تیرے آنچل کی سر سراھٹ میں
یہ ترا بانکپن کہاں چھپتا
پہلے دو مصرعے موزوں ہیں بحر ہے فاعلاتن مفاعلن فعلن(ابنِ مریم ہوا کرے کوئی)
اب تمام نظم کو اسی آہنگ پر گنگنائیں اور آپ کو محسوس ہوگا کہ کہاں وزن سے گر رہے ہیں مصرعے۔
تو چھپانے کے کچھ جتن کر لے اور
یہاں' اور" کو نظر انداز کریں تو مصرعہ موزوں ہے۔
اب کے آئے گا سامنے چہرہ
موزوں
پھر کہاں،
گہری زلفوں کی اوٹ میں لے کر
موزوں۔
سایہ ابر کی مانند
کتنی مدت گھٹائے اسود کے
موزوں
سائے میں چھپ رہے گا یہ
سائے میں چھپ رہے گا یہ اب تو
ابر باراں کہ آخری اک دن
موزوں
کھل کے برسے گا اور دھو دے گا
موزوں
ہر پرت اضطراب کو تم سے
موزوں
ہر آنچل نقاب کو تم سے
پھربرستی چھلکتی زلفوں سے
موزوں
چہرہء مہتاب پر تیرے
موزوں
چند شبنمی قطرے
رنگ قوس قضا بکھیریں گے
موزوں
پھر سے رنگ فضا میں رنگ بہار
موزوں
ہر سو مہک، مہک سے نکھار
آج پھر آبرو کے آنچل کو
موزوں
بیٹھ کر پہلوئے دل میں
اے مرے "لم یزل" سرکنے دے
موزوں
آج پھر کوہ دل کو مرے
آج پھر کوہ دل کو تو میرے ، ایسے موزوں ہوجائے گا
طور سا گر بکھرنے دے
آخری فعلن کی کمی ہے۔ طور سا گر بکھرنے دے اے دوست ایسے موزوں ہو جائے گا
اے مرے " لم یزل" سرکنے دے
موزوں