آسان حل۔۔۔۔۔۔۔

نیلم

محفلین
اچھا سوال اٹھایا نیلم نے۔ یہاں پر بہت سے ایسے محفلین ہیں جو کہ میرے سے لاکھ کروڑ درجے بہتر جواب اس بات کا دے سکتے ہیں۔ اگر انکی آراء بھی لے لی جائے تو اچھا ہی ہے۔
اب آجائیں ذرا فرمودات نیرنگ کی طرف
اعتبار زندگی کی بہت ہی اہم کڑی ہے۔ انسان کی ابتداء اعتبار کے رشتے سے منسلک ہے۔ بچے کو جب ہوا میں اچھالا جاتا ہے۔ تو یہ اسکا اپنے باپ پر اعتبار ہے جو اسے رونے نہیں دیتا اور وہ چند لمحوں کی اس ہوا بازی سے محظوظ ہوتا اور ہنستا ہے۔ یوں اگر تم اپنے ارد گرد کی چیزوں، روزمرہ کے معمولات کو دیکھو تو تمہیں ہر چیز اعتبار اور بے اعتباری کے رشتوں سے جڑی نظر آئے گی۔ کوئی ایسا رشتہ ایسا تعلق ایسا معمول نہیں جو ان دونوں کیفیات سے ماوراء ہو۔ یہاں تک کہ یہاں محفل میں آنا، کسی کے ساتھ مذاق کر لینا کسی کو سنجیدگی سے مشورہ دینا، کسی سے پوچھنا اور کسی سے سمجھنا؛ سب اعتبار ہی کے وجود ہیں۔ مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب اعتبار کا بے جا استعمال شروع ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کے ساتھ اتنا مذاق کرنا کہ اسکو ناگوار گزرے۔ کسی پر اپنی رائے یوں تھوپنا کہ اسے کوفت ہو۔ یا بلا ضرورت کسی سے توقعات استوار کرنا۔ یہ بات یاد رہے کہ ابھی تک سب کچھ آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔ اب اگر دوسرا آپ کا مذاق نہیں جھیل پایا۔ یا وہ آپکی رائے پر عملدرآمدی سے قاصر ہے۔ اور اختلاف رکھتا ہے۔ یا پھر وہ آپکی توقعات پر پورا اتر نہیں پاتا۔ اس سے آپکے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ اب آپ غمگین۔ قصور آپکا اپنا۔ دوسرے کا کیا دوش۔ اگر مذاق کرنا تھا تو اسکی قائم کردہ حدود میں کرتے۔ رائے تھوپنی تھی تو اس کو اپنے نقطہ نظر سے متفق کراتے۔ دلیل سے نہ کہ بزور شمشیر۔ اور اگر توقعات پر پورا نہیں اتر پایا۔ تو حالات کا درک رکھو۔ کہ ایسا کیا تھا۔ کہ وہ پورا نہیں اتر پایا۔
اب تک تو میں نے کی اعتبار اور بے اعتباری کی تعریف جو کہ سراسر میری کم علمی پر مشتمل ہے۔ کوئی بھی صاحب علم اس سے بہتر ہی لکھ دے گا۔

لیکن اب آتے ہیں تمہارے سوال کی طرف۔ جو کہ اعتبار سے زیادہ دھوکہ کے متعلق ہے۔ زبان کی اہمیت کا نہ ہونا، دہری شخصیت و مزاج رکھنا، برا بھلا وغیرہ وغیرہ
تو یہاں میں یہ واضح کر دوں دھوکہ بناء واقفیت بھی دیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ اوپر کی مثال میں حکیم صاحب کے ساتھ ہوا۔ وہ شائد اس آدمی کو جانتے بھی نہ ہوں اور ازراہِ ہمدردی ہی قربانی کا بکرا بن گئے ہوں۔ اب جن لوگوں پر اعتبار کرتے ہیں۔ اور وہ دھوکہ دیتے ہیں تو یہ واقعی میں حد سے زیادہ تکلیف دہ عمل ہے۔ لیکن اسکا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہر بندے کو شک کی نگاہ سے ہی دیکھا جائے۔ اب اگر کوئی آپکے قریب تھا حد سے زیادہ اور وہ دھوکہ دے گیا۔ تو دھوکہ کھانے کے بعد جب آپ احتسابی نظر سے دیکھیں گے تو آپکو معلوم پڑے گا کہ بے شمار اشارے ایسے ملے اور باتیں ایسی ہوئیں جن سے آپ یہ اخذ کر سکتے تھے کہ یہ آدمی یا دوست آپکو دھوکا دے گا یا دے سکتا ہے۔ مگر اس وقت اندھے اعتماد کی پٹی آنکھوں پر باندھے آپ سود و زیاں سے بےنیاز تھے۔ لیکن دھوکا کھانے میں قصور ہمیشہ آپکا نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ حالات ایسے ہوتے ہیں کہ آپکے پاس اعتماد کے علاوہ راستہ نہیں ہوتا۔ اور آپ دھوکا کھاتے ہیں۔
بسا اوقات انسان اپنوں کی وجہ سے بھی دھوکا کھاتا ہے۔ کہ خود وہ فیصلہ لینے کی حالت میں نہیں ہوتا۔ اور اسے اپنے قریب موجود لوگوں پر ہی اعتبار کرنا پڑتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اپنے صاحب نظر یا جہاں دیدہ نہیں نکلتے اور انکے آپ کے لیئے کیئے گئے فیصلے آپکو راس نہیں آتے۔
اس موضوع پر تو اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر اس الفاظ اور وقت کی قلت کے پیش نظر اسے یہیں ختم کرتا ہوں۔ تمہاری رائے اس بارے میں کیا ہے اس کا انتظار رہے گا۔
زبردست ،،،سیکنڈ پیراگراف سے میں زیادہ ایگری ہوں:)
 

نیلم

محفلین
ہمم اور پہلے سے کیوں کم متفق ہیں۔ :)
پہلے سے بھی متفق ہوں لیکن جہاں آپ نے کہا کہ اعتبار کا بے جا استعمال ،،اعتبار تو اعتبار ہی ہوتاہے یا توہم کسی پہ اعتبار کرتےہیں یا تو نہیں کرتے ان دونوں کے بیچ میں کچھ نہیں ہوتا،،،:)
 
اچھا اگر میں غلط نہیں ہوں تو کوئی یہاں سے کاپی کرکے فیس بک پہ اپلوڈ کرتا ہے۔اور اس فیس بک پیج پہ کوئی حوالہ بھی نہیں دیا جاتا۔ ایک دو دفعہ کہا ہے کہ اگر کہیں سے کاپی کریں تو حوالہ تو دیں پتا چل جائےکہ تحریر کس کی ہے؟ اب یہاں سے پتہ چلا کہ تحریر کس کی ہے؟
 
پہلے سے بھی متفق ہوں لیکن جہاں آپ نے کہا کہ اعتبار کا بے جا استعمال ،،اعتبار تو اعتبار ہی ہوتاہے یا توہم کسی پہ اعتبار کرتےہیں یا تو نہیں کرتے ان دونوں کے بیچ میں کچھ نہیں ہوتا،،،:)
نیلم آپی ایک چیز کی حد ہوتی ہے۔ جسے نیرنگ خیال بھائی نے زیادہ آسان الفاظ میں سمجھایا۔ اگر ہم کسی پہ اعتبار کرتے ہیں تو کچھ چیزوں کے متعلق احتیاط کرتے ہیں۔ اور بے جا اعتبار کرنا ایسا ہی ہے کہ دوسرا شخص 100٪ درست ہے۔ اور کوئی انسان 100٪ درست نہیں ہو سکتا۔
 

نیلم

محفلین
نیلم آپی ایک چیز کی حد ہوتی ہے۔ جسے نیرنگ خیال بھائی نے زیادہ آسان الفاظ میں سمجھایا۔ اگر ہم کسی پہ اعتبار کرتے ہیں تو کچھ چیزوں کے متعلق احتیاط کرتے ہیں۔ اور بے جا اعتبار کرنا ایسا ہی ہے کہ دوسرا شخص 100٪ درست ہے۔ اور کوئی انسان 100٪ درست نہیں ہو سکتا۔
اور میں اعتبار کا مطلب ایسے نہیں لیتی کہ کوئی کتنادرست ہےاور کتناغلط ،،کوئی بھی 100 % درست نہیں ہوتاایگری،،:)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
پہلے سے بھی متفق ہوں لیکن جہاں آپ نے کہا کہ اعتبار کا بے جا استعمال ،،اعتبار تو اعتبار ہی ہوتاہے یا توہم کسی پہ اعتبار کرتےہیں یا تو نہیں کرتے ان دونوں کے بیچ میں کچھ نہیں ہوتا،،،:)
کن باتوں میں الجھتی ہو بالکی۔ ان کے درمیاں میں بھی بہت کچھ ہے۔ اعتبار و بے اعتباری کے درمیان یقین و کشمکش ہے۔ اب میں کیسے سمجھاؤں۔ :) کیوں عینی بٹیا سے ہماری گوشمالی کروانی ہے۔
برین ہیکر بھائی نے وضاحت فرمائی تو ہے۔ :)
 

نیلم

محفلین
ایک آدمی نے کاروبار شروع کیا۔ اس کے پاس مشکل سے چند سو روپے تھے۔ وہ کپڑے کے ٹکڑے خرید کر لاتا اور پھیری کر کے اس کو فروخت کرتا۔ کچھ کام بڑھا تو اس نے ایک دکان والے سے اجازت لے کر اس کی دکان کے سامنے پٹری پر بیٹھنا شروع کر دیا۔

کپڑے کے جس تھوک فروش سے وہ کپڑا خریدتا تھا اس سے اس نے نہایت اصول کا معاملہ کیا۔ دھیرے دھیرے اس تھوک فروش کو اس آدمی کے اوپر اعتبار ہو گیا۔ وہ اس کو ادھار کپڑا دینے لگا۔ جب آدمی ادھار پر کپڑے لاتا تو اس کی کوشش رہتی کہ وعدہ سے کچھ پہلے ہی اس کی ادائیگی کر دے۔
وہ اسی طرح کرتا رہا۔ یہاں تک کہ تھوک فروش کی نظر میں اس کا اعتبار بہت بڑھ گیا۔ اب وہ اس کو اور زیادہ کپڑے ادھار دینے لگا۔ چند سال میں یہ نوبت آگئی کہ تھوک فروش اس کو پچاس ہزار اور ایک لاکھ روپے کا کپڑا بے تکلف دے دیتا۔ وہ اس کو اس طرح مال دینے لگا جیسے وہ اس کے ہاتھ نقد فروخت کر رہا ہو۔

اب آدمی کا کام اتنا بڑھ چکا تھا کہ اس نے ایک دکان لے لی۔ دکان بھی اس نے نہایت اصول کے ساتھ چلائی۔ وہ تیزی سے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے شہر میں کپڑے کے بڑے دکانداروں میں شمار کیا جانے لگا۔
اس دنیا میں سب سے بڑی دولت روپیہ نہیں، بلکہ ’’اعتبار ‘‘ہے۔ اعتبار کی بنیاد پر آپ اسی طرح کوئی چیز لے سکتے ہیں جس طرح نوٹ کی بنیاد پر کوئی شخص بازار سے سامان خریدتا ہے۔ اعتبار ہر چیز کا بدل ہے۔ مگر اعتبار زبانی دعووں سے قائم نہیں ہوتا اور نہ اعتبار ایک دن میں حاصل ہوتا ہے۔ اعتبارقائم ہونے کی صرف ایک ہی بنیاد ہے اور وہ حقیقی عمل ہے۔ خارجی دنیا اس معاملہ میں انتہائی حد تک بے رحم ہے۔ لمبی مدت تک بے داغ عمل پیش کرنے کے بعد ہی وہ وقت آتا ہے کہ لوگ آپ کے اوپر وہ اعتبار قائم کریں جو اعتبار مذکورہ تھوک فروش نے ایک پھیری والے کے اوپر قائم کیا تھا۔ (مصنف: وحید الدین خان)
 

مقدس

لائبریرین
کن باتوں میں الجھتی ہو بالکی۔ ان کے درمیاں میں بھی بہت کچھ ہے۔ اعتبار و بے اعتباری کے درمیان یقین و کشمکش ہے۔ اب میں کیسے سمجھاؤں۔ :) کیوں عینی بٹیا سے ہماری گوشمالی کروانی ہے۔
برین ہیکر بھائی نے وضاحت فرمائی تو ہے۔ :)
نینی بھیا کیا یقین و کشمکش اعتبار اور بےاعتباری کو ہی نہیں کہتے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ایک آدمی نے کاروبار شروع کیا۔ اس کے پاس مشکل سے چند سو روپے تھے۔ وہ کپڑے کے ٹکڑے خرید کر لاتا اور پھیری کر کے اس کو فروخت کرتا۔ کچھ کام بڑھا تو اس نے ایک دکان والے سے اجازت لے کر اس کی دکان کے سامنے پٹری پر بیٹھنا شروع کر دیا۔

کپڑے کے جس تھوک فروش سے وہ کپڑا خریدتا تھا اس سے اس نے نہایت اصول کا معاملہ کیا۔ دھیرے دھیرے اس تھوک فروش کو اس آدمی کے اوپر اعتبار ہو گیا۔ وہ اس کو ادھار کپڑا دینے لگا۔ جب آدمی ادھار پر کپڑے لاتا تو اس کی کوشش رہتی کہ وعدہ سے کچھ پہلے ہی اس کی ادائیگی کر دے۔
وہ اسی طرح کرتا رہا۔ یہاں تک کہ تھوک فروش کی نظر میں اس کا اعتبار بہت بڑھ گیا۔ اب وہ اس کو اور زیادہ کپڑے ادھار دینے لگا۔ چند سال میں یہ نوبت آگئی کہ تھوک فروش اس کو پچاس ہزار اور ایک لاکھ روپے کا کپڑا بے تکلف دے دیتا۔ وہ اس کو اس طرح مال دینے لگا جیسے وہ اس کے ہاتھ نقد فروخت کر رہا ہو۔

اب آدمی کا کام اتنا بڑھ چکا تھا کہ اس نے ایک دکان لے لی۔ دکان بھی اس نے نہایت اصول کے ساتھ چلائی۔ وہ تیزی سے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے شہر میں کپڑے کے بڑے دکانداروں میں شمار کیا جانے لگا۔
اس دنیا میں سب سے بڑی دولت روپیہ نہیں، بلکہ ’’اعتبار ‘‘ہے۔ اعتبار کی بنیاد پر آپ اسی طرح کوئی چیز لے سکتے ہیں جس طرح نوٹ کی بنیاد پر کوئی شخص بازار سے سامان خریدتا ہے۔ اعتبار ہر چیز کا بدل ہے۔ مگر اعتبار زبانی دعووں سے قائم نہیں ہوتا اور نہ اعتبار ایک دن میں حاصل ہوتا ہے۔ اعتبارقائم ہونے کی صرف ایک ہی بنیاد ہے اور وہ حقیقی عمل ہے۔ خارجی دنیا اس معاملہ میں انتہائی حد تک بے رحم ہے۔ لمبی مدت تک بے داغ عمل پیش کرنے کے بعد ہی وہ وقت آتا ہے کہ لوگ آپ کے اوپر وہ اعتبار قائم کریں جو اعتبار مذکورہ تھوک فروش نے ایک پھیری والے کے اوپر قائم کیا تھا۔ (مصنف: وحید الدین خان)
تم ابھی تک اعتبار اور دھوکے کے مفاہیم میں الجھی ہوئی ہو :)
 

نیلم

محفلین

نیرنگ خیال

لائبریرین
کل چھٹی ہے ناں ہماری۔۔ اس لیے جاگ رہی ہوں اور سر میں درد بھی ہو رہا ہے۔۔ اس لیے نیند بھی نہیں آ رہی
سر درد کے لیئے تو چائے کا استعمال کیا جائے۔ اورچھٹی کا کیا مطلب کے اب بندہ انٹرنیٹ پر لٹکا رہے۔ مجھے بھی چھٹی تھی۔ پر میں اپنی روٹین نہیں خراب کرتا۔ دیکھو فجر کے وقت اٹھا بیٹھا ہوں۔ :)
 

مقدس

لائبریرین
سر درد کے لیئے تو چائے کا استعمال کیا جائے۔ اورچھٹی کا کیا مطلب کے اب بندہ انٹرنیٹ پر لٹکا رہے۔ مجھے بھی چھٹی تھی۔ پر میں اپنی روٹین نہیں خراب کرتا۔ دیکھو فجر کے وقت اٹھا بیٹھا ہوں۔ :)
بھیا چائے پی لی تھی ناں۔۔ صبح تو میں نے بھی اٹھ جانا ہے۔ ماما بابا کو ناشتہ جو دینا ہوتا ہے
 
Top