی مانجھ دھار پر آ گئی، تب لہریں اس کی مانند شعلۂ آتش کے ایسی بلند ہوئیں کہ فلک تک جانے لگیں۔ یہ اور بھی

---

۱۔ "نا تجھ" نسخۂ بمبئی صفحہ ۲۲۶ لیکن اس کے بعد بھی نفی پائی جاتی ہے "نا تجھ سے تدبیر کچھ نہیں ہو سکتی" اس لیے "نا" قلم زد کیا گیا۔ فائق

299

بے حواس ہو گیا، قریب تھا کہ مارے خوف کے جی ڈوب جاوے بلکہ نوبت جان کی آوے۔

غرض سات دن اسی تلاطم میں گزر گئے۔ آٹھویں روز کشتی کنارے پر آ لگی، حاتم اُترا، ناؤ اُلٹی پھر گئی۔ یہ کنارے چلنے لگا اور دل میں کہنا تھا کہ یہ راز کچھ نہ کھلا کہ یہ کشی کون لایا اور کباب روٹی کون دھر گیا۔ سات روز تک اُٹھتے بیٹھتے انہیں سوچوں میں چلا گیا کہ دور سے ایک چیز سفید مانند مواج دریا کے نمایاں ہوئی، حاتم بھچک رہ گیا۔ آگے بڑھ کر کیا دیکھتا ہے کہ ایک دریا نہایت شفاف لہریں مار رہا ہے اور ایسا چمکتا ہے کہ گویا کسی نے چاندی گلا کر بہا دی ہے۔ حاتم تشنگی سے جان بہ لب تھا ہی، کنارے پر آ بیٹھا اور بایاں ہاتھ اس میں ڈالا۔ جوں نکلتا ہے تو پانی تو نہ پایا پر ہاتھ چاندی کا ہو گیا. ہر چند اس کو داہنے ہاتھ سے پاک کیا لیکن وہ جوں کا توں ہی رہ گیا بلکہ بوجھ ہو گیا۔

حاتم نے کہا کہ یہ عجب دریا ہے۔ اگر غوطہ ماروں تو تمام رُوپے کا ہو جاؤں لیکن مارے بوجھ کے چلنا پھرنا نہایت مشکل ہو گا، آخر کار سر بہ زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ مارے اضطراب کے کبھی داہنی طرف دیکھتا تھا کبھی بائیں اور کبھی گریبان میں منہ ڈال دیتا تھا۔ اتنے میں ایک کشتی اسی طرح کنارے پر پہنچی۔ یہ ہوش میں ہو بسم اللہ کر کے چڑھ بیٹھا۔ ایک طباق حلوے کا گرما گرم پاک و پاکیزہ نظر پڑا۔ اُس نے اپنی طرف کھینچ لیا اور خوب سا کھایا، پھر پاؤں پھیلا کر بہ آرام تمام سو رہا۔ بعد کتنے دن کے کشتی کنارے پر جا پہنچی ، اُتر کر آگے بڑھا، پر ہر وقت اپنا ہاتھ دیکھا کرتا تھا۔ چار دن کے بعد ایک پہاڑ نمودار ہوا۔ جانا اُس نے کہ یہ نزدیک ہے

300

حالاں کہ وہ ایک مہینے کی راہ پر تھا۔ غرض شکار کرتا ہوا اور میوے کھاتا ہوا چلا جاتا تھا۔ جب وہ تین دن کی راہ پر رہ گیا، سنگ ریزے سفید و زرد و سرخ و سبز نہایت خوش رنگ نظر آنے لگے۔ اس سے جو آگے بڑھا تو الماس و زمرد و لعل جا بہ جا پڑے تھے۔ اُس وقت طمع نے لیا، کتنا جواہر قسم اول اُٹھا کر جیب میں ڈال دیا اور آگے چلا۔ تھوڑی دور چل کر کیا دیکھتا ہے کہ اُس جواہر سے بھی یہاں بیش قیمت بہت سا پڑا ہے۔ اُس کو پھینک دیا، اس کو جیب و دامن میں بھر لیا اور دل میں کہا کہ اگر یہ جواہر شہروں میں پہنچے تو اس کی قیمت کوئی نہ دے سکے۔ اسی خیال میں چلا گیا، آخر اُس کے بوجھ سے تھک کر کسی جگہ بیٹھ گیا اور کئی لعل، زمرد، الماس بیش قیمت جو سب سے بڑے تھے چن لیے، باقی وہیں پھینک دیے۔

پھر راہی ہوا، ایک چشمے پر جا پہنچا، اُس کے کنارے بیٹھ گیا، اپنے ہاتھ پاؤں دھوئے؛ اتنے میں بائیں ہاتھ پر جو نظر پڑی تو اس کو جیسا تھا ویسا ہی پایا مگر ناخن روپے کے رہے۔ خدا کا شکر کیا اور کہنے لگا کہ یا الٰہی! اس دریا میں تو ہاتھ چاندی کا ہو گیا تھا، اس چشمے کے بیچ حالت اصلی پر آ رہا، اس میں کیا بھید ہے۔ اتنے میں رات ہو گی، اسی جگہ پر رہا۔

یک یکی دو شخص اُس چشمے سے نکلے کہ سر اُن کے مانند آدمی کے تھے اور پاؤں مثل ہاتھی کے، ناخن شیر کے سے، رنگ نہایت سیاہ۔ حاتم ڈر کر اُٹھ کھڑا ہوا کہ ہہ کیا بلا ہے۔ اگر بھاگوں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے اور ٹھہروں تو ٹھہر نہیں سکتا، دیکھیے تقدیر میں کیا ہے، ندان تیر و کمان اُٹھا کر چاہتا تھا کہ مارے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 341
کہ وہ آدمی وہاں نہیں ہے۔وہ غصے ہو کر آپ ہی اس باغ میں جو آیا، دیکھا تو واقعی نہیں ہے۔ پھر تو دیووں پر نہایت جھنجلایا کہ اے نمک حرامو! مقرر تمہیں نے اُس کو کھایا ہے، دیکھو تو کیا مزہ چکھاتا ہوں۔ یہ کہہ کر کئی دیووں سے کہا کہ ان کو قید کرکے خوب سا مارو۔
اُنہوں نے حضرت سلیمانؑ کی قسم کھا کر عرض کی کہ ہم نے اُس کو ہاتھ بھی نہیں لگایا، کھانا تو ایک طرف۔
اُس نے فرمایا ”تم جھوٹے ہو، مجھے ہرگز باور نہیں آتا۔“
یہاں کاتو ذکر یہ ہے اور وہ پری زاد حاتم سمیت جب دریائے قہرمان پر پہنچے ، اتفاقاً مہا کال کا ایک دیو بھی اُس کے جزیرے میں گیا تھا، اُن کو پہچان کر اُتر پڑا۔ چاہتا تھا کہ حاتم کا ہاتھ پکڑ کر اُڑا لے جائے، وہیں شہ زادہ مہر آور نے ایسی تلوار ماری کہ اُس کا ہاتھ شانے سے جدا ہو کر گر پڑا۔
وہ یہ کہتا ہوا بھاگا ”بھلا کیا اے پری زادو! تم نے آدمی کی خاطر میرے ہاتھ میں تلوار ماری، ابھی اس پردے کے دیووں کو خبر کرتا ہوں کہ کئی پری زاد آدمی کو لیے جاتے ہیں۔ دیکھو تو کیسا بدلا لیتا ہوں۔“
مہر آور نے یہ سن کر کہا کہ تو کس پردے کا رہنے والا ہے؟
وہ بولا کہ میں مہا کال کے دیووں میں سے ہوں۔
شہ زادے نے فرمایا ”جا اپنے مہاکال سے کہہ کہ میں اُس آدمی کو لیے جاتا ہوں۔ خبردار رہ۔ اگر اُدھر سے پھروں گا تو تیرے شہر کو تاخت و تاراج کر کے خاک سیاہ کروں گا۔ “
صفحہ 342

یہ سن کر وہ دیو ہوا ہو گیا۔ پھر اُن کو بھی پری زاد بہ دستور لے اُڑے ۔ اتنے میں قریب ایک جنگل کے جا پہنچے؛ وہاں حاتم سے کہنے لگے کہ یہاں ہماری حد تمام ہوئی ، آگے نہیں جا سکتے ، ہم کو رخصت کرو۔
مہر آور بولا ”اے جوان! میں تیرا ساتھ نہیں چھوڑوں گا، ہر حال میں تیرا شریک رہوں گا۔ “
ندان حاتم کھٹولے سے اُتر پڑا، چاروں کو رخصت کیا۔ پھر مہر آور سے کہا کہ مجھ کو یہ منظور نہیں جو میرے باعث سے کچھ تجھ کو ایذا پہنچے لیکن اتنا دریافت کیا چاہتا ہوں کہ اس جنگل سے گزارا کیوں کر ہو۔
اُس نے کہا ”آگے تو پری زاد بھی اس طرف نہ جا سکتے تھے کیوں کہ یہاں کے دیو اُن کو ستاتے تھے بلکہ جان کے خواہاں ہوتے تھے؛ چنانچہ ایک دن پری زاد بہت سے جمع ہو کر دیووں سے لڑے، طرفین کے ہزاروں ہی مارے پڑے، مردم آزار و ایذا دہندہ ہیں“
حاتم نے کہا ”اگر میں دیو بن کر اس جنگل سے چلوں تو کیوں کر راہ طے کریے “۔
مہر آور بولا ”میں تمام دن ہوا میں اُڑوں گا، رات پڑے پر جہاں تو اُترے گا اُتر پڑوں گا۔“
تب حاتم نے جانور کا لال پر نکال کر جلایا اور پانی میں اُس کی راکھ گھول کر اپنے بدن پر ملی، وہیں دیو کی صورت ہو گیا، جنگل کے چرند درند بھاگنے لگے۔ غرض تمام دن چلتا، شام کو جہاں رہ جاتا وہیں مہر آور بھی آ ملتا۔ ایک دن مہرآور نے پوچھا ”اے حاتم! یہ پر کس جانور کے ہیں؟“

صفحہ 343

اُس نے کہا ”اُن کے جن سے اُس موتی پیدا ہونے کی حقیقت اور جس صورت سے ایک موتی ماہ پار کے ہاتھ لگا تھا، اُس کی کیفیت سنی گئی تھی۔“اور کہا”اے مہر آور! میں جب شاہ آباد سے نکلا تھا تب متفکر ہوا کہ ایسا موتی کس دریا میں ہوتا ہے اور میں کیوں کر پاؤں گا۔ غرض ٹھہر کر ایک درخت کے تلے سر بہ زانو بیٹھ گیا کہ ایک جوڑا خوش رنگ جانوروں کا بھی اُس درخت پر آ بیٹھا۔ مادہ نے پہلے تو اُس جنگل کی آب و ہوا کو اپنے نر کے سامنے برا کہا، پھر دریائے قہرمان کا ماجرا بیان کر کے میرا احوال پوچھا کہ یہ کون ہے جو اس صورت سے غم گین بیٹھا ہے؟ اُس نے میری سرگذشت، اور پیدایش اُن موتیوں کی، حقیقت اُن جانوروں کے ناپیدا ہونے کی جن کے یہ انڈے ہیں، بیان کی اور مجھے اپنے پر دیے۔ اور مفصل احوال ماہ یار سلیمانی کے روبہ رو کہوں گا، تو سن لیجییو۔“ حاصل یہ ہے کہ حاتم نے سارا ماجرا اُس سے نہ کہا، اس واسطے کہ مبادا یہ آگے چلا جائے، اپنا کام کر لے، میں محروم رہ جاؤں۔ غرض مہر آور کی اتنے ہی احوال سے خاطر جمع ہو گئی کہ میرا کام بھی اسی کی بہ دولت ہو گا۔
یہ باتیں آپس میں کر کے مہر آور تو آسمان کی طرف ہوا ہوا، حاتم آگے چلا۔ غرض رات کو تو ایک جا رہتے تھے، صبح کو اپنے اپنے طور پر راہی ہوتے تھے۔ ایک رات کا ذکر ہے کہ ایک سہانی سی جگہ میں دونوں سو گئے تھے کہ سلوک ساز کے دیووں میں سے ایک اُن کے سرہانے آ پہنچا۔ دیکھا اُس نے کہ ایک دیو اور پری زاد پاس پاس سوتے ہیں۔
اُس نے جا کر اور دیوؤں سے خبر کی۔ جب وے آئے تو دیکھ کر آپس میں کہنے لگے کہ اس کو اپنے بادشاہ کے پاس

صفحہ 344

سے چلا چاہیے۔
اُنہیں میں سے ایک نے کہا ”اے یارو! ان بے چاروں کو ایذا دینا کیا ضروری ہے، کچھ یہ ہماری قوم سے نہیں ہیں اور نہ کچھ اُنہوں نے تقصیر کی ہے۔ شاید اور کسی پردے کے ہیں، کچھ کام کو جاتے ہیں، رات کا وقت دیکھ کر سو رہے ہیں۔“
لیکن پری زاد فی الحقیقت جاگتا تھا۔ اُن کی باتیں اُس نے سب سنی(سنیں)۔ پھر دیوؤں نے کہا کہ ان کو جگا کر پوچھا چاہیے، شاید پردے کے برزخ کے ہوں۔ وہیں ایک دیو نے کہا ”بالفرض وہیں کے ہوں تو تمہیں کیا۔“
دوسرا بولا ”بادشاہ سلوک ایک دن کہتا تھا کہ بہت دنوں سے پردۂ برزخ کی کچھ خبر نہیں معلوم، مگر تجھے اُس کا ڈر نہیں جو ایسی بات کہتا ہے۔ اگر یہ بات جا کر کوئی بادشاہ سے کہہ دے کہ ایک دیو اور پری زاد کسی پردے کے یہاں سوتے تھے، فلانے فلانے نے دیکھ کر حضور میں خبر نہ پہنچائی، اُس وقت تو کیا جواب دے گا اور ہمارا کیا احوال ہوگا۔“
آخر دونوں کو جگا دیا۔ حاتم نے دیوؤں کو دیکھ کر اُنہیں کی بولی میں کہا ”تم نے ہمیں کیوں جگایا، کیا کام ہے؟“
انہوں نے کہا کہ تم کس پردے کو ہو، سچ کہو۔
حاتم بولا ”تم نے نہیں سنا کہ ایک آدمی برزخ کے جزیرے کو جاتا تھا، اس کی خاطر سے شمس بادشاہ نے مقریس کو جلا دیا اور ملک اس کا چھین لیا۔ لازم ہے کہ تم اس کو تلاش کر کے اپنے بادشاہ کے پاس لے جاؤ۔“
دیوؤں نے پوچھا ” یہ پری زاد کس پردے کا ہے؟“

صفحہ 345

حاتم نے کہا ”پردۂ طومان کا ہے، یہی خبر لیے جلتا ہے کہ شمس بادشاہ پیدا ہوا اور مقریس کو مار کر اس نے ملک اس کا لے لیا ہے۔“
یہ سن کر وہ بولے ”تم آرام کرو، ہم اُسے ڈھونڈنے جاتے ہیں۔“ غرض ان کو رستا بتا کر آپ راہ لی۔
بعد تین روز کے ایک دریا پر جا پہنچے۔ مہر آور نے کہا کہ دریائے قہرمان یہی ہے۔ حاتم نے دیکھا کہ اس کا کنارہ اُدھر کا نظر نہیں آتا، موجیں آسمان کو پہنچتی ہیں اور آبی جانور یعنی ہاتھی، اونٹ، گھوڑے، بیل، گھڑیال، مگر، اُدھر کے کنارے پر اکثر لوٹ رہے ہیں۔ بطخیں اور قازیں بلکہ ہر ہر قسم کے جانور ہاتھی سے بھی بڑے بڑے پڑ رہے ہیں اور ہزاروں پرندے خوش رنگ پہاڑوں، ٹاپؤں پر کریال کلیلیں کر رہے ہیں۔ یہ قدرت الہیٰ پر اور بھی قائل ہوا کہ سچ ہے، تیری صفت کو عقل کی کیا تاب جو پا سکے اور خیال کو کیا مجالہ جو اس کی کنہہ کو پہنچ سکے۔
پھر گھبرا کر مہر آور سے کہنے لگا ”بھائی ایسے دریا کے پار کس طرح جا سکیں گے اور اس کی لہروں کے صدمے ہم سے ناتوان کیوں کر اٹھا سکیں گے۔“
مہر آور بولا ”سچ ہے، تیز پر پرندے کی بھی مجال نہیں کہ سات دن کے عرصے میں اس کے اس کنارے پر پہنچے؛ چناں چہ میں پری زاد ہو کر یہ جرأت نہیں کر سکتا، تیرے تو حق بہ طرف ہے۔“
یہ سن کر حاتم نے کہا ”کچھ ہو، ہمیں برزخ کے جزیرے میں جانا ہے۔“

صفحہ 346

تب وہ بولا ”اگر چند روز یہاں ٹھہرو تو میں اس دریا سے اترنے کی تدبیر کروں۔ “
اس نے کہا ”بہت اچھا۔“ پھر مہر آور بولا کہ یہاں سے کئی کوس پر پردۂ بدران ہے، وہاں کی بادشاہت شمشان پری زاد کرتا ہے، اس کے پاس دریائی گھوڑے اچھے اچھے پیراک اور اڑنتے ہیں۔ چاہتا ہوں کہ اس کے پاس جا کر دو گھوڑے لے آؤں۔
حاتم نے کہا ”مبارک ۔“ وہ وہیں اُڑ گیا، رات بسے وہاں جا پہنچا، اُس بادشاہ سے ملا۔
پوچھا اس نے ”آپ کے آنے کا سبب کیا ہے، فرمائیے؟“
مہر آور نے کہا ”مجھ کو دو گھوڑے ضرور ہیں، اگر مرحمت کرو تو عین توجہ ہے۔“
وہ پھر پوچھنے لگا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟
کہا ”پردۂ طومان سے۔“
بادشاہ بولا ”میں تجھے پہچانتا ہوں۔ اغلب ہے کہ تو مہر آور شہزادہ طومان کا ہے۔ اکیلے آنے کا کیا سبب؟“
اس نے کہا ”سچ کہتے ہو، لیکن میں ایک بلا میں گرفتار ہوں، اس لیے جریدہ و لاچار ہوں۔ اتنی مدد کرو، احسان تمہارا تمام عمر مجھ پر رہے گا۔“
شمشان اٹھ کر بغل گیر ہوا اور اپنے طویلے میں لے آیا کہ سب کے سب گھوڑے حاضر ہیں۔ قصہ مختصر دو گھوڑے چالاک اڑنتے چن کر مہر آور کے حوالے کیے۔ شہزادہ دونوں گھوڑوں سمیت طرفتہ العین میں آ پہنچا اور کہا ”اُٹھو جلد سوار ہو۔“
حاتم وہیں ایک گھوڑے پر چڑھ بیٹھا۔ دوسرے پر یہ سوار ہو

صفحہ 347

کہنے لگا ”خبر دار اس کی باگ نہ چھوڑ دیجیو، اٹھائے رہیو۔“
ندان وہ ان دونوں کو کڑکا کر ہوا ہو گئے۔
بعد کئی دن کے بھوک پیاس کی شدت ہوئی۔ پری زاد نے کہا ”میرے پاس تھوڑا سا میوہ اور ایک صراحی پانی کی موجود ہے، چاہو کھا پی لو۔“
حاتم نے لے کر دو چار دانے میوے کے کھائے، دو تین گھونٹ پانی کے پیے، قدرے توانائی آئی، پھر سنبھل بیٹھا۔
بعد چند روز کے کنارہ نظر آیا۔ پری زاد نے کہا ”بھائی اب باگ ڈال دو“ گھوڑے زمین پر اتر پڑے۔
حاتم نے کہا ”اے مہر آور! ہم نے سنا ہے کہ جزیرۂ برزخ دریا کے درمیان ہے۔“
وہ بولا ”ابتدا اس جزیرے کی یہیں سے ہے جہاں ہم تم بیٹھے ہیں، پر یہ مت گمان کرو کہ دریائے قہرمان سے پار ہو گئے ہیں، یہ اس کا دوسرا کنارہ نہیں ہے، ایک یہ بھی ٹاپو ہے، کئی جزیرے اس میں اور بھی بستے ہیں۔“
حاتم نے کہا ”وہ شہر یہاں سے کتنی دور ہو گا؟“
بولا ”دس روز کی راہ“ پھر اس نے کہا ”تو بیٹھے کیوں ہو چلے چلو۔“
مہر آور نے التماس کیا ”ایک بات کہوں اگر تم مانو۔“
حاتم بولا ”بہ سرو چشم فرمائیے؟“
تب مہر آور نے کہا ”میرا ملک یہاں سے نزدیک ہے، چاہتا ہوں کہ جا کر لشکر لے آؤں تا کہ ہم تم کروفر سے شہر میں داخل ہوں۔“
حاتم نے کہا ”اے عزیز! کچھ ماہ یار سلیمانی سے لڑنے

صفحہ 348

نہیں آئے ہیں جو لاؤلشکر چاہیے۔“
سن کر وہ بولا ”میری یہ غرض نہیں بلکہ اس واسطے کہتا ہوں کہ حالت غربت میں جو پہنچیں گے تو کسے پروا ہے جو ہماری خبر کرے گا اور جو اس ٹھاٹھ سے جائیں گے تو ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی اس کو احوال معلوم ہو گا۔ تم گھبراؤ نہیں، میں ایک ہفتے میں آ پہنچتا ہوں۔“
اس نے کہا ”میں تنہا یہاں رہوں؟“
وہ بولا ”کیا مضایقہ، کیوں کہ یہاں کوئی مفسد ایذا دہندہ نام کو نہیں۔“
حاتم نے کہا ”خدا حافظ، سدھاریے۔“
مہر آور وہیں ہوا ہو گیا۔ جب حاتم کی نظروں سے غائب ہو گیا، تب حاتم نے سفید پر نکال کر جلائے۔ ان کی راکھ پانی میں گھول کر اپنے بدن پر ملی، جیسا تھا ویسا ہی ہوا؛ پھر تیر و کمان لے کر اٹھا، ایک بارہ سنگا شکار کر لایا۔ اسے صاف کر اچھے اچھے گوشت کے تکے بنا، لون مرچ لگا سیخوں پر چڑھا دیے؛ پھر حقماق سے آگ جھاڑ کر لکڑیاں جلا کر ان کو بھون بھان کھانے لگا۔ بعد فراغت کے پانی پیا اور خدا کا شکر کر سو رہا۔ اسی صورت سے کئی دن کاٹے۔ ایک دن جنگل میں سیر کرتا پھرتا تھا کہ سامنے سے دروازہ کھلا ہوا ایک باغ دکھلائی دیا، اس کے اندر چلا گیا۔ کیا دیکھتا ہے کہ درخت میوہ دار ہر ہر قسم کے میوؤں سے لد رہے ہیں اور پھولوں سے پھول رہے ہیں۔ نہایت محفوظ ہوا بلکہ رہنا وہیں اختیار کیا۔ گھوڑا ایسا وفادار تھا کہ دن بھر چراگاہ میں دریا کنارے چرتا پھرتا، رات کے وقت اسی باغ میں آ رہتا۔

صفحہ 349

غرض اسی طرح سے ایک اٹھوارہ آخر ہوا۔ اور شہزادہ مہر آور جو اپنے جزیرے میں پہنچا، پری زاد پہچان کر پاؤں پر گر پڑے، نثار ہوئے۔ شہزادہ بعضوں کو تسلی دے، کتنوں کو گلے لگا، ماں باپ کے پاس گیا، آداب بجا لا کر قدم بوس ہوا۔
اُنہوں نے چھاتی سے لگا کر احوال پوچھا کہ تو تو لشکر و حشمت سے جزیرۂ برزخ کو گیا تھا، پھر اپنے تئیں لشکر سے جدا کس گوشے میں جا چھپا کہ فوج تجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے تتھر بتھر ہو گئی۔ ایک عمر ڈھونڈا کی، آخر ناچار ہو کرپھر آئی۔ بارے کہہ تیری مراد ملی، ماہ یار کی بیٹی ہاتھ لگی؟
شہزادے نے سر نیچا کر کے عرض کی ”غلام نے جو آپ کا کہنا نہ مانا، ایک مدت پریشانی کھینچی، برسوں اوقات آہ و زاری میں کاٹی۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنے تن کی بھی سرت نہ تھی۔ خدا کسی کافر کی بھی یہ حالت نہ پہنچائے بلکہ کسی بندے کو یہ دکھ نہ دکھلائے۔ لیکن طالع مبارک تھے، ایک آدم زاد یمنی حاتم نامی شاہ آباد سے تلاش میں اُس موتی کے جو مرغابی کے انڈ ے برابر ہے، نکلا تھا، فلانے جنگل میں مجھ سے ملا، جب میں نے اپنا احوال اس سے بیان کیا، اس نے مجھے قول دیا کہ جس وقت وہ موتی میرے ہاتھ لگے گا، ماہ یار سلیمانی کی بیٹی کو تیرے حوالے کردوں گا۔“
اس بات کو سن کر اس کے ماں باپ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ اب تک نادانی اور حماقت لڑکوں کی طرح تجھ سے نہیں گئی۔ پری زاد تو اس کے بھید کو بیان کر ہی نہیں سکتے، آدمی بے چارے کو کیا علم ہے جو احوال اس کا اظہار کرے گا اور
 

مومن فرحین

لائبریرین
241

گھات میں لگ هی رها تها ، قابو پا کر منتر پڑھنے لگا پھر دیو سیاه زمین سے پیدا ہوا اور حاتم کی طرف دوڑا - حاتم کو وسوسه احتلام کا تھا ، ڈرا که اس سے کیوں کر لڑوں ، بقین هے که آب مارا گیا ۔ اتنے میں دیو آ پہنچا اور اس کو پکڑ کر شام احمر جادو کے پاس لے گیا ۔
وہ اسے دیکھ کر بولا که مارنا اسے صلاح نہیں کیوں کہ وه مهره ضائع هو گا - جب تک یه اپنی خوشی سے نہ دے تو طوق و زنجیر کر کے دو بھاری ستون میں کس ، اوپر سر اور منه اس کا کھلا رہے ؛ چنانچه اس کے فرماں برداروں نے وهی کیا ۔
حاتم اپنے تئیں گرفتار دیکھ کر خدا کی درگاہ میں گریه و زاری کرنے لگا که اللهی ! سوائے تیرے اس وقت کوئی مددگار نہیں ۔ اور شام احمر جادو نے اپنے جادو گروں سے کہا که تم سب اس کے گرد بیٹھو اور چوکی دو ۔ وے اس کا کہنا بجا لائے ۔
غرض سات رات دن یوں هي گذر گئے ۔ حاتم بھوک پیاس سے نهایت بے قرار هوا -
اتنے میں احمر جادو آیا اور کہنے لگا ''اے حاتم ! کیا احوال ھے ،، اس نے جواب نه دیا، تب جادوگر نے کہا که اگر یه مهره مجھے دے تو میں تجھے ابھی چھوڑ دوں ۔
حاتم بولا که تو اپنی بیٹی میرے ساتھ بیاہ دے تو ابھی دیتا هوں۔
اس بات کو سن کر وہ نہایت غضب هوا اور اپنی مسند سے اٹھ کر جادوگروں کو ارشاد کیا کہ تم اس کے سر پر پتھروں کا مینه برساؤ تا کہ اس کا سر پاش پاش هو جائے ۔


242
جادوگر پتهر هاتھوں میں لے کر حاتم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اپنی جان پر رحم کر اور مہرہ دے ڈال ، نہیں تو تیرے سر کو پتھروں سے پھوڑ ڈالیں گے که بھیجا نکل پڑے ۔
حاتم نے جواب دیا کہ انشاء الله تعالی میں تمھارے سردار کو ماروں گا اور اس کی بیٹی اپنی خدمت میں لوں گا
یه بات سن کر وہ جادو گر غصے هوئے اور پتھروں کا
مينه برسانے لگے اور یہاں تک برسایا که حاتم ان پتھروں میں چھپ گیا اور وهاں ایک پہاڑ سا هو گیا ۔ تب جادو گروں نے اپنے سر دار سے جا کر کہا که حاتم مر مٹا . اس نے کہا که غلط کہتے هو، وہ اب تلک جیتا هے
انہوں نے عرض کی که اگر آہنی تن هوتا تو بھی خاک سیاه هو جاتا ، یہ تو آدمی تھا کیوں کر بچا ؟
احمر جادو گر نے کہا اگر تم کو باور نہیں تو پتهروں
کو سرکا کر دیکھ لو کہ کچھ اس کو اسیب نہیں پہنچا •
جادو گروں نے پتھروں کو سرکا کر جو دیکھا تو اس کو سلامت پا یا - جهنجهلا کر پھر پتهر یہاں تک برسائے که آس پہاڑ سے دوگنا ہو گیا پهر پتھروں کو سرکا کر جو دیکھا تو اسے کچھ ضرر نه پہنچا تھا غرض سات روز اسی طرح گزر گئے ۔
تب احمر جادو نے لاچار هو کر ان سے کہا که تم هر روز اس کو اسی طرح پتھر مارا کرو اور آپ محل میں جا کر منتر پڑھنے میں مشغول هوا -
جب حاتم بھوک پیاس سے عاجز هو کر مرنے لگا، تب ان چوکیداروں سے کہا کہ اے یارو ! تم نے اس مہرے کا خواص



243
دیکھا - یه ایسا هے که جس کے باعث سے نه میں آگ میں جلا نه پتھروں سے موا - اب جو کوئی مجھ کو یہاں سے اس تالاب پر لے جائے ، یه مهره میں اسی کو دوں گا۔
انھوں نے کہا که همیں تیرا مهره هرگز درکار نہیں ، پر
ایک لالچی نے کن انکھیوں سے اشارہ کیا که میں تجھ کو اسی تالاب پر لے جاؤں گا ، ذره رات هونے دے ۔ حاتم نے بھی اشارت سے کہا که یه مہره تجھی کو دوں گا ۔ جب آدھی رات هو گئی سب کے سب سو گئے مگر ایک وهی چوکی دار اس مہرے کی لالچ سے جاگتا تھا ؛ بعد ایک دم کے چپکے سے اٹھ کر حاتم کے
پاس آیا اور کہنے لگا کہ اگر تو کہے تو میں تجھے اس چشمے پر لے چلوں ۔
حاتم نے کہا که مجھ کو ملنے کی تاب و طاقت نہیں ، چلنا تو ایک طرف . ان پتھروں سے کیوں کر نکلوں ؟
اس نے کہا کہ میں اپنے جادو کے زور سے نکال لیتا ہوں ، اندیشه نه کر . یه کہه کے افسوں پڑھنے لگا۔ اتنے میں ایک کالا ديو پيدا هوا ، وهي ان دونوں کو اس تالاب پر پہنچا کر غائب ہو گیا ۔ حاتم نے پہلے کپڑے دھوئے ، پھر نہا کر بدن پاک کیا اور تھوڑا سا پانی پی کر چشمے سے باهر نکلا، کپڑے پہنے۔
تب جادو گر نے کہا که اے حاتم ! میں نے تجھ کو اس
مہرے کی لالچ سے ان پتھروں سے نکالا اور اس تالاب پر به خوبی پہنچایا، اب تجھ کو بھی لازم هے که اپنا وعدہ وفا کرے اور مہره مجھے دے
حاتم نے کہا اے عزیز! تو نے میرے ساتھ نیکی کی ہے ،
میں بھی سلوک کروں گا۔ چناں چہ جس وقت شام احمر کو


244

ماروں گا، ان کی بادشاهت تجھی کو دوں گا ۔
اس نے کہا که اے حاتم ! سوائے اس مہرے کے کوئی چیز جهان کی مجھے درکار نہیں ، اگر دیتا هے تو وهی دے ۔
حاتم نے کہا يه مہره میرے ایک دوست کی نشانی ھے ، تجھے کس طرح سے دوں اور تو جو یہ مانگتا ہے کس کے نام اورکس کے واسطے ؟
اس نے کہا کہ میں اپنے لیے چاهتا هوں -
حاتم نے کہا ”اے نادان بے وقوف ! اگر تو خدا کی راہ مانگتا تو میں ابھی تیرے حوالے کر دیتا ۔"
اس نے کہا کہ میرا خدا جادو کملاق شام احمر کا آستانہ ھے. تیرے خدا کے واسے کیوں مانگوں ؟
حاتم نے کہا اے کافر ! تو بندے کو خدا کہتا ہے ، چل دور ہو میرے سامنے سے ، معلوم هوا که تو خدا کو نہیں پہچانتا ۔ اب مجھ کو یقین هوا که تو کتنا کافر ہے ؛ خیر کیا کروں لاچار هوں كيوں که تو نے مجھ پر احسان کیا ھے اور بدلا نیکی کا بدی نہیں ، نہیں تو اپنے کہنے کی سزا پاتا ۔
وہ بولا مجھ کو تجھ سے مہره لينا کچھ مشکل نہیں۔ اگر آپ سے دیتا ھے تو تیری جان بچی ہے نہیں تو یہاں تلک غوطے اس چشمے میں دوں گا که تیرا جی نکل جائے گا ۔
حاتم بولا کہ اے ملعون ! پس زیاده نه بک . چل دور هو میرے سامنے سے ، یه مہره میرا مال ہے ، تو یه زبردستی کیوں کر لے سکے گا۔ لیکن جو تونے میرے ساتھ بھلائی کی ہے ، البته یه ملک تجھی کو دوں گا۔ سو بھی اس شرط پر که تو نیکی پر



245

کمر باندھے اور خدا کو ایک جانے ، جادو کرنا چھوڑ دے ۔
اس بات کو سن کر وہ غصے هو کر افسوں پڑهنے لگا اور حاتم اسم اعظم - غرض هر چند اس نے منتر پڑھ پڑھ کر پھونکا پر کچھ اثر نه هوا بلکه اسم اعظم کی برکت سے وہ آپ ہی آپ کانپ کانپ حاتم کے آگے بھاگ اپنے رفیقوں میں آیا اور جان کی دهشت سے چیکا سو رها که اطلاع نه هو وے ، اور حاتم اسی
چشمے پر بیٹھا اسم اعظم پڑھا کیا ۔ اتنے میں فجر هوگئی سب چوکیدار جاگے ، ستونوں کو خالی دیکھا ، حاتم کو نه پایا ، ڈرے که اب شام أحمر هم کو جیتا نہ چھوڑے گا۔
لاچار سر پر خاک ڈالتے ہوئے آپ هی اس کے آگے آئے
اور کہنے لگے که خداوند! حاتم غائب هو گیا ۔ وہ اس خبر وحشت اثر کے سنتے هی غضب هوا اور اپنے علم نجوم سے دریافت کر کے کہنے لگا که حاتم اسی تالاب پر بیٹھا ہے اور "سر تک" چوکیدار نے مہرے کی لالچ سے اس کو وهاں پہنچا دیا ہے ۔ بس اب تم میں سے کوئی جاوے اور سر تک کو میرے سامنے لے آوے ۔ میں اسے جیتا نه چھوڑوں گا ۔
وے به موجب اس کے حکم کے سر تک کو پکڑنے گئے ۔
وہ اپنی عیاری سے اس بات کو دریافت کر کے بھاگا اور حاتم کے پاس جا کر کہنے لگا : ”اے حاتم ! تیرے سبب میری جان جاتی ہے ۔ باوجود اس کے میں نے تجھ سے بدی نہیں کی بلکه نیکی کی هے که قيد شدید سے چھڑایا ، ایک تو مہره هاته نه لگا دوسرے خطره جان کا آ پڑا ۔
حاتم اس کے احسان پر نظر کر کے شرمنده هوا اور


246

خاطر داری کر کے کہنے لگا کہ تو خاطر جمع رکھ ، کچھ اندیشه نهیں -
جب شام احمر نے دیکھا که سر تک بھاگ گیا ، منتر
پڑھنے لگا۔ اتنے میں سر تک کو ایک شعله آگ کا دکھائی دیا ۔ چلا اٹھا اور پکارا کہ اے حاتم ! مجھ کو بچالے نہیں تو جل کر خاک هو جاتا هوں
اس نے اسم پڑھ کر اس پر دم کیا ، شعله بجھ گیا ۔ پھر اس سے کہا که تو میرے پیچھے آ کر کھڑا هو ره، کچھ فکر مت کر۔
سر تک نے کہا " اے حاتم ! اب میں تیرا هوا ، مجھ کو
شاه احمر کے جادو سے بچا ،"
حاتم نے فرمایا که تو خاطر جمع رکھ ۔ کیا قدرت ہے اسی کی جو تیرا کچھ کر سکے ۔ یه کهه کر حاتم اٹھ کھڑا هوا اور اسم اعظم پڑتا هوا شام أحمر کی طرف چلا اور سر تک بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔
جب احمر جادو نے اپنے علم سے دریافت کیا کہ حاتم اور سر تک ادهر چلے آتے هیں ، تمام اپنا لشکر ساتھ لے کر شہر سے باهر نکلا اور سحر پڑهنے لگا که یکایک گھٹا اٹھی اور بجلی چمکنے لگی ، بادل گرجنے لگے ۔ یہ حالت دیکھ کر سر تک، بید کی طرح لرزنے لگا اور کها که یه جو نظر آتا ہے جادو ہے ۔ اے حاتم ! خبر دار هو ۔ اس نے اسم پڑھ کر آسمان کی طرف پھونک دیا ،
وے سب آفتیں اسی کے لشکر پر پڑیں ۔
یہ کیفیت دیکھ کر احمر جادو حيران هوا اور کہنے لگا که حاتم بھی بڑا هی جادو گر هے که جس کے جادو نے ہمارے



247


سحر کو بھی رد کیا ، اب کیا کیجیے ۔ اتنے میں ایک سحر پھر اسے یاد آیا ؛ پڑهنے لگا که ایک پہاڑ زمین سے بلند ہوا۔ جب حاتم کے سر تک پہنچا ، سر تک، پکارا که اے حاتم هوشیار ! که یہ دوسرا سحر ھے - حاتم نے پھر اسم اعظم پڑھ کر دم کیا ۔ وہ پہاڑ
سنگ ریزے هو کے انھیں کے سر پر جا پڑا ۔ چار هزار جادو گر واصل جہم ہوئے اور ایک بڑا سا پتھر شام أحمر کے سر پر آیا ، وہ اپنے جادو کے زور سے بچ گیا اور وہ پھر کسی جنگل میں جا پڑا۔
تب حاتم اسم اعظم پڑهتا هوا آگے بڑھا - شام احمر نے جو دیکھا که حاتم ندهڑک چلا آتا ہے اور نزدیک ہے که مجھ تک آ پہنچے، پھر ایک افسون پڑھ کر پھونکا ؟ چاروں طرف سے چار اژدھے پيدا هوے ، لیکن اسی کے لشکر پر جا گرے اور نگل گئے ، مگر تین شخص باقی رھے ۔ شام احمر نے پھر منتر پڑھ کر بھونکا ، اژدهوں نے نگلے هووں کو اگل دیا اور آپ پھرے . یہ حالت دیکھ کر تین هزار جادو گر جان کے خوف سے بھاگے۔ احمر جادو نے هر چند پکار پکار کر کها که مت جاؤ اور دلاسے دیے پر کسی نے کان نه دھرا۔ جب شام احمر نے دیکھا کہ کوئی جادو گر نہیں پھرتا ، تب ایک جادو ایسا پڑها که وے سب کے سب درخت هو کے جهاں کے تهاں اس میدان میں لگ گئے اور آپ اکیلا حاتم کے رو به رو آکے سحر پڑھ پڑھ کر پھونکنے لگا۔ جب دیکھا کہ کوئی منتر حاتم پر اثر نہیں کرتا ، ایک منتر پڑھ کر آسمان کی طرف هوا هو گیا ۔
حاتم نے جو دیکھا که شام احمر جادو پر نکال کر اڑا اور نظروں سے غائب هو گیا ، متفکر هو گیا که اب کیا کیجیے ۔
سر تک بولا که اب وہ کملاق جادو کے پاس گیا ہے، اس واسطے که.
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 161

اُس نے کہا " جی کی امان پاؤں تو اُس کا احوال عرض کروں ؟“

بادشاه نے فرمایا ” كيا كہتا ہے، جلد کہہ ، نہیں تو جیتا نہ چھوروں گا ۔“

وہ ہاتھ باندھ کر کہنے لگا " خداوند! ہم سب کے سب اُس کو فلانے مقام تک بہ احیتاط تمام لائے تھے ۔ اتفاقاً رات کو غافل سو گئے ، کوئی اس کو چرا کر لے گیا ۔ وہ آپ سے نہیں گیا کیوں که وه آپ ۱ کمال اشتیاق ملازمت کا رکھتا تھا ۔ غلاموں کو اس بات کا بڑا اچنبھا ہے ۔ لیکن جو صبح کوہم نے اُسے ۲ نہ ديکھا ، اس واسطے آپ کے خوف و غضب سے بھاگ کر جا بجا چھپ رہے ، پر راتوں کو ڈھونڈھا کرتے تھے ۔“

اس حقیقت کو سن کر بادشاہ نے اس کو قید کیا اور پا نچ ہزار پری زاد کو بلوا کر کہا کہ تم اس کو جہاں پاؤ وہاں سے لے آؤ ۔

غرض وے اس بات کے سنتے ہی ہر طرف اس کی تلاش کو گئے ۔

قضارا ایک پری زاد کا گزر منسا پری زاد کے باغ میں ہوا - وہ ایک گوشے میں چھپ رہا . اتنے میں حسنا بری حاتم کے گلے میں بانہیں ڈالے ، اٹھکھیلیاں کرتی اُس کو نظر آئی ۔ جاسوس کونے سے نکلا اور آدمی کو پہچان کر کہنے لگا کہ اے نمک حرامو ! اس آدمی کو بادشاه نے طلب کیا تھا اور ہم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱ - نسخه مكتوبه (ص ۱۳۳) میں ” آپ کی ملاقات کا کمال اشتياق رکھتا تھا“ ہے۔ ۲۔نسخه مكتوبه (ص ۱۳۳) میں ” اُس کو“


ص162


بہ حفاظت تمام لیے جاتے تھے ۔ ہم کو غافل پا کر تم اُسے اڑا لائے ہو ۔ اگر اب بھی اپنی زندگی چاہتے ہو تو ہمارے حوالے کرو کہ اس کو بادشاہ کے پاس لے جاویں -

حسنا پری اس بات کے سنتے ہی آگ ہو گئی اور کہنے لگی ” اے نا محرم جوانا مرگ ! تو میرے باغ میں کیوں آیا ہے اور کس واسطے زبان درازی کرتا ہے ۔ کیا کوئی نہیں ہے کہ اس موئے ناشدنی کو مارے ؟“

یہ سنتے ہی سب پریاں اُس پر دوڑیاں ۔ وه مارے ڈر کے اپنے شہر کی طرف بھاگا اور اپنا منہ کالا کر کے بارگاه عالی میں فریادی ہوا۔

بادشاہ نے اپنے لوگوں سے کہا ” دیکھو تو اس پری زاد کو کس نے دکھ دیا ہے اور اُسے آگے لاؤ ۔“
جب وہ قریب تخت کے پہنچا ، تب ہاتھ باندھ کر عرض
کرنے لگا کہ خداوند ! میں حسنا پری منسا پری زاد کی بیٹی کے ظلم سے فریاد کرتا ہوں اور میں اُسی گروہ میں سے ہوں جو اُس آدمی زاد کو حضور عالی میں لاتا تھا ۔ رات کے وقت وہ چرا کر اپنے باغ میں لے گی ۔ اب اُس سے عیش مناتی ہے اور مزے اڑاتی ہے. اتفاقاً میں ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے ایک دن جو اُس کے باغ میں جا نکلا تو اُس آدمی زاد کو دیکھا ، ووں ہیں میں نے شور مچایا کہ اس آدمی کو بادشاه نے طلب کیا تھا ، جلد میرے حوالے کرو که حضور میں پہنچاؤں ۔ وہ شراب کے نشے میں چور ہو رہی تھی ، اپنی پرپوں سے کہنے لگی کہ اس کو پکڑ کر خوب مارو ، میں ہزار تگ و دو سے بھاگ نکلا اور سایہء دولت میں آ پہنچا ۔



ص163



بادشاہ اس بات کا سنتے ہی آگ ہو گیا اور تیس ہزار پری زاد کو حکم کیا کہ منسا پری زاد کو اس کی جورو ، بیٹی اور اس آدمی سمیت باندھ کر حضور میں ۲ حاضر کرو۔

وے سب کے سب وہیں دوڑ پڑے اور اُس کی حویلی کو گھیر لیا ۔ وہ بے چارہ اس بات کی خبر نہ رکھتا تھا ، متفکر ہو کر حیران رہ گیا کہ اس اعتراضی کا سبب کیا ہے!

اُنہوں نے کہا کہ تیری بیٹی ایک بادشاہ کے قیدی کو اڑا لائی ہے اور اُس کے ساتھ اپنے باغ میں عیش کرتی ہے ۔

اس واردات کو سن کر وہ ڈر گیا اور اُس باغ میں آیا تو کیا دیکھنا ہے کہ واقعی حسنا پری اُس آدمی زاد کے ساتھ رنگ رلیاں کر رہی ہے۔

یہ حال دیکھتے ہی بد حواس ہو کر ایک دو ہتر ماری اور کہا کہ اے علامه ! کیا قہر کیا تو نے کہ ماں باپ کا نام ڈبوبا - بادشاہ کی فوج تیرے پکڑنے کو آئی ہے ، خبر دار ہو ۔

وہ اس بات کے سنتے ہی ڈری اور تھر تھرانے لگی، چهره زرد ہو گیا، آنسو بھر آئے۔ اتنے میں فوج بادشاہی آپہنچی اور اُن سبھوں کو گرفتار کر کے حضور عالی ۳ میں لے گئی ۔

سردار فوج حضور میں آیا اور عرض کرنے لگا کہ جہاں پناه ! منسا پری زاد نے ہرگز حضور کے آنے میں عذر نہ کیا بلکہ اپنی آل و اولاد سميت ہاتھ باندھے بلا تامل چلا آیا ۔

بادشاه نے کہا کہ منسا پری زاد کو حضور میں لے آؤ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ا - نسخہ مكتوبہ (ص ۱۳۴) ”کو”

۲- نسخہ مكتوبہ (ص ۱۳۵ ) ”جلد“

٣- نسخہ مكتوبہ (ص ۱۳۵) ”اعلى“


ص164



اس نے آتےہی عرض کی کہ بندے کو اس احوال کی مطلق خبر نہ تھی اور ہر طرح سے یہ فدوی فرماں بردار ہے. بادشاه نے رحم کھا کر اس کا گناہ بخشا ۔ جب اُن لوگوں نے حاتم کو بھی اس کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا ۔

بادشاه نے دیکھا کہ نہایت شکیل اور حسین ہے . مہربانی سے بلا کر اپنے پاس بٹھلایا اور کچھ باتیں کر کے پوچھا کہ جوان! تو آدم زاد ہو کر میرے شہر کیوں کر آیا اور کام ۱ ایسا کیا رکھتا ہے کہ جس کے واسطے اتنا رنج اُٹھایا ؟

حاتم نے کہا "جہاں پناه ! میں حضور کی قدم بوسی کے واسطے آیا ہوں ، کیوں کہ فرو قاش بادشاه نے اوصاف حمیده خداوند کے یہاں تک بیان کیے کہ میری زبان قاصر ہے جو اُن کا اظہار کروں ۔ غرض اشتياق دیدارہمایوں کا دل پر غالب آیا - ہر طرح سے میں نے اپنے تئیں حضور اقدس میں پہنچایا ۔“

تب بادشاه نے کہا کہہ ہمارے عمل میں تجھے کون لایا ؟ وہ بولا که فروقاش بادشاه کے دیو مجھے لے آئے ہیں ۔

پھر بادشاہ نے کہا ” اے جوان ! کچھ تجھے معلوم ہے کہ اس زمانے میں کوئی حکیم انسانوں میں دانا تر اور فن حکمت سے ماہر ہے؟“

حاتم نے کها " خداوند کو حکیم سے کیا کام ہے ؟ شايد ۲ آپ کے ملک میں حکیم نہیں ملتا ۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ نسخه مكتوبه (می ۱۳۶) ” اور ایسا کیا کام رکھتا ہے –“

2۔ نسخہء مكتوبه (۱۳۶) ” مگر “


ص165



بادشاہ نے کہا ” ہماری قوم کے حکیم سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا ، میں نے بہت علاج کر دیکھا ۔ ایک مدت سے میرے بیٹے کی آنکھیں دکھتی ہیں اور حسن میں بے نظیر ، مانند بدر منیر کے ہے اور سوائے اس کے میرے کوئی لڑکا بالا نہیں ۔ حیف ہے کہ وه بھی اندھا ہوگیا اور کسی طرح درد سے بھی ۱ فرصت نہیں پاتا ۔“

حاتم بولا " اگر شاه زاده اچھا ہو اور آنکھیں روشن ہوں ، درد جاتا رہے تو حضور عالی سے بہ طور انعام کے مجھے کیا ملے ۲ ؟

بادشاه نے کہا ”جو تو مانگے گا و ہی پاوے گا۔ “

حاتم نے کہا ” اگر اس بات پر قول و قسم كرو تو میں شاه زادے کی ایسی دوا کروں کہ آنکھیں اس کی جیسی تھیں ویسی ہی روشن ہو جائیں ، تو اس وقت منه مانگا انعام پاؤں ۔“

بادشاہ نے کہا ” میں نے قبول کیا ۔“

صبح کو اُس نے وه مہره پگڑی سے نکال کر آب دہن میں گھس کر اُس کی آنکھوں میں لگا دیا ۔ شام کے ہوتے ہوتے سرخی جاتی رہی ، درد موقوف ہوا مگر بینائی ۳ نہ ہوئی ۔ بادشاہ نے کہا ”اے جوان ! ظاهرا آنکھیں اس کی آگے سے اچھی ہیں لیکن بصارت چندان خوب نہیں ہوئی ۔”

تب حاتم نے کها " پردہء ظلمات میں ایک درخت ہے. اس کو نور ریز کهتے ہیں ۔ اگر دو تین قطرے اُس کے پانی کے ہاتھ لگیں تو آنکھیں اس کی روشن ہو جائیں ۔“

اس بات کے سنتے ہی ماه پری بادشاہ نے کہا ”اے پری زادو !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ نسخہ مكتوبہ ( ص136) ” بھی “ نہیں ۔

۲۔نسخہ مكتوبہ (ص ۱۳۷) ”ملے گا ۔“

۳۔ نسخہ مكتوبہ (ص ۱۳۷) ”بینا نہ ہوئی۔“
 
صفحہ: 201

ہر ایک کی جان قبض کرتا ہوں۔

اس سخن کو سن کر حاتم خوش ہوا اور کہنے لگا کہ اب یہ کہو کہ میری اجل کب ہے اور کس سبب آئے گی؟

اس نے کہا کہ ابھی تو تیری آدھی عمر بھی نہیں گذری۔ جب تو پچاس برس کا ہوگا، تب ایک بلندی سے گر پڑے گا اور یہال تک لہو تیری ناک سے جاری ہو گا کہ تو مر جائے گا۔ اور ابھی تو تیری عمر بہت باقی ہے، اس عرصے میں جو کام نیکی کا تیرے ہاتھ سے نکلے، تو اس کام میں کوتاہی نا کر۔

اس بات کو سن کر حاتم نے سجدہ شکر کیا۔ جو سر اُٹھا کر دیکھا، بڈھا نظر نہ آیا اور اس نے دشت سرخ کا رشتہ پکڑا۔

ایک مدت کے بعد زمین سیاہ میں جا پہنچا؛ وہاں کے سانپ آدمی کی بو پاکر چاروں طرف سے دوڑے۔ وہ ہیوز کے نیزے کو گاڑھ کر اس کے نیچے بیٹھ گیا سانپوں نے اس کے گرد حلقہ کر لیا اور ساری رات یہی صورت رہی۔

صبح کے ہوتے ہی وے سب کے سب جہاں سے آئے تھے وہاں چلے گئے۔ حاتم بھی وہاں سے آگے بڑھا اور زمین سفید پر جا پہنچا۔ وہاں سفید سانپ بھی اسی طرح سے ساری رات اس کے گرد بیٹھے رہے، فجر کے ہوتے ہی بدستور چلے گئے ۔ حاتم وہاں سے روانہ ہوا، زمین سبز پر جا پہنچا۔ وہاں بھی یہی حادثہ پڑا۔

صبح کو پھر روانہ ہوا اور زمین سرخ پر جا پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہ زمین شنگرف سے بھی زیادہ سرخ ہو رہی ہے۔ یہ کئی قدم چلا تھا، طاقت چلنے کی نہ رہی؛ جی میں سوچا کہ آگے کیوں کر جاؤں، پیاس کے مارے جاں بلب ہوں؛ پاؤں رفتار سے رہے اور زبان گفتار سے۔ تب کھڑا ہو کر جی میں کہنے لگا


صفحہ: 202

کہ شاید یہی جگہ مرنے کی میری قسمت میں ہے۔ اگر پھرتا ہوں تو قوت نہیں اور اگر آگے جاتا ہوں تو مارا پڑتا ہوں لیکن خدا کی راہ میں غیر کے واسطے مارے جانے سے کوئی بات اچھی نہیں۔ یہ سمجھ کر آگے بڑھا؛ شاید دو تین کوس گیا ہو گا کہ دونوں پاؤں میں پھپھولے پڑ گئے، بے اختیار خاک پر گرپڑا؛ بمجرد گرنے کے تمام بدن میں زخم پڑ گئے اور جی ڈوب گیا ۔

اتنے میں ایک پیر مرد پیدا ہوا اور اس کو اٹھا کر کہنے لگا " اے حاتم! یہ وقت ہمت ہارنے کا نہیں، دل کو ڈھارس دے اور وہ مہرہ جو تجھے اس خرس کی بیٹی نے دیا ہے، اپنی کمر سے نکال کر منہ میں رکھ لے۔"

حاتم نے وہ مہرہ اپنی کمر سے کھولا اور منہ میں ڈال لیا؛ گرمی زمین کی اور شدت پیاس کی اس گھڑی دور ہو گئی۔ حاتم اس پیر مرد کے پاؤں پر گر پڑا اور کہنے لگا کہ اس گرمی کا سبب کیا ہے؟

اس نے کہا کہ یہ گرمی سرخ سانپ کے زہر کی ہے اور اس زمین سے اُسی کے منہ کی آگ نکلتی ہے؛ اُسی باعث سے اس زمین کا رنگ لال ہے اور نہیں تو یہ آگے سبز تھی ۔

اس بات کو سن کر حاتم وہاں سے آگے بڑھا اور مہرے کے باعث سے کسی طرح کی گرمی نے اُس پر اثر نہ کیا۔ جوں توں آدھی دور پہنچا تھا کہ سرخ سانپ حاتم کی بو پا کر پھنکارے مارتا ہوا اس زور و شور سے نکلا کہ منہ کے شعلے آسمان تک پہنچے تھے اور پھن اُس کا برابر چٹان کے تھا، قد مانند تاڑ کے؛ اور شعلے آگ کے اس کی ناک کے نتھنوں سے بھی مانند باد سموم کے نکلتے تھے اور کوسوں تک تر و خشک کو جلا



صفحہ: 203

دیتے تھے۔ حاتم جو اس آگ میں پڑا، نہایت بے قرار ہو کر کہنے لگا کہ اب اس آگ سے ہڈی پسلی تک بھی جل کر خاک ہو جائے گی، لیکن اُس مہرے کے باعث سے تھوڑا تھوڑا پانی ٹھنڈا اس کے حلق میں جاتا تھا، اس سبب سے جیتا رہا۔

آخر سانپ کی نظر حاتم پر پڑی، بے تحاشا پھن پھنا کر لپکا اور شعلے منہ سے چھوڑنے لگا، پر ہیوز کے نیزے کے باعث زہر کارگر نہ ہوا ، حاتم محفوظ رہا۔

رات اس حیص بیص میں گزری ، صبح کے وقت مہرہ شرخ سانپ کے لبوں پر آر ہا ۔ حاتم نے دیکھا کہ ایک غلیلہ سرخ سانپ کے لبوں پر چمک رہا ہے؛ نیزے کو ہلایا، تب وہ اپنا سر زمین پر پٹکنے لگا۔ غرض ادھر آفتاب نکلا اُدھر وہ مہرہ اس نے اپنے منہ سے اُگل دیا اور اپنی بانبی میں چلا چلا گیا۔ حاتم مہرے کے نزدیک آیا پر اٹھانے میں ڈرا اور جی میں کہنے لگا کہ مبادا گرم ہو اور ہاتھ جل جائے، جس سے بہتر یہی ہے کہ قدرے ٹھہر جائیے۔ بعد تھوڑی دیر کے اس نے چیتھڑا اپنی پگڑی سے پھاڑ کر اس کے اوپر ڈال دیا۔ جب وہ لتا نہ جلا تب ہاتھ بڑھا کر وہ مہرہ اٹھا لیا اور پگڑی میں باندھا؛ گرمی جاتی رہی اور زمین اس جنگل کی ساری سرد ہو گئی۔ پھر آپ وہاں سے روانہ ہوا۔

غرض اُس مہرے کی پیدائش یو ں ہی ہوتی ہے، کہ جب کوئی اس کے لے جاوے، تب تیس برس کے بعد دوسرا پیدا ہووے۔ اور ایک ہزار ایک خاصیت اس کی ہے، کوئی کہاں تلک بیان کرے

القصہ حاتم بعد ایک مدت کے اس جوان کے پاس آپہنچا اور وہ مہرہ اسے دے کر تمام احوال کہہ سنایا۔ جوان حاتم کے


صفحہ: 204

پاؤں پر گر پڑا۔

اس نے اس کو گلے لگا لیا اور کہا کہ اب تو جا اور اس مہرے کو مسخر جادو کے حوالے کر۔

وہ مہرے کو لے کر حاتم سمیت اس شہر میں آیا اور مسخر جادو سے ملاقات کر کے وہ مہرہ اس کے آگے رکھ دیا اور کہا کہ صاحب! اس کو میں بڑی محنت و مشقت سے لایا ہوں۔

اس نے کہا کہ میں پہلے اس کی آزمائش کر لوں، تب تیری بات پر اعتماد کروں ۔

اس نے کہا کہ بہت اچھا، کیا مضائقہ۔

غرض مسخر جادو نے اس کو ہر طرح سے آزما لیا۔ جب وہ مہرہ تحقیق ہوا تب اس نے ظاہر میں خوشی کی اور باطن میں شرمندگی کھینچی اور یہ بات کہی کے اے جوان مرد! اب ایک شرط باقی ہے، اس کو بھی ادا کر۔ اس نے کہا " بہت بہتر۔"

آخر کار مسخر جادو نے اپنے لوگوں سے بلوا کر کہا کہ ایک لوہے کا کڑاہ گھی سے بھر کر چولھے پر دھرو اور سات روز تک راد دن اس کے نیچے آنچ کرو تاکہ وہ خوب سا کڑ کڑواے۔ انہوں نے اُ س کے کہنے کے بہ موجب کیا۔ غرض وہ کڑاہ ایسا کھولا کہ اگر پتھر بھی پڑے تو جل کر خاکستر ہو جاوے۔

تب اُس نے اس جوان سے کہا کہ اب تو اس میں کود، اگر سلامت نکلے تو اپنی معشوقہ کو پاوے گا۔

جوان ڈرا اور حاتم سے کہنے لگا کہ اس آگ سے میں نہ بچوں گا۔

حاتم نے دلاسا دے کر کہا "غم نہ کھا، خدا کو یاد کر، یہ بھی مشکل آسان کرے گا۔ " یہ کہہ کر حاتم نے وہ مہرہ جو

صفحہ: 205

اس خرس کی بیٹی نے اس کو دیا تھا، اپنی پگڑی سے کھول کر اس کے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ اس کو اپنے منہ میں رکھ کر بے کھٹکے اس جلتے کڑاہ میں کود پڑ اور غوطے مار کر نکل آ، خدا کے فضل و کرم سے تیرا ایک رونگٹا بھی نہ جلے گا۔

جوان اس مہرے کو اپنے منہ میں ڈال کر مسخر جادو سے کہنے لگا کہ اب کیا کہتا ہے۔

اس نے کہا کہ اس کڑاہ میں کود پڑ۔

جوان اس کے پاس گیا؛ دیکھتے ہی کانپنے لگا کہ حاتم للکارا "اے جوان! اندیشہ مت کر، غم نہ کھا، یہ آتش عشق ہے، خدا کو یاد کر۔"

وہ حاتم کی آواز سنتے ہی آنکھیں بند کر کے کڑاہ میں کود پڑا اور ایک غوطہ مارا اور اس کھولتے گھی کو ٹھنڈا پانی سا پایا۔ ادھر اُدھر کڑاہ میں پھرنے لگا اور گھی کو اپنے بدن پر ملنے بلکہ ہنس کر کہنے لگا کہ اب کیا کہتا ہے۔ باہر آؤں یا دو چار گھڑی اور بھی اس میں رہوں؟

مسخر جادو نے جو دیکھا کہ جوان اس میں نہ جلا اور تندرست رہا، شرمندہ ہو کر سر جھکا لیا۔

اُس وقت حاتم نے کہا اب حجاب کیوں کرتا ہے، اپنا وعدہ وفا کر، کیوں کہ جو کچھ تو نے کہا، اس بیچارے نے کیا۔ اور اگر اب تو جادو کے کرنے کی فکر میں ہے تو ہر گز تیرا جادو اس پر اثر نہ کرے گا، کیوں کہ ایک سرخ مہرہ اور بھی اپنے پاس رکھتا ہے۔

اس بات کو سن کر وہ شرمندہ ہوا اور اس جوان کو گلے لگا لیا؛ پھر شادی کا سامان کیا اور اپنی بیٹی کو بہ آئین شایشتہ
 

الشفاء

لائبریرین
صفحہ نمبر 273 سے صفحہ نمبر 280
----------------------------

صفحہ 273
-------
نظر سے بھی نہ دیکھا، صحبت کرنا تو معلوم۔ جب سات روز گزر گئے تب اُن عورتوں نے اپنے سرداروں سے جا کر حاتم کی نیک ذاتی اور نیک طینتی کی خبر دی۔
حاکم شہر نے اُس کو اپنے روبرو بلوایا، عزت و حرمت سے مسند پر بٹھایا اور کہا کہ اے جوان! اگر اسی شہر میں بود و باش اپنی کرے تو عین مہربانی ہے اور میں بھی اپنی بیٹی تیری خدمت میں دوں۔
حاتم نے کہا کہ مجھ کو ایک کار ضروری درپیش ہے بسبب اُس کے لاچار ہوں، نہیں تو رہتا۔
یہ سن کر اُس نے کہا کہ اگر ہم بھی اُس کام سے مطلع ہوں تو تیری رفاقت کریں۔
حاتم نے التماس کیا کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی میرے ساتھ تکلیف کھینچے۔
وہ بولا کہ اے جوان! اگر ساتھ نہیں لیتا تو بھلا یہی کہہ دے کہ وہ ایسا کیا کام ہے۔
حاتم نے کہا کہ ایک عورت حسن بانو نامی سات سوال رکھتی ہے، جو کوئی اُن کا جواب بخوبی دے، اُسی سے وہ اپنا نکاح کرے۔ حاصل یہ ہے کہ شہزادہ منیر شامی اُس پر عاشق ہوا ہے ، نہ طاقت جدائی کی رکھتا ہے، نہ قدرت وصال کی اور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ اُس کے سوال پورے کر سکے، مگر اُس کے فراق میں جنگل جنگل روتا پھرتا تھا۔ اتفاقاً مجھ سے ملاقات ہو گئی، میں نے جو اُسے بہ حال تباہ آہیں بھرتے دیکھا نہایت غمگیں ہوا، بلکہ رو دیا؛ آخرکار میں تاب نہ لا سکا، برائے خدا اس کے لیے اپنے شہر سے نکلا اور مسافرت اختیار کی۔

صفحہ 274
-------
خدا کے فضل سے چار سوال اُس کے پورے کر چکا ہوں، یہ پانچویں سوال کی باری ہے اور وہ یہ ہے کہ کوہ ندا کی خبر لایا چاہیے۔ اسی تلاش میں چھ مہینے گزر گئے ہیں۔ جس سے پوچھتا ہوں، کوئی نہیں بتاتا۔ اگر تجھ کو خبر ہووے تو اُس کا کھوج بتا دے، گویا کہ تو نے میرا ساتھ دیا، مدد کی، مہربانی فرمائی۔
یہ بات سن کر اُس دیرینہ سال نے کہا کہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ دکھن کی طرف طلسمات ہے اور اس کے بائیں طرف ایک شہر عالی شان آباد ہے، وہاں آج تک کسی نے مردہ نہیں دیکھا، نہ قبر دیکھی ہے اور نہ کوئی کسی کے واسطے روتا ہے۔
یہ ماجرا سن کر حاتم نے کہا کہ مجھ کو اُسی سمت کو جانا ہے۔
وہ بولا کہ اے عزیز! سنی ہوئی راہ تو کس طرح چلے اور منزل مقصود کو کیوں کر پہنچے گا؟
حاتم نے کہ کہ جو مجھے یہاں لایا ہے، وہی وہاں پہنچاوے گا۔
اس سخن کو سن کر اُس دیرینہ سال نے بہت سا زر و جواہر اس کے آگے رکھ دیا۔ حاتم نے اُس میں سے خرچ راہ کے موافق لیا اور باقی فقیروں کو دے کر اُسی طرف کا رستہ پکڑا۔
بعد ایک مدت کے قریب ایک شہر کے جا پہنچا اور اس کے گرد وپیش کوئی قبر نہ دیکھی، جانا کہ وہ شہر یہی ہے، اندر گیا۔
وہاں کے رہنے والوں نے پوچھا کہ اے جوان! تو کہاں

صفحہ 275
-------
سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟
حاتم نے کہا " شاہ آباد سے آیا ہوں اور کوہ ندا کو جاؤں گا۔"
انہوں نے کہا " کوہ ندا کا رستہ یہاں سے بہت دور ہے، تو نہیں جا سکے گا۔"
اُس نے جواب دیا کہ جو مجھ کو یہاں لایا ہے وہ کریم کارساز وہاں بھی پہنچائے گا۔ پھر انہوں نے کہا کہ تو آج کی رات یہیں رہ جا، ہماری دال روٹی قبول کر۔
حاتم اس بات کو سن کر وہیں اتر رہا۔ اور وہاں ایک شخص کتنے دنوں سے بیمار تھا، اس کے وارثوں نے جمع ہو کر اسے ذبح کیا اور گوشت آپس میں بانٹ لیا اور یہ شخص جس نے حاتم کو مہمان رکھا تھا اپنا حصہ پکا ایک کوزہ پانی اور دو چار روٹیاں شام کے وقت حاتم کے پاس لے آیا اور کہنے لگا کہ اے مسافر! جلد اس کو کھا کہ کبھی ایسی نعمت نہ کھائی ہو گی۔
حاتم نے کہا " اے عزیز! میں نے جتنے چرند پرند حلال ہیں، سب کھائے ہیں، یہ کس جانور کا گوشت ہے جو میں نے نہیں کھایا؟"
اُس نے کہا " البتہ تو نے جانوروں کا گوشت کھایا ہو گا پر یہ آدمی کا ہے، ایسا کبھی نہ کھایا ہو گا۔"
حاتم نے یہ بات سن کر کہا " تم آدم خور ہو، تم سے ڈرا چاہیے، شاید کسی مسافر کو تم نے مارا ہے، اُس کا گوشت کھایا چاہتے ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہی قاعدہ ہے تمہارا کہ جو مسافر بھولا بھٹکا یہاں آ نکلتا ہے، تم اس کو ذبح کر کے گوشت

صفحہ 276
-------
آپس میں بانٹ کر کھا لیتے ہو۔"
وہ بولا کہ اے مسافر! توبہ کر، خدا سے ڈر، ہم مسافروں کو مار کر نہیں کھاتے۔
تب حاتم نے کہا کہ یہ طرفہ ماجرا ہے، تو آپ ہی کہتا ہے کہ یہ گوشت آدمی کا ہے، پس کوئی اپنے ہم جنس کو ذبح کر کے نہیں کھاتا مگر غیر کو۔
اس شخص نے جواب دیا کہ یہ غلط سمجھا ہے تو۔ ہمارے ملک کی یہ رسم ہے کہ جو کوئی بیمار پڑتا ہے، اس کے قبیلے کے لوگ اس کو ذبح کر کے گوشت کے حصے آپس میں کر لیتے ہیں؛ چنانچہ اسی سبب سے ہمارے شہر میں اپنی موت سے کوئی نہیں مرتا اور نہ قبر بنتی ہے۔
حاتم نے اس ماجرے کو سن کر کہا کہ لعنت خدا تمہاری رسم پر اور تمہارے شہر پر۔ خدا کریم ہے، اکثر بیماروں کو اچھا کرتا ہے اور اکثر اچھوں کو بیمار کر ڈالتا ہے؛ پس جو کسل مند ہو ، تم اس کو ذبح کر کے کھا جاؤ، یہ فعل کس قوم میں درست ہے۔ یہ کیا ظلم ہے، اس حرکت سے تم سب کے سب گنہگار ہو اور ہزاروں خون تمہاری گردنوں پر ہیں، تمہارا منھ دیکھنا روا نہیں۔
یہ کہہ کر اُٹھ کھڑا ہوا اور جنگل کی راہ لی۔ تھوڑی دور جا کر کیا دیکھتا ہے ایک شیر مارے بھوک کے زمین پر تڑپ رہا ہے۔ یہ حالت دریافت کر کے اُس نے ایک ہرن کو شکار کیا اور اس شیر کے آگے ڈال دیا۔ اُس نے بخوبی تمام پیٹ بھر کر کھایا، پھر سجدہ شکر ادا کر کے جنگل کی راہ لی۔ اور حاتم نے بھی کچھ کباب کھا کر ایک تالاب پر جا کے

صفحہ 277
-------
پانی پیا اور درگاہ الٰہی میں سجدہ کر کے آگے کا رستہ پکڑا۔
جب کسی جنگل میں کچھ میوہ دانہ نہ پاتا، اسی طرح سے شکار کر کے گوشت ہی کھاتا۔
بعد چند روز کے ایک آبادی نظر آئی، اس کی طرف چلا۔ جب قریب جا پہنچا، کیا دیکھتا ہے کہ بہت سے لوگ میدان میں آگ جلا کر اُس کے گرد کھڑے ہیں۔ اس نے بڑھ کر ان سے پوچھا کہ اے یارو! یہ کون سا ملک ہے اور تم کون ہو اور اس جگہ اتنی لکڑیاں جمع کر کے آگ کیوں جلائی ہے؟
انہوں نے کہا "اے فقیر! تو اپنی راہ لے، تجھے اس کے دریافت کرنے سے کیا حاصل۔ یہاں کچھ رسوئی نہیں ہوتی جو ہم تجھے کچھ دیں، ہماری قوم سے آج ایک شخص مر گیا ہے اُس کی جورو اس کے ساتھ جلتی ہے۔"
حاتم نے کہا کہ اے یارو! تم اس مردے کو زمین میں کیوں نہیں گاڑتے اور اس غریب عورت کو جیتے جی کیوں جلاتے ہو؟"
انہوں نے کہا کہ اے عزیز! معلوم ہوا کہ تو اس ملک کا رہنے والا نہیں۔ صاحب یہ ملک ہندوستان ہے، یہاں کی رسم یہ ہے کہ جورو اپنی خوشی سے خاوند کے ساتھ جلتی ہے۔
حاتم نے کہا " صاحبو! مردے کے ساتھ جیتے کو جلانا یہ رسم نہایت بد ہے۔" یہ کہہ کر ان سے رخصت ہوا اور کسی گاؤں میں جا پہنچا، وہاں ایک شخص سے پانی مانگا۔
وہ ایک کٹورا دودھ کا اور ایک مٹھے کا بھر کر لے آیا اور کہنے لگا کہ اگر تیرا جی چھاچھ پر چلے تو یہ حاضر ہے

صفحہ 278
-------
اور اگر دودھ کی طرف طبیعت رغبت کرے تو یہ دونوں موجود ہیں۔ ان دونوں میں سے جسے چاہے اُسے پی۔ حاتم نے پہلے مٹھا پی لیا پھر دودھ کا پیالا مانگا۔
اُس نے تھوڑی سی شکر اس میں ڈال کر وہ بھی پیالا حوالے کیا اور کہا کہ اے مسافر! اس وقت میرے گھر میں اچھے مہین خاصے چانول باس متی کے پکے ہیں بلکہ تیار دھرے ہیں، اگر تو کہے تو وہ بھی لے آؤں ، ان کےساتھ کھا نہایت مزا ملے گا۔
حاتم بولا کہ بہت اچھا، نیکی کا پوچھنا کیا، اور اپنے دل میں اس کی ہمت پر عش عش کرنے لگا۔ غرض وہ ہندو ایک تھالی میں تھوڑا سا مٹھا لے آیا، حاتم نے اس کو بخوبی کھایا اور رات کی رات اسی گاؤں میں بستر کیا۔
صبح کے ہوتے ہی اس ہندو کی جورو نے آکر کہا کہ رسوئی تیار ہے، کچھ اس سے کھاؤ اور دو چار دن یہیں رہو تاکہ ماندگی راہ کی دور ہووے۔
یہ بات سن کر حاتم نے اُن دونوں کو کہا " آفرین صد آفرین تمہاری اس ہمت اور اس مسافر پروری پر۔"
یہ سن کر انہوں نے نہایت عجز سے کہا کہ ہم سے تمہاری خدمت کب ہوئی، یہ کھانا گھر معمولی لڑکے بالوں کے لیے موجود تھا، وہی ہم بے تکلف لے آئے ہیں۔ اگر دو تین دن یہاں تشریف رکھو تو البتہ ہم موافق اپنی مقدور کے کچھ خدمت بجا لائیں۔
حاتم نے کہا " بہت اچھا، میں تمہاری خاطر سے دو چار روز رہوں گا۔"

صفحہ 279
-------
اس بات کو سن کر وے خوش ہوئے۔ پھر اس ہندو نے ایک مکان خوش اسلوب میں ایک پلنگ نہایت تکلف سے بچھایا اور فرش بھی اس کے آگے ستھرا صاف کر دیا، پھر کھانے اقسام اقسام کے پکوا کر اُس کے آگے رکھے اور کہا کہ اس میں سے کچھ نوش جان فرمائیے تو عین احسان و مہربانی ہے۔
حاتم نے تو ایسے کھانے کبھی نہ کھائے تھے، اُن کو کھا کر نہایت محظوظ ہوا اور بہت سی تحسین و آفرین کر کے اُن سے کہنے لگا کہ یہ ملک ہندوستان عجب گلستان ہے لیکن یہاں کی یہی رسم بد ہے کہ جیتی عورت کو موئے خصم کے ساتھ جلاتے ہیں، باوجود اس کے کہ مردے کا بھی جلانا برا ہے۔
اس بات کو سن کر اُس ہندو نے کہا کہ یہ سچ ہے پر زن و شوہر اُلفت بہت سی رکھتے ہیں بلکہ آپس میں عاشق و معشوق ہوتے ہیں؛ حیف ہے کہ خاوند مرے اور جورو جیتی رہے۔ ہم بہ زور نہیں جلاتے، وہ اپنی خوشی سے جلتی ہے۔ اگر تھوڑے دن اس شہر میں رہو تو ہم تمہیں دکھلاویں گے۔
یہ وہاں رہا۔ اتفاقاً وہاں کا رئیس بیمار ہو کر دو چار ہی دن میں مر گیا۔ اس کی چار جوروئیں تھیں اور پہلی بی بی کا ایک لڑکا بھی تھا۔ جب اس کی ارتھی بنا کر لے چلے تب وے چاروں کم خواب کے لہنگے پہن، لال تاش کی ساڑیاں باندھ، پاتے سے آراستہ ہو ، پھولوں کے ہار گلے میں ڈال، بالوں کو بکھیر ساتھ ہو لیں۔ قبیلے کے لوگ ان کے پاؤں پر گر پڑے کہ تم بھری پری ہو، تمہیں جانا مناسب نہیں۔ انہوں نے کسی کا کہنا نہ مانا۔

صفحہ 280
-------
تب حاتم ان کے پاس جا کر کہنے لگا کہ اے پری زادو! تمہیں شرم نہیں آتی جو اپنے گھر سے نکل کر نا محرموں میں آئی ہو اور ایک مردے کے ساتھ جلنا چاہتی ہو۔
وے ہنس کر کہنے لگیں کہ اے جوان! تجھے ہمیں دیکھنے سے حیا نہیں آتی اور ہم تو مردے ہیں، ہم کو ستر پردے کی کچھ خبر نہیں کیوں کہ وہ کون سا دن تھا کہ اس مردے کے ساتھ ہم نے عیش و آرام نہ کیا تھا۔ اب وہ جو مر گیا ہے تو ہم اس سے جدا ہوں اور جیتی رہیں، یہ بات محبت و مروت سے بعید و دور ہے؛ سوائے اس کے تمام عمر آتش فراق میں بھی جلنا پڑے گا جس سے بہتر یہی ہے کہ ایک ہی بار اس کے ساتھ جل بجھیں جو تمام عمر غم سے اور آتش فراق سے چھوٹیں۔ آگے پرمیشر جانے کیوں کہ اس بات سے جی ڈرتا ہے کہ کہیں شیطان اپنے مکر سے ہمارے دلوں میں ایسا وسوسہ نہ ڈالے کہ جس کے سبب سے اپنے سوامی کو بھول کر کسی غیر کی طرف نظر بد سے دیکھیں اور اپنی عصمت کو کھو دیں؛ پھٹکار ہے ایسی زندگی کو۔
غرض انہوں نے حاتم کے کہنے کو بھی نہ مانا اور دیوانوں کی طرح ادھر اُدھر دیکھتی بھالتی چتا تک جا پہنچیں۔ پھر اس مردے کو لے چتا میں رکھا اور آپ ہنستی ہوئیں اس کے گرد گئیں؛ پھر کسی نے سر اس کا زانو پر رکھ لیا، کسی نے پاؤں گود میں لے لیے، نداں چتا کو آگ لگا دی۔ تب حاتم نے جانا کہ یہ اس آگ کی گرمی سے ڈر کر بھاگ جائیں گی لیکن یہ گمان غلط پڑا۔ وہ ہنسی خوشی سے اس کے ساتھ جل کر راکھ ہو گئیں۔ حاتم اس احوال کو دیکھ کرگھبرایا اور افسوس کرنے لگا۔ جب وہ لوگ اپنے گھروں کو چلے
---------------------------------
صفحہ نمبر 273 سے صفحہ نمبر 280 مکمل
---------------------------------
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۰۱

اُنہوں نے فریاد کی کہ اے حاتم طائی! تو اپنی جان کے ڈرسے ہمیں مارتا ہے، ہم بھی خدا ہی کے بندے ہیں، کچھ تجھے ایذادینے نہیں آئے۔

اُس نے تیر و کمان ہاتھ سے ڈال دیا اور سر جھکا کر بیٹھ گیا؛ پھر دل میں اندیشہ کیا کہ ان کو مجھ سے کیا کام ہے جو ادھر آتے ہیں، تیر اُنہوں نے درمیان ہی سے پکڑ لیا، اگر دوسرا ماروں گا کاہے کو کارگر ہو گا۔

اتنے میں وہ نزدیک آ کر کہنے لگے : "اے حاتم! تجھ کو شرم نہ آئی جو جواہر کی طمع کی۔"

وہ بولا "میں نے کس کا جواہر لیا، کیا لالچ کیا۔"

اُنہوں نے کہا کہ تو فلانے جنگل سے جواہر لایا ہے، اب تک تیرے پاس موجود ہے۔

یہ سن کر حاتم نے جواب دیا کہ اے یارو! ملک خدا کا وسیع ہے، اگر میں نے وہاں سے اُٹھا لیا تو کسی کو کیا، کچھ تمہارا تھوڑا ہی ہے۔

وہ بولے کہ یہ ایک اور خلقت کے واسطے اللہ تعالٰی نے رکھا ہے۔

حاتم نے کہا "وہ خلقت کون سی ہے جو انسان سے شریف تر ہو گی، بلکہ انسان ہی سب سے بہتر ہے۔"

اُنہوں نے کہا "یہ سچ ہے مگر یہ جواہر خالق نے پریوں کے واسطے رکھا ہے کہ وے اپنے کام میں لاویں۔"

اُس نے کہا "مگر آدمی اس جواہر کے لایق نہیں جو اسے پہلے یا تصرف میں لاوے۔ اور میں نے تو لوگوں کو دکھلانے کے


صفحہ ۳۰۲

واسطے اُٹھا لیا ہے کہ خدا نے جنگلوں میں کس کس افراط سے کیا کیا چیزیں پیدا کی ہیں، دیکھیں اور اس کی صنعت کا کسی طرح انکار نہ کریں۔"

اس بات کو سن کر دیووں نے کہا "سچ کہتا ہے، واقعی تجھ کو لالچ نہیں، پر سلامت اپنے شہر کو جایا چاہتا ہے تو اس جواہر سے ہاتھ اُٹھا۔"

یہ سنتے ہی حاتم نے سب کا سب پھینک دیا اور کہا کہ تمہیں لے جاؤ، لیکن حیف ہے کہ میں اس کو بہت دور سے اُٹھا لایا تھا اور بڑی محنت اور مشقت اس کے لیے کھینچی تھی۔ تم نے بڑا ظلم کیا کو جو اس کو مجھ سے لے لیا۔ یہ کیا چلن ہے، کسی کی محنت ضایع ہو، میں کچھ چرا کر نہیں لایا تھا۔

اُنہوں نے کہا کہا گر تو اس کے اُٹھانے کی مزدوری چاہتا ہے تو یہ بھی نہیں پہنچتی کیوں کہ بےکہے کسی کے اس قدر مال اُٹھانا اور اپنے پاس رکھنا یہ کب روا ہے، بلکہ ایسی محنت کی گنہ گاری دینی پڑتی ہے۔

حاتم یہ باتیں سن کر چپکا رہ گیا، سر نیچا کر لیا۔ اُنہوں نے ایک لعل، ایک الماس، ایک زمرد جو سب سے بیش قیمت اپنی اپنی قسم میں تھا، اُس کو دیا کہ اتنا ہی تجھ کو بہت ہے،لے۔

اس نے لے لیا اور کہا "اے بندگان خدا! مجھ کو راہ بتلا دو جو میں کسی طرح سے اپنے ملک کو پہنچوں۔"

وے بولے "اے جوان! غنیمت جان جو تو صحیح و سلامت آیا اور جیتا جاگتا چلا، کیوں کہ اس حد سے کوئی آج تک جان سلامت لے کر نہیں گیا۔ اب اس قدر اندیشہ مت کر کہ


صفحہ ۳۰۳

تیری عمر پڑی ہے۔ اس سے آگے ایک جواہر کا دریا ملے گا، بعد اُس کے دریائے آتش۔ اگر ان سے صحیح و سالم اُتر گیا تو مقرر اپنے ملک میں پہنچے گا، پر کسی چیز کا لالچ نہ کرنا، اسی میں تیری سلامتی ہے۔ خدا نہ خواستہ اگر کسی چیز پر دل دوڑاوے گا تو اپنے کیے کی سزا پاوے گا۔"

یہ کہہ کر وہ پانی میں اُتر پڑے، اس کی نظر سے چھپ گئے۔ حاتم تمام رات اسی مکان پر بیٹھا اللہ اللہ کیا کیا۔ صبح کو اُس جگہ اے اُٹھ کر آگے بڑھا۔ تھوڑی دور گیا تھا کہ ایک دریا دکھلائی دیا کہ تمام پانی اس کا سونے کا ساتھا، بارے اُس سے صحیح و سلامت پار اُتر گیا۔ بعد چند روز کے ایک اور دریا نظر پڑا، یہ اس کو دیکھ نہایت شاد ہوا، اس واسطے کہ بہت پیاسا تھا۔ جب اُس کے نزدیک پہنچا، نگاہ کی تو کنارےپر اُس کے ہزاروں موتی سنگ ریزے کی طرح پڑے تھے، لیکن ہر ایک انڈے کے برابر تھا کہ اُن کی چمک سے آنکھٰن جھپکی جاتی تھیں اور قیمت کا تو ٹھکانا نہ تھا۔ حاتم لالچ میں آ کر چاہتا تھا دس بیس اُٹھا لے کہ اتنے میں اُن دونوں کی نصیحت یاد آئی۔ ڈر کر اس حرکت سے باز رہا اور اس کے کنارے پر بیٹھ گیا؛ کیا دیکھتا ہے کہ پانی اس کا دودھ اور شہد کی مانند ہے، پیاسا تو تھا ہی خوب پیٹ بھر کر پیا۔

غرض اس سے بھی بہ خوبی گزر گیا۔ اور آگے بڑھا کہ ایک روشنی دور سے نظر آئی، گویا کہ ایک تختہ سونے کا ہوا میں چمک رہا ہے، اُسی کی طرف چلا۔ بعد ایک مہینے کے قریب جا پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک پہاڑ سونے کا آسمان سے لگا جھم جھما رہا ہے۔ یہ اُس پر چڑھ گیا، وہاں ہر ایک درخت سونے کا پھولا پھلا دیکھا، متعجب ہوا۔ تین روز تک اُس پر


صفحہ ۳۰۴

چلا گیا، ندان ایک میدان وسیع نظر پڑا کہ تمام زمین اُس کی سونے کی رنگت تھی؛ پھر اُس سے آگے بڑھا تو ایک محل سونے کا نہایت خوش اسلوب دیکھا۔ جب قریب پہنچا، دروازہ کھلا پایا، اندر چلا گیا۔ وہاں ایک باغ نہایت پر فزا گل و ثمر سے بھرا نظر آیا؛ ہزاروں درخت اُس میں سونے کے بھی چمک رہے تھے اور جڑاؤ پتے پھولوں سمیت اُن کے دمک رہے تھے۔

حاتم دیکھ کر حیران ہوا اور صانع کی صنعت کا شکر کرنےلگا؛ پھر تھوڑا سا میوہ توڑ کر کھایا کہ ایک حوض نظر پڑا۔ پانی اُس کا صاف شفاف ماند بلور کے تھا۔ کنارے پر اس کے آ بیٹھا اور دل میں فکر کرنے لگا کہ یہ باغ کس کا ہے اور مالک اس کا کون ہے، کس سے پوچھیے۔ اتنے میں کئی پریاں جھم جھماتی پوشاک اور جڑاؤ گہنے سے آڑاستہ جلوہ گر ہوئیں اور حاتم کو دیکھتے ہی مسکرا کر بھچک سی رہ گئیں کہ یہ مکان کہاں اور آدم زاد کہاں! حاتم بھی اُن کو دیکھ کر مقام حیرت میں آیا کہ یا الٰہی! یہ کیا حسن ہے جو تو نے ان کو بخشا۔ وہیں ملکہ زرین پوش یاد آئی کہ وہ بھی ایسا ہی حسن رکھتی تھی، خدا اُس سے جلد ملائے اور جمال اُس کا جلد دکھائے۔

القصہ اُن سے کہنےلگا کہ اے خدا کے بندو! تم کون ہو؟ سچ کہو اور اس جگہ بادشاہ کون ہے بتلاؤ؟

اُنہوں نے کہا کہ یہ محل پری نوش لب کا ہے۔

اتنے میں وہ آ ہی پہنچی۔ حاتم اس کو دیکھتے ہی بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ وہ اُس کے سرہانے آ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی "ارے کوئ ہے، جلد آ کر اس کے منہ پر گلاب چھڑکے۔" ووں ہی ایک نازنین دوڑی گئی اور جڑاؤ گلاب پاش


صفحہ ۳۰۵

لا کر اس کے منہ پر گلاب چھڑکنے لگی۔

حاتم ہوش میں آیا۔ پھر پری نوش لب ایک تخت مرصع پر جا بیٹھی اور اُس کو ایک کرسی جواہر نگار پر بٹھلا کے کہنے لگی کہ اے جوان خوش رو! سچ کہہ، کہاں سے آیا ہے اور کس کام کا ارادہ کر کے یہاں پہنچا ہے اور اب کدھر کو جائے گا؟

حاتم نے تمام احوال اپنا ابتدا سے تا انتہا اس کے سامنے بیان کر کے پوچھا کہ اس مکان کا مالک کون ہے اور اس پہاڑ کا کیا نام ہے؟

پری نوش لب نے کہا کہ اس پہاڑ کو کوہ زریں کہتے ہیں۔ یہ مکان شاہ بال بادشاہ کاس (۱) ہے اور اس کی ایک آسا نام بیٹھی ہے، میں اُس لڑکی کی ایک خواص ہوں؛ چناں چہ ساتواں روز میری باری کا ہے، اس روز میں اُس کی خدمت میں جا کر حاضر ہوتی ہوں۔ اور یہ مکان کوہ قاف سے تعلق رکھتا ہے، اگرچہ دنیا کی حد میں ہے اور یہ دور سے جو دکھلائی دیتا ہے، اُسی کا قلعہ ہے۔

غرض چار روز تک حاتم کو مہمان رکھا، انواع و اقسام کے کھانے اور میوے کھلائے، بہت سی مدارت کی؛ پانچویں روز کہا "یہ جگہ تمہارے رہنے کے قابل نہیں، بہتر یہ ہے کہ یہاں سے تشریف لے جاؤ" حاتم اُس پری سے رخصت ہو کر پہاڑ ہی پہاڑ چلا۔ دس بیس دن کے بعد پہاڑ سے اُتر کر کسی جنگل میں جا پہنچا، وہاں ایک سونے کا سا دریا دکھلائی دیا کہ پانی گلے
--------------------------------------------------------------------------------------------------
(۱) نسخۂ مطبوعہ بمبئی (ص ۲۳۳) میں "یہ مکان شاہ بال کا بادشاہ ہے" لیکن "کا" کی ترتیب بدل گئی ہے، غالباً اس طرح ہو گا "شاہ بال بادشاہ کا ہے" (فائق)


صفحہ ۳۰۶

ہوئے سونے کی مانند لہریں لے رہا ہے اور موج (۱) اُس کی آسمان سے ٹکریں لے رہی ہیں۔ یہ دریائے فکر میں غرق ہو کر اُس کے کنارے بیٹھ گیا کہ اس سے کیوں کر پار ہو جیے۔

اتنے میں ایک سونے کی ناؤ دور سے نظر آئی اور جھٹ سے کنارے پر پہنچی۔ حاتم نے خدا کا شکر کیا اور اُس پر بیٹھ گیا؛ وہیں ایک طباق حلوے گرم گرم سے بھرا ہوا نظر پڑا؛ بھوکا تو تھا ہی کمال رغبت سے کھایا۔ چاہتا (۲) کہ دریا میں ہاتھ ڈال کر پانی پیے، ڈرا کہ مبادا یہاں ہاتھ سونے کا نہ ہو جاوے، کھینچ لیا۔ پھر ایک کٹورا بغل سے نکال کر بھرا۔ از بس کہ تشنگی غالب تھی، تھوڑا سا پانی حلق میں ٹپکایا؛ انتے میں کیا دیکھتا ہے کہ کٹورا اور چار دانت سونے کے ہو گئے۔

غرض چالیسویں دن کشتی کنارے پر پہنچی۔ حاتم نے کنارے پر اُتر کر دوگانہ شکر کا ادا کیااور آگے چلا۔ سات روز تک چلا گیا اور ایسے ایسے عجائبات دیکھے کہ اتنی مدت میں نہ کبھی دیکھے تھے نہ سنے۔ آٹھویں دن پتھروں کے میدان میں جا پہنچا۔ وہاں کا ہر ایک کنکر پتھر ایسا گرم تھا گویا آگ سے ابھی نکلا ہے۔ یہ جوں تیوں چند قدم چلا، آخر طاقت نہ رہی، مجبور ہو کر بیٹھ گیا۔ ہونٹ مارے گرمی کے سوکھ گئے بلکہ تمام بدن جل اُٹھا؛ تب تو نہایت بے قرار ہو کر مہرہ منہ میں رکھ لیا، پر کچھ فائدہ نہ دیکھا۔ آخر اس کو منہ سے نکال کر پھینک دیا اور آپ زمین پر ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگا؛ یہاں تک کہ
--------------------------------------------------------------------------------------------
(۱) "موج" واحد اور آگے "لے رہی ہیں" فعل جمع ہے۔ غالباً "موجیں" ہو گا۔ فائق
(۲) "چاہتا تھا" ہونا چاہیے۔ نسخۂ مطبوعۂ بمبئی (ص ۲۳۴) یں "چاہتا" ہے۔ فائق


صفحہ ۳۰۷

بے ہوش ہو گیا بلکہ قریب مرگ کے پہنچا؛ منہ کھل گیا، زبان باہر نکل پڑی۔ اتنے میں وے دونوں شخص جو جواہر لے گئے تھے، پیدا ہوئے اور اُس کو اُٹھا کر آب شیریں و سرد پلایا۔

حاتم ہوش میں آیا، آنکھیں کھول کر دیکھا، وہیں وے دونوں شخص نظر پڑے؛ بولا کہ آفرین ہے اے یارو! بر وقت پہنچے اور بڑی مدد کی۔ اب کہو کس طرف جاؤں اور یہ گرمی کس سبب سے ہے؟

اُنہوں نے کہا "اس سے آگے دریائے آتش ہے، یہ گرمی بھی اُسی کے باعث ہے، پر رستہ یہی ہے، چلا جا، خدا کی قدرت سے اپنے ملک میں پہنچ رہے گا۔ راہ بتلانا ہمارا کام نہیں مگر اتنا ہو سکتا ہے کہ یہ آگ دھیمی ہو جاوے۔"

اُس نے کہا "جو کچھ تم سے ہو سکے قصور نہ کرو، یہ بھی احسان سے خالی نہیں۔"

تب اُنہوں نے ایک مہرہ نکال کر حاتم کو دیا اور کہا کہ آگے دریائے آتشیں ہے، جو اس کو اپنے منہ میں رکھ لے گا تو آگ تجھ پر کارگر نہ ہو گی، ٹھنڈے ٹھنڈے چلا جائے گا، پر یہ یاد رہے دریا کے پار ہوتے ہیں اس مہرے کو پھینک دیجو۔

یہ کہہ کر حاتم کی نظر سے غائب ہو گئے۔ وہ رات کی رات وہیں رہا، صبح کو مہرہ اپنے منہ میں رکھ کے آگے چلا۔ بعد تین روز کے سامنے سے آگ کے شعلے معلوم ہونے لگے۔ یہ ڈرا اور "العظمت للہ" کہہ کر آگے بڑھا۔ جب کنارے پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ شعلے کی لہریں آسمان تلک جاتی ہیں اور آتی ہیں۔ حاتم مدہوش سا ہو کر کبھی آسمان کو دیکھتا تھا


صفحہ ۳۰۸

کبھی زمین کو۔ اتنے میں ایک ناؤ بھی کنارے آ لگی۔ وہ خدا کی حمد دل میں کر کے کہنے لگا کہ یہ دیدہ و دانستہ اپنے تئیں آگ میں ڈالنا ہے، پر کیا کروں، راہ یہی ہے، خدا آسان کرے گا، جو اُس کی رضا یہی ہے تو راضی رہا چاہیے۔ تن بہ تقدیر کر کشتی پر چڑھ بیٹھا، مہرہ منہ میں رکھ لیا؛ اتنے میں ایک قاب نان و کباب سے بھری ہوئی دیکھی، بے اختیار اس کو کھینچا اور پیٹ بھر کر کھایا۔

غرض کشتی چلی جاتی تھی، یہ مارے ڈر کے کبھی آنکھیں نہ کھولتا تھا۔ احیانا جو کبھی کھل جاتی تھیں تو جان نکلنےلگتی تھی، پھر وہیں بند کر لیتا تھا۔ قصہ کوتاہ ناؤدریا کی مانجھ دھار میں آ پہنچی اور چکی کی طرح پھرنے لگی۔ حاتم کو یقین ہوا کہ اب ڈوبتی ہے۔ خدا کی یاد میں مشغول ہوا اور آنکھوں پر پٹی باندھ کے سر بہ زانو ہو گیا کہ اب نہیں جیتا بچتا۔

بارے فضل الٰہی سے تین دن کے بعد کشتی کنارے میں جا لگی، حاتم اُتر پڑا۔ جوں آنکھیں کھول کر دیکھتا ہے، نہ وہ دریائے آتشین ہے، نہ کشتی ہے، ایک سہانا سا جنگل نظر آتا ہے۔ مہرے کو منہ سے نکال کر پھینک دیا اور آگے چلا۔ تھوڑی سی راہ طے کی تھی جو معلوم ہوا کہ سواد یمن ہے، نہایت شاد ہو کر شکر کیا، پھر کسی گاؤں کی طرف گیا۔

وہاں ایک کھیت پر کھڑے ہو کر کسان سے کہنے لگا کہ یہ نواح کس شہر کی ہے؟ اس نے کچھ جواب نہ دیا اور ٹکٹکی باندھ کر اُس کا منہ دیکھنے لگا۔

حاتم بولا "اے عزیز! تو بہرہ ہے جو نہیں سنتا۔"

صفحہ ۳۰۹

اُس نے عرض کی کہ تیری صورت میں اپنے حاتم شاہ زادے کی سی دیکھتا ہوں۔

حاتم نے یہ سن کر کہا کہ تو کون ہے اور کیا جانتا ہے۔؟

وہ بولا "اے جوان! یہ ملک یمن ہے اور حاتم ہمارا شاہ زادہ ہے۔ باپ اُس کا طے نام یہاں کا بادشاہ ہے، لیکن شاہ زادے کو سات برس ہوئے کہ اس ملک سے نکل گیا ہے۔ ایک مرتبہ خبر اُس کی ملکہ زریں پوش سے پہنچی تھی، اُس سے قدرے تسکین ہر ایک شخص کو ہوئی تھی۔ اب تو اس کے ماں باپ اور اقربہ کا نہایت برا احوال ہے کہ ہر ایک پر اپنی زندگی وبال ہے؛ خصوصا ملکہ زریں ہوش کی تو جان پر ہی آ بنی ہے، دیکھیے اُس کی ملاقات تک جیتی رہتی ہے یا نہیں۔"

حاتم نے کہا کہ میں تمہارے شہ زادے سے چند روز ہوئے ہیں کہ راہ میں ملا تھا، خیر و عافیت سے ہے، تو یمن میں جا کر اُس کی طرف سے چھوٹےبڑوں کی خدمت میں دعا سلام کہہ کہ یہ کہیو کہ حاتم شاہ آباد کی طرف گیا۔

پھر کہا "اے دھقان! میں بہت پیاسا ہوں، تھوڑا سا پانی پلا۔"

وہ جلدی سے ایک پیالہ دودھ کا اور ایک چھاچھ کا لے آیا۔ حاتم نے نہایت مزے سے پیا اور کہا "ہزار شکر ہے مدت کے بعد میں نے اپنے ملک کو دیکھا اور یہ نعمت کھائی" پھر اُٹھ کھڑا ہوا اور شاہ آباد کا رستہ لیا۔

تھوڑے دنوں میں وہاں جا پہنچا۔ لوگ دوڑے اور حسن بانو کو اُس کے آنے کی خبر دی۔ اس نے پردہ کر کے اندر بلایا اور


صفحہ ۳۱۰

ایک سونے کی کرسی پر بٹھلا کر کہا "آفرین ہے اے جوان! کیا خوب ہوا جو تو آیا، بارے کوہ ندا کی خبر کہہ اور وہاں کے بھید سے مجھے آگاہ کر۔"

حاتم نے نئے سر سے قصہ شروع کیا اور آخر تک کہہ سنایا۔

حسن بانو نے کہا " سچ کہتا ہے لیکن کچھ نشان بھی دکھلا کہ یقین آ جائے۔"

حاتم نے بایاں ہاتھ دکھلا دیا کہ یہ سب روپے کا ہو گیا تھا، پر میں نے ایک دن کسی آب زلال کے چشمے پر جو پہنچا اور اس کو دھویا، یہ اپنی اصلی صورت پر آ گیا لیکن ناخن اب تکل بھی روپے ہی کے ہیں؛ دوسرا نشان یہ ہے کہ دریائے زریں کے پانی سے چار دانت سونے کے ہو گئے ہیں اور تینوں رقم جواہر کے بھی دکھلا دیے۔

تب حسن بانو نے بہت سے آؤ بھگت کی اور کھانا نہایت پر تکلف منگوا کر رو بہ رو رکھوایا۔

حاتم نے کہا "بہتر یہ ہے کہ اس کو میرے ساتھ کر دو۔ میں کارواں سرائے میں جا کر منیر شامی کے ساتھ کھاؤں گا۔" پھر وہاں سے اُٹھ کر کارواں سرائے میں آیا اور منیر شامی سے مل کر کھانا مزے سے باہم کھایا اور اپنی سرگزشت مفصل بیان کی۔ اس نے اُس کی ہمت و جواں مردی کی نہایت تعریف و توصیف کر کے بہت سی معذرت کی۔

حاتم نے دو تین دن آرام کر کے حمام کیا اور نئے کپڑے پہن کر حسن بانو کے یہاں آیا۔ دربانوں نے خبر کی، اس نے اُسی


صفحہ ۳۱۱

طور سے پردہ کر کے اندر بلایا اور کرسی جواھر نگار پر بٹھلایا۔

حاتم نے کہا "صاحب! اب چھٹا سوال کیا ہے، اُس کو بھی کہو تاکہ میں پورا کروں۔"

یہ بات سن کر حسن بانو نے کہا کہ ایک موتی میرے پاس ہے، اس کے برابر کا دوسرا تلاش کر کے لا دے۔

حاتم بولا " میں اُسے ٹک دیکھ لوں۔" اُس نے منگوا کر دکھلا دیا۔ سب کہ وہ مرغابی کے انڈے برابر تھا۔ حاتم نے کہا "میں جانتا ہوں کہ مجھ تو اسے نہ دے گی لیکن نمونہ حوالے کر جو اس کے برابر ڈھونڈھ لاؤں۔"

حسن بانو نے ایک موتی روپے کا اُتنا بڑا بنوا کر حاتم کو دیا۔

وہ اس کو لے کر مہمان سرائے میں آیا اور منیر شامی کو دکھا کر کہنے لگا کہ حسن بانو اتنا بڑا ایک موتی مانگتی ہے۔ میں نے تو ایسا موتی اپنی عمر میں نہ دیکھا ہے نہ سنا، خدا جانے کس دریا میں اور کس جگہ پیدا ہوتا ہے۔

مییر شامی نے کہا "بھائی جس جگہ ایسا موتی پیدا ہوتا ہے پہلے اُس مکان کو تحقیق کر لو تب جاؤ۔"

حاتم نے کہا کہ پوچھنا کچھ ضرور نہیں، مجھ کو میرا خدا وہاں پہنچا دے گا، جس نے اتنی مشکلیں آسان کی ہیں وہ اسے بھی آسان کرے گا۔ یقین ہے کہ میں اُس دریا پر پہنچوں گا اور ایسے موتی لے آؤں گا۔ میں خالق پر توکل کیے ہوں، سوائے اس کے کسی سے اُمید نہیں رکھتا۔


صفحہ ۳۱۲

منیر شامی نے اس بات پر بہت سی آفرین کی اور کہا "چند روز ابھی آرام کرو۔"

لاچار ہو حاتم نے کہا "بھائی آخر یہ کام ہمیں کو کرنا ہے، پھر دیر لگانی کیا ضرور۔"

آخر حاتم منیر سے رخصت ہو کر ویسے موتی کی تلاش کے لیے روانہ ہوا۔


صفحہ ۳۱۳

چھٹا سوال

حاتم کے جانے کا اور
مرغابی کے انڈے برابر موتی لانے کا

جب حاتم شاہ آباد سے نکلا، پانچ چھ کوس پر جا کے ایک پتھر کی سل پر بیٹھ کر سر بہ زانو ہوا اور دل میں فکر کرنے لگا کہ یا الٰہی! ایسا موتی کس دریا سے ہاتھ لگے گا، مگر کچھ تو ہی اپنا فضل کرے تو وہ ایسا گوہر نایاب ملے۔

اتنے میں شام ہو گئی۔ ایک جوڑا ناطقہ کا ہفت رنگی کہ جس کا باسا دریائے قہرمان کے کنارے تھا، قدرت الٰہی سے وہاں ایک درخت پر آ بیٹھا۔

مادہ بولی کہ ہم کو یہاں کی آب و ہوا خوش نہیں آتی، اگرچہ اس جگہ ہمارے کھانے پینے کی چیزیں قسم قسم کی ہیں، بہتر ہے کہ یہاں سے اُڑ چلیں۔

نر نے کہا "میرا قصد تو یہ تھا کہ چند روز اس جنگل میں رہوں، پر تیرے کہنے سے اب صبح کو اپنے وطن چلوں گا، خاطر جمع رکھ، اس گھڑی چپکی رہ۔"

مادہ نے پھر کہا کہ یہ شخص کون ہے جو اس جنگل میں سر جھکائے غم گین و متفکر بیٹھا ہے؟

نر بولا "یہ حاتم یمن کا شہزادہ ہے۔ کیا کرے، حق بہ جانب ہے اس کے، جس قدر غم گین ہو بے جا نہیں، کیوں کہ


صفحہ ۳۱۴

اس کو مرغابی کے انڈے کے برابر موتی کی تلاش ہے۔ نہ اپنے واسطے بلکہ خدا کی راہ پر غیر کے واسطے اس نے اپنی کمر باندھی ہے؛ چناں چہ منیر شامی شہزادہ حسن بانو پر عاشق ہوا ہے، وہ سات سوال رکھتی ہے، شہزادہ نہ سوالوں کو پورے کرنے کی طاقت رکھتا ہے، نہ اس کے چھوڑنے کی قدرت۔ اس سبب سے دیوانہ وار پھرتا پھرتا صحرائے یمن میں جا نکلا اور یہ بھی شکار کھیلتا ہوا اسی جنگل میں آ پہنچا۔ باہم ملاقات ہو گئی۔ منیر شامی نے اپنا احوال اس سے کہا۔ اس نے ترس کھا کر اسی کے واسطے غربت اختیار کی اور یہ مصیبت اپنے سر پر لی۔ چناں چہ پانچ سوال اس کے پورے کر چکا ہے، اب چھٹے سوال کی باری ہے اور وہ لانا ایسے موتی کاہے۔ بے چارہ اس درخت کے تلے حیران بیٹھا ہوا اسی سوچ میں ہے کہ کہاں جاؤں اور ایسا موتی کدھر سے لاؤں۔ فی الواقع ان دیکھی راہ کیوں کر چلے اور موتی کس طرح پیدا کرے لیکن تو کہے تو میں اس کو راہ بتاؤں۔"

بولی "اس سے کیا بہتر کہ حیوان کا احسان انسان پر ہو۔"

جب اس کی مرضی پائی، نر کہنے لگا کہ ایسے موتی کی پیدائش یوں ہے کہ اگلے زمانے میں کتنے پرندے بعد تیس برس کے دریائے قہرمان کے کنارے انڈے دیتے تھے۔ اب ایک مدت سے وے جانور جاتے رہے اور اگلے انڈے بھی اسی دریا میں ڈوب گئے، مگر اُن دنوں میں سے دو انڈے بادشاہ جم جان قہرمانی کے ہاتھ لگے تھے؛ چناں چہ انہیں میں سے ایک بادشاہ شمس شاہ کے ہاتھ چڑھ گیا تھا۔ ہر چند کہ وہ آگے سے مال و جواہرات بہت سا رکھتا تھا بلکہ ایک شہر بھی اس نے


صفحہ ۳۱۵

بڑا سا بسایا تھا، اب وہ ویران پڑا ہے۔ اتفاقاً اسی کا خزانہ حسن بانو کے ہاتھ آیا ہے، وہ انڈا بھی اسی میں تھا جو اس نے پایا۔ القصہ جب جم جان قہرمانی مر گیا اور ملک اس کا کسی اور نے لے لیا، جورو اس کی حاملہ موتی لے کر محل سے بھاگی اور ایک جنگل میں جا پڑی۔ پہر ایک دن تھا کہ دریائے قہرمان کے کنارے جا نکلی۔ قٖضارا اس وقت مسعود سوداگر بھی کشتی پر بیٹھا ہوا وہاں آ نکلا۔ اس عورت نے کشتی کو دیکھ کر غل مچایا کہ خدا کے واسطے مجھ بے کس کو بھی اس ناؤ پر چڑھا لو۔ سوداگر نے رحم کھا کر کنارے پر ناؤ پھرا دی اور اس کو بٹھلا کر حقیقت پوچھی۔ اس نے تمام احوال اپنا کہہ دیا۔ مسعود سوداگر نے اس کو بیٹی کیا اور شہر میں لے آیا۔ بعد چند روز کے وہ عورت لڑکا جنی، نام اس کا برزخ رکھا۔ جب وہ لڑکا ہوشیار ہوا، مسعود سوداگر مر گیا۔ سرداری اس کی اس لڑکے کو ملی۔ وہ ایک مدت تک اس کے مال و دولت سے لاکھوں سپاہی نوکر رکھا کیا، کئی ہزار گاؤں اپنے قبضے میں لایا، ندان وھاں کا بادشاہ ہوا۔ جب وہ مر گیا، حضرت سلیمان نبی علیہ السلام بادشاہ ہوئے؛ تب انہوں نے تمام نواحی کوہ قافکی اور دریائے قلزم و قہرمان اور دریائے زرین و آتش بلکہ جو کچھ کوہ قاف سے علاقہ رکھتا تھا، سو سب کا سب دیووں، پریوں، جادوگروں، مردم آزاروں کے رہنے کو دیا اور کہا کہ تم سب اس کو آباد کرو، آدمیوں کے شہر کی طرف مت جاؤ۔ چناں چہ وے جزیرے اور شہر انہیں قوموں سے آباد ہیں، آدمی کو وہاں کچھ تعلق نہیں۔ غرض رفتہ رفتہ وہ موتی ہشام پری سرخ کلاہ کے ہاتھ لگا تھا۔ اب ماہ یار سلیمانی جو آدمی اور پری سے پیدا ہوا ہے، اس نے لے لیا ہے۔


صفحہ ۳۱۶

بالفعل استقامت اس کی برزخ کے جزیرے میں ہے۔ وہ ایک لڑکی نہایت حسین و مہ جبین رکھتا ہے، لیکن بیاہ اس کا اس شرط پر ٹھہرایا ہے کہ جو کوئی اس موتی کی پیدائش کا احوال ظاہر کرے گا، میں اس لڑکی کو اسی کے ساتھ بیاہ دوں گا۔ یہ شہرہ سن کر اکثر پری زاد اس کے پاس آئے پر کوئی اُس موتی کی پیدائش سے آگاہ نہ تھا جو بیان کرتا۔ ہر ایک مایوس ہو کر بھر گیا۔ اور ماہ یار سلیمانی بڑا عالم و فاضل ہے، سوائے اس کے اُس وقت کی کتابیں اس کے ہاتھ لگی ہیں۔ اس نے ان کو پڑھ کر احوال اس موتی کے پیدا ہونے کا دریافت کر لیا ہے۔ اور ان جانوروں کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت سے حکم نہیں جو کہیں انڈے دین، اس واسطے پیدا ہونا ایسے موتی کا موقوف ہے، بلکہ اس بات کے کہنے کی بھی منا (منع) ہی ہے؛ پر میں نے جو اس جوان کو اہل ہمت اور خدا ترس دیکھا اس لیے یہ احوال ظاہر کیا۔ یہ دل سے نیک کاموں کی سعی میں کمر باندھے پڑا پھرتا ہے، یقین ہے کہ اپنی مراد کو پہنچے۔

مادہ نے کہا "اس عاجز غریب کی رسائی دریائے قہرمان تک کس طرح ہو گی، کیوں کہ وہ سرحد دیووں کے ملک کی ہے؛ سوائے اس کے اور بھی آفتیں اس راہ میں بہت سی ہیں۔

نر بولا کہ اس بے پر و بال کا وہاں پہنچنا بہ شرط حیات خدا کی قدرت سے کچھ دور نہیں، لیکن لازم ہے کہ یہ تھوڑے سے پر ہمارے اپنے پاس رکھے؛ کس واسطے کہ جب کوہ قاف کی حد میں پہنچے گا تو ایک صحرائے اعظم ایسا ملے گا کہ جس کا اُور چھور نہیں۔ چاہیے کہ اس کے داخل ہونے کے وقت ہمارے لال پر جلا کے پانی میں گھولے اور اپنے تمام بدن


صفحہ ۳۱۷

پر مل لیوے، پھر ندھڑک چلا جائے۔ اس کی بو سے تمام جانور درندے گزندے بھاگ جائیں گے، اس کی صورت بھی دیو کی سی ہو جائے گی۔ جب اس جنگل کو طے کر کے برزخ کے جزیرے میں پہنے گا، سفید پر جلا کر اس کی راکھ پانی میں گھول کر بدن میں ملے، پھر نہا دھو کر صاف کر ڈالے، خدا کے فضل سے اسی گھڑی اپنی اصلی صورت پر آ جائے گا، لیکن وہاں کے لوگ اس کو پکڑ کر ماہ یار سلیمانی بادشاہ کے پاس لے جائیں گے۔ چاہیےکہ یہ اپنا مطلب اس سے کہے؛ پر وہ اسی مطلب اصلی کو در پیش کرے گا کہ جو کوئی اس موتی کے پیدا ہونے کی حقیقت سے اطلاع دیوے، اس کو میں اپنی بیٹی موتی سمیت دوں۔ بہتر یہ ہے کہ اس ماجرے کو یہ من و عن یاد رکھے، بھول نہ جائے۔ ممکن نہیں کہ ماہ یار سلیمانی اپنے قول سے پھرے کویں کہ وعدے کا بہت سچا ہے، مقرر اپنی بیٹی بیاہ دے گا۔"

مادہ نے کہا کہ یہ بے پر پر ہمارے کیوں کر پاوے؟

اس بات کے سنتے ہیں نر نے اپنے بازو پھٹ پھٹائے، کتنے ہی پر گر پڑے۔ حاتم نے سب کے سب چن لیے، نہایت خوش ہوا۔

پھر مادہ بولی " اے نر! تو نے کیوں کر جانا کہ یہ شخص اس کام کے واسطے آیا ہے اور اتنے قصے تو نے کیوں کر یاد رکھے ہیں؟"

اس نے کہا :ہماری قوم میںجتنے نر ہیں، تمام جہان کا احوال ابتدا سے انتہا تک جانتے ہیں اور مادہ سوائے بات چیت کے کچھ نہیں جانتی۔"


صفحہ ۳۱۸

اتنے میں صبح ہو گئی، وہ جوڑا اُڑ گیا۔ حاتم اٹھ کھڑا ہوا اور ایک سمت کو چل نکلا۔ بعد دو چار دن کے ایک رات کسی درخت کے سو گیا تھا، اتنے میں بہت سے جانور فریاد کرنے لگے کہ ہے ہے کوئی خدا کے بندوں میں سے ہماری داد کو نہیں پہنچتا۔ اس آواز کو سنکر حاتم اپنے جی میں کہنےکہ اے حاتم! تو بھی خدا ہی کا بندہ ہے، پس تجھ کو لازم ہے کہ تو چل کر ان کا احوال پوچھے اور مدد کرے۔ یہ سوچ کر اسی طرف اٹھ دوڑا۔ جب قریب گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک لومڑی ہاتھ پاؤن زمین پر دے دے مارتی ہے اور چلاتی ہے۔

اس احوال سے اس کو دیکھ کر حاتم نے نہایت دل سوزی سے پوچھا کہ تجھ کو بندگان خدا میں سے کسی کٹر نے ستایا جو اس طرح بلبلا رہی ہے؟

لومڑی نے کہا "اے جوان!رحمت خدا تجھ پر اور اس تیری ہمت و دلاوری پر جو تو اس برے وقت میں میرے پاس آیا اور احوال پوچھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک صیاد میرے نر کو بچوں سمیت پکڑ کر لے گیا ہے، میں ان کی جدائی میں روتی ہوں، پچھاڑیں کھاتی ہوں بلکہ ہر ایک طرف فریاد کرتی ہوں، تس پر بھی کوئی میری آہ و زاری نہیں سنتا، مگر ایک تو آیا ہے، سو دیکھیے کیا ہو، کیوں کہ تو انسان ہے اور میں حیوان ہوں، یقین ہے کہ تو اپنی قوم کی خابر کرے گا۔

حاتم نے کہا کہ یہ کیا کہتی ہے۔ ہماری قوم میں سب انسان ایک سے نہیں۔ کتنے ہی موم دل و غم خوار، کتنے ہی سنگ دل و مردم آزار۔ اگرچہ میں بھی انسان ہوں لیکن


صفحہ ۳۱۹

تو سچ کہہ کہ تیرے نر کو اورو بچوں کو ن لے گیا ہے؟

لومڑی بولی کہ یہاں سے چھ سات کوس پر ایک گاؤں ہے۔ اس میں ایک بہلیا رہتا ہے، اس کم بخت کا یہی کام ہے، پر یہ کچھ معلوم نہیں کہ اس کو ہم غریبوں کے دکھ دینے سے کیا فائدہ ہے۔ یقین ہے کہ خدا کے غضب سے نہیں ڈرتا۔

حاتم نے کہا کہ آندھی کو میووں کے گرانے اور ایذا دھندوں کو مردم آزاری کا کیا اندیشہ ہے کہ انہوں نے وہی اپنا پیشہ کیا ہے۔ لازم ہے کہ تو مجھے راہ بتائے تو میں جا کر تیرے خاوند کو بچوں سمیت صیاد سے چھڑا دوں۔ اگر ان کے بدلے وہ میرا سر بھی مانگے گا تو عذر نہ کروں گا کیوں کہ یہ خدا کی راہ کا سودا ہے۔

لومڑی نے کہا "اے جوان! اگر تیرے ساتھ چلوں، مبادا تو اُس سے مل کر مجھے پکڑ لے، تو میرا احوال بھی اُس بندریا کا سا ہو۔"

حاتم نے کہا "اُس کی حقیقت کیوں کر ہے؟ بیان کر۔"

لومڑی بولی کہ ایک بندریا نے کسی جنگل میں جا کر ایک گڑھے میں بچے دیئے تھے۔ اتفاقاً ایک دن اُس جنگل میں کوئی صیاد جا نکلا۔ بچے اُس گڑھے میں اپنے باپ کے ساتھ بیٹھے تھے۔ صیاد نے گھات سے پکڑا اور لے جا کر ایک دولت مند کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ ہر چند کہ بندریا ہر ایک حیوان سے بڑی دانا اور ذوفنون تھی لیکن برے دن جو آگے آئے، ہوشیاری کچھ کام نہ آئی، پکڑی گئی۔

صورت اُس کی یہ ہے کہ وہ بندریا اپنے شوہر اور بچوں کی جدائی میں سر ٹکرا ٹکرا روتی پھرتی تھی۔ ایک دن لاچار ہو کر


صفحہ ۳۲۰

زمین دار کے پاس فریاد کو گئی۔

اُس نے حال تباہ اُس کا دیکھ کر ترس کھا کے کہا کہ ارے! اسے کس نے ایذا دی ہے جو ایسی بلبلاتی ہے؟ کسی نے کہا "اس کے خاوند کو چھ بچوں سمیت فلانا بہلیا پکڑ کر لے گیا ہے، فلانی جگہ رہتا ہے۔"

دھقان نے کہا "ابھی تو جا کر اس کے بچوں اور نر کو جلد چھڑا دے۔" بہ موجب اُس کے حکم کے وہ شخص اُدھر کو روانہ ہوا، بندریا بھی ساتھ لگ لی۔ جب وہ مرد بندریا سمیت گاؤں میں پہنچا، صیاد کے دروازے پر جا کے پکارا، وہ وہیں نکل آیا۔ بندریا نے چاہا کہ اُچھل کر اُس کے جامے کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے، اتنے میں اُس دولت مند نے دیوان خانے سے نکل کر کہا "اے عزیز! تو نے اس کے بچے اور نر کو کیا کیا؟"

اُس نے عرض کی کہ خداوند! کئی دن کی بات ہے کہ میں نے آپ ہی کے ہاتھ بیچا ہے۔ اگر اُس کی بے کسی پر رحم کرتے ہو تو اُن کے اس کے حوالے کرو، قیمت مجھ سے پھیر لو۔

اُس نے کہا کہ اب تو میں اُن سے اپنا جی بہلاتا ہوں، کیوں کر دوں کوئی اور تدبیر بتلا جس سے اس کو بھی تسکین ہو اور وہ بھی میرے پاس رہیں۔

صیاد نے کہا "مناست یہ ہے کہ اس کو بھی پکڑ کر اُنہیں میں بندھوا دیجیے۔"

حاصل یہ ہے کہ صیاد نے مکر و حیلے سے بندریا کو بھی پکڑوا دیا۔ جب دہقان نے سنا کہ وہ بھی پکڑی گئی، اس مال دار کو کہلا بھیجا کہ تو بندریا اور اس کے بچوں اور نر سمیت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۳۲۱

حاضر ہو۔ وہ اُن سبھوں کو لیے ہوئے زمیں دار کے پاس گیا۔ اُس نے دیکھتے ہی بندریا کے بچوں کو پسند کیا کہ یہ میرے یہاں رہیں، نر و مادہ کو تم لے جاؤ۔ ندان بندریا بچوں کے درد جدائی سے مر گئی، نر بھی اس کے غم میں ہلاک ہوا۔

اے جوان! انسا ن کی بے وفائی اور جفا کاری سنی تو نے، پھر کس طرح تیری بات سے پتیاؤں، شاید ایسا ہی سلوک تو مجھ سے کرے، ایک اور بلا میں ڈال دے۔

حاتم نے کہا " اے لومڑی! اپنی خاطر جمع رکھ، میں اُن لوگوں میں نہیں خدا کی قسم! تجھ سے بد سلوکی نہ کروں گا؛ تو بے دھڑک مجھ کو اُس گاؤں تک لے چل کہ میں اُس شخص سے تیرے خاوند اور بچوں کو چھڑا دوں۔" اس بات کو سن کر وہ خوش ہوئی اور اس کی ہمت پر آفرین کر کے آگے ہو لی۔ حاتم اس کے پیچھے پیچھے چل نکلا۔ جب پہر رات گئی، اُس گاؤں کے قریب جا پہنچے۔

حاتم نے کہا "تو یہاں کہیں چھپ رہ، میں بستی میں جا کر صیاد کو ڈھونڈھ نکالتا ہوں۔" وہ کسی جھاڑی میں دبکی مار کر بیٹھ رہی۔

حاتم صبح تک یاد الٰہی میں مشغول رہا، جوں ہی آفتاب نکلا اُٹھ کر صیاد کے دروازے پر آیا، دستک دی۔ وہ نکل کر پوچھنے لگا کہ اے جوان! مجھ سے کیا کام ہے تجھے، جو ایسا صبح ہی آیا، تو تو ہمارے گاؤں کا نہیں معلوم ہوتا۔ حاتم نے کہا "اے صیاد! مجھے ایک ایسا ہی آزار ہوا ہے کہ جس کا علاج مجھ مسافر سے نہیں ہو سکتا کیوں کہ ایک حکیم نے بتایا ہے، اگر تازہ لہو لومڑی کا تو اپنے بدن میں ملے تو ابھی اچھا


صفحہ ۳۲۲

ہوتا ہے۔ اس واسطے میں تیرے پاس آیا ہوں کہ تو اکثر لومڑیوں گیدڑوں کو شکار کرتا ہے، اگر تیرے پاس تین چار بچے لومڑی کے ہوں تو مجھے دے اور اُن کی قیمت جو چاہے سو لے۔"

صیاد نے کہا کہ سات لومڑیاں میں نے پکڑی ہیں، جتنی درکار ہوں اُن کو پسند کر۔ یہ کہہ کر اُن ساتوں کو حاتم کے رو بہ رو لے آیا۔

اُس نے سات دینار دے کر ساتوں کو لے لیا اور جنگل میں لا کر ہاتھ پاؤں کی رسیاں کھول کر چھوڑ دیا۔ بچے تو کچھ اُلفت رکھتے تھے، دوڑ کر اپنی ماں کے پہلو سے جا لگے۔ وہ اُن کو پیار کر کے نر کے پاس جو آئی تو کیا دیکھتی ہے کہ قریب مرگ کے پہنچا ہے، لگی لوٹنے پیٹنے اور سر پر خاک ڈالنے۔

حاتم نے کہا "اے روباہ! اب کیوں جزع و فزع کرتی ہے؟"

وہ بولی کہ آج میرے سر کا تاج ڈھلا جاتا ہے؛ کیوں کر نہ سر پیٹوں۔ نہیں سنا ہے تو نے کہ مردوں کو عورتوں کے سر کا چھتر کہتے ہیں، یہ بھوک اور پیاس سے موا جاتا ہے۔

حاتم نے کہا کہ اے نادان! اس کی عمر اتنی ہی تھی کیوں کہ شیر خورے تندرست رہیں اور یہ ایسا بے طاقت ہو جاوے کہ سانس بھی نہ لے سکے۔

لومڑی نے کہا "اُس کی یہ حالت میری جدائی اور بچوں کے غم نے پہنچائی ہے۔ اگر ابھی اُس کا علاج ہووے تو اغلب ہے نہ مرے۔"

حاتم نے پوچھا کہ کون سی دوا ہے کہ تلاش کی جاوے؟



صفحہ ۳۲۳

اُس نے کہا کہ اگر جیتے (۱) آدمی کو مار کر اُس کا گرم گرم لوہو اُس کے منہ میں ٹپکاؤ تو ابھی بحال و توانا ہو جاوے۔

حاتم بولا "مجھے آدمی سے ایسا (۲) کیا دشمنی ہے جو حیوان کے واسطے اُسے ماروں، اگر تجھ کو آدمی کا لوہو ہی درکا ہے تو کہہ کس جگہ کا چاہتی ہے، ابھی حوالے کرتا ہوں۔"

اُس نے کہا "کہیں کا ہو، مگر گرم ہو۔"

حاتم نے ترکش سے نشتر نکال کر بائیں ہاتھ کی ہفت اندام کھولی اور کہ اے روباہ! جتنا لہو تجھ کو درکار ہے لے۔

وہ اپنے نر کو اُس کے پاس لے آئی اور کہا کہ جس قدر اس کے منہ میں ڈالو گے، عین مہربانی ہے۔

حاتم نے اس کے کہنے کے موافق اپنا لہو پلایا کہ اس پیٹ بھر گیا اور قوت اصلی پر آ رہا۔ تب حاتم نے ہاتھ پر پٹی باندھ کے کہا "اے روباہ! اب تو مجھ سے راضی ہوئی۔" لومڑی بچوں سمیت اُس کے پاؤں پر گر پڑی۔

حاتم اُس کو دلاسا دے کر آگے بڑھا۔ جب بھوک لگتی تھی، جنگل کا میوہ کھا لیتا تھا اور پیاس میں وہیں کے ندی نالوں کا پانی پی لیتا۔ بعد ایک مدت کے کسی جنگل میں جا پہنچا۔ وہاں طپش آفتاب کی اس قدر ہوئی کہ مارے پیاس کے بے تاب ہو گیا۔ ہر طرف پانی ڈھونڈنے لگا کہ ایک چشمہ سفید برف سا
-------------------------------------------------------------------------------------
(۱) نسخہ مطبوعۂ بمبئی (صفحہ ۲۴۸) میں "جیتے ہوئے آدمی" ہے۔ "ہوئے" زائد تھا اس لیے حذف کیا گیا۔ فائق
(۲) نسخہ مطبوعہ بمبئی (صفحہ ۲۴۸) "ایسا" ہے، "ایسی" ہونا چاہیے۔ فائق



صفحہ ۳۲۴

دور سے نظر آیا۔ حاتم اشتیاق سے بے اختیار اس کی طرف دوڑا۔ جب نزدیک پہنچا تو کچھ نہ دیکھا مگر ایک سانپ سفید کنڈلی مارے نظر پڑا۔

چاہتا تھا کہ پھرے، جو وہ بول اُٹھا "اے جوان یمنی! کیوں پھر چلا، تو کس کام کے واسطے یہاں آیا؟"

شہ زادے نے جو اُس کو باتیں کرتے دیکھا، گھبرا کر کہنے لگا "اے بندۂ خدا! میں شدت سے پیاسا تھا، دور سے تیرے رنگ کی سفیدی پانی کی مانند جو نظر آئی ادھر چلا آیا۔ اب خدا کی قدرت کا تماشا دیکھ کر پھر چلا۔"

سانپ نے کہا "اے عزیز! تجھ کو یہاں سب کچھ میسر ہو جائے گا، خاطر جمع رکھ۔"

القصہ سانپ روانہ ہوا اور حاتم نے اپنے دل میں سوچا کہ ہر چند کہ یہ سانپ باتیں کرتا ہے پر اس کے ساتھ جانا خوب نہیں، کیوں کہ موذی ہے۔ اتنے میں یہ خیال گزرا کہ جو کچھ تقدیر میں ہے، وہی ہو گا، چلا چاہیے۔ تس پر بھی آہستہ آہستہ قدم رکھنے لگا۔

سانپ نے جو دیکھا کہ یہ جانے میں استادگی کرتا ہے، کہا "اے مرد خدا! کچھ وسواس نہ کر، پاؤں اُٹھا۔"

حاتم اُس کے ساتھ بے کھٹکے روانہ ہوا۔ غرض ایک گل زار جنت بہار میں جا پہنچا۔ وہاں کی فضا سے جی اُس کا کھل گیا، نہایت باغ باغ ہوا، کیوں کہ اُس قطع کا باغ کہیں نہ دیکھا تھا مگر پریوں کے ملک میں۔ پھر ادھر اُدھر کی سیر کرتا ہوا ایک مکان میں جا نکلا، وہاں فرش شاہانہ سراسر بچھا ہوا تھا اور حوض کے کنارے ایک مسند پرتکلف لگی ہوئی تھی۔



صفحہ ۳۲۵

سانپ نے کہا کہ یہاں ذرا توقف کرو، میں پھر آتا ہوں۔

یہ کہہ کر حوض میں گر پڑا۔ بعد ایک دم کے کتنے پری زاد سونے روپے کے خوان جواہر سے بھرے ہوئے سروں پر رکھے اُس حوض سے نکلے، حاتم کو سلام کر کے خوان آگے رکھ دیے۔

اُس نے پوچھا "اے خدا کے بندو! سچ کہو تم کون ہو؟"

اُنہوں نے عرض کی "ہم اس کے خدمت گار ہیں جو تم کو اپنے ساتھ لایا ہے اور یہ جواہر تمہارے لیے بھجوایا ہے، لازم ہے کہ قبول کرو۔"

اُس نے کہا "یہ میرے کس کام کا ہے۔ اس قدر مال میں کیوں کر اُٹھاؤں اور کس پر لاد کر لے جاؤں؟"

اتنے میں پھر کتنے ایک پری زاد اُسی طرح سے خوان جواہر کے لیے ہوئے حاتم کے پاس آئے۔

پوچھا اُس نے اس میں کیا ہے؟

وہ بولے کہ جواہر بہ طریق تحفے کے تمہیں بھیجا ہے۔

حاتم نے کہا کہ یہ بھی میری نظروں میں نہیں سماتا۔

اس میں اور بہت سے پری زاد سر پر گنگا جمنی خوان زربفت اور بادلے کے خوان پوشوں سے ڈھاپے ہوئے اُسی چشمے سے نکلے۔

اُس نے پوچھا "اُس میں کیا ہے؟"

اُنہوں نے عرض کی "آپ ہی کے واسطے لائے ہیں۔"

حاتم نے کہا " بہت اچھا، مہمان حاضر ہے، صاحب خانہ کہاں ہے؟" ووں ہی وہ سانپ ایک جوان حسین بنا ہوا چالیس



صفحہ ۳۲۶

پری زادوں سمیت حوض سے نکل آیا۔ حاتم اُس کو دیکھ کر متعجب ہوا کہ یہ جوان خوش رو کون ہے؛ پھر تعظیم کو اُٹھ کھڑا ہوا۔

اُس نے حاتم کو پکڑ کر بہ آئین شایستہ مسند پر بٹھلایا اور پوچھا کہ تم مجھے پہچانتے ہو؟

وہ بولا "جو کبھی دیکھا ہوتا تو البتہ پہچانتا"

اُس نے مسکرا کر کہا "میں وہی ہوں جو تمہیں لے آیا۔"

حاتم بولو "اے عزیز! پہلے تیری صورت سانپ کی تھی، اب آدمی کی شکل کیوں کر ہوئی؟"

اُس نے کہا کہ یہ بھید بعد کھانا کھانے کے کھل جائے گا۔ پھر دسترخوان بچھوایا، کھانا چنوایا۔ اتنے میں جڑاؤ چلمچی آفتابہ زیر انداز سمیت دو پری زاد لائے اور اُن کے ہاتھ دھلائے تو وہ کھانے میں مشغول ہوئے۔ پری زاد سب پانے اپنے کاموں میں لگ گئے۔ حاتم کھاتا جاتا تھا اور جی میں کہتا تھا کہ میں نے اس مزے کا کھانا یہاں کھایا ہے یا پری نوش لب کے ساتھ کوہ ندا پر۔ اغالب ہے کہ یہ شخص بھی پری زاد کی قوم سے ہو۔

جب خاصہ نوش کر چکے، خواص عطر دان اور پاندان مرصع کے لے آئے۔ حاتم نے جو عطر ملا دماغ اُس کا مہک گیا، حیران ہوا کہ بار خدایا ایسی نعمتیں اور ایسی خوشبوئیں تو نے اس قوم کو عطا کی ہیں کہ انسان کو میسر نہیں؛ اس میں کیا حکمت ہے، تو ہی جانتا ہے۔

بعد اس کے صاحب خانہ سے پوچھا "پہلے تمہاری شکل

صفحہ ۳۲۷

سانپ کی تھی اب پری کی سی ہوئی، اس کا کیا سبب ہے؟"

وہ بولا "اے جوان! میں پری کی قوم سے ہوں، نام میرا شمس شاہ ہے۔ ایک دن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں اپنے باغ میں سیر کر رہا تھا۔ یوں خیال گزرا کہ اپنے لشکر سمیت آدمیوں کے ملک پر چڑھ جاؤں، ان کو قتل کر کے ملک چھین لوں کیوں کہ وہ ملک نہایت پاکیزہ و آراستہ ہے۔ یہ سوچ کر اہل کاروں سے کہا کہ تمام فوج تیار رہے، صبح کو مجھے ایک مہم درپیش ہے۔ اتنے میں رات ہو گئی۔ بعد فراغت کے خواب گاہ میں جا کر آرام کیا۔ صبح کے وقت جو چونکا اپنے تئیں تمام لشکرسمیت سانپ کی صورت پایا۔ سارا دن ماہی بے آب کے طرح زمین پر تڑپا کیا اور شام سے صبح تک لٹک کر جناب الٰہی میں توبہ کی۔ بارے فضل الٰہی سے تمام فوج میری صورت اصلی پر آ گئی لیکن پر کسی کے نہ ہوئے؛ پھر میں نےگریہ و زاری بہت سی کی۔ تب یہ آواز آئی "جو کوئی اپنے قول سے پھرتا ہے، اس کا یہی احوال ہوتا ہے۔"

قصہ مختصر، ہر رات یہی صدا آیا کرتی تھی۔ ایک رات میں نے بہت عجز و زاری سے توبہ کی اور کہا کہ پھر ایسا خطرہ دل میں کبھی نہ لاؤں گا، الٰہی! میرا گناہ بخش۔ حکوم ہوا کہ تھوڑے دن اور صبر کر۔ میں نے پھر الحاح و زاری کی کہ اب میری نجات ہے، ایسا دھیان بار دیگر خاطر میں نہ لاؤں گا۔ تب یہ ندا آئی کہ ایک دن جوان یمنی تیس برس کا ادھر آئے گا، تو اس کے دیکھتے ہی اپنی اصلی صورت پر آ جائے گا؛ چاہیے کہ تو اس کی خدمت بہ دل کرے کیوں کہ جو وہ تیرے حق میں دعا مانگے گا تو تو ہمیشہ اپنی اصلی صورت پر رہے گا، نہیں تو سانپ کی شکل پھر ہو جائے گی غرض اُسی برس سے میں



صفحہ ۳۲۸

سانپ کی صورت ہو گیا ہوں اور تیس برس (سے) اس جنگل میں تیرا منتظر تھا۔ تجھے دیکھتے ہی میں نے جانا کہ جوان یمنی یہی ہے، اس اُمید پر تیری خدمت دل و جان سے میں نے کی۔اگر میرے حق میں دعا کرے تو عین مہربانی و بندہ پروری ہے۔

حاتم نے کہا "وہ قول کون سا تھا جس سے تو پھر گیا۔"

وہ ایک آہ بھر کر بولا کہ ہماری قوم نے حضرت سلیمان نبی علیہ السلام سے اقرار کیا تھا کہ اگر تمہارے بعد ہم آدمیوں کو ایذا دیں یا اُن کے ملک کا قصد کریں تو خدا کا قہر ہم پر پڑے۔ اس دن سے ہمارے قوم نے کسی بشر کو تکلیف نہیں دی، مگر ایک دن میرے دل میں یہ خیال فاسد گزرا تھا جس کی یہ کچھ سزا پائی۔ اب تیرے حضور صدق دل سے توبہ کرتا ہوں کہ بار دیگر ایسا دھیان نہ کروں گا، میرا حق گواہ ہے۔

حاتم نے اُٹھ کر غسل کیا، کپڑے پاکیزہ پہنے، پری زاد کے حق میں دل سے دعا کی، اُس کی درگاہ میں قبول ہوئی۔ حاتم اگرچہ قوم گبر سے تھا پر خدا کو ایک جانتا تھا، دن رات اُسی کے ذکر میں مشغول رہتا تھا۔ غرض حاتم کی دعا کا قبول ہونا اُس پری زاد کے حق میں اس سبب سے تھا کہ خدا کی راہ پر کمر باندھے پھرتا تھا۔ آخر الامر سب پری زاد کے پر نکل آئے اور وہ بھی اپنی صورت پر قائم رہا۔

پھر اُس نے حاتم سے پوچھا کہ صاحب! یہاں کس واسطے آئے ہیں اور کہاں جائیں گے؟

حاتم نے کہا "اب تو میں شاہ آباد سے آیا ہوں، برزخ کے جزیرے کو جاؤں گا۔" یہ کہہ کر وہ موتی روپے کا جوبطور نمونے کے لایا تھا دکھلا دیا۔



صفحہ ۳۲۹

یہ سن کر شمش شاہ نے کہا "سچ کہتے ہو، اس جوڑی کا موتی جو اعلیٰ ہے، وہ اس جزیرے کے بادشاہ پاس ہے؛ لیکن اس نے شرط کی ہے جو کوئی اس کی پیدائش کا احوال کہے، اپنی بیٹی موتی سمیت اُس کے حوالے کر دوں۔" پر تو کیوں کر پہنچ سکے گا کہ راستے میں آفتیں بہت سی ہیں۔انسان کی اتنی طاقت نہیں جو عہدہ بر آ ہو۔

حاتم نے کہا "جو ہونی ہو سو ہو، میںجائے بن نہیں رہنے کا، خدا میرا نگہہ بان ہے۔

بادشاہ نے فرمایا "خاطر جمع رکھ، میں بھی بہت سے پری زاد تیرے ساتھ کر دیتا ہوں، وے تیرے مددگار رہیں گے۔"

یہ کہہ کر پری زادوں کو ارشاد کیا کہ اے عزیزو! اس کے طفیل سے تم نے ایک بلائے عظیم سے نجات پائی ہے، تم اس مہم میں اس کا ساتھ دو۔

اُنہوں نے عرض کی "ہم جان و دل سے حاضر ہیں، جو حضور سے حکم ہو گا بجا لائیں گے۔"

بادشاہ نے کہا کہ تم اس کو برزخ کے جزیرے میں پہنچا دو۔

اس سخن کے سنتے ہی وے سب کے سب اپنا اپنا سر جھکا کر دم بہ خود رہ گئے۔پھر ایک دم کے بعد سر اُٹھا کر عرض کرنے لگے "جہاں پناہ! اس جزیرے میں پہنچنا بہت مشکل ہے کیوں کہ ایسے ایسے دیو رستے میں ہیں جو ہمیں جیتا نہ چھوڑیں گے۔ اگر جہاں پناہ ادھر کا قصد کریں تو بھی لڑائی ہو گی، ہم رکاب سعادت میں حاضر ہیں لیکن اتنے لوگوں سے یہ کام انجام نہ ہو گا۔"



صفحہ ۳۳۰

شاہ نے یہ فرمایا "اے جوان مردو! لازم ہے کہ اس جوان کا احسان برباد نہ ہو، کسی صورت سے اس کو وہاں پہنچا دو۔"

اس بات کو سن کر سات پری زاد ہمت باندھ کر بولے کہ اس جوان کو آپ کے اقبال سے ہم پہنچائیں گے، لیکن جو راہ میں کچھ خلل واقع ہو تو جہاں پناہ مدد کریں۔

بادشاہ نے اس بات کو قبول کیا، تب وہ ایک اُڑن کھٹولا لائے۔ حاتم کو اس پر بٹھلایا۔ چار شخصوں نے تو پائے پکڑے، تین ساتھ ہو لیے۔ غرض اس صورت سے آسمان کی طرف ہوا ہوئے، تین رات دن چلے گئے۔

چوتھے دن جس جگہ کہ دیو رہتے تھے، پری زادوں نے بھولے سے وہاں کھٹولا ایک درخت کے پلے اُتارا اور آپس میں کہا کہ تین دن سے کچھ کھانا پینا نہیں ہوا، بہتر ہے یہاں گھڑی دو گھڑی آرام کریں، کچھ کھائیں پئیں۔

اس بات کو سن کر حاتم نے بھی کہا "مختار ہو، جو مناسب ہو سو کرو‘۔ پری زاد متفرق ہو کر ادھر اُدھر چلے گئے، ایک حاتم کے پاس کھڑا رہا۔

اتنے میں کئی ہزار دیو شکار کھیلتے ہوئے اُدھر آ نکلے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی کھٹولے پر بیٹھا ہے، پاس اُس کے ایک پری زاد کھڑا ہے۔ دو چار ہزار تو کھٹولے کے گرد ہو گئے، چھ سات ہزار غل مچانے لگے کہ یہ آدمی زاد یہاں کہاں سے آیا ہے۔ وہ پری زاد اُن کو دیکھ کر ڈرا۔ چاہتا تھا کہ حاتم کو چھوڑ کر بھاگ جائے کہ چار دیو اُس سے لڑ پڑے، دو تین اس نے مار رکھے، آخر پکڑا گیا۔



صفحہ ۳۳۱

پھر وہ دیو اس پری زاد کو حاتم سمیت اپنے گھر لے آئے اور پوچھا کہ اس آدمی کو کہاں سے لایا ہے اور کہاں لیے جاتا ہے؟

اُس نے کہا کہ یہ جوان یمنی شمس شاہ کا بڑا دوست ہے، اس کو مت ستاؤ، نہں تو خراب ہو گے۔

اُنہوں نے کہا "بادشاہ تو ایک مدت سے غائب ہے، اُس کا احوال کچھ معلوم نہیں، اب کہاں سے پیدا ہوا۔"

پری زادوں نے تمام ماجرا بیان کیا۔ دیووں کے سردار نے سر نیچا کر کے کہا کہ اس آدمی کو پری زاد سمیت فلانے کنوئیں میں قید کرو، رات کے وقت کھانے کے بعد کھاؤں گا۔

اُنہوں نے وہی کیا۔ وے جو چھیوں پری زاد جو اُن کو چھوڑ کر قوت کی فکر میں گئے تھے، اُس درخت کے تلے آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دو تین لاشیں دیووں کی پڑی ہیں، نہ حاتم ہے، نہ وہ پری زاد۔ نہایت حیران و پریشان ہو کر آپس میں کہنے لگے کہ یہ دیو کس پردے کے ہیں اور انہیں کن نے مارا، اُس آدمی اور پری زاد کو کون لے گیا۔ چاہیے کہ ان کشتوں کے اُٹھانے کو کوئی نہ کوئی دیو آوے۔

اتنے میں جو غور سے دیکھا تو ایک کو سسکتے پایا۔ تھوڑا سا پانی اُس کے منہ میں چوایا، آنکھیں اس نے کھول دیں۔ تب اُنہوں نے پوچھا کہ تو کون ہے اور تیرا ٹھکانا کہا ہے؟

اس نے کہا کہ میں مقریس کے دیؤوں میں سے ہوں۔ ایک پری زاد کے ہاتھ سے میرا یہ حال پہنچا ہے، پر اُس کو بھی ایک آدمی سمیت مقریس کے پاس دیو پکڑ کے لے گئے ہیں۔



صفحہ ۳۳۲

پری زاد اس کی بات کے سنتے ہی اُس دیو کو پکڑ کر اپنے ملک میں لے آئے اور بادشاہ کی بارگاہ میں آ کر داد خواہ ہوئے۔

شاہ نے اُن کی فریاد سن کر فرمایا کہ دیکھو تو کس نے ان پر ظلم کیا ہے اور وہ جوان یمنی کہ جس کے ساتھ یہ گئے تھے، وہ کہاں ہے۔

اُنہوں نے آداب بجا لا کر عرض کی "جہاں پناہ! ہم دو تین رات دن جو پیہم چلے گئے، نہایت بھوک پیاس اور ماندگی نے غلبہ کیا؛ بہ سبب اس کے اُس آدمی زاد کو کسی درخت کے تلے بٹھایا، ایک اور پری زاد کو اُس کے پاس چھوڑ کر قوت کی تلاش میں گئے۔ ایک آن کے بعد آ کر جو دیکھا، اُن کو تو نہ پایا مگر کئی دیو کشتے دیکھے۔ حیران ہوئے کہ ان کا احوال کس سے پوچھیں؛ اتنے میں اس دیو کو جو تامل سے دیکھا تو آدھ موا پایا۔ تھوڑا سا پانی اس کے منہ میں ٹپکایا، بارے یہ ہوشیار ہو کر اُٹھ بیٹھا۔ اس کے ساتھ اُن کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے ہیں، ہم بھی اس کو باندھ کر حضور میں لے آئے، آگے جو ارشاد ہو۔"

بادشاہ نے فرمایا کہ اُس کو ہمارے رو بہ رو لاؤ، سے لے آئے، ارشاد کیا "مقریس اب تک جیتا ہے اور ہمیں بھول گیا۔"

اس نے عرض کی کہ جہاں پناہ تو ایک مدت سے غائب تھے، آن ان پری زادوں سے احوال آپ کے ظاہر ہونے کا معلوم ہوا، لیکن مجھے اعتبار نہ تھا، اب جانا کہ یہ سچ ہیں۔

بادشاہ نہایت غضب ہوا اور فرمایا کہ جلد لشکر تیار ہو۔ ندان تین ہزار پری زاد سے اُس کے ملک کو چڑھ دوڑا۔ تین دن کے بعد شہر کے قریب جا پہنچا، وہیں ڈیرا کیا۔ پھر کئی



صفحہ ۳۳۳

جاسوسوں کو کہا کہ مقریس کی خبر لاؤ کہ کہاں ہے۔ وہ سنتے ہی اڑے، بعد ایک دم کے آ کر عرض کی، فلانے جنگل میں شکار کھیلتا ہے۔ بادشاہ سنتے ہی تیس ہزار پری زاد سے اس پر جا پڑا۔ لوگ اُس ے سنبھل نہ سکے، بہت سے زخمی ہوئے، کتنے مارے گئے؛ آخر مقریس ککئی مصاحبوں سمیت گرفتار ہو کر حضور میں آیا۔

بادشاہ نے فرمایا کہ اے کافر! تو ہم کو بھول گیا۔ اتنا نہ جانا کہ شمس بادشاہ اب تک جیتا ہے میں اس کے علاقہ مندوں کو پکڑ کر جو قید کروں گا تو بادشاہ مجھ کو اس حرکت سے کب جیتا چھوڑے گا۔ خیر اب اسی میں ہے کہ اس آدمی کو پری زاد سمیت لا کر جلد حاضر کر۔

وہ بولا " میں اُس کو اُسی وقت کھا گیا، آدمی کو کب دیو چھوڑتا ہے۔"

بادشاہ نے نہایت طیش کھا کر کہا "اے رو سیاہ! حضرت سلیمان نے تم کو آدمیوں کے ستانے سے منع نہیں کیا تھا اور تم نے یہ قول نہیں دیا تھا کہ ہم ان کو دکھ نہ دیں گے اور نہ کھائیں گے؟"

دیو نے کہا کہ وہ بات حضرت سلیمان ہی کے ساتھ گئی۔

تب تو بادشاہ مارے غصے کے کانپنے لگا اور کہا کہ جلد لکڑیوں کا انبار لگا کر اس کافر کو ہم راہیوں سمیت جلا دو۔

مقریس نے جب دیکھا کہ اب کچھ بس نہیں چلتا اور یہ بن جلائے نہیں رہتا، کسی طرح بالفعل اس کے ہاتھ سے چھوٹیے، پھر آگے سمجھ لیں گے۔ یہ اسی سوچ میں تھا کہ بادشاہ نے بہ سہولت کہا "اے ظالم! اُس آدمی کے ساتھ مجھے نہایت اُلفت ہے،


صفحہ ۳۳۴

جو اُس کو صحیح سلامت میرے حوالے کر دیوے تو تیرے میرے کچھ کدورت نہیں۔ کسی طرح کا تو اپنے جی میں اندیشہ نہ رکھ، و الا جان سے ماروں گا۔"

مقربس نے کہا "اگر تم حضرت سلیمان کی قسم کھا کر کہو کہ میں آدمی لے کر تجھے چھوڑ دوں گا اور کچھ نہ کہوں گا تو میں ابھی اُس آدمی کو لے کر پری زاد سمیت حضور میں حاضر کرتا ہوں۔"

شمس بادشاہ نے کہا "ہمارے تیرے درمیان حضرت سلیمان علیہ السلام ہیں، ہم کبھی تجھ سے دغا نہ کریں گے۔"

اُس نے اپنے نوکروں سے کہا کہ فلانے کوئیں میں ایک آدمی پری زاد سمیت قید ہے، جلد لے آؤ۔ وے دوڑے، حاتم کو مع پری زاد لے آئے۔

بادشاہ نے شاہ زادے کو تخت پر بٹھلا لیا اور کہا "کیوں، میں نہ کہتا تھا کہ دیو راہ میں بہت سے مردم آزار ہیں، تجھے جیتا نہ چھوڑیں گے۔"

حاتم بولا "جو کچھ تقدیر میں ہے وہی ہوتا ہے، ہر حالت میں خدا کا شکر کیا چاہیے۔"

پھر شاہ نے حکم کیا کہ اُس معلون مقریس کو چھوڑنا صلاح نہیں، جلد اس انبار میں رکھ کر جلا دو کہ فساد و فتنہ عالم سے اُٹھ جائے۔ یہ سنتے ہی مقریس کو اُس کے دیووں سمیت پری زادوں نے انبار میں ڈال دیا اور آگ لگا دی۔

تب وپکارا "کیوں صاحب! تم نے حضرت سلیمان کو درمیان دے کر یہی قول کیا تھا؟"



صفحہ ۳۳۵

شاہ نے فرمایا کہ اے دغا باز! ہر گاہ کہ تو پیغمبر کے حضور قول دے کر پھر گیا، خدا سے نہ ڈرا، اگر میں نے بھی تجھ سے بدعہدی کی تو کیا عجب ہے۔ سوائے اس کے تو فتنہ انگیز ہے، تیرا جلانا بہتر ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اُس نے دیووں سمیت جلوا دیا اور اپنے چھوٹے بھائی کو وہاں متعین کر کے فرمایا کہ تم اس ملک سے خبردار رہو۔ پھر حاتم سے پوچھا کہ اب آپ کا ارادہ کیا ہے؟

اس نے کہا "وہی جو میں نے پہلے عرض کیا تھا، بار بار کہنے سے کیا فائدہ؛ جس طرح ہو مجھ کو اُس جزیرے میں جانا اور اس موتی کو لانا۔"

تب بادشاہ نے اپنے لوگوں کو فرمایا کہ اے عزیزو! تم میں جو کوئی دیرینہ سال بوڑھا بڑا کار آزمودہ ہو، اس کے ساتھ جائے اور وہاں پہنچا آئے۔

یہ سن کر چار پری زاد اُسی عمر اور اُسی وضع کے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ یہ خدمت ہمارے ذمے ہے، ہم بجا لائیں گے۔

اس بات کو سن کر بادشاہ نے نہایت مہربانی فرمائی اور حاتم کے ساتھ رخصت کیا۔ وے اُسی طرح سے اس کو اُڑن کھٹولے پر بٹھلا کر لے اُڑے۔ رات دن چلے جاتے تھے؛ جب بہت بھوکے پیاسے ہوتے تو محفوظ جگہ کہیں دیکھ کر اُتر پڑتے، کچھ کھا پی لیتے؛ اسی صورت پندرہ روز تک پر مارے چلے گئے۔

سولہویں دن اُس پہاڑ پر اُترے جس کو شہ زادۂ طومان ایک پڑی زاد خوش رو نے برزخ کی بیٹی پر عاشق ہو کر اپنا مسکن کیا تھا اور اس کے فراق میں آہیں مار مار کر رو رہا تھا۔ اتفاقاً اس کے رونے کی آواز حاتم نے سنتے ہی بے اختیار



صفحہ ۳۳۶

ہو کر پوچھنے لگا کہ اے عزیزو! اس درد سے کون روتا ہے؟ اسے تحقیق کیا چاہیے۔ یہ کہہ کر اُٹھ کھڑا ہوا اور آپ ہی اُدھر چلا؛ ایک دم میں جا پہنچا تو ایک جوان پری زاد خوب صورت کو سر بہ زانو روتے دیکھا۔

پوچھا "اے بندۂ خدا! تو کون ہے اور اس جگہ کس واسطے روتا ہے؟"

اُس نے آنکھ اُٹھا کر دیکھا کہ ایک آدمی حسین کھڑا ہے۔ بولا "اے شخص! تو یہاں کہاں سے آیا، بارے بتلا کیوں کر آیا، کیا کام ہے؟"

حاتم نے کہا کہ میں مرغابی کے انڈے کے برابر ایک موتی ڈھونڈتا ہوا آیا ہوں، کیوں کہ ویسا موتی جزیرۂ برزخ کے بادشاہ کے پاس ہے۔

اس بات کو سن کر ہنس پڑا اور کہنے لگا "اے آدم زاد! اُ س موتی کا تیرے ہاتھ لگنا محال ہے؛ اس واسطے کہ وہاں کا بادشاہ کچھ سوال رکھتا ہے۔ ہر ایک سے پوچھتا ہے، کوئی اس کا جواب نہیں دے سکتا؛ بلکہ ہم پری زاد ہو کر تو عہدہ برآ ہو ہی نہیں سکتے، پھر تو آدمی ہو کر کیوں کر بر آئے گا اور اُس موتی کی پیدائش کا احوال کس طرح بتلاوے گا۔"

حاتم نے کہا "خدا قادر ہے، تو اپنی حقیقت کہہ، اس حال سے کیوں پڑا ہے؟"

پری زاد نے ایک آہ سرد بھر کے کہا کہ اس جزیرے کے بادشاہ کی بیٹی پر عاشق ہوں، نام میرا شہ زادہ مہر آور ہے، باپ میرا جزیرۂ طومان کا بادشاہ مہر نر نام ہے۔ ایک دن مجلس میں بیٹھا تھا میں کہ کسی شخص نے اس کے حسن کا بیان اور



صفحہ ۳۳۷

تعریف کی؛ سنتے ہی میں آپ سے جاتا رہا۔ آخر نہ رہ سکا، اُس جزیرے میں گیا اور اُس کے باپ کے پاس پیغام بھیجا۔

اُس نے سن کر مجھے اپنی بارگاہ میں بلایا، بہ عزت تمام بٹھلایا، پھر اُس موتی کو منگوا کر میرے سامنے رکھ دیا اور پوچھا کہ یہ موتی کس دریا کا ہے؟ اس کی پیدائش کیوں کر ہے؟ کہاں سے ہاتھ لگا؟

میں نہ جانتا تھا بلکہ میرے بزرگ بھی اس کی حقیقت سے واقف نہ تھے، جواب کچھ نہ دے سکا، اپنا منہ لے کر رہ گیا۔ اُس نے اپنی مجلس سے باہر نکلوا دیا۔ اتفاقاً اُس وقت وہ آفت جان اور غارت گر ایمان کوٹھے پر جلوہ گر تھی، نگاہ میری اُس پر جا پڑی، نیم بسمل تو آگے ہی ہو رہا تھا، مر ہی گیا۔ جب دیکھا میں نے کہ کچھ تدبیر نہیں بنتی، لاعلاج اس پہاڑ پر آ کر رہا، مارے غیرت کے اپنے ملک نہ گیا۔ اب دن گریہ و زاری اور رات بے تابی و بے قراری سے کٹتی ہے۔ نہ جان جاتی ہے نہ جان جاناں سے ملاقات ہوتی ہے۔"

حاتم نے سن کر کہا کہ تو خاطر جمع رکھ کہ اگر وہ موتی لوں گا، موتی والی تجھے دوں گا۔ اے پری زاد! میں اُس موتی کی پیدائش سےآگاہ ہوں، دیکھے گا تو کہ تیرے سامنے کس طرح اس کا احوال بیان کرتا ہوں۔

پری زاد نے کہا "مجھے باور نہیں آتا، تو بکا کر۔"

حاتم بولا کہ وہ گوہر صدف نہیں ہے، اور وہ جزیرہ بھی آگے آدمیوں سے آباد اور تصرف میں تھا، لے اُٹھ میرے ساتھ چل۔ پری زاد نے یہ بات سن کر حاتم کو کچھ سچا جا، اُٹھ کر ساتھ ہوا۔



صفحہ ۳۳۸

تب حاتم نے اُن چار پری زادوں سے پوچھا "تم میں اتنا زور ہے کہ ہم دونوں کو اس کھٹولے پر بٹھلا کے لے چلو؟" وے بولے "اگر تم سے چار ہوں تو بھی بہ خوبی لے جاویں، مطلق نہ گھبراویں۔" ندان وے دونوں کھٹولے پر جا بیٹھے، وے لے اُڑے۔

راہ میں مہا کال دیو کا باغ تھا۔ جو اُن کا گزر اُدھر سے ہوا، وہ بیٹھا سیر کر رہا تھا، اتفاقاً نگاہ اس کی اُن پر جا پڑی، کئی دیووں کو حکم کیا "دوڑو اور کھٹولے سمیت اُن پری زادوں کو میرے پاس لے آو۔" وہ دیو اُڑے اور ان کو مع کھٹولے اس کے پاس لے آئے۔

مہا کال نےھ کہا "سچ کہو، اس آدمی کو کہاں لے جاتے ہو؟"

اُنہوں نے کہا "شمس بادشاہ کے ملک سے آتے ہیں۔"

وہ بولا کہ وہ ایک مدت سے غائب ہے اور اُس کا ملک اب سانپوں سے آباد ہے۔ پری زادوں نے کہا "تم سچ کہتے ہو، یوں ہی تھا، لیکن اس آدمی کی دعا سے وہ اپنی صورت اصلی پر آیا، ہم سب بھی اپنے بال و پر سے درست ہو گئے۔"

دیونے کہا "پھر جاتے کہاں ہو؟"

وے بولے "برزخ کے جزیرے کو۔" پھر اُس نے پوچھا کہ یہ پری زاد کون ہے؟

مہر آور آپ ہی بولا "اے دیو! تجھ کو آدمی سے کیا کام ہے، اپنی راہ لے۔ میں تجھے کچھ کہہ نہیں سکتا کیوں کہ


صفحہ ۳۳۹

تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی پری زاد کی اولاد سے ہے۔" یہ کہہ کر حاتم کو گھٹولے سے کھینچ لیا۔ مہر آور بولا "اے دیو! حضرت سلیمان علیہ السلام سے جو قول کیا تھا اُسے بھول گیا؟ دیکھ مردم آزاری نہ کر۔،" اُس نے جواب دیا کہ وے اب کہاں ہیں جو اُس قول پر رہیں، میں آدمی کو نہ چھوڑوں گا، بعد مدت کے ہاتھ لگا ہے، ذرا تو منہ سلونا کروں۔

مہر آور نے دیکھاکہ دیو آدمی کو دیکھ کر باولا گیا ہے، اُس کو فریب دیا چاہیے۔ بولا کہ اے مہا کال! ایک آدمی کےکھانے سے کیا فائدہ، میں دس آدمی تجھ کو لا دوں گا جو میرے قول پر تو رہے اور اس آدمی کو میرے حوالے کرے کیوں کہ میرا کام اس سے سر براہ ہوتا ہے۔

دیو نے کہا "اے شاہ زادے! میں تیرے خاندان سے توسل رکھتا ہوں، اس کو میرے پاس چھوڑ جا اور جو کہتا ہے اُسے کر دکھلا، لو میں اس کو تیرے حوالے کرو۔"

شہ زادے نے دیکھا کہ علاج کچھ نہیں ہو سکتا، لاچار ہو کر کہا کہ یہ آدمی میرا بڑا آشنا ہے، چاہیے کہ اُسے کسی جگہ بہ خوبی رکھے۔ اگر کچھ بھی اسے ایذا پہنچے گی تو تجھ سے لوں گا۔

اس نے کہا کہ جو مکان آپ کے پسند پڑے، وہیں چھوڑ جائے۔ غرض ایک باغ کو پسند کر کے اس میں چھوڑا اور اُس سے کہا "تو اپنے دیووں سے کہہ دے کہ اس کی نگہبانی بہ خوبی کریں، دو تین دن میں دس آدمی تیرے واسطے لے آتا ہوں۔" وہ بولا "بہت بہتر۔"

آخر شہ زادہ اُن چاروں پری زاد سمیت کسی جنگل میں آیا


صفحہ ۳۴۰

اور ایک کونے میں بیٹھ کر مشورت کرنے لگا۔ اگر اپنے ملک میں جا کر فوجیں لاؤں تو دیر لگے گی، وعدہ ٹل جائے گا، وہ ملعون اُسے مقرر اذیت پہنچائے گا۔ صلاح یہ ہی ہے کہ گھات میں لگے رہیں، جب دیووں کو غافل پائیں، اُس آدمی کو لے کر ہوا ہو جائیں، اغلب ہے کہ صبح ہوتے ہوتے ساٹھ کوش نکل جائیں گے، پھر ہمیں کون پاتا ہے۔ اُن پری زادوں نے اس مصلحت کو بہت پسند کیا اور گھات سے ایک طرف لگ رہے۔ چوکی کے دیووں نے جی میں کہا کہ پری زاد کچھ آدمی کو چرا کر تھوڑا ہی لا جائیں گے، اور وہ پر نہیں رکھت جو آپ سے اُڑ جائے گا۔ اس گمان پر کئی اُن میں سے شکار کے واسطے گئے؛ چناں چہ کتنے ہی چرندے درندے مار کر لے آئے۔ آخر اُن کو بھون کر سبھو ں نے زہر مار کیا اور شراب غفلت سے مست ہو آدھی رات گئے باغ کے دروازے مقفل کر پاؤں پسار پسار سو رہے؛ پر یہ کوئی نہ سمجھا کہ مہر آور چار فرشتے لیے جان نکالنے کی گھات میں لگ رہا ہے۔

القصہ دیووں کو غافل پا کر حاتم کو کھٹولے پر بٹھلا کر آسمان کی طرف ہوا ہوا۔ سورج نکلتے نکلتے باغ سے سو کوس پر نکل گئے۔ جب دن چڑھا، ایک محفوظ جگہ دیکھ کر اُتر پڑے، کچھ ناشتہ کر کے سو رہے۔ دویوں کو تو اس بات سےخبر نہ تھی کہ قیدی کو کوئی لے گیا ہے، خاطر جمع سے باہر بیٹھے چوکی دیا کیے۔ اور وہ رات دن چلے گئے، جہاں خوب جگہ نظر پڑتی وہاں اُترتے، دم لیتے، ہرے ہو کر چل نکلتے۔

جب وعدہ گزر گیا، مہا کال نے کہا کہ وے پری زاد جس آدمی کو چھوڑ گئے ہیں اُسے لے آؤ۔ وہیں کئی دیو اُس باغ میں آئے اور اُس کو نہ پایا۔ مہا کال سے جا کر پھر عرض کی
 

مقدس

لائبریرین
امیداورمحبت

صفحہ ریختہ 79
ص ریختہ 79 (کتاب ص 44)

اس کا مور کی مانند ہے اور سر آدمی کا سا ؛ جو کوئی اس کے پاس جاتا ھے اور شربت پلاتا هے تو وہ مست ہو کر ناچنے لگتا ہے اور تماشا دکھاتا ہے ۔ بعضے آدمی اس سے صحبت ایسی رکھتے ہیں جیسے عورتوں سے ۔

به سن کر وہ بولی که ایسا کون شخص ہے جو اس کا سر کاٹ لاوے اور حاتم کو چنگا کرے۔

اس نے کہا که اگر تو سات روز نه دن کو دن سمجھے اور نه رات کو رات جانے ، نه کھاوے نه پیوے اور آٹھوں پہر اس کی خبر گیراں رہے تو میں جاؤں اور اس جانورکا سرکاث لاؤں ۔

اس نے کہا که اس سے کیا بہتر ہے که انسان پر حیوان کا احسان ہو ۔

غرض وہ ان دونوں کو وہاں چھوڑ کر گیا ۔ جوں دشت ماژندران میں وارد ہوا اور اس کو کسی درخت کے نیچے سوتے پایا ، نزدیک جا کر سر اس کا اس زور سے کھینچا که بدن سے جدا ہوا - پھر اس کو لیے ہوئے اپنے وعدے پر آ پہنچا۔

مادہ بھی اسی صورت سے اس کی خبرداری میں مستعد رہی ؛ چنانچه اس کے آنے تک اس نے چڑیا کے بچے کو بھی اس کے پاس نہ آنے دیا اور رات دن اس کے سر ہانے بیٹھی جاگا کی۔ حاتم بھی پڑے پڑے اس کی محنت و مشقت کو دیکھا کرتا تھا که اتنے میں گیدڑ نے پری رو جانور کا سر لا کر مادہ کے آگے رکھ دیا۔

اس نے وہ سر توڑا اور مغز اس کا حاتم کے چوتڑ پر لگا دیا ۔ وہ زخم وہيں بھر آیا اور درد جاتا رہا ۔

حاتم اٹھ کھڑا ہوا اور اس کی طرف دوڑ کر کہنے لگا


ا- 'کہا'، نسخه مكتوبه (ص 45) میں نہیں ۔


صفحہ ریختہ 80 (کتاب ص 45)

کہ اے حیوان ! به مجھ پر بڑا احسان کیا تو نے مگر خوب نه کیا که میرے واسطے ایک جانور کی جان لی۔ اس کا عذاب مجھ پر ہوگا - میں خدا کو کیا منہ دکھلاؤں گا۔

اس بات کو سن کر اس نے کہا که یہ گناه میری گردن پر ہے ۔ تو کچھ اندیشه نه کر کیوں که ہم بھی اپنے خالق کو جانتے ہیں۔

وے اسی گفتگو میں تھے که اتنے میں حاتم نے کہا که اگر تم نے مجھ پر احسان کیا ہے تو کچھ مجھ سے بھی کہو تا که میں بھی اس کو بجا لاؤں اور اس کام کو به خوبی کروں۔

گیدڑ بولا "اے جوان مرد ! اس جنگل کے قریب کفتاریں1 رهتی ہیں اور ہمارے بچے ہر سال کھا کھا جاتی هیں ۔ ہمارا اتنا قابو نہیں چلتا جو ان کو مار کے اپنے بچے بچاو یں ۔ اگر تو ان کو مارے اور ہمارے سر سے يه آفت ٹالے تو بڑا احسان کرے بلکه نے داموں مول لے۔

حاتم نے کہا که تم مجھ کو ان کا مکان دکھلا دو۔ میں تا مقدور قصور نه کروں گا۔

وہ مكان وہاں سے چھ کوس پر تھا۔ غرض وہ حاتم کو لے کر گیا اور دکھلا کر آپ کسی جھاڑی میں چھپ رہا - حاتم آگے گیا اور اس جگہ کو خالی پا کر بیٹها که اتنے میں ایک جوڑا آیا تو کیا دیکھتا ہے که ایک آدمی ہمارے2 مکان پر بیٹھا ہے۔

اس بات کو دریافت کر کے وے دونوں آگے بڑھے اور


1- کفتاریں ، جمع کفتار ، یعنی بجو - چرخ -

2۔ ان کے۔


صفحہ ریختہ 81 کتاب ص 46

کہنے لگے کہ اے شخص! یہ جگہ تیری نہیں جو تو یہاں تھا نے امیر ہو کر آ بیٹھا۔ اگر اپنا بھلا چاہتا ھے تو الٹے پاؤں پھر جا ، نہیں تو ابھی تکا بوٹی کر لیتے ہیں۔

اس نے کہا " اے نادانو ! میں مردم آزار نہیں اور نہ میں شکار ہوں- تم اتنا مجھ سے کیوں ڈرتے ہو ؟ اگر یہ مکان تمہارا ہے ، تمہیں مبارک رہے۔ شوق سے آرام کرو-"

کفتاروں نے کہا کہ آدمی کو مروت سے کیا ؟ تو ہم کو بتا نہ دے1 ۔چل ، چلا جا نہیں تو رنج کھینچے گا اور مارا جائے گا۔

حاتم نے کہا " اے حیوانو ! برائے خدا جیسے اپنی جان جانتے ہو ، ویسی ہی غیر کی جانو۔ یہ کیا ناانصافی ہے جو گیدڑ کے بچے مارو اور اپنے تئیں پالو۔"

وے بولے کہ اے جوان ! کیا اس گیدڑ کا حمایتی ہو کر ہم سے لڑنے آیا ہے؟

اس نے کہا " خدا کی قسم میں اس کا حمایتی بن کر نہیں آیا ہوں بلکہ منت کرتا ہوں کہ تم اس کے بچوں کو کھانے سے توبہ کرو اور غضب خدا سے ڈرو۔"

وے بولے کہ اے انسان ! تو ان کا غم کیا کھاتا ہے۔کوئی دم میں وہی احوال تیرا بھی ہوتا ہے۔

اس بات کو سن کر حاتم نے کہا " از برائے خدا !اس کے بچوں کے بدلے تم مجھ کو کھاؤ ، پر ان بچوں کے کھانے سے ہاتھ اٹھاؤ۔"


1۔ نسخہ مکتوبہ (ص 47) میں اس طرح ہے: "تو ہم کو نہ دے بتا۔"



صفحہ ریختہ 82 کتاب ص 47

وے بولے کہ ان کو تو کھاویں گے پر آج تجھ کو بھی نہ چھوڑیں گے۔

حاتم نے کہا " قسم ہے اپنے خدائے معظم کی کہ جس نے اٹھارہ ہزار عالم پیدا کیا ہے ، تم گیدڑ کے بچوں سے باز آؤ۔ وہ کریم روزی رساں ہے ، بہر صورت تمہیں رزق پہنچائے گا۔ "

وے بولے کہ ان کو کب چھوڑتے ہیں اور تجھے کب سلامت جانے دیتے ہیں۔

تب حاتم نے معلوم کیا کہ یہ کم بخت نہایت سخت دل ہیں ، خدا کی بھی قسم نہیں مانتے ، ان کو مارا چاہیے۔

یہ سمجھ کر وہ مارے غصے کے لال ہو گیا اور اپنی جگہ سے اچھل ، ان دونوں کی گردن پکڑ ، زمین پر دے پٹکا اور جی میں کہ کہ اب ان کو کیوں کر ماروں کیوں کہ میں نے اج تک نہ کسی کو مارا ہے اور نہ کسی کو دکھ دیا ہے ؛ پر انہوں نے خدا کی قسم سے انکار کیا ہے، کچھ سزا دیاچاہیے۔

اس بار کو جی میں ٹھہراکر خنجر کمر سے کھینچا۔ موٹھ سے ان کے دانت توڑے اور پھل سے ناخن کاٹ ڈالے۔ پھر سجدہ شکر ادا کرکے دعا مانگی کہ الیہ ان حیوانوں کا درد دور کر !

یہ دعا اس کی جناب الہی میں قبول ہوئی۔ اسی گھڑی ان دونوں کا درد جاتا رہا۔ پھر اسنے ان کو کھول کر آزاد کیا۔ وے رو رو کر کہنے لگے کہ اب ہم کو رزق کیوں کر ملے گا اور ہم کیوں کر جیئں گے۔

حاتم نے کہا "کچھ اندیشہ نہ کرو۔ خدا رازق ہے ، وہ کسی نہ کسی ڈھب سے پہنچاتا رہے گا۔"


صفحہ ریختہ 83 (کتاب ص 48)

اتنے میں وہ گیدڑ سامنے سے آ کر کہنے لگا کہ آپ خاطر جمع رکھیں۔ آج کے دن سے ان کا کھانا پینا ہمارے ذمے ہوا۔ ہم جہان میں جب تک جیتے رہیں گے، تب تک جہاں جائیں گے وہاں سے لا کر ان کو کھلاویں گے۔

یہ بات سن کر حاتم اُن سے رخصت ہوا، آگے بڑھا۔ اتنے میں مادہ نے اپنے نر سے کہا ”اے گیدڑ! یہ مروت سے دور ہے جو حاتم تنہا دشت ہویدا کو جاوے اور تو اس کا ساتھ نہ دے۔ “

اس سخن کے سنتے ہی وہ دوڑا او ر پکار پکار کر کہنے لگا ”اے حاتم ! میں بھی تیرے ساتھ دشت ہویدا کو چلوں گا۔ “

اس نے کہا” اے حیوان! میں ایک تیرے احسان سے گردن اُٹھا ہی نہیں سکتا، دوسرا بوجھ کیوں کر لوں اور اپنے واسطے تجھے وطن سے کس لیے آوارہ ۱کروں؟ برائے خدا ان باتوں سے باز آ۔ یہ مجھ سے ہرگز نہ ہو

سکے گا۔ اگر تو ساتھ ہی دینے پر مرتا ہے تو یہی احسان بہت ہے کہ مجھے راہ راست بتلا دے۔

اس نے کہا ” جو رستہ نزدیک کا ہے، اس میں آفتیں بہت سی ہیں اور دوسری راہ دوردراز ہے، پر اس میں اس قدر خطرہ نہیں؛ اس واسطے میں تیرے ساتھ چلنے کا ارادہ کرتا ہوں کہ ان کو بتا دوں ، آگے تیری خوشی۔“

اُس نے کہا کہ خداراہ نزدیک کی مشکلیں مجھ پر آسان کرے گا۔

تب گیدڑ نے کہا ” جو راہ کہ تیرے آگے آتی ہے، وہی نزدیک ہے۔ اگر سلامت رہے گا تو دشت ہویدا کو پہنچے گا۔ “


۱۔ آوارہ کس لیے۔ (نسخہ ٔ مکتوبہ ص۴۹)۔
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ 116

مسلمانی ہے کہ یہ غريب تم سبھوں کے واسطے جان بوجھ کر اپنے تئیں اژدھے کے منہ میں ڈالتا ہے اور تم اس کو تنہا چھوڑے جاتے ہو۔
غرض اس نے ہرگز باپ کی بات نہ مانی اور بہ صد خوشی ہم راہی اس کی قبول کی۔

جب دن آخر ہوا اور رات ہوئی، تب وہ آواز بدستور سابق ان کے کان میں پڑی۔ سب کے سب ڈر گئے۔ بعد تھوڑی دیر کے حلوقه مانند گنبد کے نمودار هوا، اس صورت سے کہ تو باتھ، نو پاؤں، نو منه بدن میں ہیں اور لوٹتا چلا آتا ہے۔ دھواں اور شعلہ اس کے منہ سے نکلتا ہے۔ رہنے والے اس گاؤں کے کوس دو کوس کے تفاوت سے کھڑے جو دیکھتے تھے، رہے اور بھاگ گئے۔ حاتم نے جو دیکھا کہ وه آ ہی پہنچا، فورا اس چادر کو آئینے کے اوپر اٹھا دیا۔ اس نے اپنی صورت اس میں جو دیکھی تو دم بہ خود ہو کر ایسا نعرہ مارا کہ سالم زمین اس گاؤں کی اور جنگل کی ہل گئی اور خلقت غش ہو گئی۔ آخر اس نے یہاں تک دم کھینچا که پیٹ پھٹ گیا۔ تب ایک ویسی ہی آواز ہولناک بیابان میں پھر پیدا ہوئی کہ رہے سہے بھی بےہوش ہو گئے۔

بعد دیر کے ہوش میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حلوقه مرا پڑا ہے اور تمام جنگل اس کے شکم کی آلائش سے بھر گیا ہے۔ کہ ایک دریا نیلے پانی کا بہتا ھے؛ تب رئیس اور اس کا بیٹا دونوں رعیت سميت حاتم کے پاؤں پر گر پڑے اور پوچھنے لگے کہ اے جوان مرد! تو کیوں کر اس کے ہاتھ سے بچا اور وہ اس صورت سے مارا پڑا؟ اس نے کہا کہ اس کا نام حلوقه ہے۔ کسی سے نہ مارا جاتا مگر یہی ڈھب تھا کہ اپنی ہی صورت


صفحہ 117


دیکھے، کسی دوسرے کو نہ دیکھے۔ تب غصے سے يہاں تک اپنا دم بند کرے کہ پیٹ پھول کر پھٹ جاوے۔

اس سخن کے سنتے ہی انھوں نے اپنے مقدور کے موافق ہر ایک طرح کا زر و جواہر اس کے آگے لا رکھا اور ہاتھ باندھ کر بہ منت و زاری کہا کہ اس کو قبول کرو تو ہماری تسکین ہو -

اس نے کہا ’’صاحبو! میں نے اس زر و جواهر کا لالچ کر کر یہ کام نہیں کیا۔ میں تو برائے خدا اسی صورت سے کام کرتا ہوں اور ایک مدت سے اسی کام پر کمر باندھے مستعد رہتا ہوں“

پھر انھوں نے پوچھا کہ حضرت سلامت! آپ کا آنا اس طرف کیوں کر ہوا؟

وہ کہنے لگا کہ آج روز جمعه ہے اور میں نے یوں سنا ہے کہ ایک آواز اس جنگل کی طرف سے اس ڈهب کی آتی ہے کہ نہ کیا وہ کام میں نے جو آج کی رات کام آتا میرے؛ اسی بات کے تحقیق کرنے کو اپنے شہر سے نکلا اور یہاں تک آ پہنچا ہوں، اب چلا جاؤں گا۔

رئیس نے کہا کہ صاحب میں ایک مدت سے اس آواز کو يوں ہی سنتا ہوں ، پر یہ نہ معلوم ہوا کہ وہ کس کی آواز ہے اور کہاں سے آتی ہے۔

حاتم اس روز تمام دن وہیں رہا۔ جب رات ہوئى تب وہی آواز پھر آئی۔ وہ اس کے سنتے ہی اس کی طرف روانہ ہوا اور کئی دن چلا گیا کہ ایک دن سامنے سے ایک ٹیلا نظر آیا اور نیچے اس کے قریب پانچ چھ سو سوار و پیادے دکھلائی دیے کہ چلے آتے ہیں جو خوب غور کر کے دیکھا تو

نہ وہ


صفحہ 118


سوار ہی نہ پیاده، ایک قبرستان ہے۔ تب حاتم نے اپنے دل میں کہا کہ بہ مزار صاحب کمالوں کا ہے اور یہ آواز بھی شاید یہیں سے آتی ہے، یہیں بیٹھنا چاہیے۔

اتنے میں رات ہوئی، وہ آواز پهر آئی۔ حاتم یاد خدا میں مشغول رہا۔ جب پہر رات گئی، تب ہر ایک قبر سے ہر ایک شخص بزرگ صورت نکلا۔ فرش ستھرا اور پاکیزہ بچھا کر نورانی حلے پہن اپنی اپنی مسند پر بیٹھے۔ اتنے میں ایک شخص بہ حال تباه، گندے کپڑے خاک آلوده پہنے، برہنہ پا کسی ٹوٹی گور سے نکلا اور خاک ہی پر بیٹھ گیا۔ وے مسند نشین قہوے پیا کیے۔ نہ اس کی طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر دیکھا، نہ کسی نے ایک پیالہ قہوے کا دیا۔ تب اس نے ایک آہ کھینچ کر بہ آواز بلند کہا کہ "آه نہ کیا وہ کام میں نے جو آج کی رات کام آتا میرے۔"

حاتم نے اس آواز کے سنتے ہی کہا کہ احسان خدا کا، میں اپنی منزل مقصود کو پہنچا۔

اتنے میں بہت سے خوان غیب سے آن بزرگوں کے آگے آئے اور ہر ایک خوان میں ایک ایک پیالہ کھیر کا اور ایک ایک کوزه پانی کا تھا، اور ایک خوان آن خوانوں سے جدا۔ انہوں نے کھانا کھاتے ہوئے آپس میں کہا کہ اے عزیرو! آج کی رات ایک مسافر ہمارے ہاں مہمان آیا ہے۔ اس کو لے آؤ کہ بہ خوان علیحده اسی شخص کا حصہ ہے۔


ندان ایک شخص اٹھا اور حاتم کو لا کر مسند پر بٹھایا، خوان اس کے آگے رکھ دیا۔ حاتم نے اس شخص کی طرف دیکھا جو ان لوگوں سے دور میلا کچیلا زمین پر بیٹھا نعرے مار رہا تها۔


صفحہ 119


اور ایک خوان بھی اس کے آگے دھرا تھا، پر اس میں ایک پیالہ تهوهر کے دودھ اور سنگ ریزوں سے بھرا ہوا اور کوزے میں بجائے پانی کے پیپ و لہو۔ اس حالت کو دیکھ کر حاتم سر جھکا کے کھانا کھانے لگا اور اس کی طرف دیکھنے۔


اتنے میں سب کے سب کھانا کھا چکے، خوان خالی اٹھا لیے؛ تب حاتم نے متفکر کر ان سے کہا کہ میں کچھ آپ سے عرض رکھتا ہوں، اگر حکم ہو تو کروں؟

انہوں نے کہا کہو -

وہ بولا یہ کیا کہ تم مسندوں پر عز و وقار ہوئے ایسے کھانے لذیذ کھاؤ اور یہ غريب روتا ہوا تهوهر کا دودھ خاک پر بیٹھا زہر مار کرے؟


انہوں نے کہا کہ ہم اس راز سے آگاہ نہیں، تو اسی سے پوچھ۔


حاتم وہاں سے اٹھ کر اس کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اے عزیز! تو نے ایسا کیا گناہ کیا ہے جو اس عذاب میں گرفتار ہوا ہے؟ برائے خدا کچھ تو کہہ۔


وہ اس بات کے سنتے ہی آنکھوں میں آنسو بھر لایا اور کہنے لگا کہ اے جوان مرد خوش رو! میں انہیں لوگوں کا سردار ہوں اور میرا نام یوسف سوداگر ہے۔ سوداگری کے واسطے شہر خارزم کو جاتا تھا اور بخیل بھی ایسا تھا کہ کبھی خدا کی راہ کوڑی پیسہ، دانا پانی، کپڑا لتا آپ دیا نہ کسی دینے دیا۔ اور اگر کوئی نوکر چاکر میری چوری سے کسی کو دیتا اور مجھے معلوم ہوتا تو اسے منع کرتا کہ اپنا مال کیوں کھوتا ہے بلکه اکثر غلاموں کو خیرات کرنے پر مارتا


صفحہ 120


وہ کہتے کہ ہم خدا کے واسطے دیتے ہیں کہ یہ ہماری عاقبت میں کام آوے گا۔ میں ان پر ہنستا تھا۔ غرض وہ جب اس ڈھب کی نصیحت کرتے تو میں کان نہ د هرتا اور مطلق نہ مانتا کہ ایک دن چور آ پڑے۔ ہم سبھوں کو لوٹا مارا، یہیں گاڑ دیا۔

انہوں نے بہ سبب اپنی سخاوت کے ایسا مرتبہ پایا اور میں اپنی بخیلی کے باعث سے اس بلا میں مبتلا ہوا- وطن میرا چین ہے، اولاد میری خراب احوال، ٹکڑے کو محتاج، بھیگ مانگتی پھرتی ہے۔ اور ایک درخت کے نیچے میرے حجرے کے پاس بہت سا مال جواهر گڑا ہے۔ یہ میری طالعوں کی شومی ہے کہ سب نوکر میرے مسندوں پر بیٹھے ہوئے شیر برنج اور ٹھنڈا پانی نوش کرتے ہیں اور حلے بہشت کے پہنتے ہیں اور میں اس خستہ حالی میں گرفتار ہوں۔ حق تو یہ ہے که اپنے کیے کی سزا پاتا ہوں۔


حاتم نے کہا کہ کوئی طریقہ تیری نجات کا ہے؟


اس نے کہا کہ میں تو ایک مدت آہ و زاری کرتا

ہوں، پر کوئی میری داد کو نہیں پہنچتا۔ مگر آج کی رات تو آیا ہے۔ اگر تجھ کو خدا توفیق دے تو تو شہر چین میں جا۔ حویلی میری سوداگروں کے محلے میں ہے اور یوسف سوداگر نام مشہور ہے۔ وہاں جا کر محلے والوں احوال میرا كہہ۔ اغلب ہے که میرے لڑکے بالے تیرے پاس آویں۔ چاہیے کہ

به ماجرا ان سے بالمشافہ بیان کرے تو بعد اس کے فلانی جگہ میرا مال و جواهر بےحد و بے قیاس گڑا هے۔ اس کو نکال کر چار حصے کر کے ایک حصہ ان میں سے میرے فرزندوں کو دے اور تین حصے خدا کی راہ میں خرچ کر؛ بھوکوں کو کھلا،

ننگوں کو کپڑے، مسافروں کو خرچ راه دے۔ امید ہے کہ تیری توجہ سے میں بھی نجات پاوں اور ہم نشین ان کا ہوں۔
 
Top