ماوراء
محفلین
آشیانہ
خواجہ احمد عباس
آشيانہ مہندي آخر آدمي تھا، جو رات آشيانہ ميں لوٹا، رندھير اس رات کو گھر نہيں آيا تھا، وہ اکثر رات کو گھر نہيں آتا تھا، مہندر نے اندھيرے ميں ٹٹول کر بجلي کا بٹن دبايا ليکن روشني نہيں ہوئي شايد آج پھر فيوز اڑگيا تھا، آشيانہ ميں اندھيرا تھا مہندر نے کسي کو آواز دي اسے معلوم تھا کہ باقي سب چھت پر سوئے ہوں گے، درميان کے دروازے سے گزر کر وہ اندر کمرے ميں چلاگيا، جہاں گلي کے ليمپ پوسٹ کي روشني آتي تھي، آشيانہ بلڈنگ کا يہ فليٹ ايک کمرے اور کچن پر مشتمل تھا اور اس ميں پانچ نوجوان رہتے تھے مہندر جس وقت بھي مکان کے اندر آتا تھا يہاں کي بے ترتيبي اور سامان کي بھيڑ کو ديکھ کر اسے جگہ کي قلت کي ايک گھٹا ہوا احساس ہوتا تھا چھ مہينے يہاں رہنے کے باوجود يہ احساس زائل نہ ہوا تھا وہ اس کا عادي نہ ہوا تھا۔
گلي سي آتي ہوئي ليمپ پوسٹ کي روشني ميں وہ کپڑے بدلنے لگا کمرے ميں ايک ہلکي سي روشني تھي جس سے سامان کي زيادتي کا احساس ہوتا تھا کواڑوں پر کھوٹيوں پر زمين پر پڑے ہوئے ميلے کپڑے بے ترتيبي سے بکھرا ہوا سامان جوتے، کتابيں، ٹرنگ، سب اس طرح پھيلے ہوئے تھےجيسے کسي کو ان کي پروہ نہ تھي ايک عجيب سي بے پروائي اس فليٹ کے رہنے والوں پر چھائي ہوئي تھي، جسے مہندراب آہستہ آہستہ سمجھنے لگا تھا، اس فليٹ کے رہنے والے پانچوں نوجوان اپني زندگي کي بہتري کيلئے ايک بھيانک کشمکش ميں مبتلا تھے اپنے گھروں کو چھوڑ کر بمبئي آئے تھے، اس چھوٹے سے مکان ميں رہتے تھے جو صرف ايک جوڑے کيلئے بنايا گيا تھا، پے در پے ناکاميوں نے انہيں بے پرواہ بناديا تھا انہيں ذمہ داري سے نفرت ہوگئي تھي سليقے سے نفرت ہوگئي تھي انہيں اب نہ صفائي کي چاہ رہي تھي نہ ترتيب کي، مہندران لوگوں ميں ابھي نيا تھا اور اس ماحول ميں ايک گھٹن سي محسوس کرتا تھا وہ اديب تھا اور فلم ميں نوکري کرنے آيا تھا، ليکن پچھلے چھ مہينے کي کوشش کرنے کے باوجود کسي پروڈيوسر نے اسے موقع نہ ديا تھا، آج وہ خوش تھا آج ايک دوست نے اسے وعدہ کيا تھا کہ وہ اسکے لئيے کچھ کرے گا، اور آج اسے ايک لڑکي ملي تھي، کپڑے بدل کر اس نے سوچا کہ اب جاکر اوپر چھت پر سو رہے ہيں، ليکن اس وقت وہ اکيلا رہنا چاہتا تھا، اکيلا رہ کر سوچنا چاہتا تھا، مستقبل کے بے پاياں اندھيرے ميں جو ايک چراغ کي لو اٹھي تھي اس سے محفوظ ہونا چاہتا تھا، بستر کو جھاڑ کر اس نے کھڑکي کے سامنے کھينچا اور ليٹ گيا، باہر ناريل کے اونچے اونچے درخت ہوا ميں بل رہے تھے، اور ان کے عقب ميں آسمان پر ايک ہلکي سي سفيدي پھيلي ہوئي تھي، ناريل کے درختوں کو ديکھ کر اسے خوبصورتي کا احساس ہوا آج اسے کئي ملي تھي۔
شام وہ اداس تھا آشيانے کے دوست باہر گئے ہوئے تھے، وہ اکيلا تھا، تنہائي ميں اکثر اس کے دل ميں اداسي کا بے ذائقہ تيزاب پھيل جاتا تھا، زندگي کي ناکامراني ايک مغموم دھند بن کر چھا چکتي تھي، اس وقت وہ اکثر سمندر کے کنارے ٹہلنے چلا جاتا تھا، ليکن جب اداس ہو نہ ہو تو سمندر کي بے چين لہريں خوبصورت ہوتي ہيں، نہ شفق کے زريں حسن ميں، وہ جاں بخش تازگي اور سمندري افق پر چھايا ہوا دھند لگا، اسے ايک بے پناہ ويست ميں لپيٹ ديتا، اسے محسوس ہوتا کہ تمام کائنات ماتم ميں ہے، يہ انسان کي دنيا دکھي ہے، اور رگ وپے ميں کرب و اضطراب کي ايک دير پا لہر دوڑ جاتي ، زندگي سے مايوس ہو جاتي۔
شام وہ بہت اداس تھا، يہ کيوں ہوتا ہے کہ انسان ناکاميوں سے ٹکرا کر جان دے ديتا ہے، يہ کيوں ہوتا ہے کہ انہيں زندگي ميں کبھي خوشي نہيں ملتي اور مسرت کي ايک نوکرز کرن ديکھنے سے پہلے موت کے بيکراں اندھيرے ميں ڈوب جاتے ہيں؟ يہ زندگي موت سے بد تر ہے نہ روپيہ پاس نہ عورت ہے نہ محبت ہے، نہ خوشي ہے، سمندر کا يہ حسن بيکار ہے، لہروں کا مسلسل شور بے معني ہے، شفق کي سرخي بيسود ہے اس تہذيب کي دنيا ميں روپيہ چاہئيے، روپے کے بغير خوبصورتي متاثر نہيں ہوتي، حسن اثر نہيں کرتا، يہ چيزيں تمہارے لئے نہيں ہيں، نادار ہو کر تم دنيا کے دکھ کي طرف سے آنکھيں بند نہيں کرسکتے، تما انسانيت کا دکھ تمہارے سينے ميں سمٹ آتا ہے، آج وہ بہت اداس تھا اور سوچتا رہا اور اندھيرے کے زرات فضا ميں بھرتے گئے ناريل کے درختوں پر تاريکي چھاتي گئي، اور کمرہ ايک اداس بے مصروف سنسان اندھيرے ميں معمور ہوتا گيا۔
اچانک اس نے ايک آواز سني، کھنہ اسے نيچے گلي ميں بلا رہا تھا، مہندر نے جھانک کر بالکني سے ديکھا، کھنہ کے ساتھ کار ميں دو خوبصورت لڑکيا بيٹھي تھيں، لڑکيوں نے شوخ رنگ کے فراک پہنے ہوئے تھے کھنہ اوپر گيا تھا، اس نے مہندر کو ساتھ چلنے کي دعوت دي۔
وہ يونہي سير کو جا رہے تھے، يہ لڑکياں جو ہور پر ملي تھيں ايک بار مسکرائيں دوسري بار کہنے پر کار ميں آ بيٹھيں ، کھنہ اکيلا تھا لڑکياں دو تھيں، دو مہندر کا ساتھ چاہتا تھا، مہند ان کے ساتھ چلا گيا اور آج شام کتني خوبصورتي سے گزري وہ اداسي نہ جانے کہاں غائب ہو گئي، ايک عورت کے قرب نے دل کي پرمردہ کيفيت کو دور کرديا تھا، ريشمي کپڑوں کے نيچے اس اس کے جسم کا لمس تھا، اس کے جسم کي حرارت تھي، ملائيمت تھي کچھ تھا، جس نے اس کي رگوں ميں زندگي مضطراب لہر دوڑا دي تھي، پچھلي سيٹ پر اس کے ساتھ تہنا تھا اور کار باندرہ کے پل پر اڑ رہي تھي سمندر کا نيلا پاني، آسمان کي طرح نيلا تھا، دور ايک کشتي اپنے سفيد بادبان پھيلائے جا رہي تھي ہوا اس پريتي کے بار آر رہے تھے، ساحل پر ناريل کے درخت کھڑے دور سے نظر آرہے تھے جيسے ابھي اپنے بچپن ميں ہوں، اور کار باندرہ کے پل پر بھاگي جا رہي تھي، پريتي نے آہستہ سے جھک اس کے کان ميں کہا، آئي لو يو، مجھے تم سے عشق ہے ، مہندر نے اپنا بازو اسکي کمر کے گرد ڈال ديا، اور پريتي اسکے قريب سمٹ آئي مجھے تم سے عشق ہے، تمہارے اس جسم نے عشق ہے جس کي حرارت ميري روح ميں جذب ہو رہي ہے، تمہارے اس فقرے سے جسے کہہ کر تم نے ميرے سينے ميں سوئي ہوئي اس شدت کو جگاديا اور پريتي کے کمر کے گرد اس کا بازو کا حلقہ تنگ ہوگيا، وہ پريتي پر جھکا اس کے سرخ ہونتوں کو چوم لينے کيلئے پريتي مسکرائي اور اس نے اپنا چہرہ ہٹاليا، کار ساحل پر رک گئي، وہ کار سے اتر کر ساحل پر ٹہلنے چلے گئے، آج ساحل پر بھيڑ نہ تھي، سمندر کے وسيع کنارے پر صرف چند آدمي نظر آرہے تھے، وہ ساحل پر ٹہلتے رہے، سورج غروب ہو چکا تھا، سمندري افق پر ايک ہلکي سي سرخي کا سايہ باقي تھا اور سمندر کي بسيط پر نھني نھني کشتياں اپنے بادباں پھيلائے بہہ رہي تھي، پريتي باتيں کر رہي تھي، وہ باتيں کرتے رہے بے معني باتيں مہندر کو برا لگا جب پريتي نے کہا يہاں سمندر کے کنارے سير کرنے ميں لطف نہيں۔
وہ کار ميں بيٹھ کر سير کرنا چاہتي تھي، وہ واپس کار ميں آ بيٹھے، گھر سے چلتے ہوئے کھنہ نے پيڑول ڈلوايا تھا، رات ميں وہ کار ميں بيٹھے سمندر کے کانرے کنارے بمبي کي سڑکوں پر گھومتے رہے، مہندر خواہش کي آگ ميں تپتا رہا اور پريتي نے اسے ہونٹوں کو چومنے کا موقع نہيں ديا، انہوں نے کيفے ميں جاکر کھانا کھايا، پريتي اب جانا چاہتي تھي اس نے کہا ہميں چھوڑ دو جہاں سے ليا تھا، کھنہ نے انہيں جو ہو پر اتار ديا، پريتي نے اگلے دن ملنےکا وعدہ کيا اور کار سے اتر پھر مہندر کے کام ميں کہا، آئي لويو اوعر مسکراتي ہوئي چلي گئي۔
گھر آتے ہوئےکھنہ اور مہندر بحث کرتے رہے، يہ لڑکياں کون تھيں کس طبقے سے تعلق رکھتي تھيں، بہت پڑھي لکھي نہ تھيں، انگريزي کے انہيں چند فقرے ياد تھے، ہندستاني ٹھيک سے بولتي نہ تھيں، ان کي زبان گجراتي تھي، اپني زبان سے آگے انہيں کچھ بھي تو نہيں مانگا، پھر کچھ بھي ہو وہ خوبصورت تھيں، ايک شام ان کے ساتھ رہي تھيں، اور شام کا نشہ اب تک ان کے ذہن پر طاري تھا، اگر وہ طوافيں ہي ہوئيں، مہندر نے بستر پر ليٹتے ہوئے سوچا کہ تو کم از کم اس کے متعلق تو انہوں نے ضرور دھوکا کھايا، وہ کھنہ کي کار پر ريجھ گئيں، ليکن اگر وہ اوپر جاتيں يہاں آکر اس مکان کو ديکھ ليتيں تو پريتي کے ہونٹوں سے آئي لو يو نہ انہوں نے ضرور دھوکا کھايا، وہ کھنہ کي کار پر ريجھ گئيں ليکن اگر وہ اوپر جاتيں يہاں آکر اس مکان کو ديکھ ليتيں تو پريتي کے ہونٹو سے آئي لو يو نہيں نکلتا، اگر وہ طوائفيں نہ ہوتين تب بھي اس مکان کو ديکھ کر بات کرنا گوارہ نہ کرتيں، مہندر نے دوہرايا، ايک انسان جو نظروں ميں اٹھا ديتي ہے، ايک کار نہ ہو تو انسان انسان نہيں رہتا، ايک کلرک ايک مزدور ايک سپاہي رہ جاتا ہے، پريتي نے سوچا ہوگا کار کے مالک کھنہ کا دوسر مفلس نہ ہوگا، اسے کيا معلوم کہ آشيانے کا ہر فرد اپنا سرمايہ ختم کر چکا ہے، اچھا ہوا وہ آشيانے ميں نہيں آئي، ورنہ اس کا ہاتھ پريتي کے کمرے کے گرد نہ جاسکتا۔
چھ مہينے پہلے مہندر بمبئي ميں وارد ہوا تھا تو اسے خواب ميں بھي يہ خيال نہ تھا کہ رنديرے کي آشيانہ بلڈنگ مقابل ماہم پوسٹ آفس ميں يہ حالت ہوگي، يہاں آکر ديکھا کہ آشيانہ بلڈنگ ميں اس کے پاس ايک کمرہ اور ايک کچن پر مشتمل ايک فليٹ ہے جس ميں پہلے ہي پانچ آدمي رہتے ہيں، وہ چھٹا آدمي تھا جو آشيانے ميں رہنے کيلئے آيا۔
آشيانہ ماہم ميں واقع ہے، ماہم شہر ميں بد نام علاقہ ہے، لوگ کہتے ہيں ماہم کے ہر مکان ميں ايک طوائف ضرور رہتي ہے، ان مکانوں ميں زيادہ تر عيسائيوں کي آبادي ہے، شروع شروع ميں مکانوں کي بالکوني سے لٹکتي ہوئي ہر عورت کي سانولي کالي يا بد صورت شکل ديکھ کر مہندر کو اس پر طوائف ہونے کا شبہ ہوتا، بمبئي آکر اسے محسوس ہوا تھا جيسے وہ طوائفوں کے شہر ميں آگيا ہے اپنے اس احساس اسے جواز نہ ملتا تھا، وہ خوش تھا، کہ بمبئي نسبتا آزاد خيال شہر ہے، يہاں عورتون کو گھرون کي چار ديواري ميں گھوٹ گھوٹ کر نہيں رکھا جاتا، يہاں عورتیں بھي سمندر کے کنارے سير کرنے جاتي ہيں، يہاں عورتیں بسوں ميں ٹراموں ميں، ريلوں ميں سفر کتي ہيں، ليکن اکثر کسي عورت کو ديکھ کر احساس ہوتا ہے کہ يہ طوائف ہے، طوائف کي اس کثير تعداد کو ديکھ کراسے خيال آتا ہے کہ انسان جتنا زيادہ مہذب ہوتا جاتا ہے، طوائفيں بڑھتي جاتي ہيں، اور يونہي بڑھتي جائيں گي اگر عورت کو مرد اور مرد کو سرمايہ دار کے چنگل سے آزاد نہ کيا گيا۔
آشيانہ بلڈنگ کے ايک عرصے تک مہندر کيلئے ايک طلسم رہي تھي، کچھ ملوم ہي نہيں ہوتا تھا کہ اس عمارت ميں رہنے والے کيسے رہتے۔
ہيں کيا کرتے ہيں، فرشي منزل پر بائين طرف ايک گجراتي رہتا ہے، خاموش بعيد، مہندر نے آج تک کسي سے بات کرتے نہيں سنا بمبئي کے آدمي، وہ سوچا کرتا ہے ايک مخصوص تاجرانہ ذہينت کے مالک ہيں وہ انساني دوستي پر اععقاد نہيں رکھتے، يہاں دو آدميوں کے درميان انسانيت کا رشتہ نہيں، رو پہلي تاروں کا رشتہ ہے ، انسان کے جذبات بھي جنس بن گئے ہيں ہر شخص اپني دھن ميں مست ہے ہر شخص کو اپني پڑي ہے ريلوں ميں، بسو ميں، ٹرامو ميں، گاڑيوں، ميں ہر جگہ لوگ اپنے مطلب سے چلے جارہے ہيں، فرشي منزل پر يہ گجراتي اپني بيوي اور ايک بچے کے ساتھ رہتا ہے، چند مرتبہ اس نے گجراتي کي بيوي کو کھڑکي کي سلاخوں سے لگے ديکھا ہے اس کا چہرہ زرد ہے، چہرے پر ايک عجيب بے رونقي چھائي رہتي ہے جيسے اس کي رگوں ميں خون کے بجائے تيل بھرا ہوا ہو، شام ہوئے وہ ٹائيلٹ کرتي ہے، نہاتي ہے، شام سے پہلے اس نے گجراتي کي بيوي کو بھي ٹائلٹ کئے ہوئے نہيں ديکھا، دو دن ميں جب بھي نظر آئي ايسا معلوم ہوتا جيسے ابھي سو کر اٹھي ہے، عمارت ميں کسي اور سے گفتگو کرتے ہوئے بھي مہندر نے اسے کبھي نہيں ديکھا، اکثر اندھيرا ہونےکے بعد اوپر بالکني ميں کھڑا مہندر ديکھتا ہے کوئي کار کبھي وہ ٹيکسي ہوتي، ذاتي کار گلي کےموڑ پر رکتي ہے، گجراتي اس ميں سے اتر کر گھر آتا ہے، پھر چند منٹ بعد بيوي کار ميں آبيٹھي ہے کار چلي چاتي ہے۔
مہندر نے اکثر يہي ہوتے ديکھا اور ايک تجسس اس کے دل ميں جڑ پکڑتا گيا، پھر ايک دن برابر فليٹ ميں رہنے والے پنجابي نوجوان نے بتايا کہ گجراتي کي بيوي طوائف ہے، اور گجراتي؟ وہ اس کا شوہر اور اپني بيوي کا ايجنٹ بھي، مہندر کو يکلخت يقين نہيں آيا، پھر اسسے يقين آگيا پھر غصہ آيا پھر رحم آيا۔
اس شخص کي وہ غيرت کہاں گئي، جو اس نے اپنے بزرگوں سے پائي تھي، وہ حيمت کہاں گئي عزت وہ احساس کا جہنم ميں جھلس گيا، جو انسان بنائے رکھتا، ايک دلال، ايک بھکاري، ايک فقير بننے سے بچانا ہے، وہ کون سي منحوس ضرورت تھي جس نے سب کچھ نوچ ليا اور ذلت بھر دي مہندر نے سوچا ايک بھيانک حقيقت اس کے دل ميں اجاگر ہونے لگي، بھوک، بھوک ارگجراتن کا بے رونق چہرہ اس کے سامنے آگيا تھا يہ فرشي منزل کا پہلا فليٹ ہے، اس ميں ايک گجراتي رہتا ہے اور اس کي بيوي ان کے ايک بچہ ہے، گجراتي کے فليٹ کا دروازہ ہميشہ بند رہتا ہے، يہ فليٹ مالک مکان نے اپنے لئيے رکھا ہوا ہے، وہ صرف ہفتے کي شام کو آتا ہے، اس کے ساتھ عورت ہوتي ہے، يہ عورت ہميشہ نئي ہوتي ہے، ليکن اس کي مسکراہٹ اس کے انداز اس کي روح ہميشہ ايک ہوتي ہے، عورت مالک مکان کے ساتھ اندر چلي جاتي ہے، مالک مکان کي کار اگلي شام تک باہر کھڑي رہتي ہے اس کار کر کھڑا ديکھ کر مہندر کے دل ميں بغاوت اور تشدد کا ايک شديد جذبہ اٹھتا ہے اور وہ بالکني سے ہٹ کر کمرے کے اندر چلا جاتا ہے۔
دوسري منزل پر پہنچنے سے پہلے ايک کتا بھونکتا ہے، اس کتے کو دوئمي خارش ہے، اس کي آنکھوں ميں ہميشہ کيچڑ بھري رہتي ہے آنے جانے والے پر وہ اس طرح بھنکتا ہے جيسے وہ اس کي تنہائي ميں مخل ہوا ہو، مہندر نے اس کتے کو دوسري منزل سے ہٹ کر کہيں اور نہيں ديکھا يہ کتا بھونکنے کے علاوہ کچھ نہيں کرتا،چند بار بھونکنے کے بعد خود ہي سرنگوں ہو کر بيٹھ جاتا ہے، اسے ديکھ کے اکثر ايک ہمدري سي ہوتي ہے، يہ کتا دوسري منزل کے اس عيسائي خاندان کا ہے مہندرا کو اکثر خيال آتا ہے کہ يہ لوگ عيسائي نہيں پارسي ہيں، ليکن اسے کبھي کبھي يہ پوچھنے کا موقع نہيں ملا، شوہر بہت جلد اپمنے کام پر چلا جاتا ہے اور بہت دير سے واپس آتا ہے، دو تين مرتبہ کے علاوہ مہندر نے شاذ ہي اسے ديکھا ہو گا، ليکن اس کي وہ چند تصويريں ذہن پر مر قسم ہوگئ، ايک بار مہندر نے ديکھا تھا وہ عيسائي سيڑھيوں پر کھڑا خارش زدہ کتے کو پيار کر رہا تھا، اس کي آنکھوں ميں اس وقت غمکساري ، ہمدردي کا ايسا جذبہ تھا، کہ مہندر نے آج تک اسے بھول نہ سکا، مہندر کو ديکھ کر اس نے صرف ايک بار اپني آنکھيں اٹھائيں اور پھر کتےکو پيار کرنے لگا وہ ايک نظر آج تک مہندر کے سينے ميں محفوظ ہے جيسے وہ تمام دکھ تمام غم دل ميں لئيے ہو۔
عيسائي کے کوٹ اور پتلون کو ديکھ کر ہمشيہ ايک مفلس کا احساس ہوتا تھا، اڑے ہوئے رنگ کي ايک سياہ ٹائي ہميشہ اس کے بشاشت سے محروم چہرے کو بے جان بنائے رکھتي ہے، عيسائي کے کئي بچے ہيں ليکن نجانے وہ کس طرح رہتے ہيں، کہ گھر کےاندر سے کوئي آواز نہيں آتي، عيسائي ہميشہ ٹخنوں تک نيچا ايک فراک پہنچتا ہے اس کي جلد سفيد ہے ليکن جسم پر گشت نام کو نہيں ہے، اس وقت کوئي پاس سے نہ گزرے تو وہ اپني بڑي بڑي آنکھيں جو اس کے بے گوشت چہرے پر اور بھي بڑي معلوم ہوتي ہيں، اٹھا کر ديکھتي ہے بے مقصد، بے معني نگاہ اکثر اسکي گود ميں ہوتا ہے، يا اس کا سايہ پکڑے پاس کھڑا ہوتا ہے، سبزي والے کي جانے کے دوازہ پھر بند ہوجاتا ہے، اکثر ايسا بھي ہوتا ہے، مہندر کے زينے پر چڑھنے کي آواز سے کر اچانک دروازہ اور اسے ديکھ کر پھر بند ہوجاتا ہے، اس وقت مہندر کو احساس ہوتا ہے جيسے يہ لوگ کسي کا انتظار کر رہے ہيں، کسي ايسے شخص کي جو آکر اسے نجات دلائےگا، انکےمقابل کے فليٹ ميں ايک مدراسن رہتي ہے مہندر اس اور کے
دوستوں ميں سے جو آخر ميں باہر جاتا ہے، وہ فليٹ کي چابي مدراس کو دے جاتا ہے، مدراس ايک بيوہ ہے اور اپني تين جوان لڑکيوں بيٹے اور داماد کے ساتھ رہتي ہے، اکثر زينے پر چڑھتے ہوئے يا اترتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ مدراسن کے گھر ميں لڑائي ہو رہي ہے، ليکن جيسے وہ کسي آنے کي آواز سن کر خاموش ہوجاتےہيں پچھلے مہينے سے مدارس کا بيٹا پاگل ہوگيا ہے، وہ اب اکثر کھڑکي کي سلاخيں پکڑے کھڑا رہتا ہے۔۔۔۔بے حس بے حرکت اور خلا ميں اس طرح تکتا رہتا ہے اس جيسے اسکي نظريں جامد ہوگئيں ہوں، اس ديکھ کر اکثر دل پھر سے ايک موہوم سے ڈر کا سايہ گزرجاتا ہے، مدارس نے کنواري جوان لڑکي کو بھي ديکھ کر ايک عجيب سا احساس ہوتا ہے، اس کي بڑي بڑي آنکھوں ميں ہميشہ ايک ايسا جذبہ ہوتا ہے يا وہ اپنے آپ آپ کو وجہ سے کمتر خيال کرتي ہے، اس سے زيادہ خاموش لڑکي آشيانے کے دوستوں نے کبھي نہيں ديکھي، اس سے عشق کرنےکا خيال ہي نہيں آتا، معلوم ہوتا ہے گويا اس سے عشق کرنا اسے سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہے، آشيانے کا کوئي دوست اسے نظريں بھر کر نہيں ديکھتا مہندر ہري ، رندھير، گورکھ وغيرہ سب اوشا کو پھنسانے پر تلے ہوئے ہيں، اوشامد مدارس کي تيسري لڑکي ہے اور وہ مدارس ميں اپنے خاوند کو چھوڑ کر چلي آئي، اوشاکا کا شوہر شرابي ہے، وہ خود شراب پيتاہے اور اسے مارتا ہے اوشاکا اس کے پاس رہنا نہيں چاہتي اسکو اوشاکا سے سخت ہمدري ہے، آخر يہ کہاں کي انسانيت ہے اک دن مہندر سب کے سامنے کہہ رہا تھا کہ ايک عورت اپني جواني کو يوں اجاڑدينے پر مجبور کردي جائے اس دن مدراسن کي نگہداشت سے خصوصا بيزار تھا، مدارس اوشاکا کي ايک ايک حرکت پر نظررکھتي ہے، اسے ايک لمحہ گھر سے باہر اکيلا نہيں رہنے ديتي چابي تک لينے خود آتي اسے اپني اور بيٹي کي آبرو کا ڈر ہے، مہندر کہتا ہے عورت اس وقت تک دکھ اٹھاتي رہے گي جب تک اقتصادي طور پر سے آزاد نہ ہوجائے گي ليکن اوشاکا اقتصادي طور سے آزاد نہيں ہے وہ اپنے شوہر کے پاس اس سے پٹتي تھي اور اس سے بچنے کيلئے يہاں چلي آئي ہے، مہندر اور دوست کہتے ہيں اس کي زندگي تباہ ہو رہي ہے، اوشاکا کي آنکھوں ميں صرف ايک مايوسي کي لکير ہے۔
يہ مايوسي کي لکير پريتي کي آنکھوں ميں نہ تھي، اس کي آنکھوں ميں ايک چمک تھي، ايک خود اعتمادي جيسے وہ خود کو کسي کا دوست نگر نہ سمجھتي ہو، جيسے يہ احساس اس کي روح کو کچلنے کو موجود مہندر نے سوچا پريتي کي آنکھوں ميں مايويسي کي لکيريں دور نہ ہوئي ابھي پريتي کي آنکھوں ميں چمک ہے،اہر آج وہ آج آشيانے ميں آجاتي تو وہ دوبارہ بات کرنا گوارہ نہ کرتي مگر آج وہ آشيانے ميں نہيں، کل وہ اسے جو ہو سر کل پر ملے گي، جب تک پريتي کو يہ معلوم نہ ہوگا کہ وہ قلاش ہے، يہ دوستي قائم رہے گي مہندر اس دوستي کو قائم رکھنا چاہتا تھا ليکن اچانک اسے خيال آيا کہ اس کي جيب ميں کل پريتي پر خرچ کرنے کيلئے روپيہ نہيں ہے وہ اس بات کو بھول گيا تھا حالانکہ يہ کانٹا شام اس کي روح ميں کھکتا رہا، سير کے دوران ميں ہر مرتبہ کھنہ نے خود ہي بل اداکيا تھا اور ہر بار مہندر نے شرم ساري محسوس کي تھي۔
ہر بستر پر بيٹھا رہا، اب وہ کل کي بات بھول کر آج کي بات سوچ رہا تھا اس کي جيب ميں روپيہ نہيں ہے، کل رندھيرے نے کہا تھا کہ اسے کہيں سے روپيہ ملنےکي اميد ہے اور اس اميد ميں کہ رندھيروں اس سے لئے ہوئے روپے ادا کرے گا، اس نے چند دوستوں کے ساتھ اپني جيب شراب خانے ميں خالي کر دي، اب وہ مفلس تھا اور رندھير رات کو گھر نہيں آيا تھا، اسے رندھير پر غصہ آيا اور اپنے اوپر کہ اس سے وقت کيا ہوگيا تھا، جب اس نے اپنا سرمايہ بانٹ ديا تھا، اسے اس وقت کيا ہو جاتا ہے، يہ اس کي سمجھ ميں نہيں آتا۔