حسان خان
لائبریرین
آصف الدولۂ مرحوم کی تعمیرِ کہن
جس کی صنعت کا نہیں صفحۂ ہستی پہ جواب
دیکھ سیاح اسے رات کے سناٹے میں
منہ سے اپنے مہِ کامل نے جب الٹی ہو نقاب
در و دیوار نظر آتے ہیں کیا صاف و سبک
سحر کرتی ہے نگاہوں پہ ضیائے ماہتاب
یہی ہوتا ہے گماں خاک سے مس اس کو نہیں
ہے سنبھالے ہوئے دامن میں ہوائے شاداب
یک بہ یک دیدۂ حیراں کو یہ شک ہوتا ہے
ڈھل کے سانچے میں زمیں پر اتر آیا ہے سحاب
بے خودی کہتی ہے آیا یہ فضا میں کیوں کر
کسی استاد مصور کا ہے یہ جلوۂ خواب
اک عجب منظرِ دلگیر نظر آتا ہے
دور سے عالمِ تصویر نظر آتا ہے
شوکت و شان عمارت کی خبر دیتا ہے
پردۂ شب کے سرکنے پہ سحر کا آغاز
وہ سپیدی سحرِ نور کی ہلکی ہلکی
آشیاں چھوڑ کے جب کرتے ہیں طائر پرواز
ایسے عالم میں وہ کہرے سے ابھرنا اُس کا
جیسے موجوں کے تلاطم سے نمایاں ہو جہاز
ہوتے ہیں گنبدِ مینار فضا میں ظاہر
بڑھ کے ہوتی ہیں زیارت سے نگاہیں ممتاز
جگمگاتا ہے شعاعوں میں یہ ایوانِ بلند
جس کی صنعت کا ہے دنیا میں نرالا انداز
پارۂ چوب کے احساں کی ضرورت نہ رہی
خاک اور خشت نے مل کر یہ دکھایا اعجاز
اس کی تعمیر کو آئے نہیں معمارِ فرنگ
ہے یہ تہذیبِ اودھ کے لیے سرمایۂ ناز
بچ گیا خاک کے پردے پہ یہ مٹی کا طلسم
گو زمانے کی ہوا اس کے لیے تھی ناساز
اس کے سائے میں گرا تاجِ حکومت سر سے
اس نے دیکھا یہ زمانے کا نشیب اور فراز
مل گئے خاک میں سب اس کے بسانے والے
کچھ شجر ہائے کہن اب ہیں پرانے دمساز
کیا سرِ شام اداسی کا سماں رہتا ہے
در و دیوار سے کر جاتی ہے رونق پرواز
دھوپ اترتی ہوئی آنکھوں کو یہ دکھلاتی ہے
دلِ مجروح کا ہر خشت میں ہے سوز و گداز
جس کے فیضانِ حکومت کا کرشمہ ہے یہ
اس کے سائے میں ہے سویا ہوا وہ خلق نواز
اُس کی ہمت کی بلندی ہے بلندی اِس کی
اُس کے اخلاق کے وسعت کا ہے اس میں انداز
جب زیارت میں محرّم کو بشر آتے ہیں
چاندنی رات میں آتی ہے فلک سے آواز
"بے ادب پا منہ اینجا کہ عجب درگاہ است
سجدہ گاہِ مَلک و روضۂ شاہنشاہ است"
(پنڈت برج نرائن چکبست)