عمار ابن ضیا
محفلین
بہت شکریہ استاد محترم۔ شاید اس میں مناسب الفاظ ہی کی ضرورت تھی جو آپ کی اصلاح سے پوری ہوگئی۔ آخری شکل یہ ہے:اچھی غزل ہے عمار۔۔ لیکن کیوں کہ اصلاح کے لئے یہاں پیش کی گئی ہے اس لئے لازم ہے کہ فصیل سے جائزہ لوں:
آرزوئے وصال مت کیجے
اپنے دل کا خیال مت کیجے
اچھا واضح مطلع ہے۔ خوب
میں نے دیکھا ہے چاند کو روتے
رات کو عرضِ حال مت کیجے
واہ واہ۔۔۔ اچھا شعر نکالا ہے، مبارک
جو اسے لاجواب کر چھوڑے
کوئی ایسا سوال مت کیجے
شعر یوں تو درست ہے، لیکن ذرا لفظ ’چھوڑے‘ بھلا نہیں لگ رہا۔
اگر ’جو اسے لاجواب کر ڈالے
کلہیں تو۔۔ بات بہتر ہوتی ہے یا بگڑ جاتی ہے۔ وارث، فرخ!!
اس کے وعدے تمام جھوٹے ہیں
خوامخواہ دل نہال مت کیجے
دوسرے مصرع میں ’خواہ مخواہ‘ محض ’خامخا‘ تقطیع ہو رہا ہے، جب کہ یہ خاہ مخاہ ہونا چاہئے۔ یعنی بر وزن فعل فعول
اگر محض ’اس طرح ‘ کر دیا جائے تو؟
دل تو اپنا رقیب ٹھہرا ہے
اس سے کچھ بول چال مت کیجے
درست ہے، لیکن اگر پہلے مصرع کو تھوڑا بدل دیں تو بات بہتر ہو جائے شاید:
دل تو اپنا/آخر رقیب ہی ٹھہرا
کیوں بھلا؟ چھوڑیئے یہ سب عمار
اپنا جینا محال مت کیجے
یہاں ’کیوں بھلا‘ ذرا کھٹک رہا ہے۔ کچھ متبادل مصرعے
ٹالیے چھوڑیے میاں عمار
کیوں پریشاں ہیں، چھوڑیے عمار
مجموعی طور پر بہت اچھی غزل ہے۔ مبارک ہو عمار۔
آرزوئے وصال مت کیجے
اپنے دل کا خیال مت کیجے
میں نے دیکھا ہے چاند کو روتے
رات کو عرضِ حال مت کیجے
جو اسے لاجواب کر ڈالے
کوئی ایسا سوال مت کیجے
اس کے وعدے تمام جھوٹے ہیں
اس طرح دل نہال مت کیجے
دل تو آخر رقیب ہی ٹھہرا
اس سے کچھ بول چال مت کیجے
کیوں پریشاں ہیں، چھوڑیے عمار
اپنا جینا محال مت کیجے
اپنے دل کا خیال مت کیجے
میں نے دیکھا ہے چاند کو روتے
رات کو عرضِ حال مت کیجے
جو اسے لاجواب کر ڈالے
کوئی ایسا سوال مت کیجے
اس کے وعدے تمام جھوٹے ہیں
اس طرح دل نہال مت کیجے
دل تو آخر رقیب ہی ٹھہرا
اس سے کچھ بول چال مت کیجے
کیوں پریشاں ہیں، چھوڑیے عمار
اپنا جینا محال مت کیجے
ایک بار پھر بہت شکریہ۔