آسیب زدہ نظم

چاندنی

محفلین
نظم کہتی ہے یہ آ جا کھیلیں ذرا
میں تجھے ڈھونڈ لوں تُو مجھے ڈھونڈنا
آئینوں میں کہیں پتھروں کے تلے
سانولی دھوپ میں
رنگ میں روپ میں
ڈھونڈ دریائوں میں
تپتے صحرائوں میں
ڈھونڈنے سے کہیں نظم ملتی نہیں
ہاں مگر ہے یہیں
نظم کہتی ہے یہ تُو کبھی کچھ تو بول
خالی جیبیں ٹٹول
میں ہوں بازار میں
تاجروں میں گھری ہوں میں
سِکوں میں چھن چھن۔ کی چھنکار میں
میں صدائے اناالحق ہوں منصور ہوں
ڈھونڈںے کو مجھے حوصلہ چاہئے
آ چلیں دار کو
یعنی اس پار کو
نظم پاتال یں
ہجر کی شال میں
چھپ کے بیٹھی نہ ہو
الجھے مصرے کے چالے میں اٹکی نہ ہو
نظم زخمی نہ ہو
دیکھ ہے گل قبا
یہ تو خوشبو سی ہے سو بکھر جائے تو
دسترس میں نہیں اپنے بس میں نہیں
جس طرف جائے گی پھیلتی جائے گی
کھیلتی جائے گی
خاک کے رقص میں
موج ہر عکس میں
دور تک دوڑتی
جھومتی جائے گی
نظم پیروں میں روندا ہوا پھول ہے
میں نے ڈھونڈا بہت
خاک پر چاک میں
خسمِ خاشاک میں
نظم ملتی نہیں
نظم زنداں میں ہے
زنجیر میں سخت پہرے میں ہے
کس اندھیرے میں ہے
جائو دیکھو ذرا
مانیئے نظم میں
روشنی کچھ نہیں، زندگی کچھ نہیں، دوستی کچھ نہیں
نظم رستہ بنے میں پھروں در بہ در
اس نگر اس نگر بس یہاں سے وہاں
گھومتے جھومتے زندگی ڈھونڈتے
زندگی سا ہی کچھ اسکی آنکھوں میں ہے
اسکی آنکھوں میں ہے اپنی آوارگی
اسکی آنکھوں میں ہے مہ کشی، دل کشی
دل کشی، مے کشی، شوقِ وارفتگی
اور زمان و مکاں یہ جہاں وہ جہاں
ہم کہا تم کہاں چھوڑ سب درمیاں
نظم کو ڈھونڈ لیں
کیکٹس پہ رکھا دل بھی اک نظم ہے
نظم آنکھوں سے ٹوٹے ستاروں میں گم
ٹشو پیپر کے ٹکڑے میں لپٹی نہ ہو
نیلگوں آسمانوں کے آنچل تلے
نظم بادل نہ ہو
ایک تصویر میں بہتا کاجل نہ ہو
کچی مہندی کی خوشبو میں بھیگی ہوئی
اوڑھنی نظم ہے
جو کو خود سر ہوا لے اُڑی ہے کہیں
وہ بھی تو نظم ہے
میں تو ملتا ہوں پر نظم ملتی نہیں
نظم تتلی کی مانند دکھتی نہیں
آئو بیٹھیں کہیں
آئو بیٹھیں کہیں
دو گھڑی چار پل
ہم نے پیروں میں باندھے ہیں کیسے سفر
لمس کے شہر میں
رنج میں ڈوب کر
آجا جی لیں ذرا کل کی کس کو خبر
اپنی سادہ سی خواہش یہاں نظم ہے
نظم خوابوں سے آگے سرابوں میں ہے
کن عذابوں میں ہے
دشت میں جو ملے آبلے نظم ہے
سلسلے، راستے، فاصلے نظم ہے
شام ہوتے ہی پنچھی جب گھر لوٹ آئیں گے
یہ بھی تھک ہار کر دیکھ لوٹ آئے گی
نظم مل جائے گی
ایک مدت ہوئی راہیں تکتے ہوئے آنکھ پتھرا گئی
کیا تماشا ہے یہ
شام ہونے کو ہے نظم ملتی نہیں
کھڑکیاں کھول دو سانس آتی نہیں
اس میں نظم ہے
کھڑکیاں کھول دو سانس آتی نہیں حبس میں نظم ہے
چاند میں داغ ہے اور گم سم ہوا
پیڑ خاموش ہیں
جیسے تم۔۔۔۔
اور میں۔۔۔۔۔
نظم مجذوب ہے دل پریشان ہے
آنکھ حیران ہے
سُر ہیں بکھرے ہوئے نظم کہتی ہے یہ
سوز دے، ساز دے، مجھ کو آواز دے
میں تیرا ہی ہنر اور تیرا عیب ہوں
سلسلئہ غیب ہوں
جانتا ہوں یہ میں
نظم مجھ سے ملے گی تو کھو جائے گی
میں بھی آسیب ہوں
سلسلہ غیب ہوں
 
Top