احمد ابراہیم
محفلین
محفل میں بار بار کسی پر نظر گئی
ہم نے بچائی لاکھ مگر پھر اُدھر گئی
ان کی نظر میں کوئی تو جادوضرور ہے
جس پر پڑی اُسی کے جگر تک اُتر گئی
اس بے وفا کی آنکھ سے آنسو چھلک پڑے
حسرت بھری نِگاہ بڑا کام کر گئی
ان کے جمالِ رُخ پہ انہیں کا جمال تھا
وہ چل دیے تو رونقِ شام و سَحَر گئی
ان کو خبر کرو کہ ہے بسمل قریبِ مرگ
وہ آئیں گے ضرور جو ان تک خبر گئی
آغا بسمل
ہم نے بچائی لاکھ مگر پھر اُدھر گئی
ان کی نظر میں کوئی تو جادوضرور ہے
جس پر پڑی اُسی کے جگر تک اُتر گئی
اس بے وفا کی آنکھ سے آنسو چھلک پڑے
حسرت بھری نِگاہ بڑا کام کر گئی
ان کے جمالِ رُخ پہ انہیں کا جمال تھا
وہ چل دیے تو رونقِ شام و سَحَر گئی
ان کو خبر کرو کہ ہے بسمل قریبِ مرگ
وہ آئیں گے ضرور جو ان تک خبر گئی
آغا بسمل