ثمینہ معیز
محفلین
بے اماں سیاہ راتوں میں
تنہائیوں کی حشر سامانیاں ہیں
یادوں کی تپتی کرنوں سے
لہو رنگ رستے لمحون سے
دھواں ہوتے ماضی سے
سلگتے ہوئے حال سے
ٓآنے والے سوگ سے
غم کی پختہ چھاوں میں
رفتہ رفتہ ، قطرہ قطرہ
بگھلتی روح کے آنسووں سے
ایک تحریر کا عنواں
ابھی لکھا جانا باقی ہے
لفط ہیں کہ
غزلوں کے بندھنوں کو توڑتے جاتے ہیں
نظموں کو بے وزن کرتے جاتے ہیں
آوارہ اڑتے لفظوں سے
بکھرے ہوئے جذبوں سے
آج
ایک تحریر آزاد ہوئی
تنہائیوں کی حشر سامانیاں ہیں
یادوں کی تپتی کرنوں سے
لہو رنگ رستے لمحون سے
دھواں ہوتے ماضی سے
سلگتے ہوئے حال سے
ٓآنے والے سوگ سے
غم کی پختہ چھاوں میں
رفتہ رفتہ ، قطرہ قطرہ
بگھلتی روح کے آنسووں سے
ایک تحریر کا عنواں
ابھی لکھا جانا باقی ہے
لفط ہیں کہ
غزلوں کے بندھنوں کو توڑتے جاتے ہیں
نظموں کو بے وزن کرتے جاتے ہیں
آوارہ اڑتے لفظوں سے
بکھرے ہوئے جذبوں سے
آج
ایک تحریر آزاد ہوئی