حسن محمود جماعتی
محفلین
صبح کے ساڑھے پانچ بجے تھے جب ٹرین وزیرآباد پہنچی- سفر میں یہ پہلا پڑاؤ تھا۔ یہاں سے ٹرین بدل کر ہم نے منزل کی جانب روانہ ہونا تھا۔ رات بھر کے سفر اور تھکان کے باعث سوچا کہ چہرے کو پانی کی زیارت کرا دی جائے ورنہ اپنا آپ پہچاننے سے بھی جائیں گے۔ بڑے بھیا دوسری ٹرین میں اپنی نشت محفوظ کرنے گئے تھے۔ ابھی ہم نل پر جھکے منہ ہاتھ دھو ہی رہے تھے کہ جسم میں ایک لہر دوڑ گئی، بدن میں جھرجھری ہوئی۔ گویا کہ ہم پہ وار ہو چکا تھا۔ سر اٹھا کر جو دیکھا تو عین سامنے کھڑکی کے اس پار وہ کمان نظر آئی جہاں سے یہ نشتر چلے تھے۔ ہم اس وارپر ابھی سنبھل نہ پائےتھے کہ اتنے میں بھیا کی آواز نے چونکا دیا - بولے نشت محفوظ ہوگئی ہے۔ معلوم پڑا اپنا پڑاؤ اسی مورچہ سے چند قدم فاصلے پر سمت مخالف میں ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں ٹرین کی روانگی کا بگل بجادیا گیا۔
ہم اپنی نشت پرا برا جمان ہوئے اور گرد و پیش کا جائزہ لینے لگے۔ اسی اثنا میں اپنی نظر کو سرحد پار کے مورچوں کی خبر گیری کے لیے بھیجا۔ خبر یہ آئی کہ پری پیکر کھڑکی سے باہر کے ماحول میں دلچسپی رکھتی ہیں- کھڑکی کی بغل میں ہونے کے باعث گستاخ ہوا زلف عنبریں سے اٹھکیلیاں کررہی ہے- جس کی وجہ سے زرد آنچل ہوا میں لہلہا رہا ہے۔ پری پیکر ہوا کی اس گستاخی پر نالاں بار بار اپنا دوپٹہ درست کرنے میں مصروف ہیں- اس سے آگے کی واردات کا بیان کچھ یوں ہے کہ:
تیرے آنچل کی سر سراھٹ میں
یہ ترا بانکپن کہاں چھپتا
تو چھپانے کے کچھ جتن کر لے اور
اب کے آئے گا سامنے چہرہ
پھر کہاں،
گہری زلفوں کی اوٹ میں لے کر
سایہ ابر کی مانند
کتنی مدت گھٹائے اسود کے
سائے میں چھپ رہے گا یہ
ابر باراں کہ آخرے اک دن
کھل کے برسے گا اور دھو دے گا
ہر پرت اضطراب کو تم سے
ہر آنچل نقاب کو تم سے
پھر،
برستی چھلکتی زلفوں سے
چہرہء مہتاب پر تیرے
چند شبنمی قطرے
رنگ قوس قضا بکھیریں گے
پھر سے رنگ فضا میں رنگ بہار
ہر سو مہک، مہک سے نکھار
آج پھر آبرو کے آنچل کو
بیٹھ کر پہلوئے دل میں
اے مرے "لم یزل" سرکنے دے
آج پھر کوہ دل کو مرے
طور سا گر بکھرنے دے
اے مرے " لم یزل" سرکنے دے۔۔۔۔۔
26.6.2014
چونڈہ (سیالکوٹ)
ہم اپنی نشت پرا برا جمان ہوئے اور گرد و پیش کا جائزہ لینے لگے۔ اسی اثنا میں اپنی نظر کو سرحد پار کے مورچوں کی خبر گیری کے لیے بھیجا۔ خبر یہ آئی کہ پری پیکر کھڑکی سے باہر کے ماحول میں دلچسپی رکھتی ہیں- کھڑکی کی بغل میں ہونے کے باعث گستاخ ہوا زلف عنبریں سے اٹھکیلیاں کررہی ہے- جس کی وجہ سے زرد آنچل ہوا میں لہلہا رہا ہے۔ پری پیکر ہوا کی اس گستاخی پر نالاں بار بار اپنا دوپٹہ درست کرنے میں مصروف ہیں- اس سے آگے کی واردات کا بیان کچھ یوں ہے کہ:
تیرے آنچل کی سر سراھٹ میں
یہ ترا بانکپن کہاں چھپتا
تو چھپانے کے کچھ جتن کر لے اور
اب کے آئے گا سامنے چہرہ
پھر کہاں،
گہری زلفوں کی اوٹ میں لے کر
سایہ ابر کی مانند
کتنی مدت گھٹائے اسود کے
سائے میں چھپ رہے گا یہ
ابر باراں کہ آخرے اک دن
کھل کے برسے گا اور دھو دے گا
ہر پرت اضطراب کو تم سے
ہر آنچل نقاب کو تم سے
پھر،
برستی چھلکتی زلفوں سے
چہرہء مہتاب پر تیرے
چند شبنمی قطرے
رنگ قوس قضا بکھیریں گے
پھر سے رنگ فضا میں رنگ بہار
ہر سو مہک، مہک سے نکھار
آج پھر آبرو کے آنچل کو
بیٹھ کر پہلوئے دل میں
اے مرے "لم یزل" سرکنے دے
آج پھر کوہ دل کو مرے
طور سا گر بکھرنے دے
اے مرے " لم یزل" سرکنے دے۔۔۔۔۔
26.6.2014
چونڈہ (سیالکوٹ)
آخری تدوین: