الف نظامی
لائبریرین
آزادی اظہار کا مذاق
از مواحد حسین سید ، روزنامہ نوائے وقت ، ۲۴ مارچ ۲۰۰۶
مغرب میں ایک عام پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ مسلم دنیا میں توہین آمیز کارٹونز کے خلاف رویہ آزادی رائے کے منافی ہےکیونکہ یہ آزادی رائے کی اہمیت سے واقف نہیں۔ مغرب میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اگر مسلمان زیادہ روشن خیال اور تعلیم یافتہ ہوتے اور آزادی رائے کی اہمیت سے آگاہ ہوتے تو یہ تنازعہ کھڑا نہ ہوتا
لیکن کیا مغرب واقعی ایسا ہی کرتا ہے جیسے یہ کہتے ہیں؟
امریکہ میں سفر کے دوران میں نے ورجینا میں ارلنگٹن نیشنل سمیڑی کا دورہ کیا اور جنرل جارج براؤن کی قبر پر رک گیا جو 1974 سے1978 تک چئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف تھے جو امریکہ کی اعلی ترین فوجی پوزیشن ہے۔ جنرل براؤن 1974میں اپنے ایک بیان کی وجہ سے بہت مشہور ہوگئے تھے جب انہوں نےخبردار کیا تھا کہ امریکہ کی مشرق وسطی کے حوالے سے اسرائیلی لابی کی اندھی حمایت بین الاقوامی مسائل پیدا کرسکتی ہے ۔ جنرل براؤن نے اپنی بات کا اعادہ امریکی کانگرس کے سامنے بھی کیا جب انہوں نے اسرائیل کو امریکہ کے اوپر ایک ''سٹرٹیجک بوجھ'' قرار دیا۔ جنرل کے ان بیانات نے اسرائیلی حلقوں میں بہت زیادہ ہلچل پیدا کردی تھی اور انہوں نے اس وقت کے امریکی صدر پر زور دیا تھا کہ وہ جنرل براؤن کو فارغ کر دیں مگر بعد میں ایسا نہ کیا گیا کیونکہ اسرائیل کو معلوم تھا کہ اگر ان کو ہٹایا گیا تو اس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ جنرل براؤن صحیح تھے ۔
جنرل براؤن سے پہلے ایڈمرل تھامس مورر تھے جو ۱۹۷۰ سے ۱۹۷۴ تک چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف رہے۔جون ۱۹۶۷ میں عرب اسرائیلی جنگ میں ایک اسرائیلی جنگی جہاز نے امریکی بحری جہاز کو بم مار کر عملے کے ۳۴ افراد سمیت ۱۷۲ افراد کو ہلاک کر دیا تھا ۔ ایڈمرل مورر اور ان کے سینئر بحریہ کے افسران کا شکریہ کہ حقیقت کبھی منظر عام پر نہ آسکی۔ امریکی نیوی میں کچھ افراد نے امریکی انتظامیہ کو واقعہ چھپانے کا مورد الزام ٹھہرایا۔۱۹۸۴ میں ایڈمرل مورر نے کہا
'' اگر امریکی عوام کو پتہ لگ جائے کہ اسرائیل کے حامی عناصر امریکی حکومت میں کس قدر اثر و رسوخ رکھتے ہیں تو شاید وہ ہتھیار اٹھا لیں ''
حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کے حوالے سے بہت کم بحث ہوئی ہے۔ کئی دوسرے افراد کا بھی یہ خیال ہے کہ امریکی جمہوریت کو ہائی جیک کرلیا گیا ہے ۔ سابق کانگرس کے رکن پاؤل فنڈلے نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے
”They dare to speak out” عمان میں یکم مارچ ۲۰۰۶ کو اقوام متحدہ میں پی ایل او کے پہلے نمائندے زیدی تیرزی انتقال کرگئے۔وہ ۱۹۵۷ میں اقوام متحدہ میں فلسطین کے پہلے مستقل ممبر بنے تھے۔ ا۹۸۶ میں امریکی سٹیٹ ڈیپا رٹمنٹ نے زیدی تیرزی کو نیویارک سے ۲۰۰ میل دور بوسٹن میں ہاورڈ لا سکول میں جانے سے روک دیا تھا کہ وہ وہاں مسئلہ فلسطین پر بحث کرسکیں۔ ۱۹۷۹ میں تیرزی نے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر اینڈریوینگ کے ساتھ دوپہر کا کھانا تناول کیا۔ اس پر اسرائیل کی حامی لابی نے اتنا زیادہ شور مچایاکہ امریکی صدر جمی کارٹر اینڈریوینگ کو فارغ کرنے پر مجبور ہوگئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ فلسطین کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔اینڈریو ینگ ایک معروف سیاہ فام ہیومن رائیٹس لیڈر اور کانگرس کے رکن رہے ہیں۔
حال ہی میں کولروڈو کی ایک سکول ٹیچر جے بینش کو محض اس لیے معطل کیا گیا کیونکہ انہوں نے صدر بش کا ہٹلر کے ساتھ موازنہ کرنے کی کوشش کی اور ثابت کیا کہ امریکہ دنیا کی سب سے بدمعاش قوم ہے۔کلاس کے دوران بینش نے سوال کیا کہ امریکہ کو مشرق وسطی میں جنگ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی جبکہ فلسطینی ریاست کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اسرائیل کے خلاف کام کررہے ہیں ۔ ٹیچر کو سزا دے کر معطل کر دیا گیا۔
5 مارچ کو ہالی وڈ میں آسکر ایوارڈ کی تقریب میں جس فلسطینی فیچر فلم
“Paradise Lost” کو بہترین غیرملکی فلم کے لیے ہارٹ فیورٹ تصور کیا جارہا تھا ۔ اس فلم کی کہانی دو فلسطینی نوجوانوں سے بحث کرتی ہے جو اسرائیلی تسلط کے خلاف خودکش دھماکے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ اسرائیل میں بہت زیادہ شور مچایا گیا اور کہا گیا کہ اس فلم کو مقابلے سے دستبردار کیا جائے کیونکہ وہ مسلہ فلسطین کے حوالے سے کسی قسم کی ہمدردی والی فلم کو پروموٹ ہوتا نہیں دیکھ سکتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس فلم کو کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا۔
اسکے مقابلے میں ایک اور ڈاکومنٹری کو پروموٹ کرنے کی کوشش کی گئی جو مسلمانوں کے خلاف پراپگنڈا کرنے کیلیے بنائ گئی تھی اس کا نام
Obsession .Radical Islam’s War against the west
ہے۔ فلم کا مختصر جائزہ ان الفاظ میں پیش کیا گیا۔
"آج ہمارا سامنا ایک نئے دشمن سے ہے جو دنیا کو تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے ۔ آج جب ہم اپنے گھروں میں پرسکون زندگی گذار رہیں ہیں ، ایک بہت بڑا شیطان ہمارے خلاف سرگرم عمل ہوچکا ہے ۔ ایک نیا طوفان ہمارے لیے خطرہ بن رہا ہے اور وہ مغربی تہذیب کو ختم کرنے کے درپے ہے یہ دشمن انتہا پسند اسلام ہے "
جو لوگ اس فلم کے بارے میں مزید جاننا چاہیں وہ مندجہ ذیل ویب سائٹ ملاحظہ کرسکتے ہیں
www.obsessionthemovie.com
امریکی آئین میں پہلی ترمیم آزادی رائے سے بحث کرتی ہے لیکن اس کے باوجود ایسی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں حالانکہ آئین میں اس حوالے تمام تر ضمانتیں اور تحفظات دئیے گئے ہیں۔
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کس طرح آزادی رائے یکطرفہ ہے ۔ عملی طور پر اسے عرب اور مسلمانوں کے حوالے سے مشرق وسطی کے مسئلے کو دبانے کے لیے استمعال کیا جاتا ہے ۔ امریکہ میں یہ بند دروازوں اور بند ذہنوں کی کہانی ہے ۔ مغرب "تہذیبوں کے تصادم "کے فلسفےکو ہوا دے رہا ہے اور مغرب کے عیسائیوں کو اسلام کے خلاف کھڑا ہوا دکھایا جاتا ہے مگر بدقسمتی ہے مسلمان آپس میں بھی لڑائی میں مصروف ہیں جو مال و دولت کیلیے ہو رہی ہے ۔
یہ مغرب میں موجود مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ، اگر وہ اس معلومات کے منفی بہاو اور عدم مساوات کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے تو ان کا مغرب میں تحفظ ، عزت و احترام باقی نہیں رہے گا ، پھر ایسی زندگی کا کیا فائدہ کہ آپ زندہ ہیں مگر زندہ نہیں۔
از مواحد حسین سید ، روزنامہ نوائے وقت ، ۲۴ مارچ ۲۰۰۶
مغرب میں ایک عام پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ مسلم دنیا میں توہین آمیز کارٹونز کے خلاف رویہ آزادی رائے کے منافی ہےکیونکہ یہ آزادی رائے کی اہمیت سے واقف نہیں۔ مغرب میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اگر مسلمان زیادہ روشن خیال اور تعلیم یافتہ ہوتے اور آزادی رائے کی اہمیت سے آگاہ ہوتے تو یہ تنازعہ کھڑا نہ ہوتا
لیکن کیا مغرب واقعی ایسا ہی کرتا ہے جیسے یہ کہتے ہیں؟
امریکہ میں سفر کے دوران میں نے ورجینا میں ارلنگٹن نیشنل سمیڑی کا دورہ کیا اور جنرل جارج براؤن کی قبر پر رک گیا جو 1974 سے1978 تک چئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف تھے جو امریکہ کی اعلی ترین فوجی پوزیشن ہے۔ جنرل براؤن 1974میں اپنے ایک بیان کی وجہ سے بہت مشہور ہوگئے تھے جب انہوں نےخبردار کیا تھا کہ امریکہ کی مشرق وسطی کے حوالے سے اسرائیلی لابی کی اندھی حمایت بین الاقوامی مسائل پیدا کرسکتی ہے ۔ جنرل براؤن نے اپنی بات کا اعادہ امریکی کانگرس کے سامنے بھی کیا جب انہوں نے اسرائیل کو امریکہ کے اوپر ایک ''سٹرٹیجک بوجھ'' قرار دیا۔ جنرل کے ان بیانات نے اسرائیلی حلقوں میں بہت زیادہ ہلچل پیدا کردی تھی اور انہوں نے اس وقت کے امریکی صدر پر زور دیا تھا کہ وہ جنرل براؤن کو فارغ کر دیں مگر بعد میں ایسا نہ کیا گیا کیونکہ اسرائیل کو معلوم تھا کہ اگر ان کو ہٹایا گیا تو اس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ جنرل براؤن صحیح تھے ۔
جنرل براؤن سے پہلے ایڈمرل تھامس مورر تھے جو ۱۹۷۰ سے ۱۹۷۴ تک چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف رہے۔جون ۱۹۶۷ میں عرب اسرائیلی جنگ میں ایک اسرائیلی جنگی جہاز نے امریکی بحری جہاز کو بم مار کر عملے کے ۳۴ افراد سمیت ۱۷۲ افراد کو ہلاک کر دیا تھا ۔ ایڈمرل مورر اور ان کے سینئر بحریہ کے افسران کا شکریہ کہ حقیقت کبھی منظر عام پر نہ آسکی۔ امریکی نیوی میں کچھ افراد نے امریکی انتظامیہ کو واقعہ چھپانے کا مورد الزام ٹھہرایا۔۱۹۸۴ میں ایڈمرل مورر نے کہا
'' اگر امریکی عوام کو پتہ لگ جائے کہ اسرائیل کے حامی عناصر امریکی حکومت میں کس قدر اثر و رسوخ رکھتے ہیں تو شاید وہ ہتھیار اٹھا لیں ''
حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کے حوالے سے بہت کم بحث ہوئی ہے۔ کئی دوسرے افراد کا بھی یہ خیال ہے کہ امریکی جمہوریت کو ہائی جیک کرلیا گیا ہے ۔ سابق کانگرس کے رکن پاؤل فنڈلے نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے
”They dare to speak out” عمان میں یکم مارچ ۲۰۰۶ کو اقوام متحدہ میں پی ایل او کے پہلے نمائندے زیدی تیرزی انتقال کرگئے۔وہ ۱۹۵۷ میں اقوام متحدہ میں فلسطین کے پہلے مستقل ممبر بنے تھے۔ ا۹۸۶ میں امریکی سٹیٹ ڈیپا رٹمنٹ نے زیدی تیرزی کو نیویارک سے ۲۰۰ میل دور بوسٹن میں ہاورڈ لا سکول میں جانے سے روک دیا تھا کہ وہ وہاں مسئلہ فلسطین پر بحث کرسکیں۔ ۱۹۷۹ میں تیرزی نے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر اینڈریوینگ کے ساتھ دوپہر کا کھانا تناول کیا۔ اس پر اسرائیل کی حامی لابی نے اتنا زیادہ شور مچایاکہ امریکی صدر جمی کارٹر اینڈریوینگ کو فارغ کرنے پر مجبور ہوگئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ فلسطین کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔اینڈریو ینگ ایک معروف سیاہ فام ہیومن رائیٹس لیڈر اور کانگرس کے رکن رہے ہیں۔
حال ہی میں کولروڈو کی ایک سکول ٹیچر جے بینش کو محض اس لیے معطل کیا گیا کیونکہ انہوں نے صدر بش کا ہٹلر کے ساتھ موازنہ کرنے کی کوشش کی اور ثابت کیا کہ امریکہ دنیا کی سب سے بدمعاش قوم ہے۔کلاس کے دوران بینش نے سوال کیا کہ امریکہ کو مشرق وسطی میں جنگ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی جبکہ فلسطینی ریاست کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ اسرائیل کے خلاف کام کررہے ہیں ۔ ٹیچر کو سزا دے کر معطل کر دیا گیا۔
5 مارچ کو ہالی وڈ میں آسکر ایوارڈ کی تقریب میں جس فلسطینی فیچر فلم
“Paradise Lost” کو بہترین غیرملکی فلم کے لیے ہارٹ فیورٹ تصور کیا جارہا تھا ۔ اس فلم کی کہانی دو فلسطینی نوجوانوں سے بحث کرتی ہے جو اسرائیلی تسلط کے خلاف خودکش دھماکے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ اسرائیل میں بہت زیادہ شور مچایا گیا اور کہا گیا کہ اس فلم کو مقابلے سے دستبردار کیا جائے کیونکہ وہ مسلہ فلسطین کے حوالے سے کسی قسم کی ہمدردی والی فلم کو پروموٹ ہوتا نہیں دیکھ سکتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس فلم کو کوئی ایوارڈ نہیں دیا گیا۔
اسکے مقابلے میں ایک اور ڈاکومنٹری کو پروموٹ کرنے کی کوشش کی گئی جو مسلمانوں کے خلاف پراپگنڈا کرنے کیلیے بنائ گئی تھی اس کا نام
Obsession .Radical Islam’s War against the west
ہے۔ فلم کا مختصر جائزہ ان الفاظ میں پیش کیا گیا۔
"آج ہمارا سامنا ایک نئے دشمن سے ہے جو دنیا کو تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے ۔ آج جب ہم اپنے گھروں میں پرسکون زندگی گذار رہیں ہیں ، ایک بہت بڑا شیطان ہمارے خلاف سرگرم عمل ہوچکا ہے ۔ ایک نیا طوفان ہمارے لیے خطرہ بن رہا ہے اور وہ مغربی تہذیب کو ختم کرنے کے درپے ہے یہ دشمن انتہا پسند اسلام ہے "
جو لوگ اس فلم کے بارے میں مزید جاننا چاہیں وہ مندجہ ذیل ویب سائٹ ملاحظہ کرسکتے ہیں
www.obsessionthemovie.com
امریکی آئین میں پہلی ترمیم آزادی رائے سے بحث کرتی ہے لیکن اس کے باوجود ایسی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں حالانکہ آئین میں اس حوالے تمام تر ضمانتیں اور تحفظات دئیے گئے ہیں۔
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ کس طرح آزادی رائے یکطرفہ ہے ۔ عملی طور پر اسے عرب اور مسلمانوں کے حوالے سے مشرق وسطی کے مسئلے کو دبانے کے لیے استمعال کیا جاتا ہے ۔ امریکہ میں یہ بند دروازوں اور بند ذہنوں کی کہانی ہے ۔ مغرب "تہذیبوں کے تصادم "کے فلسفےکو ہوا دے رہا ہے اور مغرب کے عیسائیوں کو اسلام کے خلاف کھڑا ہوا دکھایا جاتا ہے مگر بدقسمتی ہے مسلمان آپس میں بھی لڑائی میں مصروف ہیں جو مال و دولت کیلیے ہو رہی ہے ۔
یہ مغرب میں موجود مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ، اگر وہ اس معلومات کے منفی بہاو اور عدم مساوات کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے تو ان کا مغرب میں تحفظ ، عزت و احترام باقی نہیں رہے گا ، پھر ایسی زندگی کا کیا فائدہ کہ آپ زندہ ہیں مگر زندہ نہیں۔