حسان خان
لائبریرین
آستانِ شہِ لولاک پہ ہے سر اپنا
واہ کیا اوج پہ ہے نجمِ مقدر اپنا
قسمت اپنی ہے رسا، بخت ہے یاور اپنا
فخر ہے سارے رسولوں کا پیمبر اپنا
خوفِ عصیاں ہے کسے، دہشتِ محشر کیا ہے
ہے جو محبوبِ خدا شافعِ محشر اپنا
ہیں وہ تصویر کہ ہے الفتِ حضرت روغن
تیغ وہ ہیں کہ ولا شہ کی ہے جوہر اپنا
سامنے چشمِ تصور کے ہے وہ چہرۂ صاف
آئینہ ہم کو دکھائے نہ سکندر اپنا
مے کشو عشقِ مئے الفتِ حضرت ہے بہشت
یہی شیشہ ہے، یہی خُم، یہی ساغر اپنا
عاشقوں کے جو کیے نام قلم نے مرقوم
نام صد شکر کہ لکھا سرِ دفتر اپنا
نام حضرت کا لیا فتح ہوئی جنگِ عدو
یہی جوشن ہے دعا میں، یہی مِغفَر اپنا
دولتِ الفتِ حضرت ہے ہماری دولت
گنجِ زر ہے یہی مانندِ ابوذر اپنا
ٹھہر اے موت کہ حضرت نے بلایا ہے ہمیں
پہنچیں یثرب میں تو وعدہ ہو برابر اپنا
(ق)
شوقِ یثرب ہے یہاں تک کہیں لگتا نہیں جی
ملکِ بیگانہ نظر آتا ہے کشور اپنا
دہنِ مار سے کم روزنِ دیوار نہیں
کاٹے کھاتا ہے شب و روز مجھے گھر اپنا
پیاس کا غم رہِ یثرب میں اٹھایا ہے بہت
خیمہ جنت میں گڑے گا لبِ کوثر اپنا
داغ دل میں ہے جو حضرت کی ولا کا روشن
ہے یہی ماہ، یہی مہرِ منور اپنا
یہ بھی حضرت کی محبت کا تصرف ہے امیر
غرقِ دریا ہوئے دامن نہ ہوا تر اپنا
(امیر مینائی)
واہ کیا اوج پہ ہے نجمِ مقدر اپنا
قسمت اپنی ہے رسا، بخت ہے یاور اپنا
فخر ہے سارے رسولوں کا پیمبر اپنا
خوفِ عصیاں ہے کسے، دہشتِ محشر کیا ہے
ہے جو محبوبِ خدا شافعِ محشر اپنا
ہیں وہ تصویر کہ ہے الفتِ حضرت روغن
تیغ وہ ہیں کہ ولا شہ کی ہے جوہر اپنا
سامنے چشمِ تصور کے ہے وہ چہرۂ صاف
آئینہ ہم کو دکھائے نہ سکندر اپنا
مے کشو عشقِ مئے الفتِ حضرت ہے بہشت
یہی شیشہ ہے، یہی خُم، یہی ساغر اپنا
عاشقوں کے جو کیے نام قلم نے مرقوم
نام صد شکر کہ لکھا سرِ دفتر اپنا
نام حضرت کا لیا فتح ہوئی جنگِ عدو
یہی جوشن ہے دعا میں، یہی مِغفَر اپنا
دولتِ الفتِ حضرت ہے ہماری دولت
گنجِ زر ہے یہی مانندِ ابوذر اپنا
ٹھہر اے موت کہ حضرت نے بلایا ہے ہمیں
پہنچیں یثرب میں تو وعدہ ہو برابر اپنا
(ق)
شوقِ یثرب ہے یہاں تک کہیں لگتا نہیں جی
ملکِ بیگانہ نظر آتا ہے کشور اپنا
دہنِ مار سے کم روزنِ دیوار نہیں
کاٹے کھاتا ہے شب و روز مجھے گھر اپنا
پیاس کا غم رہِ یثرب میں اٹھایا ہے بہت
خیمہ جنت میں گڑے گا لبِ کوثر اپنا
داغ دل میں ہے جو حضرت کی ولا کا روشن
ہے یہی ماہ، یہی مہرِ منور اپنا
یہ بھی حضرت کی محبت کا تصرف ہے امیر
غرقِ دریا ہوئے دامن نہ ہوا تر اپنا
(امیر مینائی)
آخری تدوین: