سحرش سحر
محفلین
ٹرین میں بیٹھے ایک شخص نے دوسرے سے کہا: جنات پر یقین رکھتے ہو؟ دوسرے نے جواب دیا: با لکل نہیں ۔
یہ سنتے ہی پہلا شخص غائب ہو گیا ۔
جنات اور آسیب کے بارے میں باتیں..... ان کے کرشمے.... اور ان کی واردات کے بارے میں سن کر ہر کوئی بہت محظوظ ہوتا ہے اور خوفزدہ بھی ۔ بے شک آپ بھی ایسی باتوں سے لطف اٹھاتےہوں گے۔
بچپن میں ہم اپنے بڑوں سے ہمیشہ جنات کی سچی کہانیاں سننے کی فرمائش کرتے تھے ۔ آج بھی بچے بلکہ بڑے بھی، بڑےہی انہماک سے یہ باتیں سننا پسند کرتے ہیں ۔
یہ خاصا ....ہم ایشیائی لوگوں کاہی ہے یا دیگر خطہ ہائے دنیا میں بھی لوگ ایسی باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور دلچسپی لیتے ہیں اور اس بارے میں وہاں کے عام لوگوں (خاص نہیں کیونکہ ہر معاشرہ کا یہ طبقہ انسانوں میں بھی دلچسپی نہیں لیتا ....) کا تاثر کیا ہے یہ تو کوئی امیریکن یا یورپین وغیرہ وغیرہ ہی بتا سکتے ہیں ۔
البتہ یہ حقیقت تو اٹل ہے کہ وہ بھی اسی موضوع میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ اسی موضوع پر ان کی سینما ئیں بھی (کچھ حد تک) آباد تھیں اور ہیں ۔
جنات بھی اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے ۔ قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ انسان سے پہلے اس زمین پر ان کی عملداری تھی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آسیب کیا چیز ہے؟؟؟
آسیب بھی جنات ہی ہوتے ہیں جو انسانوں پر یا انسانی رہائش گاہوں میں اپنا اثر دکھاتے ہیں انھیں گھریلو جن کہا جا سکتا ہے ۔
آسیب سے متاثرہ انسانوں میں اکثریت ان کی ہے جو اپنی محرومیوں کا مداوا کرنے کے لیے خود کو آسیب زدہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ شعبہ کافی خد تک خواتین ہی کا ہے ۔
مگر ہر واقعہ غلط نہیں ہوتا۔ میری ایک رشتہ دار (اللہ مغفرت فرمائے) جب اٹھ یا نو سال کی تھی تو اس کے گھر سے کچھ فاصلے پر کسی کھیت میں ایک انجیر کا درخت تھا ۔ وہ صبح صبح رونا شروع کر دیتی تھی اور اس انجیر کے درخت کے پاس جانے کو مچلتی تھی روتی تھی ۔ اور جب وہ گھر سے نکل جاتی تھی تو گھر والے کہتے ہیں کہ وہ جا کر اس درخت کو کسی چھوٹی موٹی چھڑی سے مارتی جاتی تھی اور روتی جاتی تھی اور پوچھنے پر کہتی تھی کہ اس میں موجود یہ جو شخص ہے یہ مجھے اپنے پاس بلاتا ہے ۔ پھر قریبی گاؤں کے ایک بزرگ کے دم کروانے سے اللہ نے مکمل شفا یاب کیا
ابھی پچھلے ہی سال ایک بچی، گیارہ، بارہ سال عمر... جلد کی بیماری میں مبتلا تھی اور کچھ ڈپریشن کے دورے بھی پڑنے لگے تھے ۔۔ اسلام اباد کے بڑے بڑے ڈاکٹرز سے علاج ہو نے لگامگر کوئی آفاقہ نہیں ہوا ۔
کسی نے اس کے والد کوکسی عالم کے پاس لے جا کر دم کروا نے کا مشورہ دیا پہلے تو وہ نہ مانے ۔ آخر مجبور ہو کر اس عالم صاحب کے پاس اپنی بیٹی کو لے کر چلے گئے ۔ عالم صاحب نے آسیب ہی کا اثر قرار دیا اور اس بچی کو دم کروادیا ۔ بس کیا تھا چند ہی دنوں میں اس کی سکن پرابلم بھی ٹھیک ہو گئ اور دورے بھی ۔
بچی کے گھر والے سبھی حیران تھے ۔ اس کا والد اسے لے کر اسلام اباد گیا ان ڈاکٹروں کے پاس کہ وہ بھی یہ کرشمہ دیکھ لے ۔ ڈاکٹرز بھی حیران و پریشان کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
کافی عرصہ پہلے ایک نوجوان بھی آسیب زدہ ہو گیا تھا ۔ اس کی بھی انکھیں لال ہو جاتی تھیں اور کسی کے قابو میں نہ آتا تھا ۔ اس کے گھروالوں کے ہاتھوں گھر سے کچھ فاصلے پر موجود درخت (جس سے اس پر اثر ہوا تھا) کاٹنے اور ایک بزرگ کے دم کروانے سے اثرات زائل ہو گئے ۔
واقعی کسی بھی رہائش گاہ میں بھی جنات کا اثر ہو سکتا ہے ۔ اسلئے تو حدیث میں ہے کہ جب بھی کسی خالی مکان میں داخل ہونے لگو تو با آواز بلند پہلے سلام کرنا کہ "السلام علیکم یا اہل بیت "اور پھر کہہ دینا " اب ہم آ گئے ہیں لہذا آپ چلے جائیں "
ہمارےکالج کے ارد گرد کچھ زرعی زمین ہے اور چند ہی مکان ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے میں اپنے کالج کے سٹاف روم میں بیٹھی تھی جس کے پیچھے ایک چھوٹا سا خا لی مکان بھی تھا ۔سٹاف روم اور اس مکان کے ما بین ایک کھڑکی بھی تھی وہ بند تھی اور دونوں اطراف سے پردے بھی لگے ہوئے تھے ۔ میں اسا ئمنٹ چیکنگ میں مصروف تھی ۔ سردی کا موسم تھا سب کلاس روم اورآفٍسس کے دروازے بند تھے ۔ اتفاق سےاکیلی بیٹھی تھی کہ کہیں سے کسی کی سسکیوں کی آوازیں آئیں ۔ میں نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا تو کو ئی نہیں تھا ۔ میں پھر سے اپنے کام میں مگن ہو گئی ۔
پھر سسکیاں....اب کہ میں اپنی سیٹ سے اٹھی اور باہر جھانکا کہ شاید کوئی طالبہ رو رہی ہو اس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو مگر.....کوئی نہیں ....پھر میں اٹیچ واش روم کی طرف آہستہ آہستہ چل کر گئ ۔ دروازہ کھٹکھٹایا پھر میں نے آہستہ آہستہ اسے
کھولا تو اس کے اندر ایک بد صورت چڑیل شکل کی ........ کوئی نظر نہ آیا ۔ اگر یہ کوئی ڈرامہ یا فلم ہوتی تو کسی زمبی یا چڑیل نے مجھے دبوچ لینا تھا ۔
ایسے کئی واقعات میرے ساتھ گھر میں بھی ہوئے ہیں مگر الحمد للہ! میں ڈرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔ سب گھر کے بچوں کے خیال میں ان کی دبلی پتلی پھپھو خالہ بہادری کی مثال ہے ۔
اس قسم کے دلچسپ واقعات دینی مدرسوں میں بھی وقوع پزیر ہوتےرہتے ہیں ۔
ایک معروف مدرسے میں رات کو مدرسہ ہی کے بستر پر لیٹے ہوئےطالب علم نے کسی شے کو اٹھا نے کیلیے انجانے میں اپنا تین چار گز ہاتھ بستر سے باہر نکال کر، اپنا جن ہونے کا راز فاش کر دیا اور پھر اس کو کسی نے نہیں دیکھا ۔
ایسے ہی ایک بہت ہی ممعروف عالم صاحب کا ایک شاگرد علم مکمل کر کے سند فراغت کے حصول کے کچھ ہی عرصہ بعد کمرہ کے روشن دان میں سے اڑ گیا تھا ۔
نیو انٹر نیشنل ائیر پورٹ اسلام آباد کے واقعات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ اخبارات نے اس پر بہت کچھ لکھا ۔ (البتہ سچائی کا ثبوت ائیر پورٹ والے ہی دے سکتے ہیں ۔ )
لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ جتنی انسانی ابادی بڑھتی جا رہی ہے اتنی ہی گنجان علاقوں میں جنات کی عملداری بھی کم ہو تی جا رہی ہے ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام سے پہلے یا بعد میں کبھی بھی کسی کے قابو میں نہین آئے ہیں ۔ ورنہ آج جنات کو قابو کرنے کا دعوی کرنے والے بڑے بڑے عامل کیا سے کیا ہو چکے ہوتے ۔ ہر بینک خالی ہوتا ۔ سارے راز فاش ہوتے ۔ بڑے بڑے قیدی آزاد پھرتے اور .......
جنات موجود ہیں وہ انسانوں کو شر بھی پہنچا سکتے ہیں ۔ اس لیے رب العزت نےآسیب کے شر سے بچاو کے لیے مخصوص آیات قرآنی کے ورد، وظائف اور کچھ مخصوص دعاؤں کی بھی نشاندہی کی ہے ۔ خاص طور پر واش روم جاتے وقت ایک مخصوص دعا پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ جس کا ترجمہ ہے:
""یا اللہ! میں پناہ مانگتا /مانگتی ہوں خبیث جنُّوں کے اثرات سے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ""
لمحہ فکریہ ہے کہ بیت الخلا (واش روم) بھی کمروں کے اندر ہی بن گئے ہیں اور دعا بھی کوئی نہیں پڑھتا ۔ اسلئے تو گھر وں سے سکون ختم ہو گیا ہے ۔ ہر مکان و گھر شیطان کا ڈیرا ہے ۔ محبتیں ختم ہو گئی ہیں ۔ نفرتیں بڑھ گئی ہیں ۔
اگر گھر میں بھی آسیب کے اثرات ہوں تو تین دن تک روزانہ ایک دفعہ سورہ بقرہ پڑھنے سے بھی آسیب کا اثر زائل ہو جاتا ہے ۔
اس کے علاوہ روزانہ منزِل(کچھ مخصوص قرآنی آیات کے مجموعہ کا نام) پڑھنے کی بھی ہدایت ہے ۔ یہ مجموعہ ہائے آیات، اللہ کی مدد سےآسیب اور جادو کے اثرات سے نہ صرف پڑھنے والے کو بچاتا ہے بلکہ آسیب زدہ پر تین مرتبہ پڑھ کر دم کرنے سے بھی اسے افاقہ ہوتا ہے ۔
اس بارے میں آپ کا مشاہدہ اور تجربہ کیا کہتا ہے؟ ؟؟؟
(معذرت....! تحریر نے طوالت پکڑ لی ہے ۔ شاید قارئین کرام پر گراں گزرے ۔)
سحرش سحر
یہ سنتے ہی پہلا شخص غائب ہو گیا ۔
جنات اور آسیب کے بارے میں باتیں..... ان کے کرشمے.... اور ان کی واردات کے بارے میں سن کر ہر کوئی بہت محظوظ ہوتا ہے اور خوفزدہ بھی ۔ بے شک آپ بھی ایسی باتوں سے لطف اٹھاتےہوں گے۔
بچپن میں ہم اپنے بڑوں سے ہمیشہ جنات کی سچی کہانیاں سننے کی فرمائش کرتے تھے ۔ آج بھی بچے بلکہ بڑے بھی، بڑےہی انہماک سے یہ باتیں سننا پسند کرتے ہیں ۔
یہ خاصا ....ہم ایشیائی لوگوں کاہی ہے یا دیگر خطہ ہائے دنیا میں بھی لوگ ایسی باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور دلچسپی لیتے ہیں اور اس بارے میں وہاں کے عام لوگوں (خاص نہیں کیونکہ ہر معاشرہ کا یہ طبقہ انسانوں میں بھی دلچسپی نہیں لیتا ....) کا تاثر کیا ہے یہ تو کوئی امیریکن یا یورپین وغیرہ وغیرہ ہی بتا سکتے ہیں ۔
البتہ یہ حقیقت تو اٹل ہے کہ وہ بھی اسی موضوع میں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ اسی موضوع پر ان کی سینما ئیں بھی (کچھ حد تک) آباد تھیں اور ہیں ۔
جنات بھی اللہ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے ۔ قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ انسان سے پہلے اس زمین پر ان کی عملداری تھی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آسیب کیا چیز ہے؟؟؟
آسیب بھی جنات ہی ہوتے ہیں جو انسانوں پر یا انسانی رہائش گاہوں میں اپنا اثر دکھاتے ہیں انھیں گھریلو جن کہا جا سکتا ہے ۔
آسیب سے متاثرہ انسانوں میں اکثریت ان کی ہے جو اپنی محرومیوں کا مداوا کرنے کے لیے خود کو آسیب زدہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ شعبہ کافی خد تک خواتین ہی کا ہے ۔
مگر ہر واقعہ غلط نہیں ہوتا۔ میری ایک رشتہ دار (اللہ مغفرت فرمائے) جب اٹھ یا نو سال کی تھی تو اس کے گھر سے کچھ فاصلے پر کسی کھیت میں ایک انجیر کا درخت تھا ۔ وہ صبح صبح رونا شروع کر دیتی تھی اور اس انجیر کے درخت کے پاس جانے کو مچلتی تھی روتی تھی ۔ اور جب وہ گھر سے نکل جاتی تھی تو گھر والے کہتے ہیں کہ وہ جا کر اس درخت کو کسی چھوٹی موٹی چھڑی سے مارتی جاتی تھی اور روتی جاتی تھی اور پوچھنے پر کہتی تھی کہ اس میں موجود یہ جو شخص ہے یہ مجھے اپنے پاس بلاتا ہے ۔ پھر قریبی گاؤں کے ایک بزرگ کے دم کروانے سے اللہ نے مکمل شفا یاب کیا
ابھی پچھلے ہی سال ایک بچی، گیارہ، بارہ سال عمر... جلد کی بیماری میں مبتلا تھی اور کچھ ڈپریشن کے دورے بھی پڑنے لگے تھے ۔۔ اسلام اباد کے بڑے بڑے ڈاکٹرز سے علاج ہو نے لگامگر کوئی آفاقہ نہیں ہوا ۔
کسی نے اس کے والد کوکسی عالم کے پاس لے جا کر دم کروا نے کا مشورہ دیا پہلے تو وہ نہ مانے ۔ آخر مجبور ہو کر اس عالم صاحب کے پاس اپنی بیٹی کو لے کر چلے گئے ۔ عالم صاحب نے آسیب ہی کا اثر قرار دیا اور اس بچی کو دم کروادیا ۔ بس کیا تھا چند ہی دنوں میں اس کی سکن پرابلم بھی ٹھیک ہو گئ اور دورے بھی ۔
بچی کے گھر والے سبھی حیران تھے ۔ اس کا والد اسے لے کر اسلام اباد گیا ان ڈاکٹروں کے پاس کہ وہ بھی یہ کرشمہ دیکھ لے ۔ ڈاکٹرز بھی حیران و پریشان کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
کافی عرصہ پہلے ایک نوجوان بھی آسیب زدہ ہو گیا تھا ۔ اس کی بھی انکھیں لال ہو جاتی تھیں اور کسی کے قابو میں نہ آتا تھا ۔ اس کے گھروالوں کے ہاتھوں گھر سے کچھ فاصلے پر موجود درخت (جس سے اس پر اثر ہوا تھا) کاٹنے اور ایک بزرگ کے دم کروانے سے اثرات زائل ہو گئے ۔
واقعی کسی بھی رہائش گاہ میں بھی جنات کا اثر ہو سکتا ہے ۔ اسلئے تو حدیث میں ہے کہ جب بھی کسی خالی مکان میں داخل ہونے لگو تو با آواز بلند پہلے سلام کرنا کہ "السلام علیکم یا اہل بیت "اور پھر کہہ دینا " اب ہم آ گئے ہیں لہذا آپ چلے جائیں "
ہمارےکالج کے ارد گرد کچھ زرعی زمین ہے اور چند ہی مکان ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے میں اپنے کالج کے سٹاف روم میں بیٹھی تھی جس کے پیچھے ایک چھوٹا سا خا لی مکان بھی تھا ۔سٹاف روم اور اس مکان کے ما بین ایک کھڑکی بھی تھی وہ بند تھی اور دونوں اطراف سے پردے بھی لگے ہوئے تھے ۔ میں اسا ئمنٹ چیکنگ میں مصروف تھی ۔ سردی کا موسم تھا سب کلاس روم اورآفٍسس کے دروازے بند تھے ۔ اتفاق سےاکیلی بیٹھی تھی کہ کہیں سے کسی کی سسکیوں کی آوازیں آئیں ۔ میں نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا تو کو ئی نہیں تھا ۔ میں پھر سے اپنے کام میں مگن ہو گئی ۔
پھر سسکیاں....اب کہ میں اپنی سیٹ سے اٹھی اور باہر جھانکا کہ شاید کوئی طالبہ رو رہی ہو اس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو مگر.....کوئی نہیں ....پھر میں اٹیچ واش روم کی طرف آہستہ آہستہ چل کر گئ ۔ دروازہ کھٹکھٹایا پھر میں نے آہستہ آہستہ اسے
کھولا تو اس کے اندر ایک بد صورت چڑیل شکل کی ........ کوئی نظر نہ آیا ۔ اگر یہ کوئی ڈرامہ یا فلم ہوتی تو کسی زمبی یا چڑیل نے مجھے دبوچ لینا تھا ۔
ایسے کئی واقعات میرے ساتھ گھر میں بھی ہوئے ہیں مگر الحمد للہ! میں ڈرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔ سب گھر کے بچوں کے خیال میں ان کی دبلی پتلی پھپھو خالہ بہادری کی مثال ہے ۔
اس قسم کے دلچسپ واقعات دینی مدرسوں میں بھی وقوع پزیر ہوتےرہتے ہیں ۔
ایک معروف مدرسے میں رات کو مدرسہ ہی کے بستر پر لیٹے ہوئےطالب علم نے کسی شے کو اٹھا نے کیلیے انجانے میں اپنا تین چار گز ہاتھ بستر سے باہر نکال کر، اپنا جن ہونے کا راز فاش کر دیا اور پھر اس کو کسی نے نہیں دیکھا ۔
ایسے ہی ایک بہت ہی ممعروف عالم صاحب کا ایک شاگرد علم مکمل کر کے سند فراغت کے حصول کے کچھ ہی عرصہ بعد کمرہ کے روشن دان میں سے اڑ گیا تھا ۔
نیو انٹر نیشنل ائیر پورٹ اسلام آباد کے واقعات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ اخبارات نے اس پر بہت کچھ لکھا ۔ (البتہ سچائی کا ثبوت ائیر پورٹ والے ہی دے سکتے ہیں ۔ )
لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ جتنی انسانی ابادی بڑھتی جا رہی ہے اتنی ہی گنجان علاقوں میں جنات کی عملداری بھی کم ہو تی جا رہی ہے ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام سے پہلے یا بعد میں کبھی بھی کسی کے قابو میں نہین آئے ہیں ۔ ورنہ آج جنات کو قابو کرنے کا دعوی کرنے والے بڑے بڑے عامل کیا سے کیا ہو چکے ہوتے ۔ ہر بینک خالی ہوتا ۔ سارے راز فاش ہوتے ۔ بڑے بڑے قیدی آزاد پھرتے اور .......
جنات موجود ہیں وہ انسانوں کو شر بھی پہنچا سکتے ہیں ۔ اس لیے رب العزت نےآسیب کے شر سے بچاو کے لیے مخصوص آیات قرآنی کے ورد، وظائف اور کچھ مخصوص دعاؤں کی بھی نشاندہی کی ہے ۔ خاص طور پر واش روم جاتے وقت ایک مخصوص دعا پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ جس کا ترجمہ ہے:
""یا اللہ! میں پناہ مانگتا /مانگتی ہوں خبیث جنُّوں کے اثرات سے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ""
لمحہ فکریہ ہے کہ بیت الخلا (واش روم) بھی کمروں کے اندر ہی بن گئے ہیں اور دعا بھی کوئی نہیں پڑھتا ۔ اسلئے تو گھر وں سے سکون ختم ہو گیا ہے ۔ ہر مکان و گھر شیطان کا ڈیرا ہے ۔ محبتیں ختم ہو گئی ہیں ۔ نفرتیں بڑھ گئی ہیں ۔
اگر گھر میں بھی آسیب کے اثرات ہوں تو تین دن تک روزانہ ایک دفعہ سورہ بقرہ پڑھنے سے بھی آسیب کا اثر زائل ہو جاتا ہے ۔
اس کے علاوہ روزانہ منزِل(کچھ مخصوص قرآنی آیات کے مجموعہ کا نام) پڑھنے کی بھی ہدایت ہے ۔ یہ مجموعہ ہائے آیات، اللہ کی مدد سےآسیب اور جادو کے اثرات سے نہ صرف پڑھنے والے کو بچاتا ہے بلکہ آسیب زدہ پر تین مرتبہ پڑھ کر دم کرنے سے بھی اسے افاقہ ہوتا ہے ۔
اس بارے میں آپ کا مشاہدہ اور تجربہ کیا کہتا ہے؟ ؟؟؟
(معذرت....! تحریر نے طوالت پکڑ لی ہے ۔ شاید قارئین کرام پر گراں گزرے ۔)
سحرش سحر