فہیم ملک جوگی
محفلین
اردو کتنی تونگر ہے - شورش کاشمیری کی کتاب “ فن خطابت “ سے۔ ۔ ۔ ۔
جانوروں کے بچہ کو ہم بچہ ہی کہتے ہیں ، سانپ کا بچہ ، الو کا بچہ ، بلی کا بچہ ؛ لیکن اردو میں ان کے لیے جدا جدا لفظ ہیں ۔ مثلاً : ۔
بکری کا بچہ : میمنا ۔
بھیڑ کا بچہ : برّہ۔
ہاتھی کا بچہ : پاٹھا۔
الوّ کا بچہ : پٹھا۔
بلی کا بچہ : بلونگڑہ۔
بچھڑا : گھوڑی کا بچہ۔
کٹڑا : بھینس کا بچہ۔
چوزا : مرغی کا بچہ۔
برنوٹا : ہرن کا بچہ۔
سنپولا : سانپ کا بچہ۔
گھٹیا : سور کا بچہ۔
اسی طرح بعض جانداروں اور غیر جانداروں کی بھیڑ کے لیے خاص الفاظ مقرر ہیں ۔جو اسم جمع کی حیثیت رکھتے ہیں ؛ مثلاً : طلباء کی جماعت ، رندوں کا حلقہ ، بھیڑوں کا گلہ ، بکریوں کا ریوڑ ، گووں کا چونا ، مکھیوں کا جھلڑ ، تاروں کا جھڑمٹ یا جھومڑ ، آدمیون کی بھیڑ ، جہازوں کا بیڑا ، ہاتھیوں کی ڈار، کبوتروں کی ٹکڑی، بانسوں کا جنگل ، درختوں کا جھنڈ ، اناروں کا کنج ، بدمعاشوں کی ٹولی ، سواروں کا دستہ ، انگور کا گچھا، ٹڈی دل ، کیلوں کی گہل ، ریشم کا لچھا ، مزدوروں کا جتھا ،فوج کا پرّا ، روٹیوں کی ٹھپی، لکڑیوں کا گٹھا ، کاغذوں کی گڈی ، خطوں کا طومار، بالوں کا گُچھا، پانوں کی ڈھولی ، کلا بتوں کی کنجی ۔
اردو کی عظمت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ہر جانور کی صوت کے لیے علیحدہ لفظ ہے ، مثلا :
شیر دھارتا ہے ، ہاتھی چنگھارتا ہے ، گھوڑا ہنہناتا ہے ، گدھا ہیچوں ہیچوں کرتا ہے ، کتا بھونکتا ہے ، بلی میاؤں کرتی ہے، گائے رانبھتی ہے ، سانڈ ڈکارتا ہے ، بکری ممیاتی ہے ، کوئل کوکتی ہے ، چڑیا چوں چوں کرتی ہے ، کوا کائیں کائیں کرتا ہے ، کبوتر غٹر غوں کرتا ہے ، مکھی بھنبھناتی ہے ، مرغی کرکڑاتی ہے، الو ہوکتا ہے ، مور چنگھارتا ہے ، طوطا رٹ لگاتا ہے ، مرغا ککڑوں ککڑوں کوں کرتا ہے ، پرندے چرچراتے ہیں ، اونٹ بغبغاتا ہے، سانپ پھونکارتا ہے ، گلہری چٹ چٹاتی ہے ، مینڈک تراتا ہے ، جھینگر جھنگارتا ہے ، بند گھگھیاتا ہے ،
کئی چیزوں کی آوازوں کے لیے مختلف الفاظ ہیں مثلا
بادل کی گرج
بجلی کی کڑک ، ہوا کی سنسناہٹ ، توپ کی دنادن ، صراحی کی گٹ گٹ ،گھوڑے کی ٹاپ ، روپوں کی کھنک ، ریل کی گھڑ گھڑ ، گویوں کی تا تا ری ری ،طبلے کی تھاپ ، طنبورے کی آس، گیند کی گونج ، گھڑیال کی ٹن ٹن ، چھکڑے کی چوں، اور چکی کی گھُمر۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ان اشیاء کی خصوصیت کے لیے ان الفاظ پر غور کیجیے :
موتی کی آب ، کندن کی دمک، ہیرے کی ڈلک ، چاندنی کی چمک ، گھنگھرو کی چھُن چھُن ،دھوپ کا تڑاقا ۔ بو کی بھبک ،عطر کی لپٹ ،پھول کی مہک ۔ ۔ ۔ ۔
مسکن کے متعلق مختلف الفاظ۔
جیسے بارات کا محل ،بیگموں کا حرم ، رانیوں کا انواس، پولیس کی بارک ، رشی کا آشرم ، صوفی کا حجرہ ،فقیہ کا تکیہ یا کٹیا ،بھلے مانس کا گھر ، غریب کا جھونپڑا ، بھڑوں کا چھتا ، لومڑی ک بھٹ ،پرندوں کا گھونسلہ ، چوہے کا بل ،سانپ کی بانبی ،فوج کی چھاونی ،مویشی کا کھڑک ، گھوڑے کا تھان ۔ ۔ ۔ ۔
جانوروں کے بچہ کو ہم بچہ ہی کہتے ہیں ، سانپ کا بچہ ، الو کا بچہ ، بلی کا بچہ ؛ لیکن اردو میں ان کے لیے جدا جدا لفظ ہیں ۔ مثلاً : ۔
بکری کا بچہ : میمنا ۔
بھیڑ کا بچہ : برّہ۔
ہاتھی کا بچہ : پاٹھا۔
الوّ کا بچہ : پٹھا۔
بلی کا بچہ : بلونگڑہ۔
بچھڑا : گھوڑی کا بچہ۔
کٹڑا : بھینس کا بچہ۔
چوزا : مرغی کا بچہ۔
برنوٹا : ہرن کا بچہ۔
سنپولا : سانپ کا بچہ۔
گھٹیا : سور کا بچہ۔
اسی طرح بعض جانداروں اور غیر جانداروں کی بھیڑ کے لیے خاص الفاظ مقرر ہیں ۔جو اسم جمع کی حیثیت رکھتے ہیں ؛ مثلاً : طلباء کی جماعت ، رندوں کا حلقہ ، بھیڑوں کا گلہ ، بکریوں کا ریوڑ ، گووں کا چونا ، مکھیوں کا جھلڑ ، تاروں کا جھڑمٹ یا جھومڑ ، آدمیون کی بھیڑ ، جہازوں کا بیڑا ، ہاتھیوں کی ڈار، کبوتروں کی ٹکڑی، بانسوں کا جنگل ، درختوں کا جھنڈ ، اناروں کا کنج ، بدمعاشوں کی ٹولی ، سواروں کا دستہ ، انگور کا گچھا، ٹڈی دل ، کیلوں کی گہل ، ریشم کا لچھا ، مزدوروں کا جتھا ،فوج کا پرّا ، روٹیوں کی ٹھپی، لکڑیوں کا گٹھا ، کاغذوں کی گڈی ، خطوں کا طومار، بالوں کا گُچھا، پانوں کی ڈھولی ، کلا بتوں کی کنجی ۔
اردو کی عظمت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ہر جانور کی صوت کے لیے علیحدہ لفظ ہے ، مثلا :
شیر دھارتا ہے ، ہاتھی چنگھارتا ہے ، گھوڑا ہنہناتا ہے ، گدھا ہیچوں ہیچوں کرتا ہے ، کتا بھونکتا ہے ، بلی میاؤں کرتی ہے، گائے رانبھتی ہے ، سانڈ ڈکارتا ہے ، بکری ممیاتی ہے ، کوئل کوکتی ہے ، چڑیا چوں چوں کرتی ہے ، کوا کائیں کائیں کرتا ہے ، کبوتر غٹر غوں کرتا ہے ، مکھی بھنبھناتی ہے ، مرغی کرکڑاتی ہے، الو ہوکتا ہے ، مور چنگھارتا ہے ، طوطا رٹ لگاتا ہے ، مرغا ککڑوں ککڑوں کوں کرتا ہے ، پرندے چرچراتے ہیں ، اونٹ بغبغاتا ہے، سانپ پھونکارتا ہے ، گلہری چٹ چٹاتی ہے ، مینڈک تراتا ہے ، جھینگر جھنگارتا ہے ، بند گھگھیاتا ہے ،
کئی چیزوں کی آوازوں کے لیے مختلف الفاظ ہیں مثلا
بادل کی گرج
بجلی کی کڑک ، ہوا کی سنسناہٹ ، توپ کی دنادن ، صراحی کی گٹ گٹ ،گھوڑے کی ٹاپ ، روپوں کی کھنک ، ریل کی گھڑ گھڑ ، گویوں کی تا تا ری ری ،طبلے کی تھاپ ، طنبورے کی آس، گیند کی گونج ، گھڑیال کی ٹن ٹن ، چھکڑے کی چوں، اور چکی کی گھُمر۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ان اشیاء کی خصوصیت کے لیے ان الفاظ پر غور کیجیے :
موتی کی آب ، کندن کی دمک، ہیرے کی ڈلک ، چاندنی کی چمک ، گھنگھرو کی چھُن چھُن ،دھوپ کا تڑاقا ۔ بو کی بھبک ،عطر کی لپٹ ،پھول کی مہک ۔ ۔ ۔ ۔
مسکن کے متعلق مختلف الفاظ۔
جیسے بارات کا محل ،بیگموں کا حرم ، رانیوں کا انواس، پولیس کی بارک ، رشی کا آشرم ، صوفی کا حجرہ ،فقیہ کا تکیہ یا کٹیا ،بھلے مانس کا گھر ، غریب کا جھونپڑا ، بھڑوں کا چھتا ، لومڑی ک بھٹ ،پرندوں کا گھونسلہ ، چوہے کا بل ،سانپ کی بانبی ،فوج کی چھاونی ،مویشی کا کھڑک ، گھوڑے کا تھان ۔ ۔ ۔ ۔